الف نظامی
لائبریرین
یہ کلمات قائد نے کہے ہوں گے ۔ مذہبی توضیح و تاویل کا یہاں کیا محل اور مجھ سے اس کا کیا تعلق؟بھائی، آپ صرف اتنا بتائیے کہ آپ جناح کے اتاترک کی مداحی میں کہے کلمات کی کیا مذہبی توضیح و تاویل کریں گے؟
یہ کلمات قائد نے کہے ہوں گے ۔ مذہبی توضیح و تاویل کا یہاں کیا محل اور مجھ سے اس کا کیا تعلق؟بھائی، آپ صرف اتنا بتائیے کہ آپ جناح کے اتاترک کی مداحی میں کہے کلمات کی کیا مذہبی توضیح و تاویل کریں گے؟
یہ کلمات قائد نے کہے ہوں گے ۔
قائد نے یہ کلمات کہے ہیں!کہے ہوں گے نہیں، کہے ہیں۔
اب بتائیے کیا اگر ہم قائدِ کے قول کی پیروی کرتے ہوئے اتاترک کو اپنا مشعلِ راہ بنائیں تو کچھ غلط کریں گے؟
قائد نے یہ کلمات کہے ہیں!
لیکن ہم مشعلِ راہ اس کو بنائیں گے جس کی وجہ سے محمد علی جناح ، قائد اعظم ہے۔
فروری 1948 ء کو قائد اعظم نے بلوچستان میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا :-
" میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہ ء عمل میں ہے جو ہمارے عظیم واضع قانون پیغمبر اسلام نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اخلاقی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو۔"
کہے ہوں گے نہیں، کہے ہیں۔
اب بتائیے کیا اگر ہم قائدِ کے قول کی پیروی کرتے ہوئے اتاترک کو اپنا مشعلِ راہ بنائیں تو کچھ غلط کریں گے؟
آپ اپنی رائے قائم کرنے میں آزاد ہیں ۔لکم دینکم ولی دین
یہ قرآن کی آیت ہے ، اس کو آپ مذاق کیوں سمجھ رہے ہیں ؟؟لکم دینکم ولی دین
مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ آخر آپ محترم الف نظامی صاحب کے بتائے ہوئے حوالے کو ملاحظہ کرنے کی زحمت کیوں نہیں کر رہے !
اور حقیقت یہ ہے کہ آپ آئیں بائیں شائیں کر رہے ہیں اور آپ سے کوئی جواب نہیں بن پا رہا۔
قائد نے جہاں قرآن کریم کو تقسیم ہند سے پہلے اور بعد میں بھی مشعل راہ اور کافی سمجھا اور کہا ہے تو کیا ہم ان کی اس بات کو مشعلِ راہ بنائیں گے تو کچھ غلط کریں گے ؟؟؟
آپ کے اقتباس سے ہمیں اتفاق ہے کہ بحث مقصود ہی نہیں لیکن اس اقتباس سے جو نتیجہ آپ اخذ کر رہے ہیں اُس سے ہمیں اختلاف ہے۔آئیں بائیں شائیں میری جانب سے نہیں، دوسری جانب سے ہو رہی ہے۔ دوسری جانب بجائے اس کے کہ میرے پیش کردہ اقتباس کو موردِ بحث کرے، اِدھر اَدھر کی باتیں کر رہی ہے۔
آپ کے اقتباس سے ہمیں اتفاق ہے ، لیکن جو نتیجہ آپ اخذ کر رہے ہیں اُس سے اختلاف۔
اکبر نے مذہبی اقلیتوں کے ساتھ حُسن سلوک اس حد تک کیا کہ اس زمانہ کا مذہب اسلام ترک کردیا اور مختلف مذاہب کی تعلیمات کو یکجا کرکے ایک دین یعنی دین الٰہی ایجاد کر لیا:1947 ء کو انتقالِ اقتدار کے موقع پر جب حکومت برطانیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں کہا کہ :
" میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوگا اور ویسے ہی اصول پیش نظر رکھے جائیں گے جن کی مثالیں اکبر اعظم کے دور میں ملتی ہیں "
ہمارا نتیجہ یہ ہے کہ:آپ کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں اُس سے آگاہ کر دیجیے۔
یہ ذہن میں رکھیے گا کہ اتاترک اور قرآن و سنت پر مبنی کسی اسلامی نظام میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
1947 ء کو انتقالِ اقتدار کے موقع پر جب حکومت برطانیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں کہا کہ :اکبر نے مذہبی اقلیتوں کے ساتھ حُسن سلوک اس حد تک کیا کہ اس زمانہ کا مذہب اسلام ترک کردیا اور مختلف مذاہب کی تعلیمات کو یکجا کرکے ایک دین یعنی دین الٰہی ایجاد کر لیا:
http://en.wikipedia.org/wiki/Din-e_Ilahi
اب آپ قائد اعظم پر الزام لگائیں گے کہ وہ مغل شہنشاہ اکبر کے دین الٰہی کے حامی تھے؟
ہمارا نتیجہ یہ ہے کہ:
- ساڈا اکو ناز محمدﷺ ، جیہڑا محرم ساڈیاں حالاں۔
- ہمیں صرف محمدِ عربی ﷺپر ناز ہے جو ہمارے حال کے محرم راز ہیں۔
- کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں۔
- بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست!
آئیں بائیں شائیں میری جانب سے نہیں، دوسری جانب سے ہو رہی ہے۔ دوسری جانب بجائے اس کے کہ میرے پیش کردہ اقتباس کو موردِ بحث کرے، اِدھر اَدھر کی باتیں کر رہی ہے۔
پاکستانی مسلمان 13 صدیوں کی روایت پر عمل کرتے ہوئے اپنی اقلیتوں کیساتھ کیسا اسلوک رواں رکھتے ہیں، اسکی تفصیلات یہاں درج ہیں:1947 ء کو انتقالِ اقتدار کے موقع پر جب حکومت برطانیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں کہا کہ :
" میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوگا اور ویسے ہی اصول پیش نظر رکھے جائیں گے جن کی مثالیں اکبر اعظم کے دور میں ملتی ہیں "
تو اس پر قائد اعظم نے برجستہ فرمایا :
" وہ رواداری اور خیر سگالی جو شہنشاہ اکبر نے غیر مسلموں کے حق میں برتی کوئی نئی بات نہیں۔ یہ تو مسلمانوں کی تیرہ صدی قبل کی روایت ہے۔ جب پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہودیوں اور عیسائیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد ان کے ساتھ نہ ّ صرف انصاف بلکہ فیاضی کا برتاو کرتے تھے۔ مسلمانوں کی ساری تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہم پاکستانی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں ہی پاکستان کا نظام چلائیں گے"
1938 میں اتا ترک کی وفات پر قائد نے جو تعزیتی کلمات کہے ہیں اس سے کیا اخذ کیا جاسکتا ہے سوائے یہ کہ ایک تعزیتی بیان ہے اور قائد مسلمانانِ برصغیر کو مملکت پاکستان کے قیام کے حوالے سے انسپریشن کی بات کر رہے ہیں ، رہا جہاں تک مملکت خداداد پاکستان کے نظام کا سوال تو قائد نے کہیں یہ بات نہیں کہی کہ وہ سیکولر مملکت چاہتے ہیں بلکہ یہ بیان دیا :کم سے کم میں تو یہ نتائج اتاترک کی مدح سے اخذ نہیں کر سکا۔
بار بار ایک ہی تاریخی بیان کا حوالہ دینے سے حقائق بدلا نہیں کرتے۔ حضرت محمد صللہعلیہسلم کی تعلیمات کی روشنی میں اگر پاکستان چل رہا ہوتا تو اس ملک کا آج یہ حال ہوتا؟!ہم پاکستانی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں ہی پاکستان کا نظام چلائیں گے"
بار بار وکی پیڈیائی پروپگنڈا کے جواب میں بار بار وہی تاریخی بیان سننے کو ملے گا!بار بار ایک ہی تاریخی بیان کا حوالہ دینے سے حقائق بدلا نہیں کرتے۔ حضرت محمد صللہعلیہسلم کی تعلیمات کی روشنی میں اگر پاکستان چل رہا ہوتا تو اس ملک کا آج یہ حال ہوتا؟!
تاریخی بیان تو بے شک درست ہے لیکن کیا اس بیان کو پاکستان کی تاریخ میں عملی جامہ پہنایا گیا؟ اگر ہاں تو کس طرح؟ اگر نہ تو کیوں نہیں؟بار بار وکی پیڈیائی پروپگنڈا کے جواب میں بار بار وہی تاریخی بیان سننے کو ملے گا!