جناب یہ فرموداتِ قائد ہیں ، زہرا و علی و حسین و حسن کا واسطہ ہے تحقیق تو کیجیے "سپیچز اینڈ رائٹنگز آف جناح" ملاحظہ کر لیں کہ کیا قائد نے یہ فرمایا ہے یا نہیں۔خدا اور رسول کا واسطہ ہے، الف نظامی بھائی۔ بس کیجیے
حکیم صاحب کے یہ اقوال آپ ایک نہیں تین چار بار پیش کر چکے ہیںِ
محمود بھائی، آپ واحد بندے ہیں جس نے یہاں اتاترک کو یکمشت یہودی قرار دینے کے بجائے ایک علمی تجزیہ پیش کیا ہے۔ اس کے لیے میں آپ کا مشکور ہوں۔
باقی میں یہ عرض کروں گا، کہ جناح کا یہ اقتباس اُس وقت کا نہیں ہے جب اتاترک نے ترکوں کو مغربی پنجے سے رہائی دلائی تھی، بلکہ یہ اقتباس اس وقت کا ہے جب اتاترک اپنی تمام سماجی اصلاحات مکمل کر کے اس جہانِ فانی سے رخصت ہو چکا تھا۔ اگر جناح اسے اُس کی وفات کے موقعے پر ہندوستانی مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ کہیں تو یہی اخذ کیا جاتا ہے کہ اتاترک کے بہت سے اقدامات سے جناح متفق ہوں گے۔
دوسری طرف مودودی جیسے لوگوں کا کردار بھی آپ کے سامنے ہی ہے جو اُس وقت اتاترک کو برطانوی ایجنٹ کہتے نہیں تھکتے تھے۔ اس کے مقابلے میں جناح اتاترک کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں۔
اور مودودی صاحب اپنی جگہ صحیح تھے اور قائد اپنی جگہ
نظامی بھائی آپ بھی کیا واسطے دینے شروع ہو گئے ۔۔۔ ان لوگوں نے حسن و حسین کے نانا کو نہیں بخشا۔۔۔ کسی اور کو کیا اہمیت دیں گے۔۔۔!جناب یہ فرموداتِ قائد ہیں ، زہرا و علی و حسین و حسن کا واسطہ ہے تحقیق تو کیجیے "سپیچز اینڈ رائٹنگز آف جناح" ملاحظہ کر لیں کہ کیا قائد نے یہ فرمایا ہے یا نہیں۔
میں نے بھی اتا ترک کی وفات کے سن کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ھی یہ بات کہی تھی کہ ڈاکٹر اقبال چونکہ ایک مفکر تھے اور ایک مسلم امہ کی نشاۃ ثانیہ اور سیاسی وحدت انکا آئیڈئیل تھا، لیکن قائدِ اعظم کو ڈاکٹر اقبال کی طرح مسلم امہ کی سیاسی وحدت کے آئیڈئیل کا کریڈٹ نہیں دیا جاسکتا۔ وہ ایک حقیقت پسند لیڈر تھے اور انہوں نے اقبال کے خطوط پر ہی چلتے ہوئے لیکن ایک محدود فریم ورک میں مسلمانوں کی سیاسی وحدت کا خواب پورا کر دکھایا۔۔۔بس یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر اقبال کا دائرہ بڑا تھا اور پوری امہ کو محیط تھا جبکہ قائد کا دائرہ اتنا بڑا نہیں تھا اور نہ ہی اتاترک کا۔ فرق صرف یہ ہے کہ قائد کا دائرہ پورے کا پورا اقبال کے دائرے کے اندر تھا جبکہ اتا ترک کے دائرے کے کچھ حصے ان دونوں کے دائرے میں کامن تھے اور باقی حصہ ان دونوں کے دائروں سے باہر۔۔۔(معذرت چاہتا ہوں کہ اپنی بات کی تفہیم کے لئے جیومیٹریکل Analogy پیش کرنا پڑی) ۔۔۔باقی میں یہ عرض کروں گا، کہ جناح کا یہ اقتباس اُس وقت کا نہیں ہے جب اتاترک نے ترکوں کو مغربی پنجے سے رہائی دلائی تھی، بلکہ یہ اقتباس اس وقت کا ہے جب اتاترک اپنی تمام سماجی اصلاحات مکمل کر کے اس جہانِ فانی سے رخصت ہو چکا تھا۔ اگر جناح اسے ہندوستانی مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ کہے تو یہی اخذ کیا جاتا ہے کہ اتاترک کے بہت سے اقدامات سے جناح متفق ہوں گے۔
دوسری طرف مودودی جیسے لوگوں کا کردار بھی آپ کے سامنے ہی ہے جو اُس وقت اتاترک کو برطانوی ایجنٹ کہتے نہیں تھکتے تھے۔ اس کے مقابلے میں جناح اتاترک کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں۔
ایک گھاس کو سبز کہہ رہا ہے اور ایک نیلا، اور آپ دونوں کو صحیح کہہ رہے ہیں؟ کیا ان دونوں جملوں میں آپ کو ٹکراؤ نظر نہیں آتا؟
مودودی: اتاترک برطانوی ایجنٹ تھا۔
جناح: ہندوستانی مسلمان اتاترک کو اپنا مشعلِ راہ بنا کر خود کو پسماندگی سے رہائی دے سکتے ہیںِ۔
آپ کمال اتاترک کے اقدامات کو دیکھ لیں پھر آپ کو
پتا چل جائے گا کہ دونوں صحیح تھے اپنی اپنی جگہ
حسان خان بھائیکہ قائد کا دائرہ پورے کا پورا اقبال کے دائرے کے اندر تھا جبکہ اتا ترک کے دائرے کے کچھ حصے ان دونوں کے دائرے میں کامن تھے اور باقی حصہ ان دونوں کے دائروں سے باہر۔۔۔ (معذرت چاہتا ہوں کہ اپنی بات کی تفہیم کے لئے جیومیٹریکل Analogy پیش کرنا پڑی) ۔۔۔
حسان خان بھائی
محمود غزنوی سر جی نے جو جیومیٹریکل انالوجی پیش کی ہے میرا خیال ہے اس سے اچھی وضاحت کوئی نہیں ہو سکتی
اتاترک کے دائرے کے جو حصے ان دونوں عظیم ہستیوں کے دائرے میں تھے ان کے قائد حامی تھے
اور جو دائرے سے باہر تھے ان کے مودودی صاحب مخالف تھے
بہت اچھی بات ہےمجھے کیا دیکھنا ہے جی، میری کیا بساط؟ مجھے بس اپنے قائدِ اعظم کی فراست پر بھروسا ہے، کم سے کم میں اُن کے کہے ہوئے کو مودودی کے کہے ہوئے پر مقدم جانوں گا۔
محترم اس طرح دھاگے کا رخ مکمل طور پر بدل جائے گااب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اِس دائرے کا کونسا حصہ تھا جس کے جناح حامی تھے اور کونسا حصہ تھا جس کے وہ مخالف؟ قائد کے اقتباس سے تو ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی۔ مثال کے طور پر پردے جیسی روایت پر پابندی کی بات (جس کی مودودی صاحب مخالفت کرتے تھے) کیا دائرے سے باہر کی بات ہے؟ اگر ایسا ہے تو قائد کے گھرانے کی عورتیں بھی بہت پہلے سے پردے کو ترک کر چکی تھیں، اور ان کی بیٹی بھی اپنے والد کے ساتھ ہمیشہ مغربی لباس میں ہی ملبوس نظر آتی ہیں۔
باقی، مودودی جیسوں کی مخالفت سے محمد علی جناح اور اتاترک کی عظمت پر کوئی حرف نہیں آتا، ایسے لوگ شوق سے کافرِ اعظم اور برطانوی ایجنٹ کہتے رہیں۔
بہت خوب جناب"اتاترک کے دور تک یورپی ادب کے زیرِ اثرعثمانی ترکی جدید اردو کی طرح فطری ہو چکی تھی اور اس میں مصنوعیت ختم ہو چکی تھی۔ مگر قوم پرست اتاترک کے نزدیک چونکہ عثمانی خط اور عثمانی زبان ان عربوں کی یادگار تھی جو جنگ عظیم اول میں عثمانیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ چکے تھے، اس لیے اس نے جدیدیت کے نام پر یکلخت رسم الخط تبدیل کر دیا، اور اپنی زبان میں مفرس اور معرب سے چھٹکارا پانے کا ارشاد سنا دیا۔ اور اس کے نتیجے میں ایک نئی ترکی زبان کی ایجاد کا کام شروع ہوا جو 1960 کے عشرے تک شدت سے جاری رہا۔ ہر بیرونی لفظ چن چن کر باہر نکالا گیا اور ان کی جگہ نئے نامانوس اور خود ساختہ الفاظ ٹھونسے گئے۔ اس لسانی اصلاحات کے نتیجے میں ترکوں کا اپنی ہی تاریخ سے تسلسل یکسر ختم ہوگیا۔ وہ اپنا ہی ادب اور تاریخ پڑھنے سے قاصر ہیں۔ 1960 کے پہلے تک کا جتنا ادب بھی شائع ہوتا ہے وہ نئی ترکی میں 'ترجمہ' ہو کر شائع ہوتا ہے۔
مزے کی بات ہے، اتاترک خود ساری زندگی اسی خط میں اور اسی عثمانی ترکی میں لکھتا اور تقریر کرتا رہا۔ وہ عثمانی میں لکھ کر پریس کو دے دیتا، پریس والا مترجم اس میں سے سارے عربی-فارسی الفاظ نکال کر نئے الفاظ ٹھونستا تھا اور اخبار میں شائع کرتا تھا۔ کافی عرصے تک تو ترک بیچارے اخبار کی جعلی زبان سمجھنے سے ہی قاصر رہے، پھر آہستہ آہستہ تدریس کے ذریعے یہ جدید ترکی ملک میں رائج ہو گئی۔ اتاترک کی ساری تقریریں اور تحریریں بھی اب ترجمہ ہو کر شائع ہوتی ہیں۔ اتاترک کی شاید یہی خود بیزاری تھی جس کے باعث میں کبھی اس کے لیے مثبت خیالات نہیں پیدا کر پایا ہوں۔ ایک جیتی جاگتی خوبصورت ترین زبان کو جدیدیت اور قوم پرستی کے نام پر اُس نے برہنہ کر دیا۔ یعنی کل تک جس میں ساٹھ فیصد عربی-فارسی کے الفاظ تھے آج اس میں صرف پانج دس فیصد ہی ایسے الفاظ رہ گئے ہیں۔ خدائے بزرگوار کا صد ہزار بار شکر کہ کسی نادان نے اردو کو چہرہ یوں بگاڑنے کی کوشش نہیں کی۔۔۔ “
معافی چاہتا ہوں کہ کہنے کے باوجود پھر پوسٹ کر رہا ہوں لیکن کیا کروں کہ ایک ایسی چیز ہاتھ لگی ہے کہ دل چاہ رہا ہے کہ سب لطف اندوز ہوں ۔
مندرجہ بالا اقتباس میرا یا کسی کمال پاشا مخالف کا نہیں بلکہ خود ہمارے محترم حسان خان صاحب کا ہے ، ملاحظہ کیجئے ان کا مشہور و معروف دھاگہ: ترکی اشعار مع اردو ترجمہ
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا ؟؟؟؟ بلا تبصرہ !!!!!!!!!!!!!
محمود احمد غزنوی برین ہیکر باباجی متلاشی الف نظامی نایاب درویش خُراسانی ملائکہ @
جو شخص ملک میں صدیوں سے رائج عربی و فارسی رسم الخط کا اتنا دشمن تھا کہ رسم الخط ہی تبدیل کردیااتنی محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کفایت ہاشمی صاحب۔ جو میں نے اس وقت کہا، اُس پر ابھی بھی قائم ہے۔ میری نظر میں عثمانی ترکی سے بڑھ کر کوئی اور زبان خوبصورت نہیں تھی، اس لیے جو لسانی چیڑ پھاڑ قوم پرستی کے ہاتھوں مغلوب ہو کر اتاترک نے کی، اس کا میں شدت سے مخالف ہوں اور تاحیات رہوں گا۔
ہاں اس نے پردے پر جو پابندی لگائی، اور جو دیگر سماجی اصلاحات کریں ان کا ضرور میں حامی ہوں۔
جو شخص ملک میں صدیوں سے رائج عربی و فارسی رسم الخط کا اتنا دشمن تھا کہ رسم الخط ہی تبدیل کردیا
اس کے شقی القلب ہونے میں کوئی شک باقی نہیں رہتا
یہ کیسی خود بیزاری تھی؟؟؟"اتاترک کی شاید یہی خود بیزاری تھی جس کے باعث میں کبھی اس کے لیے مثبت خیالات نہیں پیدا کر پایا ہوں۔"
خود آپ اپنے دام میں صیاد آگیا"اتاترک کے دور تک یورپی ادب کے زیرِ اثرعثمانی ترکی جدید اردو کی طرح فطری ہو چکی تھی اور اس میں مصنوعیت ختم ہو چکی تھی۔ مگر قوم پرست اتاترک کے نزدیک چونکہ عثمانی خط اور عثمانی زبان ان عربوں کی یادگار تھی جو جنگ عظیم اول میں عثمانیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ چکے تھے، اس لیے اس نے جدیدیت کے نام پر یکلخت رسم الخط تبدیل کر دیا، اور اپنی زبان میں مفرس اور معرب سے چھٹکارا پانے کا ارشاد سنا دیا۔ اور اس کے نتیجے میں ایک نئی ترکی زبان کی ایجاد کا کام شروع ہوا جو 1960 کے عشرے تک شدت سے جاری رہا۔ ہر بیرونی لفظ چن چن کر باہر نکالا گیا اور ان کی جگہ نئے نامانوس اور خود ساختہ الفاظ ٹھونسے گئے۔ اس لسانی اصلاحات کے نتیجے میں ترکوں کا اپنی ہی تاریخ سے تسلسل یکسر ختم ہوگیا۔ وہ اپنا ہی ادب اور تاریخ پڑھنے سے قاصر ہیں۔ 1960 کے پہلے تک کا جتنا ادب بھی شائع ہوتا ہے وہ نئی ترکی میں 'ترجمہ' ہو کر شائع ہوتا ہے۔
مزے کی بات ہے، اتاترک خود ساری زندگی اسی خط میں اور اسی عثمانی ترکی میں لکھتا اور تقریر کرتا رہا۔ وہ عثمانی میں لکھ کر پریس کو دے دیتا، پریس والا مترجم اس میں سے سارے عربی-فارسی الفاظ نکال کر نئے الفاظ ٹھونستا تھا اور اخبار میں شائع کرتا تھا۔ کافی عرصے تک تو ترک بیچارے اخبار کی جعلی زبان سمجھنے سے ہی قاصر رہے، پھر آہستہ آہستہ تدریس کے ذریعے یہ جدید ترکی ملک میں رائج ہو گئی۔ اتاترک کی ساری تقریریں اور تحریریں بھی اب ترجمہ ہو کر شائع ہوتی ہیں۔ اتاترک کی شاید یہی خود بیزاری تھی جس کے باعث میں کبھی اس کے لیے مثبت خیالات نہیں پیدا کر پایا ہوں۔ ایک جیتی جاگتی خوبصورت ترین زبان کو جدیدیت اور قوم پرستی کے نام پر اُس نے برہنہ کر دیا۔ یعنی کل تک جس میں ساٹھ فیصد عربی-فارسی کے الفاظ تھے آج اس میں صرف پانج دس فیصد ہی ایسے الفاظ رہ گئے ہیں۔ خدائے بزرگوار کا صد ہزار بار شکر کہ کسی نادان نے اردو کو چہرہ یوں بگاڑنے کی کوشش نہیں کی۔۔۔ “
معافی چاہتا ہوں کہ کہنے کے باوجود پھر پوسٹ کر رہا ہوں لیکن کیا کروں کہ ایک ایسی چیز ہاتھ لگی ہے کہ دل چاہ رہا ہے کہ سب لطف اندوز ہوں ۔
مندرجہ بالا اقتباس میرا یا کسی کمال پاشا مخالف کا نہیں بلکہ خود ہمارے محترم حسان خان صاحب کا ہے ، ملاحظہ کیجئے ان کا مشہور و معروف دھاگہ: ترکی اشعار مع اردو ترجمہ
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا ؟؟؟؟ بلا تبصرہ !!!!!!!!!!!!!
محمود احمد غزنوی برین ہیکر باباجی متلاشی الف نظامی نایاب درویش خُراسانی ملائکہ @