کیا کافر واقعی ہماری پکار نہیں سن سکتا؟
سوال: کیا واقعی آپ کسی کافر کے پاس جا کر اسے تبلیغ کرنا شروع کر دیں تو کیا ظاہر پرستی میں مبتلا ہو کر آپ یہ کہیں گے کہ ہماری آواز ظاہری طور پر اس تک نہیں پہنچ رہی اور ظاہری طور پر وہ نہیں سن رہا؟
نہیں نا۔ آپ بے شک یہ کہیں گے کہ اُس تک ہماری آواز ظاہری طور پر پہنچ رہی ہے اور وہ بے شک سن رہا ہے۔ مگر یہاں "سننا" حقیقی معنوں میں نہیں بلکہ "ہدایت ماننے" کے ماننے میں ہے۔
مگر پھر دیکھئے کہ ظاہر پرستی میں مبتلا ہو کر کیا نتیجہ نکالا جا رہا ہے۔
از باذوق:
اللہ نے کافروں کی ایک مثال بیان کی ہے کہ جس طرح میت کسی کی پکار نہیں سنتی اسی طرح کافر بھی نہیں سنتا ۔۔۔۔۔
اور خدا کا کلام اس چیز سے بالاتر ہے کہ وہ اس قسم کی ظاہر پرستی میں مبتلا ہو اور کہے کہ کافر تک ظاہر میں ہماری آواز نہیں پہنچ رہی اور وہ ظاہرا ہماری بات نہیں سن رہا۔
اور یہ چیز بھی کلام باری تعالی سے بعید ہے کہ وہ ایک ہی سطر میں سننے کو دو بالکل زمین و آسمان جیسے مختلف ظاہری و مجازی معنوں مِیں بہ یک وقت استعمال کر رہا ہو۔
///////////////////////////////////////////////////////
ابتک کی بحث و آیات کا Conclusion
ظاہر پرست حضرات جن تین آیات کا حوالہ دے کر شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں، وہ تینوں کی تینوں "کفار کی ہدایت" کے متعلق بات کر رہی ہیں۔ خود ان آیات کے علاوہ دیگر اسی موضوع کی آیات میں اللہ تعالی نے بالکل واضح کر دیا ہے کہ سننے سے کیا مراد ہے۔
یہ آیت آپ کے لیے ہدیہ کہ جن کے بعد کبھی بھی آپ کو ان قرانی آیات میں "سننے" کے متعلق شکوک و شبہات نہیں ہو گے۔ انشاء اللہ:
اور اسی "سننے" کو اس آیت میں بھی دیکھیں:
[ARABIC]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ {20}[/ARABIC]
ایمان والو اللہ و رسول کی اطاعت کرو اور اس سے رو گردانی نہ کرو جب کہ تم سن بھی رہے ہو {20}
[ARABIC]وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ قَالُوا
سَمِعْنَا وَهُمْ لاَ
يَسْمَعُونَ {21}[/ARABIC]
اور ان لوگوں جیسے نہ ہوجاؤ جو یہ کہتے ہیں کہ
ہم نے سنا حالانکہ
وہ کچھ نہیں سن رہے ہیں {21}
[ARABIC]إِنَّ شَرَّ الدَّوَابَّ عِندَ اللّهِ
الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لاَ يَعْقِلُونَ {22}[/ARABIC]
اللہ کے نزدیک بد ترین زمین پر چلنے والے
وہ بہرے اور گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ہیں {22}
[ARABIC]وَلَوْ عَلِمَ اللّهُ فِيهِمْ خَيْرًا
لَّأسْمَعَهُمْ وَلَوْ
أَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّواْ وَّهُم مُّعْرِضُونَ {23}[/ARABIC]
اور اگر خدا ان میں کسی خیر کو دیکھتا
تو انہیں ضرور سناتا اور اگر سنا بھی دیتا تو یہ منہ پھرا لیتے اور اعراض سے کام لیتے {23}
نوٹ:
ان آیات میں:
1۔ بہرے اور گونگے سے مراد حقیقی بہرے و گونگے نہیں بلکہ دلوں کےبہرے و گونگے مراد ہیں۔ [اب اگر کوئی دلوں کے بہرے و گونگے ہونے کا انکار اس لیے کر دے کہ اسے یہ چیز فیروز اللغات میں نہیں ملتی تو یہ ایسے شخص کی قسمت کی خرابی]
اور دوسری آیت آپکی خدمت میں ہدیہ ہے:
[ARABIC]وَمِنْهُم مَّن
يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ وَجَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَن يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا وَإِن يَرَوْاْ كُلَّ آيَةٍ لاَّ يُؤْمِنُواْ بِهَا حَتَّى إِذَا جَآؤُوكَ يُجَادِلُونَكَ يَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُواْ إِنْ هَذَآ إِلاَّ أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ {25}[/ARABIC]
اور ان میں سے بعض لوگ کان لگا کر آپ کی بات
سنتے ہیں لیکن ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دئیے ہیں ...یہ سمجھ نہیں سکتے ہیں
اور ان کے کانوں میں بھی بہراپن ہے -یہ اگر تمام نشانیوں کو دیکھ لیں تو بھی ایمان نہ لائیں گے یہاں تک کہ جب آپ کے پاس آئیں گے تو بھی بحث کریں گے اور کفار کہیں گے کہ یہ قرآن تو صرف اگلے لوگوں کی کہانی ہے {سورہ الانعام6:25}
نوٹ: اس آیت میں "اور انکے کانوں میں بھی بہرا پن ہے" سے مراد کانوں کا حقیقی بہرا ہونا نہیں بلکہ انکے دلوں کے کانوں کا بہرا ہونا ہے اور یہ انکے دل ہیں جو کہ ہدایت کو نہیں سن رہے۔
[ARABIC]
وَمَا أَنتَ بِهَادِي الْعُمْيِ عَن ضَلَالَتِهِمْ إِن تُسْمِعُ إِلَّا مَن يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُم مُّسْلِمُونَ [/ARABIC]
(القران ) اور (اے پیغمبر) آپ اندھوں کو بھی ان کی گمراہی سے ہدایت نہیں کرسکتے ہیں
آپ تو صرف ان لوگوں کو سناسکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور مسلمان ہیں
اگلی آیت ہدیہ ہے:
[ARABIC]
وَمِنْ آيَاتِهِ مَنَامُكُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَابْتِغَاؤُكُم مِّن فَضْلِهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ [/ARABIC]
اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ تم رات اور دن کو آرام کرتے ہو اور پھر فضل خدا کو تلاش کرتے ہو کہ
اس میں بھی سننے والی قوم کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں
//////////////////////////////////////////////////////
ان آیات کا تجزیہ جو ظاہر پرست حضرات استعمال کرتے ہیں
اوپر کی چاروں آیات بہت واضح ہیں۔ اب آخر میں ان تینوں قرانی آیات پر ایک نظر اور ڈال لیتے ہیں جہاں "سننے" کو ظاہری معنوں میں ظاہر پرست حضرات لے کر جا رہے ہیں۔
پہلی آیت [سورۃ فاطر]
[قران آسان تحریک 35:19] اور نہیں برابر ہوسکتا اندھا اور آنکھوں والا۔
[قران آسان تحریک 35:20] اور نہ تاریکیاں اور نہ روشنی
[قران آسان تحریک 35:21] اور نہ چھاؤں اور نہ دُھوپ کی تپش۔
[قران آسان تحریک 35:22] اور نہ برابر ہوسکتے ہیں زندے اور نہ مُردے۔ بلاشبہ اللہ سنواتا ہے جسے چاہے اور نہ تم (اے نبی) سنا سکتے ہو ان کو جو قبروں میں (مدفون) ہیں۔
[قران آسان تحریک 35:23] نہیں ہو تم مگر متنبہ کرنے والے۔
اور نہیں برابر ہوسکتا اندھا اور آنکھوں والا۔ ۔۔۔۔ اگر ظاہر پرستی میں پڑیں گے تو یہاں "اندھے اور "آنکھوں والے سے مراد حقیقی اندھے اور آنکھوں والے ہیں۔
جبکہ علمائے قدیم کے مطابق یہاں "اعمی" اندھے سے مراد "کافر" اور "بصیر" آنکھوں والا سے مراد "مومن" ہے۔
اور نہ تاریکیاں اور نہ روشنی ظاہر پرست ظبقہ کے نزدیک یہاں حقیقی تاریکیاں اور روشنی
جبکہ علمائے قدیم کے مطابق یہاں "ظلمت [تاریکیوں]" سے مراد "باطل" جبکہ "نور [روشنی]" سے مراد "حق" ہے۔
اور نہ چھاؤں اور نہ دُھوپ کی تپش۔ ظاہر پرست طبقہ کے مطابق یہاں حقیقی چھاوں اور دھوپ مراد ہے
جبکہ علمائے قدیم نے فرمایا ہے کہ یہاں "ظل [سایہ]" سے مراد "ثواب و راحت" اور "حرور [سخت گرمی/دھوپ] سے مراد عتاب و عذاب ہے
اور نہ برابر ہوسکتے ہیں زندے اور نہ مُردے۔ بلاشبہ اللہ سنواتا ہے جسے چاہے ۔۔۔۔۔ ظاہر پرست طبقہ کے مطابق یہاں حقیقی زندے و مردے ہیں اور سنانے سے مراد حقیقی سنانا ہے ، یعنی اللہ چاہے تو مردے کو بھی اے رسول آپکی آواز سنا دے
[نوٹ: مجھے علم نہیں کہ اگر اللہ اپنے رسول کی حقیقی آواز مردے کو سنوا بھی دے تو اس سے مردے کو کیا فائدے پہنچنے والا ہے؟ ظاہر پرست حضرات سے میں ہمیشہ یہ درخواست کرتی آئی ہوں کہ وہ لازمی طور پر یہ واضح کریں کہ اگر اللہ رسول کی حقیقی آواز کو مردوں کو سنوا بھی دے تو اس سے مردے کو کیا فائدہ پہنچنے والا ہے]
جبکہ علمائے قدیم فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ دلوں کے زندے اور دلوں کے مردے برابر نہیں ہیں۔ اور سنوانا سے مراد ہے "ھدایت کو ماننا"۔
میں نے اپنی اوپر والی تحریروں میں دیگر قرانی آیات سے واضح کیا تھا کہ جب کفار اپنے کفر پر اڑے رہیں تو ایک وقت آتا ہے کہ اللہ انکے دلوں پر "مہر ثبت" کر دیتا ہے۔ تو ایسے کفار کو سوائے اللہ کے، اور کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ تو یہاں مردوں سے مراد وہی دل کے مردے ہیں کہ جن کے دلوں پر اللہ نے مہر ثبت کر دی ہے۔
اور نہ تم (اے نبی) سنا سکتے ہو ان کو جو قبروں میں (مدفون) ہیں۔ ظاہر پرست طبقہ فکر کے نزدیک یہاں سنانے سے مراد اپنی حقیقی آواز کا سنانا ہے۔
جبکہ علمائے قدیم کے نزدیک اسکا مطلب ہے کہ جس طرح مرنے کے بعد مردہ لوگ یہ حق کھو چکے ہیں اب حق بات کو قبول کر کے کوئی فائدہ اٹھا سکیں، اسی طرح کفار کے دلوں پر ایسا قفل اللہ لگا چکا ہے کہ یہ اب انہیں بے شک کوئی ہدایت پیش کر دے مگر یہ اسے قبول کر کے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔
جیسا کہ میں نے اپنی اوپر والی تحریروں میں واضح کیا تھا کہ:
1۔
ہدایت کو قبول کرنے کا حق و موقع انسان کے پاس صرف اُس وقت تک رہتا ہے جبتک وہ زندہ ہے۔ اور جہاں اُس نے موت کے فرشتوں کو دیکھا، وہیں وہ اس حق سے محروم ہو گیا۔ یعنی موت کے فرشتوں کو دیکھنے کے بعد وہ جتنی توبہ کرتا رہے وہ قبول نہ ہو گی۔
2۔
مگر جو کافر اپنے کفر پر "بہت سختی" سے اڑے رہتے ہیں، اُن کے متعلق اللہ فرماتا ہے کہ موت کے فرشتے دیکھنے سے قبل ہی اللہ اُن سے ہدایت قبول کرنے کا حق چھین لیتا ہے اور ان کے دلوں پر مہر ثبت کر دیتا ہے۔ چنانچہ یہ سخت کفار اپنی زندگیوں میں ہی ہدایت سننے کا حق کھو دیتے ہیں اور انکی مثال اُن مردوں جیسی ہو جاتی ہے جو مرنے کے بعد ہدایت سننے و قبول کرنے کے حق سے محروم ہو چکے ہیں۔
نہیں ہو تم مگر متنبہ کرنے والے۔ ۔۔۔۔ ہوتا یہ تھا کہ جب یہ سخت کفار رسول ص کی انتہائی تبلیغ کے بعد بھی ہدایت قبول نہیں کر رہے ہوتے تھے تو اس پر رسول ص انتہائی افسردہ و ملول ہو جاتے تھے۔ اس پر اللہ تعالی اپنے حبیب کو حوصلہ دے رہا ہے اور بتلا رہا ہے کہ ان سخت کفار کو اگر ہدایت فائدہ نہیں پہنچا رہی تو اسکی وجہ یہ ہے کہ میں نے انکی زندگیوں میں ہی ان سے حق قبول کرنے کا حق چھین لیا ہے اور انکے دلوں پر مہر ثبت کر دی ہے اور یہ صرف میں ہی ہوں جو چاہوں تو ان میں سے کسی مردہ دل کو ہدایت سننے کی توفیق عطا فرما دوں۔
ابن کثیر الدمشقی کی اس آیت کی تفسیر
ابن کثیر الدمشقی نے اسکی بہت صاف اور سمجھ آنے والی تفسیر کی ہے۔ کاش کہ ظاہر پرست حضرات اس سے سبق حاصل کریں
[ARABIC]وَقَوْله تَعَالَى : " إِنَّ اللَّه يُسْمِعُ مَنْ يَشَاء " أَيْ يَهْدِيهِمْ إِلَى سَمَاع الْحُجَّة وَقَبُولهَا وَالِانْقِيَاد لَهَا " وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُور " أَيْ كَمَا لَا يَنْتَفِع الْأَمْوَات بَعْد مَوْتهمْ وَصَيْرُورَتهمْ إِلَى قُبُورهمْ وَهُمْ كُفَّار بِالْهِدَايَةِ وَالدَّعْوَة إِلَيْهَا كَذَلِكَ هَؤُلَاءِ الْمُشْرِكُونَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمْ الشَّقَاوَة لَا حِيلَة لَك فِيهِمْ وَلَا تَسْتَطِيع هِدَايَتهمْ .[/ARABIC]
ترجمہ:
اور اللہ کا یہ فرمانا (اللہ جسے چاہتا ہے سنوا دیتا ہے) اسکا مطلب ہے کہ وہ یہ ہدایت دیتا ہے کہ لوگ حجت (ہدایت) کو سنیں اور اسے قبول کریں اور اس پر قائم رہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ (اور تم ان کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں) اسکا مطلب ہے کہ جیسے کہ مردے مرنے کے بعد ہدایت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے ہیں اور انہیں سچ بتانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ کفر کی حالت میں مرے ہیں اور اسی حالت میں قبر میں چلے گئے ہیں، اسی طرح آپ کی ہدایت اور دعوت ان کفار کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی کیونکہ ان کی شقاوت کی وجہ سے ان کی قسمت میں برباد ہونا لکھا گیا ہے اور آپ ان کو ہدایت نہیں کر سکتے۔
اگر اتنی صاف و واضح تفسیر کے بعد بھی کوئی نہ سمجھنا چاہے تو یہ اسکی قسمت کی خرابی۔
//////////////////////////////////////////
دوسری آیت سورۃ الروم
قران آسان تحریک 30:51] اور اگر کہیں بھیجتے ہم کوئی ایسی ہوا کہ دیکھتے وہ (اس کے اثرسے) کھیتی کو کہ زرد پڑگئی ہے تو ضرور وہ اس کے بعد بھی کفر ہی کرتے رہتے۔
[قران آسان تحریک 30:52] پس
(اے نبی) تم ہرگز نہیں سنا سکتے مردوں کو اور نہ سناسکتے ہو بہروں کو اپنی پکار جب وہ چلے جارہے ہوں پیٹھ پھیر کر۔
[قران آسان تحریک 30:53] اور نہیں ہوتم راہِ راست دکھانے والے اندھوں کو اُن کی گمراہی سے نکال کر، نہیں سناسکتے ہو تم مگر انہی کو جو ایمان لاتے ہیں ہماری آیات پر پھر وہ سرتسلیم خم کردیتے ہیں۔
آئیے اب ان کے مجازی معنوں کو دیکھتے ہیں جو علمائے قدیم نے بیان کیے ہیں:
(اے نبی) تم ہرگز نہیں سنا سکتے مردوں کو قدیم علماء کے مطابق یہاں موتی سے مراد وہ لوگ ہیں
"جنکے دل مر چکے ہیں اور اللہ نے انکے دلوں پر مہر ثبت کر دی ہے"۔ یعنی کہ موت کے فرشتے دیکھ لینے کے بعد اللہ تعالی جس طرح مردوں سے اختیار چھین لیا ہے کہ وہ ہدایت قبول کر کے اس سے نفع حاصل کر سکیں۔ اسی طرح کفار اپنے کفر میں ایسے سخت ہو چکے ہیں وہ وقت آ گیا ہے جبکہ اللہ نے انکے دلوں پر انکے کفر کے باعث مہر ثبت کر دی ہے اور اب جتنا مرضی کوئی انہیں حق کا پیغام سناتا رہے مگر یہ اسے قبول کر کے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔
اور نہ سناسکتے ہو بہروں کو اپنی پکار جب وہ چلے جارہے ہوں پیٹھ پھیر کر۔ اور یہاں "الصم" [بہرے] سے مراد وہ لوگ ہیں "جنکے دلوں کے کان حق بات سننے سے بہرے ہو چکے "ہیں/
اور نہیں ہوتم راہِ راست دکھانے والے اندھوں کو اُن کی گمراہی سے نکال کر، اور یہاں "العمی" [اندھے] سے مراد وہ لوگ ہیں "
جنکے دلوں کی آنکھیں نور حق دیکھنے سے" اندھی ہو چکی ہیں۔
نہیں سناسکتے ہو تم مگر انہی کو جو ایمان لاتے ہیں ہماری آیات پر پھر وہ سرتسلیم خم کردیتے ہیں۔ اور یہاں بھی سنانے کا لفظ ظاہری معنوں میں نہیں ہے بلکہ اللہ کہہ رہا ہے کہ "نہیں ھدایت دے سکتے ہو تم مگر انہی کو جو ایمان لاتے ہیں۔۔۔"
/////////////////////////////////////////////////////////////
تفسیر طبری سے غلط استدلال
از باذوق:
امام ابن جریر نے حدیثِ قتادہ کے حوالے سے یہی بات تو ہمیں سمجھائی ہے :
هذا مَثَل ضربه الله للكافر فكما لا يسمع ال۔ميت الدعاء، كذلك لا يسمع الكافر.
اللہ نے کافروں کی ایک مثال بیان کی ہے کہ جس طرح میت کسی کی پکار نہیں سنتی اسی طرح کافر بھی نہیں سنتا ۔۔۔۔۔
یہ وہی غلطی ہے جو اس سے قبل قسیم حیدر برادر کر چکے ہیں۔
اس سرخ رنگ کی عبارت میں امام جریر طبری کہیں بھی "سننے" سے مراد حقیقی سننا نہیں لے رہے بلکہ وہ دوسری آیات کے ذیل میں واضح کر چکے ہیں کہ یہاں "سننے" سے مراد "ہدایت سے نفع حاصل کرنا ہے" اور یہ چیز میں کئی مرتبہ اوپر واضح کر چکی ہوں مگر جریر طبری کی اس تفسیر میں شکوک و شبہات ڈالنے کے لیے آپ مسلسل اسے اور ابن کثیر اور ابن قرطبی اور دیگر تفاسیر کو نظر انداز کرتے آئے ہیں۔
مثلا میں نے تفسیر قرطبی سے صاف صاف تفسیر پیش کی تھی کہ امام جریر طبری "سننے" سے کیا مراد لے رہے ہیں:
وقوله: { إنَّ اللّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشاءُ وَما أنْتَ بِ۔مُسْمِعٍ مَنْ فِ۔ي القُبُورِ } يقول تعال۔ى ذكره: كما لا يقدر أن يسمع من ف۔ي القبور كتاب الله، ف۔يهديهم به إل۔ى سب۔ي۔ل الرشاد، فكذلك لا يقدر أن ينفع ب۔مواعظ الله، وب۔يان حُججه، من كان ميت القلب من أحياء عب۔اده، عن معرفة الله، وفهم كتابه وتنزي۔له، وواضح حججه، كما:
حدثنا بشر، قال: ثنا يزيد، قال: ثنا سعيد، عن قتادة { إنَّ اللّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشاءُ وَما أنْتَ بِ۔مُسْمِعٍ مَنْ فِ۔ي القُبُورِ } كذلك الكافر لا يسمع، ولا ينتفع ب۔ما يسمع
آنلائن لنک.
یعنی جو اللہ فرما رہا ہے کہ {یہ اللہ ہی ہے جو جسے چاہتا ہے سناتا ہے اور نہیں سنا سکتے تم قبروں میں پڑے ہووں کو} تو اسکا مطلب ہے کہ اے رسول تم میں یہ قدرت نہیں کہ تم قبر والوں کو کتاب اللہ سنا کر انکی ہدایت کر سکو [یعنی انکا وقت گذر چکا ہے] اور نہ ہی تم قدرت رکھتے ہو کہ انہیں یہ چیزیں سنا کر انہیں مواعظ اللہ سے کوئی نفع پہنچا سکو۔۔۔۔۔
تو امام طبری نے صاف صاف الفاظ میں سننے کا مطلب بیان کیا ہوا ہے، اور اگر کوئی اب بھی انکی تفسیر کو انکے سیاق و سباق سے کاٹ کر شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے تو اسکی قسمت کی خرابی۔
/////////////////////////////////////
محترم ڈاکٹر طاہر القادری کی عبارت کو جان بوجھ کر غلط پیش کرنا
از باذوق:
آپ دیکھئے کہ یہاں تین مثالیں دی گئی ہیں :
مُردہ ، بہرا اور اندھا
سوائے مُردہ کو چھوڑ کر ، باقی دونوں کی خصوصیت ، ڈاکٹر صاحب نے خود آیت کے اندر قوسین میں بیان کر دی ہے۔
یعنی :
بہرا : (صدائے حق کی سماعت سے محروم)
اندھا : (جو محرومِ بصیرت ہیں)
حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ "مُردہ" کی بھی خصوصیت کو بیان کر دیا جاتا۔ لیکن اگر وہ بیان کر دیتے تو پھر سماع موتیٰ کے قائلین کا بنایا ہوا سارا ریت کا محل ڈھیر ہو جاتا !!
کاش کہ اتنا زیادہ دائیں بائیں کی آئیں بائیں شائیں کرنے کی بجائے باذوق بھائی متحرم طاہر القادری صاحب کی اس آیت کی پوری تفسیر پڑھ لیتے [جو کہ میں نے واضح طور پر اوپر بیان کی ہے مگر چیزوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے باذوق صاحب اسے نظر انداز کر گئے]
چنانچہ جو کچھ اس آیت کی تفسیر میں محترم ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے، وہ ایک بار پھر آپکی خدمت میں ہدیہ تاکہ لوگ خود انصاف کر لیں:
٭ یہاں پر الْمَوْتٰی (مُردوں) اور الصُّمَّ (بہروں) سے مراد کافر ہیں۔ صحابہ و تابعین رضی اللہ عنھم سے بھی یہی معنٰی مروی ہے۔ مختلف تفاسیر سے حوالے ملاحظہ ہوں : تفسیر اللباب لابن عادل الدمشقی (16 : 126)، تفسیر الطبری (20 : 12)، تفسیر القرطبی (13 : 232)، تفسیر البغوی (3 : 42، زاد المسیر لابن الجوزی (6 : 189)، تفسیر ابن کثیر (3 : 375، 439)، الدر المنثور للسیوطی (6 : 376)، اور فتح القدیر للشوکانی (4 : 150)۔
کاش کہ باذوق صاحب کو اندازہ ہو سکے کہ وہ کیسے چیزوں کو توڑ مڑوڑ کر دوسروں کے ساتھ ناانصافی کر رہے ہیں۔
[جاری ہے، اور اگلے مراسلے میں اس حدیث کا تجزیہ کریں گے جو باذوق صاحب نے پیش کی ہے]