قرآنِ کریم کے ظاہری اور باطنی معانی؟

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

نبیل

تکنیکی معاون
قسیم، اگرچہ آپ اور مہوش اچھے طریقے سے بات کر رہے ہیں۔ لیکن اس قسم کے مباحثات کو سمیٹنے کی کوشش کرنی چاہیے۔میں کل اس تھریڈ کو مقفل کر دوں گا۔ اس وقت تک پلیز آپ اور مہوش اپنی بات مکمل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے بعد چاہیں تو یہ سلسلہ کسی اور فورم پر جاری رکھا جا سکتا ہے کہ جیسا کہ مہوش اشارہ کر چکی ہیں۔
 

باذوق

محفلین
احناف کا سماعت موتی کے بارے میں عقیدہ
میں آپکے اس Quote کی جانچ پڑتال تو نہیں کر سکی، مگر مجھے اعتماد ہے کہ آپ نے صحیح ہیں Quote کیا ہے۔ مگر پھر بھی اس مسئلے میں پرابلمز ہیں۔

1۔ پہلا یہ کہ یہ کون سے مشائخ ہیں؟ اور انکا نام کیا ہے؟ [کیونکہ احناف، جنکے نام ملتے ہیں وہ تو اسکے برعکس سماعت موتی کے قائل ہیں۔

2۔ بہرحال، اگر احناف میں ماضی میں کسی نے سماعت موتی کی نفی کی بھی ہے تو بھی تحقیق و تدبر کے بعد نظر یہ آتا ہے کہ احناف اس پر متفق نظر آتے ہیں کہ مردے بے شک سنتے ہیں۔ [چاہے انکا تعلق دیوبند سے ہو یا پھر بریلوی مکتبہ فکر سے ہوں]
کسی بھی مذہب کی بنیاد اس کے متقدمین ائمہ کے افکار و رائے پر قائم ہوتی ہے۔ اس مذہب کے متاخرین "علماء" کے خیالات کی اگرچہ کچھ اہمیت ہوتی ہے لیکن یہ بہرحال متعلقہ مذہب کی بنیاد نہیں بنتے۔

مذہبِ حنفی کے جن ائمہ دین سے ثابت ہے کہ انہوں نے سماع موتیٰ کا انکار کیا ہے ۔۔۔۔ ذیل میں صرف حوالے ملاحظہ فرمائیں ، تفصیل ان شاءاللہ بعد میں سہی۔

علامہ عینی (م:855ھ) ، شرح کنز الدقائق میں
ابن الہمام (م:681ھ) ، فتح القدیر "ھدایہ" کے حاشیے میں
علاءالدین حصکفی (م:1088ھ) ، الدرالمختار شرح تنویر الابصار میں
علامہ طحطاوی (م:1231ھ) ، درمختار کے حاشیے میں
علامہ ابن عابدین (م:1252ھ) ، فتاویٰ شامی میں

اور ویسے ۔۔۔۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق تو ایک واقعہ بڑا مشہور ہے :
آپ نے کسی شخص کو ایک قبر پر صاحبِ قبر کو پکارتے دیکھا تو کہنے لگے :
تجھ پر پھٹکار ہو اور تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں ، تُو ایسے اجساد سے بات کرتا ہے جو نہ آواز سن سکتے ہیں ، نہ جواب دے سکتے ہیں اور نہ ہی کچھ اختیار رکھے ہیں ۔۔۔ پھر آپ نے قرآن کی یہ آیت پڑھی :
وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُور

2۔ بہرحال، اگر احناف میں ماضی میں کسی نے سماعت موتی کی نفی کی بھی ہے تو بھی تحقیق و تدبر کے بعد نظر یہ آتا ہے کہ احناف اس پر متفق نظر آتے ہیں کہ مردے بے شک سنتے ہیں۔
اب آپ سے ادباً گذارش ہے کہ احناف کے ان متقدمین ائمہ کے حوالے دیں ، جو آپ کی تحقیق کے مطابق اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ :
"مردے بے شک سنتے ہیں"
 

مہوش علی

لائبریرین

کِسی بھی کلام کے ظاہری اور باطنی معنیٰ سے کیا مُراد ہے ؟ اورظاہر کو ترک کر کے باطنی معنیٰ کی طرف رُخ کرنے کی ضرورت کیوں اور کب پیش آتی ہے ؟
اِسی طرح کِسی بھی کلام کے حقیقی اور مجازی معنیٰ سے کیا مُراد ہے ؟ اور حقیقت کو چھوڑ کر مجاز کو اپنانے کی ضرورت کیوں اور کب پیش آتی ہے ؟
کِسی بھی کلام کے صریح اور مبہم سے کیا مُراد ہے ؟ اور صریح کو چھوڑ کے مبہم کے پیچھے دوڑ لگانے کی ضرورت کیون اور کب پیش آتی ہے ؟
کِسی بھی کلام کے منطوق اور مفہوم سے کیا مُراد ہے ؟
کیا ظاہری اور حقیقی ، باطنی اور مجازی میں کوئی فرق ہے ؟
اِن سوالات کے جوابات میں اگر کوئی قاعدہ قانون پایا جاتا ہے تو کیا اُس کا اطلاق قُران ، یعنی اللہ کے کلام پر کیا جائے گا ؟
ہاں تو کیوں ؟ نہیں تو کیوں ؟
قُران میں محکمات اور مشتبھات ہیں ؟
قُران کو سمجھنے کے لیے ، یعنی قُران کی تفسیر کے لیے کیا ذرائع اپنائے جائیں ؟ اور کیوں ؟یا جو کوئی بھی اپنی سوچ و رائے کے مطابق جو معنی و مفہوم سمجھنا چاہے سمجھ لے ؟

عادل سہیل، ہمارا موضوع چونکہ سماعت موتی ہے، اور اس حوالے سے قرانی آیات میں "سننے" کے حوالے سے آپکے سامنے تقریبا جمہور علماء کا قول ہے کہ اس سے مراد ظاہری سننا نہیں بلکہ ہدایت حاصل کرنا ہے۔ [دیکھئیے اوپر حافظ العسقلانی اور ابن کثیر اور امام قرطبی اور حافظ سیوطی وغیرہ کے اقوال۔
باقی جو آپ بحث کرنا چاہ رہے ہیں اسکے لیے الگ لڑی کھول لیجئیے۔ میں بس مختصرا ہی عرض کر سکتی ہوں:

کیا آپ ان دو باتوں میں فرق کر پا رہے ہیں

1۔ ظاہر بالمقابل باطن
2۔ ظاہر بالمقابل مجاز

1قران کا ظاہر بالمقابل قران کا باطن:
اللہ قران میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے صحابی آصف بن برخیا کے متعلق فرما رہا ہے کہ اللہ نے انہیں "کتاب کے علم کا ایک چھوٹا سا حصہ" دیا تھا اور اسی علم کی وجہ سے وہ اس قابل تھے کہ ملکہ بلقیس کا تخت پلک جھپکنے سے قبل حاضر کرنے کے قابل تھے۔
کیا آپ کو اپنے متعلق اس کتاب کے علم ہونے کا دعوی ہے جس سے آپ بھی یہ کام کر سکیں؟

2۔ قران کا ظاہر بالمقابل مجازی معنی/استعارہ/حقیقی مفہوم
مجازی معنی پر میں "کیا اولیاء اللہ کو مولا کہنا شرک ہے" پر لکھ چکی ہوں۔
اللہ قراں میں رسول ص کے متعلق فرما رہا ہے کہ اللہ کا رسول بھی اپنے فضل سے غنی کرتا ہے۔
سوال: کیا اللہ کو کوئی ضرورت تھی کہ وہ اپنے فضل کے ساتھ ساتھ رسول ص کے فضل سے بھی غنی کرنے کا ذکر کرتا؟
سوال: اگر اللہ رسول کے فضل اور اس سے غنی کرنے کا ذکر نہ کرتا تو کیا اس آیت میں کوئی کمی رہ جاتی؟ [یعنی اگر صرف اللہ اپنے فضل اور اس سے غنی کرنے کا ذکر کر دیتا تو یقینا یہ کافی ہوتا]
تو یہ بتائیں کہ پھر اللہ کو کیا ضرورت پڑی کہ وہ رسول کے فضل اور اس سے غنی کرنے کا بھی ذکر کر رہا ہے؟
تو اللہ قران میں تعلیم دے رہا ہے کہ مجازی معنوں میں رسول کا اپنے فضل سے غنی کرنے کو مان لینا بالکل صحیح ہے جبکہ اصل اور حقیقی معنوں میں صرف اور صرف اللہ ہی اپنے فضل سے غنی کرتا ہے۔

حضرت عائشہ اور مدینے کی پوری کمیونٹی بے تحاشہ صحابہ رسول ص کے تبرکات سے شفا و نفع حاصل کرتے تھے اور ایسا کرتے ہوئے وہ اللہ کا نام بھی براہ راست نہیں لے رہے ہوتے تھے۔ مگر یہ نیت ہے کہ وہ ان تبرکات کو صرف مجازی معنوں میں شفا و نفع پہنچانے والا سمجھتے تھے، جبکہ حقیقی شفا و نفع دینے والا صرف اللہ کی ذات ہے۔

ظاہر کے مقابلے میں "حقیقی مفہوم" کی مثال اس لڑی میں بے تحاشہ علماء کے حوالے سے آپ کے سامنے آ چکی ہے جب انہوں نے "سننے" کو ظاہری سننا نہیں، بلکہ "بات ماننے" کے معنوں میں ذکر کیا ہے۔

مجھے امید ہے کہ آپ ان تقریبا جمہور علماء اور انکے اجماع کو یہ نام نہیں دیں گے:
1۔ یہ فضول میں ہی ظاہر کو چھوڑ کر حقیقی مفہوم کے پیچھے بھاگے رہے ہیں۔
2۔ یہ صریح کو چھوڑ کر مبہم کے پیچھے دوڑ لگا رہے ہیں۔ [ان الفاظ کے لیے دیکھئیے اپنی پوسٹ]
از عادل سہیل:
قُران کو سمجھنے کے لیے ، یعنی قُران کی تفسیر کے لیے کیا ذرائع اپنائے جائیں ؟ اور کیوں ؟یا جو کوئی بھی اپنی سوچ و رائے کے مطابق جو معنی و مفہوم سمجھنا چاہے سمجھ لے ؟
امید ہے کہ آپ ان تقریبا جمہور علماء اور انکے اجماع کو یہ الزام نہیں دے گے کے یہ سب کے سب اپنی سوچ و رائے کے مطابق جو معنی و مفہوم سمجھنا چاہیں وہ بے پر کی اڑاتے ہوئے سمجھ رہے ہیں؟

آپ دیکھ لیجئے اس مسئلہ پر آپ جتنے اعتراضات اور الزامات مجھ پر دھریں گے وہ پلٹ پلٹ کر مستقل آپ ہی کے گلے پڑتے رہیں گے۔
 

باذوق

محفلین
عادل سہیل، ہمارا موضوع چونکہ سماعت موتی ہے، اور اس حوالے سے قرانی آیات میں "سننے" کے حوالے سے آپکے سامنے تقریبا جمہور علماء کا قول ہے کہ اس سے مراد ظاہری سننا نہیں بلکہ ہدایت حاصل کرنا ہے۔ [دیکھئیے اوپر حافظ العسقلانی اور ابن کثیر اور امام قرطبی اور حافظ سیوطی وغیرہ کے اقوال۔
میرا خیال ہے کہ امام قرطبی (تفسیر قرطبی) کا نام شائد غلطی سے لکھ دیا گیا ہے۔
امام ابن جریر طبری نے النمل:80 اور الروم:52 کی تفسیر میں جو لکھا ہے ۔۔۔
(۔۔۔۔ آپ ان مُردوں کو سماعت عطا کر کے کچھ سمجھا نہیں سکتے جن کی قوت سماعت سلب کر لی گئی ہے ۔۔۔)
بعینہ اس کی تائید امام قرطبی نے بھی کی ہے۔ دونوں تفاسیر ان آیات کے حوالے سے چیک کر لیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ امام قرطبی (تفسیر قرطبی) کا نام شائد غلطی سے لکھ دیا گیا ہے۔
امام ابن جریر طبری نے النمل:80 اور الروم:52 کی تفسیر میں جو لکھا ہے ۔۔۔
(۔۔۔۔ آپ ان مُردوں کو سماعت عطا کر کے کچھ سمجھا نہیں سکتے جن کی قوت سماعت سلب کر لی گئی ہے ۔۔۔)
بعینہ اس کی تائید امام قرطبی نے بھی کی ہے۔ دونوں تفاسیر ان آیات کے حوالے سے چیک کر لیں۔

مجھے نہیں علم کہ سلف کے صاف اور واضح اقوال میں کیوں غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں۔
امام قرطبی نے ان آیات میں انتہائی واضح اور صاف طریقے سے "سننے" سے مراد "ہدایت لینا" اور "مردوں" سے مراد "کفار" لیا ہے۔
اپنی تفسیر جامع الاحکام القران [جسے مختصرا تفسیر قرطبی بھی کہا جاتا ہے]، اس میں صاف صاف انہوں نے لکھا ہے:
{ وَمَا يَسْتَوِي ٱلأَحْيَآءُ وَلاَ ٱلأَمْوَاتُ } قال ابن قُتيبة: الأحياء العقلاء، والأموات الجهال. قال قتادة: هذه كلها أمثال؛ أي كما لا تستوي هذه الأشياء كذلك لا يستوي الكافر والمؤمن. { إِنَّ ٱللَّهَ يُسْمِعُ مَن يَشَآءُ } أي يُسمع أولياءه الذين خلقهم لجنته. { وَمَآ أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي ٱلْقُبُورِ } أي الكفار الذين أمات الكفر قلوبهم؛ أي كما لا تُسمع من مات، كذلك لا تُسمع من مات قلبه. وقرأ الحسن وعيسى الثقفيّ وعمرو بن ميمون: «بِمُسْمِعِ مَن فِي القبورِ» بحذف التنوين تخفيفاً؛ أي هم بمنزلة (أهل) القبور في أنهم لا ينتفعون بما يسمعونه ولا يقبلونه.
آنلائن لنک

اور پھر امام قرطبی جناب عائشہ کا سماعت موتی کی نفی کرنے کے لیے اس آیت کی طرف اشارہ کرنے کو انکا "قیاس عقلی" فرماتے ہیں اور اسکی رد میں قتادہ کی روایت اور جناب عبداللہ ابن عمر کی روایات پیش کرتے ہیں

مسألة: وقد احتجت عائشة رضي الله عنها في إنكارها أن النبي صلى الله عليه وسلم أسمع موتى بدر بهذه الآية؛ فنظرت في الأمر بقياس عقلي ووقفت مع هذه الآية.۔۔۔۔۔
آنلائن لنک
اور پھر اسکی رد میں قتادہ کی روایت اور جناب عبداللہ ابن عمر کی روایات پیش کرتے ہیں
ایسی چیزوں میں شکوک پیدا کرنا درست طرز عمل نہ ہوگا۔ حافظ ابن حجر العسقلانی اور ابن کثیر نے اپنے سے پہلے والوں کے اقوال کو پڑھ کر اور آپ سے اور مجھ سے زیادہ اچھی طرح سمجھ کر ہی جمہور اور اجماع جیسے الفاظ استعمال کیے ہونگے۔
اور حافظ العسقلانی اور ابن کثیر کی یہی بات تفسیر طبری کے متعلق بھی درست ہے، اور آپکا تفسیر طبری کو توڑ مڑوڑ دینا اور شکوک پیدا کرنا درست طرز عمل نہ ہو گا۔
امام ابن جریر طبری اس معاملے میں بالکل واضح طور پر لکھتے ہیں "سننا" سے مراد ہدایت لینا ہے، اس سے فائدہ اٹھانا ہے اور "مردہ" سے مراد کفار ہیں، اور زندہ اور مردہ سے مراد مومنین اور کفار ہیں:
وقوله: { وَما يَسْتَوِي الأحْياءُ وَلا الأمْوَاتُ } يقول: وما يستوي الأحياء القلوب ب۔الإي۔مان ب۔الله ورسوله، ومعرفة تنزي۔ل الله، والأموات القلوب لغلبة الكفر عل۔يها، حت۔ى صارت لا تعقل عن الله أمره ونهيه، ولا تعرف الهدى من الضلال وكلّ هذه أمثال ضربها الله لل۔مؤمن والإي۔مان، والكافر والكفر.
اور پھر آگے لکھتے ہیں:
وقوله: { إنَّ اللّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشاءُ وَما أنْتَ بِ۔مُسْمِعٍ مَنْ فِ۔ي القُبُورِ } يقول تعال۔ى ذكره: كما لا يقدر أن يسمع من ف۔ي القبور كتاب الله، ف۔يهديهم به إل۔ى سب۔ي۔ل الرشاد، فكذلك لا يقدر أن ينفع ب۔مواعظ الله، وب۔يان حُججه، من كان ميت القلب من أحياء عب۔اده، عن معرفة الله، وفهم كتابه وتنزي۔له، وواضح حججه
اور پھر آگے قتادہ کا قول نقل کرتے ہیں:
حدثنا بشر، قال: ثنا يزيد، قال: ثنا سعيد، عن قتادة { إنَّ اللّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشاءُ وَما أنْتَ بِ۔مُسْمِعٍ مَنْ فِ۔ي القُبُورِ } كذلك الكافر لا يسمع، ولا ينتفع ب۔ما يسمع
.یعنی یہاں قبروں میں پڑے ہوووں سے مراد کفار ہیں جو کہ سن نہیں سکتے [ہدایت نہیں حاصل کر سکتے] اور اس لیے جو کچھ انہیں سنایا جائے اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔
آنلائن لنک

 

باذوق

محفلین
مجھے نہیں علم کہ سلف کے صاف اور واضح اقوال میں کیوں غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں۔
امام قرطبی نے ان آیات میں انتہائی واضح اور صاف طریقے سے "سننے" سے مراد "ہدایت لینا" اور "مردوں" سے مراد "کفار" لیا ہے۔
ایسی چیزوں میں شکوک پیدا کرنا درست طرز عمل نہ ہوگا۔ حافظ ابن حجر العسقلانی اور ابن کثیر نے اپنے سے پہلے والوں کے اقوال کو پڑھ کر اور آپ سے اور مجھ سے زیادہ اچھی طرح سمجھ کر ہی جمہور اور اجماع جیسے الفاظ استعمال کیے ہونگے۔
اور حافظ العسقلانی اور ابن کثیر کی یہی بات تفسیر طبری کے متعلق بھی درست ہے، اور آپکا تفسیر طبری کو توڑ مڑوڑ دینا اور شکوک پیدا کرنا درست طرز عمل نہ ہو گا۔
آپ نے سورہ:35 ، آیت:22 کی بات کی ہے اور میں آپ سے سورہ الروم اور سورہ النمل کی آیات کی بات کر رہا ہوں۔
کیا آپ تفسیر طبری سے سورہ الروم (30) ، آیت:52 کی پوری تفسیر نقل کر سکتی ہیں؟
یا کہئے تو میں مع ترجمہ یہاں نقل کر دوں؟

آخر کچھ تو احباب کو بھی علم ہو کہ کون شکوک پیدا کر رہا ہے؟؟؟
 

مہوش علی

لائبریرین
آپ نے سورہ:35 ، آیت:22 کی بات کی ہے اور میں آپ سے سورہ الروم اور سورہ النمل کی آیات کی بات کر رہا ہوں۔
کیا آپ تفسیر طبری سے سورہ الروم (30) ، آیت:52 کی پوری تفسیر نقل کر سکتی ہیں؟
یا کہئے تو میں مع ترجمہ یہاں نقل کر دوں؟

آخر کچھ تو احباب کو بھی علم ہو کہ کون شکوک پیدا کر رہا ہے؟؟؟

اللہ اکبر۔ آپ کس حد تک شکوک پیدا کریں گے؟
/۔ میں نے تو پہلے ہی ابن جریر طبری کا موقف پیش کر دیا ہے۔ اب آپکا اس موقف کو چھوڑ کر/ نظر انداز کر کے دوسری آیات کی تفسیر کے متعلق دعوی کرنے کا مطلب سوائے اسکے کچھ نہیں کہ امام طبری معاذ اللہ معاذ اللہ تضادات کا شکار ہیں۔
باخدا امام طبری تضادات کا شکار نہیں۔
اور ابن حجر العسقلانی اور ابن کثیر نے جو انکی تفسیر سے سمجھا ہے وہ بھی تضادات نہیں۔
۔۔۔۔ بلکہ صرف اور صرف آپکی روش و رویہ تضادات کا شکار ہے

تو آئیے دیکھتے ہیں کہ امام طبری ان تینوں آیات کے ذیل میں کیا فرما رہے ہیں:

سورۃ الفاطر کو اوپر نقل کیا جا چکا ہے۔۔۔۔ مگر اس سے آنکھیں پھیری جا چکی ہیں اور نظر انداز کیا جا چکا ہے اور نئی چیزوں کی ڈیمانڈ ہے۔

چلیں سورۃ النمل کی طرف چلتے ہیں۔
[القران 27:80] { إِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ ٱلْمَوْتَىٰ وَلاَ تُسْمِعُ ٱلصُّمَّ ٱلدُّعَآءَ إِذَا وَلَّوْاْ مُدْبِرِينَ }
ترجمہ اور فٹ نوٹ از ڈاکٹر طاہر القادری] 80. (اے حبیب!) بے شک آپ نہ تو ان مردوں (یعنی حیات ایمانی سے محروم کافروں) کو اپنی پکار سناتے ہیں اور نہ ہی (صدائے حق کی سماعت سے محروم) بہروں کو، جب کہ وہ (آپ ہی سے) پیٹھ پھیرے جا رہے ہوں٭o ٭ یہاں پر الْمَوْتٰی (مُردوں) اور الصُّمَّ (بہروں) سے مراد کافر ہیں۔ صحابہ و تابعین رضی اللہ عنھم سے بھی یہی معنٰی مروی ہے۔ مختلف تفاسیر سے حوالے ملاحظہ ہوں : تفسیر اللباب لابن عادل الدمشقی (16 : 126)، تفسیر الطبری (20 : 12)، تفسیر القرطبی (13 : 232)، تفسیر البغوی (3 : 428)، زاد المسیر لابن الجوزی (6 : 189)، تفسیر ابن کثیر (3 : 375، 439)، الدر المنثور للسیوطی (6 : 376)، اور فتح القدیر للشوکانی (4 : 150)۔

[تفسیر از امام طبری] { إنَّكَ لا تُسْمِعُ ال۔مَوْتَ۔ى } يقول: إنك يا م۔حمد لا تقدر أن تُفهِم ال۔حقّ من طبع الله عل۔ى قلبه فأماته، لأن الله قد خت۔م عل۔يه أن لا يفهمه
یہاں بھی بات صاف ہے کہ امام طبری "تسمع" سے مراد فہم دین و حق اور دلوں کا مردہ ہو جانا مراد لے رہے ہیں۔
حافظ عسقلانی و ابن کثیر انکی تائید کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری [جنکا علم اور فہم یقینا مجھ سے اور آپ سے زیادہ ہے، وہ یہاں امام طبری کے متعلق گواہی دے رہے ہیں۔

تو اب بتلائیے کہ شکوک کون پیدا کر رہا ہے؟
//////////////////////////////////////////////////

اگلی آیت سورۃ الروم پر چلتے ہیں:
{ فَإِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ ٱلْمَوْتَىٰ وَلاَ تُسْمِعُ ٱلصُّمَّ ٱلدُّعَآءَ إِذَا وَلَّوْاْ مُدْبِرِينَ } * { وَمَآ أَنتَ بِهَادِ ٱلْعُمْيِ عَن ضَلاَلَتِهِمْ إِن تُسْمِعُ إِلاَّ مَن يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُمْ مُّسْلِمُونَ }
[ترجمہ ڈاکٹر طاہر القادری]. پس (اے حبیب!) بے شک آپ نہ تو اِن مُردوں (یعنی حیاتِ ایمانی سے محروم کافروں) کو اپنی پکار سناتے ہیں اور نہ ہی (صدائے حق کی سماعت سے محروم) بہروں کو، جب کہ وہ (آپ ہی سے) پیٹھ پھیرے جا رہے ہوں٭ اور نہ ہی آپ (ان) اندھوں کو (جو محرومِ بصیرت ہیں) گمراہی سے راہِ ہدایت پر لانے والے ہیں، آپ تو صرف انہی لوگوں کو سناتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لے آتے ہیں، سو وہی مسلمان ہیں۔
نوٹ:
اگر دل سچے ہیں تو اس آیت کی تو کسی تفسیر کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ اللہ تعالی نے بذات خود اس آیت میں "سنانے" کا مفہوم بالکل صاف اور واضح بیان کر دیا ہے [یعنی آپ صرف انہیں سنا سکتے ہیں [یعنی ہدایت دے سکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں]

باخدا اتنی صاف و واضح آیت کے متعلق بھی کوئی علم آ جانے کے بعد شکوک و شبہات پیدا کر سکتا ہے؟؟؟

اور امام طبری بھی اس لیے اس آیت کی تفسیر میں صاف صاف یہی مفہوم بیان کر رہے ہیں۔

يقول تعال۔ى ذكره: { فإنَّكَ } يا م۔حمد { لا تُسْمِعُ ال۔مَوْتَ۔ى } يقول: لا ت۔جعل لهم أسماعاً يفهمون بها عنك ما تقول لهم، وإن۔ما هذا مثل معناه: فإنك لا تقدر أن تفهم هؤلاء ال۔مشركين الذين قد خت۔م الله عل۔ى أسماعهم، فسلبهم فهم ما يُتل۔ى عل۔يهم من مواعظ تنزي۔له، كما لا تقدر أن تفهم ال۔موت۔ى الذين قد سلبهم الله أسماعهم، بأن ت۔جعل لهم أسماعاً.

آنلائن لنک

یہاں پر تو صاف طور پر امام طبری کہہ رہے ہیں کہ سماعت سے مراد یہاں فہم ہے اور مردوں سے مراد کفار ہیں۔
تو باذوق برادر، اگر اب بھی کچھ دعوی ہے تو لے آئیے پھر اپنا ترجمہ اور ثابت کیجئے اپنا موقف۔ بس اتنی استدعا ہے کہ تفسیر ابن کثیر کے اردو ترجمے کی طرح تفسیر طبری کی سرے سے ہی تحریف نہ کر دیجئیے گا اور اسکی جگہ اپنے الفاظ میں بالکل الٹے معنی پہنا کر اور پھر اسے "تفسیر طبری" کا نام دے کر نہ پیش کیجئے گا۔ [جیسا کہ تفسیر ابن کثیر کے اردو ترجمے کے ساتھ کیا گیا]

اور خدا اسکا رسول ص اور فرشتے گواہ ہیں کہ میں نے اپنا پیغام واضح اور صاف طریقے سےپہنچا دیا ہے۔ اگر اب بھی کوئی نہیں سمجھتا اور شکوک و شبہات میں مبتلا رہتا ہے تو اللہ فرما رہا ہے کہ ایسوں کو میں کبھی حق بات نہیں سنا سکتی اور نہ ہی انہیں انکے شکوک و شبہات سے نکال سکتی ہوں۔ یہ بس اللہ ہی ہے جو اب کسی کو ہدایت دینا چاہے تو دے دے۔
 

باذوق

محفلین
2) اور آپکو دوسری دعوت یہ ہے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کوئی "صرف ایک" حدیث ایسی پیش کر دیں جو کہ بیان کر رہی ہو مردے سن نہیں سکتے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث سے مراد قول یا فعل یا تقریرِ رسول ہے ۔۔۔۔ جبکہ کسی صحابی کا اجتہاد "حدیثِ رسول" نہیں کہلاتا۔
کیا واقعی آپ کو اپنی " تحقیق " کے دوران ایک حدیث بھی نہیں مل سکی ؟؟
حالانکہ ایک صحیح حدیث مسند احمد میں موجود ہے ۔۔۔۔ اور وہ " تقریری حدیث " ہے !!
اور اس تقریری حدیث سے سماع موتیٰ کی صریح نفی ہوتی ہے (بعض استثنائی صورتوں کو چھوڑ‌ کر)۔
اگر آپ واقعی میں اس حدیث سے لاعلم ہیں تو بتائیے گا۔
 

باذوق

محفلین
ڈاکٹر طاہر القادری [جنکا علم اور فہم یقینا مجھ سے اور آپ سے زیادہ ہے، وہ یہاں امام طبری کے متعلق گواہی دے رہے ہیں۔

{ فَإِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ ٱلْمَوْتَىٰ وَلاَ تُسْمِعُ ٱلصُّمَّ ٱلدُّعَآءَ إِذَا وَلَّوْاْ مُدْبِرِينَ } * { وَمَآ أَنتَ بِهَادِ ٱلْعُمْيِ عَن ضَلاَلَتِهِمْ إِن تُسْمِعُ إِلاَّ مَن يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُمْ مُّسْلِمُونَ}
[ترجمہ ڈاکٹر طاہر القادری]. پس (اے حبیب!) بے شک آپ نہ تو اِن مُردوں (یعنی حیاتِ ایمانی سے محروم کافروں) کو اپنی پکار سناتے ہیں اور نہ ہی (صدائے حق کی سماعت سے محروم) بہروں کو، جب کہ وہ (آپ ہی سے) پیٹھ پھیرے جا رہے ہوں٭ اور نہ ہی آپ (ان) اندھوں کو (جو محرومِ بصیرت ہیں) گمراہی سے راہِ ہدایت پر لانے والے ہیں، آپ تو صرف انہی لوگوں کو سناتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لے آتے ہیں، سو وہی مسلمان ہیں۔
آپ براہ مہربانی میرے سامنے کسی محترم پروفیسر صاحب کے چٹکلے مت سنائیں۔ ہاں حوالہ دینا ہو تو علامہ البانی رحمة اللہ علیہ کا دیں جن کی علمی و تحقیقی حیثیت متفق علیہ ہے۔
اور علامہ البانی سماع موتیٰ سے متعلق ایک کتاب کے مقدمے میں اسی آیت کو پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے اندر جہاں کفار کو مُردوں کے مانند قرار دیا ہے وہیں بہرا بھی شمار کیا ہے۔
"بہرے" کے کون سے معنی معروف ہیں ؟؟
1۔ یہ کہ ۔۔۔۔ بہرے بھی سنتے ہیں لیکن ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا؟
2۔ یا یہ کہ ۔۔۔ بہرے نہیں سنتے ؟

ظاہر ہے معروف بات یہی ہے کہ : بہرے نہیں سنتے !!
مزے کی بات دیکھئے کہ خود پروفیسر قادری صاحب قوسین میں لکھتے ہیں :
(صدائے حق کی سماعت سے محروم) بہروں کو،

یعنی قادری صاحب مانتے ہیں کہ : بہرا سماعت سے محروم ہوتا ہے ۔۔۔

اب بہرے کی تمثیل ، کافر کو دے کر پروفیسر صاحب سمجھا رہے ہیں کہ :
جس طرح "بہرا" سماعت سے محروم ہوتا ہے ، اسی طرح کافر بھی
"صدائے حق کی سماعت سے محروم" ہوتا ہے !!

تو حیرت کی بات یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔
یہی مثال جب مُردے کے لیے آئے تو وہاں مُردے کے نہ سننے سے انکار کر کے مجازی معنی / مجازی معنی کی رَٹ لگا دی جاتی ہے۔

آخر کیوں؟؟

آخر دنیا کی وہ کون سی ڈکشنری ہے جہاں "بہروں" کی یہ "صفت" بھی درج ہے کہ وہ سنتے بھی ہیں ؟؟
اگر بہرے سنتے ہوتے تو انہیں "بہرا" کا لقب دینے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئے ؟؟

صاحبانِ علم سے درخواست ہے کہ ذرا یہ معمہ بھی حل کریں۔

مزید آپ نے لکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور امام طبری بھی اس لیے اس آیت کی تفسیر میں صاف صاف یہی مفہوم بیان کر رہے ہیں۔

يقول تعال۔ى ذكره: { فإنَّكَ } يا م۔حمد { لا تُسْمِعُ ال۔مَوْتَ۔ى } يقول: لا ت۔جعل لهم أسماعاً يفهمون بها عنك ما تقول لهم، وإن۔ما هذا مثل معناه: فإنك لا تقدر أن تفهم هؤلاء ال۔مشركين الذين قد خت۔م الله عل۔ى أسماعهم، فسلبهم فهم ما يُتل۔ى عل۔يهم من مواعظ تنزي۔له، كما لا تقدر أن تفهم ال۔موت۔ى الذين قد سلبهم الله أسماعهم، بأن ت۔جعل لهم أسماعاً.
آنلائن لنک

یہاں پر تو صاف طور پر امام طبری کہہ رہے ہیں کہ سماعت سے مراد یہاں فہم ہے اور مردوں سے مراد کفار ہیں۔
تو باذوق برادر، اگر اب بھی کچھ دعوی ہے تو لے آئیے پھر اپنا ترجمہ اور ثابت کیجئے اپنا موقف۔ بس اتنی استدعا ہے کہ تفسیر ابن کثیر کے اردو ترجمے کی طرح تفسیر طبری کی سرے سے ہی تحریف نہ کر دیجئیے گا اور اسکی جگہ اپنے الفاظ میں بالکل الٹے معنی پہنا کر اور پھر اسے "تفسیر طبری" کا نام دے کر نہ پیش کیجئے گا۔ [جیسا کہ تفسیر ابن کثیر کے اردو ترجمے کے ساتھ کیا گیا]
آپ نے یہ جو تفسیر طبری 30:52 کا آن لائن لنک دیا ہے ۔۔۔۔۔ وہاں سے آپ نے صرف دو تین سطریں ہی کاپی کی ہیں ۔۔۔۔۔
پوری تفسیر تو یوں ہے :
[arabic]يقول تعال۔ى ذكره: { فإنَّكَ } يا م۔حمد { لا تُسْمِعُ ال۔مَوْتَ۔ى } يقول: لا ت۔جعل لهم أسماعاً يفهمون بها عنك ما تقول لهم، وإن۔ما هذا مثل معناه: فإنك لا تقدر أن تفهم هؤلاء ال۔مشركين الذين قد خت۔م الله عل۔ى أسماعهم، فسلبهم فهم ما يُتل۔ى عل۔يهم من مواعظ تنزي۔له، كما لا تقدر أن تفهم ال۔موت۔ى الذين قد سلبهم الله أسماعهم، بأن ت۔جعل لهم أسماعاً.

قوله: { وَلا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعاءَ } يقول: وكما لا تقدر أن تُسمع الصمّ الذين قد سلبوا السمع الدعاء، إذا هم وَلَّوا عنك مدبرين، كذلك لا تقدر أن توفق هؤلاء الذين قد سلبهم الله فهمَ آيات كتابه، لسماع ذلك وفهمه. وبن۔حو الذي قلنا ف۔ي ذلك قال أهل التأوي۔ل. ذكر من قال ذلك:

حدثنا بشر، قال: ثنا يزيد، قال: ثنا سعيد، عن قَتادة، قوله: { فإنَّكَ لا تُسْمِعُ ال۔مَوْتَ۔ى }: هذا مَثَل ضربه الله للكافر فكما لا يسمع ال۔ميت الدعاء، كذلك لا يسمع الكافر. { وَلا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعاءَ إذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ } يقول: لو أن أصمَّ ولَّ۔ى مدبراً ثم ناديته ل۔م يسمع، كذلك الكافر لا يسمع ولا ينتفع ب۔ما يسمع.


وقوله: { وَما أنْتَ بِهادِ العُمْيِ عَنْ ضَلالَتِهِمْ } يقول تعال۔ى ذكره: وما أنت يا م۔حمد ب۔مسدّد من أعماه الله عن الاستقامة، وَمَ۔حجة ال۔حقّ، فل۔م يوفقه لإصابة الرشد، فصارِفه عن ضلالته الت۔ي هو عل۔يها، وركوبه ال۔جائر من الطرق، إل۔ى سب۔ي۔ل الرشاد، يقول: ل۔يس ذلك ب۔يدك ولا إل۔يك، ولا يقدر عل۔ى ذلك أحد غيري، لأن۔ي القادر عل۔ى كل شيء. وق۔ي۔ل: بهادي العمي عن ضلالتهم، ول۔م يقل: من ضلالتهم. لأن معنى الكلام ما وَصَفْت، من أنه: وما أنت بصارفهم عنه، فحمل عل۔ى ال۔معنى. ولو ق۔ي۔ل: من ضلالتهم كان صواب۔اً. وكان معناه: ما أنت ب۔مانعهم من ضلالتهم.

وقوله: { إنْ تُسْمِعُ إلاَّ مَنْ يُؤْمِنُ بآياتِنا } يقول تعال۔ى ذكره لنب۔يه: ما تسمع السماع الذي ينتفع به سامعه ف۔يعقله، إلاَّ من يؤمن بآياتنا، لأن الذي يؤمن بآياتنا إذا سمع كتاب الله تدبَّره وفهمه وعقَله، وعمل ب۔ما ف۔يه، وانتهى إل۔ى حدود الله، الذي حدّ ف۔يه، فهو الذي يسمع السماع النافع.

وقوله: { فَهُمْ مُسْلِ۔مُونَ } يقول: فهم خاضعون لله بطاعته، متذللون ل۔مواعظ كتابه.[/arabic]
براہ مہربانی سرخ الفاظ کا اردو ترجمہ خود کر دیجئے ۔۔۔۔ میرے پاس ایک مصنف کا اردو ترجمہ موجود ہے لیکن چونکہ آپ کو غیروں کے ترجمہ پر اعتماد نہیں ہے ۔۔۔۔ لہذا بہتر ہے آپ ہی کر دیں ۔۔۔۔ پھر دیکھتے ہیں کہ امام طبری درحقیقت کیا فرما رہے ہیں ؟؟
 

مہوش علی

لائبریرین
کیا واقعی آپ کو اپنی " تحقیق " کے دوران ایک حدیث بھی نہیں مل سکی ؟؟
حالانکہ ایک صحیح حدیث مسند احمد میں موجود ہے ۔۔۔۔ اور وہ " تقریری حدیث " ہے !!
اور اس تقریری حدیث سے سماع موتیٰ کی صریح نفی ہوتی ہے (بعض استثنائی صورتوں کو چھوڑ‌ کر)۔
اگر آپ واقعی میں اس حدیث سے لاعلم ہیں تو بتائیے گا۔

باذوق صاحب،
خود ہی بتلائیے یہ طرز عمل کیا ہے کہ پہلے امام قرطبی اور پھر امام طبری کے حوالے سے مسلسل شکوک و شبہات پیدا کرتے رہے، اور اب اسے مکمل نظر انداز کرنے کے بعد اگلی بحث میں پڑ رہے ہیں۔

اور آپ لوگوں نے قرانی آیات کی تفسیر کے متعلق ہی شکوک و شبہات اتنے پیدا کیے کہ مجھے احادیث نبوی تک آنے کا موقع ہی نہیں مل سکا حالانکہ احادیث نبوی بھی اس سلسلے میں بالکل واضح، صاف اور روشن ہیں [اور یہ سب آپ القلم والے آرٹیکل میں پڑھ سکتے ہیں]

تو اگر آپ کو پچھلے قرانی تفاسیر اور تقریبا جمہور علماء کے اجماع کو نظر انداز کرتے ہوئے حدیث سیکشن کی طرف آنا ہی ہے تو آپ سے درخواست ہے کہ آپ ایک نہیں، بلکہ آپکے زعم کے مطابق جتنی بھی احادیث سماعت موتی کا انکار کر رہی ہیں، انہیں یہاں بیان فرما دیجیئے [ویسے رسول ص کی احادیث جو سماعت موتی کو ثابت کر رہی ہیں انکی تعداد تو بہت ہے، مگر جواب میں کھینچ تان کر اگر ان میں سے کسی کو آپ سماعت موتی کی نفی پر چسپاں کر بھی دیں تو بھی شاید بمشکل انکی تعداد ایک سے بڑھ کر دو ہو پائے۔

تو اب براہ مہربانی آپکے زعم کے مطابق جتنی احادیث سماعت موتی کا انکار کر رہی ہیں، وہ تمام کی تمام یہاں بیان فرما دیجئیے۔ شکریہ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
آپ براہ مہربانی میرے سامنے کسی محترم پروفیسر صاحب کے چٹکلے مت سنائیں۔ ہاں حوالہ دینا ہو تو علامہ البانی رحمة اللہ علیہ کا دیں جن کی علمی و تحقیقی حیثیت متفق علیہ ہے۔
محترم ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی علمی کاوشوں کو یوں چٹکلوں کا نام دے کر انکا مذاق اڑانا افسوسناک ہے۔
اگر آپکے پاس انکے موقف کے خلاف دلائل ہیں تو انہیں پیش فرمائیے، مگر یوں چٹکلے کے نام پر ٹھٹھہ لگا کر انکے علمی دلائل کا انکار کر دینا ظلم و جہالت کی نشانی ہے۔

البانی صاحب کا قیاس بالمقابل علمائے سلف
از باذوق:
اور علامہ البانی سماع موتیٰ سے متعلق ایک کتاب کے مقدمے میں اسی آیت کو پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے اندر جہاں کفار کو مُردوں کے مانند قرار دیا ہے وہیں بہرا بھی شمار کیا ہے۔
"بہرے" کے کون سے معنی معروف ہیں ؟؟
1۔ یہ کہ ۔۔۔۔ بہرے بھی سنتے ہیں لیکن ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا؟
2۔ یا یہ کہ ۔۔۔ بہرے نہیں سنتے ؟
ظاہر ہے معروف بات یہی ہے کہ : بہرے نہیں سنتے !!

بلا شبہ یہاں بہرے سے مراد "حقیقی بہرے لوگ" نہیں ہیں، بلکہ صرف اور صرف کافروں کے لیے یہ لفظ استعارتا استعمال کیا گیا ہے۔

اور ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کو چٹکلے باز دکھا کر جو البانی صاحب کی شان میں قصیدہ پڑھا جا رہا ہے ، تو اسکا اندازہ آپ کو خود اُس وقت ہو جائے گا جب علمائے سلف صالحین بھی البانی صاحب کو جھٹلاتے ہوئے ان آیات میں "بہرے" کے وہی معنی بیان کرنے نظر آئیں گے جو کہ محترم طاہر القادری صاحب نے بیان کیا ہے۔ [شکر الحمد للہ]

1۔ امام ابن جریر طبری اس آیت کے ذیل میں پہلے خود البانی صاحب کا رد کر رہے ہیں اور پھر قتادہ کا قول پیش کر رہے ہیں کہ یہاں بہروں سے مراد کافر ہیں۔
قوله: { وَلا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعاءَ } يقول: وكما لا تقدر أن تُسمع الصمّ الذين قد سلبوا السمع الدعاء، إذا هم وَلَّوا عنك مدبرين، كذلك لا تقدر أن توفق هؤلاء الذين قد سلبهم الله فهمَ آيات كتابه، لسماع ذلك وفهمه. وبن۔حو الذي قلنا ف۔ي ذلك قال أهل التأوي۔ل. ذكر من قال ذلك:
حدثنا بشر، قال: ثنا يزيد، قال: ثنا سعيد، عن قَتادة، قوله: { فإنَّكَ لا تُسْمِعُ ال۔مَوْتَ۔ى }: هذا مَثَل ضربه الله للكافر فكما لا يسمع ال۔ميت الدعاء، كذلك لا يسمع الكافر. { وَلا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعاءَ إذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ } يقول: لو أن أصمَّ ولَّ۔ى مدبراً ثم ناديته ل۔م يسمع، كذلك الكافر لا يسمع ولا ينتفع ب۔ما يسمع.


امام قرطبی "بہرے" سے کفار مراد لے کر البانی صاحب کو جھٹلاتے ہوئے اور طاہر القادری صاحب کی تائید کرتے ہوئے
{ وَلاَ تُسْمِعُ ٱلصُّمَّ ٱلدُّعَآءَ } يعني الكفار الذين هم بمنزلة الصم عن قبول المواعظ؛ فإذا دعوا إلى الخير أعرضوا وولّوا كأنهم لا يسمعون؛ نظيره:
آنلائن لنک

امام ابن کثیر "بہرے" سے دلوں کا بہرا ہونا لے کر البانی صاحب کو جھٹلاتے ہوئے اور طاہر القادری صاحب کی تائید کرتے ہوئے
{ وَلاَ تُسْمِعُ ٱلصُّمَّ ٱلدُّعَآءَ إِذَا وَلَّوْاْ مُدْبِرِينَ وَمَآ أَنتَ بِهَادِي ٱلْعُمْيِ عَن ضَلالَتِهِمْ إِن تُسْمِعُ إِلاَّ مَن يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُم مُّسْلِمُونَ } أي: إنما يستجيب لك من هو سميع بصير، السمع والبصر النافع في القلب والبصيرة، الخاضعُ لله ولما جاء عنه على ألسنة الرسل عليهم السلام.
آنلائن لنک

اب آپ البانی صاحب کو اور کتنا بیچ میں گھسیٹ گھسیٹ کر بدنام کروائیں گے؟ کیا کافی ہو گیا یا پھر اور بے تحاشہ تفاسیر کو بھی پیش کروں؟
////////////////////////////////////////////////
ظاہر پرستی کے فتنے کی مزید مثال
یہ ظاہر پرستی وہ بیماری ہے کہ جسکا فتنہ نہ ختم ہونے والا ہے۔ باذوق صاحب مزید لکھتے ہیں:
از باذوق
مزے کی بات دیکھئے کہ خود پروفیسر قادری صاحب قوسین میں لکھتے ہیں :
(صدائے حق کی سماعت سے محروم) بہروں کو،
یعنی قادری صاحب مانتے ہیں کہ : بہرا سماعت سے محروم ہوتا ہے ۔۔۔
اب بہرے کی تمثیل ، کافر کو دے کر پروفیسر صاحب سمجھا رہے ہیں کہ :
جس طرح "بہرا" سماعت سے محروم ہوتا ہے ، اسی طرح کافر بھی
"صدائے حق کی سماعت سے محروم" ہوتا ہے !!

تو حیرت کی بات یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔
یہی مثال جب مُردے کے لیے آئے تو وہاں مُردے کے نہ سننے سے انکار کر کے مجازی معنی / مجازی معنی کی رَٹ لگا دی جاتی ہے۔
آخر کیوں؟؟
آخر دنیا کی وہ کون سی ڈکشنری ہے جہاں "بہروں" کی یہ "صفت" بھی درج ہے کہ وہ سنتے بھی ہیں ؟؟
اگر بہرے سنتے ہوتے تو انہیں "بہرا" کا لقب دینے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئے ؟؟
صاحبانِ علم سے درخواست ہے کہ ذرا یہ معمہ بھی حل کریں۔

محترم ڈاکٹر طاہر القادری نے جو کچھ لکھا ہے، وہ بالکل حق ہے اور علمائے سلف صالحین اور ابن حجر عسقلانی اور ابن کثیر دمشقی کے نزدیک تقریبا یہ جمہور علماء کا موقف ہے اور اس پر انکا اجماع ہے۔

بجائے اسکے کہ میں مزید باذوق صاحب کے ان مسلسل پیدا کیے گئے شکوک و وسوسوں پر تبصرہ کروں، میں اس آیت مبارکہ کو بمع اسکی اگلی آیت کے سامنے پیش کر دیتی ہوں اور پھر دیکھتے ہیں ظاہر پرست حضرات کا یہ ٹولہ اس مرتبہ بذات خود مجاز کی طرف بھاگتا ہے یا نہیں۔

[سورہ الروم آیات 52 تا 53] فَإِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَOوَمَا أَنتَ بِهَادِي الْعُمْيِ عَن ضَلَالَتِهِمْ إِن تُسْمِعُ إِلَّا مَن يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُم مُّسْلِمُونَO
ترجمہ:
پس بے شک آپ نہ تو اِن مُردوں (یعنی حیاتِ ایمانی سے محروم کافروں) کو اپنی پکار سناتے ہیں اور نہ ہی (صدائے حق کی سماعت سے محروم) بہروں کو، جب کہ وہ (حق سے) پیٹھ پھیرے جا رہے ہوںo اور نہ ہی آپ (ان) اندھوں کو (جو دل کی بصیرت سے محروم ہیں) گمراہی سے راہِ ہدایت پر لانے والے ہیں، آپ تو صرف انہی لوگوں کو سناتے ہیں [ہدایت دے سکتے ہیں] جو ہماری آیتوں پر ایمان لے آتے ہیں ، سو وہی مسلمان ہیںo

اللہ تعالی نے یہ آیت اتنی واضح بیان کر دی ہے کہ اگر اب بھی یہ اپنے ظاہر پرستی کے فتنے سے باز نہیں آتے تو پھر یہ تمام کے تمام نابینا مسلمانوں کو گمراہی میں دھکیل دیں گے کہ جہاں سے کوئی انہیں نہیں نکال سکتا۔
تو حضرات کیا آپ میں سے کوئی بھی ایسی بے سرو پا بات کو قبول کر سکتا ہے کہ تمام کے تمام نابینا مسلمان تاریکیوں میں پڑے ہوئے ہیں؟؟؟؟ کیا اب یہاں پر خود یہ ظاہر کو چھوڑ کر مجاز کا رخ نہیں کریں گے؟
اللہ تعالی انہیں ہدایت دے کہ واضح نشانیاں آنے کے بعد حیلے حجتیں بنانا انتہائی بدقسمتی ہے اور موجب عذاب ہے۔
/////////////////////////////////////////////////
از باذوق:
مزید آپ نے لکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ نے یہ جو تفسیر طبری 30:52 کا آن لائن لنک دیا ہے ۔۔۔۔۔ وہاں سے آپ نے صرف دو تین سطریں ہی کاپی کی ہیں ۔۔۔۔۔
پوری تفسیر تو یوں ہے :

براہ مہربانی سرخ الفاظ کا اردو ترجمہ خود کر دیجئے ۔۔۔۔ میرے پاس ایک مصنف کا اردو ترجمہ موجود ہے لیکن چونکہ آپ کو غیروں کے ترجمہ پر اعتماد نہیں ہے ۔۔۔۔ لہذا بہتر ہے آپ ہی کر دیں ۔۔۔۔ پھر دیکھتے ہیں کہ امام طبری درحقیقت کیا فرما رہے ہیں ؟؟

خدارا بہت ہو گیا باذوق بھائی۔
ہر چیز کی انتہا ہوتی ہے۔ مگر یہاں غلط بات پر جمے رہنے کی کوئی انتہا ہی سامنے نہیں آ پا رہی ہے۔
میرا کام صرف نصوص و دلائل کو واضح طریقے سے پہنچا دینا ہے، جو کہ میں نے کر دیا ہے۔ باقی اللہ اور اسکا رسول اور اسکے فرشتے آپکے اعمال پر بہترین گواہ ہیں۔

آپ ایسا کریں کہ جس مصنف کا ترجمہ کردہ تفسیر آپکے پاس ہے ، اس میں سے ان تینوں آیات کی تفسیر مکمل طور پر سکین کر کے اپلوڈ کر دیں۔ باقی باتیں پھر ہوں گی۔
والسلام
 

مہوش علی

لائبریرین
پی ایس:
اقتباس:
از باذوق:
اور علامہ البانی سماع موتیٰ سے متعلق ایک کتاب کے مقدمے میں اسی آیت کو پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
اقتباس:
اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے اندر جہاں کفار کو مُردوں کے مانند قرار دیا ہے وہیں بہرا بھی شمار کیا ہے۔
"بہرے" کے کون سے معنی معروف ہیں ؟؟
1۔ یہ کہ ۔۔۔۔ بہرے بھی سنتے ہیں لیکن ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا؟
2۔ یا یہ کہ ۔۔۔ بہرے نہیں سنتے ؟
ظاہر ہے معروف بات یہی ہے کہ : بہرے نہیں سنتے !!

آپ سے درخواست ہے کہ ریکارڈ کے لیے البانی صاحب نے جس کتاب کے مقدمے میں یہ بیان جاری کیا ہے، اس کتاب کا نام بتلا دیجئے۔
نیز ریکارڈ کے لیے اُس کتاب کا نام اور لنک بھی مہیا فرما دیں جہاں پر البانی صاحب فرما رہے کہ تبرکات نبوی کی تعظیم صرف کفار کر ڈرانے کے لیے تھی اور رسول ص اپنی زندگی میں صحابہ کو اس سے موڑ چکے تھے۔
امید تو کم ہے کہ ریکارڈ کے لیے آپ البانی صاحب کے ان دو فتاوی کا حوالہ دیں گے۔۔۔ بہرحال ہم حسن ظن تو رکھ ہی سکتے ہیں۔
 

باذوق

محفلین
محترم نبیل صاحب سے گذارش ہے کہ اس تھریڈ کو مزید ایک دن کی مہلت دی جائے ، بہت شکریہ ہوگا۔

مہوش صاحبہ ، باقی باتیں تو ان شاءاللہ کل ہوں گی۔
لیکن آپ نے تفسیر طبری کا وہ اردو ترجمہ نہیں لکھا جس کو میں نے سرخ الفاظ سے ہائی لائیٹ کیا تھا۔ (میری پوسٹ نمبر:49)
اگر آپ کہیں تو میں‌ لگا دوں اردو ترجمہ ؟؟
 

مہوش علی

لائبریرین
لیکن آپ نے تفسیر طبری کا وہ اردو ترجمہ نہیں لکھا جس کو میں نے سرخ الفاظ سے ہائی لائیٹ کیا تھا۔ (میری پوسٹ نمبر:49)
اگر آپ کہیں تو میں‌ لگا دوں اردو ترجمہ ؟؟

میں نے کتنے تو صاف الفاظ میں آپ کو لکھا تھا:
از مہوش:
آپ ایسا کریں کہ جس مصنف کا ترجمہ کردہ تفسیر آپکے پاس ہے ، اس میں سے ان تینوں آیات کی تفسیر مکمل طور پر سکین کر کے اپلوڈ کر دیں۔ باقی باتیں پھر ہوں گی۔

تو میں اس سے زیادہ صاف الفاظ میں آپکے سوال کا جواب نہیں دے سکتی۔
اب آپ ان تینوں آیات کی تفاسیر مکمل طور پر سکین کر کے پیش کر ہی دیں۔

اگر مترجم نے سچائی کے ساتھ ترجمہ کیا ہو گا تو وہ آپ ہی کے موقف کے خلاف جائے گا۔ اور اگر تفسیر ابن کثیر کی طرح تحریف سے کام لیا ہو گا تو یہ جرم بھی آپکے خلاف ریکارڈ میں درج ہو جائےگا۔

آپ نے البانی صاحب کے ان دو فتووں کے متعلق کتاب کا حوالہ اور آنلائن لنک نہیں دیا ہے۔ کیا امید کی جا سکتی ہے کہ آپ یہ ہمیں مہیا کریں گے؟
 

باذوق

محفلین
مہوش علی نے کہا:
البانی صاحب کا قیاس بالمقابل علمائے سلف
بلا شبہ یہاں بہرے سے مراد "حقیقی بہرے لوگ" نہیں ہیں، بلکہ صرف اور صرف کافروں کے لیے یہ لفظ استعارتا استعمال کیا گیا ہے۔
امام ابن جریر طبری اس آیت کے ذیل میں پہلے خود البانی صاحب کا رد کر رہے ہیں اور پھر قتادہ کا قول پیش کر رہے ہیں کہ یہاں بہروں سے مراد کافر ہیں۔
ہیں جی ؟؟
میں نے البانی صاحب کی جو وضاحت لگائی ۔۔۔۔ اس میں یہ کہاں لکھا ہے کہ علامہ البانی نے آیت میں درج "بہرے" سے مراد "حقیقی بہرے" لیا ہے؟؟
ایک بار پھر غور سے پڑھئے :
اصل عربی متن : [ARABIC]فقد شبههم الله تعالى ۔۔ أعني موتى الأحياء من الكفار۔۔ بالصم أيضا[/ARABIC]
اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے اندر جہاں کفار کو مُردوں کے مانند قرار دیا ہے وہیں بہرا بھی شمار کیا ہے۔

صاف ہی تو لکھا ہے کہ : اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کفار کو مُردوں اور بہروں کے مانند قرار دیا ہے۔

محترمہ مہوش علی کو سارے مغالطے شائد اس لیے پیش آ رہے ہیں کہ وہ قرآن کے ایک معروف طرزِ بیان "امثالِ قرآن" سے یا تو ناواقف ہیں یا جان بوجھ کر نظریں چرانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ان کے لیے بہترین اور اولین مشورہ یہ ہے کہ وہ امام ابن قیم کی کتاب "الامثال في القرآن الكريم" کا پہلی فرصت میں مطالعہ کرلیں۔

امام ابن قیم "تمثیل" کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
تمثیل کی غرض یہ ہوتی ہے کہ کسی غیرواضح اور غیرمحسوس حقیقت کو مخاطب کے فہم سے قریب تر لانے کے لیے کسی ایسی چیز سے تشبیہ دی جائے جو واضح اور محسوس ہو۔
۔۔۔۔ قرآن مجید میں تمثیلات کا مضمون بڑی اہمیت رکھتا ہے اور اس میں تدبر کرنا مطالبِ قرآن کو سمجھنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔

جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ نے کفار کو چوپایوں سے تشبیہ دی ہے۔
[ARABIC]أم تحسب أن أكثرهم يسمعون أو يعقلون إن هم إلا كالأنعام بل هم أضل سبيلا[/ARABIC]
امام ابن قیم لکھتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر نسل انسانی کے کج فطرت طبقہ کی تشبیہ چوپایوں سے دی ہے۔
وجہ مشابہت "ہدایت کا عدم قبول" ہے ، جس میں دونوں گروہ یکساں طور پر شریک ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔


بالکل اسی طرح درج بحث آیت میں کفار کو جو بہروں سے تشبیہ دی گئی ہے ۔۔۔۔ اس میں وجۂ مشابہت ، بہروں کی خصوصیت یعنی : عدم سماعت ہے !
جیسا کہ خود طاہر القادری صاحب قوسین میں لکھتے ہیں :
(صدائے حق کی سماعت سے محروم)

اور ۔۔۔۔ بالکل اسی طرح اسی درج بحث آیت میں کفار کو مُردوں سے بھی مشابہت دی گئی ہے ۔۔۔۔ اور اس مشابہت میں وجۂ مشابہت : سماعت/بصارت/فہم ہے !
جیسا کہ خود طاہر القادری صاحب کا ترجمہ ہے :
پس بے شک آپ نہ تو اِن مُردوں کو اپنی پکار سناتے ہیں ۔۔۔۔

پس ثابت ہوا کہ جس طرح "مُردہ" اور "بہرہ" سماعت سے محروم ہوتے ہیں اسی طرح کافر بھی ۔۔۔ (بقول طاہر القادری) صدائے حق کی سماعت سے محروم ہوتے ہیں۔

"امثالِ قرآن" کے اتنے معروف اندازِ بیان کو تو کسی دینی مدرسے کا ایک معمولی طالب علم بھی سمجھ لیتا ہے۔ اس کے باوجود سخت حیرت ہے کہ ۔۔۔۔ کیوں اتنے آسان سے معاملے کو "ظاہر پرستی" کی بےتکی بحث سے جوڑا جا رہا ہے؟؟

علمائے سلف صالحین بھی البانی صاحب کو جھٹلاتے ہوئے ان آیات میں "بہرے" کے وہی معنی بیان کرنے نظر آئیں گے جو کہ محترم طاہر القادری صاحب نے بیان کیا ہے۔
امام قرطبی "بہرے" سے کفار مراد لے کر البانی صاحب کو جھٹلاتے ہوئے اور طاہر القادری صاحب کی تائید کرتے ہوئے ۔۔۔
امام ابن کثیر "بہرے" سے دلوں کا بہرا ہونا لے کر البانی صاحب کو جھٹلاتے ہوئے اور طاہر القادری صاحب کی تائید کرتے ہوئے ۔۔۔
برادر قسیم حیدر نے بجا طور پر کہا تھا :
مہوش صاحبہ نے جو تشریح بیان کی ہے اس میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ مشبہ بہ کو مشبہ پر قیاس کر لیا ہے ۔
یہاں بھی دیکھ لیجئے کہ کس طرح جذبات یا غلوء عقیدت میں مبتلا ہو کر آپ نے تشبیہ کی ترکیب کو الٹ دیا ہے۔
ہمیشہ متاخرین ہی متقدمین کی تائید (یا تردید) کرتے ہیں ۔۔۔۔
جو کوئی ایسا کہتا ہے کہ : ابن تیمیہ نے مودودی کی تائید کی!
وہ یا تو پرلے سرے کا بیوقوف ہے یا پھر مولانا مودودی کا آخری درجے والا اندھا شیدائی !!

1۔ امام ابن جریر طبری اس آیت کے ذیل میں پہلے خود البانی صاحب کا رد کر رہے ہیں اور پھر قتادہ کا قول پیش کر رہے ہیں کہ یہاں بہروں سے مراد کافر ہیں۔

اقتباس:
قوله: { وَلا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعاءَ } يقول: وكما لا تقدر أن تُسمع الصمّ الذين قد سلبوا السمع الدعاء، إذا هم وَلَّوا عنك مدبرين، كذلك لا تقدر أن توفق هؤلاء الذين قد سلبهم الله فهمَ آيات كتابه، لسماع ذلك وفهمه. وبن۔حو الذي قلنا ف۔ي ذلك قال أهل التأوي۔ل. ذكر من قال ذلك:
حدثنا بشر، قال: ثنا يزيد، قال: ثنا سعيد، عن قَتادة، قوله: { فإنَّكَ لا تُسْمِعُ ال۔مَوْتَ۔ى }: هذا مَثَل ضربه الله للكافر فكما لا يسمع ال۔ميت الدعاء، كذلك لا يسمع الكافر. { وَلا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعاءَ إذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ } يقول: لو أن أصمَّ ولَّ۔ى مدبراً ثم ناديته ل۔م يسمع، كذلك الكافر لا يسمع ولا ينتفع ب۔ما يسمع.
اسی لیے میں نے آپ سے 2 بار تقاضا کیا تھا کہ درج بالا اقتباس کے عربی متن کا مکمل اردو ترجمہ دیں ، مگر آپ کیوں نظریں بچا رہیں ہیں ، کیا اس کی وجہ ذیل میں درج یہی قتادہ کا قول نہیں ؟؟
هذا مَثَل ضربه الله للكافر فكما لا يسمع ال۔ميت الدعاء، كذلك لا يسمع الكافر.
اللہ نے کافروں کی ایک مثال بیان کی ہے کہ جس طرح میت کسی کی پکار نہیں سنتی اسی طرح کافر بھی نہیں سنتا ۔۔۔۔۔

اب بتائیے کہ کیا یہاں آپ نے مکمل ترجمہ نہ دے کر کتمانِ علم سے کام نہیں لیا؟؟
آخر آپ کیا کیا چھپائیں گی اور کب تک چھپاتی رہیں گی؟؟

امام ابن کثیر "بہرے" سے دلوں کا بہرا ہونا لے کر البانی صاحب کو جھٹلاتے ہوئے اور طاہر القادری صاحب کی تائید کرتے ہوئے

اقتباس:
{ وَلاَ تُسْمِعُ ٱلصُّمَّ ٱلدُّعَآءَ إِذَا وَلَّوْاْ مُدْبِرِينَ وَمَآ أَنتَ بِهَادِي ٱلْعُمْيِ عَن ضَلالَتِهِمْ إِن تُسْمِعُ إِلاَّ مَن يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُم مُّسْلِمُونَ } أي: إنما يستجيب لك من هو سميع بصير، السمع والبصر النافع في القلب والبصيرة، الخاضعُ لله ولما جاء عنه على ألسنة الرسل عليهم السلام.
آنلائن لنک
پہلے تو یہ بتائیے کہ یہ "دلوں کا بہرا ہونا" درج بالا عربی متن کے کن الفاظ یا فقرہ کا ترجمہ ہے؟؟
اس کے بعد ۔۔۔۔۔
واللہ !! مجھے لگتا ہے مجھے پھر سے اردو کے محاورے اور اردو کی تمثیلات سیکھنا چاہئے غالباً۔
دل پر پردہ پڑنا ، دل کا اندھا ہو جانا ، دل پر غبار آنا ۔۔۔۔۔
بچپن سے اب تک ایسے محاورے تو پڑھتے آئے ہیں ، لیکن ہماری کم علمی دیکھئے کہ "دل کا بہرا ہونا" پہلی بار پڑھ رہے ہیں۔ حتیٰ کہ جامع فیروز اللغات کھول کر بھی میں آدھ گھنٹہ سے سر کھپا رہا ہوں ۔۔۔۔ لیکن "دل" اور "سماعت" سے ربط رکھنے والا کوئی محاورہ ڈھونڈنے میں ناکام ہی رہا !!

خدارا محترمہ مہوش علی !! اب بس بھی کیجئے۔
کب تک مفروضہ "ٹولے" کی مفروضہ "ظاہر پرستی" کی دشمنی میں ائمہ دین کی تشریحات سے کھیلتیں اور اردو محاوروں اور تمثیلات کا خون کرتی رہیں گی ؟؟

تھوڑے کہے کو بہت سمجھئے اور جس محقق کی الجھی تحقیق کو آپ یوں شان سے پیش کر رہی ہیں اس "اعلیٰ تحقیق" کو ان کی اپنی سائیٹوں پر ہی شان بڑھانے دیجئے !!

۔۔۔۔۔ جاری ہے۔
 

باذوق

محفلین
مشبہ اور مشبہ بہ کی بحث

اقتباس:
--------
از قسیم حیدر:
ایک مثال لیتے ہیں۔ اردو اور دیگر تقریبا تمام زبانوں میں محاورتا کہا جاتا ہے کہ فلاں (مثلا زید) مردے کی طرح سویا ہوا ہے۔ آپ اس کا کیا مطلب لیں گے؟ یہی نا کہ زید اتنی گہری نیند سویا ہوا کہ اسے آس پاس کی کچھ خبر نہیں۔ اہل زبان اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں لیں گے کہ مردے بھی سوتے اور جاگتے ہیں۔ تشبیہہ بیان کرتے وقت مشبہ (زید) کو مشبہ بہ (مردے) سے تشبیہہ دی جاتی ہے، نہ کہ مشببہ بہ کو مشبہہ پر قیاس کیا جاتا ہے۔ مہوش صاحبہ نے جو تشریح بیان کی ہے اس میں ی بنیادی غلطی یہ ہے کہ مشبہ بہ کو مشبہ پر قیاس کر لیا ہے ۔
--------

2۔ دوسرا یہ کہ مشبہ اور مشبہ بہ کی یہ بحث کسی صورت اصول کے طور پر پیش نہیں کی جا سکتی۔ ورنہ دیکھئیے ذیل کی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کتنی بڑی آفت گلے پڑ جائے گی
وَمَا أَنتَ بِهَادِي الْعُمْيِ عَن ضَلَالَتِهِمْ إِن تُسْمِعُ إِلَّا مَن يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُم مُّسْلِمُونَ
(القران ) اور (اے پیغمبر) آپ اندھوں کو بھی ان کی گمراہی سے ہدایت نہیں کرسکتے ہیں آپ تو صرف ان لوگوں کو سناسکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور مسلمان ہیں
تو مشبہ او مشبہ بہ کو اصول بنا لیا تو دنیا میں جتنے نابینا مسلمان اور حافظ جی گذرے ہیں، انہیں آپ ڈائریکٹ ہی گمراہی میں ایسا بھیج دیں گے کہ جہاں سے کوئی انہیں ہدایت نہیں دے سکتا۔
تو یقینا یہ چیز غلط ہے اور اسکو کبھی اصول کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔

بےشک ! "امثال قرآن" کا اصول قرآن کریم کی ہر ہر آیت پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ سیاق و سباق مکمل دیکھا جانا چاہئے۔
جیسا کہ سورہ:27 کی آیت:81 ، ماقبل کی آیت سے مربوط ہے
یعنی سورہ:27 کی آیات 80 اور 81 کا ترجمہ یوں ہے :
[ترجمہ ڈاکٹر طاہر القادری].
پس (اے حبیب!) بے شک آپ نہ تو اِن مُردوں (یعنی حیاتِ ایمانی سے محروم کافروں) کو اپنی پکار سناتے ہیں اور نہ ہی (صدائے حق کی سماعت سے محروم) بہروں کو، جب کہ وہ (آپ ہی سے) پیٹھ پھیرے جا رہے ہوں٭ اور نہ ہی آپ (ان) اندھوں کو (جو محرومِ بصیرت ہیں) گمراہی سے راہِ ہدایت پر لانے والے ہیں، آپ تو صرف انہی لوگوں کو سناتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لے آتے ہیں، سو وہی مسلمان ہیں۔

آپ دیکھئے کہ یہاں تین مثالیں دی گئی ہیں :
مُردہ ، بہرا اور اندھا
سوائے مُردہ کو چھوڑ کر ، باقی دونوں کی خصوصیت ، ڈاکٹر صاحب نے خود آیت کے اندر قوسین میں بیان کر دی ہے۔
یعنی :
بہرا : (صدائے حق کی سماعت سے محروم)
اندھا : (جو محرومِ بصیرت ہیں)
حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ "مُردہ" کی بھی خصوصیت کو بیان کر دیا جاتا۔ لیکن اگر وہ بیان کر دیتے تو پھر سماع موتیٰ کے قائلین کا بنایا ہوا سارا ریت کا محل ڈھیر ہو جاتا !!

قرآن کے نزول سے پہلے کیا دنیا میں اندھے ، بہرے اور مُردوں کا وجود نہیں تھا؟
کیا اندھا / بہرا / مُردہ کے الفاظ پہلی بار قرآن میں ہی تخلیق کئے گئے ہیں؟؟
ظاہر ہے کہ ان دونوں سوالات کا جواب نفی میں ہے۔
لہذا حق یہی ہے کہ ۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ نے "حق" قبول نہ کرنے والوں (کفار) کو اندھا / بہرا / مُردہ کی جو مثالیں دی ہیں ۔۔۔۔
اس کے ذریعے ہمیں قرآن کے اس طرزِ بیان (امثالِ قرآن) سے بھی آگاہی حاصل ہوتی ہے جس کے متعلق ابن قیم کی تعریف کے حوالے سے میں اوپر کی پوسٹ میں لکھ چکا ہوں۔

یہاں سوچنے والی بات ایک یہ بھی ہے کہ آخر اللہ نے صرف "کافر" کیوں نہیں کہہ دیا؟ کیوں کافروں کے لئے مُردہ ، بہرا ، اندھا ، چوپایا جیسی مثالیں دیں؟
صاف ظاہر ہے کہ "کافر" کی خصوصیات کو ظاہر کرنے کے لئے ان دنیاوی معروف اجسام سے مثالیں دی گئی ہیں جو اپنی چند مشہور و مقبول خصوصیات رکھتی ہیں۔ جیسے کہ اندھا دیکھ نہیں سکتا ، بہرا سن نہیں سکتا ، چوپایا سمجھ نہیں سکتا وغیرہ۔

امام ابن جریر نے حدیثِ قتادہ کے حوالے سے یہی بات تو ہمیں سمجھائی ہے :
[ARABIC]هذا مَثَل ضربه الله للكافر فكما لا يسمع ال۔ميت الدعاء، كذلك لا يسمع الكافر.[/ARABIC]
اللہ نے کافروں کی ایک مثال بیان کی ہے کہ جس طرح میت کسی کی پکار نہیں سنتی اسی طرح کافر بھی نہیں سنتا ۔۔۔۔۔

آپ نے البانی صاحب کے ان دو فتووں کے متعلق کتاب کا حوالہ اور آنلائن لنک نہیں دیا ہے۔ کیا امید کی جا سکتی ہے کہ آپ یہ ہمیں مہیا کریں گے؟
مجھے تو نہیں لگتا کہ ان دونوں کتب میں علامہ البانی نے کوئی فتوے دئے ہوں۔
سماع موتیٰ سے متعلق جو کتاب ہے ، اس کی تفصیل اور ڈاؤن لوڈ لنک یہ ہے :
[ARABIC]الآيات البينات في عدم سماع الأموات عند الحنفية السادات[/ARABIC]
مولف : العلامة نعمان ابن المفسر الشهير محمود الآلوسي ( صاحب "روح المعانی" علامہ آلوسی کے فرزند ہیں )

دوسری کتاب تو "توسل" کے موضوع پر علامہ البانی کی مشہور کتاب ہے بعنوان : [ARABIC]التوسل أنواعه وأحكامه[/ARABIC]۔ یہ آپ کو مکتبہ البانی (آنلائن) پر مل جائے گی یا پھر گوگل چیک کر لیں۔
اور ہاں جب ان دو کتب کے ردّ میں بھی کسی شیخ محترم کی کتب بازار میں آ جائیں تو جوابی رسید سے ضرور مطلع فرمائیں ۔۔۔۔ :)

ایک آخری پوسٹ اِس تھریڈ میں‌ میری باقی رہ گئی ہے جو ظاہر ہے اُسی حدیث پر مشتمل ہوگی جس سے سماع موتیٰ کے اس مسئلہ کی صاف وضاحت ہو جاتی ہے۔
ویسے یہ حدیث اور اس کی تفصیل اوپر بیان کردہ کتاب "الآيات البينات في عدم سماع ۔۔۔" کے صفحہ نمبر:33 سے آگے پڑھی جا سکتی ہے۔
 

باذوق

محفلین
اس بحث میں میرا آخری مراسلہ

اِس تھریڈ کی بحث میں میرا یہ آخری مراسلہ ہے !!

ذیل کی ساری تحریر علامہ البانی کے مقدمہ سے ماخوذ ہے ، اور یہ مقدمہ جس کتاب میں موجود ہے اس کا ڈاؤن لوڈ لنک اوپر دے چکا ہوں ، دوبارہ اس لیے دے رہا ہوں کہ اوپر کا لنک کام نہیں کر رہا :
ڈاؤن لوڈ : [ARABIC]الآيات البينات في عدم سماع الأموات ...[/ARABIC]

مواد کا اردو ترجمہ حافظ شیخ محمد صالح محمد یونس نے کیا ، جس کی تنقیح و نظر ثانی کا کام حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے انجام دیا ہے۔
(کچھ الفاظ / جملوں کی ترتیب قارئین کی آسانی کے لیے میں‌ نے تبدیل بھی کی ہے)

***​
قلیب بدر کا واقعہ خاص واقعہ ہے ، جس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مُردے ہر وقت سنتے ہیں اور ہر بات سنتے ہیں۔ اسی طرح یہ واقعہ اس پر بھی دلالت نہیں کرتا کہ دوسرے مُردے بھی سنتے ہیں۔
جن صحابہ نے صراحتاً اس عقیدہ کا اظہار کیا تھا کہ :
مُردے کیسے سن سکتے ہیں؟
اُس کی وضاحت حضرت انس کی روایت میں پائی جاتی ہے جسے امام احمد نے بیان کیا ہے :
مسند احمد کی حدیث کا آن لائن لنک

[ARABIC]...... فسمع عمر صوته فقال يا رسول الله أتناديهم بعد ثلاث وهل يسمعون يقول الله عز وجل إنك لا تسمع الموتى فقال والذي نفسي بيده ما أنتم بأسمع منهم ولكنهم لا يستطيعون أن يجيبوا‏.‏‏[/ARABIC]

جب حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مُردوں سے ہمکلام ہوتے ہوئے دیکھا تو کہا :
اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)! آپ تین دنوں کے بعد ان کو آواز دے رہے ہیں، کیا یہ سنتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے:
[ARABIC]إنك لا تسمع الموتى[/ARABIC]
(آپ مُردوں کو سنا نہیں سکتے)
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ان سے زیادہ تم میری بات کو نہیں سن رہے ہو لیکن یہ لوگ جواب نہیں دے سکتے۔
[ شیخ البانی اور شیخ ارناوؤط سے اس حدیث کو صحیح کہا ہے]

دیکھ لیجئے کہ اس حدیث میں حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے صراحت کے ساتھ یہ ذکر کیا کہ
ان کے اس سوال کی بنیاد مذکورہ آیت ہے
اور اس آیت سے تمام صحابہ نے ایک عام مفہوم مراد لیا ہے جس میں قلیبِ بدر کے مُردے بھی داخل ہیں ، اس لیے انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے دو ٹوک باتیں کیں تاکہ کوئی اشکال باقی نہ رہ جائے!

اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ :
صحابہ نے آیت کا جو مفہوم مراد لیا تھا ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس کو صحیح قرار دیا۔
وہ اس طرح کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس مفہوم کا انکار کیا اور نہ ہی ان سے یہ کہا کہ :
تم نے آیت کا مفہوم غلط لیا ہے ، یہ آیت تمام مُردوں کو شامل نہیں۔
ہاں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اتنی وضاحت ضرور کر دی کہ ان مُردوں کا معاملہ جداگانہ ہے ، یہ آیت اس سے مستثنیٰ ہے۔

ایک بات کا ذکر کر دینا بہتر ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) نے آیت سے جو استدلال کیا تھا بعینہ وہی استدلال حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کا بھی تھا۔
لہذا حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کو آج خطاوار ٹھہرانا صحیح نہیں ہے، خاص طور سے اس وقت جبکہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کی تائید کی۔

یہ اور بات ہے کہ حضرت ابن عمر (رضی اللہ عنہ) نے جب اس قصہ کو بیان کیا تو حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) نے اُن کی تردید کی۔

حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) اور دوسرے صحابہ کرام کی روایات کو جمع کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) ہی سے وہم ہوا ہے۔
لیکن ۔۔۔ ان تمام روایتوں میں تطبیق اس طرح دی جا سکتی ہے کہ آیت سے استدلال کرنے میں حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے بلکہ اس قصہ کی حقیقت ان سے پوشیدہ تھی۔ اگر ایسی بات نہ ہوتی تو ان کا موقف بھی وہی ہوتا جو تمام صحابہ کا موقف تھا۔
لہذا صحیح موقف یہی ہے کہ یہ قصہ آیت سے مستثنٰی ہے۔

ایک بات قابلِ توجہ یہ ہے کہ :
مسائل کو صحیح طور سے سمجھنے کے لیے ان امور کی رعایت بھی ضروری ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے بطورِ اقرار ثابت ہوں۔ ورنہ احادیث کے سمجھنے میں بسا اوقات غلطی ہو سکتی ہے۔

جیسا کہ اسی ضمن میں دو مثالیں پیش خدمت ہیں:

مثال نمبر:1
صحیح مسلم کی حدیث کا آن لائن ربط

حضرت جابر (رضی اللہ عنہ) کی حدیث ام مبشر (رضی اللہ عنہا) روایت کرتی ہیں کہ ۔۔۔
انہوں نے حضرت حفصہ (رضی اللہ عنہا) کے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ
[ARABIC]لا يدخل النار ان شاء الله من اصحاب الشجرة احد ‏.‏[/ARABIC]
ان شاءاللہ جو لوگ بیعتِ رضوان میں شریک تھے ان میں سے کوئی جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔
حفصہ (رضی اللہ عنہا) نے کہا : کیوں نہیں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)؟
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اُن کو ڈانٹا ، پھر حضرت حفصہ (رضی اللہ عنہا) نے کہا :
اللہ نے فرمایا ہے :
[ARABIC]{‏ وان منكم الا واردها‏}[/ARABIC]
تم میں سے کوئی ایسا نہیں جو جہنم پر وارد نہ ہو۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہا ، اللہ یہ بھی کہتا ہے :
[ARABIC]‏{‏ ثم ننجي الذين اتقوا ونذر الظالمين فيها جثيا‏}‏ [/ARABIC]
ہم ان لوگوں کو بچا لیں گے جو دنیا میں متقی تھے اور ظالموں کو اسی میں گرا ہوا چھوڑ دیں گے۔

حضرت حفصہ (رضی اللہ عنہا) نے آیت سے یہ استدلال کیا تھا کہ : جہنم میں ہر شخص داخل ہوگا خواہ وہ نیک ہو یا بد ، اسی لیے جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ کہا : بیعتِ رضوان میں شریک ہونے والوں میں سے کوئی دوزخ میں داخل نہیں ہوگا ، تو اُن کو اشکال ہوا اور یہ آیت پیش کی۔ لہذا نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان کا یہ اشکال اس طرح دور کیا کہ ان کو پوری آیت پڑھ کر سنائی۔
لہذا اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت حفصہ (رضی اللہ عنہا) نے آیت کا جو مفہوم سمجھا تھا ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس کا انکار نہیں کیا بلکہ ۔۔۔۔ آیت کے اندر اس سے کون لوگ مراد ہیں اور حدیث کے اندر کون ہیں ، اس کی وضاحت کر دی ۔۔۔۔ جس کا خلاصہ یوں ہے کہ :
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بیعتِ رضوان میں شریک ہونے والوں کو عذاب نہیں ہوگا ، ہاں جہنم سے گزرتے ہوئے جنت میں داخل ہوں گے۔ اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ تمام لوگ جہنم سے گزریں گے ، کچھ لوگ تو اس کے عذاب میں گرفتار ہو جائیں گے اور کچھ لوگ اس سے محفوظ رہ کر جنت میں چلے جائیں گے۔


مثال نمبر:2
صحیح بخاری کی حدیث کا آن لائن ربط

ام المومنین حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میرے پاس آئے ، اس وقت انصار کی دو لڑکیاں منیٰ کے دنوں میں دف بجا کر انصار کے کے اُن کارناموں کو بیان کر رہی تھیں جو انہوں نے جنگِ بعاث میں انجام دئے تھے، یہ لڑکیاں گانے والی نہیں تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنا رُخِ انور دوسری طرف کر کے لیٹ گئے۔ اسی دوران حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) داخل ہوئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے اوپر کپڑا ڈھانکے ہوئے تھے۔
حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے مجھے ڈانٹا اور کہا کہ شیطانوں کی بانسری محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے گھر میں؟
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنا چہرۂ مبارک کھولا اور ان کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا : ابوبکر ! رہنے دو ، ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے ، آج ہماری عید کا دن ہے۔
حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) ذرا ان لڑکیوں کی طرف سے غافل ہوئے تو میں نے اُن کو اشارہ کیا اور وہ واپس چلی گئیں۔

اس حدیث کے اندر آپ دیکھئے گا کہ ۔۔۔۔۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کی اس بات کا انکار نہیں کیا کہ ۔۔۔
[ARABIC]مزمارة الشيطان[/ARABIC] (گانا بجانا شیطان کا فعل ہے)
اور نہ ہی جب ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے ڈانٹا تو اس کو برا سمجھا ، بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کی دونوں باتوں کو برقرار رکھا ، لہذا معلوم ہوا کہ یہ چیز درست ہے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
لیکن دیکھنے کی مزید بات یہ ہے کہ ۔۔۔۔
حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے یہ بات کیسے کہی کہ : یہ شیطان کا فعل ہے؟؟
ظاہر سی بات ہے کہ انہوں نے اس چیز کو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہی سے حاصل کیا تھا ، جیسا کہ گانے بجانے کے متعلق بےشمار احادیث موجود ہیں۔
اگر حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کو پہلے سے اس کا علم نہ ہوتا اور اس موقف میں وہ حق پر نہ ہوتے تو کبھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سامنے اس قسم کی جراءت نہ کرتے۔
ہاں حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کو یہ نہیں معلوم تھا کہ :
عید اور خوشی کے موقع پر اس نوعیت کا گانا بجانا درست ہے جس کی طرف نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اشارہ کیا۔

لہذا ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کا انکار اپنی جگہ مسلم تھا ، کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسے برقرار رکھا لیکن اس سے یہ مستثنیٰ کر دیا کہ عید کے موقع پر اس نوعیت کا گانا بجانا جائز ہے۔

خلاصہ :
چنانچہ معلوم ہوا کہ جس طرح حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے انکار کو برقرار رکھتے ہوئے یہ بیان کیا کہ جس نوعیت کا گانا بجانا یہ لڑکیاں کر رہی تھیں ، عید کے موقع پر اتنا جائز ہے ۔۔۔۔
بالکل اسی طرح ۔۔۔۔

قلیب بدر کی حدیث میں حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کے انکار کو برقرار رکھا اور ایک خاص حکم بیان کیا کہ تمہاری بات صحیح ہے کہ مُردے سنا نہیں کرتے لیکن یہ مُردے اِس وقت سن رہے ہیں !!


والسلام علیکم،
- باذوق
 

مہوش علی

لائبریرین
بہت شکریہ۔
میں نے آپکی باتیں نوٹ کر لی ہیں۔
میں بھی جواب میں وہ نصوص پیش کر کے گفتگو کو ختم کر دیتی ہوں جو کہ سماعت موتی کی دلالت کرتی ہیں اور چونکہ ان نصوص کی تعداد بہت زیادہ ہے، اس لیے موقع ہی نہیں مل سکا کہ انہیں پیش کیا جا سکے۔
میں جلد ہی ایک دو دن میں یہ تمام احادیث نبوی آپ لوگوں کی خدمت میں پیش کر دوں گی۔ انشاء اللہ۔ تاکہ آپ ہر کوئی دلائل اور ثبوت کی بنیاد پر اپنا فیصلہ خود کر سکے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
کیا کافر واقعی ہماری پکار نہیں سن سکتا؟
سوال: کیا واقعی آپ کسی کافر کے پاس جا کر اسے تبلیغ کرنا شروع کر دیں تو کیا ظاہر پرستی میں مبتلا ہو کر آپ یہ کہیں گے کہ ہماری آواز ظاہری طور پر اس تک نہیں پہنچ رہی اور ظاہری طور پر وہ نہیں سن رہا؟
نہیں نا۔ آپ بے شک یہ کہیں گے کہ اُس تک ہماری آواز ظاہری طور پر پہنچ رہی ہے اور وہ بے شک سن رہا ہے۔ مگر یہاں "سننا" حقیقی معنوں میں نہیں بلکہ "ہدایت ماننے" کے ماننے میں ہے۔
مگر پھر دیکھئے کہ ظاہر پرستی میں مبتلا ہو کر کیا نتیجہ نکالا جا رہا ہے۔
از باذوق:
اللہ نے کافروں کی ایک مثال بیان کی ہے کہ جس طرح میت کسی کی پکار نہیں سنتی اسی طرح کافر بھی نہیں سنتا ۔۔۔۔۔
اور خدا کا کلام اس چیز سے بالاتر ہے کہ وہ اس قسم کی ظاہر پرستی میں مبتلا ہو اور کہے کہ کافر تک ظاہر میں ہماری آواز نہیں پہنچ رہی اور وہ ظاہرا ہماری بات نہیں سن رہا۔
اور یہ چیز بھی کلام باری تعالی سے بعید ہے کہ وہ ایک ہی سطر میں سننے کو دو بالکل زمین و آسمان جیسے مختلف ظاہری و مجازی معنوں مِیں بہ یک وقت استعمال کر رہا ہو۔

///////////////////////////////////////////////////////

ابتک کی بحث و آیات کا Conclusion
ظاہر پرست حضرات جن تین آیات کا حوالہ دے کر شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں، وہ تینوں کی تینوں "کفار کی ہدایت" کے متعلق بات کر رہی ہیں۔ خود ان آیات کے علاوہ دیگر اسی موضوع کی آیات میں اللہ تعالی نے بالکل واضح کر دیا ہے کہ سننے سے کیا مراد ہے۔

یہ آیت آپ کے لیے ہدیہ کہ جن کے بعد کبھی بھی آپ کو ان قرانی آیات میں "سننے" کے متعلق شکوک و شبہات نہیں ہو گے۔ انشاء اللہ:
اور اسی "سننے" کو اس آیت میں بھی دیکھیں:

[ARABIC]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ {20}[/ARABIC]
ایمان والو اللہ و رسول کی اطاعت کرو اور اس سے رو گردانی نہ کرو جب کہ تم سن بھی رہے ہو {20}
[ARABIC]وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ قَالُوا سَمِعْنَا وَهُمْ لاَ يَسْمَعُونَ {21}[/ARABIC]
اور ان لوگوں جیسے نہ ہوجاؤ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا حالانکہ وہ کچھ نہیں سن رہے ہیں {21}
[ARABIC]إِنَّ شَرَّ الدَّوَابَّ عِندَ اللّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لاَ يَعْقِلُونَ {22}[/ARABIC]
اللہ کے نزدیک بد ترین زمین پر چلنے والے وہ بہرے اور گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ہیں {22}
[ARABIC]وَلَوْ عَلِمَ اللّهُ فِيهِمْ خَيْرًا لَّأسْمَعَهُمْ وَلَوْ أَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّواْ وَّهُم مُّعْرِضُونَ {23}[/ARABIC]
اور اگر خدا ان میں کسی خیر کو دیکھتا تو انہیں ضرور سناتا اور اگر سنا بھی دیتا تو یہ منہ پھرا لیتے اور اعراض سے کام لیتے {23}

نوٹ:
ان آیات میں:
1۔ بہرے اور گونگے سے مراد حقیقی بہرے و گونگے نہیں بلکہ دلوں کےبہرے و گونگے مراد ہیں۔ [اب اگر کوئی دلوں کے بہرے و گونگے ہونے کا انکار اس لیے کر دے کہ اسے یہ چیز فیروز اللغات میں نہیں ملتی تو یہ ایسے شخص کی قسمت کی خرابی]

اور دوسری آیت آپکی خدمت میں ہدیہ ہے:
[ARABIC]وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ وَجَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَن يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا وَإِن يَرَوْاْ كُلَّ آيَةٍ لاَّ يُؤْمِنُواْ بِهَا حَتَّى إِذَا جَآؤُوكَ يُجَادِلُونَكَ يَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُواْ إِنْ هَذَآ إِلاَّ أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ {25}[/ARABIC]
اور ان میں سے بعض لوگ کان لگا کر آپ کی بات سنتے ہیں لیکن ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دئیے ہیں ...یہ سمجھ نہیں سکتے ہیں اور ان کے کانوں میں بھی بہراپن ہے -یہ اگر تمام نشانیوں کو دیکھ لیں تو بھی ایمان نہ لائیں گے یہاں تک کہ جب آپ کے پاس آئیں گے تو بھی بحث کریں گے اور کفار کہیں گے کہ یہ قرآن تو صرف اگلے لوگوں کی کہانی ہے {سورہ الانعام6:25}
نوٹ: اس آیت میں "اور انکے کانوں میں بھی بہرا پن ہے" سے مراد کانوں کا حقیقی بہرا ہونا نہیں بلکہ انکے دلوں کے کانوں کا بہرا ہونا ہے اور یہ انکے دل ہیں جو کہ ہدایت کو نہیں سن رہے۔

[ARABIC]وَمَا أَنتَ بِهَادِي الْعُمْيِ عَن ضَلَالَتِهِمْ إِن تُسْمِعُ إِلَّا مَن يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُم مُّسْلِمُونَ [/ARABIC]
(القران ) اور (اے پیغمبر) آپ اندھوں کو بھی ان کی گمراہی سے ہدایت نہیں کرسکتے ہیں آپ تو صرف ان لوگوں کو سناسکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور مسلمان ہیں
اگلی آیت ہدیہ ہے:
[ARABIC]وَمِنْ آيَاتِهِ مَنَامُكُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَابْتِغَاؤُكُم مِّن فَضْلِهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ [/ARABIC]
اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ تم رات اور دن کو آرام کرتے ہو اور پھر فضل خدا کو تلاش کرتے ہو کہ اس میں بھی سننے والی قوم کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں
//////////////////////////////////////////////////////
ان آیات کا تجزیہ جو ظاہر پرست حضرات استعمال کرتے ہیں
اوپر کی چاروں آیات بہت واضح ہیں۔ اب آخر میں ان تینوں قرانی آیات پر ایک نظر اور ڈال لیتے ہیں جہاں "سننے" کو ظاہری معنوں میں ظاہر پرست حضرات لے کر جا رہے ہیں۔

پہلی آیت [سورۃ فاطر]
[قران آسان تحریک 35:19] اور نہیں برابر ہوسکتا اندھا اور آنکھوں والا۔
[قران آسان تحریک 35:20] اور نہ تاریکیاں اور نہ روشنی
[قران آسان تحریک 35:21] اور نہ چھاؤں اور نہ دُھوپ کی تپش۔
[قران آسان تحریک 35:22] اور نہ برابر ہوسکتے ہیں زندے اور نہ مُردے۔ بلاشبہ اللہ سنواتا ہے جسے چاہے اور نہ تم (اے نبی) سنا سکتے ہو ان کو جو قبروں میں (مدفون) ہیں۔
[قران آسان تحریک 35:23] نہیں ہو تم مگر متنبہ کرنے والے۔

اور نہیں برابر ہوسکتا اندھا اور آنکھوں والا۔ ۔۔۔۔ اگر ظاہر پرستی میں پڑیں گے تو یہاں "اندھے اور "آنکھوں والے سے مراد حقیقی اندھے اور آنکھوں والے ہیں۔
جبکہ علمائے قدیم کے مطابق یہاں "اعمی" اندھے سے مراد "کافر" اور "بصیر" آنکھوں والا سے مراد "مومن" ہے۔

اور نہ تاریکیاں اور نہ روشنی ظاہر پرست ظبقہ کے نزدیک یہاں حقیقی تاریکیاں اور روشنی
جبکہ علمائے قدیم کے مطابق یہاں "ظلمت [تاریکیوں]" سے مراد "باطل" جبکہ "نور [روشنی]" سے مراد "حق" ہے۔

اور نہ چھاؤں اور نہ دُھوپ کی تپش۔ ظاہر پرست طبقہ کے مطابق یہاں حقیقی چھاوں اور دھوپ مراد ہے
جبکہ علمائے قدیم نے فرمایا ہے کہ یہاں "ظل [سایہ]" سے مراد "ثواب و راحت" اور "حرور [سخت گرمی/دھوپ] سے مراد عتاب و عذاب ہے

اور نہ برابر ہوسکتے ہیں زندے اور نہ مُردے۔ بلاشبہ اللہ سنواتا ہے جسے چاہے ۔۔۔۔۔ ظاہر پرست طبقہ کے مطابق یہاں حقیقی زندے و مردے ہیں اور سنانے سے مراد حقیقی سنانا ہے ، یعنی اللہ چاہے تو مردے کو بھی اے رسول آپکی آواز سنا دے
[نوٹ: مجھے علم نہیں کہ اگر اللہ اپنے رسول کی حقیقی آواز مردے کو سنوا بھی دے تو اس سے مردے کو کیا فائدے پہنچنے والا ہے؟ ظاہر پرست حضرات سے میں ہمیشہ یہ درخواست کرتی آئی ہوں کہ وہ لازمی طور پر یہ واضح کریں کہ اگر اللہ رسول کی حقیقی آواز کو مردوں کو سنوا بھی دے تو اس سے مردے کو کیا فائدہ پہنچنے والا ہے]


جبکہ علمائے قدیم فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ دلوں کے زندے اور دلوں کے مردے برابر نہیں ہیں۔ اور سنوانا سے مراد ہے "ھدایت کو ماننا"۔

میں نے اپنی اوپر والی تحریروں میں دیگر قرانی آیات سے واضح کیا تھا کہ جب کفار اپنے کفر پر اڑے رہیں تو ایک وقت آتا ہے کہ اللہ انکے دلوں پر "مہر ثبت" کر دیتا ہے۔ تو ایسے کفار کو سوائے اللہ کے، اور کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ تو یہاں مردوں سے مراد وہی دل کے مردے ہیں کہ جن کے دلوں پر اللہ نے مہر ثبت کر دی ہے۔

اور نہ تم (اے نبی) سنا سکتے ہو ان کو جو قبروں میں (مدفون) ہیں۔ ظاہر پرست طبقہ فکر کے نزدیک یہاں سنانے سے مراد اپنی حقیقی آواز کا سنانا ہے۔
جبکہ علمائے قدیم کے نزدیک اسکا مطلب ہے کہ جس طرح مرنے کے بعد مردہ لوگ یہ حق کھو چکے ہیں اب حق بات کو قبول کر کے کوئی فائدہ اٹھا سکیں، اسی طرح کفار کے دلوں پر ایسا قفل اللہ لگا چکا ہے کہ یہ اب انہیں بے شک کوئی ہدایت پیش کر دے مگر یہ اسے قبول کر کے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔

جیسا کہ میں نے اپنی اوپر والی تحریروں میں واضح کیا تھا کہ:


ہدایت کو قبول کرنے کا حق و موقع انسان کے پاس صرف اُس وقت تک رہتا ہے جبتک وہ زندہ ہے۔ اور جہاں اُس نے موت کے فرشتوں کو دیکھا، وہیں وہ اس حق سے محروم ہو گیا۔ یعنی موت کے فرشتوں کو دیکھنے کے بعد وہ جتنی توبہ کرتا رہے وہ قبول نہ ہو گی۔

مگر جو کافر اپنے کفر پر "بہت سختی" سے اڑے رہتے ہیں، اُن کے متعلق اللہ فرماتا ہے کہ موت کے فرشتے دیکھنے سے قبل ہی اللہ اُن سے ہدایت قبول کرنے کا حق چھین لیتا ہے اور ان کے دلوں پر مہر ثبت کر دیتا ہے۔ چنانچہ یہ سخت کفار اپنی زندگیوں میں ہی ہدایت سننے کا حق کھو دیتے ہیں اور انکی مثال اُن مردوں جیسی ہو جاتی ہے جو مرنے کے بعد ہدایت سننے و قبول کرنے کے حق سے محروم ہو چکے ہیں۔

نہیں ہو تم مگر متنبہ کرنے والے۔ ۔۔۔۔ ہوتا یہ تھا کہ جب یہ سخت کفار رسول ص کی انتہائی تبلیغ کے بعد بھی ہدایت قبول نہیں کر رہے ہوتے تھے تو اس پر رسول ص انتہائی افسردہ و ملول ہو جاتے تھے۔ اس پر اللہ تعالی اپنے حبیب کو حوصلہ دے رہا ہے اور بتلا رہا ہے کہ ان سخت کفار کو اگر ہدایت فائدہ نہیں پہنچا رہی تو اسکی وجہ یہ ہے کہ میں نے انکی زندگیوں میں ہی ان سے حق قبول کرنے کا حق چھین لیا ہے اور انکے دلوں پر مہر ثبت کر دی ہے اور یہ صرف میں ہی ہوں جو چاہوں تو ان میں سے کسی مردہ دل کو ہدایت سننے کی توفیق عطا فرما دوں۔

ابن کثیر الدمشقی کی اس آیت کی تفسیر
ابن کثیر الدمشقی نے اسکی بہت صاف اور سمجھ آنے والی تفسیر کی ہے۔ کاش کہ ظاہر پرست حضرات اس سے سبق حاصل کریں
[ARABIC]وَقَوْله تَعَالَى : " إِنَّ اللَّه يُسْمِعُ مَنْ يَشَاء " أَيْ يَهْدِيهِمْ إِلَى سَمَاع الْحُجَّة وَقَبُولهَا وَالِانْقِيَاد لَهَا " وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُور " أَيْ كَمَا لَا يَنْتَفِع الْأَمْوَات بَعْد مَوْتهمْ وَصَيْرُورَتهمْ إِلَى قُبُورهمْ وَهُمْ كُفَّار بِالْهِدَايَةِ وَالدَّعْوَة إِلَيْهَا كَذَلِكَ هَؤُلَاءِ الْمُشْرِكُونَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمْ الشَّقَاوَة لَا حِيلَة لَك فِيهِمْ وَلَا تَسْتَطِيع هِدَايَتهمْ .[/ARABIC]
ترجمہ:
اور اللہ کا یہ فرمانا (اللہ جسے چاہتا ہے سنوا دیتا ہے) اسکا مطلب ہے کہ وہ یہ ہدایت دیتا ہے کہ لوگ حجت (ہدایت) کو سنیں اور اسے قبول کریں اور اس پر قائم رہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ (اور تم ان کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں) اسکا مطلب ہے کہ جیسے کہ مردے مرنے کے بعد ہدایت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے ہیں اور انہیں سچ بتانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ کفر کی حالت میں مرے ہیں اور اسی حالت میں قبر میں چلے گئے ہیں، اسی طرح آپ کی ہدایت اور دعوت ان کفار کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی کیونکہ ان کی شقاوت کی وجہ سے ان کی قسمت میں برباد ہونا لکھا گیا ہے اور آپ ان کو ہدایت نہیں کر سکتے۔

اگر اتنی صاف و واضح تفسیر کے بعد بھی کوئی نہ سمجھنا چاہے تو یہ اسکی قسمت کی خرابی۔

//////////////////////////////////////////

دوسری آیت سورۃ الروم
قران آسان تحریک 30:51] اور اگر کہیں بھیجتے ہم کوئی ایسی ہوا کہ دیکھتے وہ (اس کے اثرسے) کھیتی کو کہ زرد پڑگئی ہے تو ضرور وہ اس کے بعد بھی کفر ہی کرتے رہتے۔
[قران آسان تحریک 30:52] پس (اے نبی) تم ہرگز نہیں سنا سکتے مردوں کو اور نہ سناسکتے ہو بہروں کو اپنی پکار جب وہ چلے جارہے ہوں پیٹھ پھیر کر۔
[قران آسان تحریک 30:53] اور نہیں ہوتم راہِ راست دکھانے والے اندھوں کو اُن کی گمراہی سے نکال کر، نہیں سناسکتے ہو تم مگر انہی کو جو ایمان لاتے ہیں ہماری آیات پر پھر وہ سرتسلیم خم کردیتے ہیں۔

آئیے اب ان کے مجازی معنوں کو دیکھتے ہیں جو علمائے قدیم نے بیان کیے ہیں:

(اے نبی) تم ہرگز نہیں سنا سکتے مردوں کو قدیم علماء کے مطابق یہاں موتی سے مراد وہ لوگ ہیں "جنکے دل مر چکے ہیں اور اللہ نے انکے دلوں پر مہر ثبت کر دی ہے"۔ یعنی کہ موت کے فرشتے دیکھ لینے کے بعد اللہ تعالی جس طرح مردوں سے اختیار چھین لیا ہے کہ وہ ہدایت قبول کر کے اس سے نفع حاصل کر سکیں۔ اسی طرح کفار اپنے کفر میں ایسے سخت ہو چکے ہیں وہ وقت آ گیا ہے جبکہ اللہ نے انکے دلوں پر انکے کفر کے باعث مہر ثبت کر دی ہے اور اب جتنا مرضی کوئی انہیں حق کا پیغام سناتا رہے مگر یہ اسے قبول کر کے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔
اور نہ سناسکتے ہو بہروں کو اپنی پکار جب وہ چلے جارہے ہوں پیٹھ پھیر کر۔ اور یہاں "الصم" [بہرے] سے مراد وہ لوگ ہیں "جنکے دلوں کے کان حق بات سننے سے بہرے ہو چکے "ہیں/
اور نہیں ہوتم راہِ راست دکھانے والے اندھوں کو اُن کی گمراہی سے نکال کر، اور یہاں "العمی" [اندھے] سے مراد وہ لوگ ہیں "جنکے دلوں کی آنکھیں نور حق دیکھنے سے" اندھی ہو چکی ہیں۔
نہیں سناسکتے ہو تم مگر انہی کو جو ایمان لاتے ہیں ہماری آیات پر پھر وہ سرتسلیم خم کردیتے ہیں۔ اور یہاں بھی سنانے کا لفظ ظاہری معنوں میں نہیں ہے بلکہ اللہ کہہ رہا ہے کہ "نہیں ھدایت دے سکتے ہو تم مگر انہی کو جو ایمان لاتے ہیں۔۔۔"

/////////////////////////////////////////////////////////////
تفسیر طبری سے غلط استدلال
از باذوق:
امام ابن جریر نے حدیثِ قتادہ کے حوالے سے یہی بات تو ہمیں سمجھائی ہے :
هذا مَثَل ضربه الله للكافر فكما لا يسمع ال۔ميت الدعاء، كذلك لا يسمع الكافر.
اللہ نے کافروں کی ایک مثال بیان کی ہے کہ جس طرح میت کسی کی پکار نہیں سنتی اسی طرح کافر بھی نہیں سنتا ۔۔۔۔۔
یہ وہی غلطی ہے جو اس سے قبل قسیم حیدر برادر کر چکے ہیں۔
اس سرخ رنگ کی عبارت میں امام جریر طبری کہیں بھی "سننے" سے مراد حقیقی سننا نہیں لے رہے بلکہ وہ دوسری آیات کے ذیل میں واضح کر چکے ہیں کہ یہاں "سننے" سے مراد "ہدایت سے نفع حاصل کرنا ہے" اور یہ چیز میں کئی مرتبہ اوپر واضح کر چکی ہوں مگر جریر طبری کی اس تفسیر میں شکوک و شبہات ڈالنے کے لیے آپ مسلسل اسے اور ابن کثیر اور ابن قرطبی اور دیگر تفاسیر کو نظر انداز کرتے آئے ہیں۔
مثلا میں نے تفسیر قرطبی سے صاف صاف تفسیر پیش کی تھی کہ امام جریر طبری "سننے" سے کیا مراد لے رہے ہیں:

وقوله: { إنَّ اللّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشاءُ وَما أنْتَ بِ۔مُسْمِعٍ مَنْ فِ۔ي القُبُورِ } يقول تعال۔ى ذكره: كما لا يقدر أن يسمع من ف۔ي القبور كتاب الله، ف۔يهديهم به إل۔ى سب۔ي۔ل الرشاد، فكذلك لا يقدر أن ينفع ب۔مواعظ الله، وب۔يان حُججه، من كان ميت القلب من أحياء عب۔اده، عن معرفة الله، وفهم كتابه وتنزي۔له، وواضح حججه، كما:
حدثنا بشر، قال: ثنا يزيد، قال: ثنا سعيد، عن قتادة { إنَّ اللّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشاءُ وَما أنْتَ بِ۔مُسْمِعٍ مَنْ فِ۔ي القُبُورِ } كذلك الكافر لا يسمع، ولا ينتفع ب۔ما يسمع
آنلائن لنک.

یعنی جو اللہ فرما رہا ہے کہ {یہ اللہ ہی ہے جو جسے چاہتا ہے سناتا ہے اور نہیں سنا سکتے تم قبروں میں پڑے ہووں کو} تو اسکا مطلب ہے کہ اے رسول تم میں یہ قدرت نہیں کہ تم قبر والوں کو کتاب اللہ سنا کر انکی ہدایت کر سکو [یعنی انکا وقت گذر چکا ہے] اور نہ ہی تم قدرت رکھتے ہو کہ انہیں یہ چیزیں سنا کر انہیں مواعظ اللہ سے کوئی نفع پہنچا سکو۔۔۔۔۔

تو امام طبری نے صاف صاف الفاظ میں سننے کا مطلب بیان کیا ہوا ہے، اور اگر کوئی اب بھی انکی تفسیر کو انکے سیاق و سباق سے کاٹ کر شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے تو اسکی قسمت کی خرابی۔
/////////////////////////////////////
محترم ڈاکٹر طاہر القادری کی عبارت کو جان بوجھ کر غلط پیش کرنا
از باذوق:
آپ دیکھئے کہ یہاں تین مثالیں دی گئی ہیں :
مُردہ ، بہرا اور اندھا
سوائے مُردہ کو چھوڑ کر ، باقی دونوں کی خصوصیت ، ڈاکٹر صاحب نے خود آیت کے اندر قوسین میں بیان کر دی ہے۔
یعنی :
بہرا : (صدائے حق کی سماعت سے محروم)
اندھا : (جو محرومِ بصیرت ہیں)
حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ "مُردہ" کی بھی خصوصیت کو بیان کر دیا جاتا۔ لیکن اگر وہ بیان کر دیتے تو پھر سماع موتیٰ کے قائلین کا بنایا ہوا سارا ریت کا محل ڈھیر ہو جاتا !!

کاش کہ اتنا زیادہ دائیں بائیں کی آئیں بائیں شائیں کرنے کی بجائے باذوق بھائی متحرم طاہر القادری صاحب کی اس آیت کی پوری تفسیر پڑھ لیتے [جو کہ میں نے واضح طور پر اوپر بیان کی ہے مگر چیزوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے باذوق صاحب اسے نظر انداز کر گئے]
چنانچہ جو کچھ اس آیت کی تفسیر میں محترم ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے، وہ ایک بار پھر آپکی خدمت میں ہدیہ تاکہ لوگ خود انصاف کر لیں:
٭ یہاں پر الْمَوْتٰی (مُردوں) اور الصُّمَّ (بہروں) سے مراد کافر ہیں۔ صحابہ و تابعین رضی اللہ عنھم سے بھی یہی معنٰی مروی ہے۔ مختلف تفاسیر سے حوالے ملاحظہ ہوں : تفسیر اللباب لابن عادل الدمشقی (16 : 126)، تفسیر الطبری (20 : 12)، تفسیر القرطبی (13 : 232)، تفسیر البغوی (3 : 428)، زاد المسیر لابن الجوزی (6 : 189)، تفسیر ابن کثیر (3 : 375، 439)، الدر المنثور للسیوطی (6 : 376)، اور فتح القدیر للشوکانی (4 : 150)۔
کاش کہ باذوق صاحب کو اندازہ ہو سکے کہ وہ کیسے چیزوں کو توڑ مڑوڑ کر دوسروں کے ساتھ ناانصافی کر رہے ہیں۔

[جاری ہے، اور اگلے مراسلے میں اس حدیث کا تجزیہ کریں گے جو باذوق صاحب نے پیش کی ہے]
 

jaamsadams

محفلین

اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ :
صحابہ نے آیت کا جو مفہوم مراد لیا تھا ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس کو صحیح قرار دیا۔
وہ اس طرح کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس مفہوم کا انکار کیا اور نہ ہی ان سے یہ کہا کہ :
تم نے آیت کا مفہوم غلط لیا ہے ، یہ آیت تمام مُردوں کو شامل نہیں۔
ہاں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اتنی وضاحت ضرور کر دی کہ ان مُردوں کا معاملہ جداگانہ ہے ، یہ آیت اس سے مستثنیٰ ہے۔
- باذوق


یہ جو باذوق صاحب نے البانی میاں کی منطق اوپر پیش کی یہ از خود اپنا ہی رد ہے۔

حیرت ہوتی ہے کہ ایک آدمی کو اتنا چڑھایا جارہا ہو لیکن وہ پس پردہ قرآن و سنت کے مقابل اپنے منطقی دلائل پیش کرے۔ اور مقولہ یاد آتا ہے کہ ۔ اونچا نام چھوٹا کام۔

یہ مسلمہ اصول ہے کہ قرآن و حدیث کا رد کسی بھی منطق سے نہیں ہو سکتا بلکہ منطق چاہے وہ بظاہر حقیقی ہو قرآن و حدیث کے مقبل فوراً رد ہوجائے گی اور یہی حال البانی میاں کی منطق کا بھی ہے

یہ جو اوپر لکھا ۔ "نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس کو صحیح قرار دیا۔"

اس حدیث کا کون سا جملہ اسے صحیح قرار دے رہا ہے۔ یا یہ منطق سے خود اخذ کیا گیا ؟؟؟

اور پھر لکھا۔ "یہ آیت تمام مُردوں کو شامل نہیں۔"

اس جملہ کی حیثیت بھی خود ساختہ منطق سے زیادہ نھیں۔ اس حدیث نبوی میں تو کوئی ایسا استثنائی لفظ تک نھیں

اور پھر۔ "ہاں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اتنی وضاحت ضرور کر دی کہ ان مُردوں کا معاملہ جداگانہ ہے ، یہ آیت اس سے مستثنیٰ ہے۔"

یہ وضاحتی الفاظ اس حدیث نبوی میں کہاں ہیں جو کہ صرف آپ کو نظر آئے ؟؟؟

استثنا تو اس وقت بنے گا جب کوئی ذیل میں سے کوئی جملہ یا لفظ اس حدیث میں ہو کہ یا اس کا مفہوم ذیل میں سے کوئی بنتا ہو


"اے عمر تمھاری بات صحیح ہے لیکن یہ لوگ اس آیت سے مستثنی ہیں" وغیرہ
"یہ مردے اس آیت سے مستثنی ہیں" وغیرہ
"ان مردوں کا معاملہ جداگانہ ہے" وغیرہ

کیا درج بالا جملوں میں سے کوئی لفظ یا اسی مفہوم کا کوئی جملہ اس حدیث نبوی میں پایا جاتا ہے ؟؟؟ نہیں، تو لیجئے آپ کی اس منطق کا رد منطق ہی سے نکل آیا

اب اس منطق کا رد حدیث نبوی سے اس افسوس کے کیساتھ کے اہلھدیث کہلانے کیدعوایداروں کے کل دلائل صرف اور صرف منطقی ہیں۔ بس یہی حقیقت ہے اھلھدیث ہونے کی؟؟؟ کیا آپ کی منطقیں قرآن و حدیث کے واضح احکامات کا رد ہو سکتی ہیں؟؟؟ بہرحال اب یہ حدیث نبوی پہش ہے جو کہ ثابت کرتی ہے کہ تمام مردے سنتے ہیں اور ان تمام منطقوں کا ابدی رد


سنن الترمذي، کتاب الجنائز ، باب ما یقول الرجل اذا دخل المقابر
حدثنا ‏ ‏أبو كريب ‏ ‏حدثنا ‏ ‏محمد بن الصلت ‏ ‏عن ‏ ‏أبي كدينة ‏ ‏عن ‏ ‏قابوس بن أبي ظبيان ‏ ‏عن ‏ ‏أبيه ‏ ‏عن ‏ ‏ابن عباس ‏ ‏قال ‏ مر رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏بقبور ‏ ‏المدينة ‏ ‏فأقبل عليهم بوجهه
فقال ‏ ‏السلام عليكم يا اھل القبور يغفر الله لنا ولكم أنتم ‏ ‏سلفنا ‏ ‏ونحن ‏ ‏بالأثر

کیا اس حدیث شریف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے "‏السلام عليكم يا اھل القبور " فرما کر معاذاللہ امت کو شرک کی تعلیم دی۔ کیا البانی میاں کی کوئی بھی منطق اس حدیث نبوی کو رد کرسکتی ہے ؟؟؟ کیا یہ الفاظ رسول بھی کسی خاص موقع کیلئے مخصوص ہیں ؟؟؟ کیا یہی ان اہلھدیثی ٹولوں کا دعوی ہے ؟؟؟ یہ کیسا دین ہے جو پل میں تولہ پل میں ماشہ اور اس سے باقی تمام مثالوں‌ کی قلعی کھل جاتی ہے

یہ کیسا مذاق ہے اسلام کے نام پر کہ

‏السلام عليكم يا اھل القبور
کہنا تو صحیح ٹھرا اور

‏السلام عليك يا رسول اللہ
ٹھرا شرک؟؟؟

ایسا بھونڈا دین البانی میاں اور ان کے چہیتے اہلھدیثوں کو ہی مبارک
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top