سوال
قرآن کریم کی کس آیت مبارکہ میں گنتی کے تین اعداد آئے ہیں۔ یہ اعداد کون سے ہیں اور کیا شمار کرنے کے لیے ہیں؟
وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ ۚ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۖ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ۚ فَإِذَا أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۚ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ۗ ذَٰلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّ۔هَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿١٩٦﴾
اللہ کی خوشنودی کے لیے جب حج اور عمرے کی نیت کرو، تو اُسے پورا کرو اور
اگر کہیں گھر جاؤ تو جو قربانی میسر آئے، اللہ کی جناب میں پیش کرو اور اپنے سر نہ مونڈو جب تک کہ قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے مگر جو شخص مریض ہو یا جس کے سر میں کوئی تکلیف ہو اور اس بنا پر اپنا سر منڈوا لے، تو اُسے چاہیے کہ فدیے کے طور پر روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے پھر اگر تمہیں امن نصیب ہو جائے (اور تم حج سے پہلے مکے پہنچ جاؤ)،
تو جو شخص تم میں سے حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھائے، وہ حسب مقدور قربانی دے، اور ا گر قربانی میسر نہ ہو، تو تین روزے حج کے زمانے میں اور سات گھر پہنچ کر، اِس طرح پورے دس روزے رکھ لے یہ رعایت اُن لوگوں کے لیے ہے، جن کے گھر بار مسجد حرام کے قریب نہ ہوں اللہ کے اِن احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور خوب جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے
(مودودی)
اور حج اور عمرہ اللہ کے لئے پورا کرو پھر
اگر تم روکے جاؤ تو قربانی بھیجو جو میسر آئے اور اپنے سر نہ منڈاؤ جب تک قربانی اپنے ٹھکانے نہ پہنچ جائے پھر جو تم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں کچھ تکلیف ہے تو بدلے دے روزے یا خیرات یا قربانی، پھر جب تم اطمینان سے ہو
تو جو حج سے عمرہ ملانے کا فائدہ اٹھائے اس پر قربانی ہے جیسی میسر آئے پھر جسے مقدور نہ ہو تو تین روزے حج کے دنوں میں رکھے اور سات جب اپنے گھر پلٹ کر جاؤ یہ پورے دس ہوئے یہ حکم اس کے لئے ہے جو مکہ کا رہنے والا نہ ہو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ کا عذاب سخت ہے،
(احمد رضا خان)
اور حج اور عمرہ (کے مناسک) اﷲ کے لئے مکمل کرو، پھر اگر تم (راستے میں)
روک لئے جاؤ تو جو قربانی بھی میسر آئے (کرنے کے لئے بھیج دو) اور اپنے سروں کو اس وقت تک نہ منڈواؤ جب تک قربانی (کا جانور) اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے، پھر تم میں سے جو کوئی بیمار ہو یا اس کے سر میں کچھ تکلیف ہو (اس وجہ سے قبل از وقت سر منڈوالے) تو (اس کے) بدلے میں روزے (رکھے) یا صدقہ (دے) یا قربانی (کرے)، پھر جب تم اطمینان کی حالت میں ہو تو جو کوئی عمرہ کو حج کے ساتھ ملانے کا فائدہ اٹھائے
تو جو بھی قربانی میّسر آئے (کر دے)،
پھر جسے یہ بھی میّسر نہ ہو وہ تین دن کے روزے (زمانۂ) حج میں رکھے اور سات جب تم حج سے واپس لوٹو، یہ پورے دس (روزے) ہوئے، یہ (رعایت) اس کے لئے ہے جس کے اہل و عیال مسجدِ حرام کے پاس نہ رہتے ہوں (یعنی جو مکہ کا رہنے والا نہ ہو)، اور اﷲ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اﷲ سخت عذاب دینے والا ہے،
(طاہر القادری)
اور حج اور عمرہ اللہ کے لئے پورا کرو پھر اگر تمہیں (مکہ سے) روک دیا جائے تو (حرم میں ) قربانی کا جانور بھیجو جو میسر آئے اور اپنے سر نہ منڈاؤ جب تک قربانی اپنے ٹھکانے پر نہ پہنچ جائے پھر جو تم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں کچھ تکلیف ہے تو روزے یا خیرات یا قربانی کا فدیہ دے
پھر جب تم اطمینان سے ہو تو جو حج سے عمرہ ملانے کا فائدہ اٹھائے اس پر قربانی لازم ہے جیسی میسر ہو پھر جو (قربانی کی قدرت) نہ پائے تو تین روزے حج کے دنوں میں رکھے اور سات روزے (اس وقت رکھو) جب تم اپنے گھر لوٹ کر جاؤ، یہ مکمل دس ہیں ۔یہ حکم اس کے لئے ہے جو مکہ کا رہنے والا نہ ہو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ شدید عذاب دینے والا ہے۔
(
ابو صالح مفتی محمد قاسم عطاری)
اس آیت کی
فقہی تفصیل یہاں درج ہے جس کے مطابق :
حجِ تمتع اور حجِ قران ادا کرنے والے پر استطاعت کی صورت میں قربانی (ہدی) ذبح کرنا واجب ہے اور حج افراد کرنے والے کے لیے مستحب ہے۔ قارن یا مُتَمَتِّع اگر استطاعت نہ ہونے کے سبب جانور ذبح نہ کر سکے تو پھر روزے رکھے گا
حجِ قران:
حجِ قران اس طریقہ حج کو کہتے ہیں جس میں احرام باندھتے ہوئے حج اور عمرہ دونوں کی نیت کر لی جائے کہ حج اور عمرہ ایک ہی احرام میں ادا کیے جائیں گے۔ عازم حج مکہ پہنچ کر پہلے عمرہ کرتا ہے پھر اسی احرام میں اسے حج ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس دوران احرام میلا یا ناپاک ہونے کی صورت میں تبدیل تو ہو سکتا ہے مگر اس کی جملہ پابندیاں برقرار رہیں گی۔ حج اور عمرہ جمع کر کے ایک ہی احرام میں ادا کرنے کے سبب اسے حجِ قران کہتے ہیں اور اس کی ادائیگی کرنے والا حاجی قارن کہلاتا ہے۔
حج تمتع:
وہ طریقہ حج جس میں حج اور عمرہ الگ الگ ادا کیا جاتا ہے اور اس صورت میں عمرہ ادا کرنے کے بعد عازمِ حج حلق و قصر کراکر احرام کھول دے گا۔ اس طرح اس پر آٹھ ذوالحجہ یعنی حج کے ارادے سے احرام باندھنے تک احرام کی پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ آٹھ ذوالحجہ سے حج کے لئے دوسرا احرام باندھنا پڑتا ہے۔ یہ حج صرف میقات کے باہر سے آنے والے ہی ادا کر سکتے ہیں۔ حجِ تمتع کرنے والا حاجی مُتَمَتِّع کہلاتا ہے۔
حج افراد:
حجِ افراد اس طریقہ حج کو کہتے ہیں جس میں صرف حج کا احرام باندھا جاتا ہے۔ عازمِ حج اس میں عمرہ نہیں کرتا بلکہ وہ صرف حج ہی کر سکتا ہے۔ احرام باندھنے سے حج کے اختتام تک عازمِ حج کو مسلسل احرام کی شرائط کی پابندی کرنا پڑتی ہے۔ حج افراد کرنے والے حاجی کو مفرد کہتے ہیں۔
تفسیر صراط الجنان میں اس حوالے سے درج ہے:
جو شخص ایک ہی سفرمیں شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرے اس پر شکرانے کے طور پر قربانی لازم ہے اور یہ قربانی عید کے دن والی قربانی نہیں ہوتی بلکہ جداگانہ ہوتی ہے اوراگر قربانی کی قدرت نہ ہو تو اسے حکم ہے کہ دس روزے رکھے، ان میں سے تین روزے حج کے دنوں میں یعنی یکم شوال سے نویں ذی الحجہ تک احرام باندھنے کے بعد کسی بھی تین دن میں رکھ لے، اکٹھے رکھے یا جدا جدا دونوں کا اختیار ہے اور سات روزے 13ذی الحجہ کے بعد رکھے۔مکہ مکرمہ میں بھی رکھ سکتے ہیں لیکن افضل یہ ہے کہ گھر واپس لوٹ کر رکھے۔