ام اویس

محفلین
عید الاضحی کی مناسبت سے سوال:

قرآن میں کہاں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم اپنے کس بیٹے کو قربانی کے لئے لے کر گئے؟


قرآن مجید میں حضرت ابراہیم کے بیٹے کو قربان کرنے کے وقت وہاں کس جانور کی قربانی کا ذکر ہے؟

دونوں سوالوں کا جواب ایک ہی مقام پر ہے۔
سورة الصافات۔

وَقَالَ إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَىٰ رَبِّي سَيَهْدِينِ ‎﴿٩٩﴾‏ رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ ‎﴿١٠٠﴾‏ فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ ‎﴿١٠١﴾‏ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ۚقَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ ‎﴿١٠٢﴾‏فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ ‎﴿١٠٣﴾‏ وَنَادَيْنَاهُ أَن يَا إِبْرَاهِيمُ ‎﴿١٠٤﴾‏قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ‎﴿١٠٥﴾‏ إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ ‎﴿١٠٦﴾‏ وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ ‎﴿١٠٧﴾‏ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ ‎﴿١٠٨﴾‏ سَلَامٌ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ ‎﴿١٠٩﴾‏ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ‎﴿١١٠﴾‏ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ ‎﴿١١١﴾‏وَبَشَّرْنَاهُ بِإِسْحَاقَ نَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِينَ ‎﴿١١٢﴾‏ وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَىٰ إِسْحَاقَ ۚ وَمِن ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ مُبِينٌ ‎﴿١١٣﴾

اور اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا میں تو ہجرت کر کے اپنے پروردگار کی طرف جانے واﻻ ہوں۔ وه ضرور میری رہنمائی کرے گا۔اے میرے رب! مجھے نیک بخت اوﻻد عطا فرما۔تو ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی بشارت دی۔پھر جب وه (بچہ) اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے، تو اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا میرے پیارے بچے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا کہ ابا! جو حکم ہوا ہے اسے بجا ﻻئیے انشاءاللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔غرض جب دونوں مطیع ہوگئے اور اس نے (باپ نے) اس کو (بیٹے کو) پیشانی کے بل گرا دیا۔
تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم!۔یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا، بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔
درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا۔اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیا۔اور ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا۔
ابراہیم (علیہ السلام) پر سلام ہو۔ہم نیکو کاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔بیشک وه ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھا۔
اور ہم نے اس کو اسحاق (علیہ السلام) نبی کی بشارت دی جو صالح لوگوں میں سے ہوگا۔اور ہم نے ابراہیم واسحاق (علیہ السلام) پر برکتیں نازل فرمائیں، اور ان دونوں کی اوﻻد میں بعضے تو نیک بخت ہیں اور بعض اپنے نفس پر صریح ﻇلم کرنے والے ہیں
 

عرفان سعید

محفلین
عید الاضحی کی مناسبت سے سوال:

قرآن میں کہاں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم اپنے کس بیٹے کو قربانی کے لئے لے کر گئے؟

قرآن مجید میں حضرت ابراہیم کے بیٹے کو قربان کرنے کے وقت وہاں کس جانور کی قربانی کا ذکر ہے؟
زیک کے سوالوں میں قرآن کی تحدید تھی۔ صرف قرآن کی ذیل کی آیات کو دیکھیں تو صراحت کے ساتھ حضرت اسماعیلؑ کا نام نہیں لیا گیا۔ جس پیرائے میں آیات اس واقعے کو بیان کر رہی ہیں وہاں حضرت اسحق علیہ السلام کو بطور ذبیح لینے کا احتمال بھی موجود ہے۔

سوچ کا مدار محض سلسلہ کلام تک رکھا جائے اور آخری دو آیات پر غور کیا جائے تو تو ذہن فطری طور پر حضرت اسحق علیہ السلام کی جانب مبذول ہوتا ہے۔ (یہ لازم نہیں کہ میری رائے بھی یہ ہو۔)

کس جانور کی قربانی کی گئی، اس کا بھی صراحت سے ذکر نہیں ہے۔
دونوں سوالوں کا جواب ایک ہی مقام پر ہے۔
سورة الصافات۔

وَقَالَ إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَىٰ رَبِّي سَيَهْدِينِ ‎﴿٩٩﴾‏ رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ ‎﴿١٠٠﴾‏ فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ ‎﴿١٠١﴾‏ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ۚقَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ ‎﴿١٠٢﴾‏فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ ‎﴿١٠٣﴾‏ وَنَادَيْنَاهُ أَن يَا إِبْرَاهِيمُ ‎﴿١٠٤﴾‏قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ‎﴿١٠٥﴾‏ إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ ‎﴿١٠٦﴾‏ وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ ‎﴿١٠٧﴾‏ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ ‎﴿١٠٨﴾‏ سَلَامٌ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ ‎﴿١٠٩﴾‏ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ‎﴿١١٠﴾‏ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ ‎﴿١١١﴾‏وَبَشَّرْنَاهُ بِإِسْحَاقَ نَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِينَ ‎﴿١١٢﴾‏ وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَىٰ إِسْحَاقَ ۚ وَمِن ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ مُبِينٌ ‎﴿١١٣﴾

اور اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا میں تو ہجرت کر کے اپنے پروردگار کی طرف جانے واﻻ ہوں۔ وه ضرور میری رہنمائی کرے گا۔اے میرے رب! مجھے نیک بخت اوﻻد عطا فرما۔تو ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی بشارت دی۔پھر جب وه (بچہ) اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے، تو اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا میرے پیارے بچے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا کہ ابا! جو حکم ہوا ہے اسے بجا ﻻئیے انشاءاللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔غرض جب دونوں مطیع ہوگئے اور اس نے (باپ نے) اس کو (بیٹے کو) پیشانی کے بل گرا دیا۔
تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم!۔یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا، بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔
درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا۔اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیا۔اور ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا۔
ابراہیم (علیہ السلام) پر سلام ہو۔ہم نیکو کاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔بیشک وه ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھا۔
اور ہم نے اس کو اسحاق (علیہ السلام) نبی کی بشارت دی جو صالح لوگوں میں سے ہوگا۔اور ہم نے ابراہیم واسحاق (علیہ السلام) پر برکتیں نازل فرمائیں، اور ان دونوں کی اوﻻد میں بعضے تو نیک بخت ہیں اور بعض اپنے نفس پر صریح ﻇلم کرنے والے ہیں
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
110 اور 111 والی آیات تک بیٹے کی خوشخبری پھر ذرا بڑے ہو نے اور قربانی کی آزمائش اور اس میں کامیابی سے سرخرو ہونے کا موضوع گویا ختم ہوا ہے ۔ اس کے بعد اسحاق ؑ کا تذکرہ شروع ہوا ہے ۔شاید اس لیے اسمعیل ؑ کا ذبیح اللہ ملقّب ہونے کا امکان زیادہ ہو ۔ واللہ اعلم ۔
 

زیک

مسافر
110 اور 111 والی آیات تک بیٹے کی خوشخبری پھر ذرا بڑے ہو نے اور قربانی کی آزمائش اور اس میں کامیابی سے سرخرو ہونے کا موضوع گویا ختم ہوا ہے ۔ اس کے بعد اسحاق ؑ کا تذکرہ شروع ہوا ہے ۔شاید اس لیے اسمعیل ؑ کا ذبیح اللہ ملقّب ہونے کا امکان زیادہ ہو ۔ واللہ اعلم ۔
ممکن ہے لیکن یاد رہے قرآن کی آیات میں linear time اکثر مفقود ہے اور repetition بھی عام
 

ام اویس

محفلین
ممکن ہے لیکن یاد رہے قرآن کی آیات میں linear time اکثر مفقود ہے اور repetition بھی عام

یہ کلام الله کی خاصیت اور اعجاز ہے۔

کیا آپ کسی ایسے مقام کی نشاندہی کر سکتے ہیں جہاں کوئی قصہ مسلسل بیان ہو رہا ہو اور سلسلہ منقطع ہوئے بغیر، بیچ میں کسی اور بات کو ذکر کیے بغیر۔۔۔ واقعات میں وقت کا تضاد ہو یا اسے رپیٹ کیا گیا ہو؟
 

ام اویس

محفلین
زیک کے سوالوں میں قرآن کی تحدید تھی۔ صرف قرآن کی ذیل کی آیات کو دیکھیں تو صراحت کے ساتھ حضرت اسماعیلؑ کا نام نہیں لیا گیا۔ جس پیرائے میں آیات اس واقعے کو بیان کر رہی ہیں وہاں حضرت اسحق علیہ السلام کو بطور ذبیح لینے کا احتمال بھی موجود ہے۔

سوچ کا مدار محض سلسلہ کلام تک رکھا جائے اور آخری دو آیات پر غور کیا جائے تو تو ذہن فطری طور پر حضرت اسحق علیہ السلام کی جانب مبذول ہوتا ہے۔ (یہ لازم نہیں کہ میری رائے بھی یہ ہو۔)

کس جانور کی قربانی کی گئی، اس کا بھی صراحت سے ذکر نہیں ہے۔
یہ سوالات نئے نہیں ہیں، میرا ذہن بھی مدت سے ان سوالوں میں الجھا ہوا ہے۔
 

عرفان سعید

محفلین
یہ سوالات نئے نہیں ہیں
بالکل درست
قدما کی ہی علمی روایت کو دیکھیں تو علامہ ابن جریر پوری قطعیت سے حضرت اسحق علیہ السلام کو ذبیح قرار دیتے ہیں۔
زمحشری کشاف میں اور رازی تفسیر کبیر میں دونوں طرف کے دلائل شرح و بسط سے بیان کرنے کے بعد اس معاملے میں اپنا کوئی رجحان بیان نہیں کرتے۔
جلال الدین سیوطی کا یہ قول بھی پیشِ نظر رہے کہ وہ اپنی بابت کہتے ہیں کہ میں حضرت اسحق علیہ السلام کے ذبیح ہونے کا قائل تھا لیکن اب اس معاملے میں توقف اختیار کر لیا ہے۔

میرا ذہن بھی مدت سے ان سوالوں میں الجھا ہوا ہے۔
آپ کا علمی رجحان اس معاملے میں کس جانب ہے؟
 

ام اویس

محفلین
آسمانوں، زمین اور پہاڑوں نے الله تعالی کی امانت اٹھانے سے انکار کردیا اور ڈر گئے اور انسان نے یہ بوجھ اٹھا لیا ۔
کن آیات میں اس بات کا ذکر ہے؟
 

سیما علی

لائبریرین
آسمانوں، زمین اور پہاڑوں نے الله تعالی کی امانت اٹھانے سے انکار کردیا اور ڈر گئے اور انسان نے یہ بوجھ اٹھا لیا ۔
کن آیات میں اس بات کا ذکر ہے؟
سورہ الاحزاب آية ۷۲
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُۗ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا ۙ

إِنَّا
بیشک ہم
عَرَضْنَا
پیش کیا ہم نے
ٱلْأَمَانَةَ
امانت کو
عَلَى
پر
ٱلسَّمَٰوَٰتِ
آسمانوں (پر)
وَٱلْأَرْضِ
اور زمین پر
وَٱلْجِبَالِ
اور پہاڑوں پر
فَأَبَيْنَ
تو انہوں نے انکار کردیا
أَن
کہ
يَحْمِلْنَهَا
اٹھائیں اس کو
وَأَشْفَقْنَ
اور وہ ڈر گئے
مِنْهَا
اس سے
وَحَمَلَهَا
اور اٹھا لیا اس کو
ٱلْإِنسَٰنُۖ
انسان نے
إِنَّهُۥ
بیشک وہ
كَانَ
ہے
ظَلُومًا
بہت ظالم
جَهُولًا

ابوالاعلی مودودی
ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اُسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اسے اٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے
 

ام اویس

محفلین
آسمانوں اور زمین کو تھامے رکھنے والا الله جل شانہ کے سوا کوئی دوسرا نہیں۔
کس آیت سے اس بات کا علم ہوتا ہے؟
 

سیما علی

لائبریرین
آسمانوں اور زمین کو تھامے رکھنے والا الله جل شانہ کے سوا کوئی دوسرا نہیں۔
کس آیت سے اس بات کا علم ہوتا ہے؟
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّ اللّٰهَ يُمۡسِكُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ اَنۡ تَزُوۡلَا ۚوَلَئِنۡ زَالَ۔۔تَاۤ اِنۡ اَمۡسَكَهُمَا مِنۡ اَحَدٍ مِّنۡۢ بَعۡدِهٖ ؕ اِنَّهٗ كَانَ حَلِيۡمًا غَفُوۡرًا‏ ۞
سورۃ نمبر 35 فاطر آیت نمبر 41
بیشک اللہ آسمانوں اور زمینوں کو اپنے مرکز سے ہٹنے نہیں دیتا، اور اگر وہ اپنے مرکز سے ہٹ جائیں تو اللہ کے سوا کوئی ان کو اپنی جگہ قائم نہیں کرسکتا، بیشک وہ بہت حلم والا بہت بخشنے والا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیشک اللہ آسمانوں اور زمینوں کو اپنے مرکز سے ہٹنے نہیں دیتا اور اگر وہ اپنے مرکز سے ہٹ جائیں تو اللہ کے سوا کوئی ان کو اپنی جگہ قائم نہیں کرسکتا، بیشک وہ بہت علم والا بہت بخشنے والا ہے اور انہوں نے اپنی قسموں میں سے اللہ کی بہت پکی قسم کھائی تھی کہ اگر ان کے پاس کوئی عذاب سے ڈرانے والا آگیا تو وہ کسی نہ کسی امت کی بہ نسبت ضرور زیادہ ہدایت قبول کرنے والے ہوں گے، پھر جب ان کے پاس کوئی عذاب سے ڈرانے والا آگیا، تو اس کی آمد نے صرف ان کی نفرت ہی کو زیادہ کیا زمین میں ان کے تکبر کو اور ان کی بری سازشوں کو (زیادہ ہی کیا ؎) اور بری سازشوں کا وبال صرف سازش کرنے والے پر ہی پڑتا ہے، وہ صرف پہلے لوگوں کے دستور کا انتظار کر رہے ہیں، سو آپ اللہ کے دسوتر میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے اور نہ آپ اللہ کے دستور کو ہرگز ٹلتا ہوا پائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

م حمزہ

محفلین
بیوہ کے نکاح کا حکم کس آیت میں دیا گیا ہے؟
وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًاۚ-فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ(۲۳۴)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور تم میں سے جو مرجائیں اور بیویاں چھوڑیں تو وہ بیویاں چار مہینے اوردس دن اپنے آپ کو روکے رہیں تو جب وہ اپنی(اختتامی) مدت کو پہنچ جائیں تو اے والیو! تم پر اس کام میں کوئی حرج نہیں جو عورتیں اپنے معاملہ میں شریعت کے مطابق کرلیں اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے
 

عرفان سعید

محفلین
بیوہ کے نکاح کا حکم کس آیت میں دیا گیا ہے؟
سورۃ نمبر 4 النساء
آیت نمبر 3

وَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تُقۡسِطُوۡا فِى الۡيَتٰمٰى فَانْكِحُوۡا مَا طَابَ لَ۔كُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ‌ ‌ۚ فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تَعۡدِلُوۡا فَوَاحِدَةً اَوۡ مَا مَلَ۔كَتۡ اَيۡمَانُكُمۡ‌ ؕ ذٰ لِكَ اَدۡنٰٓى اَلَّا تَعُوۡلُوۡا ۞

ترجمہ:
اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے معاملے میں انصاف نہ کرسکو گے تو عورتوں میں سے جو تمہارے لیے جائز ہوں ان سے دو دو، تین تین، چار چار تک نکاح کرلو اور اگر ڈر ہو کہ ان کے درمیان عدل نہ کرسکو گے تو ایک پر بس کرو یا پھر کوئی لونڈی جو تمہاری ملک میں ہو۔ یہ طریقہ اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ تم انصاف سے نہ ہٹو
 

ام اویس

محفلین
بیوہ کے نکاح کا حکم کس آیت میں دیا گیا ہے؟
وَأَنكِحُوا الْأَيَامَى مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
اردو:
اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کر دیا کرو۔ اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے بھی جو نیک ہوں نکاح کر دیا کرو اگر وہ مفلس ہوں گے تو اللہ انکو اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ اور اللہ بہت وسعت والا ہے سب کچھ جاننے والا ہے۔
النور:32
 

سیما علی

لائبریرین
بے شک اللہ تعا لیٰ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
وَاِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ (سورہ بقرہ؛ 186)
ترجمہ : جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں تو (کہہ دو کہ ) میں تو تمہارے پاس ہی ہوں


حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے اس کی بڑی عجیب توجیہ فرمائی ہے، فرماتے ہیں کہ اللہ بندے کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ اللہ تو ’’لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَئیٌ‘‘ ذات ہے، لیکن میں صرف سمجھانے کے لیے مثال دیتاہوں کہ دو کاغذوں کو جب گوند کے ذریعے جوڑا جاتا ہے تو کاغذاول کاغذ ثانی کے قریب ہوجاتاہے لیکن ان کو جوڑنے والی گوند کاغذ اول کی بنسبت کاغذ ثانی سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔انسان کی شہ رگ انسان کے قریب ہے تو اللہ فرما رہے کہ میں انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہوں۔ دو جڑے ہوئے کاغذوں میں سے ایک کاغذ دوسرے کے قریب ہے لیکن گوند دوسرے کاغذ کے زیادہ قریب ہے ،اسی طرح شہ رگ انسان کے قریب ہے لیکن اللہ اس سے زیادہ قریب ہے۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
بے شک اللہ تعا لیٰ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
وَاِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ (سورہ بقرہ؛ 186)
ترجمہ : جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں تو (کہہ دو کہ ) میں تو تمہارے پاس ہی ہوں
ارشادِخداوندی ہے: ﴿وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ﴾ (ق:۱۶)‘‘اور ہم تو رگِ جان سے بھی زیادہ اس کے قریب ہی
ں۔
 
Top