قرآن 2000

اظہرالحق

محفلین
میں نہیں جانتا کہ یہ مقالہ کسی نے پہلے ادھر پوسٹ کیا ہے کہ نہیں ، پھر بھی ہم سب کی توجہ کا طالب ہے ۔ ۔ ۔

http://www.quraan.it.tt/

اس لنک پر یہ مقالہ موجود ہے ، کچھ شکوک میرے بھی ہے اس کے بارے میں مگر پھر بھی پڑھنے کے لائق ہے ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
یاہو اردو کمپیوٹنگ گروہ میں اس پر گفتگو ہوئی تھی۔ ایک تو اس ڈاکیومینٹ کے نام پر اعتراض کیا گیا تھا۔ دوم، میں نے سوال کیا تھا یہ تحریر کس کی ہے؟، اگر تھیسس ہے تو مکمل حوالہ دیا جائے، لیکن پیغام دینے والوں نے کوئ جواب نہیں دیا۔ میں نے بھی ڈاؤن لوڈ تو کر رکھا ہے اگرچہ اب تک مکمل پڑھ نہیں سکا۔
کسی کو اس مقالے یا تھیسس کے بارے میں مزید کچھ تفصیل معلوم ہو تو یہاں پوسٹ کریں۔
 

زیک

مسافر
پڑھنا شروع کیا مگر اسلام یا قرآن کے موضوع تک نہ پہنچ سکا کہ اس سے پہلے اتنی عجیب و غریب کہانیاں تھیں! Protocols of the Elders of Zion کے فراڈ سے لے کر ایڈز سے متعلق انتہائی ignorant کہانیاں اور معاشیات کی بنیادی باتوں سے لاعلمی۔
 

اظہرالحق

محفلین
میرے خیال میں یہ ایک ایسی تحریر ہے جسے پڑھنا چاہیے ، میں خود بہت ساری باتوں سے اختلاف کرتا ہوں ، مگر صرف یہ کہ کر کہ اس کا ماخذ کیا ہے مصنف کون ہے ، نہ پڑھنا اس تحریر کے ساتھ زیادتی ہے ، مجھے اس میں عالم اسلام کے نامور اسکالر “اسد“ صاحب کا رنگ نظر آیا ہے ، اور دوسرا یہ تحریر ایک نظام کی بات کرتی ہے اور اس نظام کو قرآن سے اخز کیا گیا ہے (جس کے حوالہ جات بھی موجود ہیں ) سو اس پر بحث کی بھی گنجائیش ہے

دوسری بات کہ صہونیوں کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ، میں کیا کہوں اس کے لئے کہ ہو سکتا ہے کہ قرآن کی کچھ آیات بار بار یہودیوں کے بارے میں “اچھی“ رائے نہیں رکھتیں شاید اسلئے اسے اس تحریر کا حصہ بنایا گیا ہو ۔ ۔

کچھ بھی ہو ، ایک نظام کا خاکہ ضرور موجود ہے اسمیں ، اور ہاں ایڈز کے بارے میں جو کہا گیا ہے وہ بھی کچھ غور طلب ہے ۔ ۔ بہرحال ایک نامعلوم مصنف کی ایک پڑھنے لائق تحریر ہے اور پھر وہ ہی بات آتی ہے کہ اگر ہمیں اعتراض ہے تو اسکا جواب بھی دینا چاہیے ۔ ۔ ایک آغاز تو ہونا ہی چاہیے نا؟
 

اظہرالحق

محفلین
پروفیسر اسد ، عالم اسلام کے ایک نامور اسکالر تھے ، ان کی علمی اور تحقیقی تصنیفات کافی عرصے کے بعد سامنے آئئیں ، مغرب میں خاصکر لوگ انکے کام کو سراہتے ہیں ، اور کچھ عرصہ پہلے ہی سنا تھا کہ کوئی صاحب جرمنی میں انپر ڈاکٹرئیٹ بھی کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مجھے اگر کوئی لنک ملا انسے متعلق تو ضرور پیش کروں گا ۔ ۔ ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
میں نے یہ مقالہ پڑھا ہے۔ مجھے بہت سی باتیں عجیب لگیں، عجیب اس لیے کہ میں انہیں غلط نہیں کہ سکتا لیکن وہ میری معلومات اور دیگر ذرائع سے درست کہلانے کے درجے تک نہیں پہنچ سکیں۔
1۔ ایڈز، ابتداء اور اس کی ارتقاء
2۔ مصنف کی فری میسن سے لاعلمی لیکن صرف سنی سنائی بات پر ان کا نام مقالے میں استعمال کرنا
3۔ آجر اور اجیر کا نیا مجوزہ مگر ناقابلٍ عمل نظام
4۔ مقالے کا نام
5۔ ایڈیٹرز اور ادارے کا صرف نام موجود ہونا، لیکن پتہ اور دیگر معلومات غائب ہونا
6۔ یہاں تک کہ اس نام نہاد ادارے کی ای میل تک جی میل کمپنی کے توسط سے ہے تاکہ کوئی ان کی اپنی کسی دیگر ویب سائٹ تک نہ پہنچ سکے
7۔ جنسی ضرورت کو بنیادی ضرورت کا درجہ دینا، لیکن بعد میں یہ کہ دینا کہ یہ مردوں کی حد تک بنیادی ہے لیکن عورتوں‌ کی حد تک نہیں، جو کہ پہلی بات کی جزوی نفی ہے
8۔ آخری گزارش میں‌ پہلی سطر پر اس نظام کو قرآن کی رو سے اس نظام کو پھیلانا جائز اور اس کے لیے مرکز حرمٍ کعبہ کو کہ دیا گیا ہے جو بذاتٍ خود توجہ طلب دعویٰ‌ ہے
9۔ اسی آخری گزارش والے صفحے پر تیسرے پیراگراف میں‌ اسے بالواسطہ چین ای میل بنانے کا مشورہ دیا گیا ہے
10۔ اسی آخری گزارش میں آخری سے پہلے پیراگراف میں کہی گئی بات کہ سورۃ سبا کے آیت نمبر 46 کا حوالہ۔ اس میں ‌دیکھیں ‌تو ایک لمبے فقرے کے ذریعے عجیب الفاظ میں‌ وارننگ دی گئ ہے
11۔ جب کسی بھی لنک پر کلک کیا جاتا ہے تو ایڈریس بار میں ایڈریس کو ظاہر نہیں کیا جاتا
اس کے علاوہ بھی بہت سی باتیں ‌توجہ طلب ہیں۔
بےبی ہاتھی
 

الف عین

لائبریرین
میں نے محض سرسری طور سے دیکھا تھا لیکن یہ اندازہ ہوا کہ یہ تحریر اہم ضرور ہے کہ لوگ پڑھیں اور اس پر گفتگو ہو۔ اس وجہ سے پہلا خیال یہ آیا کہ اسے لائبریری میں شامل کیا جائے۔ اور اسی ضرورت کے تحت اس کے مصنف وغیرہ کے نام کے بارے میں سوالات ذہن میں اٹھے تھے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
جی استادٍ محترم، میں‌نے کئی دنوں سے بار بار پڑھا ہے، یہ سوالات جو میں‌نے لکھے، وہ بھی بار بار ذہن میں آتے ہیں۔ اب کوئی اور دوست کچھ کہے تو۔
بےبی ہاتھی
 

زیک

مسافر
اظہرالحق نے کہا:
پروفیسر اسد ، عالم اسلام کے ایک نامور اسکالر تھے ، ان کی علمی اور تحقیقی تصنیفات کافی عرصے کے بعد سامنے آئئیں ، مغرب میں خاصکر لوگ انکے کام کو سراہتے ہیں ، اور کچھ عرصہ پہلے ہی سنا تھا کہ کوئی صاحب جرمنی میں انپر ڈاکٹرئیٹ بھی کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مجھے اگر کوئی لنک ملا انسے متعلق تو ضرور پیش کروں گا ۔ ۔ ۔

کیا آپ محمد اسد کی بات کر رہے ہیں جن کا پیدائشی نام Leopold Weiss تھا اور وہ پاکستان کے شہری بھی بنے۔ اس تحریر کا تو محمد اسد سے دور کا بھی واسطہ نہیں کہ اس تحریر میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جو محمد اسد کبھی بھی اچھی نہ سمجھتے۔
 

زیک

مسافر
اظہرالحق نے کہا:
صہونیوں کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ، میں کیا کہوں اس کے لئے کہ ہو سکتا ہے کہ قرآن کی کچھ آیات بار بار یہودیوں کے بارے میں “اچھی“ رائے نہیں رکھتیں شاید اسلئے اسے اس تحریر کا حصہ بنایا گیا ہو ۔ ۔

مگر گمنام مصنف صیہونیوں کی بات قرآن کے حوالے سے نہیں بلکہ The Protocols of the Elders of Zion کے حوالے سے کرتا ہے جو ایک forgery ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اظہرالحق نے کہا:
دوسری بات کہ صہونیوں کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ، میں کیا کہوں اس کے لئے کہ ہو سکتا ہے کہ قرآن کی کچھ آیات بار بار یہودیوں کے بارے میں “اچھی“ رائے نہیں رکھتیں شاید اسلئے اسے اس تحریر کا حصہ بنایا گیا ہو ۔ ۔
اظہر بھائی آپ سے یہ غلطی متوقع نہیں‌تھی کہ صیہونیوں اور یہودیوں کو ایک سمجھ لیا ہے؟ :( دونوں میں‌وہی فرق ہے جو نازیوں اور جرمنوں میں‌ہے۔ تو قرآن کی آیات کو کیسے یہاں لاگو کیا جاسکتا ہے؟
بےبی ہاتھی
 

دوست

محفلین
لغو بے ہودہ اور بکواس۔
اس پر بے شمار اعتراضات ہوسکتے ہیں۔ مجھے جس چیز نے غصہ دلایا وہ عجیب غریب قسم کا آجر اور اجیر کا نظام اور پھر اس میں جنس کو گھسیڑنا۔
اور اس جنسی معاملے میں نکاح متعہ جیسے ایک فلسفے کو زبردستی لاگو کرنے کی کوشش یعنی شادی کو بھی کاروبار بنا دینا۔
اور جن آیات کا حوالہ موجود ہے ان کے بارے میں سب جانتے ہیں‌کہ یہ قرآنی احکامات پر مشتمل ہیں مگر مصنف کا زور اپنے قیاسات اور عجیب و غریب قسم کے نظریات پر ہے۔
بھلا اگر ایسا ہو بھی جائے کہ آجر اور اجیر ایک ہی طرح‌ زندگی گزارنے لگ جائیں‌ تو دوسرے آجر اور اجیر گروہ بھی تو ہونگے جن کی طرف دیکھ کر فرسٹریشن پیدا ہوگی ان کا طرز زندگی ہوسکتا ہے ایسا نہ ہو ہر کسی کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔
ایویں کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔
 

اظہرالحق

محفلین
دوستو میں پہلے ہی کہ چکا تھا کہ میں اس تحریر سے متفق نہیں بلکہ میں نے یہ کہا کہ یہ بہت شکوک والی ہے (میری پہلی پوسٹ دیکھیں ) دوسرا میں نے کہا تھا کہ اسے ایک راہ متعین مت سمجھیں بلکہ ایک طریقہ کار ہے جو بحث طلب ہو سکتا ہے ، بےشک یہ تحریر اغلاط سے بھر پور ہے ، مگر تجزیہ کرنے کا ایک راستہ ضرور بتاتی ہے ، اور یہ بھی بتاتی ہے کہ قرآن کو کس طرح ایک نظام بنانے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
دوسری بات ، ہم کیوں مغربی معیارات کو ہی بنیاد بناتے ہیں ؟ کہ وہ ہی عقل کل ہیں ، تھنک ٹینک ہمارے یہاں بھی ہونے چاہیے کیونکہ سوچ ہی انسان کو راستہ دیکھاتی ہے
میں نے ابھی تک اس تحریر پر باقاعدہ تجزیہ نہیں کیا ، کچھ باتیں مجھے بھی عجیب لگیں ۔ ۔ ۔ میرے دوست کا تجزیہ درست ہے کہ عائلی زندگی کے لئے “متعہ“ ٹائپ کا قانون بنانے کا کہا گیا ہے اور آجر اور اجیر میں مساوات کا جو تصور پیش کیا گیا ہے وہ انسانی فطرت کے برعکس ہے ۔ ۔ ۔
مگر ۔ ۔ جس بات پر میں آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ ہے ، کہ اس میں ایک الگ “علاقے“ کا کہا گیا ہے جہاں یہ نظام قائم کیا جائے گا اور دوسرا یہ بھی کہا گیا ہے کہ ساری دنیا سے لوگ اس میں آنا چاہیں گے ۔ ۔ ۔ کیا یہ اسرائیل ٹائیپ کی کوئی سلطنت کا خواب تو نہیں ؟
دوسری بات ، جن قرآنی آیات کا حوالہ دیا گیا ہے ، انہیں غور سے پڑھیں تو پتہ چلے گا کہ مصنف خود کنفیوز ہوا ہے ، خاصکر تعدد ازدواج ، اور بچوں کی پرورش کے حوالے سے
تیسری بات، زکریا جی ہاں میں محمد اسد کی ہی بات کر رہا تھا ، اصل میں انکی تحریریں بھی اکثر ایک نئے نظام کی بات کرتیں ہیں ، اور موجودہ نظاموں کی تطہیر کی بات سامنے آتی ہے ، اس لئے میں نے حوالہ دیا تھا ، مگر میں یہ کہ سکتا ہوں کہ ہو سکتا ہے کہ آئڈیا انکی تحریروں سے لیا گیا ہو ۔ ۔ ۔ مگر نامکمل اور شکوک سے بھرپور تحریر محمد اسد کی نہیں ہو سکتی ۔ ۔

ایک اور بات کہ اس تحریر کا ماخذ اور مصنف (یا مصنفین) سامنے نہیں لائے گئے ، اسکی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ مصنف کے پاس اس تحریر سے اٹھنے والے سوالات کا جواب نہیں ہے ۔ ۔ یا نہیں دینا چاہتا ۔ ۔ ۔

اصل مسلہ یہ ہے دوستو کہ ، اس وقت عالم اسلام اور خاصکر ہماری نوجوان نسل اسلامی نظام سے دور ہوتی جا رہی ہے ، اور ہمارا نہ جاننا اور نامکمل جاننا ہی ہماری “تباہی“ کا باعث ہے ۔ قرآن ہمیں بار بار غور کی دعوت دیتا ہے ۔ ۔ کیا ہم اس تحریر کو ہی وجہ بنا کر سوچنا شروع کر سکتے ہیں ۔ ۔ ۔
 

اظہرالحق

محفلین
قیصرانی نے کہا:
اظہرالحق نے کہا:
دوسری بات کہ صہونیوں کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ، میں کیا کہوں اس کے لئے کہ ہو سکتا ہے کہ قرآن کی کچھ آیات بار بار یہودیوں کے بارے میں “اچھی“ رائے نہیں رکھتیں شاید اسلئے اسے اس تحریر کا حصہ بنایا گیا ہو ۔ ۔
اظہر بھائی آپ سے یہ غلطی متوقع نہیں‌تھی کہ صیہونیوں اور یہودیوں کو ایک سمجھ لیا ہے؟ :( دونوں میں‌وہی فرق ہے جو نازیوں اور جرمنوں میں‌ہے۔ تو قرآن کی آیات کو کیسے یہاں لاگو کیا جاسکتا ہے؟
بےبی ہاتھی


قرآن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ یہودی اور نصاریٰ کبھی تمہارے دوست نہیں ہو سکتے ۔ ۔ لفظ یہودی میں نے وہاں سے اخذ کیا ہے ۔ سورہ مائدہ کی آیت 51 میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
“اے ایمان والو یہود و نصاریٰ کو دوست مت بناؤ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں جو شخص ان میں سے کسی کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہو گا بے شک خدا ظالم لوگوں کی ہدایت نہیں دیتا“

یہاں پر قرآن لفظ یہود ہی استعمال کرتا ہے اور اسکا کا سیاق و سباق بھی اسی مقصد کو واضح کرتا ہے یعنی اس آیت سے اگلی اور پچھلی آیات

قرآن کی آیات ہر جگہ پر لاگو ہوتیں ہیں ، اثبات میں یا نفی میں ، صرف ہماری سمجھ بوجھ پر منحصر ہے اور ہمارے جاننے پر ۔اور ہمارے ایمان پر بھی ۔ ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اظہر بھائی، اب میں‌اس بارے میں‌کیا کہوں۔ صیہونی اور یہودی ایک جیسے آپ نے کہ دیے اور میں‌ نے مان لیے۔ ویسے پیارے بھائی، میں‌ نے 10 یا 11 دوسرے سوالات بھی اٹھائے تھے، ان کے بارے میں بھی کچھ فرما دیں تو عنایت ہوگی، اسی طرح شاکر بھائی کا سوال بھی تشنہ رہ گیا ہے۔ دوسرا اس محفل پر بہت بار یہ حدیث سنائی جا چکی ہے کہ جب تک آپ کو کسی بات کا سچ ہونا ثابت نہ ہو جائے، اسے آگے نہ بڑھائیں۔ اس مقالے کے بارے میں میں‌کیا کہوں، اس کے تو لکھاری کا نام بھی نہیں‌ معلوم۔ اس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں‌ جانتا کہ وہ کون ہے اور نہ ہی یہ پتہ ہے کہ جس ویب سائٹ نے اسے آگے پھیلایا ہے، وہ کس کی ہے اور کون اس کے مالک ہیں۔ کیا اس بارے میں کوئی قرآنٍ پاک کی آیت کا حوالہ دیں گے کہ یہ کس زمرے میں‌ جائز ہے؟
بےبی ہاتھی
 

اظہرالحق

محفلین
قیصرانی نے کہا:
اظہر بھائی، اب میں‌اس بارے میں‌کیا کہوں۔ صیہونی اور یہودی ایک جیسے آپ نے کہ دیے اور میں‌ نے مان لیے۔ ویسے پیارے بھائی، میں‌ نے 10 یا 11 دوسرے سوالات بھی اٹھائے تھے، ان کے بارے میں بھی کچھ فرما دیں تو عنایت ہوگی، اسی طرح شاکر بھائی کا سوال بھی تشنہ رہ گیا ہے۔ دوسرا اس محفل پر بہت بار یہ حدیث سنائی جا چکی ہے کہ جب تک آپ کو کسی بات کا سچ ہونا ثابت نہ ہو جائے، اسے آگے نہ بڑھائیں۔ اس مقالے کے بارے میں میں‌کیا کہوں، اس کے تو لکھاری کا نام بھی نہیں‌ معلوم۔ اس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں‌ جانتا کہ وہ کون ہے اور نہ ہی یہ پتہ ہے کہ جس ویب سائٹ نے اسے آگے پھیلایا ہے، وہ کس کی ہے اور کون اس کے مالک ہیں۔ کیا اس بارے میں کوئی قرآنٍ پاک کی آیت کا حوالہ دیں گے کہ یہ کس زمرے میں‌ جائز ہے؟
بےبی ہاتھی

سب سے پہلی بات یہودی والی بات کا اس تحریر سے کوئی لنک نہی تھا آپ نے کہا کہ یہودی لفظ کیوں استعمال کیا ہے اسکا جواب تھا ۔ ۔ اور جس آیت کا حوالہ دیا ہے وہ ذرا غور سے پڑھ لیں ۔ ۔ ۔ ہم چاہے کتنے بھی کھلے ذھن کے ہو جائیں ، یہودی ہمارے حق میں نہیں
دوسرا آپ کے اور شاکر کے سوالات کا جواب میں کیا دوں ایسے ہی سوالات میرے ذھن میں بھی ہیں ۔ ۔ ۔ اور میں بھی آپ لوگوں کی طرح اس تحریر کے منبے سے ناواقف ہوں ۔ ۔ ۔اور میں نے بھی کچھ سوالات اٹھائے ہیں جیسے ایک الگ علاقے کے قیام کا قیاس وغیرہ ۔ ۔

رہی بات کہ بنا تحقیق کے اس بات کو میں نے آگے بڑھایا ، ایسا نہیں ہے آپ میری پوسٹس غور سے پڑھیں میں نے اس تحریر کو ایک بحث کے آغاز کا باعث سمجھا اسلئے اسے آپ تک پہنچایا اور جیسے ہمارے ایک بزرگ پہلے ہی فرما چکے ہیں کہ یہ تحریر بہت جگہ پر موجود ہے ۔ ۔ ۔

میں خود جاننا چاہوں گا کہ یہ کس کی تحریر ہے ، مگر اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ یہ تحریر کیوں ہے ، کیا ہے کیسے ہے ۔ ۔ ۔

ہو سکتا ہے کہ میں غلط سمجھا ہوں ، آپ نے مجھ سے ایسے پوچھا ہے جیسے میں ہی اس تحریر کا منبیٰ ہوں ۔ ۔ ۔

کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ہم سب ملکر ایک ایسے مسودے پر کام کریں جیسا کہ یہ ہے ۔ ۔۔ جس میں ہم ایک نیا نظام پروپوز کریں ۔ ۔ ۔ ماشااللہ بہت ذھین لوگ موجود ہیں ادھر ، ہمیں اپنی صلاحتیں اس مقصد میں لگانی چاہیے ۔ ۔ اور یہ ہی میں نے اپنی پچھلی پوسٹس میں کہا ہے ۔ ۔ ۔ نہ کہ ایک دوسرے کو “لاجواب“ کرنے کے لئے ۔ ۔ ۔

------------------------------------------------------
 

قیصرانی

لائبریرین
اظہرالحق نے کہا:
کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ہم سب ملکر ایک ایسے مسودے پر کام کریں جیسا کہ یہ ہے ۔ ۔۔ جس میں ہم ایک نیا نظام پروپوز کریں ۔ ۔ ۔ ماشااللہ بہت ذھین لوگ موجود ہیں ادھر ، ہمیں اپنی صلاحتیں اس مقصد میں لگانی چاہیے ۔ ۔ اور یہ ہی میں نے اپنی پچھلی پوسٹس میں کہا ہے ۔ ۔ ۔ نہ کہ ایک دوسرے کو “لاجواب“ کرنے کے لئے ۔ ۔ ۔

------------------------------------------------------
اظہر بھائی، ہم کیسے ایک نئے نظام کے لیے بحث شروع کرلیں؟جب کہ ہمارے پاس سیدھا سیدھا نظام قرآن میں‌ موجود ہے۔ کیا اس کی موجودگی میں ہم کسی دنیاوی نظام کو خود سے بنانے کی جرآت کر سکتے ہیں؟
بےبی ہاتھی
 

دوست

محفلین
میں‌ نے کچھ اور غور کیا تو ایک بات اور سامنے آئی۔
یہ لوگ اخلاق، سادگی، یہ وہ ساری اخلاقیات کو کمرشلائز کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ اس فائل میں کہا گیا ہے۔ میرے حساب سے اس طرح جو چیز پیدا ہوگی وہ منافقت ہے۔ رویوں میں منافقت شاید کسی اور ہی طرف لے جائے۔
اور “اجیر“ بیوی کا معاشرے میں کوئی مقام نہیں‌ ہوگا۔ اصلی بیوی اور اس میں وہی نسبت ہوگی جو بیوی اور باندی میں‌ ہوا کرتی تھی کبھی۔
بہت ہی مادیت پرست ہوکر سوچا گیا ہے۔ رسول کریم ص کی زندگی کو مکمل طور پر بائی پاس کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کا نتیجہ آئیں‌ بائیں‌ شائیں کی صورت میں اس تحریر میں‌ موجود ہے۔
شاید مصنفین یہ بھول گئے ہیں کہ ہمیں آخرت پر زور دینے کو بھی کہا گیا ہے۔ دنیا ہی سب کچھ نہیں۔ دونوں میں‌ توازن کا نام ہی اسلام ہے۔
بہرحال قرآن کا نظام ہمارے پاس موجود تو ہے مگر عمل کون کرتا ہے۔
 
Top