نور وجدان
لائبریرین
کیمیائے سعادت امام غزالی کی شہرۃ آفاق تصانیف میں سے ایک ہے۔ اِس سے ایک اقتباس پیش کرنا چاہوں گا کہ آج سے کم و بیش ایک ہزار سال قبل ایک صاحبِ راز نے جو باتیں کیں اُمید ہے وہ میری گذشتہ نگارشات کی خاطر خواہ تفہیم کا وسیلہ بنیں گی:
۔ ۔ ۔ ۔ ۔دِل آئینہ کی مانند ہے اور لوحِ محفوظ اِس آئینہ کی مانند ہے جِس میں سب موجودات کی تصویریں ہیں صاف آئینہ کو جب تصویر والے آئینہ کے سامنے کرتے ہیں تو اِس میں سب تصویریں دکھائی دینے لگتی ہیں، اِسی طرح دِل جب آئینہ کی طرح صاف ہو اور محسوسات سے قطع تعلق کر لے تو اِسے لوحِ محفوظ سے مُناسبت ہو جاتی ہے اور پھر وہاں موجودات کی سب تصاویردِل میں نظر آنے لگتی ہیں اور دِل جب تک محسوسات میں مشغول رہتا ہے عالمِ روحانی کی سیر کرتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اورعالمِ ملکوت کی طرف دِل کا دروازہ ہونے کی دوسری دلیل یہ کہ کوئی شخص ایسا نہیں کہ جِس کے دِل میں فراست اور نیک خطرات الہام کے طور پر نہ آتے ہوں اور وہ حواس کی راہ سے نہیں بلکہ دِل ہی میں پیدا ہوتے ہیں اور وہ جانتا ہی نہیں کہ یہ خطرات کہاں سے آ رہے ہیں۔ انتخابات سے یہ معلوم ہو گیا کہ تمام علوم محسوسات کے سبب نہیں اور دِل کا تعلق اِس جہان سے نہیں بلکہ عالمِ روحانی سے ہے اور حواس کو اِس عالم کے واسطے پیدا کیا گیا ہے یہ خوامخواہ اُس جہان کو دیکھنے میں آڑ ہوں گے اور جب تک اِس جہان سے فارغ نہیں ہو گا اُس جہان کی راہ نہیں پا سکے گا۔
تم یہ گُمان نہ کرنا کہ عالمِ روحانی کی طرف دِل کا دروازہ تب ہی کُھلتا ہے جب آدمی سوئے یا مر جائے بلکہ اگر کوئی شخص محنت و مُشقت سے کام لے اور خواہشات و غُصّہ پر قابو پا لے اور بُرے اخلاق سے اپنے آپ کو پاک کر لے اور خالی جگہ میں بیٹھ کر آنکھ بند کرکے اور حواس کو بیکار کر کے دِل کی عالمِروحانی کے ساتھ اتنی مناسبت پیدا کردے کہ ہمیشہ دِل سے اللہ اللہ کہے زبان سے نہیں حتیٰ کہ اپنے آپ اور تمام جہان سے بے خبر ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کے سِوا کِسی کی خبر نہ رکھے جب ایسا ہو جائے تو اگرچہ جاگتا ہو پھر بھی دِل کا دروازہ کُھلا رہے گا اورلوگ جو کُچھ خواب میں دیکھیں گے یہ جاگتے میں دئکھے گا۔ فرشتوں کی ارواح اچھی صورتوں میں اِس پر ظاہر ہوں گی انبیاء کو دیکھنے لگے گا اور اِن سے بُہت فائدہ اور مدد پائے گا۔ زمین و آسمان کے ملکوت اِسے نظر آنے لگیں گے اور جِس کسی پر یہ راہ کُھل گئی وہ عجیب عجیب تماشے اور بڑے بڑے کام جِن کی تعریف امکان سے باہر ہےدیکھے گا۔
یہ جس آئنے کی بات کی نا آپ نے وہ انسانی نفس ملحمہ سے تعلق رکھتا ہے اور اس نفس کا ذکر بھی قرانِ پاک میں ہے۔۔۔۔نفس مشقت سے بھی حاصل ہوتا اور عطا بھئ ۔۔
ایک برزگ حضرت ابو الفضیل رح تھے ۔۔۔۔۔ !!! ڈاکو تھے ! حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رح کے قافلے کے رہزنوں نے گھیرا اور ان رہزنوں کی ٹولی لے سردار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ توبہ کرنے سے پہلے چاند پر آذان سن لیا کرتے ۔۔۔۔۔۔!
کام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کام ہوتا تو جان کا قرضہ اللہ تعالیٰ لیتے ہیں ۔۔ یہ بھی مالک کی طرف سے انسانی تسکین ہے کہ نفس اجرت مانگے مگر دیکھو خالق کی محبت ،،، جیسے بچے کو سمجھانے کے لیے بچہ بننا پڑتا ہے اسی طرح وہ ہمیں بچہ سمجھتا ہے اور ہمیں کام کی ترغیب دیتا ہے ورنہ کام اس کو کیا ہم سے ۔۔۔ کام یہ کہ انسان تم اپنی ''میں'' کی نفی کرکے میرے ہوجاؤ اور میں اس نفی کے بدلے جو التزامات کروں گا اس کا تصور تو کوئی نہیں کرسکتا ہے
بہتریں اقتباس ۔۔ آپ نے ابھی تک جو بھی پوسٹ کیا اس میں یہ بہترین ہے ۔۔۔