سید عاطف علی
لائبریرین
گزشتہ شب کی بے چینی و بےخوابی ان اشعار کی صورت میں ظاہر ہوئی ۔
۔عنوان قرنطین ۔
مدت ہوئی اک حشر سا عالم میں بپا ہے
اور سامنے انساں ہے جو لاچار کھڑا ہے
زنجیر نہیں پاؤں میں محبوس ہے پھر بھی
یارب وہ خطا کیا ہے کہ جس کی یہ سزا ہے
جو نشہء ِلذاتِ جہاں میں ہوا بدمست
اک شورش ِ پیہم میں گرفتار ہوا ہے
گھر گھر جو ہوا صورت زندان ، قرنطین
اندوہِ فراواں کا اک انبار لگا ہے
ہر شہر کی گلیوں میں ہے سناٹوں کا عفریت
ویران طلسمات کا ایک روگ لگا ہے
طاری ہے مسیحاؤں پہ بھی خوف جہاں کے
اس رات کا ہر تارا ہی بے نور و ضیا ہے
تاراج دساتیر ہیں قربِ دل و جاں کے
انسان ہی انسان سے اب دور کھڑا ہے
مغرب کے اندھیروں میں ہے خورشید ِجہانتاب
مشرق بھی تہی دست کہ محروم ضیاء ہے
اے کاشفِ غم کھول دے یہ بند وگرنہ
اٹھے گا نہیں سر جو یہ سجدے میں پڑا ہے
آشفتہ ؤ پژمردہ ؤ آزردہ ہے عاطف
یہ بیکس و بیچارے کی مجبور صدا ہے
---
سید عاطف علی ۔ 12 اپریل 2020
۔عنوان قرنطین ۔
مدت ہوئی اک حشر سا عالم میں بپا ہے
اور سامنے انساں ہے جو لاچار کھڑا ہے
زنجیر نہیں پاؤں میں محبوس ہے پھر بھی
یارب وہ خطا کیا ہے کہ جس کی یہ سزا ہے
جو نشہء ِلذاتِ جہاں میں ہوا بدمست
اک شورش ِ پیہم میں گرفتار ہوا ہے
گھر گھر جو ہوا صورت زندان ، قرنطین
اندوہِ فراواں کا اک انبار لگا ہے
ہر شہر کی گلیوں میں ہے سناٹوں کا عفریت
ویران طلسمات کا ایک روگ لگا ہے
طاری ہے مسیحاؤں پہ بھی خوف جہاں کے
اس رات کا ہر تارا ہی بے نور و ضیا ہے
تاراج دساتیر ہیں قربِ دل و جاں کے
انسان ہی انسان سے اب دور کھڑا ہے
مغرب کے اندھیروں میں ہے خورشید ِجہانتاب
مشرق بھی تہی دست کہ محروم ضیاء ہے
اے کاشفِ غم کھول دے یہ بند وگرنہ
اٹھے گا نہیں سر جو یہ سجدے میں پڑا ہے
آشفتہ ؤ پژمردہ ؤ آزردہ ہے عاطف
یہ بیکس و بیچارے کی مجبور صدا ہے
---
سید عاطف علی ۔ 12 اپریل 2020
آخری تدوین: