گُلِ یاسمیں
لائبریرین
ریختہ صفحہ 97
آیا۔ کہنے لگا کہ آدم زادوں میں یہ رسم ہے کہ جو کوئی سفر سے پھرے یا فتح کر کے آئے ،عزیز اقربا، یگانہ و بیگانہ ، یارو آشنا کچھ تصدق بھیجتے ہیں ۔گل بادشاہ نے کہا " اس جوگی بچہ نے ایسی کون سی لڑائی فتح کی۔" جواہر نے کہا" گستاخی معاف، جی ہی جانتا ہوگا۔" ہنس کر بادشاہ نے کہا " تو تو اس کا احسان مند ہے، ایسے کیوں نہ کہے گا۔" غرض کہ گل بادشاہ نے وزیر کو ما تصدق شاہانہ ادھر روانہ کیا۔ باریاب ہوا، آداب بجا لایا۔ اگر شاہ نے کہا " اس دیو بچہ نے بہت پچھتا کے تصدق بھیجا، بڑی زیر باری ہوئی۔ معلوم ہوتا ہے تیرا بادشاہ کوڑی کوڑی پر جان دیتا ہے، جی چاہتا ہے اس کو صدقے اتاریے۔" جواہر نے سر اٹھا کر دیکھا کہ گل بادشاہ تخت پر سوار گرد پھر رہاہے، تصدق ہو رہا ہے۔ جواہر نے اشارے سے اگر شاہ کو جتایا۔ ایسی چھیڑ چھاڑ دونوں طرف سے رہی، چوری چھپے ایک دوسرے کو دیکھ لیا۔ اگر شاہ برخاست کرکے جوگی کے مکان میں آیا، نقب کی راہ سے اپنی تخت گاہ میں رونق افزا ہوا۔ کاروبار مالی و ملکی میں مشغول تھا۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ اگر شاہ جوگی صاحب کے مکان میں سرگرم صحبت تھا، جواہر وزیر حاضر ہوا۔ بادشاہ نے کہا " اے جواہر ! آج کل تو بہت بےعزتی سے رہتا ہے، تیرے بادشاہ کو پان تک میسر نہیں ہے جو تجھے دیتا۔" اس نے کہا " کیا عرض کروں، پان ایک طرف، کئی دن سے میرے بادشاہ نے آب و دانہ ترک کیا ہے، میں کس طرح پان کھاؤں" اگر بادشاہ نے کہا " اگر ہم تیرے آقا کو کھانا کھلائیں تو ہمیں کیا نذر کرے؟" اس نے کہا " غلام جان و مال سے حاضر ہے لیکن اب وہ نہ کھائیں گے۔ قریش و لال دیو نے بہت سمجھایا، نوش نہ فرمایا۔
ریختہ صفحہ 98
شعر
فائدہ اب کیا کرے تریاق وصل
زہر غم ہجر اثر کر گیا
ارشاد فرمایا کہ اس پر کچھ شرط باندھئیے۔ جواہر نے کہا " بہت اچھا، کیا بدتے ہو؟" بادشاہ نے کہا " جو ہم اس کو کھانا کھلائیں تو ساتھ پاپوشیں تیرے لگائیں اور جو شرط ہاریں تو یہ شہباز تجھے دیں۔" اس نے کہا" قبول!" یہ شرک بد کر وہ رخصت ہوا۔ گل بادشاہ کو خبردار کیا۔
جانا اگر شاہ کا گل شاہ کے مکان میں جذب صادق سے اور کھانا کھلانا اس کو
جب گردہء آفتابی گرما گرم تنور مشرق سے نکلا اور رزاق مطلق نے اطعام عام کا حکم دیا، اگر شاہ تشنہ ءدیدار کی سیری کے واسطے بہ صد آب و تاب چلا۔ گل بادشاہ کو اس کے دل نے آگاہ کیا کہ وہ مہمان نمکین با صد شیر یں ادائی اس بیت الاحزان میں مہمان ہوا چاہتا ہے۔ اس مریض محبت نے بے ساختہ سر اٹھا کر دیکھا اور یہ شعر پڑھا
شعر
خبرم رسید امشب کہ نگار خواہی آمد
سر من فدائے راہت کہ سوار خواہی آمد
جواہر وزیر آمد آمد کی خبر لایا، وہ ناتوان و زار بے اختیار اٹھ بیٹھا، درستی مکان میں مشغول ہوا۔ آپ اہتمام کرتا تھا اور یہ شعر جو اہر کو سنا سنا پڑھتا تھا:
آیا۔ کہنے لگا کہ آدم زادوں میں یہ رسم ہے کہ جو کوئی سفر سے پھرے یا فتح کر کے آئے ،عزیز اقربا، یگانہ و بیگانہ ، یارو آشنا کچھ تصدق بھیجتے ہیں ۔گل بادشاہ نے کہا " اس جوگی بچہ نے ایسی کون سی لڑائی فتح کی۔" جواہر نے کہا" گستاخی معاف، جی ہی جانتا ہوگا۔" ہنس کر بادشاہ نے کہا " تو تو اس کا احسان مند ہے، ایسے کیوں نہ کہے گا۔" غرض کہ گل بادشاہ نے وزیر کو ما تصدق شاہانہ ادھر روانہ کیا۔ باریاب ہوا، آداب بجا لایا۔ اگر شاہ نے کہا " اس دیو بچہ نے بہت پچھتا کے تصدق بھیجا، بڑی زیر باری ہوئی۔ معلوم ہوتا ہے تیرا بادشاہ کوڑی کوڑی پر جان دیتا ہے، جی چاہتا ہے اس کو صدقے اتاریے۔" جواہر نے سر اٹھا کر دیکھا کہ گل بادشاہ تخت پر سوار گرد پھر رہاہے، تصدق ہو رہا ہے۔ جواہر نے اشارے سے اگر شاہ کو جتایا۔ ایسی چھیڑ چھاڑ دونوں طرف سے رہی، چوری چھپے ایک دوسرے کو دیکھ لیا۔ اگر شاہ برخاست کرکے جوگی کے مکان میں آیا، نقب کی راہ سے اپنی تخت گاہ میں رونق افزا ہوا۔ کاروبار مالی و ملکی میں مشغول تھا۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ اگر شاہ جوگی صاحب کے مکان میں سرگرم صحبت تھا، جواہر وزیر حاضر ہوا۔ بادشاہ نے کہا " اے جواہر ! آج کل تو بہت بےعزتی سے رہتا ہے، تیرے بادشاہ کو پان تک میسر نہیں ہے جو تجھے دیتا۔" اس نے کہا " کیا عرض کروں، پان ایک طرف، کئی دن سے میرے بادشاہ نے آب و دانہ ترک کیا ہے، میں کس طرح پان کھاؤں" اگر بادشاہ نے کہا " اگر ہم تیرے آقا کو کھانا کھلائیں تو ہمیں کیا نذر کرے؟" اس نے کہا " غلام جان و مال سے حاضر ہے لیکن اب وہ نہ کھائیں گے۔ قریش و لال دیو نے بہت سمجھایا، نوش نہ فرمایا۔
ریختہ صفحہ 98
شعر
فائدہ اب کیا کرے تریاق وصل
زہر غم ہجر اثر کر گیا
ارشاد فرمایا کہ اس پر کچھ شرط باندھئیے۔ جواہر نے کہا " بہت اچھا، کیا بدتے ہو؟" بادشاہ نے کہا " جو ہم اس کو کھانا کھلائیں تو ساتھ پاپوشیں تیرے لگائیں اور جو شرط ہاریں تو یہ شہباز تجھے دیں۔" اس نے کہا" قبول!" یہ شرک بد کر وہ رخصت ہوا۔ گل بادشاہ کو خبردار کیا۔
جانا اگر شاہ کا گل شاہ کے مکان میں جذب صادق سے اور کھانا کھلانا اس کو
جب گردہء آفتابی گرما گرم تنور مشرق سے نکلا اور رزاق مطلق نے اطعام عام کا حکم دیا، اگر شاہ تشنہ ءدیدار کی سیری کے واسطے بہ صد آب و تاب چلا۔ گل بادشاہ کو اس کے دل نے آگاہ کیا کہ وہ مہمان نمکین با صد شیر یں ادائی اس بیت الاحزان میں مہمان ہوا چاہتا ہے۔ اس مریض محبت نے بے ساختہ سر اٹھا کر دیکھا اور یہ شعر پڑھا
شعر
خبرم رسید امشب کہ نگار خواہی آمد
سر من فدائے راہت کہ سوار خواہی آمد
جواہر وزیر آمد آمد کی خبر لایا، وہ ناتوان و زار بے اختیار اٹھ بیٹھا، درستی مکان میں مشغول ہوا۔ آپ اہتمام کرتا تھا اور یہ شعر جو اہر کو سنا سنا پڑھتا تھا: