گُلِ یاسمیں
لائبریرین
ریختہ صفحہ 177
عرصہ ءظہور میں آئے گی آپ پریشانی کو دور کریں، خاطر جمع رکھیں۔" لال دیو کمال بشاش ہو کر شہر خشخاش سے رخصت ہوا۔ گل کو وہ مژدہ سنایا، خوشی سے پھولا نہ سمایا۔
طمانچہ مارنا اگر صاحب کا شغل چوگان بازی میں افلاطون کو اور ملال ہونا گستاخی افلاطون سے عاشق مفتون کو
کہتے ہیں کہ جب سے اگر صاحب نے جوگی صاحب کے مکان کے قریب رہنا اختیار کیا، اکثر محل سرا میں رہے، سیر و تماشا سے انکار کیا۔ ایک دن کا ذکر سنیے کہ شہریار، بسنت، جواہر، منوچہر باریاب ہوئے۔ شہزادے نے کہا" تم کئی روز سے کہاں تھے؟" جواہر نے کہا " خانہ زاد تو کل بھی حاضر ہوا تھا، حضرت محل میں تشریف رکھتے تھے۔ بہت انتظار کیا، چلا گیا۔" بادشاہ نے حکم کیا ہے کہ بہت جلد زنانی پوشاک عروسانہ تیار لوں گا، اس میں کچھ غفلت کی تو اس علت میں بہت بیزار ہو ں گا۔" اگر صاحب نے کہا " تمہارے بادشاہ کے پیچھے ایک نہ ایک علت لگی رہتی ہے، وہ علتی ہوگیا ہے۔" بسنت نے بھی کہا" غلام بھی ان دنوں میں بہت عدیم الفرصت ہے، تیاری زیور کی مجھے خدمت ہے۔" شہر یار نے کہا ہے کہ غلام روشنی و جلوس وغیرہ کے تردد میں ہے۔ منوچہر نے کہا " خانہ زاد کو اہتمام محفل اور بخت طعام سپرد ہے۔ ظاہرا معلوم ہوتا ہے کہ کسی سے نامزد ہوا چاہتے ہیں۔" شہزادے نے کہا " ایسا نہ ہو، تمہارا بادشاہ شادی مرگ ہو جائے۔" وزیروں نے کہا " آپ اپنی زبان سے یہ نہ فرمائیں بلکہ اس کا رخیر کی خیر منائیں۔" القصہ یہ باتیں دیر تک رہیں۔ بعد ازاں اگر شاہ چوگان بازی میں مشغول ہوا۔
ریختہ صفحہ 178
کہ ناگاہ قلغی اگر شاہ کے تاج سے جدا ہو کر گر پڑی۔ افلاطون اس لحاظ سے کہ شاید کسی کا پاؤں پڑ جائے، اس طرح گھبرا کر اٹھانے کو دوڑا کہ شہزادے کے گال سے اس کا گال مل گیا۔ شہزادے نے غیرت پاکدامنی سے ایک طمانچہ اسے مارا، برا بھلا کہا۔ افلاطون نے اس روداد سے رو دیا۔ اگر شاہ کے دل میں گل بادشاہ کے خار رنج کا کھٹکا پیدا ہوا کہ شاید تحت ہوا پر سوار دیکھتا ہو۔ حسب اتفاق گل شاہ تحت ہوا پر سوار تھا، اس امر سے نہایت منقبض ہوا اور آزردہ ہو کر چلا گیا۔ یہاں شہزادہ بھی مکدر ہوا، چوگان بازی سے باز رہا، دریا کی طرف شکار کھیلنے کو گیا۔ بسنت سے کہا " ہمارے واسطے مچھلی کے کباب اپنے گھر سے پکا لا۔" ہم تو ادھر گیا، شہزاد ےنے کہا " اے جواہر! میرا جی گھبراتا ہے۔" اس نے کہا " گل بادشاہ کی طرف چلیے، دو چار گھڑی استراحت فرمائیے۔" شہزادہ اس کی طرف گیا، صاحب خانہ کو مکان میں نہ پایا، اس کی خواب گاہ میں سو رہا۔ گل بادشاہ اس کے آنے کی خبر سن کر کام نا تمام چھوڑ کر دوڑ ا آیا۔ کئی بار نام لے کر پکارا، اگر شاہ مطلق بیدار نہ ہوا۔ افلاطون کی حرکت سے شعلہ غصہ و غضب کا یوں سینے میں مشتعل تھا، ضبط نہ ہوسکا، آہستہ سے ایک طمانچہ مارا۔ شہزادہ خواب سے چونک اٹھا۔ گل رخسار سوسن کی طرح نیلگوں ہوگیا۔ کچھ نہ کہا۔ وہاں سے اپنے مکان میں آیا۔ حمید سے فرمایا " کسی کو اس وقت آنے نہ دینا۔" بسنت مچھلی کے کباب لے کر حاضر ہوا، حمید نے عرض کی۔ بسنت کو خدمت میں بلایا۔ اس نے کباب گزرانے۔ پھر عرض کی " ابھی رخسارہ ء قمر لقا جرم کلف سے مبرا دیکھا تھا اور کل آپ نے افلاطون کو طمانچہ مارا تھا۔ طرفہ ماجرا ہے کہ نشان اس کا چہرہ ءاقدس پر آج تک ہویدا ہے۔" شہزادے نے اس کو اور باتوں میں لگایا۔ ٹالا بالا بتایا۔ چند روز خلوت میں رہا۔ کئی دن
عرصہ ءظہور میں آئے گی آپ پریشانی کو دور کریں، خاطر جمع رکھیں۔" لال دیو کمال بشاش ہو کر شہر خشخاش سے رخصت ہوا۔ گل کو وہ مژدہ سنایا، خوشی سے پھولا نہ سمایا۔
طمانچہ مارنا اگر صاحب کا شغل چوگان بازی میں افلاطون کو اور ملال ہونا گستاخی افلاطون سے عاشق مفتون کو
کہتے ہیں کہ جب سے اگر صاحب نے جوگی صاحب کے مکان کے قریب رہنا اختیار کیا، اکثر محل سرا میں رہے، سیر و تماشا سے انکار کیا۔ ایک دن کا ذکر سنیے کہ شہریار، بسنت، جواہر، منوچہر باریاب ہوئے۔ شہزادے نے کہا" تم کئی روز سے کہاں تھے؟" جواہر نے کہا " خانہ زاد تو کل بھی حاضر ہوا تھا، حضرت محل میں تشریف رکھتے تھے۔ بہت انتظار کیا، چلا گیا۔" بادشاہ نے حکم کیا ہے کہ بہت جلد زنانی پوشاک عروسانہ تیار لوں گا، اس میں کچھ غفلت کی تو اس علت میں بہت بیزار ہو ں گا۔" اگر صاحب نے کہا " تمہارے بادشاہ کے پیچھے ایک نہ ایک علت لگی رہتی ہے، وہ علتی ہوگیا ہے۔" بسنت نے بھی کہا" غلام بھی ان دنوں میں بہت عدیم الفرصت ہے، تیاری زیور کی مجھے خدمت ہے۔" شہر یار نے کہا ہے کہ غلام روشنی و جلوس وغیرہ کے تردد میں ہے۔ منوچہر نے کہا " خانہ زاد کو اہتمام محفل اور بخت طعام سپرد ہے۔ ظاہرا معلوم ہوتا ہے کہ کسی سے نامزد ہوا چاہتے ہیں۔" شہزادے نے کہا " ایسا نہ ہو، تمہارا بادشاہ شادی مرگ ہو جائے۔" وزیروں نے کہا " آپ اپنی زبان سے یہ نہ فرمائیں بلکہ اس کا رخیر کی خیر منائیں۔" القصہ یہ باتیں دیر تک رہیں۔ بعد ازاں اگر شاہ چوگان بازی میں مشغول ہوا۔
ریختہ صفحہ 178
کہ ناگاہ قلغی اگر شاہ کے تاج سے جدا ہو کر گر پڑی۔ افلاطون اس لحاظ سے کہ شاید کسی کا پاؤں پڑ جائے، اس طرح گھبرا کر اٹھانے کو دوڑا کہ شہزادے کے گال سے اس کا گال مل گیا۔ شہزادے نے غیرت پاکدامنی سے ایک طمانچہ اسے مارا، برا بھلا کہا۔ افلاطون نے اس روداد سے رو دیا۔ اگر شاہ کے دل میں گل بادشاہ کے خار رنج کا کھٹکا پیدا ہوا کہ شاید تحت ہوا پر سوار دیکھتا ہو۔ حسب اتفاق گل شاہ تحت ہوا پر سوار تھا، اس امر سے نہایت منقبض ہوا اور آزردہ ہو کر چلا گیا۔ یہاں شہزادہ بھی مکدر ہوا، چوگان بازی سے باز رہا، دریا کی طرف شکار کھیلنے کو گیا۔ بسنت سے کہا " ہمارے واسطے مچھلی کے کباب اپنے گھر سے پکا لا۔" ہم تو ادھر گیا، شہزاد ےنے کہا " اے جواہر! میرا جی گھبراتا ہے۔" اس نے کہا " گل بادشاہ کی طرف چلیے، دو چار گھڑی استراحت فرمائیے۔" شہزادہ اس کی طرف گیا، صاحب خانہ کو مکان میں نہ پایا، اس کی خواب گاہ میں سو رہا۔ گل بادشاہ اس کے آنے کی خبر سن کر کام نا تمام چھوڑ کر دوڑ ا آیا۔ کئی بار نام لے کر پکارا، اگر شاہ مطلق بیدار نہ ہوا۔ افلاطون کی حرکت سے شعلہ غصہ و غضب کا یوں سینے میں مشتعل تھا، ضبط نہ ہوسکا، آہستہ سے ایک طمانچہ مارا۔ شہزادہ خواب سے چونک اٹھا۔ گل رخسار سوسن کی طرح نیلگوں ہوگیا۔ کچھ نہ کہا۔ وہاں سے اپنے مکان میں آیا۔ حمید سے فرمایا " کسی کو اس وقت آنے نہ دینا۔" بسنت مچھلی کے کباب لے کر حاضر ہوا، حمید نے عرض کی۔ بسنت کو خدمت میں بلایا۔ اس نے کباب گزرانے۔ پھر عرض کی " ابھی رخسارہ ء قمر لقا جرم کلف سے مبرا دیکھا تھا اور کل آپ نے افلاطون کو طمانچہ مارا تھا۔ طرفہ ماجرا ہے کہ نشان اس کا چہرہ ءاقدس پر آج تک ہویدا ہے۔" شہزادے نے اس کو اور باتوں میں لگایا۔ ٹالا بالا بتایا۔ چند روز خلوت میں رہا۔ کئی دن