گُلِ یاسمیں
لائبریرین
ریختہ صفحہ 137
سب حال بیان کیا۔ اس نے کہا " سبحان اللہ! حیوان تک میرے حال کثیر الاختلال سے آگاہ اورآپ ایسے بے پرواہ ہوں!" شہزادے نے کہا " یہاں تک تو کیا، اور آگے کیا چاہتا ہے؟" یہ کہہ کر رخصت ہوا۔ گل بادشاہ نے اس وقت یہ قطعہ کسی استاد کا پڑھا:
قطعہ
سوال یار سے میں نے کیا بہ وقت وداع
کہ اک نشانی کی تجھ سے امیدواری ہے
لگا وہ کہنے کہ تو بیوقوف ہے کتنا
یہ داغ دل پہ تیرے تھوڑی یادگاری ہے
حیران ہونا اگر شاہ معمائے " باز از و طعمہ نیست" سے اور تحقیق اس کی زلیخا سے
ایک دن اگر شاہ نے اپنی ممانی سے کہ نام اس کا زلیخا تھا، پوچھا کہ آپ نے کئی بار یہ سخن مجھے سنا کر کہا کہ " باز است و طعمہ نیست" میری عقل اس چیستان کے دریافت کرنے میں عاجز ہے۔ زلیخا نے کہا " اے عزیز کشورِ خوبی و اے یوسف محبوبی! مجھے یہ تاسف آتا ہے کہ تجھ سا یوسف بے زلیخا اور تجھ سا سلیمان بے پری ہے اور تیرے پیوند کے قابل کوئی نظر میں نہیں سماتا سوائے روشن رائے پری کے۔
بیت
وہ بلقیس ہے گر سلیماں ہے تو
وہ زہر ہہے گر ماہ تاباں ہے تو
حسین اور صاحب جمال، عقل و شعور میں بے مثال، کتنے خسرو اس شیریں ادا کے واسطے فرہاد کی طرح ہلاک ہوئے، بہت وامق اس
ریختہ صفحہ 138
رشک عذر کے غم میں اندوہناک ہیں۔" اگر نے کہا " اور اس کا کچھ نشان، اثر، پتا، خبر معلوم ہو بیان فرمائیے۔" اس نے کہا" یہ سنتی ہوں کہ نقش جہاں آرا ایک قلعہ ہے ۔ طلسمات اور جادو سے معمور، یہاں سے بہت دور ۔ دونوں طرف اس کے بحر عمان جوشاں، آتش ملتہب خروشا ں ہے۔ وہ قلعہ درمیان میں حباب مثال، شرر تمثال نمایاں ہے۔ وہاں کسی کا تھل بیڑا نہیں لگتا۔ آدمی کیا دیو پری کے بھی پر جلتے ہیں۔" اگر شاہ اس سخن کو گوہر وار صدف گوش میں لے کر سمندر کی طرح وہاں کا مشتاق ہوا اور حمید سے کہا " گھوڑا تیار کرو۔" اس نے بہ موجب حکم کے اس فلک سیر کو تیار کیا۔ شہزادہ اس پر سوار ہو کر گل بادشاہ کی طرف آیا۔ دروازے پر کئی بار دستک دی، کسی کی آواز نہ آئی۔ دروازہ توڑ کر اندر گیا۔ گل کو دیکھا کہ بستر بیماری پر پڑا ہے۔ ایک پتھر چھاتی پر، ایک سر کے نیچے دھرا ہے۔ اس نحیف و ناتواں کو پستہ ء لب ، سیب ذقن، بادام چشم، عنبر زلف کی معجون سے تقویت بخشی۔ اٹھایا بٹھایا، کھانا کھلایا، دو چار گھڑی ٹھہرا، پھر اس سے رخصت ہوا۔ چلتے ہوئے یہ پڑھا:
رباعی
گھر بماندیم زندہ، بر دوزیم
پیرہن کز فراق چاک شدہ
ور بمردیم عذر ما بپذیر
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
وہ خود رفتہ اس معمے کو نہ سمجھا۔ وہاں سے سر وآسا کے مکان میں آیا۔ کہا کہ میں چند روز کے واسطے چلہ بیٹھوں گا، جو تم سے پوچھے، میرا احوال نہ بتانا۔ اور کان میں کہا کہ گل بادشاہ کی خبر گیری سے غافل نہ رہنا۔ لو خدا حافظ! غرض ہر
سب حال بیان کیا۔ اس نے کہا " سبحان اللہ! حیوان تک میرے حال کثیر الاختلال سے آگاہ اورآپ ایسے بے پرواہ ہوں!" شہزادے نے کہا " یہاں تک تو کیا، اور آگے کیا چاہتا ہے؟" یہ کہہ کر رخصت ہوا۔ گل بادشاہ نے اس وقت یہ قطعہ کسی استاد کا پڑھا:
قطعہ
سوال یار سے میں نے کیا بہ وقت وداع
کہ اک نشانی کی تجھ سے امیدواری ہے
لگا وہ کہنے کہ تو بیوقوف ہے کتنا
یہ داغ دل پہ تیرے تھوڑی یادگاری ہے
حیران ہونا اگر شاہ معمائے " باز از و طعمہ نیست" سے اور تحقیق اس کی زلیخا سے
ایک دن اگر شاہ نے اپنی ممانی سے کہ نام اس کا زلیخا تھا، پوچھا کہ آپ نے کئی بار یہ سخن مجھے سنا کر کہا کہ " باز است و طعمہ نیست" میری عقل اس چیستان کے دریافت کرنے میں عاجز ہے۔ زلیخا نے کہا " اے عزیز کشورِ خوبی و اے یوسف محبوبی! مجھے یہ تاسف آتا ہے کہ تجھ سا یوسف بے زلیخا اور تجھ سا سلیمان بے پری ہے اور تیرے پیوند کے قابل کوئی نظر میں نہیں سماتا سوائے روشن رائے پری کے۔
بیت
وہ بلقیس ہے گر سلیماں ہے تو
وہ زہر ہہے گر ماہ تاباں ہے تو
حسین اور صاحب جمال، عقل و شعور میں بے مثال، کتنے خسرو اس شیریں ادا کے واسطے فرہاد کی طرح ہلاک ہوئے، بہت وامق اس
ریختہ صفحہ 138
رشک عذر کے غم میں اندوہناک ہیں۔" اگر نے کہا " اور اس کا کچھ نشان، اثر، پتا، خبر معلوم ہو بیان فرمائیے۔" اس نے کہا" یہ سنتی ہوں کہ نقش جہاں آرا ایک قلعہ ہے ۔ طلسمات اور جادو سے معمور، یہاں سے بہت دور ۔ دونوں طرف اس کے بحر عمان جوشاں، آتش ملتہب خروشا ں ہے۔ وہ قلعہ درمیان میں حباب مثال، شرر تمثال نمایاں ہے۔ وہاں کسی کا تھل بیڑا نہیں لگتا۔ آدمی کیا دیو پری کے بھی پر جلتے ہیں۔" اگر شاہ اس سخن کو گوہر وار صدف گوش میں لے کر سمندر کی طرح وہاں کا مشتاق ہوا اور حمید سے کہا " گھوڑا تیار کرو۔" اس نے بہ موجب حکم کے اس فلک سیر کو تیار کیا۔ شہزادہ اس پر سوار ہو کر گل بادشاہ کی طرف آیا۔ دروازے پر کئی بار دستک دی، کسی کی آواز نہ آئی۔ دروازہ توڑ کر اندر گیا۔ گل کو دیکھا کہ بستر بیماری پر پڑا ہے۔ ایک پتھر چھاتی پر، ایک سر کے نیچے دھرا ہے۔ اس نحیف و ناتواں کو پستہ ء لب ، سیب ذقن، بادام چشم، عنبر زلف کی معجون سے تقویت بخشی۔ اٹھایا بٹھایا، کھانا کھلایا، دو چار گھڑی ٹھہرا، پھر اس سے رخصت ہوا۔ چلتے ہوئے یہ پڑھا:
رباعی
گھر بماندیم زندہ، بر دوزیم
پیرہن کز فراق چاک شدہ
ور بمردیم عذر ما بپذیر
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
وہ خود رفتہ اس معمے کو نہ سمجھا۔ وہاں سے سر وآسا کے مکان میں آیا۔ کہا کہ میں چند روز کے واسطے چلہ بیٹھوں گا، جو تم سے پوچھے، میرا احوال نہ بتانا۔ اور کان میں کہا کہ گل بادشاہ کی خبر گیری سے غافل نہ رہنا۔ لو خدا حافظ! غرض ہر