مسئلہ تو کب کا حل ہو چکا اور سوال پوچھنے والی مطمئن ہو کر چلی بھی گئی
خواہ مخواہ کی باتیں ہو رہی ہیں
میں آپ کے سوال کو ذرا اور مختصر اور انتہائی وصاحت سے بیان کرنا چاہتا ہوں اور اس کا جواب ان سب مناظرین و منطرات کے ذمہ ہے جو ہر چیز کو بدعت قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں
1۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ پوری طرح ثابت ہے کہ اگر کسی وجہ سے کوئی نماز رہ جائے تو اسے ادا کیا جائے گا
تو پھر عمر بھر کی قضا شدہ نمازوں کی ادائیگی پر ان لوگوں کو کیوں اعتراض ہے
2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا کوئی ایسی حدیث موجود ہے جس میں منع کیا گیا ہو کہ سابقہ زندگی کی نمازیں ادا کرنا بدعت ہے
آج ہماری نظر میں نماز کی وہ اہمیت نہیں رہی جو اس وقت ہوتی تھئ بلکہ ہم نے آسانی کے لیے یہ طریقہ نکال لیا ہے کہ چلو کوئی بات نہیں اب نہیں پڑھتے آخر وقت میں قضا عمری پڑھ لیں گے
اگر آپ کسی سے کہیں کہ ایک ٹانگ پر کھڑے ہو جاؤ تو وہ ہو جائے گا لیکن آپ اسے دوسری ٹانگ بھی اٹھانے کا کہیں تو یہ ممکن نہیں۔۔ہمارے دین میں بہت آسانی ہے اسے مشکل نہ بنائیں، اللہ غفور الرحیم ہے اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے اسے معدود نہ کریں
آپ نے فدیہ کے بارے میں ایسا ہی کچھ کہا کہ اگر اس کی اجازت ہے تو ہم زندگی میں ہی پیسے جمع کر لیں گے اور مرنے کے بعد دے دئیے جائیں گے۔؟ اور اب یہ کہ نماز اب نہیں پڑھتے تو پھر کبھی پڑھ لیں گے۔آج ہماری نظر میں نماز کی وہ اہمیت نہیں رہی جو اس وقت ہوتی تھئ بلکہ ہم نے آسانی کے لیے یہ طریقہ نکال لیا ہے کہ چلو کوئی بات نہیں اب نہیں پڑھتے آخر وقت میں قضا عمری پڑھ لیں گے
ہمارا مقصد۔۔۔؟؟ سارا، میں کہنا تو نہیں چاہ رہی تھی۔ لیکن ایک بات بتاؤ کہ کیا تمھیں سو فیصد یقین ہے کہ تمھیں جو علم ہے وہ سو فیصد درست ہے؟ اور تم اس کو آگے پہنچا رہی ہو؟جہاں تک میرا خیال ہے کہ بدعت کہنے والوں نے بھی اور قضا عمری پڑھنے والوں نے بھی اپنا اپنا موقف بیان کر دیا ہے اب میرا نہیں خیال کہ اس پر مزید بات کرنے کی ضرورت ہے اب یہ ہم پڑھنے والوں پر بات چھوڑتے ہیں کہ وہ کس بات کو لیتے ہیں اور کسے چھوڑتے ہیں ہمارا مقصد بات پہنچا دینا ہے کسی سے بات منوانا نہیں۔۔۔امید ہے بات کو سب سمجھ جائیں گے انشا اللہ
ہمارا مقصد۔۔۔؟؟ سارا، میں کہنا تو نہیں چاہ رہی تھی۔ لیکن ایک بات بتاؤ کہ کیا تمھیں سو فیصد یقین ہے کہ تمھیں جو علم ہے وہ سو فیصد درست ہے؟ اور تم اس کو آگے پہنچا رہی ہو؟
میں بالکل یہ نہیں کہہ رہی کہ میرا فرقہ درست ہے۔
یہاں میں ایک بات کہنا چاہوں گی۔۔۔کہ جیسا کہ آپ نے کہا کہ چلو کوئی بات نہیں آخر وقت میں نماز پڑھ لیں گے۔۔۔تو یہ عبادت کے ساتھ مذاق ہے۔۔۔بڑھاپے میں بھی قضا عمری ایک دو دن میں ادا نہیں ہوگی۔۔۔تب بھی کئی سالوں کی نمازیں ہی ادا کرنا ہوں گی۔۔اس لیے آج جو اس نیت کے ساتھ نمازیں چھوڑ رہے ہیں۔۔۔اللہ تعالیٰ کو کل خود جواب دہ ہوں گے۔۔۔اب جبکہ ان کو ہدایت بھی ملی۔۔اور نماز نہ پڑھنے کی سزا کا بھی پتہ چل گیا۔
اب تو جو میں نے پڑھا،سمجھا،دیکھا اور جانا۔۔۔۔صاف نظر آیا یہاں دو الگ الگ فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ رویوں میں لچک کسی جگہ بھی نہیں ہے۔۔۔جسے پڑھ کر دل اور دکھتا ہے۔ میں اب بھی جواب نہ لکھتی۔۔لیکن ایک ہی بات کی تکرار۔۔ جان بوجھ کر نماز چھوڑی۔۔۔پلیزز آپ سب تھوڑا سا رحم کریں۔۔۔اگر یہ توجیع پیش کرتے ہیں کہ فرض نماز کے ساتھ قضا نماز سے لوگ ڈر جائیں گے۔۔اور فرض نماز بھی چھوڑ جائیں گے۔۔۔تو اس بات پر غور کریں۔
ہم نوافل کیوں پڑھتے ہیں۔۔؟ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے۔ ہیں نا؟؟؟ تو اگر اسی وقت میں چار فرض قضا نماز قضا بھی پڑھ لیں گے تو کیا اللہ تعالیٰ گناہ دیں گے۔۔؟؟؟
ایک بات صاف۔۔۔اب جب کہ نماز کی اہمیت واضع ہوگئی۔۔اور اب میں کوئی نماز چھوڑوں گی۔۔اس امید پر کہ کل پرسوں قضا ادا کرلوں گی تو یہ عمل سراسر اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی ہوگا۔۔بلکہ میں اسے ایک طرح سے سرکشی کہوں گی۔
توبہ استغفار اپنی جگہ۔۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔۔۔لیکن جب ہر جرم کی سزا موجود ہے۔۔۔جان کے بدلے جان۔۔۔ہاتھ کے بدلے ہاتھ۔۔تو پھر نماز کے بدلے نماز۔
جو نہیں پڑھنا چاہتے۔۔وہ توبہ کرتے رہیں۔۔۔جو پڑھنا چاہتے ہیں بغیر ڈرے پڑھتے رہیں۔
پیارے اللہ تعالیٰ میں نے اپنی دانست میں سیدھا راستہ چنا ہے۔۔۔۔اس یقین کے ساتھ کہ آپ میری خطائیں بخش دیں گے۔
ہمارے نبی ص نے ہمیں حکم دیا کہ وقت پر نماز پڑھنا فرض ہے ٹھیک۔اور اگر کسی مجبوری کی باعث نہ پڑھ سکو تو بعد میں قضا پڑھ لو یہ بھی ٹھیک۔ اب لوگوں نے آگے اسے مہینوں سالوں کی نمازیں پڑھنا بھی سہی قرار دیا ،ذرا اور آگے چلیں تو مرنے کے بعد فدیہ بھی مقرر کر دیا لیکن کسی نے یہ نہیں بتایا کہ یہ اس سب کا حکم کس نے دیا اگر ایسا ہی ہوتا رہا تو جو میں نے کہا ہے لوگ اسی طرح اضافہ کر تے کرتے یہ سب بھی کرنے لگیں گےآپ نے فدیہ کے بارے میں ایسا ہی کچھ کہا کہ اگر اس کی اجازت ہے تو ہم زندگی میں ہی پیسے جمع کر لیں گے اور مرنے کے بعد دے دئیے جائیں گے۔؟ اور اب یہ کہ نماز اب نہیں پڑھتے تو پھر کبھی پڑھ لیں گے۔
تو پیاری بنتِ حوا یہ سوال یا سوچ ایک عقل والے کے ذہن میں کبھی نہیں آ سکتی۔ نماز وقت پر پڑھنا فرض ہے۔ کبھی کوئی ایسا سوچ نہیں سکتا کہ ایک بار ہی قضا عمری پڑھ لیں گے۔ ایک ایسا انسان جو ساری عمر غلط راستے پر چلتا رہا، اور اس نے نماز نہ پڑھی، اب اگر وہ عمر کے کسی حصے میں آ کر پڑھنا چاہتا ہے تو قضا عمری پڑھ سکتا ہے۔ اور جس نے نماز پڑھنی ہے وہ ہمیشہ وقت پر ہی پڑھے گا۔
جہاں تک میرا خیال ہے کہ بدعت کہنے والوں نے بھی اور قضا عمری پڑھنے والوں نے بھی اپنا اپنا موقف بیان کر دیا ہے اب میرا نہیں خیال کہ اس پر مزید بات کرنے کی ضرورت ہے اب یہ ہم پڑھنے والوں پر بات چھوڑتے ہیں کہ وہ کس بات کو لیتے ہیں اور کسے چھوڑتے ہیں ہمارا مقصد بات پہنچا دینا ہے کسی سے بات منوانا نہیں۔۔۔امید ہے بات کو سب سمجھ جائیں گے انشا اللہ
بھائیو اور بہنو، صاحبو، نماز کی پابندی اور بروقت آدائیگی اپنی جگہ مسلم ہے۔ شمشاد بھائی کا اس آیت کی فراہمی کا شکریہ۔ آپ سب بہت اچھے خیالات پیش کررہے ہیں اور امید ہے کہ مزید بہتر معلومات حاصل ہونگی۔
آج تک میری نطر سے کوئی ایسی آیت نہیں گزری جو قضا عمری کے بارے میںہو۔ جن ساڑھے تین احادیث کی کتب کا مطالعہ کیا ہے ان میں بھی ایسی کوئی حدیث ذہن میں نہیں آتی جو قضائے عمری کے بارے میں ہو۔ اگر ہے تو مجھے معاف کیجئے گا۔ اگر ہم ایک ایسا اصول وضع کر رہے ہیں کہ
---- بنیادی پانچ فرض عبادات کسی طور معاف نہیں ہو سکتے اور بندے کو ہر حال میں قضا نماز ادا کرنی ہے ورنہ ۔۔۔۔ ----
تو یہ اصول نہ صرف قرآن سے ثابت نہیں ہوتا بلکہ بڑی مشکلات پیدا کردیتا ہے۔ بہت ادب اور محبت سے عرض ہے کہ آپ مجھے اس منطقی نکتہ پر ارتکاز کرنے دیجئے کہ
اگر بنیادی اصول یہ ہے کہ ---- بنیادی پانچ فرض عبادات کسی طور معاف نہیں ہو سکتے اور بندے کو ہر حال میں قضا نمازیں پوری کرنی ہے ---- تو باقی فرائض نے کیا قصور کیا ہے؟
تو صاحبو یہ اصول بہت ہی سخت اصول ہے اور اپنی تو بخشش نمازیں پوری کرکے بھی نہیں ہوگی ۔ اس اصول کی روشنی میں درج ذیل آیت کو دیکھئے۔ درج ذیل آیت "بر و تقوی" کی تعریف فراہم کرتی ہے۔
اس آیت میں آپ کو سب سے پہلے ملتا ہے "ایمان"، پھر" آتی المال علی حبہ"، پھر اقیمو الصلوۃ، پھر آتی الزکوۃ، پھر ایفائے عہد اور پھر صبر۔ دیکھئے
[AYAH]2:177[/AYAH] نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں
ایمان ہم لے آئے، اب ایمان کے بعد اور نماز سے پہلے اللہ تعالی نے یہ شرط لگا دی ہے کہ :
اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال
1۔ قرابت داروں پر
2۔ اور یتیموں پر
3۔ اور محتاجوں پر
4۔ اور مسافروں پر
5۔ اور مانگنے والوں پر
6۔ اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے،
صاحبو۔ ہم اپنا تعین کیا ہوا اصول اس "اتی المال علی حبہ" پر بھی اپلائی کرکے دیکھتے ہیں۔ کہ ہم بالغ ہوئے کمانے لگے اور اللہ کی محبت میں نمبر ایک سے نمبر 6 تک مال دینے لگے۔ اب اس میں نمبر 1 سے نمبر 5 والے حضرات تو روز ہی کھانا کھاتے ہیں۔ اب ہمیں --- اپنے وضع کئے ہوئے اصول کے مطابق ----- ہر روز تین وقت کم از کم 5 قسم کو لوگوںکو تو کھانا کھلانے کی حد تک تو مال دینا ہی چاہئے؟ اگر ایک دن کی چوک ہوگئی تو، اس متعین کئے اصول کے مطابق، اس دن کا فدیہ دینا ہی ہوگا۔ چونکہ یہ حکم نماز سے پہلے ہے اس لئے نماز سے پہلے آپ نے یہ کرنا ہی ہوگا۔ اور اگر ایک دن کا بھی رہ گیا تو سیدھے جہنم میں ؟ کیا ہمارا الرحمن الرحیم اتنا ہی ظالم ہے؟ جو لوگ نماز پر ، جو اس قدر اہم ہے، اتنا زور دیتے رہے - وہ نماز سے پہلے اور ایمان کے بعد والا حکم تو بھول ہی گئے؟ جی؟
آپ دیکھ رہے ہیں کہ سورۃ بقرہ کے گائے والوں کی طرح ہم جتنے سوال کریں گے، اپنے دین کو اتنا ہی سخت کرتے چلے جائیں، ہماری انتہا پسندی کا پیٹ نہیںبھرنا ہے۔ پھر اس کا حل کیا ہے؟
اس کا حل اللہ تعالی ہی فراہم کرتے ہیں کہ
1۔ وہ انتہائی عظیم ہے۔
2۔اس کے دین میںجبر و زبردستی نہیں ہے۔
اس کی عظمت کے لئے دیکھئے، ایک ایک لفظ ذرا غور کرکے پڑھئے کہ اس نے خود اپنی عظمت اس آیت میں کس طرح بیان کی ہے:
[AYAH]2:255[/AYAH] اﷲ، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے (سارے عالم کو اپنی تدبیر سے) قائم رکھنے والا ہے، نہ اس کو اُونگھ آتی ہے اور نہ نیند جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے، کون ایسا شخص ہے جو اس کے حضور اس کے اِذن کے بغیر سفارش کر سکے، جو کچھ مخلوقات کے سامنے (ہو رہا ہے یا ہو چکا) ہے اور جو کچھ ان کے بعد (ہونے والا) ہے (وہ) سب جانتا ہے، اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز کا بھی احاطہ نہیں کر سکتے مگر جس قدر وہ چاہے، اس کی کرسیء (سلطنت و قدرت) تمام آسمانوں اور زمین کو محیط ہے، اور اس پر ان دونوں (یعنی زمین و آسمان) کی حفاظت ہرگز دشوار نہیں، وہی سب سے بلند رتبہ بڑی عظمت والا ہے
اپنی عظمت و شان و شوکت کا یہ بیان کرنے کے بعداللہ بزرگ برتر فرماتے ہیں کہ دین میں کوئی جبر و زبردستی نہیں :
[AYAH]2:256 [/AYAH] دین میں کوئی زبردستی نہیں، بیشک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے، سو جو کوئی معبودانِ باطلہ کا انکار کر دے اور اﷲ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لئے ٹوٹنا (ممکن) نہیں، اور اﷲ خوب سننے والا جاننے والا ہے
ایک مشہور عالم ہیں، اپنے ایک مضمون میں ایک دوسرے موضوع پر لکھتے ہیں کہ ---- دین کا راستہ نرمی اور سختی کے بیچ کا راستہ ہے ---- تو ہم کو چاہئیے کہ اس میانہ روی کے راستے کو تلاش کریں۔ اللہ تعالی تو ہمیں دین میں جبر و زبردستی نہ ہونے کے اصول پہلے ہی سکھا چکا ہے۔ جو بھی عبادت ہے آپ کے اور اس ذات باری تعالی کے درمیان ہے۔ اپنی طرف سے بہترین کاوش و عبادت کیجئے، جو کمی رہ جائے یا غلطی ہو جائے تو اسی بزرگ و برتر سے توبہ کیجئے، وہ ذات کریم بے نیاز ہے اور توبہ کو قبول کرنے والا ہے۔ اور اس کے حضور کسی کی سفارش نہیں کام آتی۔
والسلام۔