طویل غیر حاضری کے لیے معذرت خواہ ہوں۔
امن ایمان! اللہ تعالیٰ آپ کو استقامت عطا فرمائے۔ نماز کی پابندی جاری رکھیے۔ اللہ تعالیٰ کو وہ انسان بڑا پسند ہے جوغلطی پر سچے دل سے توبہ کرتا ہے۔ ایسے خوش بختوں کی غلطیاں نہ صرف معاف کر دی جاتی ہیں بلکہ انہیں نیکی میں بدل دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
الا من تاب و امن و عمل عملا صالحا فاؤلئک یبدل اللہ سیاتھم حسنات (الفرقان)
“ الا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کرے اور ایمان لا کر عملِ صالح کرنے لگے، ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ نیکی سے بدل دے گا”۔
اور فرمایا:
و انی لغفار لمن تاب و امن و عمل صالحا ثم اھتدٰی (طہ)
“ جو توبہ کر لے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھا چلتا رہے، اُس کے لیے میں بہت درگزر کرنے والا ہوں”
جب انسان اس راستے پر چلنے کا ارادہ کرتا ہے توپہلا سابقہ اسے مختلف آراء سے پیش آتاہے۔اس دھاگے میں ہونے والی بات چیت اس کا ثبوت ہے۔ کتاب و سنت اور فقہاء کے اختلاف کے اسباب تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے بسا اوقات انسان خود کو ایسے موڑ پر کھڑا پایا ہے جہاں سے کئی راستے نکل رہے ہوں اور وہ درست راستے کا فیصلہ نہ کر پا رہا ہو۔ میں اس کیفیت سے گزر چکا ہوں اس لیے اس کرب سے اچھی طرح واقف ہوں۔ قرآنِ کریم کو سمجھ کر پڑھا جائے تو آدھے سے زیادہ وہ مسائل فورًا حل ہو سکتے ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر رکھا ہے اور جو دینی ترتیب میں ثانوی یا ثالثی حیثیت بھی نہیں رکھتے لیکن بڑے معرکۃ الآرا سمجھے جاتے ہیں۔دوسری چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث ہے۔ جو مسائل قرآن کریم میں بیان نہیں کیے گئے ان کے لیے صحیح حدیث کو حجت تسلیم کرنا چاہیے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب قرآن و حدیث کے پیچھے چلنے کی بجائے انہیں اپنے پیچھے چلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اختلافات کی دلدل سے نکلنے کے لیے میں آپ کو مخلصانہ مشورہ دیتا ہوں کہ قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کریں۔ یہ ایسا مشکل کام نہیں ہے۔ ایک رکوع روزانہ پڑھا جائے تو ایک سال میں قرآنِ کریم کی پوری تعلیم سامنے آ جاتی ہے۔ اتنا بھی نہ ہو سکے تو تین چار آیات پڑھنا بالکل مشکل نہیں ہے۔ قرآن کریم کا سب سے بڑا ادب اسے سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہے۔
کتٰب انزلنٰہ الیک مبٰرک لیدبروا آیاتہ (ص)
“یہ ایک عظیم الشان کتاب ہے، برکت والی، جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تاکہ لوگ اس کی آیات پر تدبر کریں”
تدبر و تفہیم کے اصل مقصد کو پورا کرنے کے دوران ظاہری ادب میں کوتاہی بھی ہو جائے تو امید ہے اللہ تعالیٰ معاف کر دیں گے۔ لیکن جس کی طرف اللہ نے پیغام بھیجا ہے اور وہ اسے پڑھنے اور سمجھنے کی بجائے چومنے اور طاقوں میں سجانے ہی میں مصروف رہا وہ آخرت میں اپنا جواب سوچ رکھے۔ ممتاز مفتی کی کتاب “تلاش” کے اکثر مقامات سے اختلاف رکھنے کے باوجود مجھے ان کا یہ شکوہ بڑا پسند ہے کہ “میں قرآن کو اپنے سرہانے رکھنے چاہتا ہوں تاکہ جب دل کرے اسے کھولوں اور اللہ سے باتیں شروع کر دوں لیکن میری بیوی قرآن کا اتنا ادب کرتی ہے کہ اس کا ادب قرآن پڑھنے میں رکاوٹ بن جاتا ہے”۔
دوسری چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث ہے۔ مسائل کی وضاحت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آسمانی اتھارٹی ہیں۔صحیح احادیث کے کسی بھی مجموعے سے استفادہ کیجیے۔ صحیح البخاری، صحیح المسلم اردو میں موجود ہیں اور آسانی سے دستیاب ہیں۔ ان دونوں باتوں پر عمل کرنے سے ان تمام خواتین و حضرات کی مشکل دور ہو جائے گی جو کثرتِ آراء کو دیکھ کر پریشان ہو رہے ہیں۔(ان شاء اللہ)
قضا نمازوں کے بارے میں کچھ پہلے لکھ چکا ہوں۔ سعودی مفتی اعظم الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کا فتوٰی ملاحظہ کیجیے:
“علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے پر اس کی قضا واجب نہیں ہے۔ کیونکہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنا کفر ہے جو آدمی کو اسلام سے نکال کر زمرہ کفار میں داخل کر دیتا ہے۔ اور کافر پر حالت کفر میں چھوڑے ہوئے کاموں کی قضا نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے:
“آدمی اور کفر و شرک کے درمیان نماز کو چھوڑ دینے (کا فرق) ہے۔ (صحيح مسلم الإيمان (82),سنن الترمذي الإيمان (2620),سنن أبو داود السنة (467
,سنن ابن ماجه إقامة الصلاة والسنة فيها (107
,مسند أحمد بن حنبل (3/370),سنن الدارمي الصلاة (1233).
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام قبول کرنے والوں سے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا تھا کہ وہ سابقہ نمازیں دہرائیں جو ان پر حالتِ کفر میں فرض تھیں نہ ان کے بعد صحابہ نے ان لوگوں سے یہ مطالبہ کیا جو مرتد ہونے کے بعد دوبارہ اسلام میں داخل ہوئے۔
اگر کوئی شخص نماز کی فرضیت کا منکر نہ ہو اور سستی وغیرہ کی وجہ سے نماز چھوڑتا رہا ہو اور اب احتیاط کی بنا پر ہر صورت قضا ہی ادا کر نا چاہے تو اس میں بھی حرج نہیں۔ (مجموعہ فتاوی و مقالات ابن باز۔ الجز العاشر)
بہت سے لوگ سابقہ نمازوں کی قضا کے خوف سے نماز کی باقاعدہ ادائیگی شروع نہیں کرتے۔دین آسان ہے، اسے اسی طرح رہنا چاہیے جیسے اللہ کے نبی نے پیش کیا تھا۔ ادھر تو یہ حال ہے کہ کوئی مسجد میں چلا جائے تو آسانی پیدا کرنے کی بجائے اسے کہا جاتا ہے کہ میاں پچھلے بیس تیس برس کدھر تھے، سابقہ نمازوں کی گنتی پوری کرو، پھر آگے چلنا۔ یہ بات عقل کے بھی خلاف ہے کہ توبہ کرنے والے انسان کو حوصلہ دینے کی بجائے الٹا پچاس سال کی نمازوں کی قضا کا مژدہ سنا دیا جائے۔
بشروا و لا تنفروا
“خوشخبری سناؤ اور نفرت نہ دلاؤ”
یسروا و لا تعسروا
“لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرو مشکلات نہ بناؤ”
قضا نمازوں کی ادائیگی یا عدم ادائیگی کا مسئلہ کفر اسلام کا مسئلہ نہیں ہے۔ صحیح قول یہی ہے کہ ان کی ادائیگی ضروری نہیں لیکن کوئی انہیں بہرصورت ادا ہی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے لیکن اس کا یہ عمل احتیاط کا مظہر ہو گا جیسا کہ الشیخ ابن باز کے فتوے میں مذکور ہے۔