لاریب مرزا
محفلین
زندگی میں کبھی کبھی کچھ ایسے واقعات رونما ہو جاتے ہیں جو انتہائی ناقابل یقین ہونے کے ساتھ ساتھ خوشگوار بھی ہوتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی واقعہ جولائی کے آخری چند دنوں میں ہمارے ساتھ پیش آیا اور ہمیں ناران، گلگت بلتستان اور ہنزہ کے پانچ روزہ ٹور پہ جانے کا اتفاق ہوا۔ قلعہ بلتت کی سیر کے لیے ہمیں دوسرے روز جانا تھا۔ اس قلعے کی سیر کا احوال حاضر ہے۔
قلعہ بلتت پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ میں واقع ہے۔ یہ قلعہ 765 برس قبل تعمیر کیا گیا۔ پتھروں سے بنا یہ خوبصورت قلعہ کسی ایک دور میں مکمل تعمیر نہیں ہوا بلکہ ہنزہ کے جتنے بھی حکمران گزرے ہیں، جنہیں "امیران ہنزہ" کہتے ہیں، نے اس میں بہت سے اضافے کروائے۔ اس میں آخری بڑی تبدیلی انگریزوں کے دور میں آئی۔ کیونکہ دسمبر 1891 میں انگریز یہاں حملہ آور ہوئے اور انہوں نے اس علاقے کو فتح کیا۔ انگریزوں کے حملہ آور ہونے کے بعد اس وقت کے حکمران میر صفدر خان یہاں سے بھاگ نکلے۔ ان کے بھاگ جانے کے بعد ان کے بھائی نظیم خان کا زمانہ شروع ہوا۔ 1945 تک ہنزہ کے حکمران اس قلعے میں رہائش پذیر رہے۔ 1945 کے بعد اس قلعے کو خالی کر دیا گیا۔ 1990 سے 1996 تک پرنس کریم آغا خان نے اس قلعے کو مرمت کرایا اور میر غضنفر نے اسے عوام کے نام منتقل کر دیا۔
یہ تو تھی قلعہ بلتت کی تاریخ۔ اب کچھ ہمارے تجربات و مشاہدات کا بیان مع تصاویر ہو جائے۔
ہم قلعہ بلتت کے قریب پہنچے تو ٹور گائیڈ نے بتایا کہ بس یہاں سے آگے نہیں جا سکتی۔ قلعے تک پہنچنے کے لیے تقریبا 380 میٹر تک کا راستہ پیدل طے کرنا ہے۔ ہم نے کہا بس؟؟ 380 میٹر تو چٹکی بجانے میں طے ہو جاتا ہے۔ فرمانے لگے کہ اتنا آسان نہیں ہے۔ راستہ ڈھلوانی ہے۔ ہم نے کہا چلیں دیکھتے ہیں۔
یہاں سے ہم نے اپنے سفر کا آغاز کیا۔
راستہ کافی ڈھلوانی تھا۔ قلعہ بلتت کی طرف جاتے اس ڈھلوانی راستے کے دونوں جانب دکانیں اور گھر موجود ہیں۔ یہاں ہر وقت چہل پہل کا سا سماں ہوتا ہے۔
تقریبا ڈیڑھ سو میٹر چڑھائی کے بعد ہی ہمارے پسینے چھوٹ گئے۔ ہم نے کہا بھئی اور کتنا راستہ باقی ہے؟؟
کاااافی آگے جا کے یہ موڑ آیا تو امید کی ایک رمق جاگی کہ یہ موڑ مڑتے ہی قلعہ ہماری نظروں کے سامنے ہو گا۔
لیکن ابھی عشق کے امتحاں اور بھی تھے۔
سانس لینے کو ان اماں جی کے پاس رک گئے جو اپنے ہنر کے جوہر دکھانے میں مصروف تھیں۔ کچھ گپ شپ کے بعد ہم نے تصویر کی اجازت کے بعد تصویر لی اور اجازت چاہی۔
راستے میں یہ قدیم سا گھر بھی نظر آیا۔
یہاں اوپر پہنچ کر ہم رک گئے۔ راستہ دائیں اور بائیں دونوں طرف مڑ رہا تھا۔
بائیں طرف کی یہ سیڑھیاں ہمیں بہت اچھی لگیں۔
لیکن لوگ چونکہ دائیں طرف جا رہے تھے تو ہم نے بھی دائیں طرف جانے میں ہی عافیت سمجھی۔
یہاں پہنچ کر بہت سے لوگوں کی بس ہونے لگی۔ ایک فیملی کے افراد تو یہاں پہنچ کر رک گئے اور فرمانے لگی۔ چلو بھئی واپس چلیں، نہیں معلوم کہ کتنا راستہ باقی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ آگے بڑھے یا وہیں سے لوٹ گئے۔ ہم تو چلتے رہے۔
رکے نہ اپنا کارواں بڑھے چلو بڑھے چلو
یہاں پہنچ کر یہ ریستوران نظر آیا۔ دل تو کیا کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے 380 گلاس پانی کے پی لیے جائیں۔ لیکن یہ ارادہ واپسی کے لیے رہنے دیا کیونکہ اب قلعہ چند قدم کے فاصلے پر ہی تھا۔
یہ تھی ہماری آخری آزمائش۔
اوپر پہنچ کر جو منظر دیکھا تو بے اختیار مسکرا دئیے۔ لوگ جاتے ہی جہاں جگہ ملی وہاں لائن قطار بیٹھ کر سانس بحال کرنے میں مصروف نظر آئے۔
قلعہ بلتت
دوسرے رخ سے
معلوم پڑا کہ قلعے کو اندر سے دیکھنے کے لیے ٹکٹ کٹا کر گروپ بنانا پڑے گا۔ ٹکٹ گھر کی تلاش شروع کی جو یہاں آ کر ختم ہوئی۔
ٹکٹ گھر بہت دلچسپ لگا۔ اتنا چھوٹو سا دروازہ تھا جس میں سے سب جھک جھک کر داخل ہو رہے تھے۔
ہم اندر داخل ہوئے تو کچھ اندھیرا سا تھا اور یہ انکل ٹکٹ دینے میں مصروف تھے۔
ٹکٹ لے کر یہ سیڑھیاں چڑھنی تھیں اور وہ اوپر دروازے سے قلعے کے اندر کی سیر کا سفر شروع ہونا تھا۔
ایک گارڈ انکل نے ہمارا ٹکٹ لے کر پھاڑنا چاہا تو ہم نے کہا رکیں رکیں۔ ہم ذرا ٹکٹ کی ایک تصویر تو بنا لیں۔
سیڑھیاں طے کر کے ہم اس چھوٹو سے دروازے سے قلعے کے اندر داخل ہوئے۔
قلعہ بلتت پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ میں واقع ہے۔ یہ قلعہ 765 برس قبل تعمیر کیا گیا۔ پتھروں سے بنا یہ خوبصورت قلعہ کسی ایک دور میں مکمل تعمیر نہیں ہوا بلکہ ہنزہ کے جتنے بھی حکمران گزرے ہیں، جنہیں "امیران ہنزہ" کہتے ہیں، نے اس میں بہت سے اضافے کروائے۔ اس میں آخری بڑی تبدیلی انگریزوں کے دور میں آئی۔ کیونکہ دسمبر 1891 میں انگریز یہاں حملہ آور ہوئے اور انہوں نے اس علاقے کو فتح کیا۔ انگریزوں کے حملہ آور ہونے کے بعد اس وقت کے حکمران میر صفدر خان یہاں سے بھاگ نکلے۔ ان کے بھاگ جانے کے بعد ان کے بھائی نظیم خان کا زمانہ شروع ہوا۔ 1945 تک ہنزہ کے حکمران اس قلعے میں رہائش پذیر رہے۔ 1945 کے بعد اس قلعے کو خالی کر دیا گیا۔ 1990 سے 1996 تک پرنس کریم آغا خان نے اس قلعے کو مرمت کرایا اور میر غضنفر نے اسے عوام کے نام منتقل کر دیا۔
یہ تو تھی قلعہ بلتت کی تاریخ۔ اب کچھ ہمارے تجربات و مشاہدات کا بیان مع تصاویر ہو جائے۔
ہم قلعہ بلتت کے قریب پہنچے تو ٹور گائیڈ نے بتایا کہ بس یہاں سے آگے نہیں جا سکتی۔ قلعے تک پہنچنے کے لیے تقریبا 380 میٹر تک کا راستہ پیدل طے کرنا ہے۔ ہم نے کہا بس؟؟ 380 میٹر تو چٹکی بجانے میں طے ہو جاتا ہے۔ فرمانے لگے کہ اتنا آسان نہیں ہے۔ راستہ ڈھلوانی ہے۔ ہم نے کہا چلیں دیکھتے ہیں۔
یہاں سے ہم نے اپنے سفر کا آغاز کیا۔
راستہ کافی ڈھلوانی تھا۔ قلعہ بلتت کی طرف جاتے اس ڈھلوانی راستے کے دونوں جانب دکانیں اور گھر موجود ہیں۔ یہاں ہر وقت چہل پہل کا سا سماں ہوتا ہے۔
تقریبا ڈیڑھ سو میٹر چڑھائی کے بعد ہی ہمارے پسینے چھوٹ گئے۔ ہم نے کہا بھئی اور کتنا راستہ باقی ہے؟؟
کاااافی آگے جا کے یہ موڑ آیا تو امید کی ایک رمق جاگی کہ یہ موڑ مڑتے ہی قلعہ ہماری نظروں کے سامنے ہو گا۔
لیکن ابھی عشق کے امتحاں اور بھی تھے۔
سانس لینے کو ان اماں جی کے پاس رک گئے جو اپنے ہنر کے جوہر دکھانے میں مصروف تھیں۔ کچھ گپ شپ کے بعد ہم نے تصویر کی اجازت کے بعد تصویر لی اور اجازت چاہی۔
راستے میں یہ قدیم سا گھر بھی نظر آیا۔
یہاں اوپر پہنچ کر ہم رک گئے۔ راستہ دائیں اور بائیں دونوں طرف مڑ رہا تھا۔
بائیں طرف کی یہ سیڑھیاں ہمیں بہت اچھی لگیں۔
لیکن لوگ چونکہ دائیں طرف جا رہے تھے تو ہم نے بھی دائیں طرف جانے میں ہی عافیت سمجھی۔
یہاں پہنچ کر بہت سے لوگوں کی بس ہونے لگی۔ ایک فیملی کے افراد تو یہاں پہنچ کر رک گئے اور فرمانے لگی۔ چلو بھئی واپس چلیں، نہیں معلوم کہ کتنا راستہ باقی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ آگے بڑھے یا وہیں سے لوٹ گئے۔ ہم تو چلتے رہے۔
رکے نہ اپنا کارواں بڑھے چلو بڑھے چلو
یہاں پہنچ کر یہ ریستوران نظر آیا۔ دل تو کیا کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے 380 گلاس پانی کے پی لیے جائیں۔ لیکن یہ ارادہ واپسی کے لیے رہنے دیا کیونکہ اب قلعہ چند قدم کے فاصلے پر ہی تھا۔
یہ تھی ہماری آخری آزمائش۔
اوپر پہنچ کر جو منظر دیکھا تو بے اختیار مسکرا دئیے۔ لوگ جاتے ہی جہاں جگہ ملی وہاں لائن قطار بیٹھ کر سانس بحال کرنے میں مصروف نظر آئے۔
قلعہ بلتت
دوسرے رخ سے
معلوم پڑا کہ قلعے کو اندر سے دیکھنے کے لیے ٹکٹ کٹا کر گروپ بنانا پڑے گا۔ ٹکٹ گھر کی تلاش شروع کی جو یہاں آ کر ختم ہوئی۔
ٹکٹ گھر بہت دلچسپ لگا۔ اتنا چھوٹو سا دروازہ تھا جس میں سے سب جھک جھک کر داخل ہو رہے تھے۔
ہم اندر داخل ہوئے تو کچھ اندھیرا سا تھا اور یہ انکل ٹکٹ دینے میں مصروف تھے۔
ٹکٹ لے کر یہ سیڑھیاں چڑھنی تھیں اور وہ اوپر دروازے سے قلعے کے اندر کی سیر کا سفر شروع ہونا تھا۔
ایک گارڈ انکل نے ہمارا ٹکٹ لے کر پھاڑنا چاہا تو ہم نے کہا رکیں رکیں۔ ہم ذرا ٹکٹ کی ایک تصویر تو بنا لیں۔
سیڑھیاں طے کر کے ہم اس چھوٹو سے دروازے سے قلعے کے اندر داخل ہوئے۔