قلعہ بلتت کی روداد تو ختم ہوئی۔ لیکن ابھی کچھ ادھار باقی تھا۔ پانچ دن کے ٹور کا یہ پروگرام کیسے بنا اور ٹور گروپ کے ساتھ ہمارا تجربہ کیسا رہا؟؟ ان باتوں کا تذکرہ ابھی باقی ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ ہماری پرنسپل صاحبہ چونکہ ٹور گروپ کے ساتھ پہلے بھی جا چکی ہیں لہذا انہوں نے ہی اس گروپ کا انتخاب کیا اور پھر ہمیں لنک بھیجا۔ ہم نے بھی کہا کہ مناسب ہے۔ چلتے ہیں۔ اجازت ملنے کا مرحلہ زیادہ مشکل ثابت نہیں ہوا۔ کیونکہ ابو جان منع نہیں کرتے ہیں اور امی جان کو قائل کرنے کے لیے ہماری پرنسپل صاحبہ گھر تشریف لائیں اور فرمایا کہ میری اپنی بیٹی بھی میرے ساتھ جا رہی ہے تو آپ لاریب کو بھی منع مت کیجیے گا۔ امی جان تھوڑی تھوڑی راضی تھیں مزید راضی ہو گئیں۔
پرنسپل صاحبہ نے اپنے بیٹے کو ٹور گروپ کے آفس میں بھیجا کہ دیکھ کے آئیں کیسے لوگ ہیں اور کچھ تفصیلات سے آگاہی ہو۔ ان کے بیٹے خاصے مطمئن لوٹے کہ گروپ مناسب ہے۔ گروپ میں کوئی بیچلر نہیں ہو گا۔ ساری فیملیز ہوں گی۔ ہمارے پانچ دن کے ٹور کی تفصیلات
یہاں دیکھی جا سکتی ہیں
۔
تور گروپ کے ساتھ جانے کا انتخاب اس لیے بہتر تھا کہ اگر بھائی لوگ اپنے دوستوں کے ساتھ جائیں تو وہ خود سے بھاگ دوڑ کے رہائش یا ہر طرح کا انتظام کر لیتے ہیں۔ لیکن خواتین کا معاملہ ذرا مختلف ہوتا ہے۔ اس لیے کم از کم ریائش کی طرف سے ہم لوگ بے فکر تھے کہ جا کے انتظام وغیرہ کیسے ہو گا۔
خیر وہ دن آن پہنچا جب ہمیں گھر سے روانہ ہونا تھا۔ پہلی دفعہ اتنے لمبے ٹور پہ جا رہے تھے اس لیے ہم تھوڑے تھوڑے سے پریشان تھے لیکن ہم نے بالکل ظاہر نہیں ہونے دیا۔ (مبادا گھر والے یہ نہ کہہ دیں کہ مت جاو) بس میں سوار ہونے تک غیر یقین سی کیفیت بھی تھی کہ ہم جا رہے ہیں۔ یوں لگ رہا تھا کہ کسی بھی لمحے معلوم پڑے گا کہ ہم نہیں جا رہے ہیں۔ گھر واپس جانا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ بس میں بیٹھنے کے بعد ہم نے پہلا فیس بک اسٹیٹس دیا۔
جب ٹور پہ جانے کا پروگرام بن رہا تھا تب سب اساتذہ بڑھ چڑھ کے کہہ رہے تھے کہ ہم بھی جائیں گے۔ لیکن آخری دن تک ہم صرف چار لوگ رہ گئے۔ ہمیں خدشہ تھا کہ اب تو ضرور پروگرام کینسل ہو جائے گا۔ لیکن پرنسپل صاحبہ نے پروگرام کو بالکل بھی کینسل نہیں کیا۔ کہتی ہیں کہ اگلے سال بھی یہی کچھ ہو گا۔ اور اگلا سال دیکھا کس نے ہے؟؟ ہم ضرور جائیں گے۔
اب ذرا بس میں سوار دوسری فیملیز کی تفصیل ہو جائے۔ بس میں سوار ہوئے تو پتہ چلا کہ بس میں ہم سمیت پانچ فیملیز موجود ہیں۔ تین فیملیز میاں بیوی اور ان کے چھوٹے چھوٹے بچوں پر مشتمل تھی۔ چوتھی فیملی میں پانچ یونیورسٹی فیلوز کا گروپ شامل تھا۔ جو کہ تین لڑکیوں اور دو لڑکوں پر مشتمل تھا۔ وہ لوگ دوست تھے۔ پانچواں ہم چاروں کولیگس کا گروپ۔
ٹور گروپ کا تجربہ اچھا رہا۔ ٹور گائیڈ (وقار صاحب) اور ڈرائیور (فہد صاحب) کے علاوہ دو اور بھی لوگ تھے جو مسافروں کا سامان بس سے اتارنے اور چڑھانے میں مددگار تھے۔ مسافر فیمیلیز بھی ٹھیک تھیں۔ ایک فیملی کے انکل خاصے لڑاکا تھے۔ اور خواتین کو یونیورسٹی فیلوز کے گروپ سے کچھ اعتراض تھا۔ بقول ایک خاتون کے کہ جب ہماری نئی نئی شادی ہوئی تھی تو ہم سکردو کے اطراف میں گھومنے پھرنے گئے تھے تو ٹور گروپ والوں نے سب سے پہلے ہمارا نکاح نامہ دکھانے کو کہا تھا۔ ان سے کسی نے نہیں مانگا؟؟
ہوٹلز کی بات کریں تو ہوٹل اور کمرے اچھے تھے۔ صاف سھترے اور اٹیچ باتھ رومز۔ ہم چار کولیگس نے ایک کمرے کا اشتراک کیا تھا۔ ایک ڈبل بیڈ ایک سنگل بیڈ اور ایک میٹرس موجود تھا۔ اسی طرح ہر فیملی کا ایک ایک کمرہ تھا۔ کھانا کچھ جگہ پہ اچھا تھا اور کچھ جگہ کا ذائقہ پسند نہ آیا۔ ناشتے میں پراٹھے، آملیٹ، چنے اور چائے ہوتی تھی۔ رات کے کھانے میں دو دن چکن، دال، چاول اور سلاد کھایا تھا۔ ایک دن باربی کیو اور بون فائر تھا تو وہی باربی کیو کھایا اور آخری رات کو ناران میں دریا کنارے بیٹھ کے مچھلی کھائی۔ سبزی نہیں کھائی کہیں سوائے دن میں خود سے کبھی جو کھانے کھاتے تو کوئی سبزی آرڈر کرتے۔
آخری بات جو ہم کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ سیر کے دئیے گئے پلان کے مطابق چند ایک جگہوں کو چھوڑ کر تمام جگہیں وہی تھیں جن کا احوال
عبداللہ محمد نے مع شاندار تصاویر کے چند دن پہلے ہی محفل کی زینت بنایا ہے۔ ان کی
روداد اور تصاویر کے لیے جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ ہم نے سوچا کہ محفلین نے ابھی تازہ تازہ ان جگہوں کی سیر کی ہے تو ہم اس جگہ کا احوال بیان کریں جس کا ذکر ابھی نہیں ہوا ہے۔ اسی لیے ہم نے قلعہ بلتت کی سیر کے احوال کو منتخب کیا۔