قندوز۔۔۔ جنگ یمامہ کی یاد تاز ہ ہو گئی
(ابنِ نیاز)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں جنگِ یمامہ میں حفاظِ کرام کی ایک کثیر تعداد شہید ہوئی تو یہ خیال ہوا کہ اگر خدا نخواستہ یہ صورت حال پھر کبھی ہوئی تو کہیں قرآن پاک اور اللہ کے احکامات دنیا سے ختم نہ ہو جائیں۔ اگر چہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی بڑی تعداد حیات تھی لیکن پھر بھی دنیا سے جانا تو ہر کسی نے ہے، تو کیا پتہ تھا کہ کسی صحابی یا تابعی کو موقع نہ ملے کہ وہ کسی اور کو قرآن پاک حفظ کرا سکے۔یا کوئی حفظ کر لے لیکن اس دور کی صورتِ حال کے مطابق جنگوں میں شہید ہو جائے تو اس طرح کی شہادتوں سے قرآن کی ظاہری حفاظت میں فرق آتا ۔ جنگ یمامہ کی صورت حال دیکھ کر اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں ڈالا کہ قرآن پاک کو اکٹھا کرکے اسے تحریری صورت میں جمع کر دیا جائے۔ پھر جس طرح وہ اکٹھا کیا گیا وہ تاریخ میں رقم ہے۔ یہ الگ بات کہ کچھ اسلام کے باغی اسی بات کو لے کر گمراہی پھیلاتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے قرآن کو تحریر صورت میں اکٹھا نہیں کروایا تو کسی اور کی جرأت کیسے ہو سکتی ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اس وقت لاکھوں صحابہ کرام موجود تھے، اگر یہ فیصلہ غلط ہوتا تووہ رسول اللہ ﷺ کے تربیت شدہ تھے۔ حق بات پر اڑ جاتے تھے اور ناحق کو ختم کرکے ہی دم لیتے تھے، تو وہ کیسے گوارا کرلیتے کہ اس طرح کا کوئی کام کیا جائے۔ لیکن ہوا، اور حق تعالیٰ نے ان سے یہ احسن کرام کروایا۔
جنگِ یمامہ میں حفاظِ کرام کی شہادت سے شروع ہونے والا قضیہ آج قندوز، افغانستان تک جا پہنچا ہے۔ طلباء حفاظ کرام جو اپنے خوبصورت مستقبل کے لیے وہاں تشریف فرما تھے۔ اپنے قابل اساتذہ کرام کے دستِ شفقت سے دستار بندی کی خواہش دل میں سمائے قرآن پاک کو سینے میں سمائے تھے۔ اور اس شرف پر، جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا، فخر کر رہے تھے، کہ یہ ان کا حق تھا۔ ایک حدیثِ پاک کے مفہوم کے مطابق اللہ پاک حافظ قرآن کو بروزِ قیامت فرمائیں گے وہ چلتا جائے اور قرآن پڑھتا جائے، الف لام میم سے شروع ہو کر والناس تک پڑھتے ہوئے وہ جتنا سفر طے کرے گا ، جنت میں اتنا اس کا علاقہ ہو گا۔ اس علاقے میں اللہ پاک کی کیا کیا نعمتیں ہوں گی،وہ رب ہی جانتا ہے۔ پھر یہ کہ ایک ایک حافظ قرآن کو اللہ پاک اختیار دیں گے کہ وہ ستر افراد کی نشاندہی کرے (جنھوں نے رب کا کلمہ پڑھا ہو گا اور زندگی میں کبھی شرک نہ کیا ہو گا)جن کی اللہ مغفرت فرمائیں گے۔ تو یہ کتنی بڑی سعادت کی بات ہے۔ یقیناًایک حافظ قرآن کو اس بات پر فخر کرنا چاہیے کہ اللہ پاک اس کے وسیلے سے ستر افراد کی مغفرت فرمائیں گے، اس کو جنت میں اتنا اعلیٰ و بہترین مقام عطا فرمائیں گے۔ ۔۔۔ پھر یوں ہوا کہ یہ قندوز کے طلباء حفاظ جب کرسیوں پرتشریف فرما تھے تو امریکہ کی آشیر باد لیے ہوئے امریکی پائیلٹ امریکی جہازوں سے اس مدرسے پر بمباری کرتے ہوئے گزرے کہ وہاں ان کی نظر میں مستقبل کے دہشت گردوں کا اجتماع ہو رہا تھا۔
ہاں! وہ جانتے تھے کہ یہ وہ طلباء ہیں جنھوں نے کل بڑے ہو کر مستقبل میں دین اسلام کی خدمت کرنی ہے۔ اسلام کو باقی باطل ادیان پر برتری دلانی ہے۔ اسلام کی تعلیمات کو پھیلانا ہے۔ تو یقیناًباطل دنیا کے دلوں پر اسلام کی دہشت ہی پھیلے گی۔ کیونکہ اسلام کی تعلیمات ہر اس چیز میں، ہر اس کام میں، ہر اس بات میں رکاوٹ ہیں جو انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر اخلاقیات کو ختم کر دیتی ہیں یا معاشرے کو برائی کی طرف لے کر جاتی ہیں، یا بے انصافی کو پھیلاتی ہیں۔ اور یہ سارے غیر اخلاقی کام ، بے انصافی کے کام باطل ادیان دھڑلے سے کرتے ہیںآئے ہیں اور کر رہے ہیں۔ اب یہی مثال لے لیں۔ کیا نہتوں پر بمباری کرنا انصاف ہے؟ ہمیں ہمارا دین تو یہ سکھاتا ہے کہ جنگ کے دوران میں درختوں تک کو نہیں کاٹنا، چہ جائیکہ بچوں بوڑھو اور عورتوں کو نقصان پہنچانا ہو۔ سوائے وہ بوڑھے یا خواتین جو جنگ میں ذاتی طور پر شامل ہوں۔ ویسے تو کسی خاتون پر اگر وہ نشانے میں آجائے اور اس کو علم ہو کہ گولی لگنے والی ہے تو بھی اگر ممکن ہو تو اس کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔۔ یہ ہمارا دین ، ہمارا مذہب کہتا ہے۔
قندوز کے مدرسے میں دو سو سے زیادہ طلباء شہید ہوئے۔ لیکن افسوس ہمارے الیکٹرانک میڈیا پر جنھوں اس کو اس طرح مخبور نہیں کیا جس طرح ننگِ دین ، غدارِ وطن ملالہ کے چار روزہ پاکستان کی سیر کو ہائی لائیٹ کیا۔ افسوس کا مقام ہے کہ ملالہ تو ان کی نظر میں بہت کچھ ہے، لیکن یہ طلباء کچھ نہیں ۔ کیونکہ ایک تو ان کا تعلق دوسرے ملک سے تھا۔ وہ ملک جو ہمیشہ سے پاکستان کے خلاف ہی رہا ہے۔ لیکن قطعہ نظر اس کے ، وہ معصوم بچے تو تھے۔ جس طرح آرمی پبلک سکول پشاور کے بچے دہشت گردانہ حملے میں شہید ہوئے، تو قندوز کے حفاظ طلباء بھی ان ہی جیسے پھول تھے۔ ان دونوں علاقوں کے بچوں میں سب سے بڑی مطابقت ان کی معصومیت تھی۔ میرا سوال ہے الیکٹرانک میڈیا سے کہ کب تک امریکہ ، بھارت ، اسرائیل کی زبان بولتے رہو گے۔ کب تک اپنے حکمرانوں کی بولی بولتے رہو گے۔ اپنی اپنی پارٹی کی خبریں ہی سامنے دہراتے رہو گے۔کب تک اپنے لیڈر کی غلط باتوں کو غلط توجیحات سے غلط طور پر درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہو گے۔
خدارا، اندھی تقلید کے ان اندھیروں سے نکلو اور دشمنوں کا اصل چہرہ دنیا کو دکھاؤ۔ اگر امریکہ ظالم ہے، یقیناًہے، تو باقی دنیا کو اس کا چہرہ دکھاؤ۔ ویسے تو دنیا کا ہر ثبوت آپ کی مٹھی میں ہوتا ہے تو یہاں آپ کو کیا نظر آتا کہ قندوز پر حملہ کس نے کیا ہے؟ جہاز کونسا تھا اور پائلٹ کون تھا؟ سب کچھ آپ کو معلوم ہوتا ہے لیکن اپنے ’’باس‘‘ کی آشیر باد کے بغیر آپ تفصیل بتانا تو درکنار ، خبر چلانا بھی گناہ سمجھتے ہوو۔ جب کہ گناہ تو در اصل حقیقت کو چھپانا ہوتا ہے۔ جب قرآن پاک میں اللہ پاک صریح طور پر فرماتے ہیں کہ اور گواہی کو مت چھپاؤ۔۔ کیونکہ حق کا دارو مدار گواہی پر ہے۔ اس کے بغیر حق ثابت نہیں ہوتا۔ لہٰذا اسے چھپانا گناہِ عظیم ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ میڈیا بہت طاقتور شعبہ ہے۔ یہ عوام کی رائے کو مکمل طور پر بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔ کسی بھی ملک کے میڈیا کا تعلق دوسرے ممالک سے ہوتا ہے۔ اگر یہی پاکستانی میڈیا دوسرے ممالک کے میڈیا کو کسی ایک جرم یا ظلم کے خلاف ثبوت مہیا کرے اور ساتھ میں یہ درخواست بھی کرے کہ اس کو اپنے حکام بالا تک پہنچایا جائے، تو ہر ملک میں ایسے لوگ ہیں جو ملک، مذہب سے ہٹ کر انسانیت کا بھی سوچتے ہیں۔ وہ ضرور آواز اٹھائیں گے۔
فی الوقت تو مجھے میرا قلم پکار رہا ہے کہ قندوز میں ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی جائے اور اس کو حکومت وقت تک پہنچایا جائے کہ بحیثیت مسلمان، اور انسان اس ظلم کے خلاف نہ صرف احتجاج کیا جائے بلکہ ظالم کو جن کا افغانستان میں کوئی کام نہیں ہے، افغانستان چھوڑنے کا کہا جائے۔ جو چھتیس اسلامی ممالک کی نام نہاد اتحادی فوج بنی ہوئی ہے، اگر اس میں شرم ہے، غیرت ہے، اور اس کے فوجی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کلمہ پڑھتے ہیں تو پھر ان کو چاہیے کہ اسلام کے دشمنوں کو نتھ ڈالیں۔ کاش کوئی عمر ثانی پیدا ہو جائے۔۔۔