اقتباسات قومیت وصوبائیت اور زبان ورنگ کے تعصب کی اصلاح--مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمہ الله تعالیٰ

یاسر شاہ

محفلین
عرض مرتب
اس وقت ساری دنیا میں غیر مسلموں کی طرح ’’ قومیت وصوبائیت اور رنگ وزبان ‘‘ کو بنیاد بنا کر مسلمان جس طرح آپس میں اختلافات اور انتشار کا شکار ہیں جو کہ قرآن وحدیث کی تعلیمات کے بالکل منافی ہے ۔ اس فتنہ کی اصلاح کے لیے حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم (رحمہ الله تعالیٰ )کی مختلف کتابوں سے اس فتنہ کے بارے میں ملفوظات کو منتخب کرکے ایک مختصر رسالہ ’’ قومیت وصوبائیت اور رنگ وزبان کے تعصب کی اصلاح ‘‘شایع کیا گیا ہے۔آج کل کے حالات کے پیش نظر اس رسالہ کو زیادہ سے زیادہ شایع کرکے لوگوں تک پہنچائیں تا کہ تعصب اور نفرت دور ہو اور آپس میں محبت پیدا ہو -

؎ ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے​

ہر شخص کو اس رسالہ کو شایع کرنے کی عام اجازت ہے۔
(یکے از خدام حضرت والا دامت برکاتہم)
 

یاسر شاہ

محفلین
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْم
۱۶ شعبان المعظم ۱۴۲۷؁ھ مطابق ۱۰ ستمبر ۲۰۰۶ ؁ء بروز اتوار ، بعد عصر


زبان ورنگ کا اختلاف اللہ تعالیٰ کی نشانی ہے

ارشاد فرمایا کہ سب مسلمان بھائی بھائی ہیں۔

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَۃٌ (سورہٴحجرات )
مسلمان توآپس میں بھائی بھائی ہی ہیں

کوئی افریقہ سے آیا ہے کوئی لندن سے ، کوئی بلوچستان سے کوئی پنجاب سے ، کوئی سندھ سے، کوئی کہیں سے آیا ہے کوئی کہیں سے لیکن میں سب کو اپنا بھائی سمجھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖ خَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافُ اَلۡسِنَتِکُمۡ وَاَلۡوَانِکُمۡ ؕ
ترجمہ: اور اسی کی نشانیوں میں سے آسمان و زمین کا بنانا ہے اور تمہارے لب ولہجہ اور رنگتوں کا الگ الگ ہونا ہے۔

زبان ورنگ کا اختلاف یہ میری نشانیاں ہیں، اگر کوئی اللہ کی نشانی کو حقیر سمجھے تو اس کی بہت بڑی نالائقی ہے، وہ بڑا بے ہودہ آدمی ہے، بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگ زبان ورنگ کے اختلاف سے ایک دوسرے کو حقیر سمجھتے ہیں ۔ لوگ گناہ کی حقیقت کو سمجھتے نہیں، اگر کوئی اللہ کی نشانی کو نہیں مانتا، انکار کرتا ہے تو یہ کفر ہے۔ کوئی پنجابی بولتا ہے، کوئی سندھی زبان بولتا ہے تو اردو زبان والے ہنستے ہیں۔ اردو اچھی زبان تو ہے لیکن اس کو تمام زبانوں سے اچھا اور افضل سمجھنا جائز نہیں اور کسی زبان کو حقیرسمجھنا جائز نہیں۔ انگریزی زبان کو بھی حقیر نہ جاننا چاہیے ، اگر کوئی انگریز مسلمان ہوجائے تو کیا بولے گا؟ انگریزی ہی تو بولے گا، پس جتنی زبانیں ہیں سب کو اچھا سمجھو۔ اگر تم لندن میں پیدا ہوتے تو انگریزی بولتے، پنجاب میں پیدا ہوتے تو پنجابی بولتے ، سندھ میں پیدا ہوتے تو سندھی بولتے لہٰذا جو زبان تمہاری ہوتی کیا اس کو حقیر سمجھتے ؟ لہٰذا کسی زبان کو حقیر نہ سمجھو۔
جب ہم بنگلہ دیش گئے تو کبھی کسی بنگلہ دیشی کوحقیرنہیں سمجھا،اسی وجہ سے سب بنگلہ دیشی عاشق ہوگئے کیوں کہ مجھ میں عصبیت نہیں ہے، عصبیت کا نہ ہونا یہ بات بہت کم پاؤ گے ۔ میرے کتنے دوست پنجاب کے ہیں لیکن ان کی پنجابی سے مجھے مزہ آتا ہے۔

عصبیت.....سوء خاتمہ کا پیش خیمہ

اپنے قلب کا جائزہ لیتے رہو کہ عصبیت کا کوئی ذرّہ دل میں تو نہیں ہے۔ اگر عصبیت کا ایک ذرّہ بھی دل میں ہوا تو سوء خاتمہ کا اندیشہ ہے۔ ایک غزوہ میں ایک شخص بہت بہادری سے لڑرہا تھا، ایک صحابی نے اس کی تعریف کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جہنمی ہے۔ وہ صحابی اس کے پیچھے لگ گئے ۔ آخر میں دیکھا کہ وہ زخمی ہوگیا اور زخموں کی تاب نہ لا کر اپنی تلوار سے اس نے خودکشی کرلی۔صحابی نے آکر یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سےعرض کیااورپوچھا کہ یا رسول اللہ !یہ کیا ماجرا ہے؟حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایا کہ یہ شخص اسلام کے لیے نہیں عصبیت کے لیے لڑرہا تھا کہ میرے قبیلہ کا نام ہوگا۔ پس خوب سمجھ لو کہ عصبیت جہنم میں لے جانے والی ہے، زبان اور رنگ کو حقیر سمجھنا جہنم میں جانے کا سامان کرنا ہے۔
اس مضمون کو پھیلاؤ، اس کا بہت فائدہ ہوگا، آج کل اس کی ہر جگہ اشاعت کی ضرورت ہے ہر مسلمان اس مضمون کو آگے پھیلائے۔ کسی زبان کو حقیر نہ سمجھو، زبان اور رنگ کی وجہ سے کسی کوحقیرسمجھنا دلیل ہے کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ کی نشانی کا انکار کررہا ہے۔ وَاخۡتِلَافُ اَلۡسِنَتِکُمۡ وَ اَلۡوَانِکُمۡ آدمی اپنے باپ کی نشانی کی عزت کرتا ہے، اس کو دیکھ کر باپ کو یاد کرکے روتا ہے کہ یہ میرے ابّا کی نشانی ہے۔ وہ بندہ کتنا نالائق ہے جو اللہ تعالیٰ کی نشانی کو جھگڑے کا ذریعہ بناتا ہے۔ ساری دنیا کے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں چاہے لندن کے ہوں، چاہے یوگنڈا کے ہوں۔ کالے گورے اللہ تعالیٰ بناتے ہیں ، خود نہیں بنتے ، اللہ تعالیٰ پیدا کرنے والے ہیں، رنگ وزبان کا اختلاف الله تعالیٰ کی نشانی ہے ، جو قرآن پاک کی کسی آیت پر ایمان نہ لائے وہ قرآن پاک کا انکار کرنے والا ہے ۔

ماخوذ از : ماہنامہ الابرار ۲۰۰۶؁ء
 

یاسر شاہ

محفلین
۱۶ صفر المظفر ۱۴۲۳ ؁ھ مطابق ۲۷ اپریل ۲۰۰۲؁ء بروز ہفتہ ، بعد مغرب​
زبانوں اور رنگوں کا اختلاف ذریعہ معرفت الہٰیہ ہے
اب ایک نئی بات سنو! جو شاید مجھ ہی سے سنو گے۔ ملاوی میں ایک رات دو بجے میری آنکھ کھل گئی تو کتا بھونک رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ کیا بات ہے کہ یہاں کا کتا بھی اسی زبان میں بھونکتا ہے جس زبان میں کرا چی کا کتا بھونکتا ہے۔ کتے بلی اور تمام جانور ہر ملک کے ایک ہی طرح بولتے ہیں۔ انگلینڈ کا کتا یہ نہیں کہا کہ I am a dogاور انگلینڈ کی بلّی یہ نہیں کہتی کہ am a cat بلکہ ہر ملک کی بلی میاؤں ہی کہے گی۔ بنگلہ دیش کے ایک عالم نے مزاحاً کہا کہ بلّی جو میاؤں کہتی ہے تو دراصل کہتی ہے کہ میں آؤں ؟ یعنی دسترخوان پر کیا اکیلے اکیلے ٹھونس رہے ہو یا میں آؤں ؟ لیکن انسانوں کی زبانیں ہر ملک اور ہر علاقہ کی مختلف ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟ دل میں یہ آیا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اپنی معرفت کے لیے پیدا کیا ہے اس لیے ان کی زبانوں میں اختلاف کردیا تا کہ اس اختلاف سے وہ مجھے پہچانیں کہ واہ رے میرے اللہ آپ کی کیا قدرت ہے کہ آپ نے کتنی زبانیں پیدا فرمادیں، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖ خَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَاخۡتِلَافُ اَلۡسِنَتِکُمۡ وَاَلۡوَانِکُمۡ
تمہارے اختلاف زبان اور اختلاف رنگ میں میری نشانیاں ہیں اور نشانیاں جانوروں کو نہیں دی جاتیں کیوں کہ ان کے اندر معرفت الہٰیہ کی صلاحیت ہی نہیں ہےورنہ انگلینڈ کی بلی انگریزی بولتی اور پاکستان کی بلی اردو بولتی اور بنگلہ دیش کا کتا بنگلہ بولتا لیکن ساری دنیا کے جانور ایک ہی طرح بولتے ہیں، پاکستان کا گدھا اسی طرح بولے گا جس طرح انگلینڈ کا گدھا بولتا ہے اور انسانوں کو کیوں کہ اپنی معرفت کے لیے پیدا کیا اس لیے ان کی زبان اور رنگ میں اختلاف کردیا لیکن یہ ہماری نادانی ہے کہ ہم اس کو وجہ فضیلت بنالیں کہ ہم گورے ہیں تم کالے ہو۔ معلوم ہوا کہ زبان اور رنگ کا اختلاف لڑنے کے لیے نہیں اللہ کی معرفت ومحبت کے لیے ہے۔ اگر ابّا اپنی کوئی نشانی دے تو بچے اس کو دیکھ کر ابّا کو یاد کرتے ہیں یا آپس میں لڑتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ تو اختلاف السنۃ واختلاف الوان کو اپنی نشانی بتارہے ہیں اور ہم بجائے اپنے مالک کو یاد کرنے کے اس پر لڑرہے ہیں اور اس کو اپنی اپنی فضیلت کا سبب بنارہے ہیں۔ اس لیے دوسری جگہ فرمادیا:
اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللہِ اَتۡقٰکُمۡ
بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے

تمہاری فضیلت اور کرامت زبانوں اور رنگوں پر نہیں ہے تقویٰ پر ہے جو جتنا زیادہ متقی ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنا ہی مکرم ہے۔
( ماخوذ از ارشادات درد دل)
 

یاسر شاہ

محفلین
۲۶ جمادی الثانی ۱۴۱۹ ؁ھ مطابق ۱۶ اکتوبر ۱۹۹۸ ؁ء بروز جمعرات بعد مغرب
زبان ورنگ سے بالا ترایک بے مثل قوم
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ یَّرۡتَدَّ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللّٰہُ بِقَوۡمٍ یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ......(سورہٴ مائدہ )
ترجمہ :اے لوگوجوایمان لائے ہو! تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پھرجائے گاتواﷲ تعالیٰ جلد ہی ایسے لوگوں کولے آئے گاجن سے وہ محبت کرے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے،

لہٰذا جو دین سے بے وفا ہو کر اور اللہ اور رسول کو چھوڑ کر بھاگ گئے اور دوبارہ یہودی اور عیسائی ہوگئے تو کوئی فکر مت کرو فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللہُ بِقَوۡمٍ یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ ؎ ہم عنقریب عاشقوں کی ایک قوم پیدا کریں گے جن سے ہم محبت کریں گے اور جو ہم سے محبت کرے گی۔ اور قوم نازل فرمایا اقوام نازل نہیں فرمایا، جس سے معلوم ہوا کہ ساری کائنات میں جتنے لوگ اللہ سے محبت کرنے والے ہیں وہ سب ایک قوم ہیں، چاہے وہ ملاوی کا ہو یا پاکستان کا ہو، امریکہ کا ہو یا افریقہ کا ہو، کالا ہو یا گورا ہو ،سارے عالم کے اللہ کے عاشق اور اللہ سے محبت کرنے والے سب ایک قوم ہیں، اگر اللہ کے عاشقوں میں بہت قومیں ہوتیں اور کالے گوروں کا فرق ہوتا تو اللہ لفظ قوم نازل نہ فرماتا، اقوام نازل کرتا کہ ہم اپنے عاشقوں کی اقوام نازل کریں گے لیکن فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللہُ بِقَوۡمٍ فرمایا کہ پوری دنیا میں جتنے میرے عاشق ہوں گے وہ سب کے سب ایک قوم ہیں، عاشقوں کی قوم الگ تھلگ نہیں ہوتی۔

اللہ تعالیٰ کے عاشق سب ایک قوم ہیں البتہ محبت کے لیے ان کی زبانوں میں اور رنگ میں اختلاف ہے۔ یہ دلیل اختلافِ قومیت کی نہیں ہے،یہ اختلافِ تعبیرات ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ مختلف زبانوں میں ہمارا نام لیا جائے اور مختلف رنگ کے لوگ ہمیں یاد کریں، یہ ہمارا انتظام ہے، اختلاف السنۃ اور اختلاف الوان یعنی زبان ورنگ کے اختلاف میں ہم نے اپنی نشانی اور اپنی قدرت کا تماشہ دکھایا ہے کہ کوئی بنگالی بول رہا ہے کوئی انگریزی بول رہا ہے اور کوئی گجراتی بول رہا ہے:
وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖ خَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافُ اَلۡسِنَتِکُمۡ وَاَلۡوَانِکُمۡ
تمہارے رنگ اور کلر اور تمہاری زبانیں جو الگ الگ ہیں یہ میری نشانیاں ہیں لہٰذا اس سے یہ مت سمجھنا کہ ہمارے عاشقوں کی کئی قومیں ہیں، رنگ اورزبان کے اختلاف سے قوم کا مختلف ہونا لازم نہیں آتا ۔ جو ہم سے محبت کرتا ہے چاہے وہ کسی رنگ اور کسی زبان کا ہو ایک قوم ہے، ساری دنیا بھر کے عاشق ایک قوم ہیں لہٰذا آپ کو ملاوی مل جائے، افریقی مل جائے، ایشیا کامل جائے،انڈین مل جائے گجراتی مل جائے لیکن وہ اللہ و رسول سے پیارکرتا ہوتو اس سے معانقہ کرو،محبت کرو کہ واہ رے میرے پیارے ہم تم ایک برادری ہیں، یہاں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں، سارے عالم کے عاشق خدا ایک قوم ہیں، دلیل میں قرآن پاک کی آیت پیش کررہا ہوں ملاوی کے علماء یہاں موجود ہیں جنوبی افریقہ کے علماء موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللہُ بِقَوۡمٍ میں ایک قوم پیدا کروں گا، جس کی کیا شان ہوگی؟ یُّحِبُّہُمۡ اللہ تعالیٰ ان سے محبت کریں گے اور وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت کریں گے ، تو اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کی قوم کی پہلی علامت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے محبت فرمائیں گے اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت کریں گے اور بِقَوۡمٍ میں جو با داخل ہے یہ: اتی- یأتی: جو لازم تھا اس کومتعدی کررہا ہے ، کیا مطلب ہوا؟ کہ ہمارے دیوانے خود سے نہیں بنتے ، دیوانے بنائے جاتے ہیں۔ اس لیے یہ با یہ معنی پیدا کررہا ہے کہ ہم لائیں گے اپنے عاشقوں کی ایک جماعت اور قوم جس کو ہم اپنا دیوانہ بنائیں گے۔
؎محبت دونوں عالم میں یہی جاکر پکار آئی
جسے خود یار نے چاہا اسی کو یاد یار آئی​

اللہ جس کی قسمت میں اپنا عشق اور اپنی محبت رکھتا ہے وہی اللہ کا دیوانہ ہوتا ہے ، جس کو اللہ پیار کرتا ہے وہی اللہ کو پیار کرتا ہے، یہ بہت خوش نصیب لوگ ہیں،یہ بڑی قسمت والے ہیں بادشاہوں کو یہ قسمت نصیب نہیں ہے، اگر اللہ کو بھولے ہوئے ہیں تو بادشاہ زندگی بھر اپنی بادشاہت میں پریشان ہیں۔ تاج شاہی سر پر ہے اور سر میں درد ہے ۔

؎شاہوں کےسروں میں تاج گراں سے درد سا اکثر رہتا ہے
اور اہل صفا کے سینوں میں اک نور کا دریا بہتا ہے​

اللہ والوں کے سینوں میں نور کا دریا بہہ رہا ہے اور شاہوں کے سروں میں اپوزیشن کے ڈنڈے سے درد سر ہورہا ہے۔ تاج شاہی سر پر اور خود سلطنت کی کرسی پر اور کرسی کے نیچے سے اپوزیشن کے ڈنڈے کا فکر ہر وقت پریشانی میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔

( ماخوذ از : اللہ کے باوفا بندے)
 

یاسر شاہ

محفلین
۳ ربیع الاول ۱۴۱۴؁ھ ۲۲ اگست ۱۹۹۳؁ء بروز اتوار صبح ۱۱ بجے
خاندان وقبائل کا مقصد تعارف ہے نہ کہ تفاضل وتفاخر

آج حضرت والانے مجلس کے دوران یہ آیت پڑھی:
اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَجَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًاوَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا -اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ(13سورہٴ حجرات )
ترجمہ :اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایاتاکہ تم آپس میں پہچان رکھو، بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے بیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔
حق سبحانہ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا یعنی بابا آدم علیہ السلام اور مائی حوا علیہا السلام سے وَجَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًاوَّ قَبَآئِلَ اور ہم نے تم کو مختلف خاندانوں میں تقسیم کردیا لیکن یہ تقسیم تفاخر کے لیے نہیں بلکہ اس کا مقصد ہے لِتَعَارَفُوۡا تاکہ تم کو ایک دوسرے کا تعارف حاصل ہوسکے ۔ لیکن ہم لوگوں نے بجائے تعارف کے تفاضل اور تفاخرشروع کردیا۔ جو پٹیل ہے وہ کہتا ہے کہ ہمارے مقابلے میں سب گھٹیل ہیں یعنی گھٹیا ہیں کوئی لمبات ہے کوئی گنگات ہے۔ اس آیت سے یہ مسئلہ نکلا کہ اپنے خاندان پر ، اپنی برادری پر، اپنے القاب پر فخر کرنا نادانی ہے جو مقصدِ تعارف کے خلاف ہے۔اس وقت مجھے بس یہ تھوڑی سی نصیحت کرنی ہے کہ لِتَعَارَفُوۡا کا خیال رکھیے۔ تفاخروتفاضل جائز نہیں کیوں کہ تفریق شعوب وقبائل سے اللہ تعالیٰ کا مقصدیہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے سے تعارف ہوجائے کہ فلاں خاندان سے ہے، وہ فلاں قبیلہ سے ہے۔ خاندان وقبائل سبب عزت وشرف نہیں ہیں ۔ پھر عزت وشرف کس چیز میں ہے ؟ آگے ارشاد فرماتے ہیں:
اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللہِ اَتۡقٰکُمۡ
اوراللہ تعالیٰ کے نزدیک معزز وہ ہے جو زیادہ تقویٰ اختیار کرتا ہے ۔ جو جتنا زیادہ متقی ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنا ہی زیادہ معزز ہے۔

( ماخوذ از : معارف ربانی )
 

یاسر شاہ

محفلین
۱۷ محرم الحرام ۱۴۲۶ ؁ھ مطابق ۲۷ فروری ۲۰۰۵؁ء بروز اتوار

جنت میں کوئی صوبہ نہیں

خانقاہ میں امریکہ ، کینیڈا ، برطانیہ ، فرانس ، ری یونین، بنگلہ دیش، برما ، ہندوستان وغیرہ کئی ملکوں کے لوگ جمع تھے جو اپنی اصلاح کے لیے حضرت والا کی خدمت میں آئے ہوئے تھے۔ اسی طرح پاکستان کے کئی صوبوں کے لوگ بھی تھے ۔ ان کو دیکھ کرحضرت والا نے ارشاد فرمایا کہ اسلام کی حقانیت کی ایک بڑی دلیل ہے کہ کالے ، گورے ، سانولے ہر رنگ کے آدمی جمع ہوگئے اور یہاں رنگ اور زبان کی کوئی تفریق نہیں کیوں کہ جنت میں کوئی ملک اور کوئی صوبہ نہیں ہے، نہ وہاں فرانس ہے نہ امریکہ نہ ہندوستان نہ بنگلہ دیش نہ پنجاب نہ سندھ نہ بلوچستان لہٰذا جن کو جنت میں جانا ہے ان کے دل میں عصبیت نہیں ہوتی۔ یہی علامت ہوتی ہے کہ یہ جنتی لوگ ہیں اور جنت میں سب کی زبان عربی ہوگی اور جو عربی نہیں پڑھا ہوگااللہ تعالیٰ اس کو سکھادیں گے۔ ہر جنتی عربی بولے گا، وہاں قومیت ، صوبائیت لسانیت نہیں ہوگی کہ پنجابی پنجابی بول رہا ہے، سندھی سندھی بول رہا ہے، گجرات کا گجراتی بول رہاہے ، وہاں سب عربی بولیں گے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

وَجَبَتْ مَحَبَّتِیْ لِلْمُتَحَابِّیْنَ فِیَّ وَالْمُتَجَالِسِیْنَ فِیَّ وَالْمُتَزَاوِرِیْنَ فِیَّ وَالْمُتَبَاذِلِیْنَ فِیَّ
ترجمہ :میری محبت ان بندوں کے لیے واجب ہوجاتی ہے جو آپس میں میرے لیے محبت رکھتے ہیں اور میرے لیے بیٹھتے ہیں اور میرے لیے ایک دوسرے کی ملاقات کرتے ہیں اور میرےلیے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں-

میری محبت ان لوگوں کے لیے واجب ہوجاتی ہے جو میری وجہ سے آپس میں محبت رکھتے ہیں، ان کی آپس میں محبت کا سبب میں ہوں،نہ رشتہ داری ، نہ قرابت داری ، نہ بزنس پارٹنری کسی قسم کا رشتہ نہیں، نہ ملکی ، نہ علاقائی ، نہ لسانی ، کوئی انگریزی بول رہا ہے، کوئی عربی بول رہا ہے، کوئی اردو مگر میری وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کررہے ہیں تو ان کو اپنی محبت عطا کرنا میرے ذمہ واجب ہوجاتا ہے


؎ میں ڈھونڈتا ہوں تجھ کو محبت کہاں ہے تو
اک قلب شکستہ ترے قابل لیے ہوئے​

قیامت کے دن اعلان ہوگااَیْنَ الْمُتَحَابُّوْنَ فِیَّ کہاں ہیں وہ لوگ جو دنیا میں میری وجہ سے آپس میں محبت کرتے تھے، ان کی زبان ایک نہیں تھی، علاقے ایک نہیں تھے، قومیت ایک نہیں تھی، خاندان ایک نہیں تھا، لیکن صرف میری وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے، وہ لوگ میرے عرش کے سائے میں آجائیں، تو معلوم ہوا کہ اہل جنت کو جنت میں عرش اعظم کی چھت کا جو سایہ ملے گا اللہ کے لیے آپس میں محبت کرنے والوں کو وہ سایہ میدان محشر ہی میں مل جائے گا اور ان کا کوئی حساب نہیں ہوگا۔
 

یاسر شاہ

محفلین
۱۱ محرم الحرام ۱۴۲۱ ؁ھ مطابق ۱۶ اپریل ۲۰۰۰؁ء بروز اتواربعد نماز مغرب

زبان اور رنگ ..اللہ تعالیٰ کی دو عظیم الشان نشانیاں

اللہ تعالیٰ نے آج ایک علم عظیم عطا فرمایا کہ کسی زبان کو دل سے حقیرسمجھنا یا زبان سے ظاہر کرنا اس میں خوف کفر ہے ۔ چنانچہ تھانہ بھون میں حضرت تھانوی نے ایک شخص کا خط پڑھا جو بنگال سے آیا تھا جس میں لکھا تھا کہ ہم بہت ہانستا ہے اس کا علاج بتائیے۔ حضرت کی مجلس میں ایک صاحب نے کہا کہ یہ بنگالی معلوم ہوتا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ تمہارے اس جملے سے حقارت کی بو آرہی ہے کہ تم نے اہلِ بنگال اور ان کی زبان کو حقیر سمجھا لہٰذا تم جا کر دوبارہ کلمہ پڑھو اور دو رکعات نماز توبہ پڑھو۔ لہٰذا زبان کو حقیرسمجھنا اس لیےحرام ہےکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖ خَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافُ اَلۡسِنَتِکُمۡ وَاَلۡوَانِکُمۡ ؕ
ترجمہ: اور اسی کی نشانیوں میں سے آسمان و زمین کا بنانا ہے اور تمہارے لب ولہجہ اور رنگتوں کا الگ الگ ہونا ہے۔

اےدنیا والو! تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کااختلاف میری نشانی ہے اور نشانی سے پہچان ہوتی ہے یعنی تمہاری زبانوں اور رنگوں کا اختلاف میری معرفت کا ذریعہ ہے۔ میں افریقہ کے ملک ملاوی میں تھا، ایک صبح کتے بھونک رہے تھے۔ میں نے دوستوں سے عرض کیا کہ جانوروں کی زبان کو چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت کا ذریعہ نہیں بنایا اس لیے دنیا بھر کے جانوروں کی ایک ہی بولی ہے۔ کتا چاہے پاکستان کا ہو یا افریقہ کا ہو یا امریکہ اور برطانیہ کا ہو بھوں بھوں ہی کرے گا اور بلی چاہے کسی ملک کی ہو میاؤں ہی کہے گی لیکن انسانوں کی زبانیں مختلف ہیں کیوں کہ ان کو اپنی نشانی اور معرفت کا ذریعہ بنانا تھا تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کو پہچانیں کہ واہ کیا شان ہے آپ کی کہ کتنی زبانیں آپ نے پیدا فرمادیں، لہٰذا کسی زبان کو یا کسی رنگ کو مثلاً کالوں کو حقیر سمجھنا اس میں اندیشہ کفر ہے۔ ایک شخص کسی بونے کو دیکھ کر ہنسنے لگا تو اس نے کہا کہ پیالے پر ہنس رہے ہو یا کمہار پر، پیالہ پر ہنسنا ، پیالہ بنانے والے پر ہنسنا ہے، کسی کی بنائی ہوئی چیز کا مذاق اڑانا گویا کہ بنانے والے کا مذاق اڑانا ہے۔اس آیت کے ذیل میں مجدد زمانہ حکیم الامت کا مذکورہ بالا عمل ہماری تائید کرتا ہے۔ ہر انسان خواہ کسی رنگ کا ہو اور کسی زبان کا ہو اس میں ولی اللہ بننے کی صلاحیت موجود ہے،ایمان لےآئےاورتقویٰ اختیارکرے ولی اللہ ہوگیا لہٰذا عقلاً بھی کسی کو حقیر سمجھنا جائز نہیں۔ لیکن زبانوں کے بارے میں غیر شعوری طور پر شیطان حقارت ڈال دیتا ہے۔ اس کا خاص دھیان رکھنا چاہیےکہ کسی کی حقارت دل میں نہ آنے پائے، مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎

نہ کوئی راہ پا جائے نہ کوئی غیر آ جائے
حریمِ دل کا احمد اپنے ہر دم پاسباں رہنا

( ماخوذ از : خزائن شریعت وطریقت)
 

یاسر شاہ

محفلین
۲۴ جمادی الثانی ۱۴۲۴ ؁ھ مطابق ۲۳ اگست ۲۰۰۳؁ء بروز ہفتہ ، بعد ظہر

عصبیت کفر کی نشانی ہے

اس کے بعد حضرت والا نے مولانا عبد المتین صاحب سے فرمایا کہ بنگلہ زبان میں اس کا ترجمہ کرو۔ بنگلہ دیش سے پندرہ حضرات ، حضرت والا کے ساتھ عمرہ ادا کرنے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ ترجمہ کے بعد فرمایا کہ دیکھو ! بنگلہ زبان سے سب کو مزہ آیا، یہ کس وجہ سے ہوا؟ اس لیے کہ ایمان دل میں اتر گیا، اگر عصبیت اور نفسانیت ہوتی تو مزہ نہ آتا، اسی لیے ہمارےدوست آپس میں بہت محبت رکھتے ہیں، ہم سب ایک امت ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر زبان کے نبی ہیں۔ بنگلہ دیشی ، ہندوستانی ، پاکستانی ، برطانوی ، افریقی ، امریکی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب کے نبی ہیں، مختلف زبانیں رکھنے والوں کا نبی ایک ہی ہے، اس لیے ہم سب ایک ہیں، جب ہمارا اللہ ایک ہے اور ہمارا رسول ایک ہے تو ہم سب ایک ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو ایک قوم فرمایا ہے۔

مَنۡ یَّرۡتَدَّ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللہُ بِقَوۡمٍ یُّحِبُّہُمۡ وَیُحِبُّوۡنَہٗۤ
تم میں سے جو مرتد ہوجائیں گے ان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ ایک قوم پیدا کرے گا جن سے اللہ محبت کرے گا اور جو اللہ سے محبت کریں گے۔

اللہ نے قوم نازل فرمایا، اقوام نازل نہیں فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے عاشقین سب ایک قوم ہیں چاہے وہ عربی ہوں یا عجمی ہوں، گورے ہوں یا کالے ہوں، چاہے وہ عربی بولتے ہیں یا انگریزی بولتے ہوں، بنگلہ بولتے ہوں یا اردو بولتے ہوں چاہے کوئی زبان بولتے ہوں لیکن اللہ سے محبت رکھنے والے سب ایک قوم ہیں، ایک امت ہیں۔

اس لیے اختلاف زبان اور اختلاف رنگ سے خود کو ایک دوسرے سے برتر یا کمتر سمجھنا کفر ہے۔ فرض کرلو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ہمارے درمیان آجائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو عربی میں بولیں گے لیکن ہر زبان میں ایک ترجمان بنائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ترجمہ ہر زبان میں ہوگا، معلوم ہوا کہ ہر زبان ہماری ہے۔ اسی طرح ایک عالم دین کو دوسروں تک دین پہنچانے کے لیے ہر زبان کا ترجمان چاہیے۔ اس لیے زبانوں سے نفرت مت کرو، زبانوں سے نفرت میں بوئے کفر آتی ہے۔ہرزبان کواللہ نے اپنی نشانی فرمایا ہے۔

اللہ کی نشانی کو حقیرسمجھنا،اس سے نفرت کرنا کفر ہے۔ زبان سے نفرت کرنا اور رنگ سے نفرت کرنا کہ یہ کالا ہے وہ گورا ہے یہ سب کفر کی باتیں ہیں، کوئی رنگ ہو اور کوئی زبان ہو ، انگریزی ہو، فارسی ہو ، عربی ہو، بنگالی ہو، اردو ہو، پشتو ہو سب اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں، اس لیے اللہ کی نشانی کو حقیر سمجھنا، ذلیل سمجھنا، کمتر سمجھنا کفر ہے۔
پس عصبیت اور صوبائیت کہ یہ فلاں ہے، وہ فلاں ہے اس لیے فلاں ، فلاں سے بہتر ہے یہ کفر کی نشانی ہے اور جنت سے محرومی کی علامت ہے، جو لوگ جنت میں جانے والے ہیں وہ عصبیت سے پاک ہوتے ہیں کیوں کہ جنت میں رنگوں کا اور زبانوں کا اختلاف نہیں ہے، جنت میں کوئی صوبہ نہیں ہے، جنت میں سب کی زبان عربی ہوگی ، سب عربی بولیں گے۔ اب کوئی کہے کہ ہم تو عربی نہیں جانتے ہیں کیوں کہ ہم عربی پڑھے ہوئے نہیں ہیں تو جواب یہ ہے کہ وہاں اللہ سکھادے گا، جنت کی نعمتوں کا استعمال کرنے کا طریقہ اللہ الہام فرمادے گا، جنت کی نعمتیں ایسی ہیں مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا اُذْنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرِ کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھیں ، نہ کسی کان نے سنیں ، نہ کسی قلب پر اس کا خیال گزرا لیکن جب اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا تو جنت یاد بھی نہ رہے گی کہ جنت کدھر ہے اور جنت کی حوریں کہاں ہیں، اللہ تعالیٰ کی زیارت میں ایسا مزہ آئے گا ؎

؎وہ سامنے ہیں نظامِ حواس برہم ہے
نہ آرزو میں سکت ہے نہ عشق میں دم ہے​

اللہ تعالیٰ ہم سب کو بلد امین کی برکت سے اور کعبہ شریف کی برکت سے جنتی ہونا مقدر فرمادیں ، جنت میں دخول اولیں نصیب فرمادیں، دوزخ میں سزا پا کر جانے سے اللہ بچائے، جنت نصیب فرمائے اور جنتی اعمال کی توفیق دے اور اللہ جہنم سے بچائے اور اعمال جہنم سے بھی بچائے اور اللہ ہماری نالائقیوں کو ، کوتاہیوں کو، خطاؤں کو معاف فرمادے۔ اللہ اپنی رحمت سے ہمیشہ خوشی دکھائے اور غم سے بچائے، بلااستحقاق اپنے فضل اور رحمت محضہ سے ولایت کا اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمادے۔ ہم لوگوں کو بھی، ہمارے بچوں کو بھی، ہمارے گھروالوں کو بھی اور جو ہمارے دوست احباب یہاں نہیں ہیں ان کو بھی نصیب فرمادیجیے اور سارے مسلمانوں کے حق میں میری دعا قبول فرمالیجیے اور تمام کافروں کو بھی آپ ایمان عطا فرما کر ولی کامل بنادیجیے، اپنی رحمت سارے عالم پربرسادیجیے،مچھلیوں کو پانی میں، جانوروں کو جنگلوں میں اور پرندوں کو فضاؤں میں عافیت عطا فرمائیے، سارے عالم پر رحمت کی بارش برسادیجیے۔ آمین

وَصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِخَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ بِرَحْمَتِکَ یَاۤاَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ

(ما خواذ از : سفر نامہ حرمین شریفین)
 
Top