کاشفی
محفلین
قوم کو بے وقوف مت بناؤ – اوریا مقبول جان
کیا یہ لوگ اس قوم کو واقعی اس قدر جاہل اور بے وقوف سمجھتے ہیں کہ ان کے سامنے جو بات بھی کی جائے گی وہ اسے بغیر کسی دلیل کے سچ مان لیں گے خواہ اس قدر بے سروپا اور لایعنی بات ہی کیوں نہ ہو۔ یوں تو تمام حکمرانوں کے ایسے بے سروپا جھوٹے فقروں سے اس ملک کی تاریخ ’’روشن‘‘ ہے اور ہر فقرہ بار بار یہ پکارتا ہے کہ کہنے والا یقیناً اس بیس کروڑ عوام کو جاہل اور بے وقوف ضرور سمجھتا ہے۔
اپنی ایمانداری کے بلند بانگ دعوؤں سے لے کر اپنی حکومت کی اعلیٰ کارکردگی تک جیسے جھوٹ تو عام تھے لیکن چوہدری نثار جوکہ اس مملکت خداداد پاکستان کے وزیرداخلہ کے عہدے پر متمکن ہیں انھوں نے ایک ایسی بات کی ہے جس پر بلوچستان میں رہنے والا عام سا سادہ لوح بلوچ بھی حیرت میں اتنا ضرور کہہ رہا ہوگا اسے تو کچھ بھی نہیں پتہ۔ بیان کمال کا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو ایران میں بیٹھ کر افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کررہا تھا۔‘‘ دنیائے جاسوسی کی تاریخ میں اس قدر احمق جاسوس میں نے پہلی دفعہ سنا ہے ۔
جس کی کارروائیوں کا نقشہ چوہدری نثار علی صاحب نے کھینچا ہے۔ ایران میں بھی اس نے اپنا ٹھکانہ چاہ بہار کی بندرگاہ کے شہر میں بنایا جہاں سے افغانستان کا نزدیک ترین مقام زرنج آٹھ سو پچانوے (895) کلو میٹر دور ہے اور وہ بھی اس کے صوبے نیم روز میں واقع ہے اور اس کا صدر مقام بھی۔ افغانستان کا یہ صوبہ ایران اور پاکستان کے ساتھ اپنی سرحد رکھتا ہے۔ اس لیے تمام تر غیر قانونی سرگرمیوں کی رہگزر ہے۔ طالبان کی حکومت سے پہلے اور طالبان کی حکومت گرائے جانے کے بعد افیون اور ہیروئن کی سب سے زیادہ اسمگلنگ اسی صوبے میں اڈے بنا کر کی جاتی ہے۔
یہ ایک صحرا نما علاقہ ہے جہاں کل ایک لاکھ چھپن ہزار لوگ آباد ہیں اور ان میں بھی اکثریت خانہ بدوش کوچی قبائل کی ہے۔ ان میں اکثریت بلوچوں کی ہے، پھر پشتون، بروہی، ازبک اور تاجک ہیں جو تمام کے تمام سنی ہیں۔ جب کہ صوبے میں تھوڑے سے ہزارہ بھی آباد ہیں جو شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ بلوچی، پشتو اور دری یہاں کی مادری زبانیں ہیں۔ دشت مارگو وہ بہت بڑا صحرا ہے جو ایک لاکھ پچاس ہزار مربع میل پر مشتمل ہے اور یہ پاکستان اور ایران کے ساتھ واقع ہے۔
یہ صحرا اس قدر بے آباد ہے کہ یہاں اجنبی آدمی گم ہوجائے تو اسے واپسی کا راستہ نہیں ملتا۔ ہر وقت یہاں ریت کے طوفان چلتے رہتے ہیں۔ یہ علاقہ اس پورے خطے میں خطرناک مجرموں کی پناہ گاہ اور اسلحے کی اسمگلنگ کیلیے مشہور ہے۔ بھارت اور ایران کے معاہدات میں سب سے اہم معاہدہ چاہ بہار سے زرنج اور پھر آگے دلاآرام تک موٹروے بنانا شامل تھا۔ جسے 2009ء میں مکمل کرلیا گیا۔ یہ گیارہ سو اکتالیس کلو میٹر لمبی سڑک ہے۔ زرنج سے لے کر دلاآرام تک کا علاقہ افغانستان میں ہے۔
اس ہائی وے بنانے کے صرف دو سال بعد طالبان نے اس پورے صوبے پر اپنا اختیار بحال کرلیا تھا اور افغان سکیورٹی فورسز اور نیٹو افواج افغانستان میں بھارت کی اتنی بڑی سرمایہ کاری سے بننے والی اس روڈ کی حفاظت میں ناکام ہوگئی تھیں۔ 15 جنوری 2011ء کو طالبان کمانڈر مولوی عبدالرشید نے اس علاقے کا کنٹرول سنبھالا اور یہ آج بھی قائم ہے۔ مولوی عبدالرشید ہلمند میں پیدا ہوا۔ وہ ایک بلوچ ہے جس نے مدرسے میں تعلیم حاصل کی۔ اس کا پورا خاندان سوویت یونین کے خلاف جہاد میں شریک رہا۔ جب امریکی افغانستان میں داخل ہوئے تو اس صوبے کا سربراہ مولوی محمود تھا جس نے یہاں امریکی افواج کا بے جگری سے مقابلہ کیا اور 2007ء میں شہیدکردیا گیا۔
اس کے بعد مولوی عبدالرشید نے کمانڈ سنبھالی اور نہ صرف نیمروز بلکہ فرح صوبے کے علاقے بھی اپنے قبضے میں لے لیے۔ ایران نے وہاں موجود ہزارہ قبائل کی مدد کے ذریعے بھارت کی اتنی بڑی سرمایہ کاری کو بچانے کی کوشش کی کیونکہ اس سرمایہ کاری کے ساتھ ایران کا چاہ بہار کی بندرگاہ کا مستقبل وابستہ تھا۔ لیکن بری طرح ناکام رہا۔ یوں افغانستان میں واقع تقریباً پانچ سو کلو میٹر کا علاقہ ایسا ہے جہاں اب کسی بھارتی کا آزادانہ گھومنا ناممکن ہے۔ مولوی عبدالرشید طالبان کی شوریٰ میں شامل ہے اور ملا محمد عمر کے انتقال کے بعد انھیں اسی علاقے میں ایک بہت بڑے جنازے کے بعد دفن کیا گیا تھا۔
یہ طالبان کے وہ لوگ ہیں جو بھوربن کے مذاکرات میں بھی شامل تھے۔ ان مذاکرات کو بھارت، امریکا اور افغانستان نے شمالی اتحاد کے ذریعے تباہ کرنے کی کوشش کی تھی اور ملا محمد عمر کی وفات کی خبر دے کر انھیں تعطل کا شکار کیا تھا۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ طالبان کا یہ گروہ خصوصاً پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات رکھتا ہے۔ یہی وہ سڑک تھی جس پر پہلے دو سال امریکی باآسانی دو سال تک اپنا سازمان رسد چاہ بہار کی بندرگاہ سے بھارتی جہازوں کے ذریعے پہنچاتے رہے اور اب وہ دور دراز ایک پوسٹ دھمرانگ میں بیٹھے ہیں۔
بلکہ اب تو ان کی جگہ افغان سکیورٹی فورسز نے لے لی ہے۔ پورے صوبے میں طالبان کی امارات اسلامی افغانستان کے جھنڈے لہراتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی گزشتہ چند سالوں سے اس بات کے قائل ہوگئے تھے کہ افغانستان میں ان کی موجودگی کا راستہ نئی دہلی سے نہیں جاتا۔ بھارتی اور شمالی اتحاد کے لوگ طالبان کی اس فتح کی وجہ آئی ایس آئی کی پشت پناہی قرار دیتے ہیں۔ حیرت یہ ہے کہ جن کو اڑتالیس عالمی طاقتوں کی پشت پناہی اور ایران جیسے پڑوسی کی حمایت حاصل ہو وہ پاکستان کی ایک خفیہ ایجنسی کی مدد سے ہار جاتے ہیں۔
اس پورے علاقے کا نقشہ میں نے اس لیے کھینچا ہے کہ اپنے وزیرداخلہ جناب چوہدری نثار علی خان کو بتاسکوں کہ جس جگہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو ایک جیولری کی دکان کھولے بیٹھتا تھا وہاں سے افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کے لیے براستہ ہوائی جہاز کم از کم قندھار آنا پڑتا۔ جہاں بھارتی کونسل خانہ اس کے لیے بلوچوں سے ملاقات کا بندوبست کر سکتا تھا لیکن شاید انھیں علم نہیں کہ آواران کی پہاڑیوں، خاران کے صحرا، مستونگ اور خضدار کے ٹھکانوں سے بلوچ مزاحمت کاروں کو قندھار آنے کیلیے کہاں کہاں سے گزرنا پڑتا ہے۔
نزدیک ترین راستہ شوراوک کا تھا، پھر پنجپائی، پھر گلستان اور آخر میں چمن۔ لیکن یہ تمام علاقے پشتون آبادیاں ہیں اور یہاں پر پاکستان کی سکیورٹی فورسز کا اچھا خاصہ کنٹرول ہے۔ وزارت داخلہ کو خطے کے حالات کا علم نہیں تو کاش انھیں جغرافیے کا تھوڑا سا ادراک ہوتایا پھر وہاں آباد قومیتوں کا ہی پتہ ہوتا۔
کلبھوشن یادیو کیلیے بلوچستان میں تخریب کاری کی سرپرستی اور مدد کیلیے بہترین مقام وہی تھی جہاں اس نے کئی سالوں سے اپنا ٹھکانہ بنایا ہوا تھا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے باآسانی پانچ بلوچ اضلاع میں داخل ہوا جاسکتا ہے۔ گوادر، پنجگور، تربت، خاران اور چاغی ہیں۔ یہاں ایران کی سرحد پر مکمل طور پر خاردار تارلگے ہیں اور کہیں کہیں کنکریٹ کی دیوار بھی بنی ہے۔ ایرانی پاسداران کا گشت مسلسل رہتا ہے اور پوری سرحد رات کے وقت روشن ہوتی ہے۔
کلبھوشن یادیو نے جس علاقے ساراوان کا ذکر کیا ہے اس کی سرحدیں پنجگور، تربت اور خاران سے ملتی ہیں اور یہاں بلوچ مزاحمت کار سب سے زیادہ منظم ہیں۔ آپ بلوچستان میں ہونے والی تخریب کاری کے واقعات کی فہرست نکال لیں تو آپ کو زیادہ تخریب کاری ایسے اضلاع میں ملے گی جن کی سرحدیں ایران سے ملتی ہیں جب کہ سب سے کم واقعات ان اضلاع میں ہوئے جن کی سرحدیں افغانستان میں ملتی ہیں۔
وزیر داخلہ کو اس سے زیادہ تفصیل نہیں بتائی جاسکتی۔ لیکن ذرا اپنی وزارت خارجہ کے ایران ڈیسک سے بھی معلومات حاصل کرلیں۔ وہ انھیں بتادیں گے کہ بھارت اور ایران آپس کے تعلقات کس قدر گہرے ہیں۔ ان کا پریس باقاعدہ ان کی ولایت فقیہ کی رہبری کونسل کے ماتحت ہے، آزاد پریس نہیں، اور اس کے اخبارات میں پاکستان کے خلاف مضامین اکثر چھپتے ہیں اور پاکستانی سفیران کا مستقل جواب دیتے ہیں۔
وزارت خارجہ آپ کو یہ بھی بتادے گی کہ ایران کی خفیہ ایجنسی ’’اطلاعات‘‘ کا کنٹرول اور خوف ایران میں اس قدر ہے کہ وہاں یہ تصور کرنا کہ کلبھوشن یادیو چاہ بہار میں بیٹھ کر بلوچ مزاحمت کاروں اور دہشت گردوں کو سرمایہ بھی فراہم کررہا تھا اور اسلحہ بھی، ایک ناممکن سی بات ہے۔
لیکن ہمارے وزیر داخلہ نے جو روٹ اس کو تخریب کاری کیلیے بناکردیا ہے یعنی وہ ’’ایران میں بیٹھ کر افغانستان کی زمین پاکستان کے خلاف استعمال کرتا تھا‘‘ ایسے بیان پر صرف پاکستان کی سادہ لوح قوم ہی بے وقوف بن سکتی ہے یا پھر وہ لوگ جو ایران کے خلاف بات سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ یہ ہماری کس قدر بدقسمتی ہے کہ انقلاب ایران کے بعد ایران اور سعودی عرب کی کشمکش نے پاکستان کو خون میں نہلا رکھا ہے۔ ہم روز مسلک کی بنیاد پر قتل ہونے والوں کی لاشیں اٹھاتے ہیں۔
لیکن اس کے باوجود دونوں ہمارے برادر ملک ہیں۔ ان دونوں ممالک کا کوئی مسلک نہیں۔ دونوں قومی ریاستیں اور اپنی اپنی قوم کی وفادار۔ لیکن خون بہانے کیلیے میرے ملک کی سرزمین رہ گئی ہے اور بے وقوف بنانے کی ذمے داری ہماری حکومتوں کو عطا ہوئی ہے۔
کیا یہ لوگ اس قوم کو واقعی اس قدر جاہل اور بے وقوف سمجھتے ہیں کہ ان کے سامنے جو بات بھی کی جائے گی وہ اسے بغیر کسی دلیل کے سچ مان لیں گے خواہ اس قدر بے سروپا اور لایعنی بات ہی کیوں نہ ہو۔ یوں تو تمام حکمرانوں کے ایسے بے سروپا جھوٹے فقروں سے اس ملک کی تاریخ ’’روشن‘‘ ہے اور ہر فقرہ بار بار یہ پکارتا ہے کہ کہنے والا یقیناً اس بیس کروڑ عوام کو جاہل اور بے وقوف ضرور سمجھتا ہے۔
اپنی ایمانداری کے بلند بانگ دعوؤں سے لے کر اپنی حکومت کی اعلیٰ کارکردگی تک جیسے جھوٹ تو عام تھے لیکن چوہدری نثار جوکہ اس مملکت خداداد پاکستان کے وزیرداخلہ کے عہدے پر متمکن ہیں انھوں نے ایک ایسی بات کی ہے جس پر بلوچستان میں رہنے والا عام سا سادہ لوح بلوچ بھی حیرت میں اتنا ضرور کہہ رہا ہوگا اسے تو کچھ بھی نہیں پتہ۔ بیان کمال کا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو ایران میں بیٹھ کر افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کررہا تھا۔‘‘ دنیائے جاسوسی کی تاریخ میں اس قدر احمق جاسوس میں نے پہلی دفعہ سنا ہے ۔
جس کی کارروائیوں کا نقشہ چوہدری نثار علی صاحب نے کھینچا ہے۔ ایران میں بھی اس نے اپنا ٹھکانہ چاہ بہار کی بندرگاہ کے شہر میں بنایا جہاں سے افغانستان کا نزدیک ترین مقام زرنج آٹھ سو پچانوے (895) کلو میٹر دور ہے اور وہ بھی اس کے صوبے نیم روز میں واقع ہے اور اس کا صدر مقام بھی۔ افغانستان کا یہ صوبہ ایران اور پاکستان کے ساتھ اپنی سرحد رکھتا ہے۔ اس لیے تمام تر غیر قانونی سرگرمیوں کی رہگزر ہے۔ طالبان کی حکومت سے پہلے اور طالبان کی حکومت گرائے جانے کے بعد افیون اور ہیروئن کی سب سے زیادہ اسمگلنگ اسی صوبے میں اڈے بنا کر کی جاتی ہے۔
یہ ایک صحرا نما علاقہ ہے جہاں کل ایک لاکھ چھپن ہزار لوگ آباد ہیں اور ان میں بھی اکثریت خانہ بدوش کوچی قبائل کی ہے۔ ان میں اکثریت بلوچوں کی ہے، پھر پشتون، بروہی، ازبک اور تاجک ہیں جو تمام کے تمام سنی ہیں۔ جب کہ صوبے میں تھوڑے سے ہزارہ بھی آباد ہیں جو شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ بلوچی، پشتو اور دری یہاں کی مادری زبانیں ہیں۔ دشت مارگو وہ بہت بڑا صحرا ہے جو ایک لاکھ پچاس ہزار مربع میل پر مشتمل ہے اور یہ پاکستان اور ایران کے ساتھ واقع ہے۔
یہ صحرا اس قدر بے آباد ہے کہ یہاں اجنبی آدمی گم ہوجائے تو اسے واپسی کا راستہ نہیں ملتا۔ ہر وقت یہاں ریت کے طوفان چلتے رہتے ہیں۔ یہ علاقہ اس پورے خطے میں خطرناک مجرموں کی پناہ گاہ اور اسلحے کی اسمگلنگ کیلیے مشہور ہے۔ بھارت اور ایران کے معاہدات میں سب سے اہم معاہدہ چاہ بہار سے زرنج اور پھر آگے دلاآرام تک موٹروے بنانا شامل تھا۔ جسے 2009ء میں مکمل کرلیا گیا۔ یہ گیارہ سو اکتالیس کلو میٹر لمبی سڑک ہے۔ زرنج سے لے کر دلاآرام تک کا علاقہ افغانستان میں ہے۔
اس ہائی وے بنانے کے صرف دو سال بعد طالبان نے اس پورے صوبے پر اپنا اختیار بحال کرلیا تھا اور افغان سکیورٹی فورسز اور نیٹو افواج افغانستان میں بھارت کی اتنی بڑی سرمایہ کاری سے بننے والی اس روڈ کی حفاظت میں ناکام ہوگئی تھیں۔ 15 جنوری 2011ء کو طالبان کمانڈر مولوی عبدالرشید نے اس علاقے کا کنٹرول سنبھالا اور یہ آج بھی قائم ہے۔ مولوی عبدالرشید ہلمند میں پیدا ہوا۔ وہ ایک بلوچ ہے جس نے مدرسے میں تعلیم حاصل کی۔ اس کا پورا خاندان سوویت یونین کے خلاف جہاد میں شریک رہا۔ جب امریکی افغانستان میں داخل ہوئے تو اس صوبے کا سربراہ مولوی محمود تھا جس نے یہاں امریکی افواج کا بے جگری سے مقابلہ کیا اور 2007ء میں شہیدکردیا گیا۔
اس کے بعد مولوی عبدالرشید نے کمانڈ سنبھالی اور نہ صرف نیمروز بلکہ فرح صوبے کے علاقے بھی اپنے قبضے میں لے لیے۔ ایران نے وہاں موجود ہزارہ قبائل کی مدد کے ذریعے بھارت کی اتنی بڑی سرمایہ کاری کو بچانے کی کوشش کی کیونکہ اس سرمایہ کاری کے ساتھ ایران کا چاہ بہار کی بندرگاہ کا مستقبل وابستہ تھا۔ لیکن بری طرح ناکام رہا۔ یوں افغانستان میں واقع تقریباً پانچ سو کلو میٹر کا علاقہ ایسا ہے جہاں اب کسی بھارتی کا آزادانہ گھومنا ناممکن ہے۔ مولوی عبدالرشید طالبان کی شوریٰ میں شامل ہے اور ملا محمد عمر کے انتقال کے بعد انھیں اسی علاقے میں ایک بہت بڑے جنازے کے بعد دفن کیا گیا تھا۔
یہ طالبان کے وہ لوگ ہیں جو بھوربن کے مذاکرات میں بھی شامل تھے۔ ان مذاکرات کو بھارت، امریکا اور افغانستان نے شمالی اتحاد کے ذریعے تباہ کرنے کی کوشش کی تھی اور ملا محمد عمر کی وفات کی خبر دے کر انھیں تعطل کا شکار کیا تھا۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ طالبان کا یہ گروہ خصوصاً پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات رکھتا ہے۔ یہی وہ سڑک تھی جس پر پہلے دو سال امریکی باآسانی دو سال تک اپنا سازمان رسد چاہ بہار کی بندرگاہ سے بھارتی جہازوں کے ذریعے پہنچاتے رہے اور اب وہ دور دراز ایک پوسٹ دھمرانگ میں بیٹھے ہیں۔
بلکہ اب تو ان کی جگہ افغان سکیورٹی فورسز نے لے لی ہے۔ پورے صوبے میں طالبان کی امارات اسلامی افغانستان کے جھنڈے لہراتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی گزشتہ چند سالوں سے اس بات کے قائل ہوگئے تھے کہ افغانستان میں ان کی موجودگی کا راستہ نئی دہلی سے نہیں جاتا۔ بھارتی اور شمالی اتحاد کے لوگ طالبان کی اس فتح کی وجہ آئی ایس آئی کی پشت پناہی قرار دیتے ہیں۔ حیرت یہ ہے کہ جن کو اڑتالیس عالمی طاقتوں کی پشت پناہی اور ایران جیسے پڑوسی کی حمایت حاصل ہو وہ پاکستان کی ایک خفیہ ایجنسی کی مدد سے ہار جاتے ہیں۔
اس پورے علاقے کا نقشہ میں نے اس لیے کھینچا ہے کہ اپنے وزیرداخلہ جناب چوہدری نثار علی خان کو بتاسکوں کہ جس جگہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو ایک جیولری کی دکان کھولے بیٹھتا تھا وہاں سے افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کے لیے براستہ ہوائی جہاز کم از کم قندھار آنا پڑتا۔ جہاں بھارتی کونسل خانہ اس کے لیے بلوچوں سے ملاقات کا بندوبست کر سکتا تھا لیکن شاید انھیں علم نہیں کہ آواران کی پہاڑیوں، خاران کے صحرا، مستونگ اور خضدار کے ٹھکانوں سے بلوچ مزاحمت کاروں کو قندھار آنے کیلیے کہاں کہاں سے گزرنا پڑتا ہے۔
نزدیک ترین راستہ شوراوک کا تھا، پھر پنجپائی، پھر گلستان اور آخر میں چمن۔ لیکن یہ تمام علاقے پشتون آبادیاں ہیں اور یہاں پر پاکستان کی سکیورٹی فورسز کا اچھا خاصہ کنٹرول ہے۔ وزارت داخلہ کو خطے کے حالات کا علم نہیں تو کاش انھیں جغرافیے کا تھوڑا سا ادراک ہوتایا پھر وہاں آباد قومیتوں کا ہی پتہ ہوتا۔
کلبھوشن یادیو کیلیے بلوچستان میں تخریب کاری کی سرپرستی اور مدد کیلیے بہترین مقام وہی تھی جہاں اس نے کئی سالوں سے اپنا ٹھکانہ بنایا ہوا تھا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے باآسانی پانچ بلوچ اضلاع میں داخل ہوا جاسکتا ہے۔ گوادر، پنجگور، تربت، خاران اور چاغی ہیں۔ یہاں ایران کی سرحد پر مکمل طور پر خاردار تارلگے ہیں اور کہیں کہیں کنکریٹ کی دیوار بھی بنی ہے۔ ایرانی پاسداران کا گشت مسلسل رہتا ہے اور پوری سرحد رات کے وقت روشن ہوتی ہے۔
کلبھوشن یادیو نے جس علاقے ساراوان کا ذکر کیا ہے اس کی سرحدیں پنجگور، تربت اور خاران سے ملتی ہیں اور یہاں بلوچ مزاحمت کار سب سے زیادہ منظم ہیں۔ آپ بلوچستان میں ہونے والی تخریب کاری کے واقعات کی فہرست نکال لیں تو آپ کو زیادہ تخریب کاری ایسے اضلاع میں ملے گی جن کی سرحدیں ایران سے ملتی ہیں جب کہ سب سے کم واقعات ان اضلاع میں ہوئے جن کی سرحدیں افغانستان میں ملتی ہیں۔
وزیر داخلہ کو اس سے زیادہ تفصیل نہیں بتائی جاسکتی۔ لیکن ذرا اپنی وزارت خارجہ کے ایران ڈیسک سے بھی معلومات حاصل کرلیں۔ وہ انھیں بتادیں گے کہ بھارت اور ایران آپس کے تعلقات کس قدر گہرے ہیں۔ ان کا پریس باقاعدہ ان کی ولایت فقیہ کی رہبری کونسل کے ماتحت ہے، آزاد پریس نہیں، اور اس کے اخبارات میں پاکستان کے خلاف مضامین اکثر چھپتے ہیں اور پاکستانی سفیران کا مستقل جواب دیتے ہیں۔
وزارت خارجہ آپ کو یہ بھی بتادے گی کہ ایران کی خفیہ ایجنسی ’’اطلاعات‘‘ کا کنٹرول اور خوف ایران میں اس قدر ہے کہ وہاں یہ تصور کرنا کہ کلبھوشن یادیو چاہ بہار میں بیٹھ کر بلوچ مزاحمت کاروں اور دہشت گردوں کو سرمایہ بھی فراہم کررہا تھا اور اسلحہ بھی، ایک ناممکن سی بات ہے۔
لیکن ہمارے وزیر داخلہ نے جو روٹ اس کو تخریب کاری کیلیے بناکردیا ہے یعنی وہ ’’ایران میں بیٹھ کر افغانستان کی زمین پاکستان کے خلاف استعمال کرتا تھا‘‘ ایسے بیان پر صرف پاکستان کی سادہ لوح قوم ہی بے وقوف بن سکتی ہے یا پھر وہ لوگ جو ایران کے خلاف بات سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ یہ ہماری کس قدر بدقسمتی ہے کہ انقلاب ایران کے بعد ایران اور سعودی عرب کی کشمکش نے پاکستان کو خون میں نہلا رکھا ہے۔ ہم روز مسلک کی بنیاد پر قتل ہونے والوں کی لاشیں اٹھاتے ہیں۔
لیکن اس کے باوجود دونوں ہمارے برادر ملک ہیں۔ ان دونوں ممالک کا کوئی مسلک نہیں۔ دونوں قومی ریاستیں اور اپنی اپنی قوم کی وفادار۔ لیکن خون بہانے کیلیے میرے ملک کی سرزمین رہ گئی ہے اور بے وقوف بنانے کی ذمے داری ہماری حکومتوں کو عطا ہوئی ہے۔