محمد فہد
محفلین
وعلیکم السلامالسلام علیکم !
فہد بھائی بہتر تو کوئی عالم بتائیں گے -ایسی حدیث تو میری نظر سے نہیں گزری-
یاسر بھائی، میں نے یہ سنی بھی ہوئی ہے اور پڑھی بھی تھی لیکن ابھی ذہن میں نہیں آرہا کے کہاں پڑھی میں نے اور اب تو واقعی کوئی اہل علم ہی اس پر روشنی ڈال سکتا ہے ۔
ماشاء اللہ اچھی بات کہی ہے۔ہ آنحضرت ﷺ امّہات المومنین میں سے کسی کے ساتھ جا رہے تھے -راہ میں صحابہ کھڑے تھے -آپﷺ نے اپنی زوجہ کا نام لے کر ارشاد فرمایا کہ میں فلاں کے ساتھ ہوں -صحابہ نے عرض کیا آپ سے تو ہمیں کو ئی بدگمانی ہو ہی نہیں سکتی -تب ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ شیطان انسان کی رگوں میں خون کے ساتھ گردش کرتا ہے -
مگر ایک اشکال ہے کبھی کبھی تیسرے درجے والے لوگ اس لئے برائی نہیں چھپاتے کہ لوگوں میں برائی کی تشہیر نہ ہو بلکہ ان کا مطمح نظر لوگوں میں خوشنما نظر آنا ہوتا ہے -علماء سے پوچھنے والی بات یہ ہے کہ یہ تیسرا درجہ چوتھے سے بھی بدتر تو نہیں -[/QUOTE]
انسان اچھائی اور بڑائی کا مجموعہ ہے لیکن اچھائی اور برائی کو لے کر میں اکثر سوچتا ہوں کہ لوگ ہمیشہ برائی کو کیوں ملعون کرتے ہیں؟ جبکہ برائی ہی تو اچھائی کو سرفراز کرتی آئی ہے۔۔۔۔۔۔؟ اس پوری کائنات میں جب اللہ تعالیٰ کے سوا کچھ بھی موجود نہیں ہے، سب بھرم ہے، پرچھائیاں ہیں، سب ایک منشور سے منعکس ہونے والی روشنی کی مانند ہیں۔۔۔۔بیشک ایک پتا تک امرِ ربی کے بغیر نہیں ہل سکتا۔۔۔۔ تو پھر جب ہم لوگوں کے ساتھ کچھ بڑا ہوتا ہے تو ہم چیختے چلاتے ہیں؟ مثال کے طور پہ جب ہمیں دنیا میں کوئی پریشانی آتی ہے یا کسی مصائب میں مبتلا ہوجاتے ہیں یا کسی انسان کی وجہ سے ہم پر کوئی پریشانی آ جائے تو یہ بات کیوں نہیں سوچتے کہ کیا پتا اللہ کی آزمائش ہو اور کیا معلوم کہ میرے اپنے اعمال کی وجہ سے آئی ہو جیسا کہ اس وحدہ لاشیرک کا فرمان ہے ۔۔۔
وَمَآ أَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ“․ (الشوریٰ:۳۰)
ترجمہ:”اور تم کو جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کیے کاموں سے (پہنچتی ہے) اور بہت سارے (گناہوں) سے تو وہ (اللہ تعالیٰ) درگزر کردیتا ہے۔ تو ہم لوگ تو اپنے اعمال کی طرف توجہ کیوں نہیں دیتے ہیں اور اگر کسی انسان سےکوئی بڑائی ہماری طرف سرزد ہو گئی تو تب تو اسکی خیر نہیں اور اگر اللہ نے ہماری ہمارے اپنے ہی اعمال کی وجہ سے آزمائش لے لی تب تو مایوس ہی ہو جاتے ہیں۔۔
میں نےسنا ہے کچھ درویش ایسے بھی ہوتے ہیں کچھ اچھا ہو یا برا وہ چپ رہتے ہیں، کسی انسان کو ملعون نہیں کرتے۔۔۔۔ تسلیم و رضا کے درجے پہ فائض ہوتے ہیں۔۔۔ اور جیسے علامہ اقبالؒ فرمایا کہ
نہیں کوئی چیز نکمی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
اب سوال یہ ہے کہ مجھ جیسا انسان اس اچھائی اور برائی کی بھول بھلیاں میں کیوں پھنسا ہوا ہے؟ کچھ اچھا ہوتا ہے تو خوش ہوتا ہے، اور جب کچھ برا ہو جائے تو لوگوں کو اس کا موردِ الزام ٹھہرا کر ان سے بدلہ لینے کی کوشش کرتا ہے؟ سمجھتا کیوں نہیں کے جو کچھ ہو رہا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کوئی نا کوئی مصلحت ہو سکتی ہے کوئی بہتری ہو سکتی ہے۔۔
ہمارے معاشرے کا المیہ کہ لوگ کیا کہیں گئے ہم سب اگر اپنے دماغ اور سوچ سے یہ جملہ نکال دیں تو میں یقین سے کہ سکتا ہوں کہ ہم لوگ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ بس یہ ذہن میں رکھیں سب اندھے اور گونگے ہیں۔ آپ کوئی بھی کام شروع کریں نتیجہ اللہ پر چھوڑدیں میں دعوے سے کہ سکتا ہوں آپ ضرور اس میں کامیاب ہو جائیں گئے۔ کیونکہ یہ ہمارے معاشرے کا دستور ہے کے ترقی کے سفر میں کوئی آپ کے ساتھ نہیں چلے گا لیکن جب آپ کامیاب ہوں گے تو آپ کے ساتھ ہوں گے۔۔ بس آپ سے یہی التجا ے کہ اپنے ساتھ ان لوگوں کی بھی حوصلہ افزائی کیجیے ان کی بھی برین واشنگ کیجیے جو اس کشمکش سے گزر رہے ہیں جب ہم اس جملے سے باہر جا کر سوچے گئے تو تب آپ دیکھیں گے ایک ایسا معاشرہ تکمیل پائے گا جس میں کسی کو ندامت نہ ہوگی اور سب خوشحال ہوں گے ہماری زندگی خوبصورت اور حسین ہو جائے ۔۔وہ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ساری عمر تو یہ فکر رہی کہ لوگ کیا کہیں گے -آخر میں لوگوں نے کہہ دیا انا للّہ و انّا الیھ راجعون -
اللہ سوہنا آپ کو سدا اپنی امان میں رکھیں اور اپنی رحمتوں برکتوں سے نوازے آمین ۔۔