ٹائپنگ مکمل لائبریری ٹیگ سلسلہ : آثار الصنادید

عائشہ عزیز

لائبریرین
12

صحن تھا اور جنوبی اور شمالی اور شرقی ضلعوں میں دروازے تھے اور غربی ضلع میں مورت تھی اس طرح اس بت خانے کے باہر دالان بنائے تھے اور ان کو پرکھما کے دالان کہتے تھے یہ مندر بھی قلعہ کے ساتھ یعنی سمت 12 بکر ماجیت مطابق ؁1143 عیسوی موافق ؁538 ہجری میں بنا عمارت اس مندر کی نہایت عجیب تھی اور ایسے استاد سنگ تراشوں کا کام بنایا ہوا ہے کہ اس سے بہتر خیال میں نہیں آتا ہر ایک پتھر پر منبت کاری میں ایسی ایسی خوبصورت گلکاری کی ہے ایسے اچھے اچھے بیل بوٹے کھودے ہیں کہ بیان سے باہر ہے ایک جگہ درو دیوار اور ستون پر بتوں کی مورتیں بنی ہوئی تھیں اور زنجیروں میں گھنٹے لٹکتے ہوئے کھدے تھے چنانچہ اب تک اس بت خانے کا ضلع شرقی اور شمالی بدستور موجود ہے اس مندر میں لوہے کی لاٹھ کو جو بیشنوی مذہب کی ہے بدستور قائم رکھنے اور درو دیوار پر کرشن اوتار اور مہا دیواوں گنیش اور ہنومان کی مورتیں کھودنے سے یقین ہوتا ہے کہ یہ مندر بیشنوی مذہب کا تھا اگرچہ مسلمانوں کے وقت میں سب مورتیں توڑ ڈالی گئیں ہیں الا ان ٹوٹی مورتوں میں بھی غور کرنے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ یہ فلانی مورت تھی ہماری رائے میں اس بت خانے میں ان دالانوں کے سوا سنگ سرخ کی بھی کوئی عمارت تھی کہ وہ بھی توڑی گئی کیونکہ اس قسم کے پرانے پتھر مورت دار اب بھی پائے جاتے ہیں۔
مسجد آوینہ دہلی یا مسجد جامع دہلی یا مسجد قوۃ الاسلام
جبکہ ؁857 ہجری مطابق ؁1191 عیسوی موافق سمت 1248 بکر ماجیت قطب الدین ایبک

13

معز الدین محمد بن سام عرف سلطان شہاب الدین غوری کے سپہ سالار نے دلی کو فتح کیا تب اس بت خانے کو مسجد بنا دیا اور مورت مندر میں سے نکال ڈالی اور جس جس جگہ دیواروں میں اور دروازوں میں اور ستون میں بتوں کی مورتیں بنی ہوئی تھیں ان میں سے کسی کو بالکل توڑ دیا اور کسی کا چہرہ مٹا دیا مگر بت خانے کی عمارت بدستور قائم رکھی اور ستائیس بت خانوں کو اسباب جو پانچ کروڑ اور چالیس لاکھ دلیوال کا تھا اس مسجد میں چڑھا دیا اور شرقی دروازے پر فتح کی تاریخ اور اپنے نام کا کتبہ لگا دیا ۔
تعمیر سلطان معز الدین
بعد اس کے جبکہ قطب الدین ایبک دوبارہ اجمیر اور قلعہ رنتھورا اور نہر والے گجرات کو فتح کرکر غزنین گیا تب سلطان معز الدین نے حکم دیا کہ اس بت خانے میں مسجد کی عمارت بھی بنائی جائے غزنین سے مراجعت کرکر ؁592 ہجری مطابق ؁1195 عیسوی میں بادشاہ کے حکم بموجب اس بت خانے کے غربی ضلع کے سامنے پانچ در بطور مسجد کے سنگ سرخ سے بنانے شروع کیے اور شمالی دروازے پر تعمیر شروع ہونے کی تاریخ کندہ کرکر لگا دی ؁594 ہجری مطابق ؁1197 عیسوی کے یہ عمارت بن کر تیار ہوگئی چنانچہ بیچ کے در کے بائیں بازو پر یہ تاریخ کندہ ہے ان پانچوں دروں میں سے بغلی دونوں در تو تخمیناََ اٹھائیس فٹ اونچے ہیں اور بیچ کا بڑا در اڑتالیس فٹ کے قریب اونچا اور اکیس فٹ چوڑا ہے ان دروں پر نہایت تکلف کی منبت کاری اور


14

طرح طرح کے بیل بوٹے پھول پتی بنے ہوئے تھے کہ بیان سے باہر ہے پانچوں دروں پر کلام اللہ کی آیتیں اور حدیثیں کھدی ہوئی ہیں جبکہ مسجد تیار ہوئی تو اس کے درو دیوار پر نہایت تیاری سے سنہرے کلس چڑھا دیے گئے تھے ان دروں میں بھی بت خانے کے پتھر لگے ہوئے ہیں چنانچہ بیچ کے در کا ایک پتھر گر پڑنے سے اندر کا ایک پتھر دکھائی دیتا ہے جس میں بتوں کی مورتیں کھدی ہوئیں ہیں دور بین سے وہ مورت بخوبی دکھائی دیتی ہے غرض اس قدر مسجد کا جو سلطان معز الدین اور قطب الدین ایبک کے وقت میں تھی پچاس گز اور طول بہتر گز سہ فٹی گز سے ہے اس مسجد کا متولی فضل ابن ابو المعالی مقرر ہوا چنانچہ غربی دالان کے ایک ستون پر اس کا نام کندہ ہے۔
تعمیر سلطان شمس الدین التمش
بعد اس کے سلطان شمس الدین التمش نے اس مسجد کو بڑھانا چاہا اور ؁627 ہجری مطابق ؁1229 عیسوی کے اس مسجد کے دونوں طرف جنوبا اور شمالا تین تین در اور بنائے اور راے پتھورا کے بت خانے کے باہر کے دالان تک مسجد بڑھا دی یہ در بھی سنگ سرخ کے بہت تحفہ بنے ہوئے ہیں اور ان پر نسخ اور کوفی خط میں آیات قرآنی کندہ ہیں اور بہت تحفہ بیل بوٹے پھول پتی منبت کاری کے بنے ہوئے ہیں جنوبی دروں کے بیچ کے در کے بائیں بازو پر تاریخ تعمیر کی کندہ ہے ان دروں کی اکثر محرابیں ٹوٹ گئی ہیں بلکہ شمالی دروں میں ایک در سارے کا سارا سڑک میں آگیا ہے۔

15

جبکہ ؁631 ہجری مطابق ؁1233 عیسوی میں سلطان شمس الدین نے مالوہ اور اوحین کو فتح کیا اس وقت بت خانہ مہا کال کو توڑ کر وہاں کی مورتیں راجہ بکر ماجیت کی تصویر سمیت دلی میں لاکر اس مسجد کے دروازے کے آگے ڈال دیں تھیں یہ تین تین در ضلع غربی کے جانب شمالی اور جنوب کو جو شمس الدین نے بنائے سینتیس سینتیس گز اور ایک ایک فٹ لمبے ہیں اور بیچ کا در آٹھ گز کا
چوڑا ہے اور جنوبی ضلع اس کا بت خانے کے قدیم دالان ہیں جو پرکھما کے لیے بنائے تھے ان کا طول ایک سو بتیس گز سہ فٹی گز سے ہے۔
قطب صاحب کی لاٹھ یا مینار یا ماذنہ
اس عمارت کی رفعت اور شان اور بلندی اور خوشنمائی کا بیان نہیں کیا جاسکتا حقیقت میں یہ عمارت ایسی ہے کہ روے زمین پر اپنا مثل نہیں رکھتی نقل مشہور ہے کہ اگر اس کے نیچے کھڑے ہو کر اوپر دیکھو تو ٹوپی والے کو ٹوپی اور پگڑی والے کو پگڑی تھام کر دیکھنا پڑتا ہے اس لاٹھ پر سے نیچے کے آدمی ذرا ذرا سے معلوم ہوتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے آدمی ننھے ننھے ہاتی گھوڑے دکھائی دینے سے عجب کیفیت معلوم ہوتی ہے اس طرح نیچے والوں کو اوپر کے آدمی بہت چھوٹے چھوٹے معلوم ہوتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا فرشتے آسمان سے اترتے ہیں غرض کہ یہ لاٹھ عجائب روزگار سے ہے باوجود اس قدر بلندی اور عظمت کے ایسی خوبصورت اور خوش قطع بنی ہوئی ہے کہ بے اختیار دیکھنے کو جی چاہتا ہے اس لاٹھ کی نیچے
 
Top