ٹائپنگ مکمل لائبریری ٹیگ سلسلہ : آثار الصنادید

عائشہ عزیز

لائبریرین
23

جامع مسجد کرکر مشہور ہوجاتی ہیں جیسے شاہ جہاں آباد کی مسجد کہ اصلی نام اس کا مسجد جہاں نما ہے مگر جامع مسجد کرکر مشہور ہے۔
حوض شمسی یا قطب صاحب کا تالاب
قطب صاحب کے نواح میں سلطان شمس الدین التمش نے قریب ؁627 ہجری مطابق ؁1229 عیسوی کے یہ حوض بنایا تھا۔ مشہور ہے کہ یہ حوض سنگ سرخ کا بنا ہوا تھا مگر اب ٹوٹ گیا ہے اور نرا تالاب رہ گیا ہے۔ یہ تالاب دو سو چھتر بیگھ پختہ کا ہے جب یہ حوض بنا ہوا تیار ہوگا تو خیال کرنا چاہیے کہ کتنا بڑا ہوگا۔ سلطان علاؤالدین نے قریب ؁711 ہجری مطابق ؁1311 عیسوی کے اس کو کہ مٹی سے اَٹ گیا تھا۔ صاف کرایا اور اس کے بیچوں بیچ میں ایک لداؤ کا چبوترہ نیچے سے خالی بنا کر اس پر برجی نہایت خوبصورت بنائی چنانچہ اب تک وہ برجی موجود ہے۔ فیروز شاہ نے بھی اپنے زمانہ بادشاہت میں اس حوض کی مرمت کی اور پانی آنے کے راستے صاف کرائے مگر اب یہ تالاب بہت اَٹ گیا ہے اور تین چار مہینے سے سوا اس میں پانی نہیں ٹھہرتا۔
مقبرہ سلطان غاری
قطب صاحب سے دو کوس پرے جانب غرب یہ مقبرہ ہے سلطان ناصر الدین محمود پسرکلان سلطان شمس الدین کا جو لکھنوئی کا حکم تھا اور ؁626 ہجری مطابق ؁1238 عیسوی کے اپنے باپ کے جیتے جی مرگیا اور اس کی لاش کو دلی میں لاکر یہاں
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
خرم شہزاد خرم بھیا

Aasar1_page_0221.jpg
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
دفن کیا اور 629 ہجری مطابق 1231 عیسوی کے سلطان شمس الدین التمش نے یہ مقبرہ بنایا یہ مقبرہ بہت نفیس ہے اسکے اندار چاروں طرف مکان ہیں اور جانب غرب نرسی سنگ مرمر کی ایک چھوڑی سی مسجد ہے اور بیچوں بیچ میں ایک غار ہے کہ پندرہ سیڑھیاں اور ترکراوسمین جاتے ہیں اور اسمیں یہ قبر ہے اور اوس غارمیں ستون کھڑے کر کر چھت پاٹ دی ہے اور چھت پر مثمن چبوترہ چارفٹ ساڑھے ساتھ انچھ کا اونچا بنایا ہے دروازہ بھی اس مقبرے کا سنگ مرمر کا ہے اور اوسپر آیات قرآنی بخط نسخ و کوفی اور کتبہ کھدا ہوا ہے اور چارو دیواری سنگ خارا سے بہت مستحکم بنائی ہے چاروں کونوں پر چاربرج ہیں دروازہ اتنا کرسی دیکر بنایا ہے بائیس سیڑھیاں چڑھ کر اوسمیں جاتے ہیں۔​
مقبرہ سلطان شمس الدین التمش​
قطب صاحب کی لاٹھ کے پاس یہ مشہور مقبرہ ہے جبکہ سلطان شمس الدین التمش 633 ہجری مطابق 1235 عیسوی مراتویہاں دفن کیا غالب ہی کہ یہ مقبرہ رضیہ سلطان بیگم اوسکی بیٹی نے بنایا اس مقبرہ کی عمارت باہر سے نری سنگ خاراکی ہے اور اندر سے سنگ سرخ کی ہے اور کہیں کہیں سنگ مر مر بھی لگاہے تمام دیواروں پر آیات قرآنی کندہ ہیں اور بہت اچھی منبت کاری کی ہوئی ہے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اس مقبرے پر ستوں دارگبند بھی تھا مگر اب گرپڑا ہے فیروز شاہ لکھتا ہے کہ میں نے اس مقبرے کی بھی مرمت کی اور صندل کا چھپر کھٹ چڑھا یااور اوسکے​
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
25

گنبد میں پتھر کی سیڑھی تراش کر لگائی مگر اب ان چیزوں کا پتہ نہیں رہا۔
درگاہ شاہ ترکمان
یہ درگاہ شہر شاہجہاں آباد کے اندر ترکمان دروازے کے پاس واقع ہے شاہ ترکمان صاحب بڑے بزرگوں میں سے ہیں۔ شمس العارفین آپ کا لقب ہے چوبیسرجب ؁638 ہجری مطابق ؁1240 عیسوی معز الدین بہرام شاہ کے وقت میں آپ کا انتقال ہوا اور جب ہی سے یہ مزار بنا مگر کچھ عمدہ مکان یہاں بنا ہوا نہیں ہے قبر کے گرد سنگ مرمر کا کٹہرا ہے اور تھوڑی دور تک سنگ مرمر کا فرش ہے سو وہ بھی حال کا بنا ہوا معلوم ہوتا ہے ہر برس چوبیسویں رجب کو یہاں عرس ہوتا ہےاور بہار کے موسم میں ہر برس بڑی دھوم دھام سے بسنت ہوتا ہے شہر کا ترکمان دروازہ آپ ہی کے مزار کے سبب اس نام سے مشہور ہے۔
مقبرہ رکن الدین فیروز شاہ
زیر دیوار مقبرہ سلطان غاری سواد موضع ملک پور یہ مقبرہ ہے صرف آٹھ ستون کھڑے کرکر اس پر برج بنا دیا ہے جبکہ ؁635 ہجری مطابق ؁1037 عیسوی کے یہ بادشاہ رضیہ سلطان بیگم سے لڑ کر پکڑا گیا اور قید میں مراتب اس مقام پر دفن ہوا فیرزہ شاہ نے اپنی سلطنت میں اس برج کی ازسر نو مرمت کی۔
مقبرہ رضیہ سلطان بیگم
شہر شاہجہاں آباد میں بلبلی خانے کے محلے میں ترکمان دروازے کے پاس ایک
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
26

ٹوٹی سی چار دیواری اور پھوٹی سی قبر رضیہ سلطان بیگم منبت سلطان شمس الدین التمش کی ہے جو خود بھی چند مدت تخت پر بیٹھی ؁638 ہجری مطابق ؁1240 عیسوی معز الدین بہرام شاہ کے وقت میں قتل ہوئی جب یہ مقبرہ بنا مگر اب بجز نشان کے اور کچھ نہیں۔
مقبرہ معز الدین بہرام شاہ
مقبرہ سلطان غاری کے زیر دیوار سواد موضع ملک پور میں یہ مقبرہ ہے صرف آٹھ ستون کھڑے کرکر اس پر برج بنایا ہے جبکہ ؁639 ہجری مطابق ؁1241 عیسوی کے امرا نے اس بادشاہ کو مار ڈالا اور علاؤ الدین کو تخت پر بٹھایا تب اس مظلوم بادشاہ کی قبر پر یہ گنبد بنا فیروز شاہ کے وقت میں اس مقبرے کی مرمت ہوئی تھی۔
مقبرہ سلطان غیاث الدین بلبن
جہاں قطب صاحب کی قدیم آبادی کے ٹوٹے کھنڈر ہیں وہاں یہ مقبرہ ہے جبکہ ؁685 ہجری مطابق ؁1286 عیسوی کے یہ بادشاہ مرا تو یہاں دفن کیا یہ مقبرہ بالکل ٹوٹ گیا ہے اور پتھر سب اکھڑ گئے ہیں چونے کا ڈھم رہ گیا ہے اس مقبرے کی بغل میں ایک اور قبر مشہور ہے کہ وہ قبر خان شہید اس کے بیٹے کی ہے جو ؁683 ہجری مطابق ؁1284 عیسوی کے لاہور کی طرف لڑائی میں مارا گیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مقبرہ اس بادشاہ نے اپنے سامنے بنایا تھا جبکہ خود مرا تو وہ بھی یہاں دفن ہوا۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
27

حوض علائی یا حوض خاص
یہ حوض درحقیقت سلطان علاؤ الدین کا بنایا ہوا ہے جس نے قریب اپنے زمانہ تخت نشینی کے یعنی قریب ؁695 ہجری مطابق ؁1295 عیسوی کے بنایا تھا یہ حوض بھی ایک سو کئی بیگم پختہ میں ہی چاروں طرف اس کے پختہ دیواریں بنی ہوئی ہیں فیروز شاہ کے وقت میں یہ حوض مٹی سے بھر گیا تھا اور پانی نہیں رہا تھا اس نے تخمیناََ ؁755 ہجری مطابق ؁1354 عیسوی کے اس حوض کو نئے سرے سے خالی کیا اور جہاں جہاں ٹوٹ گیا تھا اس کی مرمت کی اور اس کے اوپر ایک مدرسہ بنایا اور طالب علم مقرر کیےاور مدرس نوکر رکھے جب سے اس کا نام حوض خاص مشہور ہوگیا بڑے مدرس اس مدرسے کے سید یوسف بن جمال حسینی تھے جن کا انتقال ؁790 ہجری مطابق ؁1388 عیسوی میں ہوا اور اسی مدرسے کے صحن میں دفن ہوئے اور مقبرہ فیروز شاہ کا بھی اسی مقام پر ہے۔
مقبرہ سلطان علاؤ الدین خلجی
قطب صاحب کی لاٹھ کے پاس مسجد قوۃ الاسلام کے پیچھے نہایت ٹوٹا پھوٹا ایک کھنڈر کھڑا ہے یہ مقبرہ ہے سلطان علاؤ الدین خلجی کا اگرچہ یہ بادشاہ ؁715 ہجری مطابق ؁1315 عیسوی کے مرا لیکن غالب ہے کہ یہ مقبرہ ؁717 ہجری مطابق 1317 عیسوی کے قطب الدین مبارک شاہ کے عہد میں بنا اس کے پاس ایک مسجد تھی اور ایک مدرسہ وہ بھی بالکل شکستہ ہوگیا ہے کچھ کچھ نشان پائے جاتے ہیں۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
28

فیروز شاہ نے اپنے عہد میں اس مقبرے اور مدرسے اور مسجد کی بھی مرمت کی تھی اور صندل کا چھپر کھٹ چڑھایا تھا مگر اب یہ مقبرہ بالکل چونے کا ڈھم ہے سب پتھر اکھڑ گئے ہیں اور قبر تک بھی ٹوٹ گئی ہے۔
باؤلی حضرت نظام الدین

مشہور ہے کہ یہ باؤلی حضرت نظام الدین نے اپنے جیتے جی قریب ؁721 ہجری مطابق ؁1321 عیسوی کے بنائی ہے اس باؤلی کا پانی بھی متبرک گنا جاتا ہے اور جن اترنے اوربھوت بھاگنے اور پیٹ رہنے کی منت سے اس میں نہایا جاتا ہے یہ باؤلی بہت خوب اور نہایت روشن ہے پانی کے اندر تہ تلک اس میں گول سیڑھیاں بہت خوشمنائی سے بنی ہوئے ہیں ؁781 ہجری مطابق ؁1379 عیسوی کے محمد معروف ابن وحید الدین نے اس باؤلی کے جنوبی ضلع پر فیروز شاہ کے عہد میں کچھ مکانات بنائے اور جانب جنوب ایک پتھر پر چند اشعار لگائے وہ پتھر اور اشعار ناموزوں و خط زشت اب تک قائم ہے اس باؤلی کے اوپر اور بھی مکانات اور قبرستان بن گئے ہیں اور میلے کے دن ہزاروں آدمی اس باؤلی پر جمع ہوتے ہیں اور بہت اونچی اونچی جگہ سے تیرنے والے باؤلی میں کودتے ہیں بڑا تماشا یہ ہوتا ہے کہ تماشائی اوپر سے پیسہ پھینکتے ہیں اور کودنے والے اس کے ساتھ کودتے ہیں اور رستے میں پیسہ لپک لیتے ہیں اس درگاہ کی چار دیواری نواب احمد بخش خان بہادر والی فیروز پور ننے بنوا دی ہے اور دروازے پر یہ مصرع لکھ دیا ہے
مصرع
شاہان چہ عجب گر بنوا زندگدارا
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
29

مقبرہ تغلق شاہ
قلعہ تغلق آباد کے پاس یہ مقبرہ ہے غیاث الدین تغلق شاہ کا جبکہ وہ بادشاہ ؁725 ہجری مطابق ؁1324 عیسوی کے مرا تو اس کے بیٹے محمد شاہ تغلق نے جس کو محمد عادل تغلق شاہ بھی کہتے ہیں یہ مقبرہ بنایا قطع اس مقبرے کی بہت خوبصورت ہے برج کی چار دیواری بالکل سنگ سرخ کی ہے اور گنبد سنگ مرمر سرخ میں جابجا سنگ مرمر کی دھاریاں لگی ہوئی ہیں اور بہت خوبصورت منبت کاری کی ہوئی ہے اس کے برج کا لداؤ بہت بلند ہے پتھر ایسے خوب وصل کیے ہیں کہ اب تک ذرا نقصان نہیں آیا گرد اس مقبرے کے چونے اور پتھر کی تکونیہ فصیل اور اس کی دیوار میں اندر کے رخ حجرے بنے ہوئے ہیں جس میں زمیندار بستے ہیں فصیل کا دروازہ سنگ سرخ کا بنا ہوا ہے اس میں بتیس سیڑھیاں ہیں اس دروازے سے قلعہ تغلق آباد تک ایک پل بنایا ہے تاکہ قلعہ میں سے مقبرے میں آنے کا راستہ ہو کیونکہ اس کے چاروں طرف جنگل کا پانی بھرا رہتا تھا اس مقبرے میں ایک تو اسی بادشاہ کی قبر ہے دوسری مخدومہ جہاں اس کی بیوی کی تیسری سلطان محمد عادل تغلق شاہ اس کے بیٹے کی جو ؁756 ہجری مطابق ؁1315 عیسوی کے روو سندھ کے کنارے پر مرا تھا دروازنے کے پاس جو فصیل کا برج ہے اس پر بھی ایک چھوٹا سا گنبد ہے معلوم نہیں اس میں کس کی قبر ہے فیروز شاہ کے وقت میں یہ مقبرہ دار الامان کہلاتا تھا اور فیروز شاہ ان قبروں پر صندل کا چھپر کھٹ اور خانہ کعبہ کے پردے
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
30

چڑھائے تھے اور جن جن لوگوں کو کہ سلطان محمد عادل تغلق شاہ نے مار ڈالا تھا یا ان کے ہاتھ پاؤں ناک کان کاٹ ڈالے تھے یا اندھا کردیا تھا ان کو اور ان کے وارثوں کو روپیہ دے کر راضی کیا اور عفو جرائم کی سندیں لے کر اور ایک صندوق میں بند کرکر قبر کے سرھانے رکھوا دیا تھا۔
درگاہ حضرت نظام الدین اولیا
یہ درگاہ پرانے قلعہ سے ایک میل آگے بہت نامی ہے جبکہ حضرت نظام الدین کا ؁765 ہجری مطابق ؁1324 عیسوی کے انتقال ہوا تو آپ نے مزار پر ایک چھوٹا سا گنبد اور جالیاں تھیں فیروز شاہ نے اپنے وقت میں اس پر صندل کا چھپر کھٹ چڑھایا اور برج کے چاروں کونوں میں سونے کے کٹورے سونے کی زنجیروں میں لٹکائے۔ ؁970 ہجری مطابق ؁1562 عیسوی کے سید فریدون خان نے بڑے اکبر کے عہد میں گنبد کے گرد سنگ مرمر کی جالیاں لگائیں اور گنبد کے اندر ایک لوح پر چند اشعار تاریخ کے لگائے کہ ما وہ تاریخ اس کا۔ قبلہ کہ خاص عام ہے۔ بعد اس کے نورالدین جہانگیر بادشاہ کے عہد میں فرید خان المخاطب بمرتضی خان نے ؁1017 ہجری مطابق ؁1607 عیسوی کے آپ کے مزار پر سیپ کی پچکاری کا بہت تحفہ چھپر کھٹ چڑھایا حقیقت میں اس کی پچی کاری بہت تحفہ ہے اور اس پچی کاری میں چند اشعار تاریخ کندہ ہیں کہ ما وہ تاریخ اس کا۔ قبہ شیخ ہے۔ بعد اس کے ؁1063 ہجری مطابق ؁1652 عیسوی کے شاہجہاں کے عہد میں خلیل اللہ خان نے اس گنبد کے گرد سنگین بارہ دری
 

نایاب

لائبریرین
(44)
ہے کہ بے تامل ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بہت تحفہ ایرانی قالین بچھا ہوا ہے ۔ اس طرح کی پچی کاری ہونے سے بھی یقین ہوتا ہے کہ اس قلعہ کی تعمیر میں کوئی نہ کوئی اوستاد اٹالین شریک تھا ۔ کیونکہ پچی کاری کا ایجاد اوسی ملک سے ہے ۔ اوس درجے کے بیچوں بیچ میں ایک حوض ہے مربع پر چین کار ۔ اوس کے چاروں کونوں پر چار فوارے لگے ہوئے تھے اوس کے گرد ایک نہر ہے گز بھر کے عرض کی اور بہت کم گہری نہایت نفیس ۔ مشہور ہے کہ جب چاہتے تھے اس نہر اور حوض میں گرم پانی ہوتا تھا اور جب چاہے ٹھنڈا ۔ تیسرا درجہ اس حمام کا اجارہ تک نرا سنگ مرمر کا ہے ۔ جانب غرب حوض گرم پانی کے بنے ہوئے ہیں اور اوسکے بیچوں بیچ میں سنگ مرمر کا چبوترہ ہے کہ اوس پر بیٹھکر نہاتے تھے ۔ جانب شمال ایک شہ نشین بنی ہوئی ہے اور اوسمیں مستطیل حوض ہے ۔ جب چاہیں اوسمیں گرم پانی بھریں اور جب چاہیں سرد پانی بھریں ۔ اس درجےمیں بہت تحفہ پچیکاری اور منبت کاری کی ہوئی ہے ۔ شاید کہ یہ حمام شاہجہان اورعالمگیر کے بعد پھر گرم نہوا ہو ۔ مشہور ہے کہ سوا سو من لکڑی سے گرم ہوتا ہے ۔
موتی محل
یہ ایک محل ہے سنگ سرخ کا اور اوسکو سنگ پٹھانی سے سفید کر کے رنگامیزی اور طلا کاری کے گل بوٹے بنائے تھے ۔ اسمیں ایک درجہ ہے پندرہ گز کا لنبا اور تین گز کا چوڑا اور ہر ایک شاہ نشین کے پیچھے ایک ایک درجہ ہے آٹھ گز لنبا اور پانچ گز چوڑا


(45)

اور ایوان رفیع پانچ پانچ در کے کہ جانب شرق سے مشرف بدریا ہے اور جانب غرب سے مشرف بہ باغ حیات بخش اور ہر ایک ایوان کا طول تیس گز کا اور عرض سات گز کا ہے ۔ اندر کی عمارت میں اجارہ تک سنگ مرمر لگا ہوا ہے اور باقی سنگ سرخ کا ہے اور اوسکو سنگ پٹھانی سے سفید کیا ہے ۔ اور اسمیں حوض واور نہر ہے ۔ اوسمیں سے ایک چادر دو گز کے عرض سے جانب باغ حیات بخش ایک حوض میں پڑتی ہے کہ وہ حوض بھی عجائب روزگار سے ہے کہ اتنا بڑا پتھر اور ایسا بڑا بے جوڑ حوض اور کہیں نہوگا ۔ حقیقت اسکی یہ ہے کہ یہ پتھر بیجرم مکرانہ کی کان میں سے نکلا جو کہ صفائی اورشفافی میں بے نظیر تھا اسواسطے بموجب حکم بادشاہ کے اوسکا حوض بنایا گیا کہ چار گز کا مربع اور ڈیڑھ گز کا عمیق پایہ دار بنا کہ تمام حوض مع پایوں کے ایک پتھر کا ہے ۔ بعد تیار ہونے اوس حوض کے مکرانہ سے کہ دارلخلافت سے دو سو کوس دور ہے باحتیاط لائے اور اس مقام پر لا کر رکھ دیا ۔ اس موتی محل کے جانب جنوب اور جانب شمال بھی مکانات تھے اور اب بھی موجود ہیں مگر اون میں کچھ نقصان بھی آ گیا ہے ۔
نہر بہشت
اس محل میں ہو کر جو نہر سنگ مرمر کی دیوان خاص اور بڑی بیٹھک اور رنگ محل میں جاتی ہے وہ نہر بہشت کہلاتی ہے اور پھر وہاں سے منشعب ہو ہر ایک محل اور مکان میں بہتی ہے ۔
باغ حیات بخش


(46)
صد ہزاران گل شگفتہ درو سبزہ بیدار و آب خفتہ درو
کسی زمانے میں یہ باغ بہت خوبصورت اور نہایت تیار تھا مگر اب بالکل ویران اور خراب ہے ۔ حضور والا کو اس آراستگی پر توجہ نہیں ۔ چند مکان اس باغ میں بہت خوب ہیں جنکا حال بیان کیا جاتا ہے ۔ ایک درخت پاکھل کا اس باغ میں نایاب ہے اور اوس کا مربہ تلی کے مرض کو مفید ہے ۔
حوض اور نہر
اس باغ کے بیچوں بیچ ایک حوض ہے ساٹھ گز سے ساٹھ گز اور اوسکے بیچ میں کسی زمانے میں اونچاس فوارے چاندی کے لگے ہوئے تھے اور دن رات چھوٹتے تھے ۔ اور اوسکے کناروں پر چاروں طرف ایک سو بارہ فوارے چاندی کے تھے کہ وہ بھی نہر کے سبب دن رات چھوٹا کرتے تھے ۔ اس حوض کے چاروں طرف سنگ سرخ کی نہر چھ گز کے عرض سے بہتی تھی اور ہر ہر نہر میں تیس تیس فوارے چاندی کے ہر وقت چھوٹتے رہتے تھے ۔ اب اون فواروں کا نام بھی نرہا ۔ البتہ جس جگہ فوارے تھے وہاں ایک چھید باقی رہگیا ہے ۔
شعر
دل عشق کا ہمیشہ حریف نبرد تھا
اب جس جگہ کو داغ ہے یاں پہلے درد تھا
اسی حوض میں بہادر شاہ بادشاہ حال نے ظفر محل بنایا ہے ۔
بھادوں
اس باغ میں جانب جنوب ایک مکان ہے سنگ مرمر کا بہت نفیس و لطیف اسکو بھادوں کہتے ہیں چہرہ اوسکا یہ ہے کہ ایک چبوترہ کرسی دیکر بنایا ہے ۔ اور اوسپر سولہ


(47)

ستون لگا کر ایک ایوان دلکشا تعمیر پایا ہے ۔ مشتمل اوپر دو دیوان کے جانب شرق و غرب اور دو بنگلے ہیں آگے اور پیچھے کہ ان ستون کے سبب بیچوں بیچ میں ایک چوکھنڈی بن گئی ہے اور اوسمیں ایک حوض سنگ مرمر کا ہے ۔ چار گز پندرہ سو کا مربع اور ڈیڑھ گز کا گہرا ۔ اوس مکان میں نہر بہشت سے نہر آتی ہے اور حوض میں چادر ہو کر پڑتی ہے ۔ اور پھر اوسمیں سے نکلکر آگے ایک اور چادر چھوٹتی ہے اور نہر میں پڑتی ہے ۔ یہ عمارت بھی بہت نادر ہے ۔ اور اوسمیں پانی کا پھرنا اور چادر کا چھوٹنا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا بھادوں کا مینیہ برستا ہے ۔ اور اسی سبب سے اس مکان کا بھادوں نام رکھا ہے ۔ اب اس مکان میں پانی آنے کا اور چادریں چھوٹنے کا رستہ بالکل بند ہو گیا ہے ۔ اس مکان کے حوض اور چادروں میں محرابی چھوٹے چھوٹے طاق بنا دیے ہیں ۔ کہ دن میں اونمیں گلدانہائے رنگین رکھے جاتے تھے اور رات کو شمع کافوری روشن ہوا کرتی تھی ۔ اور اوسکے اوپر سے پانی کی چادر پڑتی تھی ۔ اور اندر سے اون پھولوں کی خوشنمائی اور چراغوں کی روشنی عجب عالم دکھاتی تھی اسکی ھت کے چاروں کونوں پر بھی چار برجیاں چوکھنڈیکی سنہری بنی ہوئی ہیں ۔
ساون
اسی باغ میں جانب شمال یہ عمارت ہے نری سنگ مرمر کی نہایت نفیس اور بہت تحفہ کہ اوسکی لطافت اور نفاست حد بیان سے باہر ہے ۔ اور چہرہ اسکا بعینہ مثل چہرہ بھادوں کے ہے ۔ بال برابر بھی فرق نہیں ۔ گویا ایک مکان کو چھپاؤ اور ایک کو

(48)

نکاو ایک ذرہ فرق نہیں ۔ اور اسیطرح اسمیں بھی چادر بنی ہوئی ہے اور حوض بھی بنا ہے اور اسیطرح گلدان اور چراغان رکھنے کو محرابی طاق بنائے ہیں ۔ اس سبب سے کہ اس مکان میں پانی کی آمد اور چادر کا پڑنا اور زور و شور سے پانی کا بہنا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسا ساون کا مینہ ۔ اسواسطے اس عمارت کا نام ساون کا رکھا ہے ۔
شاہ برج
یہ برج بھی عجب عمارت ہے ۔ قطر اس برج کا سولہ گز کا ہے اور اوسکی عمارت تین طبقے پر ہے ۔ پہلے طبقے کو زمین سے بارہ گز کرسی دیکر بنایا ہے ۔ اور اسکی چھت اندر سے گول اور اوپر سے مسطح ہے ۔ یہ عمارت تمام سنگین ہے ۔ اجارہ تک تو سنگ مرمر سے بنی ہوئی ہے اور اوسمیں احجار سے رنگین پچی کاری کی ہوئی ہے ۔ اور اجارہ سے چھت تک سنگ پٹھانی سے سفید کر کے سنہری گل بوٹے بیل پتی بنائے ہیں ۔ یہ درجہ مثمن ہے اور اسکا قطر آٹھ گز کا ہے اور اوسمیں چار طاق اور دو نشمین نیم مثمن مشرف بدریا بنائے ہیں ۔ اور اوسکی روکار سنگ مرمر کی ہے ۔ طول اور عرض طاق شمالی اور شرقی کا چار گز کا ہے ۔ اور گربی جنوبی طاقوں کا طول چار گز کا اور عرض تین گز کا ہے اور مثمن درجہ کے بیچ میں ایک حوض ہے تین گز کے قطر کا نہایت دلربا اور بغایت خوشنما کہ اوسکی منبت کاری دیکھ کر عقل حیران رہجاتی ہے ۔ اور صنعت آلہی یاد آتی ہے اور غربی طاق میں ایک آبشار ہے اور چھوٹے چھوٹے طاق محراب دار بنائے ہیں کہ اون میں دن کو پھول اور رات کو چراغ رکھا کرتے تھے ۔ اوس آبشار کے آگے ایک حوض ہے
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
31

سنگ سرخ کے ستونوں کی بنائی اور اس کے دوسرے اور چوتھے در پر کتبہ کھودوایا ؁1169 ہجری مطابق ؁1755 کے عزیز الدین عالمگیر ثانی نے چند اشعار اور اردو ایک پتھر پر کھودوا کر گنبد کے اندر لگا دیئے بعد میں اس کے ؁1223 ہجری مطابق ؁1808 عیسوی کے نواب احمد خان بخش خان بہادر رئیس فیروز پور نے غلام گردش کے سنگ سرخ کے ستون نکلوا ڈالے اور سنگ مرمر کے ستون بہت تحفہ اور خوبصورت لگا دیے ؁1236 ہجری مطابق ؁1820 عیسوی کے فیض اللہ خان بنگش نے غلام گردش میں تانبے کی چھت چڑھا دی اور سونے اور لاجورد سے بہت تحفہ میناکاری کروا دی بعد اس کے ؁1239 ہجری مطابق ؁1823 عیسوی کے اکبر شاہ ثانی نے اس برج کو سنگ مرمر کا بنوا دیا اور اس پر بہت خوشنما سنہرا کلس لگوا دیا اب یہ درگابہت عمدہ عمارتوں میں سے ہے سترھویں ربیع الثانی کو ہر برس بڑی دھوم سے یہاں عرس ہوتا ہے اور موسم بہار میں بسنت بھی بہت دھوم سے ہوتا ہے مسجد اس درگاہ کی فیروز شاہ کی بنائی ہوئی ہے۔
سب پلہ
موضع کھڑکی کی سرحد میں متصل درگاہ حضرت روشن چراغ دہلی یہ پل ہے ؁727 ہجری مطابق ؁1326 عیسوی کے سلطان محمد عادل تغلق شاہ نے یہ پل بنایا ہے حقیقت یہ بند ہے اور دور دور کا پانی اس میں گھیرا ہے نالے کے نکلنے کو بیچ میں سات در بطور پل بنائے ہیں اور اسی سبب سے سب پلہ مشہور ہے اس کے اوپر بھی مکان

32

بنے ہوئے ہیں اور دو دروازے بہت خوشنمائی سے بنائے ہیں ایک جگہ سے یہ پل ٹوٹ گیا تھا وہاں کچا بند بنا دیا ہے اس پل کے درون کے پاس ایک کنواں تھا اگرچہ وہ کنواں اب نہیں رہا مگر نالے میں گڑھا کرکر پانی جمع کرتے ہیں اور اس کو تبرک سمجھتے ہیں بیماروں کو نہلاتے ہیں اور بچوں کے لیے ٹھلیوں میں پانی بھر کر اور سرس کی پتی رکھ کر دور دور لیجاتے ہیں کاتک کے مہینے میں دیوالی کے قریب ہفتہ اور اتوار اور منگل کے دن بڑا ہجوم ہوتا ہے صدہا زن و مرد اور بچے نہانے کو آتے ہیں تاکہ آسیب جن اور بھوت اور جادو سے محفوظ رہیں کہتے ہیں کہ یہاں حضرت
روشن چراغ دہلی نے وضو کیا تھا اس کے سبب یہاں کے پانی کو بزرگ جانتے ہیں دیوالی کے دنوں میں یہاں کے پانی کی چھوٹی سی ٹھلیا چھ ٹکے کی بکتی ہے۔
درگاہ شیخ صلاح الدین
حضرت شیخ صلاح الدین سلطان محمد عادل تغلق شاہ کے وقت میں تھے اور آپ مرید ہیں شیخ صدر الدین کے محمد تغلق شاہ کو ہمیشہ سخت جواب دیتے تھے جب آپ کو انتقال ہوا تو موضع کھڑکی کے متصل دفن کیا یقین ہے کہ ؁754 ہجری مطابق ؁1353 عیسوی کے فیروز شاہ کے وقت میں یہ درگاہ بنی آپ کے مزار پر ایک گنبد ہے اور اس کے چاروں طرف جالیاں ہیں اس کے پاس بڑی مسجد تھی اب اکثر جگہ سے گر پڑی ہے اس کے پاس مجلس خانے کا
 

شمشاد

لائبریرین
آثار الصنادید​
صفحہ ۹​
موٹی ہے قطف سب سے موٹے ٹکڑیکا تین فٹ دو انچھ اور سب سے پتلے ٹکڑیکا ڈھائی فٹ ہے اور وزن تمام ٹکڑون کا تین سو بہتر ۳۷۲ اور کتبے کے حرف بالکل ناقص ہو گئے ہین اور اونکی پچرین اوکھڑ جانے کے سبب دیکھنے کے قابل بھی نہیں رہے۔​
انیک پور​
قلعہ تغلق آباد سے تین میل پرے راجہ بلم گڈھ کی عملداری مین یہ گانؤن ہے جبکہ سمت ۷۳۳ بکرما جیت مطابق ۶۷۶ عیسوی اور ۵۷ ہجری راجہ انیکپال تنور ولی کا راجہ ہوا۔ اوسنے سیر و شکار کیواسطے پہاڑون کے بیچ مین ایک بہت تحفہ بند بنا کر پانی کو روکا ہے۔ اس بند کے دو طرف تو پہاڑ ہین اور بیچ مین چھوٹی سی گھاٹی ہے۔ اوس گھاٹی کو بند سے بند کر دیا ہے۔ ایسا خوبصورت بند اور کہین نہین ہے اور اب تک باوجود گذرنے اسقدر زمانے کے قائم ہے۔ بیچ اس بند کا دو سو پندرہ ۲۱۵ فٹ اور دونون بازو سینتیس ۳۷ سینتیس ۳۷ فٹ لنبے ہین جسکا کل طول ایک سو نواسی ۱۸۹ فٹ ہوا اور شمالی اور جنوبی ضلع پچاس ۵۰ پچاس ۵۰ فٹ کے ہین اور آثار بند کا زمین کے برابر سے ڈیڑھ سو فٹ کا ہے۔ اس بند کی دیوار مین سیڑھیان بنائی ہین چنانچہ اب بھی سترہ سیڑھیان زمین کے اوپر موجود ہین اور پُرانے زمیندار بیان کرتے ہین کہ ہمارے ہوش مین قدآدم سے سوا اور نیچا تھا اور کئی سیڑھیان اور نکلی ہوئین تھین۔ اب مٹی سے دب گئی ہین۔ مُہری اس بند کی اتنی بڑی ہے کہ کھڑا آدمی اوسمین سے چلا جاتا ہے۔ اگرچہ اس بند مین اب پانی نہین ٹھہرتا مگر اوسکی جڑ مین سے بارہ مہینے پانی رِستا ہے۔ اوسی زمانے مین راجہ​
 

شمشاد

لائبریرین
آثار الصنادید​
صفحہ ۱۰​
انیک پال نے اس بند کے پاس پہاڑ کی چوٹی پر ایک قلعہ بنانا شروع کیا۔ مشہور ہے کہ اوس قلعہ کی چاردیواری کے سوا اور کچھ بننے نہین پایا ۔ اب وہ چاردیواری بھی قائم نہین رہی۔ کہین کہین سے دیوار کا ٹوٹا پھوٹا نشان معلوم ہوتا ہے۔ کنور بھوپال جو انیکپال کا بارھوان بیٹا تھا یہان آباد ہوا چنانچہ ابتک اس گانون مین اوسکی اولاد بستی ہے اور یہی لوگ وہان کے زمیندار ہین لیکن بھوپال کے بعد چوتھی پشت مین مسمی ساکرانی گوجری گھر مین ڈال لی تھی اور اوس سے اولاد چلی اسواسطے یہ لوگ تنورون مین سے خارج ہو کر گوجرون مین مل گئے۔ اب یہان کے زمیندار گوجر کہلاتے ہین۔ متصل اس قلعہ کے ایک پہاڑ ہے اوسمین بلور کی کان ہے اور بہت تحفہ بلور نکلتا ہے۔ کسی سبب سے راجہ اس ان کون کو بند کر دیا ہے۔​
انیک تال​
اسی راجہ نے اپنی زمانہ حکومت مین یعنی تخمیناً سمت ۷۳۳ بکرماجیت مطابق ۶۷۶ عیسوی موافق ۵۷ ہجری کے قریب موضع مہرولی کے ایک تالاب بنایا تھا۔ اگرچہ وہ تالاب اب بالکل منہدم ہو گیا ہے الا قطب صاحب کی لاٹھ کے قریب جانب شمال اب تک ایک عمیق گڑھا موجود ہے اور انیک تال کے نام سے مشہور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ۷۱۱ ہجری مطابق ۱۳۱۱ عیسوی تک یہ تالاب قائم تھا کیونکہ جب سلطان علاوالدین نے مینار کے پاس دوسرا مینار اور مسجد بنانی شروع کی تھی تب اس تالاب مین سے اپنی مسجد مین پانی لایا تھا چنانچہ ابتک پانی آنے کے برہ کا نشان موجود ہے۔​
 
Top