(44)
ہے کہ بے تامل ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بہت تحفہ ایرانی قالین بچھا ہوا ہے ۔ اس طرح کی پچی کاری ہونے سے بھی یقین ہوتا ہے کہ اس قلعہ کی تعمیر میں کوئی نہ کوئی اوستاد اٹالین شریک تھا ۔ کیونکہ پچی کاری کا ایجاد اوسی ملک سے ہے ۔ اوس درجے کے بیچوں بیچ میں ایک حوض ہے مربع پر چین کار ۔ اوس کے چاروں کونوں پر چار فوارے لگے ہوئے تھے اوس کے گرد ایک نہر ہے گز بھر کے عرض کی اور بہت کم گہری نہایت نفیس ۔ مشہور ہے کہ جب چاہتے تھے اس نہر اور حوض میں گرم پانی ہوتا تھا اور جب چاہے ٹھنڈا ۔ تیسرا درجہ اس حمام کا اجارہ تک نرا سنگ مرمر کا ہے ۔ جانب غرب حوض گرم پانی کے بنے ہوئے ہیں اور اوسکے بیچوں بیچ میں سنگ مرمر کا چبوترہ ہے کہ اوس پر بیٹھکر نہاتے تھے ۔ جانب شمال ایک شہ نشین بنی ہوئی ہے اور اوسمیں مستطیل حوض ہے ۔ جب چاہیں اوسمیں گرم پانی بھریں اور جب چاہیں سرد پانی بھریں ۔ اس درجےمیں بہت تحفہ پچیکاری اور منبت کاری کی ہوئی ہے ۔ شاید کہ یہ حمام شاہجہان اورعالمگیر کے بعد پھر گرم نہوا ہو ۔ مشہور ہے کہ سوا سو من لکڑی سے گرم ہوتا ہے ۔
موتی محل
یہ ایک محل ہے سنگ سرخ کا اور اوسکو سنگ پٹھانی سے سفید کر کے رنگامیزی اور طلا کاری کے گل بوٹے بنائے تھے ۔ اسمیں ایک درجہ ہے پندرہ گز کا لنبا اور تین گز کا چوڑا اور ہر ایک شاہ نشین کے پیچھے ایک ایک درجہ ہے آٹھ گز لنبا اور پانچ گز چوڑا
(45)
اور ایوان رفیع پانچ پانچ در کے کہ جانب شرق سے مشرف بدریا ہے اور جانب غرب سے مشرف بہ باغ حیات بخش اور ہر ایک ایوان کا طول تیس گز کا اور عرض سات گز کا ہے ۔ اندر کی عمارت میں اجارہ تک سنگ مرمر لگا ہوا ہے اور باقی سنگ سرخ کا ہے اور اوسکو سنگ پٹھانی سے سفید کیا ہے ۔ اور اسمیں حوض واور نہر ہے ۔ اوسمیں سے ایک چادر دو گز کے عرض سے جانب باغ حیات بخش ایک حوض میں پڑتی ہے کہ وہ حوض بھی عجائب روزگار سے ہے کہ اتنا بڑا پتھر اور ایسا بڑا بے جوڑ حوض اور کہیں نہوگا ۔ حقیقت اسکی یہ ہے کہ یہ پتھر بیجرم مکرانہ کی کان میں سے نکلا جو کہ صفائی اورشفافی میں بے نظیر تھا اسواسطے بموجب حکم بادشاہ کے اوسکا حوض بنایا گیا کہ چار گز کا مربع اور ڈیڑھ گز کا عمیق پایہ دار بنا کہ تمام حوض مع پایوں کے ایک پتھر کا ہے ۔ بعد تیار ہونے اوس حوض کے مکرانہ سے کہ دارلخلافت سے دو سو کوس دور ہے باحتیاط لائے اور اس مقام پر لا کر رکھ دیا ۔ اس موتی محل کے جانب جنوب اور جانب شمال بھی مکانات تھے اور اب بھی موجود ہیں مگر اون میں کچھ نقصان بھی آ گیا ہے ۔
نہر بہشت
اس محل میں ہو کر جو نہر سنگ مرمر کی دیوان خاص اور بڑی بیٹھک اور رنگ محل میں جاتی ہے وہ نہر بہشت کہلاتی ہے اور پھر وہاں سے منشعب ہو ہر ایک محل اور مکان میں بہتی ہے ۔
باغ حیات بخش
(46)
صد ہزاران گل شگفتہ درو سبزہ بیدار و آب خفتہ درو
کسی زمانے میں یہ باغ بہت خوبصورت اور نہایت تیار تھا مگر اب بالکل ویران اور خراب ہے ۔ حضور والا کو اس آراستگی پر توجہ نہیں ۔ چند مکان اس باغ میں بہت خوب ہیں جنکا حال بیان کیا جاتا ہے ۔ ایک درخت پاکھل کا اس باغ میں نایاب ہے اور اوس کا مربہ تلی کے مرض کو مفید ہے ۔
حوض اور نہر
اس باغ کے بیچوں بیچ ایک حوض ہے ساٹھ گز سے ساٹھ گز اور اوسکے بیچ میں کسی زمانے میں اونچاس فوارے چاندی کے لگے ہوئے تھے اور دن رات چھوٹتے تھے ۔ اور اوسکے کناروں پر چاروں طرف ایک سو بارہ فوارے چاندی کے تھے کہ وہ بھی نہر کے سبب دن رات چھوٹا کرتے تھے ۔ اس حوض کے چاروں طرف سنگ سرخ کی نہر چھ گز کے عرض سے بہتی تھی اور ہر ہر نہر میں تیس تیس فوارے چاندی کے ہر وقت چھوٹتے رہتے تھے ۔ اب اون فواروں کا نام بھی نرہا ۔ البتہ جس جگہ فوارے تھے وہاں ایک چھید باقی رہگیا ہے ۔
شعر
دل عشق کا ہمیشہ حریف نبرد تھا
اب جس جگہ کو داغ ہے یاں پہلے درد تھا
اسی حوض میں بہادر شاہ بادشاہ حال نے ظفر محل بنایا ہے ۔
بھادوں
اس باغ میں جانب جنوب ایک مکان ہے سنگ مرمر کا بہت نفیس و لطیف اسکو بھادوں کہتے ہیں چہرہ اوسکا یہ ہے کہ ایک چبوترہ کرسی دیکر بنایا ہے ۔ اور اوسپر سولہ
(47)
ستون لگا کر ایک ایوان دلکشا تعمیر پایا ہے ۔ مشتمل اوپر دو دیوان کے جانب شرق و غرب اور دو بنگلے ہیں آگے اور پیچھے کہ ان ستون کے سبب بیچوں بیچ میں ایک چوکھنڈی بن گئی ہے اور اوسمیں ایک حوض سنگ مرمر کا ہے ۔ چار گز پندرہ سو کا مربع اور ڈیڑھ گز کا گہرا ۔ اوس مکان میں نہر بہشت سے نہر آتی ہے اور حوض میں چادر ہو کر پڑتی ہے ۔ اور پھر اوسمیں سے نکلکر آگے ایک اور چادر چھوٹتی ہے اور نہر میں پڑتی ہے ۔ یہ عمارت بھی بہت نادر ہے ۔ اور اوسمیں پانی کا پھرنا اور چادر کا چھوٹنا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا بھادوں کا مینیہ برستا ہے ۔ اور اسی سبب سے اس مکان کا بھادوں نام رکھا ہے ۔ اب اس مکان میں پانی آنے کا اور چادریں چھوٹنے کا رستہ بالکل بند ہو گیا ہے ۔ اس مکان کے حوض اور چادروں میں محرابی چھوٹے چھوٹے طاق بنا دیے ہیں ۔ کہ دن میں اونمیں گلدانہائے رنگین رکھے جاتے تھے اور رات کو شمع کافوری روشن ہوا کرتی تھی ۔ اور اوسکے اوپر سے پانی کی چادر پڑتی تھی ۔ اور اندر سے اون پھولوں کی خوشنمائی اور چراغوں کی روشنی عجب عالم دکھاتی تھی اسکی ھت کے چاروں کونوں پر بھی چار برجیاں چوکھنڈیکی سنہری بنی ہوئی ہیں ۔
ساون
اسی باغ میں جانب شمال یہ عمارت ہے نری سنگ مرمر کی نہایت نفیس اور بہت تحفہ کہ اوسکی لطافت اور نفاست حد بیان سے باہر ہے ۔ اور چہرہ اسکا بعینہ مثل چہرہ بھادوں کے ہے ۔ بال برابر بھی فرق نہیں ۔ گویا ایک مکان کو چھپاؤ اور ایک کو
(4
نکاو ایک ذرہ فرق نہیں ۔ اور اسیطرح اسمیں بھی چادر بنی ہوئی ہے اور حوض بھی بنا ہے اور اسیطرح گلدان اور چراغان رکھنے کو محرابی طاق بنائے ہیں ۔ اس سبب سے کہ اس مکان میں پانی کی آمد اور چادر کا پڑنا اور زور و شور سے پانی کا بہنا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسا ساون کا مینہ ۔ اسواسطے اس عمارت کا نام ساون کا رکھا ہے ۔
شاہ برج
یہ برج بھی عجب عمارت ہے ۔ قطر اس برج کا سولہ گز کا ہے اور اوسکی عمارت تین طبقے پر ہے ۔ پہلے طبقے کو زمین سے بارہ گز کرسی دیکر بنایا ہے ۔ اور اسکی چھت اندر سے گول اور اوپر سے مسطح ہے ۔ یہ عمارت تمام سنگین ہے ۔ اجارہ تک تو سنگ مرمر سے بنی ہوئی ہے اور اوسمیں احجار سے رنگین پچی کاری کی ہوئی ہے ۔ اور اجارہ سے چھت تک سنگ پٹھانی سے سفید کر کے سنہری گل بوٹے بیل پتی بنائے ہیں ۔ یہ درجہ مثمن ہے اور اسکا قطر آٹھ گز کا ہے اور اوسمیں چار طاق اور دو نشمین نیم مثمن مشرف بدریا بنائے ہیں ۔ اور اوسکی روکار سنگ مرمر کی ہے ۔ طول اور عرض طاق شمالی اور شرقی کا چار گز کا ہے ۔ اور گربی جنوبی طاقوں کا طول چار گز کا اور عرض تین گز کا ہے اور مثمن درجہ کے بیچ میں ایک حوض ہے تین گز کے قطر کا نہایت دلربا اور بغایت خوشنما کہ اوسکی منبت کاری دیکھ کر عقل حیران رہجاتی ہے ۔ اور صنعت آلہی یاد آتی ہے اور غربی طاق میں ایک آبشار ہے اور چھوٹے چھوٹے طاق محراب دار بنائے ہیں کہ اون میں دن کو پھول اور رات کو چراغ رکھا کرتے تھے ۔ اوس آبشار کے آگے ایک حوض ہے