مہوش علی
لائبریرین
ہماری لائیبریری پروجیکٹ بہت اچھی شکل میں آتا جا رہا ہے اور ممبران بہت تندہی سے کام کر رہے ہیں۔ مگر پھر بھی یہ ایک رضاکارانہ پروجیکٹ ہے اور اس لیے اس کی رفتار اس سے زیادہ نہیں ہو سکے گی۔
میں چاہتی ہوں کہ اس پراجیکٹ کو دیگر زاویوں سے بھی اب دیکھا جائے اور تجاویز پیش کی جائیں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی تجویز ایسی سامنے آ جائے جو فائدہ مند ہو سکے۔
دیکھیں، یہ ایک بہت ہی نیک پروجیکٹ ہے اور اردو کے بہت سے دیوانے ایسے ہیں کہ وہ اس کے بارے میں سن کر خوش ہو جاتے ہیں، اور شاید خود بھی اس میں حصہ لینا چاہتے ہیں، مگر وقت نہ ہونے کیوجہ سے اس میں عملی حصہ نہیں لے سکتے۔ یا پھر یہ کہ انہیں اردو میں ٹائپ کرنا ہی نہیں آتا اور وہ نیٹ کو صرف اردو اخبارات پڑھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
میں سوچ رہی تھی کہ اردو کے ان دیوانوں کو بھی لائیبریری پروجیکٹ میں Involve کرنا چاہیے۔ اور اس کا ایک طریقہ یہی ہے کہ اگر وہ صاحبِ حیثیت ہیں، تو وہ مالی طور پر امداد دے کر بھی اس پروجیکٹ کا حصہ بن سکتے ہیں۔
لائیبریری پروجیکٹ کے لیے مالی امداد لینے کا یہ صرف ایک زاویہ ہے (یعنی اردو کے دیوانوں کو اس کا حصہ بنانا)۔ لیکن اس مالی امداد کو حاصل کرنا کئی اور وجوہات کی بنا پر بھی بہت لازمی ہے۔ میں ذیل میں ان وجوہات کو بھی ذکر کروں گی۔
***************************
مکمل بڑی سائز کی کتب کو ڈیجیٹائز کرنا
مجھے بہت مشکل لگ رہا ہے کہ رضاکارانہ طور پر ہم کسی بھی بڑے سائز کی کتب کو ڈیجیٹائز کر سکیں۔ یقیناً تمام لوگوں کی مصروفیات ہوتی ہیں، اور ایسے کام صرف Professional بنیادوں پر ہی ہو سکتے ہیں۔
اگر ہمیں اردو کو ترویج دینی ہی ہے، تو اس میں یقیناً وہ کتابیں بہت فائدہ مند ہیں جو کہ ہماری ٹیم ابھی ڈیجیٹائز کر رہی ہے۔ لیکن یہ تمام کتب صرف اور صرف کلاسیکل اردو ادب (یعنی شعر و شاعری اور ادبی نثر) سے تعلق رکھتی ہیں، اور اس کے لیے ایک خاص قسم کا ادبی ذوق ہونا چاہیے۔
مگر ان لوگوں کی تعداد بہت قلیل ہے جو کہ اتنا اچھا ادبی ذوق رکھتے ہیں۔ لہذا یہ کام صرف اُس قلیل طبقے کے لیے مخصوص ہے۔
لیکن اگر ہمیں واقعی اردو کو ترقی دینی ہے، تو سب سے پہلا ٹارگٹ بچے ہونے چاہیے ہیں۔
میرا بچپن یورپ میں گذرا ہے۔ اور یہاں رہتے ہوئے اگر میں نے اردو سیکھی ہے، تو اس میں اقبال کی شاعری، یا غالب میاں کا کوئی کمال نہیں تھا۔ بلکہ میں نے اردو سیکھنے کے لیے ذیل کی کتب استعمال کیں تھیں:
1۔ پریوں کی کہانیاں۔
2۔ داستان امیر حمزہ اور داستانِ طلسم ہوشربا
3۔ انسپکٹر جمشید سیریز۔ (انسپکٹر کامران سیریز۔ شوکی سیریز)
4۔ عمران سیریز (ابن صفی کی تمام تر کتب اب کاپی رائیٹ سے آزاد ہوں گی)
اس کے بعد جب ذرا بڑی ہوئی، تو ذیل کی کتب نے کردار سازی میں بہت ہی اہم کردار ادا کیا۔
1۔ نسیم حجازی کی کتب۔
2۔ نسیم حجازی کی طرز پر لکھے گئی دیگر تمام کتب جیسے التتمش نے سلطان صلاح الدین ایوبی پر جو کتب لکھیں۔ بہت لازمی ہے کہ یہ کتاب ڈیجیٹل صورت میں پیش ہو۔
نبیل بھائی نے یہ کتاب پڑھی ہے، اور وہ بھی تصدیق کر سکتے ہیں کہ نئی نسل کی کردار سازی کے حوالے سے یہ کتاب کتنی ضروری ہے۔
******************
گھریلو خواتین کی دلچسپی کا سامان
میں نے پاکستان میں اپنی خالا اور ممانیوں کو دیکھا ہے۔ اگر ہم انہیں غالب اور اقبال دیں گے، تو وہ کبھی بھی انہیں نہیں پڑھیں گی۔
اب گھریلو خواتین کو کیا چاہیے، تو اس کا جواب تو یہی ہے کہ گھریلو کہانیاں ہی ان کا ذوق ہے اور وہ اس کے علاوہ کچھ اور نہیں پڑھیں گی۔ اس ضمن میں آپ لوگ آراء پیش کر سکتے ہیں کہ گھریلو خواتین کی ضروریات کو کیسے پورا کیا جائے۔ یقیناً خواتین ڈائیجسٹ یا پاکیزہ ڈائیجیسٹ وغیرہ تو ہمیں اجازت نہیں دیں گے کہ اُن کے پرانے شماروں سے بھی کہانیاں پیش کر سکیں۔
میرے ذہن میں ابھی تک اس سلسلے میں کوئی تجویز نہیں ہے۔
**************************
بہرحال میں نے اوپر مختصرا وہ وجوہات پیش کر دی ہیں، جن کی وجہ سے میں چاہتی ہوں کہ یہ پراجیکٹ رضاکارانہ بنیادوں سے اوپر اٹھ کر Professional بنیادوں پر آگے بڑھے۔ (یعنی میں کسی رضاکار سے یہ توقع نہیں کر رہی کہ وہ نسیم حجازی کی 400 تا 500 صفحات کی ایک کتاب بھی ٹائپ کر سکے)۔
اور میرا یقین ہے کہ اگر ہم نیک نیتی کے ساتھ کمر باندھ لیں، تو ہم کامیابی کے ساتھ یہ پروجیکٹ چلا سکتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس حوالے سے کیا حالات ہمارے سامنے ہیں۔
۔ یورپ اور پاکستان کی کرنسیوں کی قدر میں بہت فرق ہے۔
۔ پاکستان میں ایک ٹائپسٹ کو ماہانہ بنیاد پر اگر کام پر رکھا جائے، تو میری اطلاعات کے مطابق وہ تین ہزار روپے تک لیتا ہے (یعنی تقریبا 30 سے 40 یورو/ ڈالر تک)۔
[یہ بات میں اس بنیاد پر کہہ رہی ہوں کہ لاہور میں جہاں میری نانی کا گھر ہے، اس کے بغل میں ایک انٹرنیٹ کیفے ہے جہاں ہم اردو ڈاکومینٹ ٹائپ بھی کروا سکتے ہیں۔ اور ایک صفحہ ٹائپ کرنے کا وہ 15 روپے لیتے ہیں۔ وہاں دو لڑکیاں بھی بطور ٹائپسٹ کام کر رہی تھیں۔ اُن میں سے ایک 1500 روپے ماہوار لیتی تھی اور دوسری 1700 روپے۔
چونکہ یہ رقم بہت ہی کم ہے، لہذا میری درخواست یہی ہے کہ کم از کم تنخواہ 3000 روپے یا اس سے بھی زیادہ ہو۔]
۔ اگر کوئی صاحب حیثیت صاحب ماہانہ 100 یورو تک ڈونیٹ کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، تو ہم ایسے دو یا تین فُل ٹائم ٹائپسٹ ہائر کر سکتے ہیں، جو کہ اعجاز صاحب یا پھر شاکر صاحباب وغیرہ کی نگرانی میں کام کریں (باقی احباب کو مجھے علم نہیں کہ آپ میں سے کون کون انڈیا یا پاکستان میں موجود ہیں)
(جاری ہے)
میں چاہتی ہوں کہ اس پراجیکٹ کو دیگر زاویوں سے بھی اب دیکھا جائے اور تجاویز پیش کی جائیں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی تجویز ایسی سامنے آ جائے جو فائدہ مند ہو سکے۔
دیکھیں، یہ ایک بہت ہی نیک پروجیکٹ ہے اور اردو کے بہت سے دیوانے ایسے ہیں کہ وہ اس کے بارے میں سن کر خوش ہو جاتے ہیں، اور شاید خود بھی اس میں حصہ لینا چاہتے ہیں، مگر وقت نہ ہونے کیوجہ سے اس میں عملی حصہ نہیں لے سکتے۔ یا پھر یہ کہ انہیں اردو میں ٹائپ کرنا ہی نہیں آتا اور وہ نیٹ کو صرف اردو اخبارات پڑھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
میں سوچ رہی تھی کہ اردو کے ان دیوانوں کو بھی لائیبریری پروجیکٹ میں Involve کرنا چاہیے۔ اور اس کا ایک طریقہ یہی ہے کہ اگر وہ صاحبِ حیثیت ہیں، تو وہ مالی طور پر امداد دے کر بھی اس پروجیکٹ کا حصہ بن سکتے ہیں۔
لائیبریری پروجیکٹ کے لیے مالی امداد لینے کا یہ صرف ایک زاویہ ہے (یعنی اردو کے دیوانوں کو اس کا حصہ بنانا)۔ لیکن اس مالی امداد کو حاصل کرنا کئی اور وجوہات کی بنا پر بھی بہت لازمی ہے۔ میں ذیل میں ان وجوہات کو بھی ذکر کروں گی۔
***************************
مکمل بڑی سائز کی کتب کو ڈیجیٹائز کرنا
مجھے بہت مشکل لگ رہا ہے کہ رضاکارانہ طور پر ہم کسی بھی بڑے سائز کی کتب کو ڈیجیٹائز کر سکیں۔ یقیناً تمام لوگوں کی مصروفیات ہوتی ہیں، اور ایسے کام صرف Professional بنیادوں پر ہی ہو سکتے ہیں۔
اگر ہمیں اردو کو ترویج دینی ہی ہے، تو اس میں یقیناً وہ کتابیں بہت فائدہ مند ہیں جو کہ ہماری ٹیم ابھی ڈیجیٹائز کر رہی ہے۔ لیکن یہ تمام کتب صرف اور صرف کلاسیکل اردو ادب (یعنی شعر و شاعری اور ادبی نثر) سے تعلق رکھتی ہیں، اور اس کے لیے ایک خاص قسم کا ادبی ذوق ہونا چاہیے۔
مگر ان لوگوں کی تعداد بہت قلیل ہے جو کہ اتنا اچھا ادبی ذوق رکھتے ہیں۔ لہذا یہ کام صرف اُس قلیل طبقے کے لیے مخصوص ہے۔
لیکن اگر ہمیں واقعی اردو کو ترقی دینی ہے، تو سب سے پہلا ٹارگٹ بچے ہونے چاہیے ہیں۔
میرا بچپن یورپ میں گذرا ہے۔ اور یہاں رہتے ہوئے اگر میں نے اردو سیکھی ہے، تو اس میں اقبال کی شاعری، یا غالب میاں کا کوئی کمال نہیں تھا۔ بلکہ میں نے اردو سیکھنے کے لیے ذیل کی کتب استعمال کیں تھیں:
1۔ پریوں کی کہانیاں۔
2۔ داستان امیر حمزہ اور داستانِ طلسم ہوشربا
3۔ انسپکٹر جمشید سیریز۔ (انسپکٹر کامران سیریز۔ شوکی سیریز)
4۔ عمران سیریز (ابن صفی کی تمام تر کتب اب کاپی رائیٹ سے آزاد ہوں گی)
اس کے بعد جب ذرا بڑی ہوئی، تو ذیل کی کتب نے کردار سازی میں بہت ہی اہم کردار ادا کیا۔
1۔ نسیم حجازی کی کتب۔
2۔ نسیم حجازی کی طرز پر لکھے گئی دیگر تمام کتب جیسے التتمش نے سلطان صلاح الدین ایوبی پر جو کتب لکھیں۔ بہت لازمی ہے کہ یہ کتاب ڈیجیٹل صورت میں پیش ہو۔
نبیل بھائی نے یہ کتاب پڑھی ہے، اور وہ بھی تصدیق کر سکتے ہیں کہ نئی نسل کی کردار سازی کے حوالے سے یہ کتاب کتنی ضروری ہے۔
******************
گھریلو خواتین کی دلچسپی کا سامان
میں نے پاکستان میں اپنی خالا اور ممانیوں کو دیکھا ہے۔ اگر ہم انہیں غالب اور اقبال دیں گے، تو وہ کبھی بھی انہیں نہیں پڑھیں گی۔
اب گھریلو خواتین کو کیا چاہیے، تو اس کا جواب تو یہی ہے کہ گھریلو کہانیاں ہی ان کا ذوق ہے اور وہ اس کے علاوہ کچھ اور نہیں پڑھیں گی۔ اس ضمن میں آپ لوگ آراء پیش کر سکتے ہیں کہ گھریلو خواتین کی ضروریات کو کیسے پورا کیا جائے۔ یقیناً خواتین ڈائیجسٹ یا پاکیزہ ڈائیجیسٹ وغیرہ تو ہمیں اجازت نہیں دیں گے کہ اُن کے پرانے شماروں سے بھی کہانیاں پیش کر سکیں۔
میرے ذہن میں ابھی تک اس سلسلے میں کوئی تجویز نہیں ہے۔
**************************
بہرحال میں نے اوپر مختصرا وہ وجوہات پیش کر دی ہیں، جن کی وجہ سے میں چاہتی ہوں کہ یہ پراجیکٹ رضاکارانہ بنیادوں سے اوپر اٹھ کر Professional بنیادوں پر آگے بڑھے۔ (یعنی میں کسی رضاکار سے یہ توقع نہیں کر رہی کہ وہ نسیم حجازی کی 400 تا 500 صفحات کی ایک کتاب بھی ٹائپ کر سکے)۔
اور میرا یقین ہے کہ اگر ہم نیک نیتی کے ساتھ کمر باندھ لیں، تو ہم کامیابی کے ساتھ یہ پروجیکٹ چلا سکتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس حوالے سے کیا حالات ہمارے سامنے ہیں۔
۔ یورپ اور پاکستان کی کرنسیوں کی قدر میں بہت فرق ہے۔
۔ پاکستان میں ایک ٹائپسٹ کو ماہانہ بنیاد پر اگر کام پر رکھا جائے، تو میری اطلاعات کے مطابق وہ تین ہزار روپے تک لیتا ہے (یعنی تقریبا 30 سے 40 یورو/ ڈالر تک)۔
[یہ بات میں اس بنیاد پر کہہ رہی ہوں کہ لاہور میں جہاں میری نانی کا گھر ہے، اس کے بغل میں ایک انٹرنیٹ کیفے ہے جہاں ہم اردو ڈاکومینٹ ٹائپ بھی کروا سکتے ہیں۔ اور ایک صفحہ ٹائپ کرنے کا وہ 15 روپے لیتے ہیں۔ وہاں دو لڑکیاں بھی بطور ٹائپسٹ کام کر رہی تھیں۔ اُن میں سے ایک 1500 روپے ماہوار لیتی تھی اور دوسری 1700 روپے۔
چونکہ یہ رقم بہت ہی کم ہے، لہذا میری درخواست یہی ہے کہ کم از کم تنخواہ 3000 روپے یا اس سے بھی زیادہ ہو۔]
۔ اگر کوئی صاحب حیثیت صاحب ماہانہ 100 یورو تک ڈونیٹ کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، تو ہم ایسے دو یا تین فُل ٹائم ٹائپسٹ ہائر کر سکتے ہیں، جو کہ اعجاز صاحب یا پھر شاکر صاحباب وغیرہ کی نگرانی میں کام کریں (باقی احباب کو مجھے علم نہیں کہ آپ میں سے کون کون انڈیا یا پاکستان میں موجود ہیں)
(جاری ہے)