لائیربیری پروجیکٹ کے لیے فنڈنگ

آصف

محفلین
میں نبیل سے اور زکریا دونوں سے اتفاق کرتا ہوں، کیسے؟؟
ایسے کہ:
سب سے پہلے ہمیں اس کام کو تجرباتی بنیادوں پر شروع کرنا چاہیئے۔ اس کام کی وجہ سے رضاکارانہ کام کا مومینٹم نہیں ٹوٹنا چاہئیے۔
دراصل میں اس پر بہت عرصہ سے سوچ رہا ہوں اسلئے یہ تجویز مجھے بہت اچھی لگی ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعے بہت سی وہ کتابیں بھی ٹائپ کی جاسکتی ہیں جن کیلئے رضاکار دستیاب نہ ہوں۔
زکریا کا موقف کہ پہلے انفرادی طور سے شروع کیا جائے بھی بہت مناسب ہے۔ میں اس میں یہ ترمیم کرنا چاہوں گا کہ انفرادی سطح پر اگر چند لوگ جمع ہو کر تجرباتی طور پر ایک یا دو کتابیں ٹائپ کروائیں تو شاید یہ بہترین درمیانہ رستہ ہو!!!
اس کام میں بہت زیادہ پوٹنیشل ہے۔ اسلئے تجربہ کرنے سے نہ ڈرا جائے، انشاءاللہ بہت اچھا نتیجہ آئے گا۔ اگر کسی وجہ سے خدانخواستہ بہت لمبا عرصہ نہ بھی چل سکا تب بھی کچھ نہ کچھ کام ضرور ہو جائے گا اور تجرباتی ہونے کی وجہ سے کسی کو بد دلی بھی نہ ہو گی۔

اصل میں تو جیسا ایک ساتھی نے اشارہ کیا ہے کہ یہ کام حکومتوں کا ہے جیسا کہ اس ربط سے دیکھا جاسکتا ہے جس میں مصر کی اسکندریہ لائبریری صرف 42 لوگوں، 5 سکینرز، اور OCR کی مدد سے روزانہ تقریباً 9000 صفحات کو برقیا رہی ہے۔ 2003 سے اب تک 5.9 ملین صفحات (20،000 کتب) کو برقیایا جا چکا ہے۔اور اس سال کے لئے ان کا ہدف 25،000 کتابوں کو برقیانا ہے۔

یہ اعدادوشمار میں نے حوصلہ افزائی کیلئے لکھے ہیں۔ انشاءاللہ جب ہماری حکومتیں اس کام کو شروع کریں گی تو اس سے بھی عمدہ کام ہو گا۔ فی الوقت اپنے محدود ذرائع میں رہتے ہوئے ہمیں تجربات کرنے سے نہیں گھبرانا چاہئے۔

کاپی رائٹ کے متعلق یہ ہے کہ ہمیں کلاسیک لٹریچر اور کتب پر ہی توجہ مرکوز رکھنی چاہئیے۔ میرا خیال ہے کہ تفسیر ابن کثیر، طلسمِ ہوشربا وغیرہ بہت عمدگی سے اس کو پورا کرتی ہیں۔

ایک نوٹ: ساتھی لکھتے وقت الفاظ کے درمیان سپیس ضرور دیا کریں۔ ایک تو یہ لکھنے کا قاعدہ ہے دوسرا اس سے ہمیں اردو کمپیوٹنگ میں بہت امداد ملتی ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
آپ تمام لوگوں کا ریسپانس دینے کا شکریہ۔

اوپر کے میلز میں دو خدشات ایسے پیش کیے گئے ہیں، جن پر سنجیدگی سے گفتگو کرنا ہو گی۔

پہلا خدشہ:

زکریا، آپ نے ایک اچھا پوائنٹ اٹھایا ہے کہ کیا پیسے کے معاملے میں کسی پر اعتبار کیا جا سکتا ہے۔

اس سلسلے میں میری رائے یہ ہے:

۔ اعتماد کرنا مشکل کام ہوتا ہے، مگر یہ دنیا اعتماد کے بل بوتے پر ہی قائم ہے، اور کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی پر اعتماد کرنا ہی پڑتا ہے۔ اسی کا نام زندگی ہے۔

۔ میرا یہ یقین ہے کہ اس اردو محفل میں جو بھی شخص آیا ہے، یہ اس بات کی یقینی نشانی ہے کہ وہ دل سے اردو کے لیے Sincere ہے، اور یہ صرف اور صرف اردو سے وابستگی ہے جس کے بنیاد پر اُس نے اس محفل تک کا سفر طے کیا ہے (اس سفر میں اسے اردو ٹائپنگ، فانٹز اور دیگر تمام چیزیں سیکھنا پڑی ہوں گی)۔

الغرض، میرا دعویٰ ہے کہ نیٹ کی دنیا میں موجود کسی بھی فورم کے اراکین کبھی بھی اپنے مقاصد میں اتنے Sincere نہیں ہیں جتنا کہ ہماری اس محفل فورم کے۔

۔ دوسروں کا مجھے علم نہیں، لیکن مجھے کسی انسان کو جاننے کے لیے بہت زیادہ وقت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لیے صرف اپنی ذاتی رائے کا اظہار کرنا چاہتی ہوں کہ یہاں کچھ اراکین ایسے موجود ہیں، کہ جن کی تحریریں پڑھ کر مجھے اُن پر اعتماد کرنے میں ایک فیصد بھی تعامل نہیں ہے۔

پھر عرض کر دوں کہ یہ ذاتی رائے ہے اور آپ مجھ سے اختلاف کر سکتے ہیں۔ لیکن اعجاز صاحب، شاکر، شارق، رضوان، شگفتہ سسٹر، محب، اظہر ، ڈاکٹر راجہ ۔۔۔۔ یہ سب وہ اراکین ہیں جن کا نام آنے پر میں اپنی آنکھیں بند کر سکتی ہوں اور پھر بھی مجھے کسی چیز کا ڈر نہیں ہو گا۔

****

بہرحال، مجھے اور میری ذاتی رائے کو جانے دیجیئے، ہم اس بات کو ایک اور زاویے سے دیکھتے ہیں۔

جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا کہ یہ پروجیکٹ ایسا ہے کہ ابتدا میں ہمیں ایک یا دو ٹائپسٹ ہی ہائر کرنا ہوں گے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ ماہانہ خرچہ دس ہزار روپے ہو گا (یعنی 100 سے لیکر 200 یورو تک)۔

اور یہ بات بہت یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ہم 100 سے لیکر 200 یورو تک کا رسک بغیر کسی پریشانی کے لے سکتے ہیں۔ یہ ایک معمولی رقم ہے، جو اگر رسک فری نہ بھی ہو تو بھی ہمیں ڈرنا نہیں چاہیے۔

تیسرا اہم پوائنٹ یہ ہے کہ ہم یہاں الیکٹرانک کام کی بات کر رہے ہیں۔ یعنی پےمنٹ ماہانہ بنیادوں پر کرنے کی بجائے ہفتہ وار بنیادوں پر بھی کی جا سکتی ہے۔ یعنی ایک ہفتے میں ٹائپسٹ حضرات نے جو کام کیا ہے، اسے نیٹ پر اپلوڈ کرنے میں انہیں 5 سے دس منٹ لگیں گے۔ لہذا ہفتہ وارانہ بنیادوں پر پے منٹ کرنے پر یہ رسک 50 تا 100 یورو ہی رہ جائے گا۔

[ ذاتی طور پر میں تھوڑا رسک لیکر ماہانہ بنیادوں پر ہی پے منٹ کرنے کی حامی ہوں]

***

روپے کے معاملے سے زیادہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ کہیں لائیبریری پراجیکٹ کو پروفیشنل بنیادوں پر لیجانے کی وجہ سے رضاکارانہ پروجیکٹ متاثر نہ ہو۔

دیکھئیے اس معاملے کی کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی (کم از کم فی الوقت)۔

آئیے حالات پر ایک نظر پھر دوڑاتے ہیں:

پروفیشنل بنیادوں پر جانے کی وجوہات میں سے کچھ یہ تھیں کہ:

1۔ تجربہ سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ شگفتہ اور رضوان وغیرہ جیسے اراکین اردو سے بہت زیادہ Sincere ہیں، مگر پھر بھی وہ اس قابل نہیں ہیں کہ 500 سے زائد صفحات کی کتب کو برقی شکل میں ٹائپ کر سکیں۔

2۔ ان صخیم کتب کو برقیانے کا ایک طریقہ یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ 3 یا 4 رضاکار مل کر اس پر کام کریں۔ مگر اس کے لیے بھی کم از کم اس ایک کتاب کو Scan کرنا پڑے گا، جو کہ خود بہت وقت لیوا کام ہے۔

3۔ جب 3 یا 4 اراکین مل کر کسی کتاب پر کام کر رہے ہوتے ہیں، تو کچھ misunderstandings بھی پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ جیسا کہ ماورا کو ابواب کی صورت میں پیش آ رہی تھیں اور یہ علم نہیں ہو رہا تھا کہ کون سے ابواب مکمل ہو چکے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

4۔ اب اس مقام پر سب سے اہم آراء خود ہمارے اُن اراکین کی ہیں جو رضاکارانہ بنیادوں پر کتب کو برقیا رہے ہیں۔
چنانچہ لائبریری پروجیکٹ کے اراکین جواب دیں:

۔ کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ سائیڈ پر اگر پروفیشنل بنیادوں پر کام شروع ہوا تو اس سے آپ کی دل شکنی ہو گی؟

۔ کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ 500 تا 800 صفحات پر مشتمل بڑی کتب کو برقیانے کی آپ میں استطاعت ہے؟

آپ کے جوابات اور آراء اس معاملے میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔

ایک خدشہ یہ بھی ذہن میں رہے کہ اگر رضاکارانہ پروجیکٹ کچھ عرصہ مزید تک تیزی نہ پکڑ سکا تو نیٹ پر اردو کو اس سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔

***

اس سلسلے میں ایک کام یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کام کو یوں بانٹ لیا جائے کہ کلاسیکل اردو ادب کو برقیانے کا کام رضاکاروں کو دے دیا جائے، (یا پھر ایسی تمام چھوٹی کتب جن کی صخامت 300 صفحات کے اندر اندر ہو)۔ اور جتنی بڑی کتب یا پروجیکٹز ہوں اُن کے لیے پروفیشنل ٹائپسٹ حضرات کی خدمات حاصل کی جائیں۔

پروجیکٹ کچھ اور بنیادوں پر بھی تقسیم ہو سکتا ہے۔ مثلاً بہت سے رضاکار ایسے ہو سکتے ہیں جو کہ مذہبی رجحان زیادہ رکھتے ہوں۔ اس صورت میں اُن سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ مذہبی کتب اُن کے سائز کو دیکھے بغیر برقیا سکتے ہیں۔ اس بات کا مطلب یہ ہوا کہ مذہبی کتب کا برقیانا رضاکارانہ بنیادوں پر چھوڑ دیا جائے، اور پروفیشنل بنیادوں پر صرف اردو Entertainment کتب کو برقیایا جائے (مثلاً بچوں کے لیے عمران سیریز، یا کردار سازی کے لیے نسیم حجازی کی کتب وغیرہ)۔ اسی طرح خواتین کے لیے گھریلو کہانیاں وغیرہ۔

دوسری طرف، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مذہبی کتب کے نام پر شاید ہمیں زیادہ چندہ مل سکے بہ نسبت Entertaining Material کے نام کے۔

کلاسیکل اردو شاعری اور نثر کو بھی رضاکارانہ بنیادوں پر رہنے دیا جائے۔ اس سلسلے میں پہلے ہی کچھ کام ہو چکا ہے۔

میری رائے ابھی تک یہی ہے کہ پہلی ترجیح بچے ہونے چاہیے ہیں۔ بہت ضروری ہے کہ وہ اردو سیکھیں۔ ان کے تعداد کسی بھی دوسرے گروہ مثلاً مذہبی یا کلاسیکل اردو ادب پڑھنے والوں سے زیادہ ہے۔ اور نیٹ کے سب سے زیادہ استعمال کنندہ بھی یہی بچے ہیں۔ کھیل ہی کھیل میں اگر ان کی کردار سازی ہو جائے، تو یہ قوم پر بہت بڑا احسان ہو گا۔ میں نئی نسل کی طرف سے متفکر ہوں، کیونکہ وہ اپنی اصل کھوتے جا رہے ہیں۔

خواتین کے لیے گھریلو کہانیاں بھی بہت زیادہ ضروری ہیں۔ میں نے یہ کہانیاں پڑھی ہیں اور محسوس کرتی ہوں کہ انہیں پڑھنے سے ہماری خواتین کو اپنے معاشرے کا گھریلو ماحول سمجھنے میں بہت آسانی ہوتی ہے۔ یہ ایک طرح سے ان کی تربیت ہی ہے۔ کم از کم میں نے تو ان سے بہت کچھ سیکھا۔

***

نبیل برادر، آپ نے پروجیکٹ شروع کرنے کی شرط 500 یورو رکھی ہے۔ میرے خیال میں ہمیں 300 یورو پر کام شروع کر دینا چاہیے۔ شروع کے چند مہینوں میں یہ کام زیادہ نہیں ہو گا اور یقینا ہمیں بہت زیادہ فنڈز کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

زکریا، آپ چاہتے ہیں کہ یہ پروفیشنل بنیادوں پر کام نجی سطح پر ہو (یعنی اردو ویب اور محفل کا نام بیچ میں آئے بغیر)۔ آپ کے خدشات اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں۔ بہرحال، میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس پراجیکٹ کو اردو ویب کے نام کا مکمل سہارا چاہیے ہے۔

اولاً یہ کہ جو چیز بھی برقیائی جائے، اردو ویب اسے فورا شائع کرے۔ دوم یہ کہ اس کام میں رسک زیادہ سے زیادہ صرف 300 یورو کا ہے جو کہ کوئی اتنی بڑی انوسٹمنٹ نہیں۔ سوم اردو ویب پہلے سے ہی اردو کی ترویج میں اتنا کچھ کر چکا ہے کہ اردو کے قدر دان بہت حد تک اس پر بھروسا کر سکتے ہیں۔ (مثلا اس فورم کا اردو ترجمہ، ورڈ پریس کا ترجمہ، یونیکوڈ کتابیں۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ) اور سب سے اہم بات یہ کہ یہ سب کچھ آزاد مصدر ہے۔

میری رائے یہی ہے کہ اس معاملے میں ڈرنا نہیں چاہیے، کیونکہ حالات کو دیکھتے ہوئے مجھے رسک کافی کم نظر آ رہا ہے۔

بائی دا وے، ہم ڈونیشنز کے حوالے سے ایک شفاف عمل بھی قائم کر سکتے ہیں۔ اور وہ اس طرح کہ تمام ڈونیشنز اور ڈونرز کی تفصیل یہیں فورم میں دی جائے۔ اسی طرح اخراجات کی تمام تفصیل بھی یہاں دکھائی جا سکتی ہے۔
 

زیک

مسافر
مہوش علی نے کہا:
میرا دعویٰ ہے کہ نیٹ کی دنیا میں موجود کسی بھی فورم کے اراکین کبھی بھی اپنے مقاصد میں اتنے Sincere نہیں ہیں جتنا کہ ہماری اس محفل فورم کے۔

میں آپ سے متفق نہیں۔ میرے خیال سے محفل کے ارکان اچھے ضرور ہیں مگر کسی بھی اچھے فورم کے ممبران کی طرح، ان سے زیادہ نہیں۔

اور یہ بات بہت یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ہم 100 سے لیکر 200 یورو تک کا رسک بغیر کسی پریشانی کے لے سکتے ہیں۔ یہ ایک معمولی رقم ہے، جو اگر رسک فری نہ بھی ہو تو بھی ہمیں ڈرنا نہیں چاہیے۔

بات رقم کی نہیں اس بدمزگی کی ہے جو کسی بھی گڑبڑ کی صورت میں ہوتی ہے۔ ایسی مثالیں عموماً اچھے دوستوں میں بھی مل جاتی ہیں۔

میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ کسی پر اعتبار ہی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اعتبار ہر شخص خود سوچ سمجھ کر کرے گا (یا نہیں کرے گا)۔ مسئلہ یہ ہے کہ اردوویب اور یہ محفل اس میں involve ہوں گے اور ان کو بھی دھچکہ لگ سکتا ہے۔

آخری بات یہ کہ اس لائبریری پراجیکٹ کے لئے میرا آئیڈیل پراجیکٹ گٹنبرگ ہے اور وہ ہمیشہ سے رضاکاروں پر چلتا آیا ہے۔ اب پچھلے کچھ سالوں سے وہ ڈونیشن لے رہے ہیں۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مہوش علی نے کہا:
۔ ہمیں پاکستان اور انڈیا کی سستی لیبر کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
۔ ہمیں پاکستان اور یورپ کی کرنسی کی قدر میں جو فرق ہے، اُس کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔

مہوش ،

میں آپ سے مذکورہ بالا دونوں نکات کے حوالے سے کچھ مزید وضاحت کی درخواست کروں گی ۔

شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
کچھ فرصت نہیں ملی اب تک، اور میرے ذہن میں جو کچھ کل تھا، ان میں سے کچھ باتیں اس وقت بھول گیا ہوں اس لئے بھی کہ کچھ نئی باتیں سامنے آئی ہیں۔ بہر حال کچھ مشورے میری طرف سے:
پہلی بات یہ کہ لائبریری پروجیکٹ سے متعلق افراد کی جب ایک ٹیم ہے تو وہ صفحات جہاں صرف یہ لوگ لاگ ان کر سکتے ہوں، ان میں ایک ایسا ہو جہاں سارے ارکان کی مکمل معلومات ہو، اصل نام اور اصل پتہ، ای میل وغیرہ، اور کم از کم یہ سارے رضاکار ایک دوسرے کے معاملے میں شفاف ہوں۔
دوسری بات یہ کل ہی میں نے محسوس کیا تھا کہ اس پروجیکٹ کو مرکزی حیثیت دینے میں مزید مشکلات اور فضول خرچی ہوگی۔ مثلاً سارا فنڈ ایک جگہ جمع کرنا اور عالمی طور پر اس کی تقسیم۔ اس سے بہتر ہے کہ سارے رضاکار (موجودہ ٹیم اور مستقبل میں اختیاری طور پر شامل ہونے والے) اپنے اپنے شہروں میں ہی رقم کی فراہمی اور خرچ کا انتطام کریں، کیوں آخر ویسٹرن یونین وغیرہ کو رقم دی جائے؟ ہند و پاک سے باہر ممالک کے افراد بھی اپنا کنٹریبیوشن برِّ صغیر میں ہی بھیج دیں۔ دوسرے الفاظ میں اس کا ایک مرکز ہندوستان اور ایک پاکستان میں بنایا جائے جہاں اصل کام کیا جائے سستے لیبر کے باعث۔ اور مرکزی رابطہ اردو ویب ہی ہو۔
اس کے علاوہ اب اپنی نا اہلی پر افسوس ہو رہا ہے۔ میں اردو اداروں وغیرہ سے بہت دور رہتا آیا ہوں اور اس لئے نہ ناگپور میں کسی پریس یا ڈی ٹی پی ادارے سے واقف ہوں نہ حیدر آباد میں۔ ناگپور سے تبادلے کے لئے میں کوشاں ہوں اور ممکن ہے کہ جولائی اگست تک ٹرانسفر ہو جائے۔ لیکن وہاں ایک دوسرا مسئلہ ہے۔ دفتر اور گھر کے درمیان 26 کلو میٹر کے فاصلے کے باعث میں صبح آٹھ سے رات آٹھ تک گھر سے باہر رہتا ہوں۔ پھر بھی اس بار حیدر آباد گیا تو ادارہ ادبیاتِ اردو میں کوئی رضاکار ڈھونڈھوں گا۔ یہ دوسری بات ہے کہ اردو کتابوں کی ڈیجیٹل شکل سے ہی لوگ متفق نہیں ہوتے۔ کل شام کو ہی ہمارے سرور عالم راز صاحب ہی متفق نہیں ہوئے۔ اور ان کے ذہن میں اب بھی یونی کوڈ کا مطلب نسخ ہے (محسن حجازی کیا حجاز چلے گئے؟) اور کہتے ہیں کہ نسخ پڑھنے کو جی نہیں چاہتا۔
(جملۂ مرتضہ یہ کہ سرور بھائی پچھلے دو ماہ سے علی گڑھ آئے ہوئے ہیں، بلکہ میں نے اپنا اپریل میں یہاں آنے کے پلان کو اسی وجہ سے پیچھے کر دیا کہ ان سے یہاں ملاقات ھو سکے جو ٹکساس میں نہیں ہو سکی تھی۔ موصوف بلکہ ان کے بڑے بھائی یہاں ہمارے پڑوسی رہے ہیں)
بہر حال میں یہ ذمہ داری ضرور لے سکتا ہوں کہ مجھے مسودہ ای میل سے بھیج دیا جائے اور میں اس کی تصحیح کر سکوں (یا پروف ریڈنگ ہی کہا جائے)۔ علی گڑھ میں بھی شعبۂ اردو میں آج ہی بات کرتا ہوں۔
البتہ ریٹائر مینٹ کے بعد تو میں یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ باقاعدہ ایک ادارہ حیدرآباد میں بنا دیا جائے۔
 

رضوان

محفلین
شارق مستقیم، نعمان (کراچی) ، شاکر (فیصل آباد) ، قدیر احمد (ملتان)،وہاب اعجاز (بنوں)، راجہ صاحبان، شمشاد(سعودی عربیہ)، فریب (؟ ) شمیل قریشی (بہاولپور) اور محب اب لاہور پہنچ چکے ہوں گے بھائی آپ اپنی قیمتی رائے دیں۔
اس وقت تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہر شخص اپنی ذات میں ایک ادارہ ہے۔ اس پوٹینشل کو سمت دینی بہت ضروری ہے۔ اسکولوں کو پروجیکٹ کی شکل میں کام دیا جاسکتا ہے۔ میں اپنی ذاتی تفصیلات صرف چیدہ چیدہ افراد تک محدود رکھنے کی حد تک فراہم کرنے پر راضی ہوں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
مہوش بہن، یہاں فنڈ ریزنگ پر بات تو چلتی رہے گی، میں آپ کی پوسٹ سے متعلقہ چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں:

مہوش علی نے کہا:
پھر عرض کر دوں کہ یہ ذاتی رائے ہے اور آپ مجھ سے اختلاف کر سکتے ہیں۔ لیکن اعجاز صاحب، شاکر، شارق، رضوان، شگفتہ سسٹر، محب، اظہر ، ڈاکٹر راجہ ۔۔۔۔ یہ سب وہ اراکین ہیں جن کا نام آنے پر میں اپنی آنکھیں بند کر سکتی ہوں اور پھر بھی مجھے کسی چیز کا ڈر نہیں ہو گا۔

ان میں ایک دو حضرات کے متعلق میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ پڑھنے کے بعد ہنس ہنس کے ان کے پیٹ میں بل پڑ چکے ہوں گے۔ :D

یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا۔ آپ جو خواتین کے رسالوں کی مثال دیتی ہیں، اس کے بارے میں بھی میرے کچھ تحفظات ہیں۔ اس نوعیت کا مواد برقیانا شاید اتنا ضروری نہیں ہے۔ یہ میری ذاتی رائے ہے۔ باقی جیسا آپ چاہیں کریں۔
 

زیک

مسافر
مہوش: میں نے پہلے آپ کی پوسٹ کے کچھ حصے نظرانداز کر دیئے تھے جن کا تعلق موضوع یعنی فنڈریزنگ اور کسی سے ٹائپ کروانے سے نہ تھا۔ مگر وہ بھی ایک اہم بات ہے کہ کس قسم کی کتابیں وغیرہ برقیائی جائیں۔ اس پر ایک علیحدہ تھریڈ ہو تو بہتر ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
نبیل نے کہا:
مہوش بہن، یہاں فنڈ ریزنگ پر بات تو چلتی رہے گی، میں آپ کی پوسٹ سے متعلقہ چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں:

مہوش علی نے کہا:
پھر عرض کر دوں کہ یہ ذاتی رائے ہے اور آپ مجھ سے اختلاف کر سکتے ہیں۔ لیکن اعجاز صاحب، شاکر، شارق، رضوان، شگفتہ سسٹر، محب، اظہر ، ڈاکٹر راجہ ۔۔۔۔ یہ سب وہ اراکین ہیں جن کا نام آنے پر میں اپنی آنکھیں بند کر سکتی ہوں اور پھر بھی مجھے کسی چیز کا ڈر نہیں ہو گا۔

ان میں ایک دو حضرات کے متعلق میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ پڑھنے کے بعد ہنس ہنس کے ان کے پیٹ میں بل پڑ چکے ہوں گے۔ :D

یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا۔ آپ جو خواتین کے رسالوں کی مثال دیتی ہیں، اس کے بارے میں بھی میرے کچھ تحفظات ہیں۔ اس نوعیت کا مواد برقیانا شاید اتنا ضروری نہیں ہے۔ یہ میری ذاتی رائے ہے۔ باقی جیسا آپ چاہیں کریں۔

لول۔:p

شاید آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔

اب انسان کہاں کہاں، کس کس بات کا خیال رکھے۔ :)

ادھر کی مثال تو یوں ہوتی جا رہی ہے:

بچ کر کہاں جائیں، اس سیاسی جنگل میں
ایک طرف درندہ ہے، ایک طرف شکاری ہے۔

تو ذرا سی چوک کا مطلب اس محفل پر بھی شکار ہو جانا ہے۔ :)



گھریلو خواتین کے لیے کہانیوں کے معاملے میں بھی آپ کی رائے میری رائے سے زیادہ صائب ہے۔ بہرحال، اس کو مستقبل میں دیکھیں گے کہ کیسے گھریلو خواتین کو Attract کیا جائے۔

اور کاپی رائیٹ کے متعلق مزید پڑھ کر کچھ ہمت ٹوٹی بھی ہے، کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ اب ہم نسیم حجازی کے ناولوں کو کبھی کاپی رائیٹ سمیت برقیا سکیں گے۔

(کیا آپ مجھے التتمش کی اُس کتاب کا نام بتا سکیں گے جس میں صلاح الدین ایوبی اور حسن بن صباح اور اُس کے فدائین کا ذکر ہے۔ اس کتاب کے 6 حصے تھے۔ میرے ذہن سے اس کا نام نکل گیا ہے)۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
مہوش، ہمت ہارنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نسیم حجازی کے ناول بھی برقیائیں گے۔

آپ کے بتائے ہوئے مصنف کے متعلق تو مجھے بھی صحیح طرح سے یاد نہیں۔ کہیں آپ “اندھیری رات کے مسافر“ کے متعلق بات تو نہیں کر رہیں۔

اس کے علاوہ آپ نے اوپر مولانا وحید الزماں کا ذکر کیا ہے۔ کیا یہ وہی نہیں جو الرسالہ شائع کرتے ہیں؟ اگر یہ وہی ہیں تو یہ میری آخری اطلاعات کے مطابق حیات ہی ہیں۔
 

آصف

محفلین
میرا خیال ہے یہ وہ مولانا وحید الزمان نہیں ہیں۔ وہ تراجم تو کافی پرانی بات ہیں۔ اور مہوش کا کہنا بالکل درست ہے کہ انکا کام تمام مسلمانوں کیلئے سر آنکھوں پر ہے۔ ماشاءاللہ اتحاد بین المسلمین کی علامت ہے یہ نام۔
 

مہوش علی

لائبریرین
آپ نے نسیم حجازی کے ناولوں کا ذکر اتنے اعتماد سے کر کے میرا ڈھیروں سیر خون بڑھا دیا ہے۔

اور میں اندھیری رات کے مسافر کی بات نہیں کر رہی، بلکہ اس 6 جلدوں کے لکھنے والے "نسیم حجازی" نہیں بلکہ "التتمش" نامی ایک صاحب ہیں۔ ان کا طرز تحریر بالکل نسیم حجازی والا ہے، مگر صلاح الدین ایوبی پر ان کی اس کتاب کو میں نسیم حجازی کی تمام تر کتب سے اوپر رکھتی ہوں۔ افسوس کہ مجھے اسکا نام یاد نہیں رہا۔


اور مولانا وحید الزمان خان صاحب کا انتقال بہت پہلے ہو چکا ہے، اور واقعی یہ وہ عالم دین ہیں کہ جن پر برصغیر میں کوئی انگلی نہیں اٹھاتا۔ اور ان کی قابلیت اور لیاقت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ انہوں نے تمام تر صحاح ستہ کا بشمول شرح کے ترجمہ کیا۔ بلکہ ان کی تیسیر الباری فی الشرح صحیح بخاری تو بہت ہی مشہورکتاب ہے۔

اگر صحاح ستہ کو اردو میں سٹینڈرائزڈ کرنا ہے، تو پھر مولانا وحید الزمان خانصاحب کے تراجم سے بہتر اور کوئی حل نہیں ہو سکتا۔


کاپی رائیٹ کے حوالے سے میرا ایک اور سوال تھا۔

۔ ۔۔۔ کہا جا رہا ہے کہ مصنف کے مرنے کے 50 سال بعد کتاب کاپی رائیٹ سے آزاد ہو جاتی ہے۔

میرا سوال ہے کہ نفیس اکیڈمی نامی پورا ادارہ ہی ختم ہو گیا ہے۔ اب اگر اُن کی کتب چھاپنی ہے تو کیا اس صورت میں بھی ہمیں 50 سال انتظار کرنا ہو گا؟
 

الف عین

لائبریرین
مہوش۔ آپ کی زیادہ تر باتوں سے میں متفق ہوں سوائے کتب میں ترجیحات کے۔ خواتین کے بارے میں میرا خیال ہے کہ انھیں ہر قسم کے فکشن سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ محض اے حمید ہی نہیں، رضیہ بٹ (اگر میں نام بھول نہیں رہا ہوں تو)، سے لے کر قرہ العین حیدر تک ان کی پسندیدہ مصنفین ممکن ہیں، ان پر توجہ دی جائے۔
اس کے علاوہ خواتین اور بچوں کے ادب کے سلسلے میں ہندوستان اور پاکستان میں بہت کم قدرِ مشترک ہے۔ ہندوستان میں کھلونا اور پیامِ تعلیم (اور اس سے پہلے کلیاں اور پھول) وغیرہ رسائل، اور کتابوں میں پہلے اسمعیل میرٹھی اور بعد میں شفیع الدین نیر اور راجہ مہدی علی خاں کی شاعری، سراج انور کے ناول وغیرہ اہم رہے ہیں۔ پاکستانی بچوں کاادب میں نے دیکھا ہی نہیں۔ بلکہ جاسوسی ادب میں بھی یہاں تو ابنِ صفی کی کتابیں ’جاسوسی دنیا‘ اور ’نکہت‘ میں شائع ہوتی تھیں سیریز میں نہیں۔ بعد میں کئی ناشرین نے یہاں بھی سیریز کے تحت کچھ ناول چھاپے۔ ان کا بھی کاپی رائٹ کے بارے میں میرا علم ناقص ہے۔
ہماری ترجیحات پہلے کلاسیک ہی ہونے چاہئے جس میں کاپی رائٹ کا مسئلہ پیدا ہونے کی چنداں امید نہ ہو۔ غالب کا تو اب کنفرمڈ ہو گیا ہے کہ کاپی رائٹ سے آزاد ہے لیکن اقبال کا کاپی رائٹ جاوید اقبال، ان کے صاحبزادے نے اپنے نام محفوظ کرایا تھا۔ جو میرے خیال میں ابھی ایکسپائر نہیں ہوا ہے۔ یہاں شعبۂ اردو اور دوسرے کچھ اردو اسکالرس سے بھی میں نے گفتگو کی تو ان کا مشورہ بھی کلاسیک کے بارے میں ہے اور بطور خاص وہ کتابیں جو اب آؤٹ آف پرنٹ ہو گئی ہیں۔ ایک صاحب نے پریم چند کی ہی پریم پچیسی کا نام لیا جو انھیں یہاں لائبریری میں دستیاب نہیں ہو سکی۔ پریم چند بھی اچھے ’کنڈیڈیٹ‘ ہیں۔
 

نعمان

محفلین
کیا آپ لوگوں کے مد نظر یہ بات بھی ہے کہ اسطرح ٹائپ کروائی گئی کتاب کی پروف ریڈنگ کیسے ہوگی اور یہ کیسے پتہ چلے گا کہ جن صاحب کی خدمات حاصل کی گئی تھیں انہوں نے دلجمعی سے ٹائپنگ کی ہے؟ خصوصا اگر آپ تفسیر، احادیث وغیرہ پر کام کرنا چاہ رہے ہیں تب تو یہ بہت ضروری ہے کہ ٹائپنگ درست ہو۔

طلسم ہوشربا، داستان امیرحمزہ وغیرہ میں ٹائپسٹ کو کافی تکلیف کا سامنا ہوگا کیونکہ ان میں جو زبان استعمال ہوئی ہے وہ عرصہ ہوا متروک ہوگئی ہے درستگی برقرار رکھنے کے لئیے کام کی رفتار سست کرنا ہوگی اور اس لحاظ سے اگر آپ دیکھیں تو اس کام کی اجرت آپ لوگوں کے اندازوں سے کافی زیادہ بنتی ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اعجاز صاحب، گھریلو خواتین اور بچوں کے حوالے سے میری گذارشات صرف ایک رائے کی حیثیت رکھتی تھیں اور یقینی طور پر ہم بغور ان معاملات کا جائزہ لینے کے بعد ہی کسی فیصلے پر پہنچے گیں۔

میری نظر کے مطابق مسئلہ کچھ یوں ہو گیا ہے کہ آج سے پچاس سال قبل جو کلاسیکل اردو ادب لکھا گیا تھا، اور آج کے دور میں کم از کم 2 نسلوں کا فرق آ گیا ہے۔ Two Generation Gap

قرۃ العین حیدر اور فاطمہ ثریا بجیا کے ناول (جیسے عروسہ، افشاں وغیرہ) یقینا آج بھی مقبول عام ہیں۔ مگر آجکل کی پاکستان میں موجود گھریلو خواتیں کیا پڑھنا چاہتی ہیں، اس کا مجھے پھر بھی صحیح معنوں میں علم نہیں ہے۔ میں نے تو اپنے خاندان والوں کو صرف پاکیزہ اور خواتین اور کرن ڈائجسٹ وغیرہ کی طرف ہی لپکتے دیکھا ہے۔

چونکہ اس مسئلہ میں میرا اپنا علم بہت کم ہے اور میں نے قرۃالعین حیدرر یا منشی پریم چند وغیرہ کو نہیں پڑھا ہے، اس لیے میں اس مسئلے پر بولتے ہوئے اور بھی گھبرا رہی ہوں۔

میرے کہنے کا مقصد یہی ہے کہ اس دو جنریشن کے گیپ کو بھی مدنظر رکھا جائے۔

اب جیسے طلسم ہوشربا اور داستان امیر حمزہ کی بات ہے، تو مجھے بعد میں پتا چلا کہ یہاں موجود احباب اس کے Original متن کو برقیانے کی بات کر رہے ہیں، جس میں بہت پرانی اور دقیق اردو استعمال کی گئی ہے۔ جبکہ جب میں نے ان کتابوں کے نام لیے تھے، تو میری مراد "مقبول جہانگیر" کی لکھی ہوئی طلسم ہوشربا اور داستان امیر حمزہ تھی۔ "مقبول جہانگیر" نے یہ دونوں کتابیں نئے سرے سے صرف اور صرف بچوں کے لیے لکھی ہیں اور بہت ہی سلیس اور آسان اردو میں لکھی ہیں۔ میں نے آٹھ نو سال کی عمر میں یہ پڑھی تھیں اور مجھے سب سمجھ آیا تھا۔ لیکن جہاں تک اصل طلمسم ہوشربا کا تعلق ہے، تو وہ تو اگر میں آج پڑھوں تو بھی کبھی مکمل سمجھ نہیں پاؤں گی۔

مجھے ڈر ہے کہ آج کل کی نسل آسان تفریحی مواد چاہتی ہے۔ اور اگر ہم آساتن تفریحی مواد کی بجائے پچاس سال پرانے قدیم کلاسیکل ادب پر چلے گئے تو نتائج شاید زیادہ اچھے برآمد نہ ہوں۔


پاکستانی بچوں کے حوالے سے بھی یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہ ابن صفی کی عمران سیریز نہیں پڑھتے، بلکہ اُنکا زور نئے عمران سیریز لکھنے والوں کی طرف ہے جیسے مظہر کلیم ایم اے وغیرہ۔ یہ ایک بہت واضح فرق ہے جسے میں نے نوٹ کیا تھا۔

وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کے رجحانات بدلے ہیں۔ مارکیٹ میں نیا لٹریچر موجود ہے اور بہت معیار کا لٹریچر ہے۔ مگر افسوس کہ یہ تمام تر نیا مواد کاپی رائیٹ کی بندش میں بندھا ہوا ہے۔

ہمیں ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنے ہوں گے، اور مجھے لگتا ہے کہ کاپی رائیٹ کی وجہ سے ہمارا فیصلہ 90 فیصد پچاس سالہ قدیم کلاسیکل اردو ادب ہی نکلے گا۔ اگر ایسا ہوا بھی، تو بھی کوئی پرابلم نہیں۔ ہمیں کہیں نہ کہیں سے تو آغاز کرنا ہی ہے۔



نعمان، آپ نے بھی بہت صحیح باتیں کہیں ہیں۔ یقینی طور پر جب دینی کتب کو ڈیجیٹائز کیا جائے گا تو ٹائپنگ کی غلطیوں کو بالکل ہی نہیں برداشت کیا جا سکے گا۔ اس صورت میں ہمیں یقینا ایک پروفیشنل پروف ریڈر کو بھی ہائر کرنا ہو گا۔

جہاں تک صحاح ستہ کے عربی متن کا تعلق ہے، تو وہ پہلے سے ہی نیٹ پر موجود ہے۔ ٹائپسٹ کو صرف صحیح عربی ٹیکسٹ کے نیچے (یا اگر جدول کی صورت میں ہوا تو سامنے) صحیح اردو عبارت ٹائپ کرنا ہو گی۔

پروفیشنل پروف ریڈر کو ہائر کرنے کی صورت میں یقینا اخراجات بڑھ جائیں گے۔ لیکن دوسری طرف مجھے یقین ہے کہ مذہبی کتب کے نام پر لوگ بڑھ چڑھ کر چندہ بھی دیں گے۔ طریقہ کار یہی ہے کہ پہلا قدم اٹھا کر دو تین کتب خود برقیانی پڑیں گی۔ اور پھر ان دو تین کتب کو دیکھ کر لوگ خود ہی رقم ڈونیٹ کرنا شروع کر دیں گے۔


سب چیزیں منحصر اس بات پر ہیں کہ ہم کس طرح ڈونیشن کے لیے اپنی اپنی کمیونٹی سے رابطہ کرتے ہیں۔ میرے چھوٹے سے شہر میں تو گنی چنی پاکستانی فیملیز ہیں، مگر انگلینڈ اور امریکہ اور کینیڈا تو متمول پاکستانیوں سے بھرا پڑا ہے۔ یہی حال دبئی اور شارجہ کی اردو کمیونٹیز کا ہے۔ اگر ہم ان سب کو ملا کر 300 ڈالر ماہانہ چندہ نہ اکھٹا کر پائیں، تو یہ ہماری نالائقی ہی ہو گی۔


رضاکارانہ بنیاد پر کام کرنے کی ایک مثال پردیسی صاحب کی ہے، جو کہ قران کا ترجمہ ٹائپ کر رہے تھے (یا پھر پہلے سے ٹائپ شدہ تھا، اور وہ صرف انپیج فائلوں کو یونیکوڈ میں تبدیل کر رہے تھے)۔ لیکن دس سورتوں کے بعد اُن کی ہمت جواب دے گئی اور ابتک یہ کام ادھورا پڑا ہے۔

انہی سب چیزوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے رائے دی تھی کہ اردو کی ترویج کے لیے لازمی ہے کہ کام کو رضاکارانہ بنیادوں سے اٹھا کر پروفیشنل بنیادوں پر لایا جائے۔ اگر ہم رضاکار بنیاد پر ہی جمے رہے تو ہو سکتا ہے کہ بہت زیادہ وقت لگے اور اردو اس دوران میں مجروح ہوتی رہے۔

صحیح انداز یہ ہو گا کہ پروفیشنل اور رضاکار کام دونوں بہ یک وقت جاری رکھے جائیں۔ ہمارے پاس برقیانے والی کتب کی لسٹ ہونی چاہیے (پہلی شرط)۔ اگر کوئی رضاکار کسی کتاب کے لیے حامی بھرتا ہے تو بہت اچھا ہے، ورنہ دیگر صورت میں وقت آنے پر اسے پروفیشنل ٹائپسٹ کے حوالے کر دیں۔
 

رضوان

محفلین
گو کہ کسی بھی منصوبہ کے لیے آنے والے امکانی ثمرات و خطرات کا زیادہ سے زیادہ جائزہ ، پیش بندی کے لیے ضروری ہوتا ہے لیکن اب بات آگے نہیں بڑھ رہی ہے۔
جو کام ڈیجیٹل لائبریری میں ہو رہا ہے ان کے لیے بھی کاپی رائٹ کے مسائل ابھی تک سلجھنے کے منتظر ہیں لیکن کام تو ہو رہا ہے۔

اب سوال صرف یہ ہے کہ معاوضہ پر کام کروایا جائے یا نہیں؟
معاوضہ کون دیگا؟
کون فیصلہ کریگا کہ کن کتابوں کو برقیایا جائے؟
کن لوگوں کو کتابوں کی لکھائی کا کام سونپا جائے؟
 

سیفی

محفلین
نبیل نے کہا:
یہاں ایک مرتبہ پھر آپ سب سے گزارش ہے کہ اگر کوئی دوست اس بارے میں معلومات رکھتے ہوں یا وہ کسی ایسے آدمی کو جانتے ہوں جن کے پاس یہ معلومات ہوں تو ان سے گزارش ہے کہ وہ یہ معلومات مجھ تک بہم پہنچائیں۔ میں آپ کو ساری عمر دعائیں دوں گا۔ :p

نبیل بھیا درج ذیل لنک سے مائیکرو سافٹ ایکسیس کی ایک فائل ڈاؤنلوڈ کر کے دیکھئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاید آپ کے کچھ کام آجائے اور ہم بھی آپ کی دعاؤں میں حصہ دار بن جائیں :D

انپیج کیریکٹر چارٹ
 

سیفی

محفلین
مہوش علی نے کہا:
(کیا آپ مجھے التتمش کی اُس کتاب کا نام بتا سکیں گے جس میں صلاح الدین ایوبی اور حسن بن صباح اور اُس کے فدائین کا ذکر ہے۔ اس کتاب کے 6 حصے تھے۔ میرے ذہن سے اس کا نام نکل گیا ہے)۔

کہیں آپ “داستان ایمان فروشوں کی“ کا تذکرہ تو نہیں کر رہیں
 

مہوش علی

لائبریرین
سیفی نے کہا:
مہوش علی نے کہا:
(کیا آپ مجھے التتمش کی اُس کتاب کا نام بتا سکیں گے جس میں صلاح الدین ایوبی اور حسن بن صباح اور اُس کے فدائین کا ذکر ہے۔ اس کتاب کے 6 حصے تھے۔ میرے ذہن سے اس کا نام نکل گیا ہے)۔

کہیں آپ “داستان ایمان فروشوں کی“ کا تذکرہ تو نہیں کر رہیں

جی سیفی برادر، بالکل یہی کتاب ہے۔ میرے نزدیک اس کتاب کی بہت اہمیت ہے۔ ایک وجہ تو یہی ہے کہ صلاح الدین ایوبی کا اپنا کردار دیومالائی کہانیوں کی حد تک بلند تھا۔ دوسری طرف اُس کو مدمقابل بھی اپنی طرح کردار کا بادشاہ "رچرڈ شیر دل" ملا۔

باقی افسانہ گوئی تو بہت زیادہ ہے، مگر مجھے امید نہیں ہے کہ 100 فیصد خالص تاریخ میں ہمارے بچے دلچسپی لے سکیں گے۔

نبیل بھائی، کیا آپ نے یہ کتاب نہیں پڑھی ہے؟ نسیم حجازی کی کتابیں یقیناً میں متاثر کن ہیں، مگر "داستان ایمان فروشوں" میں محلاتی اور دیگر سازشوں کے بارے میں پڑھ کر تو خون ہی کھول اٹھتا ہے۔
 

آصف

محفلین
میرا خیال ہے یہ کتاب ابھی تک کاپی رائٹ کی بندش میں ہے۔ اس کو اردو ڈائجسٹ والوں نے نہیں شائع کیا تھا؟
 
Top