چونکہ شگفتہ سسٹر کے طویل مراقبے کے مقابلے میں میرا مراقبہ بہت مختصر ہے، اس لیے اپنے مختصر خطبہ کے لیے دوبارہ حاضر ہو گئی ہوں۔
سسٹر شگفتہ، آپ نے لکھا ہے:
رضاکاروں کا مستقبل :
اس ضمن میں شاید یہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ رضاکارانہ کام کی حیثیت کیا ہے ؟
جو چند رضاکار آئندہ چند ہفتوں میں لائبریری کے لئے کچھ نہ کچھ لکھنے والے تھے ان کا بیان اب یہ ہے کہ ہماری کیا ضرورت ہے جب آپ پیسے دے کے لکھوا سکتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ باقی رضاکار استقامت کے کس درجے پر ہیں کم از کم میری رضاکارانہ ٹیم وجود میں آنے سے پہلے ہی مستعفی ہوچکی ہے لیکن میں فنڈ ریزنگ کی مخالفت نہیں کروں گی ۔ اس کے فوائد یا مضمرات کا قطعی فیصلہ تجربہ کی روشنی میں ہی کیا جاسکے گا۔ رضوان صاحب نے جو راستہ اپنایا ہے اس کے نتائج کا ہمیں انتظار کرنا چاہئے ۔ پھر وہی بات کہ وقت درکار ہے ۔
یہ اچھی نشانی نہیں ہے کہ رضاکار ٹیم نے اس بنیاد پر اپنی سپرٹ کھو دی ہے۔
شاید کہ ہم کوئی ایسی درمیانی راہ نکالنے میں کامیاب ہو جائیں کہ جس سے رضاکارانہ پروجیکٹ اور پروفیشنل الگ الگ فیلڈ میں کام کریں۔ گو کہ۔۔۔۔۔ شاھین کا جہاں اور کر دیں اور کرگس کا جہاں اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شگفتہ سسٹر نے مزید ایک نقطہ اٹھایا ہے
لائبریری پراجیکٹ کیسا سلسلہ ہے ؟
کیا اس کے لئے حد معین ہو کہ اتنے وقت تک یہ کام کرنا ہے اور بس ،
یا
اس سلسلے کو وقت کے لحاظ سے لامحدود ہونا چاہیے ؟
(لامحدود ہونا چاہیے۔) (میری رائے )
اس معاملے میں میری رائے یہ ہے کہ
کافی وقت دینا چاہیے،
لیکن لامحدود نہیں۔
دیکھئیے، بہت سی چیزیں شاید ایسی ہوں کہ جن کی ہمیں فورا ضرورت ہو تاکہ نئی نسل کو جہاں تک ممکن ہو سکے جلد از جلد اردو سے روشناس ہونے کے مواقع مل سکیں۔
پہلے ہی ہماری نئی نسل اردو سے دور ہے۔ یہ چیز پرانی نسل کی اردو کا معیار دیکھ کر کہی جا سکتی ہے کہ اردو نئی نسل میں تنزلی کا شکار ہے۔
اگر رضاکار پروجیکٹ بہت وقت لے جاتا ہے اور ٹیم میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو پاتا تو شاید اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت پیش آئے۔
خیر، وقت کے ساتھ ساتھ اس بات کا اندازہ بھی ہو جائے گا۔ خصوصاً بڑی کتابوں کا برقی شکل میں آنا بہت ہی مشکل کام ہو گا۔ یا اس صورت میں کہ پرانی کتاب کا ایک ہی نسخہ کسی رضاکار کے پاس ہو۔
ایک آپشن ہے کہ پرانی کتابوں کو سکین کر کے رضاکار حضرات میں بانٹ دیا جائے۔ مگر یقین جائیے کہ یہ اتنا آسان نہیں ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سسٹر شگفتہ کا ایک پوائنٹ یہ ہے:
دوسرا سوال : کیا پیسہ شامل ہونے کے بعد اس پراجیکٹ کو تجارتی شکل دے دی جائے گی ؟
نہیں۔ فنڈ دینے والوں کو کسی قسم کی شرائط عائد کرنے کی آزادی نہیں ہو گی۔ ۔۔۔۔ میں ڈائلاگز میں اتنی اچھی تو نہیں ہوں، لیکن پھر بھی۔۔۔۔۔۔ سیدھی طرح پیسہ دینا ہے تو دیجئیے، ورنہ پھوٹیے پتلی گلی سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جو سب سے اہم سوال اس ضمن میں ہے اس کا ذکر سسٹر شگفتہ نے یوں کیا ہے:
تیسرا سوال : اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ پیسہ دینے والے افراد اور پیسہ تقسیم کرنے والے افراد اور پیسہ خرچ کرنے والے افراد یہ تینوں پیسے کے حوالے سے اس پراجیکٹ کے ساتھ انصاف کرسکیں گے؟
کیا وہ اپنی پسند اور خواہش کو نظرانداز کرسکیں گے؟ بالخصوص اگر کسی مرحلے پر وہ کسی بھی طرح کے جذبات یا تعصب کا شکار ہوجائیں تب ان کی سوچ کیا اس پراجیکٹ کو متاثر نہیں کرے گی ؟
ان تینوں طرح افراد کے جداگانہ اختیارات کیا ہوں گے ؟
ان اختیارات کو کون مشخص کرے گا ؟
قوانین و ضوابط کون بنائے گا ؟
قوانین و اصول و ضوابط میں ترمیم کن بنیادوں پر کس کو کرنے کا حق حاصل ہوگا ؟
اصول و ضوابط پر عمل ہورہا ہے یا نہیں کون کس بنیاد پر کس طرح چیک کرے گا؟
کسی بھی مرحلے پر کام کرنے والے افراد کے اتحاد کو کس طرح برقرار رکھا جائے گا؟
پراجیکٹ کی شکل واضح ہونے اور نکھر جانے (انشاءاللہ) کے بعد اسے حکومتی ، سیاسی ، مذہبی ، تجارتی اجارہ داروں سے کس طرح بچایا جائے گا ؟
چاہے ہم رضاکارانہ کام کریں یا فنڈ حاصل کر کے یہ لوگ وقت ضایع نہیں کریں گے اس کام کو ہائی جیک کرنے میں اور اپنے عزائم کے لئے استعمال کرنے میں ۔
اس سلسلے میں سب سے پہلی چیز جو میرے سامنے رہتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ دنیا پرفیکٹ نہیں ہے اور کہیں نہ کہیں ہمیں کمپرومائز کرنا پڑتا ہے اور کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی پر اعتماد کرنا پڑتا ہے۔
کسی بھی بڑے پراجیکٹ کو کامیابی دلانے کے لیے کچھ افراد کی ٹیم پر اعتماد کرنا ہی ہو گا۔
حتیٰ کہ اگر ہم صرف رضاکارانہ پروجیکٹ ہی کیوں نہ چلائیں، پھر بھی کچھ لوگوں پر اعتماد کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر یہاں فورم کے کچھ رولز ہیں کہ یہاں کس قسم کے ٹاپکز ڈسکس ہو سکتے ہیں، اور کونسی چیزیں پوسٹ کرنا ممنوع ہیں (مثلاً نفرت انگیز یا ہیجان انگیز قسم کی چیزوں کی ممانعت ہے)۔ اور ہم فورم کے ناظمین سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ رولز کو Follow کریں گے اور دوسروں سے بھی کرائیں گے۔
اسی طرح، اگر فنڈز کو کاپی رائیٹ خریدنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، تب بھی یہ سوال سامنے رہے گا کہ کون ڈونیشن دے گا، کون فیصلہ کرے گا کہ کس کتاب کے کاپی رائیٹ خریدے جائیں،۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
اس صورت میں بھی کسی ایسی ٹیم پر اعتماد کرنا ہی پڑے گا جو کہ رولز کے مطابق فیصلے کرے۔
چلیں یوں کرتے ہیں کہ ابتدائی طور پر فنڈز کو صرف کاپی رائیٹ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اب یہ ٹیم کیسے ترتیب دی جائے، اور آخری فیصلہ کس کا ہو گا۔۔۔ وغیرہ وغیرہ، تو یہ باتیں بعد میں طے ہو سکتی ہے۔
عملی طور پر یہ آگے بڑھنے کا واحد طریقہ ہے، ورنہ اگر ہم ایسی ٹیم ترتیب نہیں دے سکتے، یا اُس پر اعتماد نہیں کر سکتے۔۔۔ تو پھر کوئی بھی مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
آپ لوگوں کو اس معاملے میں سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہو گا۔
جہاں تک سوال ہے کہ سیاسی، یا حکومتی یا مذہبی عناصر اس پروجیکٹ کو ہائی جیک کر سکتے ہیں، تو میرے خیال میں یہ اتنا آسان نہیں ہے۔
ہم لوگ اتنے عرصے سے یہاں موجود ہیں کہ ایک دوسرے کو بہت حد تک جانتے ہیں۔ کون اختلاف رائے کو کتنا برداشت کر سکتا ہے، یہ بھی جانتے ہیں۔ [ یاد رہے، رائے میں اختلافات ہمیشہ رہیں گے کیونکہ جب بھی کسی کام کے لیے کوئی بھی ٹیم بنتی ہے، اُس میں اختلافات ہمیشہ رہتے ہیں]۔
میری ذاتی رائے اس فورم کے ممبران کے لیے بہت Positive ہے۔ یہ اردو دانوں کے ایک پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے طبقے پر مشتمل ہے۔ اور اگر یہ شائستہ اور تہذیب دار طبقہ بھی ٹیم ورک کرنے سے قاصر ہے، تو پھر انا للہ پڑھ لینی چاہیے۔
اسی لیے میں Optimist ہوں کہ ہم ایک اچھی ٹیم تشکیل دے سکتے ہیں۔
ڈونیشن بینر Raise کرنے سے پہلے ہمیں ذیل کے کام کرنے ہیں:
1۔ رولز کو مکمل طور پر ڈیفائن کرنا ہے۔
2۔ ٹیم کو تشکیل دے لینا ہے۔
3۔ اُن کتابوں کی کم از کم ایک Partial لسٹ بنا لینی ہے جو ہم ڈیجیٹائز کرنا چاہتے ہیں (چاہے ان کتابوں کا تعلق زندگی کے کسی بھی موضوع سے کیوں نہ ہو)۔
اس لسٹ کی اہم خصوصیت یہ ہو کہ یہ بتائے کہ ایک کتاب کو ڈیجیٹائزڈ کرنے میں اندازا کتنا پیسا لگے گا۔ (اگر کاپی رائیٹ پہلے خریدنے ہوں، تو کاپی رائیٹ کی قیمت بھی ساتھ ایڈ کر لی جائے)۔
اب ڈونرز کو چوائس ہو کہ وہ دو طریقوں سے فنڈز دے سکتے ہوں۔
1. پہلا یہ کہ ڈونر کسی خاص کتاب کو مخصوص کر کے فنڈ دے۔
2۔ دوسرا یہ کہ ڈونر عام فنڈ دے اور یہ چیز ٹیم کی صوابدید پر چھوڑ دے کہ وہ کس کتاب کے کاپی رائیٹ پہلے خریدنا چاہتی ہے۔
ڈونرز کو فنڈ دینے سے پہلے اگر کتابوں کی یہ لسٹ مہیا ہو جائے، تو میرے خیال میں انہیں فنڈز دیتے ہوئے زیادہ دقت نہیں ہو گی۔
حساب کتاب بھی سادہ سا ہو سکتا ہے۔ ایک طرف فنڈز دینے والوں کے نام اور رقوم شائع کر دی جائیں، اور دوسری طرف کاپی رائیٹ پر اٹھنے والے اخراجات۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھئیے، شروع میں ہر نئی چیز مشکل لگتی ہے۔ مجھے اس لائیبریری پروجیکٹ کے لیے فنڈنگ کی تجویز اس لیے پیش کرنا پڑی کیونکہ میری ناقص رائے میں اس کے بغیر اردو کی ترقی بہت مشکل ہو جائے گی۔
یوں بھی کاپی رائیٹ سے آزاد مٹیریل بہت کم ہے۔ اور اگر ہے بھی تو پچاس سال یا اس سے بھی پرانا، کہ جس میں اور آج کی نسل میں کم از کم دو جنریشن کا gap آ چکا ہے۔ یہ بھی ایک فیکٹ ہے کہ نئی نسل بہت زیادہ کلاسیکل ادبی اردو سہہ نہیں سکتی اور انہیں زیادہ تر نئے تفریحی مواد کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نئی نسل کی اس ضرورت پر نظر نہیں رکھیں گے، تو ہم انہیں کھو دیں گے۔