لال مسجد آپریشن شروع

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سید ابرار آپ نے لال مسجد والوں کو حضرت حسین سے تشبیہ دے ڈالی اب میں کیا کہوں آپ خود صاحب خرد ہیں اور اتنا تو میں بھی جانتا ہوں کہ آپ لال مسجد والوں کے فدائی ہیں نہیں ایساآپ نے صرف اور صرف گورنمنٹ کی مخالفت میں لکھا یعنی آپ بھی بس مخالفت برائے مخالفت کے قائل ہیں افسوس ہوا یہ دیکھ کر اگر محوش گورنمنٹ کےحق میں کچھ زیادہ لکھ دیتی ہیں تو آپ لوگ مخالفت میں حد کر دیتے ہو باقی رہی لال مسجد والوں کے مقاصد کی بات تو خدا کو مقصدوں کو نہیں نیتوں کودیکھا کر تاہے اور لال مسجدوالوں کی نیت میں فتور ہے یہ اب واضح ہو چکا ہے باقی چھوڑیئے وہ تو اسلام کی روح کو مسخ کر رہے تھے وہ کیسا اسلام لاتے ؟؟؟؟؟؟؟؟



بہت درست بات کہی ۔


۔
 

مہوش علی

لائبریرین
محب،

مجھے اس بحث کے حوالے سے اشارہ مل چکا ہے اس لیے میں اپنی آخری بات کہہ کر اپنی طرف سے بحث کا خاتمہ کرتی ہوں۔

مجھے علم ہے یہاں تقریبا 100 فی صد اراکین فرقہ پرستی سے بالاتر ہو کر سوچتے ہیں۔ شکر الحمد للہ۔
بلکہ اللہ کا مزید شکر ہے کہ پاکستان کی اکثریت اس لعنت سے دور ہے۔
مگر میری ناقص رائے میں اس خاموش اکثریت نے ان فرقہ پرست انتہا پسندوں کی کھل کر مذمت نہیں کی ہے بلکہ انکی طرف سے آنکھیں بند کر کے بیٹھے ہیں، اور صرف اور صرف اسی وجہ سے یہ انتہا پسند منافرت پھیلانے والے ابھی تک پھل پھول رہے ہیں۔

۔۔۔ فرقہ پرستی کے نام پر بہت نفرت اور تشدد قوم نے دیکھا بھی ہے اور سہا بھی، بہت مشکل سے حالات بہتری کی طرف مائل ہوئے ہیں اور آپ پھر یہی بحث چھیڑنا چاہتی ہیں اور اس سطحی مذمت پر اصرار کیوں کر رہی ہیں۔ غازی برادران نے یہ نعرہ نہیں لگایا اور نہ یہ نعرہ سرعام لگا کر کوئی سرخرو ہو سکتا ہے اور اگر لگایا بھی ہو کسی نے تو کوئی کسی کے سامنے آ کر مانے گا نہیں تو جب ایک منافقت کا اتنا واضح طور پر علم ہو تو اس معاملے کو اصل معاملے سے بھی اوپر کس وجہ سے لایا جائے۔

لال مسجد والوں کا فرقہ پرستی کے حوالے سے ریکارڈ آج کے ان شیعہ کافر کے نعروں سے شروع نہیں ہوا ہے، بلکہ سپاہ صحابہ کی ابتدا سے چلا آ رہا ہے اور غازی برادران کے والد کا قتل بھی انہی وجوہات کی بنا پر ہوا۔

کیا واقعی ہمیں چاہیے کہ ہم صرف اس وجہ سے اپنی آنکھیں بند کر کے ان جیسوں انتہا پسندوں کو ہیرو بننے دیں کہ موجودہ مہم میں لال مسجد والوں نے صرف دو ایک مرتبہ ہی شیعہ کافر کے نعرے بلند کیے ہیں؟ یا پھر ہمیں اتنا عقلمند ہونا چاہیے کہ ہم ان کے ماضی کو سامنے رکھ کر انکی اصلیت کو پرکھ سکیں؟

اور کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ انتہا پسند گروہ طاقت حاصل کر لینے کے بعد شیعہ کافر کے نعرے بالکل بند کر دیں گے ۔۔۔۔۔ یا پھر ان کی دھشت گردی اور کھل کر سامنے آئے گی؟

تو اب ان انہا پسندوں کے فتنے پر احتجاج کرنا میرا فرض تھا اور باقی فرض آپ لوگوں کا ہے کہ اللہ کے نام پر "عقل" اور "انصاف" سے کام لیں اور دیکھیں کہ انکی اس فتنہ پروری سے آنکھیں بند کیے رکھ کر "خاموش اکثریت" بننا بہتر ہے یا پھر کھل کر مذمت کرنا تاکہ یہ فتنہ پھل پھول نہ سکے۔

یعنی کہ ایک طرف کراچی میں ایم کیو ایم کا اسلحہ نظر آتے ہی یہ "خاموش اکثریت" کھل کر اور چیخ چیخ کر انہیں دھشت گرد بلانے لگے، احتجاجی جلوس کرنے لگے، بقیہ پاکستان میں انکے دفاتر جلانے لگے۔۔۔۔۔۔ مگر دوسری طرف یہ حال ہو کہ ایک انتہا پسند گروہ کھلے عام میڈیا کے سامنے بڑھ چڑھ کر اپنا اسلحہ کی نمائش کرے، خود کش حملوں کی کھلی دھمکیاں دے، قانون کو ہاتھ میں لیتا پھرے، بلکہ جب جی چاہے قانون کے اہلکاروں کو پکڑ کی مسجد میں بند کر دے، اور جس طرح سانپ اپنے بچوں کو کھا جاتا ہے اسی طرح خود اپنی ہی طالبات کو یرغمال بنا لے۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب کچھ ہوتا رہے مگر یہ "خاموش اکثریت" انہیں اب بھی کھل کر انہیں "دھشت گرد" نہ کہے ۔۔۔۔۔ تو یہ کہاں کا انصاف ہو رہا ہے۔

اور لال مسجد میں اسلحہ اور نفرت پھیلانے کا یہ کام ضیاء صاحب کے دور سے ایجنسیاں کر رہی ہیں، اور پھر آپکی پسندیدی سول حکومتوں نواز شریف اور بے نظیر کے دور میں بھی کرتی رہیں ہیں۔ مشرف صاحب پہلے ہیں جو آہستہ آہستہ قوم کو ان فتنوں سے دور لے جا رہے ہیں اور اس لیے آہستہ آہستہ یہ فتنے سامنے آتے ہیں۔ مگر ان حکومتی ایجنسیوں کے ماضی کے گناہوں کو موجودہ مشرف صاحب کے گلے ڈال دینا ہرگز ٹھیک نہیں کیونکہ یہ ایجنسیاں نواز شریف اور بے نظیر کی سرکردگی میں بھی چلتی رہی ہیں اور یہ کام کرتی رہیں ہیں۔

دیکھیں، لال مسجد میں اسلحہ ضیاء صاحب کے زمانے سے ہے، مگر ہماری "خاموش اکثریت" ضیاء صاحب کے زمانے سے اس پر خاموش بیٹھی ہے۔ اور اس اسلحے کی وجہ سے ضیاء صاحب کے دور میں انہوں نے لال مسجد والوں کو دھشت گرد کہا، بلکہ انتہا تو یہ ہے کہ آج سب کچھ ہونے کے باوجود بھی یہ "خاموش اکثریت" انہیں دھشت گرد کہنے کو تیار نہیں بلکہ چاہتی ہے کہ لال مسجد والوں کو عزت و احترام کے ساتھ پچھلے تمام جرائم معاف کر دیے جائیں (لیکن اگر اسکا ذرہ برابر جرم بھی ایم کیو ایم کرے تو اس پر مقدمات، گرفتاری، دھشت گردی، احتجاجی جلوس۔۔۔۔۔۔)

تو اگرچہ کہ مجھے یہ "خاموش اکثریت" بہت عزیز ہے، مگر میں انکے اس طرزِ عمل سے متفق نہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
میں نے اپنا پیغام تو اوپر مکمل کر دیا تھا، مگر خارجین کے حوالے سے میں چاہتی ہوں کہ ایک بات واضح ہو جائے۔

محب:

غازی برادران کو خارجیوں سے تشبیہ نہ دیں خارجیوں کے نظریات صریحا کفر تھے

حیرت کی بات ہے کہ محب یہ آپ پہلے ہی نہیں ہیں بلکہ میں نے بڑے بڑوں کو دیکھا ہے کہ وہ خوارج کے عقائد کو "کفریہ عقائد" کہتے ہیں۔

لیکن یہ الزام "محال" ہے۔

کیونکہ خوارج اسلام میں کوئی الگ سے "مذھبی فرقہ" نہیں تھا، بلکہ صرف اور صرف ایک "سیاسی گروہ" تھا۔ یہ لوگ جنگ صفین تک علی ابن ابی طالب کی فوج میں تھے۔ مگر "تحکیم" کو موقع کے بعد یہ علی ابن ابی طالب سے الگ ہو گئے اور اسی سال نہروان کے مقام پر علی ابن ابی طالب سے لڑائی کے دوران یہ لوگ مارے گئے۔
(تحکیم کے موقع پر یہ لوگ کسی مذھبی بنیاد پر علی ابن ابی طالب سے الگ نہیں ہوئے تھے)۔

تو مجھے بہت حیرت ہوتی ہے جب کچھ "بڑے بڑے" خوارجین پر کفریہ عقائد کا فتوی لگا رہے ہوتے ہیں اور ہم جیسے چھوٹے چھوٹے انکی پیروی کر رہے ہوتے ہیں۔

محب،

میں آپ سے درخواست کروں گی کہ آپ خوارجین کی تاریخ کا خود مطالعہ کریں اور پھر خود کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کریں۔

اور جیسا میں نے پہلے کہا تھا کہ یہ بہت نیک متقی تابعین تھے اور انکا مطالبہ بھی بہت زبردست تھا۔ انکا مطالبہ تھا "لا حکم الا اللہ ولوہ کراہ المشرکون" یعنی اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں چاہے یہ مشرکوں کو ناگوار ہی کیوں نہ گذرے۔

یہ لوگ بھی اصلاح امت کے نام پر اٹھے تھے۔
 

ابوشامل

محفلین
مہوش سب سے پہلے تو میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ جذبات پر تھوڑا قابو رکھیں، واقعتا یہ آپ کی طبیعت کے لیے ٹھیک نہیں، ویسے آج پتہ چلا کہ آپ کو بھی "اوپر" سے اشارے ملتے ہیں :)۔ خوش رہیں اور اپنا خیال رکھیں۔
 

فرضی

محفلین
جذبات قابو کرنے والی بات آپ نے خوب کہی ابو شامل۔ کافی خون بہا ہے اور ابھی بہہ رہا ہے۔۔ اور شاید یہ صرف شروعات ہوں۔ اللہ ہم سب کو جذبات قابو رکھنے کی توفیق دے۔
 

ابوشامل

محفلین
مجھے تو صبح سویرے اٹھتے ہی یہ افسوسناک خبر ملی کہ لال مسجد پور جامعہ حفصہ پر آپریشن کردیا گیا ہے اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق 50 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ یہ واقعہ حقیقتا پاکستان کی تاریخ کے سیاہ ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ اس حوالے سے میں گذشتہ پوسٹ میں کئی خدشات کا اظہار کر چکا ہوں جو درج ذیل ہیں:

1- اس واقعے پر پہلا پہلو یہ کہ ایمان، تقوی اور جہاد فی سبیل اللہ کا نعرہ لگانے والی فوج کے زیر انتظام ملکی دارالحکومت میں ایک مسجد پر حملہ کیا گیا ، چاہے اس کی وجوہات کچھ بھی ہوں بہرحال اللہ کے گھر پر حملہ ایک افسوسناک واقعہ ضرور ہے۔

2-دوسرا اہم پہلو یہ کہ یہ واقعہ اس موقع پر پیش آیا جب عدلیہ اور فوج کے درمیان چپقلش اپنے عروج پر تھی اور عوامی تائید واضح طور پر عدلیہ کے حق میں ہے، اس موقع پر لال مسجد کے خلاف آپریشن کے باعث منصف اعلی (چیف جسٹس) سے عوام سمیت ذرائع ابلاغ کی توجہ بھی ہٹ گئی،

3-تیسرا اہم ترین پہلو یہ کہ ملک بھر کے علمائے کرام کے سر شرم سے جھک گئے جب ان کے ایک ساتھی جو جہاد کی اور سر کٹانے کی تعلیم دیتے تھے، برقعہ پہن کر فرار ہونے کی کوشش کرتے ہوئے گرفتار ہوئے۔ جنہیں وہ ہمیشہ سمجھاتے رہے کہ معاملہ افہام و تفہیم سے حل کیا جائے اور تصادم سے گریز کیا جائے۔ یہ علماء کے لیے یقینا ایک شرمناک منظر تھا اور ایک طرف یہ آپریشن ملک کے مذہبی طبقوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوگا تو دوسری جانب مذہب بیزار اور جدت پسند طبقے کو ایڈوانٹیج حاصل ہوگا اور ان پر عنایات کا سلسلہ بھی دراز ہو جائے گا۔

4-بہرحال سب سے زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس آپریشن کو بنیاد بنا کر ملک کے سب سے بڑے رفاہی اداروں یعنی مدارس کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز ہوگا اور اس کے نتیجے میں ملک میں جو انارکی پھیلے گی اس کی ایک جھلک ہم گذشتہ روز قبائلی علاقوں میں خود کش حملوں کی صورت میں دیکھ چکے ہیں جو لال مسجد کے خلاف آپریشن کے دوران ہوئے اور 10 فوجیوں سمیت 18 افراد جاں بحق ہوئے۔

5-اس واقعے کے حوالے سے ایک اور افسوسناک بات یہ کہ اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں پاکستان کے بچے کچھے امیج کو بھی شدید دھچکا پہنچا ہے اور شاید ہماری فوجی حکومت کا مقصد بھی یہی تھا کہ عالمی قائدین(امریکہ و یورپ وغیرہ) کو یہ باور کرایا جائے کہ اگر ہم نہ رہے تو مذہبی انتہا پسند اقتدار پر قبضہ کر لیں گے۔ مذہبی عناصر سے ٹکراؤ عدلیہ اور ذرائع ابلاغ سے ٹکر کے بعد فوج کی تیسری اور سب سے خوفناک ٹکر ہوگی۔

اکبر بگٹی کے خلاف آپریشن کی کی طرح لال مسجد پر آپریشن بھی قابل مذمت ہے کیونکہ اس کے سالمیت پاکستان پر بہت دور رس اور منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
 
تو اب ان انہا پسندوں کے فتنے پر احتجاج کرنا میرا فرض تھا اور باقی فرض آپ لوگوں کا ہے کہ اللہ کے نام پر "عقل" اور "انصاف" سے کام لیں اور دیکھیں کہ انکی اس فتنہ پروری سے آنکھیں بند کیے رکھ کر "خاموش اکثریت" بننا بہتر ہے یا پھر کھل کر مذمت کرنا تاکہ یہ فتنہ پھل پھول نہ سکے۔

یعنی کہ ایک طرف کراچی میں ایم کیو ایم کا اسلحہ نظر آتے ہی یہ "خاموش اکثریت" کھل کر اور چیخ چیخ کر انہیں دھشت گرد بلانے لگے، احتجاجی جلوس کرنے لگے، بقیہ پاکستان میں انکے دفاتر جلانے لگے۔۔۔۔۔۔ مگر دوسری طرف یہ حال ہو کہ ایک انتہا پسند گروہ کھلے عام میڈیا کے سامنے بڑھ چڑھ کر اپنا اسلحہ کی نمائش کرے، خود کش حملوں کی کھلی دھمکیاں دے، قانون کو ہاتھ میں لیتا پھرے، بلکہ جب جی چاہے قانون کے اہلکاروں کو پکڑ کی مسجد میں بند کر دے، اور جس طرح سانپ اپنے بچوں کو کھا جاتا ہے اسی طرح خود اپنی ہی طالبات کو یرغمال بنا لے۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب کچھ ہوتا رہے مگر یہ "خاموش اکثریت" انہیں اب بھی کھل کر انہیں "دھشت گرد" نہ کہے ۔۔۔۔۔ تو یہ کہاں کا انصاف ہو رہا ہے۔

اور لال مسجد میں اسلحہ اور نفرت پھیلانے کا یہ کام ضیاء صاحب کے دور سے ایجنسیاں کر رہی ہیں، اور پھر آپکی پسندیدی سول حکومتوں نواز شریف اور بے نظیر کے دور میں بھی کرتی رہیں ہیں۔ مشرف صاحب پہلے ہیں جو آہستہ آہستہ قوم کو ان فتنوں سے دور لے جا رہے ہیں اور اس لیے آہستہ آہستہ یہ فتنے سامنے آتے ہیں۔ مگر ان حکومتی ایجنسیوں کے ماضی کے گناہوں کو موجودہ مشرف صاحب کے گلے ڈال دینا ہرگز ٹھیک نہیں کیونکہ یہ ایجنسیاں نواز شریف اور بے نظیر کی سرکردگی میں بھی چلتی رہی ہیں اور یہ کام کرتی رہیں ہیں۔

دیکھیں، لال مسجد میں اسلحہ ضیاء صاحب کے زمانے سے ہے، مگر ہماری "خاموش اکثریت" ضیاء صاحب کے زمانے سے اس پر خاموش بیٹھی ہے۔ اور اس اسلحے کی وجہ سے ضیاء صاحب کے دور میں انہوں نے لال مسجد والوں کو دھشت گرد کہا، بلکہ انتہا تو یہ ہے کہ آج سب کچھ ہونے کے باوجود بھی یہ "خاموش اکثریت" انہیں دھشت گرد کہنے کو تیار نہیں بلکہ چاہتی ہے کہ لال مسجد والوں کو عزت و احترام کے ساتھ پچھلے تمام جرائم معاف کر دیے جائیں (لیکن اگر اسکا ذرہ برابر جرم بھی ایم کیو ایم کرے تو اس پر مقدمات، گرفتاری، دھشت گردی، احتجاجی جلوس۔۔۔۔۔۔)

تو اگرچہ کہ مجھے یہ "خاموش اکثریت" بہت عزیز ہے، مگر میں انکے اس طرزِ عمل سے متفق نہیں۔
مہوش صاحبہ! میں آپ کی اس بات سے تو اتفاق نہیں کروں گا۔ اگر یہ دھاگہ ہی شروع سے ملاحظہ کرلیا جائے تو واضح ہوجائے گا کہ یہاں بھی "خاموش اکثریت" غازی برادران کے خلاف کہہ رہی ہے۔۔۔ خدا جانے آپ کو کس کے بیان میں غازی برادران کی حمایت نظر آئی؟
ہاں! یہ ضرور ہے کہ آپ اگر پرویز مشرف کی حمایت میں اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ ان کا کوئی قصور نظر نہیں آتا تو یہ غلط ہے۔ عوام تو اس بات کا حساب مانگیں گے کہ ایک دارالحکومت میں یہ سب ہوتا رہا، اتنا اسلحہ پہنچتا رہا، کہاں تھی حکومت کی رٹ اور قابلِ فخر انٹیلی جنس؟ کیوں بے خبر آنکھیں بند کیے بیٹھے رہے۔۔۔۔؟؟
تسلیم اور ہزار بار تسلیم کہ لال مسجد والوں کا طرزِ عمل غلط، علمائے کرام نے کھل کر مخالفت کی لیکن آپ سب کچھ لال مسجد والوں کے سر نہیں ڈال سکتے۔۔۔ حکومت بھی برابر ہی کی ملوث ہے۔۔۔
اب اگر آپ پرویزی حکومت کا دامن داغوں سے بالکل صاف دکھانے پر اپنی توانائی صرف کریں تو پھر دوسری طرف سے بھی جوابا ایسے لوگ ضرور آئیں گے جو لال مسجد والوں کا دامن بھی بالکل صاف دکھائیں گے۔۔۔ تب آپ کو "خاموش اکثریت" بہت یاد آئے گی۔۔۔!
 
میں نے اپنا پیغام تو اوپر مکمل کر دیا تھا، مگر خارجین کے حوالے سے میں چاہتی ہوں کہ ایک بات واضح ہو جائے۔

محب:



حیرت کی بات ہے کہ محب یہ آپ پہلے ہی نہیں ہیں بلکہ میں نے بڑے بڑوں کو دیکھا ہے کہ وہ خوارج کے عقائد کو "کفریہ عقائد" کہتے ہیں۔

لیکن یہ الزام "محال" ہے۔

کیونکہ خوارج اسلام میں کوئی الگ سے "مذھبی فرقہ" نہیں تھا، بلکہ صرف اور صرف ایک "سیاسی گروہ" تھا۔ یہ لوگ جنگ صفین تک علی ابن ابی طالب کی فوج میں تھے۔ مگر "تحکیم" کو موقع کے بعد یہ علی ابن ابی طالب سے الگ ہو گئے اور اسی سال نہروان کے مقام پر علی ابن ابی طالب سے لڑائی کے دوران یہ لوگ مارے گئے۔
(تحکیم کے موقع پر یہ لوگ کسی مذھبی بنیاد پر علی ابن ابی طالب سے الگ نہیں ہوئے تھے)۔

تو مجھے بہت حیرت ہوتی ہے جب کچھ "بڑے بڑے" خوارجین پر کفریہ عقائد کا فتوی لگا رہے ہوتے ہیں اور ہم جیسے چھوٹے چھوٹے انکی پیروی کر رہے ہوتے ہیں۔

محب،

میں آپ سے درخواست کروں گی کہ آپ خوارجین کی تاریخ کا خود مطالعہ کریں اور پھر خود کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کریں۔

اور جیسا میں نے پہلے کہا تھا کہ یہ بہت نیک متقی تابعین تھے اور انکا مطالبہ بھی بہت زبردست تھا۔ انکا مطالبہ تھا "لا حکم الا اللہ ولوہ کراہ المشرکون" یعنی اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں چاہے یہ مشرکوں کو ناگوار ہی کیوں نہ گذرے۔

یہ لوگ بھی اصلاح امت کے نام پر اٹھے تھے۔

اس پوری پوسٹ پر صرف اتنا عرض کروں گا کہ براہ کرم پہلے یہ دیکھ لیں کہ یہ کلمات کس نے کہے ہیں ، میں نے یا سید ابرار صاحب نے ۔

خوارج کا مسئلہ یہاں نہیں بلکہ تاریخ کے زمرے میں چھڑے تو بہت مناسب ہوگا کہ خوارج کا فتنہ بہت دیر تک چلا اور ختم نہیں ہوا۔ دوسرا خوارج نے اسلامی ریاست جو شرعیت کے ہی تابع تھی اس سے بغاوت کی تھی اور پھر جب تک انہوں نے قتل و غارت نہ شروع کر دی حضرت علی :abt:انہیں سمجھانے کی پوری کوشش کرتے رہے مگر جب وہ سر عام قتل و غارت میں ملوث‌ہوگئے تو پھر حضرت علی :abt: کے پاس ان کے خلاف لڑنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
سیاست کے زمرے میں فعالیت تو بڑھ گئی ہے لیکن ہر سیاسی بحث‌ نہ جانے کیوں واقعہ کربلا اور خارجیوں کے گرد گھومنے لگتی ہے۔ میری گزارش ہے کہ موضوع پر رہ کر گفتگو کریں۔
شکریہ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
(تحکیم کے موقع پر یہ لوگ کسی مذھبی بنیاد پر علی ابن ابی طالب سے الگ نہیں ہوئے تھے)۔

شاید یہ مناسب فورم تو نہیں ہے اس موضوع کیلیے، لیکن تاریخی ریکارڈ کیلیے اتنا عرض کردوں کہ خوارج صریحا مذہبی بنیاد پر الگ ہوئے تھے کہ جب حضرت علی نے تحکیم کیلیے اپنی رضا مندی ظاہر کی تو اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ

لا حَکَم الاللہ کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں ہے اللہ کے سوا، اور نعوذباللہ انکا کہنا تھا کہ حضرت علی نے کہ جب وہ حق پر تھے تو انہوں‌ نے کیوں تحکمین قبول کی، لہذا وہ بھی کافر ہوگئے ہیں۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم محب علوی۔۔۔ عمومی طور پر آپ کے صائب الرائے ہونےکے پس منظر میں یہاں آپ کے کچھ پیغامات دیکھ کر اُلجھن ہو رہی ہے، کچھ جگہوں پر انصاف نہیں ہوا۔۔۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا آپ کی واقعی اس جانب توجہ نہیں یا شعوری صرفِ نظر ہے ؟
 

محمد وارث

لائبریرین
کیونکہ خوارج اسلام میں کوئی الگ سے "مذھبی فرقہ" نہیں تھا، بلکہ صرف اور صرف ایک "سیاسی گروہ" تھا۔

---------------

یہ لوگ بھی اصلاح امت کے نام پر اٹھے تھے۔

معذرت کے ساتھ مہوش علی صاحبہ، آپکی ان دونوں باتوں میں بھی تضاد ہے، ایک جگہ خوارج کو آپ نے صرف اور صرف سیاسی گروہ کہا اور وہیں پر انکو مصلح الدین کا خطاب بھی دے دیا۔
 

خاور بلال

محفلین
وہ جرنیل ہوں یا عالم دین کے
ضد آخر دونوں کی پوری ہوگئی
خون میں رنگے ہیں سب دیوار و در
لال مسجد، لال مسجد ہوگئی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
شاید یہ مناسب فورم تو نہیں ہے اس موضوع کیلیے، لیکن تاریخی ریکارڈ کیلیے اتنا عرض کردوں کہ خوارج صریحا مذہبی بنیاد پر الگ ہوئے تھے کہ جب حضرت علی نے تحکیم کیلیے اپنی رضا مندی ظاہر کی تو اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ

لا حَکَم الاللہ کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں ہے اللہ کے سوا، اور نعوذباللہ انکا کہنا تھا کہ حضرت علی نے کہ جب وہ حق پر تھے تو انہوں‌ نے کیوں تحکمین قبول کی، لہذا وہ بھی کافر ہوگئے ہیں۔

السلام علیکم محمد وارث صاحب

ایک سوال:

یہ مفہوم آپ نے اپنے الفاظ میں تحریر کیا ہے یا کسی تاریخی حوالہ (تحریر؟) سے لیا ہے ؟ مؤخرالذکر کی صورت میں مکمل اقتباس اور حوالہ کی نشاندہی کردیجیئے۔ شکریہ
 

شمشاد

لائبریرین
آج تو لال مسجد واقعی خون سے لال و لال ہو گئی۔ آج تو بہت ہی برا حال ہے۔
اے اللہ تُو بہتر جانتا ہے۔ تُو بہتر کرنے والا ہے۔ اے اللہ ہمارے حق میں بہتری فرما۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
معذرت کے ساتھ مہوش علی صاحبہ، آپکی ان دونوں باتوں میں بھی تضاد ہے، ایک جگہ خوارج کو آپ نے صرف اور صرف سیاسی گروہ کہا اور وہیں پر انکو مصلح الدین کا خطاب بھی دے دیا۔


مہوش کا جو اقتباس یہاں درج ہے اس میں مہوش نے صرف اصلاح امت کی ترکیب استعمال کی ہے اور مصلح الدین کی اصطلاح یہاں نظر نہیں آ رہی۔ اگر مصلح الدین بھی کسی جگہ مہوش نے کہا ہے تو اس کی نشاندہی نہیں ہوئی یہاں۔

میں اگر غلطی پر نہیں ہوں تو اصلاحِ امت کے نام پر انسانی تاریخ میں بالعموم اور مذہبی تاریخ میں بالخصوص ایسے فرد اور افراد کے گروہ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جنھیں پہلے مرحلے میں کسی بھی دوسرے کی اصلاح سے پہلے خود اپنی اصلاح کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔

لہذا اصلاح امت کے نام پر ہر اٹھ کھڑے ہونے والے فرد یا افراد کو مصلح الدین ہونے کا درجہ حاصل نہیں ہوجاتا۔ یہ اصطلاح صرف ایسے فرد یا افراد کے گروہ کے لئے استعمال کی جاتی ہے جنھوں نے واقعی اس امر کا حق ادا کیا ہو۔

جب یہ کہا جائے کہ فلاں اصلاح امت کے نام پر اٹھ کھڑا ہوا تو اس کا مطلب یہ نہیں لیا جاسکتا کہ اسے مصلح الدین بھی کہا جائے گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
السلام علیکم محمد وارث صاحب

ایک سوال:

یہ مفہوم آپ نے اپنے الفاظ میں تحریر کیا ہے یا کسی تاریخی حوالہ (تحریر؟) سے لیا ہے ؟ مؤخرالذکر کی صورت میں مکمل اقتباس اور حوالہ کی نشاندہی کردیجیئے۔ شکریہ

وعلیکم السلام

حَکَم بالفتح اول و دوم کے لغوی معنی ہیں، تصفیہ کرنے والا یا فیصلہ کرنے والا۔ اسلامی تاریخ میں یہ واقعہ، واقعہ حَکَم کے نام سے مشہور ہے۔ مہوش علی صاحبہ نے اس کا لفظی ترجمہ حُکم کیا تھا جو کہ ٹھیک نہیں‌ ہے۔

میں‌ انشاءاللہ آج رات کو اس حوالے آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مہوش کا جو اقتباس یہاں درج ہے اس میں مہوش نے صرف اصلاح امت کی ترکیب استعمال کی ہے اور مصلح الدین کی اصطلاح یہاں نظر نہیں آ رہی۔ اگر مصلح الدین بھی کسی جگہ مہوش نے کہا ہے تو اس کی نشاندہی نہیں ہوئی یہاں۔

میرا یقینا مطلب لفظی بحث نہیں تھا، مصلح الدین، مزاح المومنین کے ضمن میں‌ عرض کرد یا تھا، وگرنہ جس طرف میرا اشارہ تھا وہ اب بھی ہے، آپ بھی اس پر اپنی رائے دیں کہ ایک ہی پوسٹ دو متضاد باتیں تھیں۔ یقینا یہ تضاد آپ بھی محسوس کریں گی۔
 
Top