ذرا یہ ملاحظہ کریں اور اس پر تبصرہ
یہ خبر میں نے اس حوالے سے پیش کی ہے کہ عبدالرشید غازی ہی مرکزی کردار لگتے ہیں جو مسجد اور مدرسے میں ابھی تک سرنڈر نہیں کر رہے. ان کی اپنی کیا حقیقت ہے، اس بارے یہ رپورٹ ہی کافی رہے گی
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2007/07/070704_lalmasjid_abdullah_rs.shtml
عبدالرشید سے مولانا
آصف فاروقی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
لال مسجد کے بانی مولانا عبداللہ جنوبی پنجاب کے ضلع راجن پور کے گاؤں روجھان میں پیدا ہوئے۔ خاندان کی کفالت کے ناکافی ذرائع اور والد کے مذہبی رجحانات انہیں رحیم یار خان کے مدرسہ خدام العلوم لے گئے جہاں سے ابتدائی دینی تعلیم کے بعد انہیں ملک کی مشہور مذہبی سیاسی شخصیت مولانا مفتی محمود کے ملتان میں قائم مدرسہ قاسم العلوم میں داخل کروا دیا گیا۔ اس کے بعد عالم فاضل کی تعلیم کے لیے وہ کراچی چلے گئے جہاں سے مدرسہ بنوری ٹاؤن سے انہوں نے انّیس سو ستاون میں یہ اعلیٰ ترین مذہبی ڈگری حاصل کی۔
تعلیم سے فراغت کے بعد مولانا عبداللہ نو سال تک کراچی کی مختلف مساجد میں امامت کرتے رہے۔ جب دارالخلافہ اسلام آباد منتقل ہوا تو یہاں کی پہلی مرکزی جامع مسجد کے لیے صدر ایوب خان نے اس وقت کے مولانا محمد یوسف بنوری کی سفارش پر مولانا عبداللہ کو جی سکس فور میں بننے والی اس جامع مسجد کا خطیب مقرر کر دیا۔
اس وقت اسلام آباد کی کل آبادی اسی مسجد کے قرب و جوار میں مقیم تھی۔ شہر کے اکابرین اسی مسجد میں آتے جاتے تھے۔ وقت گزرنے ک ساتھ مولانا عبداللہ نے اپنے مدّاحوں کا ایک حلقہ بنا لیا جن میں افسر شاہی کے ارکان بھی تھے اور سیاست دان بھی۔
سیاسی افق پر مولانا عبداللہ اور ان کی لال مسجد تحریک ختم نبوت کے وقت نمودار ہوئے جب یہ مسجد اسلام آباد میں ہونے والی ختم نبوت تحریک کے جلسوں اور جلوسوں کا مرکز بن گئی۔ تحریک کے روح رواں مفتی محمود مولانا کے استاد تھے۔ اس تحریک کے دوران یہ تعلق سیاسی نوعیت اختیار کر گیا اور آنے والے دنوں میں وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کے خلاف سیاسی تحریک میں بھی لال مسجد نے اہم کردار ادا کیا۔
ضیا الحق اپنے اسلامی لبادے کے ساتھ برسر اقتدار آئے تو دیگر بہت سوں کی طرح مولانا عبداللہ کی بھی ان سے خاصی قربت رہی۔ وہ مرتے دم تک رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ رہے۔ مولانا عبداللہ نے اسّی کی دہائی میں باقاعدہ ایک تحریک کے ذریعے اسلام آباد میں نئی مساجد اور مدارس کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیا۔ اس دوران بیسیوں مساجدکی بنیاد رکھی گئی لیکن بعض مبصرین کے نزدیک ان میں سے بیشتر سرکاری زمینوں پر غیر قانونی قبضے کر کے تعمیر کی گئیں۔ انہوں نے جامعہ فریدیہ کے نام سے بچوں اور جامعہ حفصہ کے نام سے بچیوں کے لیے مدارس بھی تعمیر کیے۔
اس دوران مولانا نے ملک میں زور پکڑتی فرقہ واریت میں بھی سرگرم کردار ادا کیا۔انّیس سو اٹھانوے میں جب وہ اسلام آباد میں ایک نامعلوم گولی کا نشانہ بنے تو ان کے ورثا میں بیوہ کے علاوہ دو بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ وصیت کے مطابق ان کے بڑے بیٹے مولانا عبدالعزیز کو ان کا جانشین اور لال مسجد کا خطیب مقرر کیا گیا۔ اس طرح والد کی وفات کے بعد مولانا عبدالعزیز خطیب لال مسجد اور جامعہ فریدیہ اور ان کی زوجہ جامعہ حفصہ کی مہتمم قرار پائیں۔
مولانا عبدالعزیز ایک فرمانبردار فرزند کے طور پر ایک غیر متنازعہ فرد سمجھے جاتے تھے۔ لیکن ان کے چھوٹے بھائی، جن کا نام ان کے دادا کی مناسبت سے عبدالرشید غازی رکھا گیا تھا، ذرا مختلف طور طریقوں کے ساتھ سامنے آئے۔
سب سے پہلے تو عبدالرشید نے کسی قسم کی دینی تعلیم حاصل کرنے سے انکار کر دیا۔ والد کے دباؤ پر فیصل مسجد سے ملحق مدرسے میں داخلہ تو لے لیا لیکن تعلیم ادھوری چھوڑ کر راہ فرار اختیار کی۔ حافظ عبدالرشید غازی نے داڑھی نہ رکھنے کا فیصلہ کیا اور مسجد و مدرسے کو خیر باد کہہ کر قائد اعظم یونیورسٹی میں انٹر نیشنل ریلیشنز میں ایم اے کرنے کے لیے داخلہ لے لیا۔
وہ پینٹ شرٹ پہنتے اور مخلوط محفلوں میں شرکت کرتے۔ اس دوران رواج کے برعکس حافظ کا لفظ اپنے نام کے ساتھ لگانے سے احتراز کرتے رہے۔ والد ان کی غیر شرعی طرز زندگی سے اتنے نالاں ہوئے کہ وصیت نامے میں اپنے مدارس اور مساجد پر مبنی جائیداد کا بلا شرکت غیر مالک اپنے بڑے بیٹے کو بنا ڈالا۔
عبدالرشید غازی کچھ اور ہی چاہتے تھے۔ امتیازی نمبروں سے ایم اے کی ڈگری لینے کے بعد انہوں نے سرکاری ملازمت کی ٹھانی اور انّیس سو نواسی میں وزارت تعلیم میں سترہ گریڈ کے افسر لگ گئے۔ یہاں سے ڈیپوٹیشن پر اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے اسلام آباد دفتر میں چلے گئے جہاں کئی سال خدمات انجام دیں۔
ان کی شادی بھی مری کے ایک متمول اور نسبتاً آزاد خیال گھرانے میں ہوئی۔ ان کی زوجہ آج بھی اسلام آباد کی سڑکوں پر اپنی سسرالی روایات کے خلاف گاڑی ڈرائیو کرتی نظر آتی ہیں۔والد کے قتل نے عبدالرشید غازی کو بدل کر رکھ دیا۔ رفتہ رفتہ انہوں نے مسجد اور مدرسے کے معاملات میں دلچسپی لینا شروع کی اور چہرے پر داڑھی نمودار ہونا شروع ہو گئی۔ سرکاری ملازمت بہرحال چلتی رہی۔ بڑے بھائی نے ان کی بدلتی سوچ کی حوصلہ افزائی کی اور مدرسے اور مسجد میں اپنا نائب اور جانشین مقرر کر دیا۔
عبدالرشید غازی پہلی بار منظر عام پر سال دو ہزار ایک میں اس وقت آئے جب ملک کی مذہبی جماعتوں نے امریکی حملے کے خلاف افغانستان کے دفاع کے لیے ایک تنظیم کا اعلان کیا۔ عبدالرشید غازی، جو کہ اب اچانک، مطلوبہ مذہبی تعلیم اور ڈگری نہ ہونے کے باوجود مولانا ہوچکے تھے، مولویوں کے اس اتحاد کے مرکزی رہنما قرار پائے۔ اسلام آباد میں ہر روز ایک جلسہ ہوتا اور مولانا عبدالرشید غازی دیگر مذہبی رہنماؤں کے ساتھ کھڑے جذباتی انداز میں خطاب کرتے۔
حکومت کے ساتھ ان کے معاملات میں اصل خرابی اس وقت آئی جب سال دو ہزار چار میں قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن ہوا اور دیگر مذہبی عناصر کی طرح عبدالرشید غازی نے بھی ڈٹ کر اس کی مخالفت کی اور اس کے لیے لال مسجد کا پلیٹ فارم استعمال کیا۔
اس آپریشن میں جب دونوں طرف سے بھاری جانی نقصان کی اطلاعات آنا شروع ہوئیں تو لال مسجد سے ایک فتوی جاری ہوا کہ اس لڑائی میں مارے جانے والے فوجیوں کو ’ہلاک‘ جبکہ مقامی قبائلیوں اور طالبان کو ’شہید‘ کہا جائے۔ یہ تو گویا صدر جنرل مشرف اور ان کی افواج کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہوا کیونکہ فوجی جوانوں کا جانی نقصان سرکاری اندازوں سے بڑھتا جا رہا تھا۔
نتیجتًا حکومت نے ایک روز اعلان کیا کہ عبدالرشید غازی اسلام آباد اور راولپنڈی میں یوم آزادی کے موقع پر متعدد اہم سرکاری عمارات پر بم دھماکوں کے منصوبے میں ملوث پائے گئے ہیں۔ اس فہرست میں ایوان صدر، پارلیمنٹ ہاؤس اور جی ایچ کیو کی شمولیت نے معاملے کو سنگین بنا دیا۔ غازی صاحب زیر زمین چلے گئے اور حکومت نے ان کی ’بارود سے بھری گاڑی‘ میڈیا والوں کے سامنے پیش کر دی۔اس کے بعد درون پردہ کیا ہوا، معلوم نہیں لیکن ایک روز مذہبی امور کے وزیر اعجاز الحق نے اعلان کیا کہ موصوف اس سازش میں ملوث نہیں ہیں اور دیگر ملزمان کے خلاف چالان عدالت میں پیش کر دیا گیا۔
ان ملزمان میں قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے چند افراد کے علاوہ ایک دو ازبک جنگجوؤں کے نام بھی لیے جاتے رہے۔ جن کے بارے میں یہ تصدیق ہو چکی تھی کہ ان تمام افراد کا لال مسجد آنا جانا تھا۔ حکومت نے تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا تو پتہ چلا کہ عبدالرشید غازی کے وزیرستان میں بسنے والے جنگجوؤں سے قریبی روابط رہے ہیں۔
مولانا کو عسکری تربیت کے عملی مظاہرے کا موقع اسلام آباد میں اس وقت ملا جب ان پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ کلاشنکوف سے ہونے والی فائرنگ سے حملہ آور بھاگ جانے پر مجبور ہوئے۔ مولانا کا یہ خاصہ ہے کہ وہ ہر وقت مسلح رہتے ہیں۔ ایک کلاشنکوف انکی گاڑی میں، دفتر کی میز کے ساتھ اور سونے کے کمرے میں ہر وقت موجود ہوتی ہے۔