لال مسجد آپریشن شروع

فرضی

محفلین
شاباش راہبر بھائی میں آپکی غیر جانبداری اور برحق بات پر آپ کو داد دیتا ہوں ۔
خواہ کوئی کتنا ہی بڑا مجرم کیوں نہ ہو دنیا کا کوئی بھی قانون کسی ملزم یا مجرم کی سرِعام تذلیل کی اجازت نہیں دیتا ۔ لیکن بات پھر قانون کی آجاتی ہے۔۔۔ پاکستان اور قانون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دریا کے دو کنارے ہیں۔
 
پوسٹ حذف کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایڈٹ کا بٹن کلک کریں۔۔۔۔ جو صفحہ کھلے گا، اس میں پوسٹ حذف کرنے کا آپشن ہوگا۔۔۔۔
 
اگر حکومت کے ہاتھ صاف ہیں تو اسے چاہئے کہ تمام میڈیا کو وہاں کی کوریج کی اجازت دے۔۔۔۔ آزادانہ کوریج کی۔۔۔۔۔ ایسے تو لگتا ہے کہ کچھ چھپانا چاہتے ہیں۔۔۔!
 

shahzadafzal

محفلین
ہاں اس برقعے کو سامنے لاکر بہت سی باتیں چھپادی گئیں ہیں
حالیہ بارشوں میں 12 سو سے زائد ہلاک، ہزاروں لاپتہ، 3 ہزار سے زائد زخمی، 6 سو سے زائد گاؤں مکمل تباہ، 10 لاکھ سے زائد افراد بے گھر 8 لاکھ صرف بلوچستان میں، 8 سو سے زائد گیسٹرو اور دیگر پیٹ کی بیماریوں کا شکار، 2 سو سے زائد کشتیاں مکمل تباہ ، 25 سے زائد سڑکیں اور پل مکمل ٹوٹ گئے،
اس کیلیے کیا امدادی کاروائیاں کی جارہی ہیں ایک برقعہ یہاں بھی ہے
الطاف حسین نے عامر لیاقت سے ملعون رشدی کو بار بار قتل کیے جانے کے لائق ہونے اور اسے ایمان کا تقاضا قرار دینے پر استعفی لے لیا ہے ایک وجہ لال مسجد کے متعلق پارٹی سے ہٹ کر مذاکرات کا موقف بھی بیان کی جا رہی ہے
عامر لیاقت نے بخوشی استعفی دیا ہے اور اسے باعث سعادت قرار دیا ہے
گردہ سکینڈل کا ملزم فرار کروادیا گیا
بے روزگارکی وجہ سے ایک شخص نے 5 بچوں کو ذبح کردیا
اور لال مسجد کی یہ کیسی کوریج ہورہی ہے کہ رپورٹر کہتا ہے فائرنگ کی آوازیں آرہی ہیں، دھماکے کی آواز آئی ہے، رینجرز حکام نے یہ کہا ہے، دیواریں گرنے کی اطلاع ملی ہے میڈیا کو لائیو کوریج تو کیا باسی کوریج بھی نہیں کرنے دی جارہی کلپس بار بار دکھائے جارہے ہیں ۔
جیو کی تکلیف بجا مگر اصل پیٹ میں مروڑ اس بات کے اٹھ رہے ہیں کہ سرکاری چینل کو کیوں یہ خصوصی ویڈیو بنانے دی گئی ہمیں کیوں نہیں ۔
اور اس کے رد عمل میں باقی مکل میں جو کچھ ہورہا ہے اسے کون سنبھالے گا
بیشک یہ جو کچھ ہو رہا ہے ہماری حکومت دوسے معملات تے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے کر رہی ہے

ورنہ رات کو مولانا عبدالریشد نے سرننڈر کرنے کا واضح اشارہ دے دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مگر ہماری حکومت ابھی اس معماملے کو اور طول دینا چاہتی ہے
 

junaid

محفلین
میں اس معاملے میں حکومت کی سخت مخالفت کرتا ہوں اور لال مسجد کے اندر اگر میں موجود ہوتا تو اپنی جان قربان کرنے سے دریغ نہ کرتا۔ مولانہ رشید غازی صاحب نے بہت اچھا قدم اٹھایا ہے میں ان کی حمایت کرتا ہوں۔ اور رہی بات دہشت گردی کی تو یہ دہشت گردی نہیں بلکہ پاکستان میں اسلامی انقلاب لانے میں پہلا قدم ہے ہمیں ان کی حمایت کرنی چاہیے۔
 
جنید بھائی! اسلامی انقلاب اس طرح سے نہیں لایا جاتا۔ نہ آپ کے پاس طاقت ہے نہ رائے عامہ اور آپ اٹھ کھڑے ہوں شریعت کے نفاذ کے لیے۔۔۔۔ یہ کون سی عقلمندی ہے؟
یہ راستہ انقلاب کا نہیں، خون خرابہ کا ہے۔ جہاں تک غازی برادران، جس مقصد کی خاطر یہ سب کرنے کا دعویٰ کررہے ہیں، وہ درست ہے لیکن طریقہ کار سو فیصدی غلط۔
 

shahzadafzal

محفلین
سب سے بڑھ کر یہ کہ حکومت نے ٹائمنگ بڑی کلاسک رکھی ہے۔۔۔ لندن میں ہونے والی اے۔پی۔سی کا تو بیڑہ غرق۔۔۔۔!
اب اس معاملے کو جو طول دی جاری اس کا سب سے بڑا مقصد اے پی سی ہی ہے

اور حکومت جو چاہتی تھی شاید یہ اس میں کامیاب بھی ہو رہی ہے!!!!!!!!!
 

shahzadafzal

محفلین
جنید بھائی! اسلامی انقلاب اس طرح سے نہیں لایا جاتا۔ نہ آپ کے پاس طاقت ہے نہ رائے عامہ اور آپ اٹھ کھڑے ہوں شریعت کے نفاذ کے لیے۔۔۔۔ یہ کون سی عقلمندی ہے؟
یہ راستہ انقلاب کا نہیں، خون خرابہ کا ہے۔ جہاں تک غازی برادران، جس مقصد کی خاطر یہ سب کرنے کا دعویٰ کررہے ہیں، وہ درست ہے لیکن طریقہ کار سو فیصدی غلط۔
بالکل یہ ہم سب کہ رہے ہیں کے کاز غلط نہی تھی......... صرف طریقہ غلط تھا!!!!!

بیشک ان کی کاز 100% صحیح مگر جس طریقے وہ چاہتے تھے شاید وہ 1% بھی صحیح نہیں تھا!!!!!!!!!
 

قیصرانی

لائبریرین
ذرا یہ ملاحظہ کریں ‌اور اس پر تبصرہ

یہ خبر میں‌ نے اس حوالے سے پیش کی ہے کہ عبدالرشید غازی ہی مرکزی کردار لگتے ہیں جو مسجد اور مدرسے میں‌ ابھی تک سرنڈر نہیں‌ کر رہے. ان کی اپنی کیا حقیقت ہے، اس بارے یہ رپورٹ ہی کافی رہے گی

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2007/07/070704_lalmasjid_abdullah_rs.shtml

عبدالرشید سے مولانا
آصف فاروقی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
t.gif

لال مسجد کے بانی مولانا عبداللہ جنوبی پنجاب کے ضلع راجن پور کے گاؤں روجھان میں پیدا ہوئے۔ خاندان کی کفالت کے ناکافی ذرائع اور والد کے مذہبی رجحانات انہیں رحیم یار خان کے مدرسہ خدام العلوم لے گئے جہاں سے ابتدائی دینی تعلیم کے بعد انہیں ملک کی مشہور مذہبی سیاسی شخصیت مولانا مفتی محمود کے ملتان میں قائم مدرسہ قاسم العلوم میں داخل کروا دیا گیا۔ اس کے بعد عالم فاضل کی تعلیم کے لیے وہ کراچی چلے گئے جہاں سے مدرسہ بنوری ٹاؤن سے انہوں نے انّیس سو ستاون میں یہ اعلیٰ ترین مذہبی ڈگری حاصل کی۔

تعلیم سے فراغت کے بعد مولانا عبداللہ نو سال تک کراچی کی مختلف مساجد میں امامت کرتے رہے۔ جب دارالخلافہ اسلام آباد منتقل ہوا تو یہاں کی پہلی مرکزی جامع مسجد کے لیے صدر ایوب خان نے اس وقت کے مولانا محمد یوسف بنوری کی سفارش پر مولانا عبداللہ کو جی سکس فور میں بننے والی اس جامع مسجد کا خطیب مقرر کر دیا۔

اس وقت اسلام آباد کی کل آبادی اسی مسجد کے قرب و جوار میں مقیم تھی۔ شہر کے اکابرین اسی مسجد میں آتے جاتے تھے۔ وقت گزرنے ک ساتھ مولانا عبداللہ نے اپنے مدّاحوں کا ایک حلقہ بنا لیا جن میں افسر شاہی کے ارکان بھی تھے اور سیاست دان بھی۔

سیاسی افق پر مولانا عبداللہ اور ان کی لال مسجد تحریک ختم نبوت کے وقت نمودار ہوئے جب یہ مسجد اسلام آباد میں ہونے والی ختم نبوت تحریک کے جلسوں اور جلوسوں کا مرکز بن گئی۔ تحریک کے روح رواں مفتی محمود مولانا کے استاد تھے۔ اس تحریک کے دوران یہ تعلق سیاسی نوعیت اختیار کر گیا اور آنے والے دنوں میں وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کے خلاف سیاسی تحریک میں بھی لال مسجد نے اہم کردار ادا کیا۔

ضیا الحق اپنے اسلامی لبادے کے ساتھ برسر اقتدار آئے تو دیگر بہت سوں کی طرح مولانا عبداللہ کی بھی ان سے خاصی قربت رہی۔ وہ مرتے دم تک رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ رہے۔ مولانا عبداللہ نے اسّی کی دہائی میں باقاعدہ ایک تحریک کے ذریعے اسلام آباد میں نئی مساجد اور مدارس کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیا۔ اس دوران بیسیوں مساجدکی بنیاد رکھی گئی لیکن بعض مبصرین کے نزدیک ان میں سے بیشتر سرکاری زمینوں پر غیر قانونی قبضے کر کے تعمیر کی گئیں۔ انہوں نے جامعہ فریدیہ کے نام سے بچوں اور جامعہ حفصہ کے نام سے بچیوں کے لیے مدارس بھی تعمیر کیے۔

t.gif

اس دوران مولانا نے ملک میں زور پکڑتی فرقہ واریت میں بھی سرگرم کردار ادا کیا۔انّیس سو اٹھانوے میں جب وہ اسلام آباد میں ایک نامعلوم گولی کا نشانہ بنے تو ان کے ورثا میں بیوہ کے علاوہ دو بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ وصیت کے مطابق ان کے بڑے بیٹے مولانا عبدالعزیز کو ان کا جانشین اور لال مسجد کا خطیب مقرر کیا گیا۔ اس طرح والد کی وفات کے بعد مولانا عبدالعزیز خطیب لال مسجد اور جامعہ فریدیہ اور ان کی زوجہ جامعہ حفصہ کی مہتمم قرار پائیں۔

مولانا عبدالعزیز ایک فرمانبردار فرزند کے طور پر ایک غیر متنازعہ فرد سمجھے جاتے تھے۔ لیکن ان کے چھوٹے بھائی، جن کا نام ان کے دادا کی مناسبت سے عبدالرشید غازی رکھا گیا تھا، ذرا مختلف طور طریقوں کے ساتھ سامنے آئے۔

سب سے پہلے تو عبدالرشید نے کسی قسم کی دینی تعلیم حاصل کرنے سے انکار کر دیا۔ والد کے دباؤ پر فیصل مسجد سے ملحق مدرسے میں داخلہ تو لے لیا لیکن تعلیم ادھوری چھوڑ کر راہ فرار اختیار کی۔ حافظ عبدالرشید غازی نے داڑھی نہ رکھنے کا فیصلہ کیا اور مسجد و مدرسے کو خیر باد کہہ کر قائد اعظم یونیورسٹی میں انٹر نیشنل ریلیشنز میں ایم اے کرنے کے لیے داخلہ لے لیا۔
وہ پینٹ شرٹ پہنتے اور مخلوط محفلوں میں شرکت کرتے۔ اس دوران رواج کے برعکس حافظ کا لفظ اپنے نام کے ساتھ لگانے سے احتراز کرتے رہے۔ والد ان کی غیر شرعی طرز زندگی سے اتنے نالاں ہوئے کہ وصیت نامے میں اپنے مدارس اور مساجد پر مبنی جائیداد کا بلا شرکت غیر مالک اپنے بڑے بیٹے کو بنا ڈالا۔

عبدالرشید غازی کچھ اور ہی چاہتے تھے۔ امتیازی نمبروں سے ایم اے کی ڈگری لینے کے بعد انہوں نے سرکاری ملازمت کی ٹھانی اور انّیس سو نواسی میں وزارت تعلیم میں سترہ گریڈ کے افسر لگ گئے۔ یہاں سے ڈیپوٹیشن پر اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے اسلام آباد دفتر میں چلے گئے جہاں کئی سال خدمات انجام دیں۔
t.gif


ان کی شادی بھی مری کے ایک متمول اور نسبتاً آزاد خیال گھرانے میں ہوئی۔ ان کی زوجہ آج بھی اسلام آباد کی سڑکوں پر اپنی سسرالی روایات کے خلاف گاڑی ڈرائیو کرتی نظر آتی ہیں۔والد کے قتل نے عبدالرشید غازی کو بدل کر رکھ دیا۔ رفتہ رفتہ انہوں نے مسجد اور مدرسے کے معاملات میں دلچسپی لینا شروع کی اور چہرے پر داڑھی نمودار ہونا شروع ہو گئی۔ سرکاری ملازمت بہرحال چلتی رہی۔ بڑے بھائی نے ان کی بدلتی سوچ کی حوصلہ افزائی کی اور مدرسے اور مسجد میں اپنا نائب اور جانشین مقرر کر دیا۔
عبدالرشید غازی پہلی بار منظر عام پر سال دو ہزار ایک میں اس وقت آئے جب ملک کی مذہبی جماعتوں نے امریکی حملے کے خلاف افغانستان کے دفاع کے لیے ایک تنظیم کا اعلان کیا۔ عبدالرشید غازی، جو کہ اب اچانک، مطلوبہ مذہبی تعلیم اور ڈگری نہ ہونے کے باوجود مولانا ہوچکے تھے، مولویوں کے اس اتحاد کے مرکزی رہنما قرار پائے۔ اسلام آباد میں ہر روز ایک جلسہ ہوتا اور مولانا عبدالرشید غازی دیگر مذہبی رہنماؤں کے ساتھ کھڑے جذباتی انداز میں خطاب کرتے۔

حکومت کے ساتھ ان کے معاملات میں اصل خرابی اس وقت آئی جب سال دو ہزار چار میں قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن ہوا اور دیگر مذہبی عناصر کی طرح عبدالرشید غازی نے بھی ڈٹ کر اس کی مخالفت کی اور اس کے لیے لال مسجد کا پلیٹ فارم استعمال کیا۔

اس آپریشن میں جب دونوں طرف سے بھاری جانی نقصان کی اطلاعات آنا شروع ہوئیں تو لال مسجد سے ایک فتوی جاری ہوا کہ اس لڑائی میں مارے جانے والے فوجیوں کو ’ہلاک‘ جبکہ مقامی قبائلیوں اور طالبان کو ’شہید‘ کہا جائے۔ یہ تو گویا صدر جنرل مشرف اور ان کی افواج کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہوا کیونکہ فوجی جوانوں کا جانی نقصان سرکاری اندازوں سے بڑھتا جا رہا تھا۔

t.gif

نتیجتًا حکومت نے ایک روز اعلان کیا کہ عبدالرشید غازی اسلام آباد اور راولپنڈی میں یوم آزادی کے موقع پر متعدد اہم سرکاری عمارات پر بم دھماکوں کے منصوبے میں ملوث پائے گئے ہیں۔ اس فہرست میں ایوان صدر، پارلیمنٹ ہاؤس اور جی ایچ کیو کی شمولیت نے معاملے کو سنگین بنا دیا۔ غازی صاحب زیر زمین چلے گئے اور حکومت نے ان کی ’بارود سے بھری گاڑی‘ میڈیا والوں کے سامنے پیش کر دی۔اس کے بعد درون پردہ کیا ہوا، معلوم نہیں لیکن ایک روز مذہبی امور کے وزیر اعجاز الحق نے اعلان کیا کہ موصوف اس سازش میں ملوث نہیں ہیں اور دیگر ملزمان کے خلاف چالان عدالت میں پیش کر دیا گیا۔

ان ملزمان میں قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے چند افراد کے علاوہ ایک دو ازبک جنگجوؤں کے نام بھی لیے جاتے رہے۔ جن کے بارے میں یہ تصدیق ہو چکی تھی کہ ان تمام افراد کا لال مسجد آنا جانا تھا۔ حکومت نے تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا تو پتہ چلا کہ عبدالرشید غازی کے وزیرستان میں بسنے والے جنگجوؤں سے قریبی روابط رہے ہیں۔

مولانا کو عسکری تربیت کے عملی مظاہرے کا موقع اسلام آباد میں اس وقت ملا جب ان پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ کلاشنکوف سے ہونے والی فائرنگ سے حملہ آور بھاگ جانے پر مجبور ہوئے۔ مولانا کا یہ خاصہ ہے کہ وہ ہر وقت مسلح رہتے ہیں۔ ایک کلاشنکوف انکی گاڑی میں، دفتر کی میز کے ساتھ اور سونے کے کمرے میں ہر وقت موجود ہوتی ہے۔
 

رضوان

محفلین
شکریہ قیصرانی
آج روزنامہ ایکسپریس میں حسن نثار اور عبدلقادرحسن کے کالم بھی خاصے چشم کشاء ہیں ربط نیچے دے رہا ہوں۔۔۔
حسن نثار کے لیے http://www.express.com.pk/epaper/in...tional_PAGE&Date=20070707&Pageno=3&View=1 id=

عبدلقادر حسن http://www.express.com.pk/epaper/in...orial_PAGE&Date=20070707&Pageno=12&View=1 id=

لیکن اس سے بھی بڑی یہ بات ہے کہ معاملات اب اتنے طول کھینچ چکے ہیں کہ مُلا جو چاہتے تھے وہ تقریبًا حاصل کر چکے ہیں یعنی عوام کی توجہ اور ہمدردیاں ساتھ ہی حکومت کا بودا پن بھی آشکارا ہوگیا کہ مًٹھی بھر افراد نے ناکوں چنے چبوادیئے ہیں یہ دشمنوں کی کسی منظم کاروائی کو کس طرح ناکارہ کریں گے۔
 
غازی صاحب زیر زمین چلے گئے اور حکومت نے ان کی ’بارود سے بھری گاڑی‘ میڈیا والوں کے سامنے پیش کر دی۔اس کے بعد درون پردہ کیا ہوا، معلوم نہیں لیکن ایک روز مذہبی امور کے وزیر اعجاز الحق نے اعلان کیا کہ موصوف اس سازش میں ملوث نہیں ہیں اور دیگر ملزمان کے خلاف چالان عدالت میں پیش کر دیا گیا۔
میں اس بات کا حوالہ کب سے تلاش کررہا تھا، شکر ہے کہ آپ کی پوسٹ سے مل گیا.... یہ ایک اہم بات ہے.... اعجاز الحق صاحب نے صرف اس بات پر مولانا صاحب کو چھڑوادیا کہ موصوف کو ان پر اعتماد تھا اور کہا کہ مولانا صاحب کی بے خبری میں ان کی گاڑی اس مقصد کے لیے استعمال ہوئی.... ناانصافی کی اعلیٰ ترین مثال ہے.
ایک خبر میں نے یہ بھی پڑھی تھی کہ فوج کے خلاف فتوے کے بعد بھی ایجنسیوں نے غازی برادران کی حمایت جاری رکھی......... ٹھیک ہے... ایک طرف تو یہ دو نکات رہے...
اب تازہ صورتحال کی طرف آیئے.... چودھری شجاعت صاحب تمام معاملات طے کروادیتے ہیں لیکن پھر اچانک حکومت گڑبڑ کردیتی ہے اور شجاعت صاحب ٹی.وی پر آکر کہتے ہیں کہ وہ مفاہمت کراسکتے تھے لیکن کچھ نادیدہ قوتیں ایسا نہیں چاہتیں...
اس سے ملتا جلتا بیان اب مولانا فضل الرحمن کا بھی تھا........ اس سے کیا نتیجہ اخذ کیا جائے؟؟؟
کیا یہ نہیں خیال آتا کہ پہلے ایجنسیاں ہی انہیں استعمال کرتی رہیں اور اب بھی یا تو یہ ایجنسیوں کا کوئی کھیل ہے یا پھر یہ کی اب ایجنسیاں اپنا کام نکلواچکی ہیں اور یہ وقت ہے غازی برادران کو قربانی کا بکرا بنانے کا....
 

قیصرانی

لائبریرین
چودھری شجاعت صاحب تمام معاملات طے کروادیتے ہیں لیکن پھر اچانک حکومت گڑبڑ کردیتی ہے اور شجاعت صاحب ٹی.وی پر آکر کہتے ہیں کہ وہ مفاہمت کراسکتے تھے لیکن کچھ نادیدہ قوتیں ایسا نہیں چاہتیں...
اس سے ملتا جلتا بیان اب مولانا فضل الرحمن کا بھی تھا........ اس سے کیا نتیجہ اخذ کیا جائے؟؟؟
خود کش دھماکوں کی دھمکی بلکہ ایک طرح‌ سے اعلان کے بعد میرا نہیں‌ خیال کہ حکومت باعزت یا محفوظ واپسی کا راستہ دینے پر تیار ہوتی

جہاں‌ تک بات ہے چوہدری شجاعت کی، تو ان کے بارے بی بی سی نے لکھا تھا کہ وہ جس سے ملتے ہیں، اسی کو درست قرار دیتے ہیں. حکومت کی طرف سے مذاکرات کرنے گئے تھے اور مولانا برادران سے مل کر یہ کہنے لگے کہ میری بیوی نے ٹی وی توڑ‌ دیا ہے
 

اظہرالحق

محفلین
میرے پاس جو نیوز ہے جو شاید ابھی تک نہیں چلی سو ادھر ہی بریک کر دیتا ہوں ۔۔۔۔ گو سب کو معلوم ہے مگر پھر بھی

اے پی سی اور جیوڈیشری کا کوئی تعلق نہیں ہے لال مسجد ہے ، اوپر سے (کافی اوپر سے ؛ آرڈر آئے ہیں کہ عوام میں اسلام کو اتنا مسخ کر دیا جائے کہ لوگ رپورٹ تھانے جا کہ لکھائیں کہ اکبر اللہ کا نام لیتا ہے اور اسے فوراً گرفتار کر لیا جاے ۔۔ ۔ ۔

غازی برادران نے جو غازہ لگایا ہے حکومت اسے مزید پفنگ سے ابھار رہی ہے ، ارے ہاں خبر تو رہ گئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بڑے بھائی نے کہا ہے کہ غازی کو شہید نہ ہونے دو ۔ ۔ ۔ ۔ اور گرفتار غازی کو کہا گیا ہے کہ حوروں کے جھرمٹ میں بیٹھے رہو ۔ ۔ ۔ ۔ اور ٹی پی ۔۔ ۔ یعنی ٹائم پاس کرو ۔ ۔

اور ہاں وردی والے کو بے دردی سے کہا گیا ہے ، کہ بھائی دیکھو تم نے جانا تو ہے نہیں ۔ ۔ ۔۔ اس لئے بہتر ہے ۔۔ ۔ ۔ کہ کہتے رہو ۔ ۔ بیانات ۔ ۔۔ ۔۔اور کرفیو کا ٹائیم بڑھاتے رہو

اور حکومت کی بی جماعت ایم ایم اے جو بہت مخلص ہے چوبیس چوبیس گھنٹے نشستن گفتن اور برخاستن کی پلاننگ سے حکومت کی مدد کر رہی ہے ۔ ۔ ۔

اور ہاں میڈیا ۔ ۔ ۔ والوں کی شامت آنے والی ہے ،، ، ، جو لال مسجد کا میچ بال ٹو بال دکھا رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

رہی عوام ۔ ۔ ۔ تو بھئی بقول حسن نثار کے ۔ ۔ ۔ ۔ تماشا بننے کے لئے بھی تو کچھ ہو گا نا ۔ ۔ ۔

اللہ ہم پر اپنا کرم کرے (آمین
 

پاکستانی

محفلین
عوام کی ایک بڑی تعداد لال مسجد کے شدت پسندوں کے خلاف حکومت کے آپریشن کی حمایت کر رہی ہے لیکن ایک ایسی ماں بھی ہے جو کہتی ہے کہ لال مسجد میں اس کی محصور بیٹی اگر ہلاک ہو گئی تو یہ اس کی خوشی نصیبی ہوگی۔

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی آسیہ بی بی ان والدین میں شامل ہیں جو لال مسجد میں محصور اپنے بچوں کو لینے کے لیے پچھلے چھ روز سے جی سکس کے علاقے کے چکر لگاتے نظر آتے ہیں۔

حوالہ
 

پاکستانی

محفلین
لال مسجد کے نائب خطیب مولانا عبدالرشید غازی نے دعوٰی کیا ہے کہ حکومتی آپریشن میں اب تک تیس طالبات ہلاک ہوچکی ہیں جنہیں جامعہ حفصہ کے اندر اجتماعی قبر میں دفن کر دیا گیا ہے۔

بی بی سی کے ساتھ ٹیلیفون پر خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اب احاطے سے کوئی تعفن نہیں اٹھ رہا اور صرف ایک طالبعلم کی لاش موجود ہے جو وہ ملاقات کے لیے آنے والے علماء اور پارلیمینٹیرینز کے وفد کے حوالے کر دیں گے تاکہ اس کا پوسٹ مارٹم کیا جا سکے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اب بھی ان کی معیت میں اٹھارہ سو طلباء و طالبات موجود ہیں جو نہ صرف ان کے ساتھ جینے اور مرنے کا عہد کر چکے ہیں بلکہ انہوں نے وصیتیں بھی لکھ دی ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے مسجد اور مدرسے کے احاطے میں بارودی سرنگیں بچھا رکھی ہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ اس پر بات کرنا نہیں چاہتے۔

مولانا عبدالرشید غازی نے طالبات کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کے حکومتی دعوے کو رد کیا اور کہا کہ ان کی پہلی دفاعی لائن میں طالبعلم جبکہ دوسری دفاعی لائن میں طالبات ہیں۔

انہوں نے حکومت کے سامنے نہ جھکنے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ وہ مقابلہ کرتے ہوئے مرنے کو ترجیح دیں گے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حکومت نے آپریشن کر کے انہیں ہلاک کیا تو اسلام آباد بغداد بن جائے گا۔

مزید
 
Top