لال مسجد آپریشن شروع

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
اب اپ لوگ ہی دیکھ لیں خود ایک طرف بھی مسلمان اور دوسرے طرف بھی سوات میں دیکھیں وزیرستان میں دیکھیں اور ابھی لنڈی کوتل میں بھی میرے خیال دھماکہ ہوا ہے یہ سب کیا ہے ؟
کیا امریکہ کے لیے وقت دینا ہے کہ نہیں ابھی اس فورم کا ہی حال دیکھیں کل تک دیندار لوگوں کی توجہ اللہ کی عظمت پر تھی یعنی ان پر مضامین لکھیں جارہے تھے اور آج ؟ Divide and conquer مجھے تو نہ مولانا عبدالعزیز صاحب سے کوئی کام اور نہ کسی اور مجھے تو دکھ تب ہوتا جب کوئی اللہ کے حکم اور نبی کے سنت کا مذاق اڑاتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم ہر اس بندے سے محبت کرتے ہیں جواللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں چاہے وہ ظاہری کیوں نہ ہوں باطن تو اللہ خوب جانتا ہے


اللہ ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائیں


واجد
 
شمشاد نے کہا:
واہ واہ کیا السلام کی خدمت کر رہے تھے کہ تین تین کلاشنکوفیں ایک گاڑی میں، ایک دفتر میں اور ایک گھر میں اور آنٹی مدرسے میں کندھے پر کلاشنکوف ڈالے گھومتی تھیں۔

واجد صاحب یہ کیسی خدمت تھی اسلام کی؟ کیا یہی کچھ پڑھاتے تھے وہاں مدرسے میں؟

اگر یہ سب کچھ ہمارے ڈاٹا بیس میں جا رہا ہے تو یہ مُلا کیوں بھولے بیٹھے تھے کہ ان کا بھی ڈاٹا بیس ہے۔ یہ جو اتنی اموات ہوئی ہیں، ان کا کون ذمہ دار ہے؟ میں تو کہوں گا یہی مُلا ہیں جنہوں نے کتنے ہی گھروں کے چراغ گُل کر دیئے ہیں اور ابھی نجانے اور کتنے اپنی جان سے جائیں گے۔

یہ بات میں شرطیہ کہتا ہوں کہ یہ جو نائب اندر پھنسے ہوئے ہیں ناں، ان کو ذرا برابر بھی بھاگنے کا راستہ ملا تو یہ بھی نو دو گیارہ ہو جائیں گے اپنے برقع پوش بھائی کی طرح۔

شمشاد بھائی یہ تو آپ گورنمنٹ ہی سےپوچھیں لیں کہ حکومت کی بالادستی میں چھ مہینے کیوں لگیں ان کا بنیادی جو میں نے پہلے پوسٹ میں لکھا ہے ان پر زرہ غور کریں
 

شمشاد

لائبریرین
واجدحسین بھائی مجھے نہ تو بحث کرنی ہے اور نہ ہی کسی رکن سے ذاتی پرخاش ہے۔ میں تو بس یہ جانتا ہوں کہ جو اسلام کی آڑ لے کر منافقت کر رہا ہے وہ اللہ سے دشمنی کر رہا ہے۔ اور جو اللہ کا دشمن وہ میرا دشمن۔

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سیدھے رستے پر چلنے کی توفیق دے۔
 

ابوشامل

محفلین
دونوں فریقین کی غیر ذمہ دارانہ حرکات کے باعث وطن عزیز میں بہت بڑا سانحہ واقع ہوا ہے، لیکن اس میں زیادہ قصور جامعہ حفصہ اور لال مسجد والوں کا ہی ہے اور چینی باشندوں کے اغواء کے بعد آپریشن ناگزیر ہو گیا تھا۔ اس واقعے کے کئی افسوسناک پہلو ہیں،

1- پہلا یہ کہ ایمان، تقوی اور جہاد فی سبیل اللہ کا نعرہ لگانے والی فوج کے زیر انتظام ملکی دارالحکومت میں ایک مسجد پر حملہ کیا گیا ، چاہے اس کی وجوہات کچھ بھی ہوں بہرحال اللہ کے گھر پر حملہ ایک افسوسناک واقعہ ضرور ہے۔

2-دوسرا اہم پہلو یہ کہ یہ واقعہ اس موقع پر پیش آیا جب عدلیہ اور فوج کے درمیان چپقلش اپنے عروج پر تھی اور عوامی تائید واضح طور پر عدلیہ کے حق میں ہے، اس موقع پر لال مسجد کے خلاف آپریشن کے باعث منصف اعلی (چیف جسٹس) سے عوام سمیت ذرائع ابلاغ کی توجہ بھی ہٹ گئی،

3-تیسرا اہم ترین پہلو یہ کہ ملک بھر کے علمائے کرام کے سر شرم سے جھک گئے جب ان کے ایک ساتھی جو جہاد کی اور سر کٹانے کی تعلیم دیتے تھے، برقعہ پہن کر فرار ہونے کی کوشش کرتے ہوئے گرفتار ہوئے۔ جنہیں وہ ہمیشہ سمجھاتے رہے کہ معاملہ افہام و تفہیم سے حل کیا جائے اور تصادم سے گریز کیا جائے۔ یہ علماء کے لیے یقینا ایک شرمناک منظر تھا اور ایک طرف یہ آپریشن ملک کے مذہبی طبقوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوگا تو دوسری جانب مذہب بیزار اور جدت پسند طبقے کو ایڈوانٹیج حاصل ہوگا اور ان پر عنایات کا سلسلہ بھی دراز ہو جائے گا۔

4-بہرحال سب سے زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس آپریشن کو بنیاد بنا کر ملک کے سب سے بڑے رفاہی اداروں یعنی مدارس کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز ہوگا اور اس کے نتیجے میں ملک میں جو انارکی پھیلے گی اس کی ایک جھلک ہم گذشتہ روز قبائلی علاقوں میں خود کش حملوں کی صورت میں دیکھ چکے ہیں جو لال مسجد کے خلاف آپریشن کے دوران ہوئے اور 10 فوجیوں سمیت 18 افراد جاں بحق ہوئے۔

5-اس واقعے کے حوالے سے ایک اور افسوسناک بات یہ کہ اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں پاکستان کے بچے کچھے امیج کو بھی شدید دھچکا پہنچا ہے اور شاید ہماری فوجی حکومت کا مقصد بھی یہی تھا کہ عالمی قائدین(امریکہ و یورپ وغیرہ) کو یہ باور کرایا جائے کہ اگر ہم نہ رہے تو مذہبی انتہا پسند اقتدار پر قبضہ کر لیں گے۔ مذہبی عناصر سے ٹکراؤ عدلیہ اور ذرائع ابلاغ سے ٹکر کے بعد فوج کی تیسری اور سب سے خوفناک ٹکر ہوگی۔

میں نے تمام تر اختلافات کے باوجود اکبر بگٹی کے خلاف آپریشن کی مذمت کی تھی اور بالکل اسی طرح لال مسجد پر حملے کی بھی مذمت کروں گا کیونکہ اس کے سالمیت پاکستان پر بہت دور رس اور منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

گذشتہ تین دن مجھ سمیت تمام محب وطن اور اسلام پسند باشندوں پر بہت بھاری گذرے ہیں خصوصا مستقبل قریب کے حالات کے حوالے سے میں کافی فکر مند ہوں۔ اللہ اسلام کے اس قلعے کی حفاظت فرمائے اور اس کے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنائے۔
 

ابوشامل

محفلین
ویسے اس ہنگامے میں حکومت اپنا "ہاتھ" دکھا گئی ہے، وضاحت مندرجہ ذیل خبر سے ہوگی:

1100217319-1.jpg

1100217319-2.gif
 

رضوان

محفلین
عجیب بات ہے کہ بہت کچھ دوبارہ یاد آگیا۔
(ملا عمر رکشے میں بیٹھ کر فرار)مزار شریف اور قندھار میں بھی سینکڑوں نوجوانوں کو جہاد کے نام پر جمع کرنے والے خود شمالی اتحاد سے جاملے اور مہمان مجاہد پردیس میں قلعہ بند ہوگئے تو پٹرول پھینک کر آگ لگادی جو آگ سے جان بچا کر نکلے وہ گولیوں کا شکار ہوئے اور پکڑے جانے والے کنٹینروں میں ڈھیر ہوکر اجتماعی بے نشان قبروں میں جاسوئے باقی ماندہ گوانتانامو بے میں نشانِ عبرت ہیں۔
صدام حسین ایک بے بس چوہے کی طرح پکڑا گیا۔
جو لوگ پہلے مسجد سے باہر آرہے تھے ان کے متعلق لال مسجد سے اعلان ہورہاتھا کہ یہ ایمان کی کمزوری کے باعث ہے کہ آزمائش کی گھڑی میں استقامت نہیں۔ مولانا سپہ سالار صاحب برقعہ میں کونسی استقامت کا مظاہرہ فرمانے آپ تشریف لا رہے تھے چند روزہ زندگی گزارنے؟
ان سے تو ہٹلر ہی بہادر نکلا جس کا نا کوئی دین تھا نا مزہب پھر بھی اپنی لاش تک دشمنوں کے حوالے نہیں کی۔

ایک اور واقعہ آپ لوگوں کو یاد دلواتا چلوں
ستر کے عشرے کے آخر میں یا اَسّی کی دہائی میں مسجد الحرام (خانہ کعبہ) میں اہلِ قصیم نے تہہ خانے میں سینکڑوں حجاج کو یرغمال بنالیا تھا اور بالکل ایسے ہی مطالبات تھے یعنی نفاذِ حقیقی اسلام۔ وہ لوگ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ سروں پر کفن باندھ کر آئے تھے اور حقیقی معنوں میں انہوں نے اپنی جانیں دیں کچھ کلین اپ کے دوران اور باقیماندہ کے سر قلم کیے گئے ( فساد بالارض اور نہتے مسلمانوں حاجیوں کی جان خطرے میں ڈالنے کے جرم میں) اور یہ سب سعودی عربیہ میں ہوا۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
رضوان، جہاں تک مجھے یاد پڑ رہا ہے حرم پاک پر قبضہ کرنے والے اسلام کے نفاذ کا مطالبہ نہیں کر رہے تھے بلکہ ان کا مطالبہ تھا کہ انہیں امام مہدی تسلیم کیا جائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
رضوان بھائی خوش آمدید،

میرے خیال میں جتنا نقصان اسلام کو ان نام نہاد مُلاؤں نے پہنچایا ہے اتنا تو غیر مسلموں نے بھی نہیں پہنچایا۔
 

شمشاد

لائبریرین
نبیل نے کہا:
رضوان، جہاں تک مجھے یاد پڑ رہا ہے حرم پاک پر قبضہ کرنے والے اسلام کے نفاذ کا مطالبہ نہیں کر رہے تھے بلکہ ان کا مطالبہ تھا کہ انہیں امام مہدی تسلیم کیا جائے۔

نہیں نبیل بھائی رضوان کی بات ہی صحیح ہے۔

مجھے یاد پڑتا ہے پاکستانی گوریلا فوج نے بھی اس میں حصہ لیا تھا۔
 

رضوان

محفلین
نبیل نے کہا:
رضوان، جہاں تک مجھے یاد پڑ رہا ہے حرم پاک پر قبضہ کرنے والے اسلام کے نفاذ کا مطالبہ نہیں کر رہے تھے بلکہ ان کا مطالبہ تھا کہ انہیں امام مہدی تسلیم کیا جائے۔

اگر آج بھی “ آج“ ٹی وی اور جیو نہ ہوتا تو یہ بشارتوں والا مولوی امام مہدی ہی کے روپ میں دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا۔ جیسے مشرقی پاکستان میں “محبت کے زمزمے بہہ رہے تھے“
اپنے یہان تو ویسے بھی فوج پہلے نشانہ پکا کرنے کے لیے اسی طرح کے مادھو بناتی ہے مگر مادھو اپنے آپ کو اصلی تے وڈا خان سمجھنے لگتے ہیں تو ذرا نشانہ وشانہ صحیح طرح ٹسٹ ہوجاتا ہے۔
اہل قصیم کے خروج کے بعد سعودیہ میں سختی شروع ہوئی تھی۔۔
 

رضوان

محفلین
جی شمشاد بھائی سول سوسائٹی بھی اتنی ہی قصور وار ہے جتنے کہ “ضیاع“ الحق اور اس کے باقیات، جب صحت مند سماجی قدریں اور تعلیم کا معیاری نظام ہی تباہ ہو جائے گا تو یہ جنسی ناآسودگی کا شکار مولوی فحاشی کے خلاف جہاد ہی تو کرے گا کیوں مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی، رشوت اور معاشرتی جبر کا تو وہ خود حصہ دار ہے۔ پجیرو اور لینڈ کروزر ایک مدرسے کی خدمت کرنے والے مولوی کے پاس کیسے آتی ہے اہلِ خیر کون ہیں؟ پاکستان کے تجار کیا ذخیرہ اندوز نہیں کیا ٹیکس چوری نہیں کرتے کیا بجلی اور گیس کا بِل پورا ادا کرتے ہیں؟ کیا مزدور کو صحیح اجرت دیکر مال بنواتے ہیں۔ بس جناب یہ جڑ تک سلسلہ ہی ایسا ہی اور پاکستان کی اکثریت اہلِ صلوات ہے اور “سہ روزے“ “چلے“ لگاتی ہے۔ مگر اپنی ملت کے بیٹے بیٹیوں کومعیاری تعلیم دینے سے معذور ہیں۔
 

باسم

محفلین
وفاق المدارس کا موٴقف ,,,,سویرے سویرے…نذیر ناجی

وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر حضرت مولانا سلیم اللہ خان کا ایک مضمون موصول ہوا ہے جس میں انہوں نے وفاق المدارس اور جامعہ حفصہ کے دو مولوی حضرات کے مابین اختلاف رائے کی وجوہ بیان کی ہیں۔ مولانا سلیم اللہ خان کا مضمون پیش خدمت ہے، جو ان کے موقف کی ترجمانی کرتا ہے۔ ”اسلام آباد میں جامعہ حفصہ کے حوالے سے جو سنگین واقعات پیش آ رہے ہیں، ان پر ہم سخت تشویش کا اظہار کرتے ہیں، اسلام آباد کے واقعات ہوں، یا آزاد قبائل کے، یا بلوچستان کے، ان میں کسی بھی قسم کی لاقانونیت کو ہم صحیح نہیں سمجھتے اور ان پر بھی ہم سخت تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔لیکن ہم یہ واضح کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں، کہ ان سنگین اور تشویش ناک واقعات کے مواقع خود ہماری حکومت کی غلط پالیسیوں اور ناعاقبت اندیشانہ کارروائیوں کا نتیجہ ہے، حکومت کے انہی غلط اقدامات نے لاقانونیت کو ہوا دی اور یہ سلسلہ برابر جاری ہے۔ تازہ ترین واقعات میں اہم واقعہ چیف جسٹس کا ہے۔ اسلام آباد میں بدکاری کا اڈا قائم تھا اہل محلہ سخت پریشان تھے، اس محلہ کی فیڈریشن نے بارہا پولیس سے اس کو ختم کرنے کی درخواست کی، لیکن قانون نافذ کرنے والوں نے کوئی کارروائی نہ کی، تو دوسروں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا حال پورے پاکستان میں جس قدر افسوسناک اور تشویش ناک ہے، اس سے پوری قوم نالاں اور غم زدہ ہے، جس کی بنا پر جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے، پورا ملک لوٹ مار، قتل و غارت، اغوا کی زد میں ہے، پولیس کے ان جرائم میں ملوث ہونے کی خبریں بھی عام ہیں۔ کوئی سرکاری محکمہ کرپشن سے محفوظ نہیں، آئے دن اس کی خبریں اخبارات میں چھپتی رہتی ہیں، غربت کا گراف اس قدر بلند ہو گیا کہ زندگی برقرار رکھنا بس سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ خودکشیاں ہو رہی ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچتی رہی ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو بیچنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ پولیس کی سہل انگاری سے مجبور ہو کر لوگوں نے اپنے محلوں کی حفاظت کے لئے چندہ کر کے گلیوں میں ناکے قائم کر کے سیکورٹی گارڈ بٹھائے ہوئے ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں بچوں کی تعلیم سے مایوس ہو کر پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بھاری بھاری فیس ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں علاج سے مایوس ہو کر مالی وسائل رکھنے والے حضرات پرائیویٹ ہسپتالوں میں بھاری فیس ادا کر کے اپنی ضرورت پوری کرتے ہیں اور بے وسیلہ لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مایوس ہو کر قانون کو ہاتھ میں لینے کی واردات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے بلکہ حکومت نے شرعی معاملات میں تمام مکاتب فکر کے علماء کے متفقہ فیصلے کے خلاف تحفظ حقوق نسواں کے نام پر قانون نافذ کرنے کی اتھارٹی بھی اپنے ہاتھ میں لے لی اور اس کے اصل ذمہ داروں کو جو شریعت کو جانتے ہیں نظرانداز کر دیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آزاد قبائل میں لوگوں نے شریعت کو ہاتھ میں لینے کی باتیں شروع کر دی ہیں، وہاں پاکستان کے خلاف جہاد کی تیاری کی خبریں آرہی ہیں، ٹانک اور کھاریاں میں جو المناک واقعات پیش آئے ہیں، وہ بھی اسی کی کڑی معلوم ہوتے ہیں۔ یہ اندرون ملک واقعات کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ اگر بیرون ملک کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو امریکا جس پر ساری کارروائیوں کا مدار و انحصار تھا وہ اب برابر تنبیہ کر رہا ہے اور واشگاف انداز میں عدم اعتماد ظاہر کر رہا ہے۔ افغانستان میں کرزئی کا لب و لہجہ پاکستان اور اس کی حکومت کے خلاف زہر اُگلنے سے کسی طرح باز نہیں آتا۔ رہی بات انڈیا کی تو ہم اس کے متعلق ہزار لچک دکھا کر بھی کوئی فائدہ حاصل کرنے سے قاصر رہے ہیں اور وہ برابر اپنے سابقہ موقف پر بھی قائم ہے اور ہمیں بیوقوف بنا کر فوائد بھی سمیٹ رہا ہے۔ اسلام آباد میں مسجد حمزہ کو شہید کیا گیا اور مزید سات مساجد کو نوٹس جاری کئے گئے کہ ان کو بھی شہید کیا جائے گا۔ انتظامیہ کی یہ کارروائی اسلام آباد ہی نہیں پورے ملک کیلئے بے حد بے چینی کا سبب بنی، بڑے بڑے مظاہرے ہوئے اور حکومت کو پس پائی اختیار کرنا پڑی، (چراکارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی)، اسی اثناء میں جامعہ حفصہ کی طالبات نے چلڈرن لائبریری پر قبضہ کر لیا۔ وفاق المدارس کے صدر، ناظم اعلیٰ، نائب صدر، اسلام آباد راولپنڈی کے علماء نے جامعہ حفصہ کی انتظامیہ سے بار بار مذاکرات کیے۔ وزارت داخلہ سے اور اسلام آباد کی انتظامیہ سے مسلسل مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا، جس کے نتیجہ میں مسجد حمزہ کی تعمیر کا فیصلہ ہوا، وزارت مذہبی امور کے سربراہ جناب اعجاز الحق نے اس کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں خود شرکت کی۔ بقیہ مساجد کو شہید کرنے کے نوٹس واپس لیے گئے اور وزیر داخلہ کے یہاں ایک کمیٹی کی تشکیل عمل میں آئی، جس میں علماء اور انتظامیہ کے افراد شامل کیے گئے کہ یہ حضرات باہمی مشاورت سے مساجد اور مدارس کے معاملات طے کیا کریں گے۔ کمیٹی کی تشکیل اور اس کے دائرہ کار اور طریقہ کار پر علماء نے اطمینان کا اظہار کیا۔ یہ علماء وہی ہیں جو ہمیشہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں پیش آمدہ واقعات میں امہ کی رہنمائی کرتے ہیں اور جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کی انتظامیہ کی حمایت ونصرت میں پیش پیش رہے ہیں۔ جامعہ حفصہ کی انتظامیہ لائبریری کا قبضہ چھوڑنے پر کسی طرح راضی نہ تھی، بلکہ طالبات نے اس ضمن میں کئی ایسے کام بھی کیے، جو ان کی شایان شان نہ تھے۔ وفاق المدارس کے لائبریری چھوڑنے کے فیصلہ کو اخباری بیان میں مسترد کیا گیا۔ بی بی سی کو انٹرویو دیا گیا، وفاق کی انتظامیہ کو خط لکھ کر بھی مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ بدکاری کا اڈا چلانے والی عورت کو گرفتار کر کے جامعہ حفصہ لایا گیا۔ اس کے ساتھ جامعہ حفصہ کی انتظامیہ نے پورے ملک میں وفد اور خطوط روانہ کیے اور اہل مدارس کو اسلام آباد آ کر حکومت سے مقابلہ کرنے کی دعوت دی یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اور انتشار کا سبب بن رہا ہے۔ ادھر وفاق المدارس نے اپنی عاملہ کا اجلاس اسی مسئلہ کو حل کرنے کے لئے اسلام آباد میں طلبہ کیا، عاملہ نے متفقہ طور پر لائبریری کو چھوڑنے کی درخواست کی اور کہا کہ آپ کے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے قوت کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ جو آپ کے پاس موجود نہیں اور حکومت… جس کا آپ مقابلہ کر رہے ہیں، قوت کے تمام وسائل پر قابض ہے۔ اس لئے نقصان عظیم کا سنگین خطرہ سروں پر منڈلا رہا ہے۔ جامعہ فریدیہ کے اساتذہ سے ملاقات کے ذریعہ ان کا نقطہٴ نظر معلوم کیا گیا، تو ایک دو کے علاوہ تمام اساتذہ نے اپنی انتظامیہ کی رائے سے اختلاف ظاہر کیا اور کہا کہ ہم نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح یہ حضرات اپنی ضد چھوڑ دیں لیکن انہوں نے ہماری بات نہیں مانی۔
 

باسم

محفلین
وفاق المدارس اور دوسرے اکابر علماء نے مولوی عبدالعزیز اور ان کے بھائی عبدالرشید غازی سے گزارش کی کہ دشمنان اسلام نے دینی مدارس کو دہشت گردی، انتہاپسندی کا مرکز قرار دینے کا اتنا پروپیگنڈہ کیا ہے کہ ان مدارس سے ناواقف اور بے خبر لوگ دینی مدارس کو ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ ہمارے یہاں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا پر یہ پروپیگنڈا روزانہ ہو رہا ہے۔ پرویز مشرف صاحب سے کئی میٹنگوں میں جب یہ بات آئی۔ تو ہم نے اس کی سختی سے تردید کی اور کہا آپ ثبوت کے ساتھ نشان دہی کریں، تو ایسے مدارس کے خلاف آپ سے پہلے ہم خود کارروائی کریں گے اور ان مدارس کو اپنے وفاق اور تنظیمات سے خارج کر دیں گے اور آپ کی کارروائی سے ہمیں اختلاف نہیں ہو گا، لیکن وہ کبھی بھی کسی مدرسہ کا نام پیش نہ کر سکے۔ ہر میٹنگ میں یہ بات بھی کھل کر سامنے آئی کہ پرویز مشرف مدارس کے خلاف نہیں ہیں۔ وہ ان کے ساتھ تعاون کے حامی ہیں۔ اخباری بیانات میں بھی اس حمایت کا ذکر ہوتا رہا ہے۔ اب جب کہ جامعہ حفصہ کی طالبات نے اپنے طرزعمل سے یہ ثبوت پیش کر دیا تو ظاہر بات ہے کہ ان اسلام کے دشمنوں کو مدارس دینیہ کے خلاف اقدام کرنے کا جواز فراہم ہو گیا ہے اور جامعہ حفصہ کی انتظامیہ نے ضد کا راستہ اختیار کر کے اس اقدام کے لئے مزید تقویت فراہم کی ہے تو تمام دینی مدارس، مساجد اور اداروں کے تحفظ کی ذمہ داری نبھانے والے حضرات کیوں بے چین نہ ہوں گے؟ اور آپ سے اپنی ضد چھوڑنے کے لئے بار بار مذاکرات کیوں نہیں کریں گے؟… آپ ان کی گزارش کو سمجھیں اور ان سے تعاون کریں۔ جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کی انتظامیہ نے وفاق المدارس سے بھی تعلق ختم کر دیا اور وفاق نے بھی اس کے فیصلے مسترد کرنے کی بنا پر الحاق کو ختم کرنا ضروری قرار دیا۔ پنڈی اور اسلام آباد کے علماء پر برملا عدم اعتماد کا اظہار کیا اور اپنی طرح دوسرے جذباتی اور سطحی سوچ رکھنے والے لوگوں کو خودرائی اور خودفریبی کی دلدل میں لا کھڑا کیا۔ مخلص اور خیرخواہ کا برعلماء جو ان کے ہی نہیں، ان کے والد مرحوم نے بھی اساتذہ کے درجہ میں ہیں۔ ان کی درخواست کو درخور اعتناء نہ سمجھا گیا بلکہ مفتی محمد تقی عثمانی جو جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کے مہتمم مولوی عبدالعزیز کے مرشد اور شیخ ہیں، ان کی بھی کسی بات کا اثر نہیں لیا گیا۔ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے مولوی عبدالعزیز سے کہا کہ آپ کو جو کچھ کہنا ہے وہ کہیں ، چنانچہ انہوں نے تقریباً آدھا گھنٹہ اپنا نقطہٴ نظر بیان کیا، اس کے بعد مولانا عثمانی نے ایک ایک بات کا جواب دیا اور فیصلہ کیا کہ مولوی عبدالعزیز، تم جو کرنے جا رہے ہو، اس سے تمہارا مقصد حاصل نہیں ہو گا اور تمہارا یہ اقدام نہ شرعاً درست ہے، نہ عقلاً، نہ قانوناً۔ اس سلسلے میں جو نقصانات ہوں گے ان کا خون تمہاری گردن پر ہو گا، لیکن مولوی عبدالعزیز پھر بھی نہ مانے۔ جامعہ حفصہ کی انتظامیہ نے نوجوانوں کو یہ سوچ دی ہے کہ اپنی رائے کے سامنے بڑوں اور بزرگوں کی رائے کو بے دھڑک رد کیا جا سکتا ہے، جو ظاہر ہے کہ مہلک اور تباہ کن سوچ ہے۔ جس معاشرے میں یہ سوچ پنپتی اور پرورش پاتی ہے وہ تباہ اور برباد ہو جاتا ہے۔ کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں ہمارے یہاں یہی انداز ہے، اس لئے وہاں اساتذہ اور انتظامیہ کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات روزمرہ شامل ہیں۔ ہمارے اسلاف اور اکابر کا یہ طرز نہیں ہے اور جس نے اس طرز کی مخالفت کی ہے وہ نقصان میں رہا اور خفت اٹھائی ہے۔ جامعہ حفصہ کی انتظامیہ نے اپنی طالبات اور طلبہ پر یہ ظلم بھی کیا ہے کہ ان کا تعلیمی سال برباد کر کے رکھ دیا۔ اس شورش میں تعلیم کا ضیاع یقینی ہے۔ تعلیم کے لئے یکسوئی لازمی شرط ہے جو کسی سے بھی پوشیدہ نہیں۔ جامعہ حفصہ کی انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ ہماری یہ تحریک اسلامی نظام کے لئے ہے اور ہم اس کے بغیر چین سے بیٹھنے والے نہیں ہیں۔ اے کاش…! ایسا ہوتا۔ لیکن ہماری نظر میں مسجد حمزہ کی شہادت کے بعد اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا تو معقول بھی تھا اور ضروری بھی چناں چہ علماء، عوام نے زبردست احتجاج کیا۔ صدر وفاق و اتحاد تنظیمات نے اس میں شرکت کی مگر جب مسجد حمزہ کی تعمیر شروع ہو گئی اور مساجد کی شہادت کے نوٹس واپس ہو گئے، نوٹیفکیشن جاری ہو گیا تو پھر مولوی عبدالعزیز صاحب کو لائبریری کا قبضہ چھوڑ دینا چاہیے تھا، مگر وہ اپنی ضد پر قائم ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ایک چھوٹی سی لائبریری پر قبضہ سے اسلام نافذ ہو جائے گا،… ہم بھی انتظار کر رہے ہیں کہ کب یہ آرزو پوری ہوتی ہے، جس کا بہ ظاہر دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔ حکومت نے بڑے تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت کی مجبوری بھی اس برداشت کا سبب بنی ہے۔ اگر حکومت ہمت سے کام لے کر اسلام نافذ کر دے تو اہالیان پاکستان ہی نہیں پوری امہ کے لئے انتہائی خوشی اور بے حد مسرت کا اقدام ہو گا،… کاش ایسا ہو۔ بصورت دیگر حکومت صبر و تجمل سے کام لے، جلدبازی نہ کرے کہ اوّل تو یہ سب کچھ اسی کے غلط اقدام کا نتیجہ ہے، مزید اس سے حکومت کے حق میں حالات مزید خراب ہوں گے۔ آخر میں خود بخود یہ معاملہ ٹھیک ہو گا۔ اشتعال انگیزی کی انتہا ہو گئی کہ جامعہ حفصہ کی انتظامیہ نے اب خودکش حملوں کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ وہ لوگ جو اس انتظامیہ کی حمایت اور تائید میں پیش پیش ہیں۔ وہ غور کریں کہ یہ تحریک کس بدانجامی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ آخر میں ہم نے جامعہ حفصہ کو یہ پیغام دیا ہے کہ نظام اسلام نافذ کرنے کے لئے موجودہ طریقہ چھوڑ کر (چوں کہ اس میں کامیابی کی کوئی امید نہیں بلکہ نقصان کا اندیشہ غالب ہے)، آپ دینی سیاسی جماعتوں اور غیر سیاسی دینی جماعتوں سے رابطہ کریں، جیسے آپ اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں اور اس کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔ یہ جماعتیں بھی یہی چاہتی ہیں اور اس کے لئے کوشش کر رہی ہیں، یقینا ان کے اور آپ کے کچھ تحفظات بھی ہوں گے، لیکن جب مقصد سب کا ایک ہے، تو مذاکرات کے ذریعہ ان تحفظات کو دور کیا جا سکتا ہے اور اس عظیم مقصد کے لئے اجتماعی کوشش شروع کی جا سکتی ہے۔ اس میں عوام، اہل اسلام کا تعاون بھی حاصل ہو گا اور زبردست قوت مہیا ہو گی۔ قربانیاں تو دینا ہوں گی، لیکن مقص کا حصول بھی ضرور ہو گا۔“
 
ہزار اختلافات کے باوجود میں اس بات کی پرزور مذمت کرتا ہوں جو ہمارے سرکاری ٹی۔وی چینل "پی۔ٹی۔وی" نے کل دیکھایا۔۔۔۔ مولانا عبد العزیز کے انٹرویو کے دوران ان کو برقعہ پہنانے کا کوئی جواز نہ تھا۔۔۔ یہ نیچی ذہنیت رکھنے والے پالیسی سازوں کی گھٹیا حرکت تھی۔۔۔
روزنامہ جنگ کی رپورٹ ملاحظہ ہو:
اسلام آباد (انصار عباسی) اس میں کوئی شک نہیں کہ لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز نے گزشتہ روز ایک ولن کا کردار ادا کیا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سرکاری شعبے کے ٹیلیویژن نے ان کی جس طرح تذلیل کی وہ اس کے ہرگز مستحق نہیں تھے یہ یقینا انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اس اہلکار کا کام تھا جس نے جاسوسی کی مخصوص ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان ٹیلی ویژن پر انٹرویو کے دوران مولانا کو برقعہ پہنے ہوئے دکھانے میں مہارت دکھائی۔ پی ٹی وی پر مولانا کے انٹرویو کا آغاز اس طرح ہوا کہ وہ کیمرے کے سامنے دشمنوں کے نرغے میں نقاب کا بالائی حصہ چہرے سے اٹھا رہے تھے انٹرویو کے باقی دورانئے میں وہ برقع کا زیریں حصہ بدستور پہنے رہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر مولانا برقعہ پہن کر ٹیلی ویژن کیمرے کے سامنے آنے پر کیوں رضامند ہوئے۔ اگر انہیں گن پوائنٹ پر ایسا کرنے کے لئے کہا جاتا تو بھی انہیں برقعے میں کیمرے کے سامنے نہیں آنا چاہئے تھا ایسا لگتا تھا کہ انٹرویو کے بجائے یہ محض ایک اسٹیج ڈراما تھا۔ اگرچہ بہت سے لوگوں کے لئے یہ منظر باعث تسکین تھا لیکن ناظرین کی بڑی تعداد کے نزدیک اس کارروائی کا مقصد مولانا کو ذلیل کرنا تھا اس قسم کی بے عزتی تو کسی بدترین مجرم کی بھی نہیں کی جاتی۔ یہ انتہا پسندی کا بدترین مظاہرہ تھا حالانکہ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ مولانا اسی قسم کے سلوک کے مستحق تھے۔ پورے انٹرویو کے دوران مولانا اور انٹرویو لینے والا شخص مسلسل کھڑے رہے جس سے عامیانہ انٹیلی جنس کی بدذوقی پر مبنی شو کی عکاسی ہوتی تھی۔ اس قسم کی حرکت صرف حکومت کے زیر انتظام چلنے والا ٹیلی ویژن نیٹ ورک ہی کر سکتا تھا کیونکہ آزاد اور خود مختار میڈیا اس قسم کی ”اداکاری“ نہیں دکھا سکتا تھا جو صحافتی اصولوں کے بالکل برعکس تھا۔ اس سے ہمارے ذہنوں میں عراق کی ابوغرائب جیل گوانتا ناموبے میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں اور امریکی فوجیوں کے ہاتھوں صدام حسین کے شرمناک سلوک کی یادیں تازہ ہو گئی ہیں۔ اس رائے سے بھی اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ مولانا عزیز نے جو کچھ بھی کیا اس پر وہ پرزور مذمت کے مستحق ہیں ان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے لال مسجد کا سانحہ پیش آیا جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں، صحافیوں اور طلبہ سمیت 22بے گناہ افراد کی جانیں ضائع ہوئیں۔ مولانا کے اس رویئے کی وجہ سے اسلام کا نام داغدار ہوا اور دنیا بھر میں دینی مدرسوں اور عورتوں کے برقعے کی تضحیک ہوئی ہے تاہم مولانا کے جرائم سے قطع نظر ان کے ساتھ ایک انسان جیسا سلوک کرنا چاہئے۔ انہوں نے لال مسجد کے سربراہ کی حیثیت سے جو کچھ کیا اس پر ان کے خلاف ملکی قانون کے تحت مقدمات قائم کر کے انہیں سخت سزا دینی چاہئے۔ مذہبی امور کے وفاقی وزیر اعجاز الحق نے جیو ٹی وی کے حامد میر کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ لال مسجد کی ماسٹر مائینڈ مولانا کی بیوی ام حسان ہے۔ بیشتر مذہبی اسکالروں نے بھی مولانا عزیز کے بارے میں اعجاز الحق کے خیالات کی تائید کی ہے جنہوں نے قانون کو ہاتھ میں لیا اور حکومتی عملداری کو چیلنج کیا۔
 
اب صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ لوگ بکواس کرنے سے بھی باز نہیں آرہے۔۔۔ کل سرکاری ٹی۔وی پر ہی ایک خاتون نے فتویٰ صادر فرمایا کہ وہ غازی برادران کو مرتد مانتی ہیں۔۔۔ یہ سن کر دل کیا کہ سر پیٹ لوں۔۔۔! افسوس، صد افسوس!
 

پاکستانی

محفلین
ہمارے نبیل بھائی تو مشرف سے بھی زیادہ سیانے نکلے
مشرف نے عدلیہ اور سیلاب سے نظریں ہٹانے کے لئے لال مسجد کا ہوا کھڑا کیا اور ہمارے نبیل بھائی نے وی بلٹن کا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اراکین کسی کو بات کا ہوش ہی نہیں بس ۔۔۔ وی بلٹن ۔۔۔ وی بلٹن
spying.gif
 

پاکستانی

محفلین
ابھی ایک ایس ایم ایس موصول ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
bad%20news.gif


کون کہتا ہے موت آئی تو میں مر جاؤں گا
میں تو مولوی عبدالعزیز ہوں برقعہ پہن کے نکل جاؤں گا
looking%20around2.gif
 
Top