وفاق المدارس کا موٴقف ,,,,سویرے سویرے…نذیر ناجی
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر حضرت مولانا سلیم اللہ خان کا ایک مضمون موصول ہوا ہے جس میں انہوں نے وفاق المدارس اور جامعہ حفصہ کے دو مولوی حضرات کے مابین اختلاف رائے کی وجوہ بیان کی ہیں۔ مولانا سلیم اللہ خان کا مضمون پیش خدمت ہے، جو ان کے موقف کی ترجمانی کرتا ہے۔ ”اسلام آباد میں جامعہ حفصہ کے حوالے سے جو سنگین واقعات پیش آ رہے ہیں، ان پر ہم سخت تشویش کا اظہار کرتے ہیں، اسلام آباد کے واقعات ہوں، یا آزاد قبائل کے، یا بلوچستان کے، ان میں کسی بھی قسم کی لاقانونیت کو ہم صحیح نہیں سمجھتے اور ان پر بھی ہم سخت تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔لیکن ہم یہ واضح کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں، کہ ان سنگین اور تشویش ناک واقعات کے مواقع خود ہماری حکومت کی غلط پالیسیوں اور ناعاقبت اندیشانہ کارروائیوں کا نتیجہ ہے، حکومت کے انہی غلط اقدامات نے لاقانونیت کو ہوا دی اور یہ سلسلہ برابر جاری ہے۔ تازہ ترین واقعات میں اہم واقعہ چیف جسٹس کا ہے۔ اسلام آباد میں بدکاری کا اڈا قائم تھا اہل محلہ سخت پریشان تھے، اس محلہ کی فیڈریشن نے بارہا پولیس سے اس کو ختم کرنے کی درخواست کی، لیکن قانون نافذ کرنے والوں نے کوئی کارروائی نہ کی، تو دوسروں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا حال پورے پاکستان میں جس قدر افسوسناک اور تشویش ناک ہے، اس سے پوری قوم نالاں اور غم زدہ ہے، جس کی بنا پر جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے، پورا ملک لوٹ مار، قتل و غارت، اغوا کی زد میں ہے، پولیس کے ان جرائم میں ملوث ہونے کی خبریں بھی عام ہیں۔ کوئی سرکاری محکمہ کرپشن سے محفوظ نہیں، آئے دن اس کی خبریں اخبارات میں چھپتی رہتی ہیں، غربت کا گراف اس قدر بلند ہو گیا کہ زندگی برقرار رکھنا بس سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ خودکشیاں ہو رہی ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچتی رہی ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو بیچنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ پولیس کی سہل انگاری سے مجبور ہو کر لوگوں نے اپنے محلوں کی حفاظت کے لئے چندہ کر کے گلیوں میں ناکے قائم کر کے سیکورٹی گارڈ بٹھائے ہوئے ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں بچوں کی تعلیم سے مایوس ہو کر پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بھاری بھاری فیس ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں علاج سے مایوس ہو کر مالی وسائل رکھنے والے حضرات پرائیویٹ ہسپتالوں میں بھاری فیس ادا کر کے اپنی ضرورت پوری کرتے ہیں اور بے وسیلہ لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مایوس ہو کر قانون کو ہاتھ میں لینے کی واردات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے بلکہ حکومت نے شرعی معاملات میں تمام مکاتب فکر کے علماء کے متفقہ فیصلے کے خلاف تحفظ حقوق نسواں کے نام پر قانون نافذ کرنے کی اتھارٹی بھی اپنے ہاتھ میں لے لی اور اس کے اصل ذمہ داروں کو جو شریعت کو جانتے ہیں نظرانداز کر دیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آزاد قبائل میں لوگوں نے شریعت کو ہاتھ میں لینے کی باتیں شروع کر دی ہیں، وہاں پاکستان کے خلاف جہاد کی تیاری کی خبریں آرہی ہیں، ٹانک اور کھاریاں میں جو المناک واقعات پیش آئے ہیں، وہ بھی اسی کی کڑی معلوم ہوتے ہیں۔ یہ اندرون ملک واقعات کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ اگر بیرون ملک کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو امریکا جس پر ساری کارروائیوں کا مدار و انحصار تھا وہ اب برابر تنبیہ کر رہا ہے اور واشگاف انداز میں عدم اعتماد ظاہر کر رہا ہے۔ افغانستان میں کرزئی کا لب و لہجہ پاکستان اور اس کی حکومت کے خلاف زہر اُگلنے سے کسی طرح باز نہیں آتا۔ رہی بات انڈیا کی تو ہم اس کے متعلق ہزار لچک دکھا کر بھی کوئی فائدہ حاصل کرنے سے قاصر رہے ہیں اور وہ برابر اپنے سابقہ موقف پر بھی قائم ہے اور ہمیں بیوقوف بنا کر فوائد بھی سمیٹ رہا ہے۔ اسلام آباد میں مسجد حمزہ کو شہید کیا گیا اور مزید سات مساجد کو نوٹس جاری کئے گئے کہ ان کو بھی شہید کیا جائے گا۔ انتظامیہ کی یہ کارروائی اسلام آباد ہی نہیں پورے ملک کیلئے بے حد بے چینی کا سبب بنی، بڑے بڑے مظاہرے ہوئے اور حکومت کو پس پائی اختیار کرنا پڑی، (چراکارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی)، اسی اثناء میں جامعہ حفصہ کی طالبات نے چلڈرن لائبریری پر قبضہ کر لیا۔ وفاق المدارس کے صدر، ناظم اعلیٰ، نائب صدر، اسلام آباد راولپنڈی کے علماء نے جامعہ حفصہ کی انتظامیہ سے بار بار مذاکرات کیے۔ وزارت داخلہ سے اور اسلام آباد کی انتظامیہ سے مسلسل مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا، جس کے نتیجہ میں مسجد حمزہ کی تعمیر کا فیصلہ ہوا، وزارت مذہبی امور کے سربراہ جناب اعجاز الحق نے اس کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں خود شرکت کی۔ بقیہ مساجد کو شہید کرنے کے نوٹس واپس لیے گئے اور وزیر داخلہ کے یہاں ایک کمیٹی کی تشکیل عمل میں آئی، جس میں علماء اور انتظامیہ کے افراد شامل کیے گئے کہ یہ حضرات باہمی مشاورت سے مساجد اور مدارس کے معاملات طے کیا کریں گے۔ کمیٹی کی تشکیل اور اس کے دائرہ کار اور طریقہ کار پر علماء نے اطمینان کا اظہار کیا۔ یہ علماء وہی ہیں جو ہمیشہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں پیش آمدہ واقعات میں امہ کی رہنمائی کرتے ہیں اور جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کی انتظامیہ کی حمایت ونصرت میں پیش پیش رہے ہیں۔ جامعہ حفصہ کی انتظامیہ لائبریری کا قبضہ چھوڑنے پر کسی طرح راضی نہ تھی، بلکہ طالبات نے اس ضمن میں کئی ایسے کام بھی کیے، جو ان کی شایان شان نہ تھے۔ وفاق المدارس کے لائبریری چھوڑنے کے فیصلہ کو اخباری بیان میں مسترد کیا گیا۔ بی بی سی کو انٹرویو دیا گیا، وفاق کی انتظامیہ کو خط لکھ کر بھی مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ بدکاری کا اڈا چلانے والی عورت کو گرفتار کر کے جامعہ حفصہ لایا گیا۔ اس کے ساتھ جامعہ حفصہ کی انتظامیہ نے پورے ملک میں وفد اور خطوط روانہ کیے اور اہل مدارس کو اسلام آباد آ کر حکومت سے مقابلہ کرنے کی دعوت دی یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اور انتشار کا سبب بن رہا ہے۔ ادھر وفاق المدارس نے اپنی عاملہ کا اجلاس اسی مسئلہ کو حل کرنے کے لئے اسلام آباد میں طلبہ کیا، عاملہ نے متفقہ طور پر لائبریری کو چھوڑنے کی درخواست کی اور کہا کہ آپ کے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے قوت کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ جو آپ کے پاس موجود نہیں اور حکومت… جس کا آپ مقابلہ کر رہے ہیں، قوت کے تمام وسائل پر قابض ہے۔ اس لئے نقصان عظیم کا سنگین خطرہ سروں پر منڈلا رہا ہے۔ جامعہ فریدیہ کے اساتذہ سے ملاقات کے ذریعہ ان کا نقطہٴ نظر معلوم کیا گیا، تو ایک دو کے علاوہ تمام اساتذہ نے اپنی انتظامیہ کی رائے سے اختلاف ظاہر کیا اور کہا کہ ہم نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح یہ حضرات اپنی ضد چھوڑ دیں لیکن انہوں نے ہماری بات نہیں مانی۔