لال مسجد سانحہ کا ذمہ دار کون؟

لال مسجد سانحہ، ذمہ دار کون؟


  • Total voters
    57
  • رائے شماری کا اختتام ہو چکا ہے۔ .

باسم

محفلین
لال مسجد والوں کا حکام سے مطالبہ یہ تھا کہ
ملک میں آئین کے مطابق اسلامی نظام نافذ کیا جائے
ایسا نہیں تھا کہ وہ اپنے بتائے ہوئے قوانین پر اصرار کررہے تھا
لہذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انہوں نے نفاذ کیلیے کونسا مسودہ تیار کررکھا تھا کیونکہ یہ تو انہوں نے متعلقہ اداروں پر ہی رکھ چھوڑا تھا
اور اسی بات سے اس سوال کا بھی جواب مل جاتا ہے
کہ ایک مسلک کی نافذ کردہ شریعت کو دوسرے مسلک والے پر مسلط کرنے سے مزید خون خرابہ ہوگا اور یہ سب کیلیے قابل قبول نہ ہوگی
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پاکستان کے آئین کے مطابق پاکستان میں قوانین، قران و حدیث پر مبنی ہونگے
تو اس حوالے سے غازی برادران کے وکیل حشمت حبیب، روزنامہ امت کو دیے گئے 26 جولائی کے انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ
"1991ء میں ایک باقاعدہ ایکٹ بنایا گیا ہےجس کا نام نفاذ شریعت ایکٹ ہے۔ یہ پارلیمنٹ نے منظور کیا ہے اور اسی میں ملک کا تمام نظام اسلامی بنانے کا طریقہ دیا گیا ہے۔
سود، ملازمتیں، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے بارے میں مطلب کہ ہر چیز کے بارے میں پورا سسٹم دیا گیا ہے"
اگر اس ایکٹ کا مسودہ کہیں سے حاصل ہوجائے تو جس نکتہ پر ہم بات شروع کرنے جارہے ہیں اس پر بہت اہم پیشرفت ہوسکتی ہے
 

سید ابرار

محفلین
وہ لوگ جو مسلمان ہیں اور اس بات کے دعویدار بھی کہ پاکستان ایک مسلمان ملک ہے کیسے اس بدترین ظلم میں ایک حصہ دار بن بیٹھے اور کیسے انہوں نے حقائق و واقعات کو یکسر فراموش کردیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ سب شریعت سے خوفزدہ ہیں کیونکہ شریعت کے تقاضے انہیں مرغوباتِ نفس سے دور کردیں گے اور جبراً انہیں ان باتوں سے اجتناب کرنا پڑے گا جو ان کا معمول بن چکا ہے ۔ اسلام کے نام لیوا تو بہت ہیں لیکن عملی طور پر کچھ کرنا نہیں چاہتے ۔ یہ خوف تو ایسے گروہوں نے پیدا کیا جن کے طور طریقوں سے نفاذ شریعت کے امکانات ہویدا ہونے لگے تھے یا کم از کم یہ اندیشے جنم لینے لگے تھے کہ اگر واقعی کبھی نفاذ شریعت ممکن ہو رہی تو پھر کیا ہوگا؟ یہ سُود کا لین دین ۔ یہ فحاشی ۔ یہ بدقماشیاں ۔ یہ قحبہ گری اور آنکھوں کے یہ مزے جو ہمہ وقت مختلف پہلوؤں سے میسر ہیں ۔ کیسے مہیا و دستیاب ہوں گے؟ سو ایک بڑے جتھے نے یکسر اس گروہ کی آواز کو مسترد کردیا اور حکومت کی رِٹ ملکی قوانین اور حکمرانوں سے بغاوت کا نام لے کر حلیفانِ حکومت میں شامل ہوگئے۔

شریعت کے معاملے میں کچھ لو اور کچھ دو والا اصول درست نہیں ہے لیکن دنیاوی اصول کے مطابق کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر مسئلہ حل کیا جاتا تو خون ناحق سے مسجد و مدرسہ کی زمین سُرخ نہ ہوتی ۔ یہ تو سراسر ظلم و ناانصافی ہے کہ جو بات طبعیت کو گوارہ نہ ہو قطع نظر اس کے کہ وہ کہاں تک درست ہے تشدد کا راستہ اختیار کرلیا جائے اور وہ بھی ایسے تشدد کا جس سے قتال وابستہ ہو ۔ آپریشن سے قبل بھی اور بعد میں بھی سرکار و حلیفان سرکار کی جانب سے بھانت بھانت کی وجوہات پیش کی جا رہی ہیں ۔ کہیں زمینوں پر قبضے کی بات ہے تو کہیں شریعت کے ازخود نفاذ کی بات یا پھر اندر اسلحہ اور غیرملکیوں کی موجودگی کی لیکن کچھ بھی ثابت نہ کیا جا سکا ۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ان معصوموں کی اموات کے فیصلے کہیں اور ہوئے تھے اور جن پر عملدرآمد اسی پالیسی کا حصہ ہے جو آج اقوام مغرب نے اسلام و مسلمان دشمنی کے تناظر میں ہر سمت جاری کر رکھی ہے۔ امریکا نے عراق پر حملہ کیلئے جواز تراشا تھا کہ وہاں بڑی مقدار میں کیمیاوی ہتھیار موجود ہیں لیکن ایک بڑی تباہی و بربادی کے بعد وہاں سے کیا برآمد کیا؟

فرماتے ہیں کہ کسی فرد یا ٹولے کو اس بات کا اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ جب چاہے ایسے مطالبات لے کر اٹھ کھڑا ہو اور حکومت کی رِٹ کو چیلنج کرے ۔ ان کا یہ ارشاد اسلامی سیاست و شریعت کے خلاف ہے ۔ اسلامی تاریخ لاتعداد ایسی نظیریں پیش کرتی ہے جہاں فرد سے لے کر افراد تک اور افراد سے لے کر گروہوں تک نے نفاذ شریعت کا مطالبہ بھی کیا اور اس کے لئے حاکموں ۔ جابروں اور آمروں سے ٹکر بھی لی ۔ واقعہ کربلا سے بڑھ کر اس کی مثال کیا ہوگی کہ بہتّر افراد نے محض شریعت کی سربلندی کے لئے ایک آمر سے ٹکر لی اور خود تو دنیاوی اعتبار سے ختم ہوگئے لیکن اپنی سنّت پر چلنے کا ایک واضح اصول چھوڑ گئے۔ حکومت کی رِٹ کا فلسفہ گھڑنے والے اور اس کے خلاف ایسی آوازوں کو ناپسند کرنے والے کیا واقعہ کربلا کو بھی خاکم بدہن ایسا ہی کوئی واقعہ قرار دیں گے؟

:(:(:(:(:(
 
Top