محب، گو آپ نے مجھے مخاطب تو نہیں کیا اس پوسٹ میں، لیکن جونکہ میں نے اپنی رائے دی تھی "دونوں" والے آپشن میں تو ناگزیر سمجھا کہ آپ کی باتوں پہ کچھ لکھوں۔
نفرت، بغض اور سراہنے کا سوال ہی نہیں قبلہ، کہ یہ انتہائی سبجیکٹو باتیں ہیں، نفرت اور تحسین "ٹیبل" کی دونوں سائیڈوں پر مختلف ہوتی ہیں۔ بات تو صرف اتنی ہے کہ جو ہونا تھا وہ ہوا، تو کیا اس کے عواقب پر بات نہ کی جائے کہ اسیے واقعات جس میں انتہائی محترم جانیں تلف ہوتی ہیں کو روپذیر ہونے سے بچایا جا سکے۔
محب، یہی ہماری سطحی جذباتیت اور انتہا پسندی جو سارے عالم میں ہمیں نَکو بنائے ہوئے ہے۔ اختلاف کرنا آپ کا بنیادی حق ہے، مگر جس سے اختلاف ہو اسکو انسان ہی نہ سمجھنا، ایں چہ بوالعجی است آقائے من۔ اور ذرا سوچیے گا، کہ ہزاروں عوامل میں، کہیں ایک یہ بھی تو نہیں تھا دونوں جانب سے، یعنی انتہا پسندی؟
سورج میں لگے دھبا، فطرت کے کرشمے ہیں
بُت ہم کو کہیں کافر، اللہ کی مرضی ہے
(اکبر الٰہ آبادی)
آپ لال مسجد کے سانحہ کے ذمہ داروں کو تلاش کر رہے ہیں
اس سلسلہ میں میں نے اپنا ووٹ تو ڈال دیا ہے
میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر لال مسجد کے سانحہ کی ذمہ داری حکومت پر ڈال بھی دی جائے تو
کیا وطن عزیز کے گزشتہ آتھ دس سالوں میں صرف لال مسجد ہی کا سانحہ ہوا ہے؟؟؟
کیا نشتر پارک کا سانحہ سانحہ نہیں تھا
کیا جب ملک کی کسی مسجد میں نماز پڑھتےے ہوئے نمازیوں پر خود کش حملہ ہوتا ہےے تو وہ سانحہ نہیں ہوتا
کیا کسی محفل نعت میں خود کش حملہ کیا جااتا ہے اور بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں تو کیا وہ سانحہ نہیں ہوتا
کیا کسی امام بارگاہ میں عزاداری کرنے والے لوگوں پر بم پھینک دیا جائے اور بے گناہ جانیں ضائع ہو جائیں تو وہ سانحہ نہیں ہوتا
ذرا گزشتہ سالوں کی تاریخ اور اعداد و شمار پر ایک نظر ڈال لیں آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ وطن عزیز میں کتنے سانحے ہوئے کتنی مصومم جانیں تعصب اور نفرت کی نذر ہوئیں
کتنے بے گناہ لوگ فرقہ واریت کے مہیب عفریت نے نگل لیے
ان سب کا ذمہ دار کون ہے
حکومت یا کوئی اور
یا وہ اسلام پسند عناصر جو
فرقوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں
جن میں باہمی رواداری اور صبر تحمل کا عنصر مفقود ہو چکا ہے
ان کے نذدیک فقہی اختلافات اس قدر بنیادی اہمیت اختیار کر چکے ہیں کہ فقہ کو دین سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ فقہہ احکام دینیہ کی تشریح و توضیح کا نام ہے مختلف آئمہ نے احکامات دینیہ کو جس طرح سمجھا اس کو بیان کر دیا
پہلے یہ ہوتا تھا کہ اگر کسی ایک فقہ کے ہاں کسی مسئلہ کی تفہیم موجود نہ ہوتی تو اس کے پیروکار کسی دوسرے فقہ کے امام کے ہاں اگر اس مسئلہ کی مناسب تفہیم موجود ہو تو اختیار کر لیا کرتے تھے اور اس طرح مختلف مذاہب کے فقہا کے درمیان ایک رواداری اور ھم آہنگی کی فضا قائم رہتی تھی
لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ ایک فقہ پر عمل کرنے والے دوسرے فقہہ پر عمل کرنے والوں کو کاٹ کھانے کے لیے دوڑتے ہییں
تنگ نظری اور تعصب کا عفریت چنگھاڑ رہا ہے
مسلمانوں نے ایک دوسرے کی جان و مال کو اپنے اوپر حلال کر لیا ہے
ہرکوئی ایک دوسرے کی تکفیر کر رہا ہے
کافر کافر کے نعرے بلند ہو رہے ہیں
عبادت گاہوں میں بموں کے دھماکے اور کشتوں کے پشتے اس بات کا بین ثبوت ہیں
کہیں امام بارگاہ پر حملہ
کہیں محفل نعت پر حملہ
کہیں جلوس پر حملہ
کہیں مسجد پر حملہ
کیا اسلام پسندوں کا شعار یہی ہونا چاہیے
یا ان پر بھی کوئی ذمہ داری عائد ہونا چاہیے