واجدحسین
معطل
لال مسجد سے متعلق حالات اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن کے ذریعے واقعات بڑی حد تک آپ کے سامنے آچکے ہیں لیکن ہمیں اپنے ذرائع ابلاغ سے بھی شکایت ہے کہ حق بات کو جتنا کھول کر بیان کرنا چاہئے، اتنا کھول کر بیان نہیں کرتے۔ بات کو دوٹوک انداز میں واضح نہیں کرتے بلکہ گنجلک چھوڑ دیتے ہیں اور بعض نے تو اس سانحے کے موقع پر معاندانہ روش اختیار رکھی خاص طور پر علماء، دیندار طبقہ اور باوقار شخصیات کے خلاف ایسی روش اختیار کی جیسے کسی دشمن کے خلاف ہوتی ہے، یہ ایک المناک صورت حال ہے اللہ تعالی ہمیں اس سے نجات عطا فرمائے۔ ہمارے ملک پاکستان میں سرکاری سطح سے لے کر نچلی سطح تک جس بڑے پیمانے پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہو رہی ہے تو ایسے حالات میں جو بھی حوداث اور سانحات پیش آجائیں وہ غیر متوقع نہیں۔ ابھی بارش اور ہواؤں کا طوفان چل ہی رہا تھا اور ملک کا تقریباً آدھا حصہ اس میں تباہی کا شکار ہو رہا تھا کہ یہ دوسرا مسئلہ لال مسسجد کا کھڑا ہو گیا۔ میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ رسول اللہﷺ نے یہ سارے فتنے پہلے ہی بتا دیئے تھے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب ایک فتنہ ختم نہیں ہو گا دوسرا آجائے گا دوسرا ختم نہیں ہو گا کہ تیسرا فتنے آئے دن ، لگا تار ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر آئیں گے۔ بارہ مئی کو بے گناہوں کے خون کی جو ہولی کھیلی گئی جسے پوری دنیا میں ٹی وی نے نشر کیا سب نے دیکھ لیا حتیٰ کہ قتل کرنے والے لوگوں کے چہرے بھی دکھا دیئے گئے لیکن آج تک ان میں سے کوئی نہیں پکڑا گیا۔ گویا کہ کچھ ہوا ہی نہیں جبکہ لال مسجد والوں نے مطالبات بہت اچھے کیے تھے جو ہمارے دین اور ایمان کا تقاضا ہے لیکن طریقہ جو انہوں نے اختیار کیا وہ بزرگوں اور علماء کے طریقے کے خلاف تھا۔ سب نے ان کو اس غلط طریق کار کو اپنانے پر ٹوکا، سمجھایا مگر وہ نہیں مانے لیکن پھر بھی ان کا جرم کیا تھا؟ اور طریقہ جو غلط تھا وہ کیا تھا؟ بچوں کی لائبریری پر انہوں نے جو قبضہ کیا تھا، ہم مانتے ہیں کہ وہ غلط تھا؟بدکاری کے اڈے کو چلانے والی ایک خاتون کو انہوں نے پکڑا تھا۔ اس کے خلاف مطالبہ کرنا اور جو کوشش ہو سکتی تھی جائز ذرائع سے قانونی طریقے سے ایسی کوششیں کرنا برحق تھا لیکن اسے خود پکڑنا غلط تھا۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ برسوں سے اس محلے کے لوگ پولیس اور انتظامیہ کے پاس شکایتیں لے کر جا رہے تھے مگر کوئی شنوائی نہیں ہو رہی تھی اڈہ معمول کے مطابق چل رہا تھا، محلے کے لوگ پریشان تھے شرفاء پریشان تھے رات میں کتنے ہی بدکاری کرنے والے یہاں آتے تھے اور ایک لڑکی نے تو آکر اپنی یہ دردناک داستان سنائی تھی کہ ”اس کو دھوکے سے اس اڈے پر لے جایا گیا پھر زبردستی اس کی عزت لوٹی گئی اور اس کے برہنہ فوٹو اتارے گئے اور اس کو کہا گیا کہ اب تم ماں باپ کو بتاؤ گی تو ہم فوٹو شائع کر دیں گے اور پھر اس کو بلیک میل کرتے رہے اور بار بار اس کی عزت لوٹنے کے لئے بلاتے رہے اور یہ بچاری مجبور تھی، فریاد لے کر جامعہ حفصہ میں آئی۔ دوسرا کام انہوں نے یہ کیا کہ مساج (Massag) سینٹر، (مخلوط مساج سینٹر جس میں بدن پر مالش کی جاتی ہے) مالش کرنے والی کون ہیں؟ چینی عورتیں اور کراونے والے کون ہیں؟ مسلمان مرد، اسلام آباد کے مرد، تقریباً ننگے ہو کر یہ مساج ہوتا ہے۔ تو یہ قانون کے بھی خلاف تھا، آئین پاکستان کے بھی خلاف تھا اور دینی تعلیمات و روایات کے بھی خلاف تھا، ہر اعتبار سے جرم تھا، جنہوں نے اس سینٹر کو لائسنس دیا تھا انہوں نے بھی جرم کیا تھا۔ لال مسجد والوں کی غلطی بس یہ تھی کہ وہ ان چینی عورتوں کو پکڑ کر اپنے پاس لے آئے اور برقعہ پہنا کر واپس کر دیا۔ چوتھا کام یہ ہوا کو پولیس کے آدمیوں نے لال مسجد کے طلبہ کو گرفتار کیا، تو انہوں نے جواباً پولیس والوں کو گرفتار کیا۔عجیب بات ہے کہ آج مغربی دنیا، ہمارے قلم کار، کالم نگار، صحافی، اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ یہ کہہ رہے ہیں کہ مدرسے انتہا پسند ہوتے ہیں۔وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے جو مدارس ملحق ہیں، ان میں جامعہ فریدیہ (اور طالبات کے لئے جس کے کیمپس کا نام جامعہ حفصہ تھا) ایک بڑا مدرسہ، اس میں اور اس کی شاخوں میں تقریباً دس ہزار طلبا و طالبات زیر تعلیم تھیں لیکن وفاق المدارس نے صرف اس وجہ سے اس مدرسہ کے الحاق کو ختم کر دیا کہ وفاق المدارس ان کی اس انتہا پسندی کو صحیح نہیں سمجھتا تھا۔ یہ سب باتیں وفاق المدارس نے اپنے اعلامیہ میں بیان کر دی تھیں۔ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وفاق المدارس اپنے کسی مدرسے سے انتہا پسندی کو ، دہشت گردی کو جائز قرار نہیں دیتا۔پھر نہ صرف وفاق المدارس بلکہ پورے ملک کے تمام مدارس اور علماء نے بلکہ تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام نے جامعہ حفصہ کے منتظمین کے اس غلط طریقہ کار کی مذمت کی، اس کو غلط کہا۔ کیا یہ اس بات کی کھلی دلیل نہیں کہ تمام مدارس دینیہ اور تمام علمائے کرام انتہا پسندی کے خلاف ہیں، تشدد کے خلاف ہیں، لاقانونیت کے خلاف ہیں، قانون کے ہاتھ میں لینے کے خلاف ہیں۔اس واقعہ سے تو پوری دنیا میں یہ پیغام جانا چاہئے کہ تمام مدارس اور علماء انتہا پسندی اور دہشت گردی اور تشدد کے راستہ کو غلط سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے پرانے ساتھیوں کو بھی اپنے وفاق سے الگ کر دیا۔ میں نے ٹی وی والوں سے کہا کہ آپ دنیا کو یہ پیغام دیجیے اور جو زمینی حقیقت ہے اسے واضح کیجیے لیکن ہماری حکومت نے یہ کیا کہ لال مسجد کے حضرات کے ان چار مطالبات میں سے کسی ایک مطالبہ پر بھی کوئی کارروائی نہیں کی، آج تک پاکستان کے لوگوں کو اس بات کا انتظار ہے کہ کسی طرح یہ معلوم ہو کہ آنٹی شمیم کے اڈے کی سرپرستی جو حکام برسوں سے کر رہے تھے وہ کون تھے، جنہوں نے اس اڈے کو چلانے کی اجازت دے رکھی تھی اس میں کون لوگ حرام کاری کے لئے آتے جاتے تھے، کیا وہ سب بے گناہ ہیں؟ معصوم ہیں؟ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا؟ کیا جرم صرف انہوں نے کیا جو شمیم کو اپنے پاس امن و امان کے ساتھ لے کر آئے اور اس سے توبہ کر ا کر اس کو واپس کر دیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت کے اندر مسجد شہید کی گئی، اللہ کے گھروں کو شہید کیا گیا تو یہیں سے لال مسجد و جامعہ حفصہ کی انتظامیہ نے تحریک کا آغاز کیا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے اس یکطرفہ رویہ نے انہیں تحریک چلانے پر مجبور کیا۔ ہماری حکومت کا طریق کار یہ ہے کہ جب تک لاقانونیت کا راستہ اختیار نہ کیا جائے، توڑ پھوڑ نہ کی جائے اس وقت تک یہ کوئی مطالبہ سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ یہ بات ہم نے وزیر اعظم سے بھی کہی بلکہ مشترک میٹنگ میں بھی کہی تھی (جس میں صدر، وزیر اعظم ان کے کئی وزراء اور فوجی جنرل بھی شریک تھے) کہ حکمران جس طریقے کو اپناتے ہیں اگر یہ طریقہ رہے گا تو کبھی ملک میں امن و امان قائم نہیں ہو سکتا ۔ آپ سنجیدہ گفتگو میں ہماری بات سنتے نہیں،دلائل کی بات مانتے نہیں، قرآن و سنت کی بات کو کان دھر کر سننے کے لئے تیار نہیں۔ آئین اورقانون کی کوئی بات آپ سننے کے لئے تیار نہیں۔ اپنی من مانی اور خلاف اسلام پالیسیوں پر آپ ڈٹے رہیں گے تو نتیجہ کیا ہو گا؟ نتیجہ یہ ہو گا کہ عوام اٹھ کھڑے ہوں گے، جذباتی اور جوشیلے لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ قانون اپنے ہاتھ میں لے لیں گے پھر وہ نہ ہماری سنیں گے، نہ آپ کی سنیں گے۔ چنانچہ جامعہ حفصہ میں یہی ہوا، مسجدیں شہید کی گئیں لوگوں نے اس پر احتجاج کیا، ذمہ داران سے باتیں کیں، علماء نے بھی افسران بالا سے ملاقاتیں کیں مگر ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی، تو جامعہ حفصہ کے انتظامیہ نے جواباً کہا کہ تم نے ہمارے اللہ کے گھروں کو شہید کیا ہے، ہم تمہاری لائبریری پر قبضہ کرتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ حکومت کے نزدیک ان کے کتنے جرائم تھے؟ چار جرائم تھے کہ شمیم کو پر امن طریقے سے لے کر آئے اور پر امن طریقہ سے واپس پہنچا دیا۔ چینی عورتوں کو بھی پرامن طریقے سے لے کر آئے اور پرامن طریقے سے واپس پہنچایا۔ پولیس والوں کو پرامن طریقہ سے اپنے پاس رکھا، پرامن طریقہ سے واپس کر دیا، ان کی خاطر مدارات بھی کرتے رہے۔ چلڈرن لائبریری پر قبضہ کیا، اس میں کوئی تخریب کاری نہیں کی، کوئی عمارت کو نقصان نہیں پہنچایا، کسی کو تکلیف نہیں پہنچی، ان تمام کاموں میں کسی کو ایک کانٹا تک نہیں چبھا، کسی کو ایک کوئی تھپڑ تک نہیں مارا۔ ہمیں بتایا جائے
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکریہ : (بحوالہ جنگ نیوز آن لائن)
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکریہ : (بحوالہ جنگ نیوز آن لائن)