لال مسجد کے مذکرات ناکام کیوں ہوئے ؟ مولانا مفتی رفیع عثمانی

لال مسجد سے متعلق حالات اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن کے ذریعے واقعات بڑی حد تک آپ کے سامنے آچکے ہیں لیکن ہمیں اپنے ذرائع ابلاغ سے بھی شکایت ہے کہ حق بات کو جتنا کھول کر بیان کرنا چاہئے، اتنا کھول کر بیان نہیں کرتے۔ بات کو دوٹوک انداز میں واضح نہیں کرتے بلکہ گنجلک چھوڑ دیتے ہیں اور بعض نے تو اس سانحے کے موقع پر معاندانہ روش اختیار رکھی خاص طور پر علماء، دیندار طبقہ اور باوقار شخصیات کے خلاف ایسی روش اختیار کی جیسے کسی دشمن کے خلاف ہوتی ہے، یہ ایک المناک صورت حال ہے اللہ تعالی ہمیں اس سے نجات عطا فرمائے۔ ہمارے ملک پاکستان میں سرکاری سطح سے لے کر نچلی سطح تک جس بڑے پیمانے پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہو رہی ہے تو ایسے حالات میں جو بھی حوداث اور سانحات پیش آجائیں وہ غیر متوقع نہیں۔ ابھی بارش اور ہواؤں کا طوفان چل ہی رہا تھا اور ملک کا تقریباً آدھا حصہ اس میں تباہی کا شکار ہو رہا تھا کہ یہ دوسرا مسئلہ لال مسسجد کا کھڑا ہو گیا۔ میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ رسول اللہﷺ نے یہ سارے فتنے پہلے ہی بتا دیئے تھے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب ایک فتنہ ختم نہیں ہو گا دوسرا آجائے گا دوسرا ختم نہیں ہو گا کہ تیسرا فتنے آئے دن ، لگا تار ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر آئیں گے۔ بارہ مئی کو بے گناہوں کے خون کی جو ہولی کھیلی گئی جسے پوری دنیا میں ٹی وی نے نشر کیا سب نے دیکھ لیا حتیٰ کہ قتل کرنے والے لوگوں کے چہرے بھی دکھا دیئے گئے لیکن آج تک ان میں سے کوئی نہیں پکڑا گیا۔ گویا کہ کچھ ہوا ہی نہیں جبکہ لال مسجد والوں نے مطالبات بہت اچھے کیے تھے جو ہمارے دین اور ایمان کا تقاضا ہے لیکن طریقہ جو انہوں نے اختیار کیا وہ بزرگوں اور علماء کے طریقے کے خلاف تھا۔ سب نے ان کو اس غلط طریق کار کو اپنانے پر ٹوکا، سمجھایا مگر وہ نہیں مانے لیکن پھر بھی ان کا جرم کیا تھا؟ اور طریقہ جو غلط تھا وہ کیا تھا؟ بچوں کی لائبریری پر انہوں نے جو قبضہ کیا تھا، ہم مانتے ہیں کہ وہ غلط تھا؟بدکاری کے اڈے کو چلانے والی ایک خاتون کو انہوں نے پکڑا تھا۔ اس کے خلاف مطالبہ کرنا اور جو کوشش ہو سکتی تھی جائز ذرائع سے قانونی طریقے سے ایسی کوششیں کرنا برحق تھا لیکن اسے خود پکڑنا غلط تھا۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ برسوں سے اس محلے کے لوگ پولیس اور انتظامیہ کے پاس شکایتیں لے کر جا رہے تھے مگر کوئی شنوائی نہیں ہو رہی تھی اڈہ معمول کے مطابق چل رہا تھا، محلے کے لوگ پریشان تھے شرفاء پریشان تھے رات میں کتنے ہی بدکاری کرنے والے یہاں آتے تھے اور ایک لڑکی نے تو آکر اپنی یہ دردناک داستان سنائی تھی کہ ”اس کو دھوکے سے اس اڈے پر لے جایا گیا پھر زبردستی اس کی عزت لوٹی گئی اور اس کے برہنہ فوٹو اتارے گئے اور اس کو کہا گیا کہ اب تم ماں باپ کو بتاؤ گی تو ہم فوٹو شائع کر دیں گے اور پھر اس کو بلیک میل کرتے رہے اور بار بار اس کی عزت لوٹنے کے لئے بلاتے رہے اور یہ بچاری مجبور تھی، فریاد لے کر جامعہ حفصہ میں آئی۔ دوسرا کام انہوں نے یہ کیا کہ مساج (Massag) سینٹر، (مخلوط مساج سینٹر جس میں بدن پر مالش کی جاتی ہے) مالش کرنے والی کون ہیں؟ چینی عورتیں اور کراونے والے کون ہیں؟ مسلمان مرد، اسلام آباد کے مرد، تقریباً ننگے ہو کر یہ مساج ہوتا ہے۔ تو یہ قانون کے بھی خلاف تھا، آئین پاکستان کے بھی خلاف تھا اور دینی تعلیمات و روایات کے بھی خلاف تھا، ہر اعتبار سے جرم تھا، جنہوں نے اس سینٹر کو لائسنس دیا تھا انہوں نے بھی جرم کیا تھا۔ لال مسجد والوں کی غلطی بس یہ تھی کہ وہ ان چینی عورتوں کو پکڑ کر اپنے پاس لے آئے اور برقعہ پہنا کر واپس کر دیا۔ چوتھا کام یہ ہوا کو پولیس کے آدمیوں نے لال مسجد کے طلبہ کو گرفتار کیا، تو انہوں نے جواباً پولیس والوں کو گرفتار کیا۔عجیب بات ہے کہ آج مغربی دنیا، ہمارے قلم کار، کالم نگار، صحافی، اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ یہ کہہ رہے ہیں کہ مدرسے انتہا پسند ہوتے ہیں۔وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے جو مدارس ملحق ہیں، ان میں جامعہ فریدیہ (اور طالبات کے لئے جس کے کیمپس کا نام جامعہ حفصہ تھا) ایک بڑا مدرسہ، اس میں اور اس کی شاخوں میں تقریباً دس ہزار طلبا و طالبات زیر تعلیم تھیں لیکن وفاق المدارس نے صرف اس وجہ سے اس مدرسہ کے الحاق کو ختم کر دیا کہ وفاق المدارس ان کی اس انتہا پسندی کو صحیح نہیں سمجھتا تھا۔ یہ سب باتیں وفاق المدارس نے اپنے اعلامیہ میں بیان کر دی تھیں۔ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وفاق المدارس اپنے کسی مدرسے سے انتہا پسندی کو ، دہشت گردی کو جائز قرار نہیں دیتا۔پھر نہ صرف وفاق المدارس بلکہ پورے ملک کے تمام مدارس اور علماء نے بلکہ تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام نے جامعہ حفصہ کے منتظمین کے اس غلط طریقہ کار کی مذمت کی، اس کو غلط کہا۔ کیا یہ اس بات کی کھلی دلیل نہیں کہ تمام مدارس دینیہ اور تمام علمائے کرام انتہا پسندی کے خلاف ہیں، تشدد کے خلاف ہیں، لاقانونیت کے خلاف ہیں، قانون کے ہاتھ میں لینے کے خلاف ہیں۔اس واقعہ سے تو پوری دنیا میں یہ پیغام جانا چاہئے کہ تمام مدارس اور علماء انتہا پسندی اور دہشت گردی اور تشدد کے راستہ کو غلط سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے پرانے ساتھیوں کو بھی اپنے وفاق سے الگ کر دیا۔ میں نے ٹی وی والوں سے کہا کہ آپ دنیا کو یہ پیغام دیجیے اور جو زمینی حقیقت ہے اسے واضح کیجیے لیکن ہماری حکومت نے یہ کیا کہ لال مسجد کے حضرات کے ان چار مطالبات میں سے کسی ایک مطالبہ پر بھی کوئی کارروائی نہیں کی، آج تک پاکستان کے لوگوں کو اس بات کا انتظار ہے کہ کسی طرح یہ معلوم ہو کہ آنٹی شمیم کے اڈے کی سرپرستی جو حکام برسوں سے کر رہے تھے وہ کون تھے، جنہوں نے اس اڈے کو چلانے کی اجازت دے رکھی تھی اس میں کون لوگ حرام کاری کے لئے آتے جاتے تھے، کیا وہ سب بے گناہ ہیں؟ معصوم ہیں؟ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا؟ کیا جرم صرف انہوں نے کیا جو شمیم کو اپنے پاس امن و امان کے ساتھ لے کر آئے اور اس سے توبہ کر ا کر اس کو واپس کر دیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت کے اندر مسجد شہید کی گئی، اللہ کے گھروں کو شہید کیا گیا تو یہیں سے لال مسجد و جامعہ حفصہ کی انتظامیہ نے تحریک کا آغاز کیا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے اس یکطرفہ رویہ نے انہیں تحریک چلانے پر مجبور کیا۔ ہماری حکومت کا طریق کار یہ ہے کہ جب تک لاقانونیت کا راستہ اختیار نہ کیا جائے، توڑ پھوڑ نہ کی جائے اس وقت تک یہ کوئی مطالبہ سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ یہ بات ہم نے وزیر اعظم سے بھی کہی بلکہ مشترک میٹنگ میں بھی کہی تھی (جس میں صدر، وزیر اعظم ان کے کئی وزراء اور فوجی جنرل بھی شریک تھے) کہ حکمران جس طریقے کو اپناتے ہیں اگر یہ طریقہ رہے گا تو کبھی ملک میں امن و امان قائم نہیں ہو سکتا ۔ آپ سنجیدہ گفتگو میں ہماری بات سنتے نہیں،دلائل کی بات مانتے نہیں، قرآن و سنت کی بات کو کان دھر کر سننے کے لئے تیار نہیں۔ آئین اورقانون کی کوئی بات آپ سننے کے لئے تیار نہیں۔ اپنی من مانی اور خلاف اسلام پالیسیوں پر آپ ڈٹے رہیں گے تو نتیجہ کیا ہو گا؟ نتیجہ یہ ہو گا کہ عوام اٹھ کھڑے ہوں گے، جذباتی اور جوشیلے لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ قانون اپنے ہاتھ میں لے لیں گے پھر وہ نہ ہماری سنیں گے، نہ آپ کی سنیں گے۔ چنانچہ جامعہ حفصہ میں یہی ہوا، مسجدیں شہید کی گئیں لوگوں نے اس پر احتجاج کیا، ذمہ داران سے باتیں کیں، علماء نے بھی افسران بالا سے ملاقاتیں کیں مگر ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی، تو جامعہ حفصہ کے انتظامیہ نے جواباً کہا کہ تم نے ہمارے اللہ کے گھروں کو شہید کیا ہے، ہم تمہاری لائبریری پر قبضہ کرتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ حکومت کے نزدیک ان کے کتنے جرائم تھے؟ چار جرائم تھے کہ شمیم کو پر امن طریقے سے لے کر آئے اور پر امن طریقہ سے واپس پہنچا دیا۔ چینی عورتوں کو بھی پرامن طریقے سے لے کر آئے اور پرامن طریقے سے واپس پہنچایا۔ پولیس والوں کو پرامن طریقہ سے اپنے پاس رکھا، پرامن طریقہ سے واپس کر دیا، ان کی خاطر مدارات بھی کرتے رہے۔ چلڈرن لائبریری پر قبضہ کیا، اس میں کوئی تخریب کاری نہیں کی، کوئی عمارت کو نقصان نہیں پہنچایا، کسی کو تکلیف نہیں پہنچی، ان تمام کاموں میں کسی کو ایک کانٹا تک نہیں چبھا، کسی کو ایک کوئی تھپڑ تک نہیں مارا۔ ہمیں بتایا جائے


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


شکریہ : (بحوالہ جنگ نیوز آن لائن)
 
کہ ان چار میں سے کوئی ایک جرم بھی ایسا ہے جس کی سزا پاکستان کا قانون سزائے موت تجویز کرتا ہو؟ لیکن قانون سے بالاتر ہو کر ماورائے عدالت صرف اس جرم پر سیکڑوں طلبا و طالبات اور حفاظ قرآن کا خون کر دیا گیا۔ بتایئے یہ کہاں کا انصاف ہے؟ اور کراچی میں 12مئی کو خون کی ہولی کھیلی گئی، چالیس یا اس سے زیادہ لاشیں گرا دی گئیں، قتل کرنے والوں کو دنیا نے دیکھ لیا، ٹی وی نے دکھلا دیا، آج تک کوئی قاتل گرفتار نہیں ہوا۔ یہ کہتے ہیں کہ جامعہ حفصہ کے لوگوں نے حکومت کی رٹ کو چیلنج کیا تھا، تو کیا چالیس لاشیں گرانے والوں نے تمہاری رٹ کو چیلنج کیا تھا، یہاں اپنی رٹ کی حفاظت کی تمہیں کوئی ضرورت محسوس نہ ہوئی؟ لیکن چونکہ کراچی کے ان مظلوموں کی کوئی داد رسی کرنے والا نہیں تھا اس واسطے تمہیں نہ ان مظلوم چالیس سے زیادہ لاشوں پر رحم آیا اور نہ ان ظالم قاتلوں پر تمہیں کچھ غصہ آیا اور نہ تمہیں اپنی رٹ کی کوئی پروا ہوئی ۔آج تمہاری رٹ کو نیٹو کی فوجیں چیلنج کر رہی ہیں بے گناہ پاکستانیوں پر وہ بمباری کر رہی ہیں اور میزائل برسا رہی ہیں، کتنے پاکستانی مسلمان شہید ہو چکے ہیں۔ ہوائی جہازوں سے بھی بمباری کی ہے۔ وہاں اپنی رٹ کی فکر نہیں ہوئی وہاں تمہیں اپنے قانون کی عزت پامال ہوتی نظر نہیں آتی۔ وہ پاکستانی فوج جس نے اللہ کے فضل و کرم سے 1965ء کے جہاد میں اپنی طاقت، اپنی مہارت، اپنی بہادری، اپنی قربانی ، اپنے ایمان کا لوہا منوایا تھا اور آج تک الحمدللہ ہماری فوج کے بارے میں یہی تاثر ہے کہ مجموعی طور پر ہماری فوج ایمان سے سرشار ہے اور دنیا کی بہترین فوجوں میں شامل ہے۔ اس فوج کو پاکستان کے عوام نے اپنا پیٹ کاٹ کر ، ٹیکس دے دے کر، پالا اور نوازا ہے یہ ہماری امانت ہے، ہماری پونچی ہے، ہماری طاقت ہے، ہماری سرحدوں کی محافظ ہے، ہمیں اس پر فخر ہے۔ جس فوج کو پاکستان کی حفاظت کے لئے تیار کیا گیا تھا آج تم اس بہترین فوج کو دشمنوں کے حکم پر چلانے کی فکر میں ہو اور اس کے آٹھ سو سے زیادہ جوانوں اور افسران کا خون کروا چکے ہو۔ امن و امان پامال کرنے کے سارے راستے تو اختیار کر رہے ہو، پھر ہم سے کہتے ہو کہ امن و امان قائم کرنے میں علماء اپنا کردار ادا کریں۔ حکومت کی ان غلط حرکتوں کے باوجود امن و امان کو قائم کرنے کے لئے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے قضیہ میں علماء اپناکردار ادا کرنے اتوار کو اسلام آباد گئے، پہلے تو چوہدری شجاعت حسین سے بات ہوئی ان کو ہم (وفاق المدراس العربیہ کے ارکان) نے اپنی تجاویز دیں انہوں نے کہا کہ یہ بات میں صدر تک پہنچاتا ہوں اور ہم نے جو فارمولا پیش کیا تھا وہ ان کی سمجھ میں آگیا اور کہا کہ میں حکام بالا سے بات کرتا ہوں۔ رات کو ہمارے پاس وفاق وزیر مذہبی امور اعجاز الحق صاحب آگئے، ان کے سامنے بات رکھی ، بالآخر تھوڑی سی رد و قدح کے بعد وہ بھی قائل ہوگئے کہ فارمولا ایسا ہے کہ اس پر عمل ہو سکتا ہے، حکومت کی رٹ بھی برقرار رہے گی، قانون کا احترام بھی برقرار رہے گا اور کشت و خون سے بھی بچ جائیں گے مگر انہوں نے کوئی وعدہ نہیں کیا بلکہ صرف یہ کہا کہ وزیر اعظم سے ہم آپ کی ملاقات کراتے ہیں۔ تو میں نے اعجاز الحق صاحب سے کہا کہ یہ بتلائیے کہ وزیر اعظم فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں؟ تو انہوں نے کہا ”سو فی صد وہ فیصلہ کی پوزیشن میں ہیں“۔ انہوں نے اگلے دن پیر کے روز، وزیر اعظم سے ہمارے وفد کی ملاقات کروا دی۔ وہاں بھی وہ فارمولا رکھا گیا۔ اس میں انہوں نے اپنی مشکلات بیان کیں جو اعجاز الحق صاحب بھی بتا رہے تھے مگر ان سب مشکلات کا حل طے کر لیا گیا۔ وزیر اعظم کے ساتھ اس میٹنگ میں طے ہوگیا کہ عبدالرشید غازی کو گرفتار نہیں کریں گے (کیونکہ اس نے ٹیلی فون پر ہم سے بار بار کہا کہہ میں جان دے دوں گا مگر گرفتاری نہیں دوں گا) ۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ مولانا عبدالعزیز صاحب کو گرفتار کرکے جس طریقہ سے ان کی بے عزتی کی گئی اور جس انداز سے ان کی تضحیک کی گئی اور طلبا کو گرفتار کر کے ان کی قمیض اتار اتار کر ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر ذلیل و رسوا کر کے ٹی وی پر دکھایا گیا۔عبد الرشید غازی مرحوم نے فون سے بار بار کہا کہ میں اس کے لئے تیار ہوں کہ مجھے، میری بیوی بچوں کو، میرے ضروری سامان سمیت میرے گاؤں میں پہنچا دیا جائے میں جامعہ حفصہ کو بھی چھوڑتا ہوں، جامعہ فریدیہ کو بھی چھوڑتا ہوں، لال مسجد کو بھی چھوڑتا ہوں چلڈرن لائبریری کو بھی چھوڑتا ہوں، جتنا اسلحہ ہے، وہ بھی آپ کے سپرد کردوں گا۔ مجھے اپنے گھر جانے دیا جائے البتہ جامعہ حفصہ کو اور جامعہ فریدیہ کو میں وفاق المدارس کی تحویل میں دوں گا تاکہ مدرسوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے، مسجد محکمہٴ اوقاف سنبھال لے، وہ اس کا انتظام چلائے، چنانچہ یہ معاہدہ طے پایا، زبانی بات بھی ہوگئی اور وزیر اعظم نے کہا کہ اس پر عمل شروع کیجیے۔ یہ ظہر کے بعد کا وقت تھا۔ پھر اس پر عملدرآمد کے لئے چوہدری شجاعت صاحب اور وزیر مذہبی امور اعجاز الحق ، محمد علی درانی صاحب وزیر اطلاعات اور وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات طارق عظیم اورہمارا وفد گاڑیوں میں جلوس کی شکل میں لال مسجد کے قریب گیا، ممنوعہ علاقہ ہمارے لئے کھول دیا گیا لیکن آگے جا کر جہاں سے لال مسجد جانے کا مرحلہ تھا، وہاں سے ہمیں پیدل جانا تھا مگر رینجرز کے ایک افسر نے آگے جانے سے روک دیا اور کہا کہ آپ آگے نہ جائیں۔ وزیروں سے بھی کہہ دیا چوہدری شجاعت حسین سے بھی ۔کیوں نہیں جا سکتے؟ کہا کہ رسک(Risk) ہے، (ہمیں یہ خطرہ ہے کہ وہ آپ کو یرغمال بنا لیں گے) ۔
 
تو ہمارے ساتھ جو علماء کراچی سے گئے ہوئے تھے انہوں نے کہا کہ ہم یہ خطرہ قبول کرنے کے لئے تیار ہیں، ہمیں امید ہے کہ وہ ہمیں یرغمال نہیں بنائیں گے۔ تو انہوں نے کہا کہ نہیں یہ نہیں ہو گا۔ ہم نے اپنے ساتھیوں کو اجازت دے دی تھی کہ اگر آپ اپنی ذمہ داری پر جانا چاہتے ہیں تو چلے جائیں لیکن ہمارے بعض ساتھیوں نے رازداری سے آکر مجھ سے کہا کہ ایک چیز کا خطرہ ہے کہ مسجد کے آس پاس، درختوں کے پیچھے سب جگہ یہ اہلکار موجود ہیں، قوی اندیشہ یہ ہے کہ انہی میں سے کوئی ہمارے ان ساتھیوں پر فائر کر کے مار ڈالے گا اور الزام عبدالرشید پر لگا دیا جائے گا۔ یہ خطرہ واقعی توجہ طلب تھا اس لئے ہم نے ان ساتھیوں کو یہ خطرہ مول لینے سے روک دیا اور طے پایا کہ قریب میں ایک مکان میں بیٹھ کر مصالحتی فارمولے کی تحریر لکھیں گے اور طریقہٴ کار اسی اصول کے تحت طے ہو گا جو وزیر اعظم کے ساتھ میٹنگ میں طے پا چکا ہے۔ وزراء کے مشورے سے مولانا زاہد الراشدی اور طارق عظیم وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات نے یہ مسودہ تیار کیا۔ ایک ایک لفظ پر سب کا غور و فکر ہوا، مشورہ ہوا۔ جہاں پر جس کو جو تحفظات تھے ان کو دور کیا گیا۔ اسی دوران عبدالرشید غازی کا نمائندہ آگیا اس کے ذریعہ مسلسل عبدالرشید غازی سے ٹیلی فون پر رابطہ کرتے رہے، ان کے فون کی بیٹری ختم ہو گئی تھی باہر سے ایک فون اندر بھیجا گیا تاکہ ان سے اطمینان سے بات چیت ہو سکے، تمام باتوں سے انہوں نے بھی اتفاق کر لیا ۔ البتہ عبد الرشید غازی مرحوم ہم سے فون پر مسلسل یہ اصرار کر رہے تھے کہ آپ وزراء کو لے کر یہاں آجائیں تاکہ میں اسلحہ دکھا دوں کہ میرے پاس کون سا اسلحہ ہے، کیونکہ مجھے یقین ہے کہ یہ لوگ مجھے یا تو مار دیں گے یا دھوکے سے گرفتار کر لیں گے اور بعد میں اسلحہ یہاں لا کر میڈیا کو دکھا دیں گے کہ یہ اسلحہ اندر سے برآمد ہوا ہے۔لیکن وہاں جانے کا راستہ ہی بند کر دیا گیا ہمارے لئے بھی اور وزراء کے لئے بھی، میڈیا کے لئے بھی۔ بالآخر معاہدہ تحریر ہو گیا، ساری بات طے ہو گئی، ہم نے بھی بڑی خوشی کا اظہار کیا اور اعجاز الحق صاحب تو یہاں تک کہنے لگے کہ آج اگر یہ مسئلہ حل ہو جائے تو میں دو دن کے بعد عمرے کے لئے روانہ ہو جاؤں گا، ایک ہفتے سے جو ذہنی پریشانی ہے وہ ختم ہو جائے گی۔ اب اس متفقہ تحریر پر دستخط کرنے کا وقت آیا تو یہ حضرات نیچے یا اوپر ہی کے صحن میں چلے گئے، یہ ایک چھوٹا سا دو منزلہ مکان تھا، بالائی کمرے میں ہم تھے (جس میں مسودہ لکھا جا رہا تھا) اب یہ حضرات تھوڑی دیر بعد اوپر آکر کہنے لگے کہ ہمیں ایوان صدر جانا ہے اور صدر سے اس کی اجازت لینی پڑے گی۔ ہمیں تعجب ہوا کہ وزیر اعظم نے بھری مجلس میں یہ فیصلہ کیا اور اسی فیصلہ کے مطابق یہ ساری تفصیلات لکھی گئیں۔ وزراء کی کمیٹی نے یہ مسودہ ہمارے ساتھ مل کر طے کیا۔ چوہدری شجاعت حسین بھی اس پوری کارروائی میں شریک رہے وہ ہمارے ساتھ اب بھی موجود ہیں، اب ایوان صدر سے اجازت لینے کی کیا ضرورت ہے؟ جبکہ وزیر اعظم نے میٹنگ میں ایک بات یہ بھی کہی تھی کہ آج ہمارا صدر پرویز سے بھی اس معاملہ میں مشورہ ہو چکا ہے۔ عبدالرشید غازی صاحب بھی تیار ہو چکے ہیں اور اب ہم نے اس موضوع پر گفتگو شروع کی تھی کہ مسجد کے اندر طلبہ سارے بھوکے ہو نگے ان کے کھانے کا انتظام کرنا ہو گا۔ مدرسے میں طالبات اور خواتین بھوکی ہوں گی ان کے لئے بھی کھانے کا انتظام کرنا ہوگا۔ یہ بھی طے ہو گیا تھا کہ چار حکومتی ارکان اور چار افراد ہم، ان طالبات کو اپنی تحویل میں لیں گے اور انہیں محفوظ مقام پر منتقل کر کے ان کے سر پرستوں کے حوالے کر دیں گے اور طلباء کو یہی کمیٹی اپنی تحویل میں لے گی اور محفوظ مقام تک پہنچا دے گی ان پر اگر کوئی مقدمہ ہوا تو دیکھا جائے گا اور جن پر کوئی مقدمہ نہ ہوا انہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ البتہ جن پر اس واقعے سے پہلے کا مقدمہ ہو گا تو انہیں نہیں چھوڑا جائے گا۔ اب یہ حضرات یہ کہہ کر صدر جنرل پرویز کے پاس چلے گئے کہ ہم آدھے گھنٹے میں واپس آجائیں گے۔ ہم دن بھر بے آرام رہے تھے اور اس سے پہلے والی رات بھی جاگتے رہے تھے ۔ اب یہ اذیت ناک وقفہ بیچ میں آگیا اور خطرہ ہونے لگا کہ ایوان صدر میں کہیں گڑ بڑ تو نہیں ہو جائے گی۔ تقریباً ڈھائی گھنٹے بعد وہ واپس آئے اور جب وہ حضرات آئے تو ان کا رنگ بدلا ہوا تھا، وہ ایک صفحے پر تین نکات لکھ کر لائے تھے۔ الفاظ تو خوبصورت تھے جیسے کہ آج کل سرکاری لوگوں کے ہوا کرتے ہیں لیکن حاصل ان کا یہ تھا کہ جن باتوں کی پیشکش عبدالرشید غازی کو کی گئی تھی، ان تمام باتوں سے انکار کر دیا گیا تھا۔ مثلاً اس نئی تحریر میں پہلا نکتہ یہ لکھا تھا کہ عبدالرشید غازی اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ باہر نکلیں گے۔ ان کو اور ان کے گھر والوں کو ان کے ذاتی سامان سمیت”گھر“ میں رکھا جائے گا۔ ہم نے کہا کہ کون سے گھر میں رکھا جائے گا؟ ہم نے پوچھا کہ کس گھر میں؟ طارق عظیم کہنے لگے کہ کسی گھر میں رکھا جائے گا۔ تو ہم نے کہا کہ لکھوان کے گاؤں کے گھر میں رکھا جائے گا۔ کہنے لگے کہ نہیں صاحب یہ نہیں ہو سکتا اور اس میں کوئی لفظ آگے پیچھے نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی لفظ کم و بیش ہو سکتا ہے کیونکہ یہ ہم وہاں سے حتمی منظوری کے بعد لے کر آئے ہیں اور اس تحریر کی فوٹو کاپی ایوان صدر میں محفوظ کر لی گئی ہے، اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکتی اور مجھ سے طارق عظیم نے چپکے سے کہا کہ دیکھئے ہمیں صرف آدھے گھنٹے کی مہلت دی گئی ہے، اس کے اندر ”ہاں“ یا ”نہ“ کر وا لیجیے اور پھر کہا کہ پندرہ منٹ گزر چکے ہیں، تو میں نے کہا کہ دیکھئے یہ وہ معاملہ تو رہا نہیں جس پر ہم نے عبدالرشید غازی سے بات کی تھی اور ان کو بمشکل تیار کیا تھا، اب یہ ایک نئی چیز آئی ہے، اس کی ذمہ داری ہم قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، عبدالرشید غازی کا نمائندہ یہاں موجود ہے اس کو مسودہ دکھا لیجیے، اگر یہ عبدالرشید غازی سے منظور کروا لیتے ہیں تو بہت اچھی بات ہے۔ چنانچہ عبدالرشید غازی سے فون پر رابطہ کیا گیا مگر انہوں نے اس کی نئی تحریر کو ماننے سے انکار کر دیا۔ ابھی ہماری یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ ایک کمانڈر فوج یا رینجرز کا واللہ اعلم۔ کمرہ میں آکے کھڑا ہوگیا، (چھوٹا سا کمرہ تھا، جس میں مشکل سے ہم چار علماء اور چار حکومتی نمائندے تھے) اور مخصوص انداز میں ہمیں اپنی گھڑی دیکھنے لگا۔ گویا وہ اشارہ کررہا تھا کہ براہ کرم آپ تشریف لے جائیں چنانچہ ہم نے بھی آپس میں یہ طے کیا کہ ابھی یہاں ٹھہرنا بیکار ہے، ان کی نیتیں خراب ہیں، ہمارے بعض ساتھیوں نے جو نیچے زمینی منزل میں تھے بعد میں بتایا کہ ایک فوجی افسر نے آکر ان سے کہا کہ آپ لوگ چلے جائیں، بہرحال نیچے کمرے میں ساتھی ہمارے منتظر تھے ان کو ساتھ لیا اور گاڑیوں میں بیٹھ کر انتہائی رنج و غم کے ساتھ چلے آئے۔ اس وقت رات کے تقریباً ڈھائی بج چکے تھے اب ہم نے طے کیا کہ جس ہوٹل میں ہمارا قیام ہے وہاں پہنچ کر باہم مشورہ کریں گے۔ (اس ہوٹل میں اپنے قیام کا انتظام ہم نے خود کیا تھا، حکومت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں تھا، مصارف سفر وغیرہ کا انتظام بھی ہم نے خود کیا تھا) امکانی طور پر امید کی ایک ہلکی سی کرن اب بھی باقی تھی وہ یہ کہ عبدالرشید غازی کا نمائندہ وہاں چوہدری شجاعت حسین اور وزیروں کے پاس موجود تھا، وہ فون پر عبدالرشید غازی سے دوبارہ رابطہ کررہا تھا، عبدالرشید غازی ہمارے سامنے تک تو اس نئے مسودے سے حتمی طور پر سختی سے انکار کرچکے تھے اور کہہ چکے تھے کہ یہ دھوکہ بازی ہے، اس نئے مسودے کا حاصل سوائے اس کے نہیں کہ مجھے گرفتار کیا جائے اور میں اسے قبول نہیں کرتا میں گرفتاری کے مقابلے میں شہادت کو ترجیح دوں گا۔ اسی کے بعد وہاں سے مایوس ہوکر ہم واپس ہوئے تھے لیکن یہ ہلکی سی امید ذہن میں آنے لگی تھی کہ شاید دونوں فریقوں کے درمیان نئے مسودے پر کوئی سمجھوتہ ہوجائے، ہم نے اپنے موبائلوں کو بند کردیا تھا کیونکہ مختلف ٹی وی چینلز بار بار رابطے کررہے تھے اور ہمیں خطرہ تھا کہ اگر ہم نے ابھی سے یہ کہہ دیا کہ مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں تو جو ایک ہلکی سی امید مصالحت کی دل میں آرہی ہے، اس کو نقصان پہنچے گا، اسی اندیشے کے پیش نظر ہم سب نے اپنے اپنے موبائل بند کردیئے اور یہ طے کیا کہ کوئی بھی انفرادی طور پر اس بات کا اعلان نہیں کرے گا۔ اب فجر کی نماز کا وقت ہوگیا تھا، تو طے کیا کہ نماز فجر پڑھ کر ہم کچھ دیر کیلئے اپنے کمروں میں چلے جائیں گے پھر مشورہ کرکے اعلان کیا جائے گا اچانک مجھے پتہ چلا کہ وہاں تو حملہ شروع ہوچکا ہے، زبردست بمباری گولہ باری ہورہی ہے جیسے کسی دشمن ملک پر چڑھائی کی جاتی ہے اور خوفناک تباہی پھیل رہی ہے، ٹی وی پر ان المناک مناظر کے ساتھ طرح طرح کے تخمینے اور قیاس آرائیاں ہورہی تھیں کہ یہ کیا قصہ ہوا؟ ابھی تھوڑی دیر پہلے تو یہ بات ہورہی تھی کہ مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں، اب اچانک یہ کیا ہوا؟ اندازے سے کوئی کچھ کہہ رہا تھا، کوئی کچھ، سخت کنفیوژن پھیلا ہوا تھا میں نے سوچا کہ ہم نے تو یہ طے کیا تھا کہ کوئی انفرادی طور پر اعلان نہیں کرے گا، مشورہ کرکے پریس کانفرنس میں اعلان کیا جائے گا، مگر اب جبکہ حملہ پوری شدت سے شروع ہوچکا ہے، سارا ملک کنفوژن میں مبتلا ہے، لوگ سخت پریشان ہیں اس لئے میں نے اپنے موبائل کا سوئچ کھول دیا کھولتے ہی فوراً جیو ٹی وی کا فون آگیا وہ پوچھ رہے تھے کہ کیا قصہ پیش آیا؟ یہ تو آپریشن شروع ہوگیا ہے میں نے سارا واقعہ بیان کردیا، اس وقت صبح کے تقریباً 5 بجے تھے اور فوراً ہی انہوں نے یہ خبر دنیا کو سنادی تو آٹھ بجے کے قریب جناب حامد میر آگئے اور بڑے دکھ سے کہنے لگے کہ دکھیئے یہ وزراء کتنا جھوٹ بول رہے ہیں، خدا کیلئے صورتحال بتلایئے وہ کیمرہ بھی ساتھ لائے تھے میں نے ان کو وہ ساری روداد جو صبح 5 بجے میں جیو کو فون پر سناچکا تھا مزید تفصیل کے ساتھ جناب حامد میر کو سنادی انہوں نے اس کو ریکارڈ کرلیا اور کہا کہ میں آدھے گھنٹے میں اس کو نشر کردوں گا، مگر انہوں نے شام کو کسی وقت نشر کیا جبکہ اس سے پہلے ہماری پریس کانفرنس بھی ہوچکی تھی۔ یہ ساری المناک درد بھری روداد ہے، مجھ سے کسی ٹی وی چینل کے نمائندے نے پوچھا کہ آپ اس خونریزی کی ذمہ داری کس پر ڈالتے ہیں میں نے کہا، ایوان صدر پر۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے۔ ہم پر اور ہمارے پیارے وطن پر رحم فرمائے اور جو خطرات منڈلارہے ہیں اللہ ان سے بچالے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
اب یہ بڑی وضاحتیں پیش کر رہے ہیں۔ اس وقت تو محض یہ جامعہ حفصہ کو وفاق المدارس کے لیے ہتھیانے میں دلچسپی رکھتے تھے۔
 

فاتح

لائبریرین
ہم دور بیٹھے ہوئے لوگوں کو یہ بتائیں کے لال مسجد میں‌ دستی بموں‌اور کلاشنکوفوں کا کیا مصرف تھا؟

گو کہ میں بھی آپ کی طرح‌دور ہی بیٹھا ہوں لیکن جو مصرف سمجھ آتا ہے وہ یہی ہے کہ شاید کلاشنکوف کی گولیاں سبحہ و زنّار کے دانوں کے نعم البدل کے طور پر استعمال ہو رہی ہوں۔
ہمیشہ حسن ظن سے کام لینا چاہئے۔
 
واجد بھائی، بہت اچھا لگا کہ ایک بار پھر کیچڑ کیچڑ شروع ہو جائے گی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم

منصور بھائی بہت کم دیکھائی دیتے ہوں شادی سے تو انسان میرے خیال زیادہ ہی مصروف ہو جاتا ہے ؟
جب زندہ ہوں منافق اور جب موجود ہوں کفر و ایمان تو کبھی کیچڑ اور کبھی دلیا اور کبھی خوبصورت پلاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟




واجد
 

سید ابرار

محفلین
ہم دور بیٹھے ہوئے لوگوں کو یہ بتائیں کے لال مسجد میں‌ دستی بموں‌اور کلاشنکوفوں کا کیا مصرف تھا؟

جس ”قانون شکنی “ کا آپ لال مسجد والوں پر ”الزام “ لگارہے ہیں ، انھیں اس ”جرم “ کی ”سزا “ بھر پور انداز میں مل چکی ہے ، اور امید ہے ”آئین اور قانون “ کی اس ”بالا دستی “ پر یقینا آپ جیسے ”محب وطن لوگ “ سکون محسوس کررہے ہونگے ، میرا خیال ہے اب ”سزا “ ملنے کے بعد لال مسجد والوں‌ پر ”کیچڑ “ اچھالنے سے بھتر ہے کہ اپنی ”حکومت “ سے درخواست کریں‌ کہ جتنے ”مجرمین‌ “ کو بر سر عام ”سزائے موت “ دی گئی ہے ، کم از کم ان کی نعشوں کو انکے ورثاء کے حوالے کردیا جائے ،
 

ساجداقبال

محفلین
جس ”قانون شکنی “ کا آپ لال مسجد والوں پر ”الزام “ لگارہے ہیں ، انھیں اس ”جرم “ کی ”سزا “ بھر پور انداز میں مل چکی ہے ، اور امید ہے ”آئین اور قانون “ کی اس ”بالا دستی “ پر یقینا آپ جیسے ”محب وطن لوگ “ سکون محسوس کررہے ہونگے ، میرا خیال ہے اب ”سزا “ ملنے کے بعد لال مسجد والوں‌ پر ”کیچڑ “ اچھالنے سے بھتر ہے کہ اپنی ”حکومت “ سے درخواست کریں‌ کہ جتنے ”مجرمین‌ “ کو بر سر عام ”سزائے موت “ دی گئی ہے ، کم از کم ان کی نعشوں کو انکے ورثاء کے حوالے کردیا جائے ،

یقینا، ہمارے محب وطن بھائی اب بہت خوش ہیں اور پورے پاکستان میں ”امن و امان“ کی صورتحال بہتر بلکہ بہترین دیکھ کر سیروں‌کے حساب سے خون بڑھا رہے ہیں۔
لاشیں‌حکومت کیسے حوالے کرے؟ کل کو انہی لاشوں‌نے اٹھا کر پروپیگنڈا شروع کر دیا تو؟؟؟؟:eek:
 

نبیل

تکنیکی معاون
اس تھریڈ پر بھی دوسرے تھریڈز کی طرح بے مقصد بحث شروع ہو گئی ہے۔

ابرار، آپ کی معلومات لال مسجد کے بارے میں صفر کے برابر ہیں لیکن آپ مسلسل اس معاملے پر اپنی طویل اور بے مقصد پوسٹس سے اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ آپ اپنے گھر کی فکر کریں۔ میں نے اب تک انڈیا کے جتنے مسلمان دیکھے ہیں، انہیں دیکھ کر تو انتہائی مایوسی ہوئی ہے۔

ساجد، آپ ماشاءاللہ واقعی اپنی اندھی تقلید جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کیپ اٹ اپ۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
نبیل ایک درخواست ہے کہ یک طرفہ فیصلہ نہ کریں اب ضروری تو نہیں کہ ہر ایک بندہ اپ کی رائے یا سوچ سے متفق ہوں یہاں پر بہت سارے ایسے ہیں جنھیں اپ دہشت گرد کہتے ہیں وہ انہیں مجاہد کہتے ہیں اور میری اپنی ذاتی رائے میں سید ابرار جیسا بندہ شائد اس فورم پر ہندوستان سے کوئی بھی نہ ہوں
نبیل بھائی اپ بار ذاتی تنقید سے منع کرتے ہیں لیکن خود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

پھر بھی معذرت چاہتاہوں اگر میر ی باتیں اچھی نہ لگی ہوں



واجد
 

ساجداقبال

محفلین
ساجد، آپ ماشاءاللہ واقعی اپنی اندھی تقلید جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کیپ اٹ اپ۔
شکریہ۔۔۔
نبیل ایک درخواست ہے کہ یک طرفہ فیصلہ نہ کریں اب ضروری تو نہیں کہ ہر ایک بندہ اپ کی رائے یا سوچ سے متفق ہوں۔
نہیں جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مستند ہیں میرا فرمایا ہوا
 

نبیل

تکنیکی معاون
واجد، آپ معذرت کا تکلف نہ کریں۔ میں آپ کی باتوں کو اتنی اہمیت نہیں دیتا۔ ابرار کو جو کچھ کہنا ہوگا وہ خود کہہ لیں گے۔ آپ اپنے خودکش دھماکوں کے قصیدے جاری رکھیں۔ آپ کی ذہنی صلاحیت اس سے آگے بات کرنے کی اہل نہیں ہے۔

ساجد، آپ ذہین ضرور ہیں لیکن اندھی تقلید کی وجہ سے مار کھاتے ہیں۔ حقائق سے منہ پھیر کر شور مچا دینے سے دوسرے کی آواز دب سکتی ہے لیکن جھوٹ سچ میں نہیں بدل سکتا۔ آپ کی مرضی ہے کہ میرے کہے کو مستند سمجھیں یا ردی۔ شکریہ۔

واپس موضوع کی طرف۔ یعنی رفیع عثمانی صاحب کی لولی لنگڑی وضاحتیں۔۔
 
ماشاء اللہ۔۔۔ بہت خوبصورت انداز میں گفتگو فرمارہے ہیں دونوں فریقین۔۔!
اس گرما گرمی اور کیچڑ کیچڑ میں، میں صرف مسکرانے پر اکتفا کرلیتا ہوں۔
:)
 
Top