لانگ مارچ اتوار کی صبح نو بجے شروع ہوگا

الف نظامی

لائبریرین

الف نظامی

لائبریرین
یار الف نظامی
یہ یزیدیت اور حسینت میں اتفاق رائے کیسے ہوگیا؟ یہ انہونی کیسے ہوگئی؟ بھی یہ قادری کی ہی کرامات ہیں۔ قتل کرو ہو یا کرامات کرو ہو۔
بھی مان گئے۔
لانگ مارچ نے حکومت کو معاہدہ کرنے پر مجبور کیا ہے اور ایسے لوگوں سے (یزیدوں ، ظالموں ، لٹیروں) سے بات منوانا تضاد نہیں ، حق کی فتح ہے۔

181125_550281991649005_595092028_n.jpg
مزید تفصیل کے لیے براہ کرم یہ دو روابط ملاحظہ کیجیے
ربط 1
ربط
 
یزیدوں، فراعنہ اور ظالموں سے گلے مل کر ان کو مبارک باد دینا بھی شاید حق کی فتح ہی ہو، اور یزیدوں کی شرائط پر اپنی حقیقی شرائط یعنی کرپٹ حکومت کا فی الفور خاتمہ، الیکشن کمیشن کی تحلیل اور صدر و وزیر اعظم کا بھی فوری مستعفی ہونا، کو قربان کر دینا بھی ایک اور فتح عظیم ہے ، نیز جن وزیر اعظم کی برطرفی پر مسلسلم وکٹری وکٹری وکٹری کا نعرہ بلند کیا گیا تھا اور یہ فرمایا گیا تھا کہ آج آدھا کام ہو گیا بقیہ آدھا کام کل ہو جائے گا اس سے مراد شاید یہی معاہدہ فتح عظیم تھا۔چیف الیکشن کمشنر ،جن کو باعزت مستعفی ہوجانے کا مشورہ طاہر صاحب نے دیا تھا، کی تصدیق کی ضرورت شاید طاہر صاحب کو نہ ہو۔ان کو جن تصدیقات کی ضرورت تھیں وہ ان کو پورے پاکستان کی اکثریت سے مل رہی ہیں اور امید یہی ہےآنے والا وقت مزید ان کی نقاب کشائی کا باث بنے گا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
کرپٹ حکومت کا فی الفور خاتمہ :حکومت کو سیاسی شہادت کے رتبہ پر فائز کرنا کیا ضروری ہے:)
  • قومی اسمبلی کو (اپنی مقررہ میعاد) 16 مارچ سے قبل کسی بھی وقت تحلیل کر دیا جائے گا، تاکہ اس کے بعد نوے دن کے اندر اندر انتخابات کا انعقاد کروایا جا سکے۔ کاغذات کی جانچ پڑتال اور آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت امیدواروں کی pre-clearance کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا جائے گا تاکہ الیکشن کمیشن امیدواروں کی انتخابات میں حصہ لینے کی اہلیت کا یقین کرسکے۔ کسی بھی امیدوار کو اپنی انتخابی مہم کے آغاز کی اجازت نہیں دی جائے گی جب تک ان کی یہ چھانٹی نہیں ہو جاتی اور الیکشن کمیشن ان کی اہلیت کا فیصلہ نہیں کرتا۔
الیکشن کمیشن کی تحلیل
  • الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے بارے میں ایک اجلاس اگلے ہفتے اتوار ستائیس جنوری 2013 کو بارہ بجے منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ لاہور میں منعقد ہوگا۔ اس کے بعد ہونے والے تمام اجلاس بھی منہاج القرآن کے سیکرٹریٹ میں ہی ہوں گے۔ آج کے فیصلے کی پیروی میں وزیر قانون مندرجہ ذیل وکلاء کو ایک اجلاس میں ان معاملات پر غور کے لیے بلائیں گے: ایس ایم ظفر، وسیم سجاد، اعتزاز احسن، فروغ نسیم، لطیف آفریدی، ڈاکٹر خالد رانجھا اور ہمایوں احسان ۔ وزیر قانون فاروق ایچ نائیک ستائیس جنوری کے اجلاس میں قانونی صلاح و مشورے کے بارے میں رپورٹ پیش کریں گے۔
اصل مقصد انتخابی اصلاحات:
  1. انتخابی اصلاحات کے بارے میں اتفاق کیا گیا کہ انتخابات سے پہلےآئین کے مندرجہ ذیل شقوں پر عملدرآمد پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔
  1. آئین کی شق 62، 63 اور (3) 218
  2. عوامی نمائندگی کے ایکٹ 1976ء کے سیکشن 77 تا 82 اور دوسرے سیکشنز جو انتخابات کی آزادانہ، منصفانہ، شفاف اور ایماندارنہ بنیادوں پر انعقاد اور ہر قسم کےبدعنوان معمولات کے تدارک سے متعلق ہیں۔
  3. سپریم کورٹ کی 2011 ءکی قانونی درخواست پر 8 جون 2012ء کو صادر ہونے والے فیصلے پر من و عن عمل درآمد کروایا جائے گا۔
  • کاغذات کی جانچ پڑتال اور آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت امیدواروں کی pre-clearance کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا جائے گا تاکہ الیکشن کمیشن امیدواروں کی انتخابات میں حصہ لینے کی اہلیت کا یقین کرسکے۔ کسی بھی امیدوار کو اپنی انتخابی مہم کے آغاز کی اجازت نہیں دی جائے گی جب تک ان کی یہ چھانٹی نہیں ہو جاتی اور الیکشن کمیشن ان کی اہلیت کا فیصلہ نہیں کرتا۔
 
طاہر صاحب بزبان خود
طاہر کے لانگ مارچ کی کہانی خود ان کی زبانی
اور جن سے معاہدہ کیا جن کی پیٹھ ٹھونکی اور شاباش دی طاہر صاحب نے ان کی نظر میں طاہر صاحب
نیز محترم یزید، محترم فرعون، محترم نمرود (استغفر اللہ) سے ملیے طاہر صاحب کے فلسفہ انقلاب کی روشنی میں
منافقت کی کوئی حد نہیں ہوتی اس لانگ مارچ سے یہ تو ثابت ہو گیا۔
Embedded media from this media site is no longer available
 
ایسے مطالبات پیش کرنے پرحکومت سیاسی شہید ہو گی یا حکومت کے وزرا جن کو یزید قرار دیا گیا ،سے بعد ازاں گلا ملنا پڑ گیا تو کیا ہو گا، یہ کیا کسی نے پہلے سوچا؟ پہلے تو اتنی ہائپ کریٹ کی گئی کہ گویا یوں لگ رہا تھا کہ زمین و آسمان کی قوتیں باطل کا خاتمہ کردینے کو تیار ہیں ایک طرف حضرت آدم سے لیے کر حضرت حسین تک کی تمام نیک قوتین ایک طرفدوسری طرف فرعونوں اور نمرودں کے لشکر جمع ہو گئے ہیں لیکن اتنی ہائپ کے بعد ، چند عدوں پر اکتفا؟ کیسی بلندی ایسی پستی؟اور پھر فی الفور کون سا مطالبہ تسلیم کیا گیا وہی ۶۲ ۶۳ یا ایک مہینے کی توسیع ، کیا یہ سب اور پہلے کی بڑھکین برابر ہیں؟ کیا فی الفور اسمبلیوں کی تحلیل اور ۱۶ مارچ کی ایک مجہول مدت برابر ہے؟ کیا الیکشن کمیشن کی فوری تحلیل اور اس مطالبے کو ایک مزید مدت کے لیے وہ بھی صرف غور و فکر کے لیے ٹال دینا برار ہیں، اطلاعا عرض ہے کہ سپریم کورٹ کی سطح سے ا نتخابی اصلاحات کے بارے میں پہلے ہی فیصلہ آچکا ہے، لیکن کیا ہمیشہ ایسے فیصلوں پر عملدرآمد ہو تارہا ہے؟؟ اس لانگ مارچ کو جو لوگ لانگ کنٹینر ڈرائیو قرار دے رہے ہیں وہ غلط نہیں ایسے چھوٹی باتوں کے لیے ، اور وہ بھی ایسی جن پر عملدرآمد کا طریقہ کار اور یقین دہانی ہے ہی کچھ نہیں عوام کے ساتھ ان کے جذبات کے ساتھ ایک بہت بڑا بھونڈا مذاق ہے اور کچھ نہیں۔
اس معاہدے کی آئینی وقعت کچھ نہیں ماہرین قانون کے نزدیک ۔پھر زرداری گورنمنٹ ایک نمبر کی جھوٹی ہے وہ یہ بات کتنی بار پروف کر چکے ہیں۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ لانگ مارچ کے بعد طاہر صاحب اور ان کے رفقا کی جھولی میں کیا ہے ماسوائے زرداری کے جھوٹ وعدوں کے؟؟
انقلاب کہاں گیا ؟ وہ فوری تبدیلیوں کے وعدے کہاں ہوا ہو گے ؟وہ نظام کی مکمل اصلاح کہاں گئی؟کیا صرف یہی کہ عوامی تحریک سے آئندہ نگراں گورنمنٹ کے امیدوار کے لیے مشوارت کی جائے گی یہی اچیف منٹ ہے جناب طاہر صاحب کی؟؟؟ لانگ مارچ سے پہلے اور بعد کا واضح فرق جو بین ظاہر ہو وہ کیا ہے؟
ہاں بس یہی کہ یزید زرداری کو ایک اور محالف مل گیا ایک اور معاہد مل گیا سو مبارک کو طاہر صاحب اور ان کے پیروکاروں کا۔ کیا لانگ مارچ درحقیقت لونگ گوانچا مارچ تھا ، جو لونگ دینے کے وعدے پر ختم ہو گیا؟
 

صائمہ نقوی

محفلین
دیکھئے اگر آپ معاہدے کو اپنے زیر عتاب لارہے ہیں تو آپ کی بات میں مجھ کو کوئی وزن نظر نہیں آرہا۔ معاہدہ ہمیشہ اچھے لوگ برے لوگوں سے مصلحت کی بنا پر کرتے ہی رہے ہیں ۔ جس میں سب سے مشہور معاہدہ صلح حدیبیہ میں ہوا تھا جب آنحضرت:pbuh: نے کافروں سے معاہدہ کیا حالنکہ اکثر صحابہ اس پر بھی ناراض ہوئے تھے اور انکو اسوقت ہی نظر آرہا تھا کہ کافر اپنے معاہدے پر قائم نہیں رہیں گے تمام شرائط بھی آپ :pbuh:نے کافروں کی ہی مانیں تھیں۔ ظاہر ہے اللہ سے زیادہ کون جانتا ہے اللہ اپنی حجت قائم کر رہا تھا کافروں کو موقع دے کر۔ اور اگر آپ میدانِ کربلا میں دیکھیں تو جگہ جگہ امام علیہ السلام نے حجت قائم کی اللہ کے حکم پر اگر آپ کربلا کے واقعات کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ کئی مواقع آئے کہ جنگ شروع ہوسکتی تھی پر آپ نے ہر ممکن کوشش کی کہ جنگ سے بچا جائے یہاں تک کہ جب نہر سے خیمے ہٹانے کی بات ہوئی تب بھی آپ نے بغیر توقف کے یزیدیوں کی بات مانی ۔ مگر جس بات پر اڑے رہے وہ یزید جیسے فاسق و فاجر کی بیعت تھی اس پر انہوں نے سر کٹا دیا پر یزید کے آگے جھکے نہیں ۔ اگر آپ غور کریں تو قادری صاحب بھی جس بات پر اڑ گئے اس سے پیچھے تو نہیں ہٹے نا انکے جو بھی مطالبات تھے وہ شروع دن سے سب کے سامنے تھے اور انکو حکومت نے تسلیم بھی کرلیا اب اگر وہ معاہدہ نہیں کرتے تو یہی کہا جاتا کہ یہ آئے ہی جمہوریت کو سبو تاژ کرنے تھے۔
 
دیکھئے اگر آپ معاہدے کو اپنے زیر عتاب لارہے ہیں تو آپ کی بات میں مجھ کو کوئی وزن نظر نہیں آرہا۔ معاہدہ ہمیشہ اچھے لوگ برے لوگوں سے مصلحت کی بنا پر کرتے ہی رہے ہیں ۔ جس میں سب سے مشہور معاہدہ صلح حدیبیہ میں ہوا تھا جب آنحضرت:pbuh: نے کافروں سے معاہدہ کیا حالنکہ اکثر صحابہ اس پر بھی ناراض ہوئے تھے اور انکو اسوقت ہی نظر آرہا تھا کہ کافر اپنے معاہدے پر قائم نہیں رہیں گے تمام شرائط بھی آپ :pbuh:نے کافروں کی ہی مانیں تھیں۔ ظاہر ہے اللہ سے زیادہ کون جانتا ہے اللہ اپنی حجت قائم کر رہا تھا کافروں کو موقع دے کر۔ اور اگر آپ میدانِ کربلا میں دیکھیں تو جگہ جگہ امام علیہ السلام نے حجت قائم کی اللہ کے حکم پر اگر آپ کربلا کے واقعات کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ کئی مواقع آئے کہ جنگ شروع ہوسکتی تھی پر آپ نے ہر ممکن کوشش کی کہ جنگ سے بچا جائے یہاں تک کہ جب نہر سے خیمے ہٹانے کی بات ہوئی تب بھی آپ نے بغیر توقف کے یزیدیوں کی بات مانی ۔ مگر جس بات پر اڑے رہے وہ یزید جیسے فاسق و فاجر کی بیعت تھی اس پر انہوں نے سر کٹا دیا پر یزید کے آگے جھکے نہیں ۔ اگر آپ غور کریں تو قادری صاحب بھی جس بات پر اڑ گئے اس سے پیچھے تو نہیں ہٹے نا انکے جو بھی مطالبات تھے وہ شروع دن سے سب کے سامنے تھے اور انکو حکومت نے تسلیم بھی کرلیا اب اگر وہ معاہدہ نہیں کرتے تو یہی کہا جاتا کہ یہ آئے ہی جمہوریت کو سبو تاژ کرنے تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفار سے معاہدہ صلح حدیبیہ بھی کیا جس میں بظاہر ایسی شرائط شامل تھی جو مسلمانوں کے خلاف تھیں لیکن اللہ کے نبی کو اللہ کی مکمل مدد حاصل تھی اور آپ وحی الہی کے ذریعے جو کچھ دیکھ رہے تھے وہ کوئی اور نہیں دیکھ رہا تھا۔ کیا طاہر صاحب کو یہ خصوصیت حاصل ہے؟ معذرت کے ساتھ ان کی اتنی متضاد باتیں ہوتی ہیں کہ ان کو سچا تسلیم کرنا بھی ایک بڑی مشکل بات ہے۔
2۔ اللہ کے نبی نے ایک معاہدہ تو کیا لیکن کیا کفار قریش کو سینوں سے لگا کر ان کی پیٹھ بھی اس وقت ٹھونکی ، ان کو خراج تحسین پیش کیا یا ان سے خراج تحسین حاصل کیا؟اور ان سے معاہدے کے بعد کیا اپنے بنیادی مطالبات سے دستبردار ہو گئے؟
3۔ کیا نہر سے خیمے ہٹا دینا یزید کو گلے ملانے اور اس سے ہاتھ ملانے لینے کے مترادف ہے؟یزید سے معاہدہ کر لینے کے مترادف ہے؟ کیا حضرت حسین اور ان کے شرکا یزید سے معاہدے کے بعد کربلا سے باحفاظت واپس چلے گئے اورکیا حضرت حسین نے کربلا میں کسی تیر پروف زرہ بکتر کے حصار میں اس وقت لوگوں سے صرف و صرف خطابت کی جب ان کے چاہنے والے کربلا کی گرمی و تپش میں جھلس رہے تھے؟
4۔ طاہر جن کویزیدی کہ رہا تھا ان سے مذکرات کے بعد اپنی بنیادی شرائط سے کیا دستبردار نہیں ہو گئے؟ تین مطالبات اورواضح مطالبات 1۔ الیکشن کمیشن کی از سر نو تنظیم 2۔ قومی صوبائی اسمبلیوں کی فوری تحلیل 3۔ وزیر اعظ و صدر کی براخاستی۔ کیا ان پر عملدراًد ہوگیا؟ کیا کرپٹ نظام کا خاتمہ ہو گیا؟ کیا ٹیکس چوروں اور ظالموں سے نجات مل گئی؟
5۔جو باتیں ماننی گئیں ان کے بارے میں میں کہ چکا ہوں کہ نہ صر ف آئین بلکہ حال میں دیا گیا سپریم کورٹ کا آئنی اصلاحآت کا فیصلہ بھی ایسی اچھی اچھی باتیں کرتا ہے لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو کیا شیورٹی ہے کہ ان بچھے کچھے مطالبات پر بھی عملدرآمد زردی جیسا ایک نمبر کا جھوٹا اور وعدہ خلاف کرے گا؟
6۔ شیخ طاہر صاحب کے پاس ان کی جھولی میں اگر صرف وعدوں اور وہ بھی جھوٹوں اور آئین کی شق 62 62 کی خلاف ورزی کرنے والوں سے حاصٌل کر دہ جھوٹے وعددوں کے سوا کچھ ہو تو ضرور بتائیے۔جن سے دستخط کروائے گے یعنی وزیر اعظم وہ کرپٹ جو پی پی کا سربراہ وہ کرپٹ ایسے لوگوں کی ضمانت پر کیا ہم مطمئین ہو جائیں ؟
اور یہ جمہوریت کو سبوتاژ کرنے کی بات آپ نے خوب کہی کیا اینڈ آف دی ڈے ہی ایسی باتوں کے سوچ پچار کے لیے ہوتا ہے؟ یہ ساری باتیں اور اس جمہوریت کو جس کو طاہر صاحب نام نہاد جمہویرت قرار دیتے رہے ، اور کرپٹ نظام قرار دیتے رہے۔ اور کہتے رہے کہ وہ حقیقی جمہوریت کے نمائندے ہیں کیا اس جمہوریت کی حفاظت ہی وہ سب کچھ تھا جس کے لیے یہ مارچ کیا گیا ؟ اچھا یہ تو اب ہم سمجھے ۔ اس کے بعد کچھ اور نہیں رہتا میرے خیال میں کہنے کو۔
 

صائمہ نقوی

محفلین
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفار سے معاہدہ صلح حدیبیہ بھی کیا جس میں بظاہر ایسی شرائط شامل تھی جو مسلمانوں کے خلاف تھیں لیکن اللہ کے نبی کو اللہ کی مکمل مدد حاصل تھی اور آپ وحی الہی کے ذریعے جو کچھ دیکھ رہے تھے وہ کوئی اور نہیں دیکھ رہا تھا۔ کیا طاہر صاحب کو یہ خصوصیت حاصل ہے؟ معذرت کے ساتھ ان کی اتنی متضاد باتیں ہوتی ہیں کہ ان کو سچا تسلیم کرنا بھی ایک بڑی مشکل بات ہے۔
2۔ اللہ کے نبی نے ایک معاہدہ تو کیا لیکن کیا کفار قریش کو سینوں سے لگا کر ان کی پیٹھ بھی اس وقت ٹھونکی ، ان کو خراج تحسین پیش کیا یا ان سے خراج تحسین حاصل کیا؟اور ان سے معاہدے کے بعد کیا اپنے بنیادی مطالبات سے دستبردار ہو گئے؟
3۔ کیا نہر سے خیمے ہٹا دینا یزید کو گلے ملانے اور اس سے ہاتھ ملانے لینے کے مترادف ہے؟یزید سے معاہدہ کر لینے کے مترادف ہے؟ کیا حضرت حسین اور ان کے شرکا یزید سے معاہدے کے بعد کربلا سے باحفاظت واپس چلے گئے اورکیا حضرت حسین نے کربلا میں کسی تیر پروف زرہ بکتر کے حصار میں اس وقت لوگوں سے صرف و صرف خطابت کی جب ان کے چاہنے والے کربلا کی گرمی و تپش میں جھلس رہے تھے؟
4۔ طاہر جن کویزیدی کہ رہا تھا ان سے مذکرات کے بعد اپنی بنیادی شرائط سے کیا دستبردار نہیں ہو گئے؟ تین مطالبات اورواضح مطالبات 1۔ الیکشن کمیشن کی از سر نو تنظیم 2۔ قومی صوبائی اسمبلیوں کی فوری تحلیل 3۔ وزیر اعظ و صدر کی براخاستی۔ کیا ان پر عملدراًد ہوگیا؟ کیا کرپٹ نظام کا خاتمہ ہو گیا؟ کیا ٹیکس چوروں اور ظالموں سے نجات مل گئی؟
5۔جو باتیں ماننی گئیں ان کے بارے میں میں کہ چکا ہوں کہ نہ صر ف آئین بلکہ حال میں دیا گیا سپریم کورٹ کا آئنی اصلاحآت کا فیصلہ بھی ایسی اچھی اچھی باتیں کرتا ہے لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو کیا شیورٹی ہے کہ ان بچھے کچھے مطالبات پر بھی عملدرآمد زردی جیسا ایک نمبر کا جھوٹا اور وعدہ خلاف کرے گا؟
6۔ شیخ طاہر صاحب کے پاس ان کی جھولی میں اگر صرف وعدوں اور وہ بھی جھوٹوں اور آئین کی شق 62 62 کی خلاف ورزی کرنے والوں سے حاصٌل کر دہ جھوٹے وعددوں کے سوا کچھ ہو تو ضرور بتائیے۔جن سے دستخط کروائے گے یعنی وزیر اعظم وہ کرپٹ جو پی پی کا سربراہ وہ کرپٹ ایسے لوگوں کی ضمانت پر کیا ہم مطمئین ہو جائیں ؟
دیکھیں میں ایک عام سی سیاست سے نابلد عورت ہوں ۔ پر اتنا ضرور جانتی ہوں کہ ہمارے اسلاف کے جو واقعات ہیں وہ اسی لئے ہیں کہ اگر ہم کہیں کسی معاملہ میں الجھیں تو دیکھیں کہ انہوں نے کیا کیا تھا۔ آپ نے بجا فرمایا کہ آقا علیہ السلام کافروں سے گلے نہیں ملے تھے نا ہی امام حسین یزیدیوں سے گلے ملے پر ہر جگہ کہ حالات اور واقعات اور زمانے الگ الگ ہوتے ہیں ۔ وہ اصل یزید اور کافر تھے یہاں صرف ان سے تشبیہ تھی یعنی جو کام یزید کر رہا تھا اپنی طاقت کے گھمنڈ میں کہ جو ظلم چاہے کرے کسی سے پوچھنا نہیں ہے وہی کام ہمارے حکمران کر رہے تھے اکثر ہم یہ جملہ اپنے بہن بھائیوں میں بچپن میں استعمال کرتے تھے کہ جب کسی سے پانی مانگتے اور وہ نہیں پلاتا تھا تو ہم کہتے تھے کہ تم پانی نہیں پلارہے یزید بن رہے ہو ۔ اسکے علاوہ جس علاقے میں بھی پانی کی قلت ہوتی ہے لوگ کہتے ہیں کہ اس کو کربلا بنادیا ہے۔ اب کل آپ ایسا سن کر ضد پکڑ جائیں کہ اورنگی ٹاؤن کو لوگ کربلا کہ رہے ہیں تو کیوں نہ میں امام حسین کی روضے کی زیارت کر آؤں یہ تو سب بچکانہ باتیں ہیں ۔ اصل بات آپ دیکھیں کہ جس بات کو لے کر قادری صاحب چلے وہ سچ تھیں یا نہیں اور وہ منوائے بغیر وہ اپنی جگہ سےہٹے یا نہیں انہوں نے کہا تھا کہ نہ گملہ ٹوٹے گا نا کوئی شیشہ پانچ روز تک لاکھوں کا مجمع وہاں رہا کوئی بھی ایسا واقعہ نظر آیا؟ انکے چاہنے والوں میں اکثریت پڑھے لکھے اور باتہزیب لوگوں کی تھی یا نہیں یا یہاں بھی کھانے پر ٹوٹنے والے لوگ تھے۔ نواز شریف نے تو لاہور میں یہ بات اڑ وادی تھی کہ دو ہزار روپے دے کر لانگ مارچ میں لے جایا جارہا ہے آپ اس بات پر بحث کیوں نہیں کرتے کہ صرف دوہزار میں لوگ کیا اتنی صعوبتیں برداشت کرسکتے ہیں پانچ روز تک آپ انکی اس بات پر انکے لتے کیوں نہیں لیتے ۔ آخری بات کا جواب دیں کہ کربلا میں بھی اگر یزیدی لشکر حضرت امام حسین کی بات مان لیتا یا صلح کی پیش کش کرتا تو کیا پھر بھی حضرت امام حسین جنگ پر آمادہ رہتے اور اپنا سر کٹواتے اور اپنے ساتھیوں کو شہید کروادیتے؟
 
دیکھیں میں ایک عام سی سیاست سے نابلد عورت ہوں ۔ پر اتنا ضرور جانتی ہوں کہ ہمارے اسلاف کے جو واقعات ہیں وہ اسی لئے ہیں کہ اگر ہم کہیں کسی معاملہ میں الجھیں تو دیکھیں کہ انہوں نے کیا کیا تھا۔ آپ نے بجا فرمایا کہ آقا علیہ السلام کافروں سے گلے نہیں ملے تھے نا ہی امام حسین یزیدیوں سے گلے ملے پر ہر جگہ کہ حالات اور واقعات اور زمانے الگ الگ ہوتے ہیں ۔ وہ اصل یزید اور کافر تھے یہاں صرف ان سے تشبیہ تھی یعنی جو کام یزید کر رہا تھا اپنی طاقت کے گھمنڈ میں کہ جو ظلم چاہے کرے کسی سے پوچھنا نہیں ہے وہی کام ہمارے حکمران کر رہے تھے اکثر ہم یہ جملہ اپنے بہن بھائیوں میں بچپن میں استعمال کرتے تھے کہ جب کسی سے پانی مانگتے اور وہ نہیں پلاتا تھا تو ہم کہتے تھے کہ تم پانی نہیں پلارہے یزید بن رہے ہو ۔ اسکے علاوہ جس علاقے میں بھی پانی کی قلت ہوتی ہے لوگ کہتے ہیں کہ اس کو کربلا بنادیا ہے۔ اب کل آپ ایسا سن کر ضد پکڑ جائیں کہ اورنگی ٹاؤن کو لوگ کربلا کہ رہے ہیں تو کیوں نہ میں امام حسین کی روضے کی زیارت کر آؤں یہ تو سب بچکانہ باتیں ہیں ۔ اصل بات آپ دیکھیں کہ جس بات کو لے کر قادری صاحب چلے وہ سچ تھیں یا نہیں اور وہ منوائے بغیر وہ اپنی جگہ سےہٹے یا نہیں انہوں نے کہا تھا کہ نہ گملہ ٹوٹے گا نا کوئی شیشہ پانچ روز تک لاکھوں کا مجمع وہاں رہا کوئی بھی ایسا واقعہ نظر آیا؟ انکے چاہنے والوں میں اکثریت پڑھے لکھے اور باتہزیب لوگوں کی تھی یا نہیں یا یہاں بھی کھانے پر ٹوٹنے والے لوگ تھے۔ نواز شریف نے تو لاہور میں یہ بات اڑ وادی تھی کہ دو ہزار روپے دے کر لانگ مارچ میں لے جایا جارہا ہے آپ اس بات پر بحث کیوں نہیں کرتے کہ صرف دوہزار میں لوگ کیا اتنی صعوبتیں برداشت کرسکتے ہیں پانچ روز تک آپ انکی اس بات پر انکے لتے کیوں نہیں لیتے ۔ آخری بات کا جواب دیں کہ کربلا میں بھی اگر یزیدی لشکر حضرت امام حسین کی بات مان لیتا یا صلح کی پیش کش کرتا تو کیا پھر بھی حضرت امام حسین جنگ پر آمادہ رہتے اور اپنا سر کٹواتے اور اپنے ساتھیوں کو شہید کروادیتے؟

محترمہ آپ کی باتیں اتنی متضاد ہیں کہ کیا کہنے
1۔ ایک طرف آپ خود ہی نبی کریم کی سیر ت سے اور حضرت حسین کی سیرت سے واقعات کوٹ کر رہی ہیں اور اگلی ہی پوسٹ میں حالات اور واقعات و زمانوں کو مختلف قرار دے کر بچکانہ باتیں کر رہی ہیں ؟ آپ کی کس پوسٹ کو آپ کا ترجمان سمجھوں پہلی پوسٹ یا دوسری؟
2۔ یہ تو آپ کہ رہی ہیں کہ
جب کسی سے پانی مانگتے اور وہ نہیں پلاتا تھا تو ہم کہتے تھے کہ تم پانی نہیں پلارہے یزید بن رہے ہو
ایسے دلائل درحقیقت بچوں کے سامنے پیش کر کہ ہی ان کو طاہر صاحب کی حمایت میں آمادہ کیا جاسکتا ہے بہرکیف قادری صاحب کا نکتہ نظر اتنا معصومانہ ہر گز نہیں تھا۔ لیکن چونکہ آپ یہ تسلیم کرتی ہیں کہ آپ سیاسیت سے نابلد ایک عام سی خاتون ہیں تو پھر اس معاملے میں آپ سے مزید بحث نہیں کرنا چاہتا۔
3۔اوپر میں نے بڑی وضاحت سے لکھا ہے کہ طاہر صاحب اپنے بنیادی مطالبات سے دستبردار ہو گئے تھے یعنی الیکشن کمیشن کی از سر نو تنظیم 2۔ قومی صوبائی اسمبلیوں کی فوری تحلیل 3۔ وزیر اعظ و صدر کی براخاستی۔
لیکن اس کے باوجود آپ کا یہ کہنا

جس بات کو لے کر قادری صاحب چلے وہ سچ تھیں یا نہیں اور وہ منوائے بغیر وہ اپنی جگہ سےہٹے
نیز
کربلا میں بھی اگر یزیدی لشکر حضرت امام حسین کی بات مان لیتا یا صلح کی پیش کش کرتا تو کیا پھر بھی حضرت امام حسین جنگ پر آمادہ رہتے اور اپنا سر کٹواتے اور اپنے ساتھیوں کو شہید کروادیتے؟
معذرت کے ساتھ آپ کی عدم توجہی پر دلالت کرتی ہے
ویسے اگر کربلا میں یزید اگر حضرت حسین کی بات مان لیتا تو اور کچھ ہوتا یا نہیں ہوتا ناجانے کتنے لوگوں کا دال دلیا یقنا بند ہو جاتا۔
 

arifkarim

معطل
طاہرالقادری کی سابقہ زندگی لاتعداد اسکینڈلز کا مجموعہ ہے۔ میرا نہیں خیال عمران خان یہ رِسک لے گا۔ اور ویسے بھی علامہ کی اپنی سیاسی پارٹی جسمیں صرف اسکا اپنا سارا خاندان ہی پارٹی ہیڈ ہے، کیا کبھی عمران خان کی غیر خاندانی سیاست کا مقابلہ کر پائے گی؟ عمران اور علامہ کی سیاست میں زمین آسمان کا فرق ہے!
 

زرقا مفتی

محفلین
کرپٹ حکومت کا فی الفور خاتمہ :حکومت کو سیاسی شہادت کے رتبہ پر فائز کرنا کیا ضروری ہے:)
  • قومی اسمبلی کو (اپنی مقررہ میعاد) 16 مارچ سے قبل کسی بھی وقت تحلیل کر دیا جائے گا، تاکہ اس کے بعد نوے دن کے اندر اندر انتخابات کا انعقاد کروایا جا سکے۔ کاغذات کی جانچ پڑتال اور آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت امیدواروں کی pre-clearance کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا جائے گا تاکہ الیکشن کمیشن امیدواروں کی انتخابات میں حصہ لینے کی اہلیت کا یقین کرسکے۔ کسی بھی امیدوار کو اپنی انتخابی مہم کے آغاز کی اجازت نہیں دی جائے گی جب تک ان کی یہ چھانٹی نہیں ہو جاتی اور الیکشن کمیشن ان کی اہلیت کا فیصلہ نہیں کرتا۔
یہی تو ساری سیاسی جماعتیں کہہ رہی تھیں کہ حکومت کو سیاسی شہید بنانے کی ضرورت نہیں مگر قادری صاحب کی سمجھ سے بالا تر تھا
قادری صاحب نے کیا کارنامہ کیا
پہلے بھی یہی کچھ ہونا تھا
آپ کے مراسلے سے تو میری بات کی تائید ہو رہی ہے کہ قادری صاحب پی پی پی کا ایجنڈا ہی پورا کریں گے اور ان کا مقصد صرف عمران خان کا ووٹ بینک چُرانا تھا
 

زرقا مفتی

محفلین
ذرا دیکھئے ہمسایہ ملک کے لوگ آپ کے قادری صاحب کے بارے میں کیا رائے دے رہے ہیں

In any other country, if a dual-national cleric had turned up out of the blue, demanded the ouster of a democratically elected government mere months before forthcoming General Elections, given an ultimatum to elected parliamentarians, and led a 'long march' to the capital, he would have been dismissed as a delusional joker.

http://indiatoday.intoday.in/story/...anadian-scholar-takes-the-stage/1/242798.html
 
ذرا دیکھئے ہمسایہ ملک کے لوگ آپ کے قادری صاحب کے بارے میں کیا رائے دے رہے ہیں

In any other country, if a dual-national cleric had turned up out of the blue, demanded the ouster of a democratically elected government mere months before forthcoming General Elections, given an ultimatum to elected parliamentarians, and led a 'long march' to the capital, he would have been dismissed as a delusional joker.

http://indiatoday.intoday.in/story/...anadian-scholar-takes-the-stage/1/242798.html

جوکر یعنی مسخرہ
یہ ظلم ہے بھائی
یہاں قادری کے بہت فالورز ہیں۔ کچھ ان کا احترام لازم ہے۔ یہ کونسا اخبار ہے؟
اخبار تو یہ معتبر سا لگ رہا ہے انڈیا کا
ویسے جوکر کے فالورز کو انگلش میں کیا کہے ہیں؟
 

الف نظامی

لائبریرین
جمعہ کی شام اسلام آبادمیں جاری دھرنے کے خوشگوار اختتام نے جہاں ملک بھر کے عوام کی بے چینی اور اضطراب کو دور کر دیا ، وہاںاس غیرمعمولی اہم واقعے نے ہمارے سیاسی اور جمہوری نظام کو بھی کئی نئے سبق دیے ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتیں لانگ مارچ اور دھرنے کے ہفتہ بھر کے تجربے سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں۔پاکستان کے عوام، سیاسی اشرافیہ اور مقتدر قوتوں نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ ان میں کم عمر ہونے کے باوجود پختگی اور شعور موجود ہے، مشرق وسطیٰ میں عرب سپرنگ یا عرب بہار کے برعکس یہاں پرزیادہ سمجھداری اور ہوشمندی کے ساتھ معاملات سلجھائے گئے۔ حالات بظاہر بندگلی میں چلے جانے کی نشاندہی دے رہے تھے ، مگر اچانک ہی فریقین نے ہوشمندی کا مظاہرہ کیا اورخوبصورتی سے اس پورے قضیے کو نمٹا دیا۔ اس ایک ہفتے کے دوران مختلف سیاسی قوتوں، انٹیلی جنشیا، میڈیا اورمقتدر قوتوں نے کیا کیا کردار ادا کیا،اس کے نتیجے میں انہیں کیا ملا…، اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں: علامہ طاہرالقادری کا کردار آغاز تحریک منہاج القرآن کے سربراہ علامہ طاہرالقادری سے کرتے ہیں۔ علامہ صاحب ایک معروف دینی سکالر اور خطیب ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔وہ اپنے بعض بیانات اور ماضی میں چند ایشوز پرموقف بدلتے رہنے کے باعث متنازع رہے ہیں۔ 80ء کی دہائی میں ان کی بشارتوں کے حوالے سے بیان کئے گئے بعض خواب اوراپنے اوپر قاتلانہ حملے کے دعوے کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کے ٹریبونل کی رپورٹ ہمیشہ ان کے خلاف استعمال کی جاتی ہے۔پولیٹیکل سائنس کی اصطلاح میں وہ اچھے خاصے بوجھ(Baggage) کے ساتھ سیاست کی وادی خارزار میں سفر کر رہے تھے۔ چند برس قبل وہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اسمبلی کی رکنیت سے استعفا دے کر کینیڈا چلے گئے تھے، اس وقت کہا گیا کہ وہ اپنا زیادہ وقت علمی وتدریسی مشاغل کو دینا چاہتے ہیں۔ تین چار سال پہلے انہیں وہاں کی نیشنلٹی بھی مل گئی۔اس دوران علامہ صاحب سیاست سے قدرے دور رہے ،مگر ان کے پاکستان میں رابطے مسلسل قائم رہے، منہاج القرآن کا بڑا تعلیمی نیٹ ورک پچھلے چند برسوں میں بہت زیادہ بڑھا، یہ سب علامہ صاحب کی نگرانی میں ہوا۔ اس دوران ان کی تحریر کردہ کئی کتب بھی شائع ہوئیں، جن میں ترجمہ قرآن ’’عرفان القرآن‘‘، احادیث کا مجموعہ اور خودکش حملوں کے خلاف کئی سو صفحوں پر محیط ایک مبسوط فتویٰ قابل ذکر ہے۔ پاکستانی میڈیا لانگ مارچ کے دنوں میںقادری صاحب سے بار بار یہ کہتا رہا کہ آپ اچانک کیسے آ گئے؟ دراصل یہ ہمارے تجزیہ کاروں اور نیوز اینکرز کی روایتی لاعلمی اوربے خبری تھی۔ سیاست کو باریک بینی سے مانیٹر کرنے والے جانتے تھے کہ طاہرالقادری صاحب بتدریج سیاسی اعتبار سے فعال ہو رہے ہیں۔ سال ڈیڑھ پہلے سے لاہور کے بعض موٹر رکشوں کے پیچھے قادری صاحب کا یہ نعرہ نمودار ہوا،چہرے نہیں، نظام بدلو۔ نظام بدلو کے نام سے ایک ویب سائیٹ بھی بنا دی گئی تھی۔اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر قادری صاحب کے حامی اچانک ہی بہت متحرک ہوگئے تھے۔ نظام بدلنے اور قومی سیاست میں جوہری تبدیلیاں لانے کے حوالے سے قادری صاحب کی تقاریر کے ویڈیو کلپس اور تحریریں فیس بک پیجز پر لگائی جانے لگیں۔ رفتہ رفتہ یہ عمل بڑا تیز ہوگیا ۔ اس وقت بھی سوشل میڈیا پر دو تین سب سے متحرک گروپوں میں سے ایک تحریک منہاج القرآن ہے۔ تئیس دسمبر کے جلسے سے چار پانچ ماہ پہلے قادری صاحب نے لاہور کے تھنک ٹینک کونسل آف نیشنل افئیرز کے صحافیوں اور دانشوروں کو منہاج مرکز میں دعوت دی اور ویڈیو کانفرنس کے ذریعے انہیں بریفنگ دی، سوال جواب کا سیشن بھی ہوا۔ اس میں قادری صاحب نے بتایا کہ وہ پاکستان واپس آ رہے ہیں اور ایک بڑا جلسہ کریں گے۔ تاہم اخبار نویسوں نے قادری صاحب کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔پھر تئیس دسمبر کے جلسے کے لئے کمپین شروع ہوگئی، دسمبر کے اوائل میں میڈیا کو احساس ہوا کہ قادری صاحب کے حامی جس محنت سے مہم چلا رہے ہیں، وہ بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ قادری صاحب نے پہلے اپنے جلسے ، لانگ مارچ اور پھر چار پانچ دن کے دھرنے کے بعد اپنا امیج تبدیل کر لیا۔ ایک غیر اہم، مبالغہ آمیز تقاریر کرنے والے خطیب کے بجائے اب انہیں ایک اہم ، عوامی مقبولیت رکھنے والا طاقتور سیاستدان تصور کیا جائے گا۔ آئندہ میڈیا یا کوئی سیاسی جماعت انہیں Easy نہیں لے گی۔ ان کے کسی دعوے یا اعلان کو نظرانداز کرنا اب ممکن نہیں۔ بڑی مہارت اور دانشمندی سے انہوں نے اپنے پتے کھیلے اور اسلام آباد کے قلب میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔انہوں نے اپنے سیاسی حریفوں کو ایک طرح سے آوٹ کلاس کر دیا۔ان کا اعتماد بھی دیدنی تھا، چودھری برادران کے پیچھے ہٹنے اور عین وقت پر ایم کیو ایم کے دغا دے جانے کے باوجود وہ اپنے پروگرام سے پیچھے نہیں ہٹے اور کامیابی حاصل کر لی۔ وہ ایک ایسے سیاستدان کے طور پر ابھرے ہیں، جن کی اب ہمارے سیاسی منظرنامے میں ایک خاص جگہ اور مستقبل ہے۔انہوں نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ وہ لاکھوں افراد کے لئے ایک روحانی رہنما کی حیثیت بھی رکھتے ہیں، ایسا لیڈر جس کے کہنے پر لوگ اپنے معصوم شیر خوار بچے ساتھ لے کر میدان میں کود سکتے ہیں۔ایک زمانے میں پیر پگارا کے حروں کو یہ حیثیت حاصل تھی۔ تحریک منہاج القرآن کا تاثر ایک خالصتاً علمی اور دعوتی تحریک کا تھا، اب اس نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ ان کے پاس انتہائی منظم اور مشکل ترین حالات میں ڈسپلن قائم رکھنے والے کارکن موجود ہیں۔ ایسے کارکن جن پر کسی قسم کے پروپیگنڈہ کا کوئی اثر نہیںاور وہ رہنمائی کے لئے اپنے قائد کی جانب ہی دیکھتے ہیں۔ دھرنے کے سبق قادری صاحب کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خطابت اپنی جگہ ،مگر مطالبے وہی مانے جاتے ہیں جو حقیقت پسندانہ ہوں اور جن کی وسیع پیمانے پر پزیرائی ہوسکے۔انہوں نے اسلام آباد پہنچنے کے بعد شروع میں غیر حقیقی مطالبے کئے، حکومت اور وزرا کو سابق اور پارلیمنٹ کی تحلیل اورالیکشن کمیشن کی فوری تشکیل نو کا کہا۔ یہ مطالبے مانے جانے والے نہیں تھے ، شائد وہ دباو بڑھانے کے لئے ایسا کر رہے تھے ، مگر ان کا زیادہ مثبت اثر نہیں ہوا۔ بعد میں انہوں نے دانشمندی سے اپنے پرانے اور حقیقی نکات پر توجہ دی اور کم وبیش تمام مطالبے منوا لئے۔ اگلے روز اگرچہ میڈیا کے ایک حصے نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ قادری صاحب کے مطالبے نہ مانے گئے ، مگرحقیقت اس کے برعکس تھی۔ علامہ طاہرالقادری کا اصل مطالبہ آئین کے آرٹیکل باسٹھ ، تریسٹھ کے امیدواروں پر اطلاق، سکروٹنی کی مدت میں توسیع اور عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 77تا 82 میں تبدیلی لانا تھا۔ الیکشن کمیشن کے اختیارات میں اضافہ کامطالبہ بھی اس وجہ سے تھا۔ یہ تمام باتیں مانی گئی ہیں، نگران وزیراعظم کے لئے بھی انہیں ایک سٹیک ہولڈر کے طور پر مان لیا گیا ہے۔ اگر اس معاہدے پر عمل درآمد ہوا تو بڑی حد تک بدنام اور کرپٹ امیدواروں کا صفایا ہوجائے گا۔اس لحاظ سے بڑی کامیابی کہی جا سکتی ہے۔تحریک منہاج القرآن کو یقیناً یہ اندازہ ہو گیا ہو گا کہ دھرنے کے آخری روز بارش کے باعث ان کے لئے آپشنز محدود ہوگئی تھیں، اس سے پہلے بعض اپوزیشن جماعتوں نے میاں نواز شریف کی قیادت میں مشترکہ اعلامیہ جا ری کر کے قادری صاحب اور ان کے حامیوں کو سیاسی طور پر تنہا کر دیا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ وہ بند گلی میں چلے گئے ہیں، اگر حکومت دانشمندی سے کام نہ لیتی ، مذاکرات نہ کرتی اور محفوظ راستہ نہ دیتی توصورتحال خاصی مشکل ہو گئی تھی۔ سیاست میں واپسی کے راستے کھلے رکھنے چاہیں، قادری صاحب نے ایسا نہیں کیا، وہ انتہا پر چلے گئے تھے۔ تیونس، مصر اور یمن وغیر ہ میں عرب سپرنگ کی کامیابی کی ایک وجہ ان ممالک کے دارالحکومت کی خاص پوزیشن تھی۔ مصر میں تحریر اسکوائر پر جمع ہونے والے لاکھوں افراد قاہرہ کے رہائشی تھے، اگرچہ دوسرے شہروں سے بھی لوگ آئے ،مگر بنیادی طور پر وہ مظاہرے ان شہروں کے اپنی آبادی نے کئے تھے۔ یہی تیونس اور یمن میں ہوا۔ لیبیا اور شام میں صورتحال مختلف تھی، وہاں دارالحکومت میں اپوزیشن کی گرفت مضبوط نہیں تھی، اس لئے ان مظاہروں کا اس طرح اثر نہ ہوسکا۔ کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کا دھرنا بھی وہاں کے مقامی آبادی کا اجتماع تھا، جن کے لئے گھروں سے ساز وسامان لانا بھی آسان تھا اور لوگ اپنی پوزیشنیں بھی بدل سکتے تھے۔ ایک دو راتوں کے بعد ضرورت پڑنے پر چند گھنٹوں کے لئے اپنے گھروں میں سستایا جا سکتا تھا۔ قادری صاحب کے لانگ مارچ میں ایسی کوئی سہولت موجود نہیں تھی۔ اس کا تمام تر دارومدار شرکا کے عزم وایثار پر تھا۔ اگر چہ قادری صاحب خوش قسمتی سے اس بار کامیاب ہوئے ،مگر شرکا کا اس قدر سخت امتحان لینا رسک ہوتا ہے، اگر ایسی بارش دو دن پہلے ہوجاتی ، تب کیا ہوتا؟اس وقت تک تو دھرنے کا ٹیمپو بھی نہیں بنا تھا۔ حکومتی اتحادکی سیاسی کامیابی پیپلز پارٹی کی حکومت پر بہت سے حوالوں سے سخت تنقید کی جاتی ہے، جو یکسر بے وزن بھی نہیں، ایک بات مگر اس نے یہ ثابت کر دی ہے کہ وہ ایک سیاسی جماعت ہے اور سیاسی انداز سے سوچتی ہے۔ ایک وقت میں وفاقی حکومت سخت مشکلات کا شکار تھی، پنجاب حکومت لانگ مارچ کو پنڈی پہنچا کر سکون سے تماشا دیکھ رہی تھی،تمام تر دبائو مرکز پر تھا۔ اس مشکل وقت میں پیپلز پارٹی نے اپنے اتحادیوں کو ساتھ ملایا اوراعلیٰ سطحی وفد کے ذریعے مذاکرات کئے ،یوں ڈیڈلاک بھی ختم کیا اوراس معاہدے پر عمل درآمد کرا کر وہ الیکشن کے عمل کا شفاف بنانے کا کریڈٹ بھی لے سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے سخت گیر سوچ رکھنے والوں کو سائیڈ پر کیا اور اس کے ثمرات بھی انہیں مل گئے۔ اگر خدانخواستہ تصادم ہوجاتا تو اس کے خوفناک نتائج نکلتے۔ لال مسجد کے سانحے کے اثرات سے ہم ابھی تک نہیں نکل سکے، ملک کسی اور ہولناک واقعہ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔پیپلز پارٹی کا اصل امتحان لانگ مارچ ڈیکلئریشن پر عمل کرانا ہے۔ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ صرف منہاج القرآن ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں انتخابی اصلاحات کی خواہش موجود ہے۔ یہ اچھا موقعہ ہے کہ ہمارے سیاستدان جمہوری نظام کی تطہیر کریں، اس سے جمہوریت دشمن قوتوں کو شدید حوصلہ شکنی ہوگی۔ میڈیا اور تجزیہ کار اب یہ مان لینا چاہیے کہ میڈیا اور ہمارے تجزیہ کاروں نے علامہ طاہرالقادری کو انڈر اسٹیمیٹ کیا۔ وہ علامہ صاحب کے شخصی اثر اور قوت کا اندازہ نہ لگا سکے۔ میڈیا کے بیشتر حصے کو یقین تھا کہ لانگ مارچ ہو ہی نہیں سکے گا۔دھرنے کے دوران بھی کوریج کرتے ہوئے انہیں شرکا ء کے موڈکا اندازہ نہیں ہوسکا۔ کئی اینکر خواتین چیختی رہیں کہ آپ لوگوں کو سردی کیوں نہیں لگ رہی، بچے بیمار ہوجائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ انہیںسمجھنا چاہیے تھا کہ لوگ کسی جذبے اور کمٹمنٹ کے ساتھ ہی یہاں تک آئے ہیں اور یہ یوں واپس نہیں جائیں گے۔ ہمارے اہل دانش اور تجزیہ کاروں نے سب سے اہم غلطی یہ کی کہ انہوں نے طاہرالقادری کی شخصیت کو بے رحمی سے نشانہ بنایا ،مگر ان کے ایجنڈے کو نظر انداز کر گئے۔ انہیں یہ ادراک نہ ہوسکا کہ انتخابی اصلاحات کرنا اور تبدیلی لانے کے ایجنڈے کی عوام میں زبردست کشش موجود ہے۔ قادری صاحب نے اس خلا میں قدم رکھا ،جو ہماری دوسری سیاسی جماعتیں پر کرنے میں ناکام رہیں۔ جیسا کہ شرکا کے انٹرویوز سے ظاہر بھی ہوا کہ ان میں تمام لوگ منہاج القرآن کے نہیں تھے، بہت سے لوگوں نے بتایا کہ وہ عمران خان کے ووٹر ہیں، بعض دوسری جماعتوں کے حامی بھی تھے۔ ایجنڈے پر زیادہ بات ہونا چاہیے تھی، وہ نہ ہوسکی اور تمسخر،پیروڈی،طنز وتشنیع ہمارے میڈیا پر حاوی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمعہ کو دھرنے کی کامیابی کے بعد بہت سے اینکروں اور تجزیہ کاروں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا ردعمل دیں۔ جن باتوں کا وہ مذاق اڑاتے رہے، وہ تقریباً سب مان لی گئیں۔ جہاں تک اسمبلیوں کی تحلیل اور الیکشن کمیشن کی فوری تشکیل کی بات تھی، یہ دبائو بڑھانے کا حربہ تھا، حقیقی مطالبہ نہیں تھا۔میڈیا اور انٹیلی جنشیا کو آنے والے دنوں میں زیادہ محتاط اور باریک بین ہونا پڑے گا۔ الیکشن میں اصلاحات کے عمل پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت پڑے گی۔ مسلم لیگ ن مسلم لیگ ن نے بظاہر بڑی عقل مندی اور ہوشیاری سے چالیں چلیں۔ انہوں نے لانگ مارچ کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی کہ اس کا رخ اسلام آباد کی جانب تھا۔ جب انہوں نے محسوس کیا کہ دھرنے میں خاصے لو گ آگئے ہیں اور یہ اجتماع خطرناک ثابت ہوسکتا ہے تووہ متحرک ہوئے۔ میاں صاحب نے کمال مہارت سے کئی اہم جماعتوں سے رابطے کئے۔ بلوچستان سے اچکزئی صاحب اور حاصل بزنجو کے ساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمن اورجماعت اسلامی کو ساتھ ملا لینا ان کی بڑی کامیابی تھی۔ انہوں نے اپنے مشترکہ اعلامیہ سے علامہ طاہرالقادری کو بالکل تنہا کر دیا۔ یہ جمہوریت کے لئے اچھا شگون تھا کہ ہماری سیاسی جماعتیں ہر قسم کی تبدیلی کے لئے انتخابات کی جانب ہی دیکھنے لگی ہیں۔ میاں صاحب نے دانستہ یا نا دانستہ ایک بڑی غلطی یہ کی کہ انہوں نے قادری صاحب کو محفوظ راستہ نہیں دیا۔اے پی سی کے شرکا میں سے کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اسلام آباد میں کئی روز سے ہزاروں افراد کا دھرنا جاری ہے۔دھرنے کے شرکا اور ان کے لیڈر قادری صاحب اتنا آگے جا چکے ہیں کہ ان کے لئے کچھ حاصل کئے بغیر واپس لوٹنا شرمندگی کے مترادف ہے۔ انہیں محفوظ راستہ دینا (Face saving) دینا ضروری تھا۔ دوسری صورت میں شرکاء فرسٹریٹ ہو کر تصادم کی طرف جا سکتے تھے، ایسا ہو جاتا تو پھر کچھ بھی نہ بچ پاتا۔ جس طرح کا اعلیٰ سطحی وفد حکومت نے مذاکرات کے لئے بھیجا، ویسا کام پہلے نواز شریف صاحب بھی کر سکتے تھے۔ اگر ایسا کرتے تو وہ محاورے کے مطابق میلہ لوٹ لیتے۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا، شائد وہ اپنی مخالف وفاقی حکومت کو ٹف ٹائم دینا چاہتے تھے، مگر اختتام میں اس کا تمام تر نقصان انہیں ہی ہوا۔ ٹی وی چینلز پر ن لیگ کے رہنمائوں کی تلخی دیکھ کر انہیں پہنچنے والے دھچکے کی شدت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ؟ ہمارے اہل دانش اور تجزیہ کاروں کو ہر ایشو میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار دیکھنے کا رویہ بھی بدلنا ہوگا۔ یوں لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا آسیب ان کی دانش کے گرد لپٹ گیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے ویسے بھی دو تین باتیں سمجھنی چاہیں۔ دنیا بھر میں اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ پر و’’ سٹیٹس کو‘‘ ہوتی ہے۔ نظام بدلنے یا تبدیلی لانے کا نعرہ کبھی انہیں راس نہیں ہوتا۔ ایسا نعرہ لگانے والوں کو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قادری صاحب والے معاملے کو زیادہ غور سے دیکھنا چاہیے تھا۔ اگر اس میں اسٹیبلشمنٹ شامل ہوتی تو معروف اسٹیبلشمنٹ نواز جماعتیں اس سے دور نہ رہتیں اور وعدہ کر کے واپس نہ چلی جاتیں۔ جو مارچ یا دھرنا اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر کیا جاتا ہے ، اس کے تیور ہی الگ ہوتے ہیں، اس کے شرکا شروع ہی سے ڈنڈے لے کر چلتے ہیں اور تباہی ان کا مشن ہوتی ہے۔ ایسے جلوسوں میں لوگ خود اپنی خوشی سے اپنی بیویوں، بہنوں اور شیر خوار بچوں کو نہیں لاتے۔ پیسے خواہ جتنے ملیں، اولاد آدمی کو اپنی جان سے بھی زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ اس دھرنے کے پرامن اختتام نے یہ ثابت کر دیا کہ اسٹیبلشمنٹ کی رٹ لگانے والے تجزیہ کاروں نے ٹھوکر کھائی، اصولاً تو انہیں اپنے قارئین اور ناظرین سے معذرت کرنی چاہیے، مگرافسوس کہ ہمارے ہاں ایسی اچھی روایتیں موجود نہیں۔ ویسے اس حوالے سے فورسز کا رویہ مثبت رہا۔ کورکمانڈرز کانفرنس کو بعض حلقوں نے معنی خیز نظروں سے دیکھا ،مگر آئی ایس پی آر نے بروقت وضاحت کر دی۔ ہماری مقتدرہ قوتوں کو یہ یاد رکھناچاہیے کہ سیاست صرف سیاستدانوں کے کھیلنے کا میدان ہے۔ عسکری قوتوںکو اپنے پروفیشنل فرائض ہی انجام دینے چاہیں۔ ایسا کرنا ہی ان کے وقاراور عزت میں اضافہ کرے گا۔ اس دھرنے کا پرامن انجام یہ ثابت کرتا ہے کہ ملک میں جمہوریت پنپ رہی ہے اورہمارا بظاہر کمزور جمہوری سسٹم اس قسم کے بڑے دھچکوں کو برداشت کرنے کی سکت اور قوت رکھتا ہے۔اس سے ہمارے سیاستدانوں اور جمہوری قوتوں نے خاصا کچھ سیکھا ہوگا۔ تحریک انصاف عمران خان اور ان کے بعض حامیوں کو ممکن ہے اب اندازہ ہو رہا ہو کہ انہوں نے ملنے والے ایک بڑے موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ تحریک انصاف میں لانگ مارچ کے حمایت میں ایک مضبوط لابی موجود تھی،ان کے کئی اہم سیاسی لیڈروں کا خیال تھا کہ ہمیں قادری صاحب کے ساتھ شامل ہونا چاہیے، ان کی جماعت کا سیاسی نیٹ ورک موجود نہیں ،ا س لئے سیاسی کامیابی کے تمام تر ثمرات تحریک انصاف کو پہنچیں گے۔ اس لابی کی بات نہیں مانی گئی، عمران خان اور ان کے بعض غیر سیاسی مگر پارٹی کے لئے تھنک ٹینک کا درجہ رکھنے والے لوگوں کی بات مانی گئی۔ تا ہم عمران خان نے لانگ مارچ اور دھرنے پر تنقید بالکل نہیں کی، وہ اسے بڑی احیتاط سے دیکھتے رہے، جائزہ لیتے رہے ،مگر شامل نہیں ہوئے۔ ممکن ہے انہیں خطرہ ہو کہ یہ دھرنا کسی اور جانب جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنی تمام تر توجہ انتخابات کی جانب مبذول کی اور اس حوالے سے دباو بڑھانے کی کوشش کی ،مگر تحریک انصاف کے بہت سے نوجوان کارکنوں کو اب یقیناً مایوسی ہو رہی ہوگی۔پی ٹی آئی نے اس معاملے میں اگرچہ کھویا بھی زیادہ نہیں۔ ان کے لئے انتخابات کے حوالے سے قادری صاحب کے ساتھ ہاتھ ملانے کی آپشن موجود ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف آنے والے دنوں میں کیسے پتے چلتی ہے؟
 
Top