لاہوری برگر بچے، انقلاب اور لڑکی کی لیدر جیکٹ

جنرل ضیاء اُلحق اپنی زندگی میں اپنے بیٹوں کو سیاست میں نہیں لائے تھے ۔ وہ ( اُن دِنوں پنجاب کے وزیراعلیٰ ) میاں نواز شریف کو اپنا بیٹا ہی سمجھتے تھے ۔ اُن کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ ’’ میری دُعا ہے کہ میری عُمر بھی نواز شریف کو لگ جائے!‘‘۔ دُعا قبول ہُوئی اور جنرل ضیاء اُلحق 17 اگست 1988ء کو جاں بحق ہوگئے ۔ اسلام آباد کی فیصل مسجد کے احاطے میں اُن کے دفن کے موقع پر ’’ عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہُوئے سمندر ‘‘ سے خطاب کرتے ہُوئے میاں نواز شریف نے اعلان کِیا تھا کہ ’’ مَیں صدر جنرل ضیاء اُلحق کا مِشن پورا کروں گا ‘‘۔
شہیدؔ بھٹو اور شہید ؔضیاء اُلحق کی باقِیات؟

معمولی حیثیت کے سرمایہ دار کے بھولے بیٹے کی حیثیت سے آگے بڑھ کر بادشاہ کے عہدے پر فائز ہونے کے لیے امیر المومنین سے غیر معمولی تعلقات
 

فرقان احمد

محفلین
فی الوقت طلباء تنظیمیں بنیں گی تو کالجوں اور جامعات کا ماحول مزید خراب ہونے کا امکان ہے۔ ایسا ہونا تو نہیں چاہیے تاہم ایسا شاید ہو کر رہے گا۔ اس لیے خان صاحب کا موقف اس حوالے سے درست ہے۔ مشروط طور پر، طلباء تنظیموں کی بحالی بھی اچھا فیصلہ ہے، تاہم اس پر عمل درآمد ضرور ہونا چاہیے۔ بہتر ہو گا کہ ان طلباء تنظیموں کو غیر سیاسی رکھا جائے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
کیا دنیا کے باقی ممالک میں تعلیمی اداروں میں تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ کسی قسم کی یونین قائم کرنے کی اجازت ہے یا نہیں؟
اور کیا وہاں بھی مختلف یونینز کے مابین کیمپسز پر قبضے کی جنگیں ہوتی ہیں؟

جہاں تک سیاست کی نرسری قائم کرنے کا تعلق ہے جہاں سے نوجوان سیاست میں حصہ لینے کے لیے تیار کیے جا سکیں ، تو اس کے لیے علیحدہ ادارے قائم کرنے یا پہلے سے موجود اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے مثلا (یوتھ پارلیمنٹ آف پاکستان)
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
کیا دنیا کے باقی ممالک میں تعلیمی اداروں میں تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ کسی قسم کی یونین قائم کرنے کی اجازت ہے یا نہیں؟
بالکل ہے

اور کیا وہاں بھی مختلف یونینز کے مابین کیمپسز پر قبضے کی جنگیں ہوتی ہیں؟
بالکل نہیں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اگر ایسا ممکن ہوتا تو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں یونینز کا وجود نہ ہوتا۔ :)

بر سر مزاح ! پاکستان میں تو ایسا ہے 1984 سے ۔ :)

کیا یونین کے بغیر دنیا میں کہیں بھی تعلیمی نظام کامیاب نہیں ہوتا ؟
ایک تبدیلی کا مسلسل عنصر ہر وقت ہر جگہ موجود رہتا ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ تعلیمی بہتری کے امکانات کس طرح وقوع پذیر ہوتے ہیں طلبہ یونین سے متعلقہ تمام ("مثبت") سرگرمیاں تعلیمی نظام کا قانونی حصہ بھی ہوسکتی ہیں لیکن میں نے پہلے بھی کہا کہ تعلیمی نظام کو اتنا ہمہ گیر اور جامع ہونا ناگزیر ہے ۔
 

جان

محفلین
کوئی ایک ملک یا علاقہ بتادیں جہاں سُرخے اپنے اصل نظریات کے ساتھ کامیاب رہے ہوں؟
حضورِ والا! میں نے ایسا کوئی دعوی ہی نہیں کیا، دعوی تو آپ نے کیا ہے!
اس نظام کی مخالفت میں جو نظام لائے گئے وہ اپنے آپ ہی کچھ عرصہ بعد پاش پاش ہو گئے۔
 

جاسم محمد

محفلین
سرخوں کو بھی ایک باری دے کر چیک نا کر لیا جائے۔ ;)
ڈان نیوز کےدفتر کے باہر پاکستان زندہ باد، پاک فوج زندہ باد، آئی ایس آئی زندہ باد کے نعرے۔ اب دیکھتے ہیں سرخیلی لبرل بریگیڈ میں سے کون کون ان احتجاج کرنے والوں کے آزادی اظہار کے حق میں کھڑا ہوتا ہے :)
 

جاسم محمد

محفلین
03 دسمبر ، 2019
430_052000_reporter.jpg
حسن نثار
’’یونین بازی‘‘
209443_7602683_updates.jpg

فوٹو: فائل

مہذب دنیا اس لئے مہذب ہے کہ زیادہ تر تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ہے ورنہ نہ ان کی ٹانگیں تین نہ کھوپڑیوں میں مغز دو نہ پیچھے چار آنکھیں۔صرف تعلیم، تہذیب، تمیز، تربیت کے سبب وہاں بہت سی ایسی مثبت ،خوبصورت، تعمیری ’’باتیں‘‘ہیں جن کا جواب نہیں لیکن ضروری نہیں وہ ہم جیسوں کو بھی راس آئیں کیونکہ ہم ابھی تہذیب کے ابتدائی مراحل میں ہیں مثلاً ہمیں تو آج تک قطار بننے کا شعور نصیب نہیں۔

عرض کرنے کا مطلب یہ کہ جو خوراک ایک ’’صحت مند‘‘ کیلئے فائدہ مند ہے وہ ’’بیمار‘‘ کیلئے زہر بھی ہو سکتی ہے لیکن یہاں تو حال یہ ہے کہ ’’باپ نے نہ ماری کبھی مینڈکی اور بیٹا تیر انداز‘‘جیسے 18سال سے کم عمر والے کا شناختی کارڈ ’’فراڈ‘‘ اور غلط بیانی کے بغیر ممکن نہیں اسی طرح قوموں، قبیلوں، کمیونٹیز کیلئے بھی ’’بلوغت‘‘ ضروری ہے ۔جو بات میچورٹی سے پہلے ’’حرام‘‘ وہی میچور ہونے کے بعد ’’حلال‘‘ ہو جاتی ہے اور یہ فارمولا صرف افراد ہی نہیں اقوام پر بھی اپلائی ہوتا ہے۔

مطلب یہ کہ اچھا برا بعد کی بات، اصل چیز ’’ٹائمنگ‘‘ ہے مثلاً جمہوریت سے لے کر ہیومن رائٹس تک، آزادی نسواں سے لےکر پھانسی اور لیزنگ تک سب بہت عمدہ اور اعلیٰ ہے لیکن قبل از وقت ہو تو یہ سب تباہ کن، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ کون کرے گا اور کس وقت کرے گا بلکہ کس بنیاد پر کرے گا کہ کون سا وقت مناسب ہوگا تو سادہ سا جواب یہ ہے کہ جب کمیونٹی جس شے، کام کیلئے کوالیفائی کرلے گی تیار پائی جائے گی اسے اس کا گرین سگنل مل جائے گا اور اکلوتی کوالی فیکیشن ہے بامعنی تعلیم، مناسب تربیت جس کے بغیر صحیح بھی غلط ہو گا۔

یہ ایک اکیڈیمک اور کامن سینس کی بات ہے جس پر کوئی ری ٹارڈڈ شخص ہی سیخ پا ہو گا البتہ بحث ضرور ہو سکتی ہے ۔مجھ جیسے کو دن کوکوشش کے باوجود آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ جسے سیاہ سفید کا فرق معلوم نہیں جسے تجاوزات کا شعور نہیں، جسے ٹریفک سگنل کی سینس نہیں، جسے اتنا بھی علم نہیں کہ پورا خاندان موٹر سائیکل پر بٹھا کر سڑک پر لہراتے پھرنا خطرناک ہے، جو بارہ چودہ سال کے بچے کو ڈرائیو کرتے دیکھ کر خوش ہوتا ہو کہ برخوردار ماشااللّٰہ ’’جوان‘‘ ہو گیا ہے، جو چنگ چی میں بارہ سواریاں ٹھونس کر ایک لیٹر پٹرول بچانے کیلئے ون وے توڑ کر شارٹ کٹ مارتے ہوئے اپنی اور سواریوں کی زندگی سے سرعام کھلواڑ کر رہا ہو، اچھائی برائی کو بھول کر ذات برادری کی بنیاد پر اپنا ’’نمائندہ‘‘ منتخب کر رہا ہو اس کا اللّٰہ ہی حافظ ہے۔

ایسے میں ایدھی جیسے فرشتہ صفت ہار جاتے ہیں، کوئی ’’چریا‘‘ جیت جاتا ہے ۔ایسے مہم جو قانون ساز قرار پاتے ہیں جن کی پہلی اور آخری مہارت ہی ’’قانون شکنی‘‘ہوتی ہے ۔اب اگر اس منطق کے جواب میں آپ مجھے جمہوریت دشمن قرار دینا چاہیں تو سر آنکھو ں پر حالانکہ گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میرے کہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔یہ سرکس جاری تھی ہے اور رہے گی۔

ہندوستان کی مثالیں دیتے ہیں جس کی 72سالہ نان سٹاپ جمہوریت کا نقد نتیجہ نریندر مودی ہے جس نے اپنے ’’مہان بھارت‘‘ المعروف ’’شائیننگ انڈیا‘‘ کی معیشت ہی نہیں سیکولر چہرہ بھی اس طرح بگاڑ دیا کہ اب اسے بڑے سے بڑا کاسمیٹک سرجن بھی شاید درست نہ کرسکے۔چھکڑا اور گھوڑا دونوں ہی درست، فرق ہے تو صرف اتنا کہ گھوڑا چھکڑے کے آگے ہوگا یا پیچھے۔

مہذب دنیا ہم سے پھانسی کی سزا کے خاتمہ کا مطالبہ کرتی ہے جو صحیح ہے لیکن المیہ یہ کہ ہم ابھی اس فیز میں ہی داخل نہیں ہوئے جہاں اس سزا کی منسوخی نتیجہ خیز ثابت ہوسکے یقین نہ آئے تو جمہوریت کی طرح اسے بھی آزما دیکھیں۔ستیاناس سے سوا ستیاناس ہو جائےگا۔اسی طرح یہ نام نہاد ’’آزادی نسواں‘‘ جو کسی طور ممکن ہی نہیں کہ جن کے باپ، بھائی، بیٹے ،شوہر ’’غلام‘‘.... عملاً غلام ہوں ان کی آزادی اپنی سمجھ سے تو باہر ہے۔

’’ہیومن رائٹس‘‘ کیلئے بھی ’’ہیومن‘‘ ہونا بنیادی شرط ہے اور ہیومن ہونے کیلئے ’’ہیومنز‘‘ سے مشابہت ہی کافی نہیں اس کیلئے بھی تعلیم و تربیت اولین شرط ہے۔پچھلے دنوں ٹرین کا جو حادثہ ہوا اس میں بیسیوں لوگ جل مرے، ٹی وی چینلز پر قیامت کا سماں تھا، اگلے روز اخباروں کے فرنٹ پیجز پر بھی یہی کچھ تھا، ہر حساس آدمی پر سکتہ سا طاری تھا لیکن پھر یہ خبر آئی کہ درجنوں ’’ہیومنز‘‘ پھر گیس سلنڈروں اور چولہوں سمیت ٹرینوں میں گھستے پکڑے گئے ہیں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘اسی طرح لیزنگ کلچر کی مخالفت کوئی پاگل ہی کرے گا لیکن پاکستان میں اس کی ٹائمنگ بالکل غلط تھی شوکت عزیز نامی ایک بینکر وزیر اعظم قبل از وقت یہ واردات اور کارروائی ڈال گیا اور کسی نابغے نے آج تک اس پر غور ہی نہیں کیا کہ اس حرکت نے ہمیں نقصان پہنچایا یا فائدہ دیا لیکن یہاں سوچے سمجھے بغیر سب چلتا ہے.....اگر اسے ’’چلتا‘‘ کہہ سکیں۔

اب چلتے ہیں اصل موضوع کی طرف کہ اسٹوڈنٹس یونینز کو بحال ہونا چاہئے یا نہیں ؟’’جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے‘‘ ہونا تو وہی ہے جو سرکاری سقراطوں نے کرنا ہے لیکن میرے نزدیک یہ حرکت تعلیمی اداروں کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گی کیونکہ میں نے خود پنجاب یونیورسٹی کو اس یونین بازی کے ہاتھوں افقی اور عمودی طور پر تباہ ہوتے دیکھا ہے۔

چند سال پہلے کسی اخبار کے سنڈے میگزین میں ،میں نے لاہور کی مشہور سماجی سیاسی شخصیت رانا نذر الرحمن مرحوم کا قسط وار انٹرویو پڑھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک طلباء تنظیم نے غنڈہ گردی کا مظاہرہ کیا تو میں نے ان کے ایک لیڈر کو فون کرکے اس کی مذمت کی تو اس نے ہنستے ہوئے کہا ’’رانا صاحب !آپ تو یونہی فکرمند ہو رہے ہیں یہ تو’’ ہلکی پھلکی موسیقی تھی‘‘ رانا صاحب کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ بعد کراچی سے خبر آئی کہ الطاف حسین وغیرہ نے کراچی یونیورسٹی میں اسی تنظیم کے ورکرز کا مار مار کر بھرکس نکال دیا تو میں نے فون کرکے اس لیڈر سے کہا ...’’ہاں بھئی اب سنائو تم نے تو ’’ہلکی پھلکی موسیقی ‘‘ کا مظاہرہ کیا تھا لیکن اب جو ’’کلاسیکل راگ‘‘ الطاف حسین نے پیش کیا، اس کے بارے میں کیا خیال ہے ؟‘‘اگر طلبا یونینز کا اتنا ہی شوق ہے تو کرلو پورا تاکہ تعلیمی اداروں کی تباہی میں کوئی کسر اگر رہ گئی ہے تو وہ بھی پوری ہو جائے۔

باٹم لائن یہ کہ اچھا برا کچھ نہیں ’’ ٹائمنگ‘‘ کی بات ہے جبکہ زندگی میں ٹائمنگ کے علاوہ اور ہے ہی کیا؟تازہ ترین خبر یہ ہے کہ پنکچر لگانے والے ایک شخص نے ’’مذاق مذاق‘‘ میں کسی نابینا گداگر کو پیٹ میں ہوا بھر کر موت کے گھاٹ اتار دیا تو یہ بھی جمہوریت کا حسن اور اس کا ہیومن رائیٹ ہے۔
 

عدنان عمر

محفلین
کیا طلبہ یونین بحال ہونی چاہییں؟

محمد عامر خاکوانی
3 دسمبر 2019

دو تین دن پہلے ایک ویب چینل کے لئے انٹرویومیں یہی سوال پوچھا گیا کہ کیا تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین بحال ہونی چاہئیں؟ انٹرویوز میں چند سکینڈز کے اندر جواب دینا پڑتا ہے اور زیادہ تفصیلی بات کرنے کا موقعہ بھی نہیں مل پاتا، اس لئے بات کی ،مگر کچھ تشنہ رہ گئی۔ طلبہ یونین کی بحالی کا مقدمہ ہمارے ہاں خاصے لوگ لڑتے ہیں اور ان کا موقف بے وزن یا کمزور نہیں۔دوسری جانب طلبہ یونین پر پابندی لگانے والے بھی ایک باقاعدہ بیانیہ رکھتے ہیں، اتنی آسانی سے اسے بھی اٹھا کر پھینکا نہیں جا سکتا۔ اب تو اس کے حق میں قانونی دلائل بھی موجود ہیں۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین پر پابندی کے حوالے سے سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ موجود ہے۔ اسی فیصلے کی رو سے ہر طالب علم سے ایک بیان حلفی لیا جاتا ہے کہ وہ دوران تعلیم کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا۔مجھے نہیں معلوم کہ جو لوگ یونین کی بحالی کی بات کرتے ہیں، وہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا کیا حل نکالنا چاہتے ہیں؟ انہیں اس کا علم نہیں یا وہ پرامید ہیں کہ عدالت عظمیٰ کے مقابلتاً زیادہ بڑے بنچ سے کوئی نیا فیصلہ ان کے حق میں آ جائے گا۔ عرض یہ ہے کہ یونین کی بحالی کا مطالبہ کرنے والے قانونی پہلوئوں پر بھی نظر ڈال لیں۔ طلبہ یونین کی بحالی کی بات کرنے والے زیادہ تر وہ ہیں جو ماضی میں طالب علم رہنما رہے۔ انہیں جمعیت ، ایم ایس ایف ،پی ایس ایف ، این ایس ایف وغیرہ کے پلیٹ فارم سے کسی کالج، یونیورسٹی کا الیکشن لڑنے کا موقعہ ملا، عہدے دار رہے اور وہ رومانس ان کی یادوں ، ناسٹلجیا کا حصہ ہے۔

ہمارے سینئر لکھنے والوں، تجزیہ کاروں میں بڑاحصہ ان کا ہے جو ستر کے عشرے کی رائٹ ، لیفٹ نظریاتی کشمکش کا حصہ رہے ، اس سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا، فکر کی تشکیل ہوئی اور وہ اس ماحول ، ان دنوں کو اپنا اثاثہ سمجھتے ہیں۔ایک دلیل یہ لوگ اکثر دہراتے ہیں کہ طلبہ یونین انتخابات پر پابندی سے نوجوانوں کے لئے سیاست سیکھنے کا موقعہ ختم ہوگیا، سیاسی نرسری کا خاتمہ ہوگیا ، وغیرہ وغیرہ۔ انہیں لگتا ہے کہ طلبہ تنظیمیں فعال ہوں گی، یونین انتخابات پھر سے ہونے لگے تو نوجوان سیاستدانوں کی ایک نئی تربیت یافتہ کھیپ میسر ہوگی، سیاسی جماعتوں میں یوں پڑھا لکھا، سیاسی کلچر پیدا ہوجائے گا۔ ان سب سے ہمارا ایک سادہ سا سوال ہے کہ طلبہ تعلیمی اداروں میں پڑھنے جاتے ہیں یا سیاست کے سبق سیکھنے ؟ کتنے والدین ایسے ہیں جو اپنے بچوں کو تعلیم کے بجائے سیاسی نرسری بھیجنا پسند کریں گے؟ویسے تعلیمی اداروں کی بھی اقسام ہیں۔ پروفیشنل تعلیمی اداروں میں تو خیر کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی کا کوئی جواز نہیں۔ایک لڑکا، لڑکی نوے ، بیانوے فی صد نمبر لے کر کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی یا کسی اور میڈیکل کالج جاتا ہے ، اس کا مقصد ایم بی بی ایس کے پانچ سالہ کورس کی تعلیم حاصل کرنا ہے۔

اسے سیاست کیوں سکھائی جائے؟ یہی بات انجینئرنگ یونیورسٹی، زرعی یونیورسٹی اور دیگر ٹیکنیکل تعلیمی اداروں کے لئے صادق آتی ہے۔ سوشل سائنسز کے جو طلبہ سیاست میں دلچسپی رکھیں، ان کے لئے یہ اہتمام سیاسی جماعتوں کو کرنا چاہیے۔نوجوانوں کو سیاست کی تربیت دینا سیاسی جماعتوں کا کام ہے۔ وہ کریں۔ نوجوانوں کے لئے سٹڈی سرکل چلائیں، سیاسی شعور پیدا کریں۔ انہیں الیکشن کمپین چلانے، الیکشن لڑنے کی تربیت دیں۔ گراس روٹ لیول پر جمہوری اداروں جیسے یونین کونسل، تحصیل ، ضلع کونسل وغیرہ کے لئے نوجوانوں کو ٹکٹ دیں، انہیں گروم کریں ۔ بڑے سیاسی لیڈر نوجوانوں کے ساتھ مکالمہ کریں، انہیں لیکچر دیں اور یوتھ ونگ، سٹوڈنٹ ونگ وغیرہ کے ذریعہ ایسی سیاسی نرسریاں قائم کریں، جہاں سے تربیت یافتہ، باشعور، سیاسی سوچ رکھنے والا نوجوان کارکن انہیں میسر ہو۔ اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اس سے طلبہ کی تعلیمی سرگرمیاں بھی متاثر نہیں ہوں گی، کیمپس پر قبضے، ہاسٹلوں کو ہائی جیک کرنے کا گھناونا، بھیانک کھیل بھی شروع نہیں ہوسکے گا، تعلیمی اداروں میں تشدد ہوگا نہ ہی خون خرابہ۔ سیاسی جماعتیں اگر نوجوانوں کی سیاسی تربیت کے لئے ایسے اقدامات کریں تو ان میں اکیڈیمیا ، تھنک ٹینک بھی معاونت کر سکتے ہیں۔ پولیٹیکل سائنس کے لیکچرر انہیں لیکچر دے سکتے ہیں، سوال جواب کے مفید سیشن بھی منعقد کئے جا سکتے ہیں۔

امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے کئی ممالک میں بڑی سیاسی جماعتیں اس نوعیت کی سرگرمیاں کرتی رہتی ہیں، اسی وجہ سے انہیں تربیت یافتہ نوجوان کیڈر ہمیشہ دستیاب رہتا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنی نالائقی، کچھ نہ کرنے کی سزا تعلیمی اداروں اور وہاں پڑھنے والے طلبہ کو کیوں دیں؟جو ان کے حصے کا کام ہے، دل لگا کرکریں۔ یہاں پر ایک نکتہ یہ اٹھایا جا سکتا ہے کہ آخر تعلیمی اداروں میں نصابی تعلیم کے علاوہ غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینا بھی سکھایا جاتا ہے، لیڈرشپ خصوصیات پیدا کرنے، اچھی تقریر کرنے، دوسروں کو قائل کرنے کی صلاحیتیں طلبہ میں یونین سرگرمیوں میں حصہ لے کر پالش کی جا سکتی ہیں۔ بات معقول ہے، مگر اس کا حل موجود ہے۔ تعلیمی اداروں میں مختلف سوسائٹیز موجود ہیں، ان کی سرگرمیوں پر توجہ دی جائے ۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں نے بی ایس سی کی تو ہمارے کالج میں سائنس سوسائٹی کا ایک باقاعدہ الیکشن ہوا۔ جن طلبہ نے اس میں حصہ لیا،انہیں دو تین دن کمپین کے لئے دئیے گئے۔ اپنے انداز سے انہوں نے ہاتھ سے لکھے ہوئے پمفلٹ بانٹے، مختلف وعدے کئے، طلبہ کو قائل کیا اور پھر ووٹنگ کے ذریعے عہدے دار چن لئے گئے۔ ایسا انتخاب آرٹس سوسائٹی بلکہ مختلف اہم مضامین جیسے پولیٹیکل سوسائٹی ، جغرافیہ سوسائٹی، ہسٹری سوسائٹی ، لٹریری سوسائٹی کا ہوسکتا ہے۔

ہم نے تو صرف نام ہی سنا ، مگر گورنمنٹ کالج جیسے پریمئر اداروں میں ڈرامیٹک سوسائٹی، ڈیبیٹ سوسائٹی وغیرہ موجود ہیں اور خاصا فعال کردار ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں بھی یہ ہیں، ان کی سرگرمیاں بھی ہوتی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ تمام تعلیمی اداروں میں ایسی مثبت سرگرمیاں شروع کی جائیں۔ ایک زمانے میں ڈیبیٹ، کوئز مقابلے بڑے مشہور ہوا کرتے تھے، انٹرکالجز، انٹریونیورسٹی مقابلے ہوتے ۔ اب ان کے شعلے ماند ہوچکے ہیں۔ سکولوں میں بزم ادب کا پیریڈ ہوتا تھا، اب خواب خیال بن گیا۔ سرکاری تعلیمی اداروں کے ساتھ نجی تعلیمی اداروں کو بھی اس کا پابند بنانا چاہیے۔ وزارت تعلیم اس کے لئے الگ سے ونگ بنائے اور پھر ان کے انسپکشن سکواڈ کے لوگ مختلف جگہوں پر وزٹس کریں، دیکھیں کہ کہاں کیا کچھ ہور ہا ہے۔ تعلیمی اداروں میں سپورٹس سرگرمیاں بھی مکمل ختم ہوگئی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ احمد پورشرقیہ ایک تحصیل تھی، اس کے گورنمنٹ صادق عباس ہائی سکول میں کرکٹ، ہاکی، فٹ بال، باسکٹ بال ، والی بال، کبڈی وغیرہ کی باقاعدہ ٹیمیں تھیں۔سالانہ انٹرسکول ٹورنامنٹس ہوتے ، ان بڑے کھیلوں کی ٹیمیں باقاعدہ کئی روز نیٹ پریکٹس کرتیں، مقابلے دیکھنے دوسرے سکولوں کے بچے بھی آیا کرتے اور زبردست مسابقت کی فضا ہوتی۔ اب تو سپورٹس ڈے بھی کہیں ہوتا ہے، کہیں نہیں۔کھیلوں کے لئے گرائونڈز ہی نہیں بچے۔

ہر جگہ قبضے ہوگئے۔ سرکاری سکولوں کے پاس گرائونڈز ہوا کرتے تھے، مگر طلبہ کی تعداد اس قدر بڑھ گئی ہے کہ نئے بلاکس تعمیر ہونے سے بیشتر جگہوں پرعمارتیں بن گئیں۔ یہ وہ کام ہیں جو کرنے چاہئیں۔ عمران خان نے حسب عادت بلا سوچے سمجھے یونین بحالی کے حوالے سے ایک ٹوئٹ داغ دیا۔ انہیں کچھ اندازہ نہیں کہ دوسری جگہیں تو چھوڑیں، خود لاہور کے تعلیمی اداروں میں یونینز کیا کرتی تھیں، کیا قیامت ڈھائی جاتی تھی؟ پابندی آخر لگی کیوں؟ یہ تو ایسے ہی ہے کہ کسی روز ہڑبڑا کر کوئی سیاستدان اٹھے اور ٹوئٹ جڑ دے کہ اس سال بسنت پھر سے ہوگی۔ پھر اسے بتایا جائے گا کہ حضور والا آپ کے نیک خیالات اپنی جگہ، مگر پہلے یہ تو معلوم کر لیجئے کہ بسنت پر پابندی کیوں لگی؟ کیا وجوہات تھیں جن کی بنا پر یہ دیرینہ ، تفریحی تہوار ختم ہوا اور کس طرح تمام تر کوششوں کے باوجود اس کے منفی، ہلاکت خیز عناصر دور نہ ہوسکے، مجبوراً پابندی لگانی پڑی اور یہ پابندی عدالت نے لگائی ہے، جسے وہی دور کر سکتی ہے۔ طلبہ یونین کی بحالی والا معاملہ بھی بسنت کی بحالی سے ملتا جلتا ہے۔

بسنت بحال ہونی چاہیے، ضرور ہو۔ غریبوں کا تہوار تھا، لوگ خوشی مناتے، انجوائے کرتے تھے۔بچے بالے پتنگیں اڑاتے ،بسنت نائٹ صرف بڑے ہوٹلوں میں نہیں ہوتی تھی، بلکہ عام گھروں میں بھی پورا خاندان مل کر عوامی انداز میں بسنت نائٹ مناتا۔ اس خوبصورت کلچرل فیسٹول کو یقینا بحال ہونا چاہیے ، مگر یہ نہیں ہوسکتا۔ کیوں؟ اس لئے کہ جن کا یہ تہوار ہے، انہوں نے ہی اس کا بیڑا غرق کیا۔ وہی کیمیکل والی پتنگیں اڑاتے اور گردنیں کاٹتے ہیں۔ اسی وجہ سے پابندی لگی۔ یونین پر پابندی بھی طلبہ تنظیموں ہی کی وجہ سے لگی۔ ان کی حرکتیں ہی ایسی تھیں کہ پابندی لگانا پڑی۔ ان طلبہ تنظیموں کی وجہ ہی سے پابندی تادیر لگی رہے گی۔ یہ وہ بات ہے جو طلبہ یونین کی بحالی کے حامیوں کو سمجھنا چاہیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
میڈیائی سرخوں کی پاکستان کو لال لال کرنے کی خواہش
انصار عباسی
05 دسمبر ، 2019

ایکسٹینشن کے مسئلے پر تو مجھے کہہ دیا گیا ہے کہ میں کچھ نہیں لکھ سکتا۔ گزشتہ روز برطانیہ کی طرف سے پاکستان کو چالیس ارب روپے واپس کرنے کی خبر پر بھی لکھنے کا نہیں سوچ سکتا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ کالم ہی رُک جائے گا۔ اب پھر لکھیں تو لکھیں کیا!!! پہلے سوچا کہ چھوڑو! کالم لکھتا ہی نہیں لیکن پھر خیال آیا کیوں نہ لال لال اور سرخ سرخ والوں کے حق میں چلائی جانے والی میڈیا مہم پر ہی کچھ لکھ دیا جائے تاکہ کم از کم دوسری طرف کی بھی رائے قارئین کے سامنے آجائے۔ لال لال اور سرفروشی کی تمنا کرنے والوں کی ایک وڈیو سوشل میڈیا پہ چلی تو ماضی کے سرخوں کی تو جیسے جان میں جان آ گئی ہو۔ میڈیا میں بیٹھے ماضی کے سرخوں‘ جو ناامیدی میں ڈوبے اس حالت کو پہنچ چکے تھے کہ کبھی نواز شریف اور کبھی مولانا فضل الرحمٰن تک کو سپورٹ کرتے پائے گئے، کو تو جیسے نئی زندگی مل گئی ہو۔ لال لال اور سرفروشی کی تمنا کرنے والوں کو فوری ہیرو کا درجہ دیا اور بڑی چالاکی سے ان لال لال والوں کی پروموشن کرتے ہوئے بات طلبہ یونین کی بحالی کی کرتے رہے۔ نہیں معلوم لال لال اور سرفروشی کی تمنا کرنے والے دس بارہ نوجوان خود کیا چاہتے تھے لیکن میڈیا میں بیٹھے ہمارے ماضی کے سرخے تو جیسے اُنہیں استعمال کر کے اپنی اُس خواہش کو پورا کرنا چاہ رہے ہیں کہ کسی طرح پاکستان اور اس کے اسلامی آئین سے اسلام کے گہرے تعلق اور نظریے کو بدلنے کا ماحول پیدا کیا جا سکے۔ کچھ تو پیچھے بیٹھ کر لال لال کی میڈیا مہم کو کامیاب کرنے کی تدبیریں کرتے رہے اور پروگرام چلواتے رہے تو کچھ سامنے آ کر اس لال لال ’’تحریک‘‘ کا حصہ بن گئے۔ ایک ہمارے دوست تو لال لال کے مظاہرے میں پہنچ گئے اور کہنے لگے کہ دہائیوں پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔ ایک اور دوست جو نجانے ماضی کے سرخے ہیں بھی یا نہیں، نے لال لال کے ماحول سے Impressہوتے ہوئے بلاول بھٹو کو طعنے مارے کہ لال لال کرنے والوں کے حمایت اور اُن کی سپورٹ کے لیے اُن کے مظاہرے میں کیوں شریک نہ ہوئے۔ ہمارے یہ دوست بھول گئے کہ بلاول نے تو مولانا فضل الرحمٰن کے اسلام آباد دھرنے میں تقریر کرتے ہوئے اسلامی پاکستان بنانے کی بات کر دی تھی۔ بلاول کو بھی شاید پتا چل گیا ہے کہ Leftکی سیاست اور لال لال کی باتیں کرکے اس ملک میں سیاسی طور پر کامیابی ممکن نہیں اور یہ بھی کہ اُن کے نانا ذوالفقار علی بھٹو جن کو ہمارے ماضی کے سرخے آئیڈیلائز کرتے رہے، نے تو پاکستان کو نہ صرف اسلامی آئین دیا، اسلامی بم (ایٹم بم) کی بنیاد رکھی بلکہ قادیانیوں کو غیر مسلم بھی قرار دیا اور اسلامی دنیا کو ایک قوت بنانے کو کوشش کی، یہ ہمیشہ تاریخ میں اُن کے بڑے کارناموں کے طور پر لکھے جائیں گے۔ بہرحال ہمارے میڈیائی سرخوں نے مختلف ٹی وی چینلز پر اپنے نئے ہیروز کے انٹرویو ایسے چلانا شروع کر دیے جیسے سارا ملک ہی لال لال ہونے کے لیے بیتاب ہوا بیٹھا ہے۔ لال لال اور سرفروشی کی تمنا کرنے والوں کو اتنی اہمیت دی کہ ملک کے بڑے شہروں میں لال لال والوں نے مظاہرے کر ڈالے۔ان مظاہروں کی تصویریں، جن میں سے ایک میں تین خواتین ایک مرد کے گلے میں پٹّا باندھ کر اُسے جانوروں کی طرح اپنے آگے آگے چلا رہی تھیں، سامنے آئیں تو سوشل میڈیا پہ فوری وائرل ہو گئیں لیکن ٹی وی چینلز میں بیٹھے سرخوں نے ان تصویروں کو اپنے ناظرین تک نہیں پہنچایا کہ کہیں لال لال کی مہم الٹی ہی نہ پڑ جائے۔ ان مظاہروں کا عکس جو سوشل میڈیا پر دیکھا تو ایسے لگا جیسے یہ عورتوں کے آزادی مارچ اور ’میرا جسم میری مرضی‘ والے مظاہروں کا ہی تسلسل ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ یہ طلبہ کو سوال کرنے کا حق دینے کی تحریک ہے۔ سوال جتنے جی میں آئیں، ضرور کریں، طلبہ کو کس نے روکا ہے؟ لیکن اگر کسی کی یہ خواہش ہے کہ طلبہ کو استعمال کرکے آزادیٔ رائے کا وہ معیار یہاں مقرر کریں جو مغرب میں رائج ہے اور جس کی وجہ سے اسلام کو آئے دن نشانہ بنایا جاتا ہے تو ایسا ایک اسلامی ریاست میں نہیں ہو سکتا۔ سوچ تو یہ بھی ہے کہ پاکستان کے آئین میں ترامیم کرکے اس کو اسلام سے جدا کر دیا جائے تاکہ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنایا جا سکے۔ لال لال والے کوشش کر لیں، اس بارے میں عوام سے ووٹ بھی مانگیں لیکن میری میڈیائی سرخوں سے درخواست ہے کہ کم از کم لال لال والوں کے علاوہ دوسری طلبہ تنظیموں اور گروپوں کو بھی برابری کی بنیاد پر کوریج دیں۔ لاہور میں جب لال لال والے اپنا مظاہرہ کر رہے تھے تو اُسے تو میڈیا پہ دکھایا گیا لیکن اسی شہر لاہور میں طلبہ کی طرف سے ناروے میں اسلام دشمن عمل کے خلاف مظاہرہ کیا گیا لیکن اُسے میڈیا میں کوئی کوریج نہیں ملی۔ یہ تو صحافت کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ ایک بات البتہ طے ہے کہ میڈیا میں بیٹھے سرخے جو مرضی کر لیں، پاکستان کو ان شاء اللّٰہ اسلام سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔
 
Top