03 دسمبر ، 2019
حسن نثار
’’یونین بازی‘‘
فوٹو: فائل
مہذب دنیا اس لئے مہذب ہے کہ زیادہ تر تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ہے ورنہ نہ ان کی ٹانگیں تین نہ کھوپڑیوں میں مغز دو نہ پیچھے چار آنکھیں۔صرف تعلیم، تہذیب، تمیز، تربیت کے سبب وہاں بہت سی ایسی مثبت ،خوبصورت، تعمیری ’’باتیں‘‘ہیں جن کا جواب نہیں لیکن ضروری نہیں وہ ہم جیسوں کو بھی راس آئیں کیونکہ ہم ابھی تہذیب کے ابتدائی مراحل میں ہیں مثلاً ہمیں تو آج تک قطار بننے کا شعور نصیب نہیں۔
عرض کرنے کا مطلب یہ کہ جو خوراک ایک ’’صحت مند‘‘ کیلئے فائدہ مند ہے وہ ’’بیمار‘‘ کیلئے زہر بھی ہو سکتی ہے لیکن یہاں تو حال یہ ہے کہ ’’باپ نے نہ ماری کبھی مینڈکی اور بیٹا تیر انداز‘‘جیسے 18سال سے کم عمر والے کا شناختی کارڈ ’’فراڈ‘‘ اور غلط بیانی کے بغیر ممکن نہیں اسی طرح قوموں، قبیلوں، کمیونٹیز کیلئے بھی ’’بلوغت‘‘ ضروری ہے ۔جو بات میچورٹی سے پہلے ’’حرام‘‘ وہی میچور ہونے کے بعد ’’حلال‘‘ ہو جاتی ہے اور یہ فارمولا صرف افراد ہی نہیں اقوام پر بھی اپلائی ہوتا ہے۔
مطلب یہ کہ اچھا برا بعد کی بات، اصل چیز ’’ٹائمنگ‘‘ ہے مثلاً جمہوریت سے لے کر ہیومن رائٹس تک، آزادی نسواں سے لےکر پھانسی اور لیزنگ تک سب بہت عمدہ اور اعلیٰ ہے لیکن قبل از وقت ہو تو یہ سب تباہ کن، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ کون کرے گا اور کس وقت کرے گا بلکہ کس بنیاد پر کرے گا کہ کون سا وقت مناسب ہوگا تو سادہ سا جواب یہ ہے کہ جب کمیونٹی جس شے، کام کیلئے کوالیفائی کرلے گی تیار پائی جائے گی اسے اس کا گرین سگنل مل جائے گا اور اکلوتی کوالی فیکیشن ہے بامعنی تعلیم، مناسب تربیت جس کے بغیر صحیح بھی غلط ہو گا۔
یہ ایک اکیڈیمک اور کامن سینس کی بات ہے جس پر کوئی ری ٹارڈڈ شخص ہی سیخ پا ہو گا البتہ بحث ضرور ہو سکتی ہے ۔مجھ جیسے کو دن کوکوشش کے باوجود آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ جسے سیاہ سفید کا فرق معلوم نہیں جسے تجاوزات کا شعور نہیں، جسے ٹریفک سگنل کی سینس نہیں، جسے اتنا بھی علم نہیں کہ پورا خاندان موٹر سائیکل پر بٹھا کر سڑک پر لہراتے پھرنا خطرناک ہے، جو بارہ چودہ سال کے بچے کو ڈرائیو کرتے دیکھ کر خوش ہوتا ہو کہ برخوردار ماشااللّٰہ ’’جوان‘‘ ہو گیا ہے، جو چنگ چی میں بارہ سواریاں ٹھونس کر ایک لیٹر پٹرول بچانے کیلئے ون وے توڑ کر شارٹ کٹ مارتے ہوئے اپنی اور سواریوں کی زندگی سے سرعام کھلواڑ کر رہا ہو، اچھائی برائی کو بھول کر ذات برادری کی بنیاد پر اپنا ’’نمائندہ‘‘ منتخب کر رہا ہو اس کا اللّٰہ ہی حافظ ہے۔
ایسے میں ایدھی جیسے فرشتہ صفت ہار جاتے ہیں، کوئی ’’چریا‘‘ جیت جاتا ہے ۔ایسے مہم جو قانون ساز قرار پاتے ہیں جن کی پہلی اور آخری مہارت ہی ’’قانون شکنی‘‘ہوتی ہے ۔اب اگر اس منطق کے جواب میں آپ مجھے جمہوریت دشمن قرار دینا چاہیں تو سر آنکھو ں پر حالانکہ گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میرے کہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔یہ سرکس جاری تھی ہے اور رہے گی۔
ہندوستان کی مثالیں دیتے ہیں جس کی 72سالہ نان سٹاپ جمہوریت کا نقد نتیجہ نریندر مودی ہے جس نے اپنے ’’مہان بھارت‘‘ المعروف ’’شائیننگ انڈیا‘‘ کی معیشت ہی نہیں سیکولر چہرہ بھی اس طرح بگاڑ دیا کہ اب اسے بڑے سے بڑا کاسمیٹک سرجن بھی شاید درست نہ کرسکے۔چھکڑا اور گھوڑا دونوں ہی درست، فرق ہے تو صرف اتنا کہ گھوڑا چھکڑے کے آگے ہوگا یا پیچھے۔
مہذب دنیا ہم سے پھانسی کی سزا کے خاتمہ کا مطالبہ کرتی ہے جو صحیح ہے لیکن المیہ یہ کہ ہم ابھی اس فیز میں ہی داخل نہیں ہوئے جہاں اس سزا کی منسوخی نتیجہ خیز ثابت ہوسکے یقین نہ آئے تو جمہوریت کی طرح اسے بھی آزما دیکھیں۔ستیاناس سے سوا ستیاناس ہو جائےگا۔اسی طرح یہ نام نہاد ’’آزادی نسواں‘‘ جو کسی طور ممکن ہی نہیں کہ جن کے باپ، بھائی، بیٹے ،شوہر ’’غلام‘‘.... عملاً غلام ہوں ان کی آزادی اپنی سمجھ سے تو باہر ہے۔
’’ہیومن رائٹس‘‘ کیلئے بھی ’’ہیومن‘‘ ہونا بنیادی شرط ہے اور ہیومن ہونے کیلئے ’’ہیومنز‘‘ سے مشابہت ہی کافی نہیں اس کیلئے بھی تعلیم و تربیت اولین شرط ہے۔پچھلے دنوں ٹرین کا جو حادثہ ہوا اس میں بیسیوں لوگ جل مرے، ٹی وی چینلز پر قیامت کا سماں تھا، اگلے روز اخباروں کے فرنٹ پیجز پر بھی یہی کچھ تھا، ہر حساس آدمی پر سکتہ سا طاری تھا لیکن پھر یہ خبر آئی کہ درجنوں ’’ہیومنز‘‘ پھر گیس سلنڈروں اور چولہوں سمیت ٹرینوں میں گھستے پکڑے گئے ہیں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘اسی طرح لیزنگ کلچر کی مخالفت کوئی پاگل ہی کرے گا لیکن پاکستان میں اس کی ٹائمنگ بالکل غلط تھی شوکت عزیز نامی ایک بینکر وزیر اعظم قبل از وقت یہ واردات اور کارروائی ڈال گیا اور کسی نابغے نے آج تک اس پر غور ہی نہیں کیا کہ اس حرکت نے ہمیں نقصان پہنچایا یا فائدہ دیا لیکن یہاں سوچے سمجھے بغیر سب چلتا ہے.....اگر اسے ’’چلتا‘‘ کہہ سکیں۔
اب چلتے ہیں اصل موضوع کی طرف کہ اسٹوڈنٹس یونینز کو بحال ہونا چاہئے یا نہیں ؟’’جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے‘‘ ہونا تو وہی ہے جو سرکاری سقراطوں نے کرنا ہے لیکن میرے نزدیک یہ حرکت تعلیمی اداروں کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گی کیونکہ میں نے خود پنجاب یونیورسٹی کو اس یونین بازی کے ہاتھوں افقی اور عمودی طور پر تباہ ہوتے دیکھا ہے۔
چند سال پہلے کسی اخبار کے سنڈے میگزین میں ،میں نے لاہور کی مشہور سماجی سیاسی شخصیت رانا نذر الرحمن مرحوم کا قسط وار انٹرویو پڑھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک طلباء تنظیم نے غنڈہ گردی کا مظاہرہ کیا تو میں نے ان کے ایک لیڈر کو فون کرکے اس کی مذمت کی تو اس نے ہنستے ہوئے کہا ’’رانا صاحب !آپ تو یونہی فکرمند ہو رہے ہیں یہ تو’’ ہلکی پھلکی موسیقی تھی‘‘ رانا صاحب کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ بعد کراچی سے خبر آئی کہ الطاف حسین وغیرہ نے کراچی یونیورسٹی میں اسی تنظیم کے ورکرز کا مار مار کر بھرکس نکال دیا تو میں نے فون کرکے اس لیڈر سے کہا ...’’ہاں بھئی اب سنائو تم نے تو ’’ہلکی پھلکی موسیقی ‘‘ کا مظاہرہ کیا تھا لیکن اب جو ’’کلاسیکل راگ‘‘ الطاف حسین نے پیش کیا، اس کے بارے میں کیا خیال ہے ؟‘‘اگر طلبا یونینز کا اتنا ہی شوق ہے تو کرلو پورا تاکہ تعلیمی اداروں کی تباہی میں کوئی کسر اگر رہ گئی ہے تو وہ بھی پوری ہو جائے۔
باٹم لائن یہ کہ اچھا برا کچھ نہیں ’’ ٹائمنگ‘‘ کی بات ہے جبکہ زندگی میں ٹائمنگ کے علاوہ اور ہے ہی کیا؟تازہ ترین خبر یہ ہے کہ پنکچر لگانے والے ایک شخص نے ’’مذاق مذاق‘‘ میں کسی نابینا گداگر کو پیٹ میں ہوا بھر کر موت کے گھاٹ اتار دیا تو یہ بھی جمہوریت کا حسن اور اس کا ہیومن رائیٹ ہے۔