مجاہد خٹک لکھتے ہیں:
وکلا نے جو کچھ آج لاہور کے ہسپتال میں کیا ہے اس موضوع پر 2017 میں ایک تحریر لکھی تھی جو آج پھر یاد آ گئی۔
کسی بھی معاشرے میں اگرجتھے بندی کا رواج عام ہو جائے تو جان لینا چاہئے کہ انصاف کی فراہمی کا نظام تباہ ہو چکا ہے اور عام آدمی کا اس سے یقین اٹھ گیا ہے۔ اب لوگوں کے پاس صرف یہی رستہ باقی بچا ہے کہ وہ گروہ کی صورت میں اپنا تحفظ کریں۔ ایسے معاشرے میں قومی سطح کی عصبیت پروان نہیں چڑھ سکتی کیونکہ لوگ محدود گروہی عصبیتوں کی فصیلوں میں خود کو زیادہ محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
پاکستان میں بھی یہی صورتحال ہے۔ انصاف کی عدم فراہمی کی وجہ سے گروہی عصبیتیں اس وسیع پیمانے پر پھیل چکی ہیں کہ پورا معاشرہ ایک طرح سے متحارب قبائل میں تقسیم نظر آتا ہے۔ ہر قبیلہ جائزوناجائز اور حق و ناحق کی تفریق بھول کر اپنے افراد کا ساتھ دے رہا ہے۔ چونکہ قومی سطح لوگوں کو جوڑنے والی عصبیت ناپید ہے اس لئے عام افراد سے لے کر دانشوروں تک، سب ملک کے وجود پر سوال اٹھاتے رہتے ہیں۔
اگر کوئی وکیل مشکل میں پڑ جائے تو اس کا قبیلہ ہتھیار سونت کر اس کے دفاع میں کھڑا ہو جائے گا۔ اسی طرح ڈاکٹرز کا قبیلہ اپنے افراد کے تحفظ کے لئے ہر رستہ اختیار کرے گا چاہے اس کے نتیجے میں لوگ مرتے رہیں۔ کلرکوں کا جتھہ جب چاہتا ہے قلم چھوڑ ہڑتال کے ذریعے حکومتی نظام کو جام کر دیتا ہے۔ حکمران جماعت اپنے کارکنوں کے لئے ہر قانون توڑ دیتی ہے تاکہ اس کا ووٹر اپنے تحفظ کے لئے اس کے ساتھ جڑا رہے۔ اپوزیشن کا کوئی اہم فرد کرپشن کے الزامات پر گرفتار ہو جائے تو پوری جماعت اسے بچانا اپنی اولین ترجیح بنا لیتی ہے۔ اسی طرح اگر موٹروے پولیس فوجیوں کا چالان کرنا چاہے تو وہ اپنی بٹالین بلا کر چالان کرنے والے افسر پر تشدد شروع کر دیتے ہیں۔
اوپر کی سطح سے لے کر نچلی سطح تک ہر جگہ گروہ بندی کے ذریعے اپنے لوگوں کا تحفظ کرنے کی ریت چل نکلی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسا نظام موجود نہیں ہے جس کے متعلق عام آدمی کو یقین ہو کہ وہ اسے طاقتور کی دستبرد سے بچا سکے گا۔ جس دن ایسا نظام وجود میں آیا، یہ سارے گروہ ہتھیار ڈال کر اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا شروع کر دیں گے۔