لاہور میں وکلاء کا امراض قلب کے اسپتال پر حملہ، آپریشن تھیٹر میں توڑ پھوڑ

فرقان احمد

محفلین
وکلا برادری اپنے اندر موجود ایسے دہشت گردوں کے خلاف جب آواز نہ اٹھائے گی تو ان کی منافقت واضح ہو جاتی ہے کہ سب مفادات کی گیم ہے۔ عوام کا درد کسی کو نہیں۔ بار کونسل اِس واقعہ کی مذمت اِس لیے نہیں کرے گی کیوں کہ اُس نے ووٹ لینے ہیں انہی بدمعاش غنڈہ گرد وکیلوں سے۔
مذمت کیسے نہ کرے گی! اگر مذمت نہ کرے گی تو پھر عوام اُن کی مذمت کرے گی۔ دیکھتے جائیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
وکلا برادری اپنے اندر موجود ایسے دہشت گردوں کے خلاف جب آواز نہ اٹھائے گی تو ان کی منافقت واضح ہو جاتی ہے کہ سب مفادات کی گیم ہے۔ عوام کا درد کسی کو نہیں۔ بار کونسل اِس واقعہ کی مذمت اِس لیے نہیں کرے گی کیوں کہ اُس نے ووٹ لینے ہیں انہی بدمعاش غنڈہ گرد وکیلوں سے۔
کچھ عرصہ بعد جب ان کالی بھیڑوں کی وجہ سے آج کے سانحہ پر کوئی پیش رفت نہ ہو پائے گی تو اپوزیشن، لبرل، لفافے دوبارہ حکومت کی نااہلی کا چورن بیچنا شروع کر دیں گے :)
 

الف نظامی

لائبریرین
یہ واضح حقیقت ہے کہ پاکستان کا جتنا نقصان پڑھے لکھے طبقات نے کیا ہے اتنا ان پڑھوں نے ہرگز نہیں کیا۔ ایسے پڑھنے لکھنے سے ان پڑھ رہنا بہتر ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ واضح حقیقت ہے کہ پاکستان کا جتنا نقصان پڑھے لکھے طبقات نے کیا ہے اتنا ان پڑھوں نے ہرگز نہیں کیا۔ ایسے پڑھنے لکھنے سے ان پڑھ رہنا بہتر ہے۔
طاہر القادری کی ساری باتیں درست ثابت ہوتی جا رہی ہیں۔ آج خود کو انصافین کہتے ہوئے شرم آ رہی ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
مجاہد خٹک لکھتے ہیں:
وکلا نے جو کچھ آج لاہور کے ہسپتال میں کیا ہے اس موضوع پر 2017 میں ایک تحریر لکھی تھی جو آج پھر یاد آ گئی۔
کسی بھی معاشرے میں اگرجتھے بندی کا رواج عام ہو جائے تو جان لینا چاہئے کہ انصاف کی فراہمی کا نظام تباہ ہو چکا ہے اور عام آدمی کا اس سے یقین اٹھ گیا ہے۔ اب لوگوں کے پاس صرف یہی رستہ باقی بچا ہے کہ وہ گروہ کی صورت میں اپنا تحفظ کریں۔ ایسے معاشرے میں قومی سطح کی عصبیت پروان نہیں چڑھ سکتی کیونکہ لوگ محدود گروہی عصبیتوں کی فصیلوں میں خود کو زیادہ محفوظ محسوس کرتے ہیں۔

پاکستان میں بھی یہی صورتحال ہے۔ انصاف کی عدم فراہمی کی وجہ سے گروہی عصبیتیں اس وسیع پیمانے پر پھیل چکی ہیں کہ پورا معاشرہ ایک طرح سے متحارب قبائل میں تقسیم نظر آتا ہے۔ ہر قبیلہ جائزوناجائز اور حق و ناحق کی تفریق بھول کر اپنے افراد کا ساتھ دے رہا ہے۔ چونکہ قومی سطح لوگوں کو جوڑنے والی عصبیت ناپید ہے اس لئے عام افراد سے لے کر دانشوروں تک، سب ملک کے وجود پر سوال اٹھاتے رہتے ہیں۔

اگر کوئی وکیل مشکل میں پڑ جائے تو اس کا قبیلہ ہتھیار سونت کر اس کے دفاع میں کھڑا ہو جائے گا۔ اسی طرح ڈاکٹرز کا قبیلہ اپنے افراد کے تحفظ کے لئے ہر رستہ اختیار کرے گا چاہے اس کے نتیجے میں لوگ مرتے رہیں۔ کلرکوں کا جتھہ جب چاہتا ہے قلم چھوڑ ہڑتال کے ذریعے حکومتی نظام کو جام کر دیتا ہے۔ حکمران جماعت اپنے کارکنوں کے لئے ہر قانون توڑ دیتی ہے تاکہ اس کا ووٹر اپنے تحفظ کے لئے اس کے ساتھ جڑا رہے۔ اپوزیشن کا کوئی اہم فرد کرپشن کے الزامات پر گرفتار ہو جائے تو پوری جماعت اسے بچانا اپنی اولین ترجیح بنا لیتی ہے۔ اسی طرح اگر موٹروے پولیس فوجیوں کا چالان کرنا چاہے تو وہ اپنی بٹالین بلا کر چالان کرنے والے افسر پر تشدد شروع کر دیتے ہیں۔

اوپر کی سطح سے لے کر نچلی سطح تک ہر جگہ گروہ بندی کے ذریعے اپنے لوگوں کا تحفظ کرنے کی ریت چل نکلی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسا نظام موجود نہیں ہے جس کے متعلق عام آدمی کو یقین ہو کہ وہ اسے طاقتور کی دستبرد سے بچا سکے گا۔ جس دن ایسا نظام وجود میں آیا، یہ سارے گروہ ہتھیار ڈال کر اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا شروع کر دیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مذمت کیسے نہ کرے گی! اگر مذمت نہ کرے گی تو پھر عوام اُن کی مذمت کرے گی۔ دیکھتے جائیے۔
وکلا بھی ن لیگی، جج بھی ن لیگی۔ اللہ اللہ خیر سلا!
کدھر ہے نا اہل حکومت؟ کدھر ہے ریاست مدینہ؟ چورن لے لو! آج کا تازہ چورن!
 

الف نظامی

لائبریرین
عامر خاکوانی لکھتے ہیں:
کہاں ہیں وہ بڑے بڑے وکلا جو انسانی حقوق، شائستگی اور قانون کے چیمپئن بنتے ہیں۔
کہاں ہیں حامد خان، علی احمد کرد، رشید رضوی، منیر ملک ، لطیف کھوسہ، خالد رانجھا وغیرہ ؟
اب ان سب کی بولتی کیوں بند ہوگئی ہے؟ ان بدمعاشوں کی کھل کر مذمت کرنے میں کیا امر مانع ہے؟
--
اب وقت آ گیا ہے کہ بدمعاشی کرنے والے ان وکلا کو قانون کے شکنجے میں لایا جائے اور ایسا سبق سکھایا جائے کہ آئندہ کوئی ایسی بے شرمی، بے غیرتی اور درندگی کا مظاہرہ نہیں کر سکے۔ شیم آن یو ، لاہوری وکلا۔ شیم شیم۔ ڈوب مرنا چاہیے ان حملہ آور وکیلوں کو۔
---
اہور میں وکیلوں کی بدمعاشی شرمناک اور نہایت افسوسناک امر ہے۔ وکیل ایک انتہائی بے شرم، گھٹیا مافیا کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ہر شریف اور معقول شخص کو ان کی بدمعاشی اور غنڈہ گردی کی شدید ترین مذمت کرنی چاہیے۔ جس طرح وحشییوں، جنگلی درندوں کی طرح یہ پی آئی سی پر حملہ آور ہوئے ، وہ نظارہ دیکھ کر آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ ان کالے کوٹوں والے مافیا کو اب قابو کرنا ہوگا، ان وکیلوں پر قتل کا مقدمہ درج ہونا چاہیے اور ان درندوں کو سلاخوں کے پیچھے بند کریں۔
فیاض الحسن چوہان سے شدید اختلاف کیا جاسکتا ہے، مگر جس بے ہودگی، بدتمیزی اور وحشت کا سلوک فیاض چوہان کے ساتھ کیا گیا وہ بھی سخت قابل مذمت ہے۔
میرا خیال ہے آج وہ لکیر کھینچ دی گئی ہے ، ہر ایک نے اب بتانا ہے کہ وہ ان لاہور کے کالے کوٹوں اور کالے دلوں والے درندوں کے ساتھ ہے یا مخالف ؟
فیصلہ واضح کرنا چاہیے۔ آپ اس ظلم ، بدمعاشی، بے شرمی، درندگی کی حمایت کرتے ہیں یا پھر اس کے خلاف پوری قوت سے کھڑے ہوتے ہیں؟
ہم نے فیصلہ کر لیا، آپ بھی اپنا فیصلہ سنائیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
سول سوسائٹی اس واقعے کی مذمت کرے گی جس میں سنجیدہ وکلاء بھی شامل ہیں اور اس سانحہ سے یہ قوم بڑے سبق حاصل کرے گی۔ ہمیں یقینِ کامل ہے کہ اب وکلاء گردی کا خاتمہ ضرور بالضرور ہو گا۔ ایک زمانے سے یہ سنتے، دیکھتے، پڑھتے آئے ہیں کہ وکلاء کسی قاعدے قانون کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ان شاء اللہ، اس واقعے کے بعد ان کی اپنی برادری کے افراد غنڈہ گردی کی کھل کر مذمت کریں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
سول سوسائٹی اس واقعے کی مذمت کرے گی جس میں سنجیدہ وکلاء بھی شامل ہیں اور اس سانحہ سے یہ قوم بڑے سبق حاصل کرے گی۔ ہمیں یقینِ کامل ہے کہ اب وکلاء گردی کا خاتمہ ضرور بالضرور ہو گا۔ ایک زمانے سے یہ سنتے، دیکھتے، پڑھتے آئے ہیں کہ وکلاء کسی قاعدے قانون کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ان شاء اللہ، اس واقعے کے بعد ان کی اپنی برادری کے افراد غنڈہ گردی کی کھل کر مذمت کریں گے۔
چلیں دیکھتے ہیں۔ فی الحال تو بار کونسل پنجاب کے صدر نے پورے سانحہ پر مٹی ڈالنے کی پوری کوشش کی ہے۔
اپنے پیٹی بند بھائیوں کے خلاف جانا آسان کام نہیں۔ اب شاید عوامی دباؤ ہی انصاف دلا سکتا ہے۔
 

جان

محفلین
المیہ تو یہی ہے کہ یہاں بعض معزز ارکان وکلاء گردی کی پُرزور الفاظ میں مذمت کرنے کی بجائے سیاست بازی میں مصروف ہیں۔ ان وکلاء کی حمایت میں کوئی ایک لفظ نہیں بول سکتا۔ خدارا، کم از کم حساس معاملات کے حوالے سے پارٹی بازی اور سیاست بازی کو ترک کیجیے اور ظلم کو ظلم کہنا سیکھیے۔ یہ لعن طعن کا رویہ کیا ہمیں زیب دیتا ہے اور وہ بھی بلا تحقیق؟ خوش گمانی رکھی جائے تو اس ملک کا ہر طبقہ، بشمول سنجیدہ وکلاء اور ججز کے، اس طرح کے سانحات کی مذمت ہی کر رہا ہو گا۔ کیا یہ بہتر رویہ نہیں کہ اس سانحے میں ملوث ہر ایک فرد کو قانون کے حوالے کیا جائے اور انہیں نشانِ عبرت بنا دیا جائے۔
وکیلوں کا یہ قدم کسی صورت درست قرار نہیں دیا جا سکتا، یقیناً یہ انتہائی قابلِ مذمت ہے اور ایسے وکیلوں کے خلاف سٹیٹ کو ایکشن لینا چاہیے لیکن معاملہ یہ ہے جب حکومت اور اس کے حامی صبح، دوپہر، شام لوگوں میں تعصب کو ہوا دیں گے اور ان میں آمرانہ جذبات کو اشتعال دیں گے تو اس صورت میں بندہ اپنا گلہ کس کے پاس لے جائے؟ وکلا کا یہ حملہ ہمارے معاشرے کی آمرانہ ذہنیت کا مکروہ چہرہ ہے اور ہمارے معاشرے کی اکثریت ہی ایسا ذہن رکھتی ہے، بات صرف یہ رہ جاتی ہے کہ آپ کے مفادات کو ٹھوکر کب لگتی ہے اور آپ میں اپنا آمرانہ پن دکھانے کی اہلیت کتنی ہے! کیا وہ حضرات جو آج ان پہ تو 'لعنت' بھیج رہے ہیں ماضی میں اپنے مفادات پہ چوٹ لگنے پہ آمریت کا بدترین مظاہرہ نہیں کر چکے؟ مسئلہ واحد شخص یا واحد طبقے کا نہیں ہے بلکہ معاشرے کی اکثریت ہی 'داستانِ ماضی' کی کہانیاں پڑھ پڑھ کر آمریت کے 'ہیروازم' میں گل سڑ چکی ہے!
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
سول سوسائٹی اس واقعے کی مذمت کرے گی جس میں سنجیدہ وکلاء بھی شامل ہیں اور اس سانحہ سے یہ قوم بڑے سبق حاصل کرے گی۔ ہمیں یقینِ کامل ہے کہ اب وکلاء گردی کا خاتمہ ضرور بالضرور ہو گا۔ ایک زمانے سے یہ سنتے، دیکھتے، پڑھتے آئے ہیں کہ وکلاء کسی قاعدے قانون کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ان شاء اللہ، اس واقعے کے بعد ان کی اپنی برادری کے افراد غنڈہ گردی کی کھل کر مذمت کریں گے۔
اب بہت ہوگیا۔ اب عوام کی بات کی جائے۔ ہر گروہ نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے گروہی عصبیت کو ہوا دے رکھی ہے۔ عوام کی بات کریں اب سب طبقے۔ یہ ملک عوام کا ہے۔ عوام کو بھنبھوڑنے والے وکلا کو پٹہ ڈالا جائے۔ حکومت ، فوج اور عدلیہ اب عوام کو تحفظ دے یہ ملک پڑھے لکھے گروہوں کی دہشت گردی سے تنگ آ چکا ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
پنجاب بار کونسل نے پی آئی سی واقعات کا تمام ملبہ ڈاکٹرز پر ڈال دیا، کل صوبہ بھر ميں ہڑتال کا اعلان کردیا گیا۔
پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور پر سیکڑوں وکلاء نے آج (بدھ کو) دھاوا بولا اور ہر طرف تباہی مچادی، اسپتال کے ایمرجنسی، آئی سی یو اور دیگر وارڈز میں توڑ پھوڑ کی، ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کو تشدد کا نشانہ بنایا اور مریضوں سے علاج کی سہولت چھین لی۔
ڈاکٹر حسیب نے دعویٰ کیا ہے کہ علاج کی سہولت نہ ملنے سے 12 مریض جاں بحق ہوگئے جبکہ وکلاء کے تشدد سے 25 سے زائد ڈاکٹرز شدید زخمی بھی ہوئے۔
پنجاب بار کونسل نے پورا دن مسلسل براہ راست نشر کئے جانیوالے پی آئی سی کے مناظر کو جھٹلاتے ہوئے تمام ملبہ ڈاکٹرز پر ڈال دیا، ایک بیان میں پی بی سی کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کا وکلاء پر تشدد قابل مذمت ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
وکیلوں کا یہ قدم کسی صورت درست قرار نہیں دیا جا سکتا، یقیناً یہ انتہائی قابلِ مذمت ہے اور ایسے وکیلوں کے خلاف سٹیٹ کو ایکشن لینا چاہیے لیکن معاملہ یہ ہے جب حکومت اور اس کے حامی صبح، دوپہر، شام لوگوں میں تعصب کو ہوا دیں گے اور ان میں آمرانہ جذبات کو اشتعال دیں گے تو اس صورت میں بندہ اپنا گلہ کس کے پاس لے جائے؟ وکلا کا یہ حملہ ہمارے معاشرے کی آمرانہ ذہنیت کا مکروہ چہرہ ہے اور ہمارے معاشرے کی اکثریت ہی ایسا ذہن رکھتی ہے، بات صرف یہ رہ جاتی ہے کہ آپ کے مفادات کو ٹھوکر کب لگتی ہے اور آپ میں اپنا آمرانہ پن دکھانے کی اہلیت کتنی ہے! کیا وہ حضرات جو آج ان پہ تو 'لعنت' بھیج رہے ہیں ماضی میں اپنے مفادات پہ چوٹ لگنے پہ آمریت کا بدترین مظاہرہ نہیں کر چکے؟ مسئلہ واحد شخص یا واحد طبقے کا نہیں ہے بلکہ معاشرے کی اکثریت ہی 'داستانِ ماضی' کی کہانیاں پڑھ پڑھ کر آمریت کے 'ہیروازم' میں گل سڑ چکی ہے!
بالکل صحیح کہا۔ آپ غنڈہ گرد وکلا کے بیانات سنیں۔ کوئی شرم و حیا ہی نہیں کہ وہ ایک ہسپتال پر حملہ کرنے جا رہیں۔ لگتا ہے ابھی کشمیر فتح کرکے لوٹے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
پنجاب بار کونسل نے پی آئی سی واقعات کا تمام ملبہ ڈاکٹرز پر ڈال دیا، کل صوبہ بھر ميں ہڑتال کا اعلان کردیا گیا۔
پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور پر سیکڑوں وکلاء نے آج (بدھ کو) دھاوا بولا اور ہر طرف تباہی مچادی، اسپتال کے ایمرجنسی، آئی سی یو اور دیگر وارڈز میں توڑ پھوڑ کی، ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کو تشدد کا نشانہ بنایا اور مریضوں سے علاج کی سہولت چھین لی۔
ڈاکٹر حسیب نے دعویٰ کیا ہے کہ علاج کی سہولت نہ ملنے سے 12 مریض جاں بحق ہوگئے جبکہ وکلاء کے تشدد سے 25 سے زائد ڈاکٹرز شدید زخمی بھی ہوئے۔
پنجاب بار کونسل نے پورا دن مسلسل براہ راست نشر کئے جانیوالے پی آئی سی کے مناظر کو جھٹلاتے ہوئے تمام ملبہ ڈاکٹرز پر ڈال دیا، ایک بیان میں پی بی سی کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کا وکلاء پر تشدد قابل مذمت ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن، سانحہ ساہیوال، سانحہ بلدیہ اور آج یہ سانحہ۔ اللہ اس قوم کو ہدایت دے۔ آخر کب تک گول دائروں میں چلتے رہیں گے؟
 

عدنان عمر

محفلین
یہ ملک پڑھے لکھے گروہوں کی دہشت گردی سے تنگ آ چکا ہے۔
بجا فرمایا۔ اس ملک کو ان پڑھوں نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا پڑھے لکھوں نے پہنچایا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ آج کے ڈیجیٹل دور میں انٹرنیٹ اور اسمارٹ فونز کے عام ہونے کی وجہ سے ان پڑھوں کے اندر سے لوک دانش ختم ہوتی اور امپورٹڈ دانش بڑھتی جا رہی ہے۔ اب وہ اتنے بے ضرر نہیں رہے۔
 
Top