لاہور کی باتیں

فرخ منظور

لائبریرین
وہ ایک گیت ہوا کرتا تھا کبھی!

بھاٹی لوہاری بھئی ۔۔۔ کلی سواری بھئی ۔۔۔ میں ہوں البیلا ٹانگے والا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ یا کچھ اس سے ملتا جلتا؟

فرخ منظور صاحب کو یاد ہو گا۔

جی آسی صاحب، فلم یکے والی کا گیت تھا جسے زبیدہ خانم نے گایا تھا۔ بھاٹی لوہاری بھئی کلّی سواری بھئی
افسوس کہ یو ٹیوب نہیں چلتی ۔ بہرحال یو ٹیوب کا لنک دے رہا ہوں جو لوگ سن سکے وہ سن لیں گے۔
 

زرقا مفتی

محفلین
Walledcitylahore.jpg
 

تلمیذ

لائبریرین
جی جناب فرخ منظور صاحب۔ بر سبیلِ تذکرہ دو نام تو آ گئے: ڈاکٹر رشید انور مرحوم اور ڈاکٹر سید اختر حسین اختر مرحوم۔
!
ڈاکٹر رشید انور صاحب مرحوم کا نام پڑھ کر یادوں کا ایک دریچہ کھل گیا ہے۔ وہ ینجابی زبان کا درد رکھنے والوں میں سے تھے۔ جس کا ایک مظہر پنجابی کا ایک معیاری ماہنامہ 'پنجابی زبان' بھی تھا جو انہوں نے ستر کی دہائی کے شروع میں جاری کیاتھا لیکن یہ تھوڑا عرصہ جاری رہ کر بند ہو گیا تھا۔ یہ ہمارا طالبعلمی کا دور تھا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ پیر فضل گجراتی مرحوم کے انتقال کے بعد ان کی یاد میں ہونے والے مشاعرے میں دیگر پنجابی شعرا و ادباٗمثلا راجہ رسالو مرحوم، عارف عبدالمتین مرحوم، انور مسعود، خاقان خاورمرحوم، ہاجرہ مشکور ناصری اور شفقت سلطانہ وغیرہ کے ساتھ گجرات آئے تھے جہاں پر میں نےپہلی مرتبہ ان کو دیکھا تھا۔
ان کی وجہ شہرت پاک بھارت جنگ ۷۱ کے دوران ان کا مشہور ترانہ 'مہاراج ایہہ کھیڈ تلوار دی اے، جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی' ہے۔ یہ ترانہ تاج ملتانی اور ساتھیوں کے انتہائی عمدہ طریقے سے گانے کی وجہ سے بہت مشہور ہواتھا۔ اللہ تعالے مرحومین کی مغفرت کرے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
اگر مرحومین سے شروع کریں گے تو لاتعداد نام سامنے آئیں گے۔ جیسے محسن وقار علی نے ایک کالم شئیر کیا ہے۔ رڈیارڈ کپلنگ کا والد لوک وڈ کپلنگ میو سکول آف آرٹ(اب نیشنل کالج آف آرٹس، لاہور) کا پہلا پرنسپل تھا۔ اسی طرح لاتعداد نام ہیں۔ جو انڈین اور پاکستانی فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے۔ اقبال سے شروع ہو جائیں تو لاتعداد نام بنتے ہیں۔ اس فہرست کو مرتب کرنے کے لیے تو کافی وقت چاہیے۔

جی ہاں، لاہور سے وابستہ مشاہیر ان گرامی تو بے شمار ہیں۔ لیکن احباب کو جس جس کے بارے میں بھی علم ہے، یہاں شئیر کرتے جائیں، بڑھ کر بے حد لطف آئے گا۔
 

باباجی

محفلین
میں نے بھی کسی سے سنا تھا
اور محب علوی بھائی نے بھی کہا تھا کہ لاہور کا پرانا نام یہ نہیں ہے
اب جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ پرانا نام نہیں ہے تو اب ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ پرانا نام بتائیں ورنہ یہ سوال کالعدم قرار دیا جائے
 

زرقا مفتی

محفلین
بہت اعلی فضائی تصویر ہے اور پہلی مرتبہ دیکھنے میں آئی ہے۔ کون سے سال کی ہے اور کس کے فن کا شاہکار ہے؟
میرے پاس ایل ڈی اے کا شائع کردہ ایک کتابچہ ہے
Monograph
The Walled City of Lahore
اس کتابچے کی تصاویر میں یہ تصویر بھی شامل ہے
Title: 19th century model of the walled city showing system of fortifications and many now extinct havelis
Photograph:courtesy Victoria & Albert Museum, London
تاہم یہ تصویر وکی پیڈیا پر موجود ہے اور میں نے وہیں سے لنک لگایا کیونکہ کتابچہ سکین نہیں کر سکتی تھی
 

زرقا مفتی

محفلین
میں نے بھی کسی سے سنا تھا
اور محب علوی بھائی نے بھی کہا تھا کہ لاہور کا پرانا نام یہ نہیں ہے
اب جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ پرانا نام نہیں ہے تو اب ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ پرانا نام بتائیں ورنہ یہ سوال کالعدم قرار دیا جائے
ہم نے یہ سُن رکھا تھا کہ رام چندر گُپت کے بیٹے لہو اور قصویا کسو کے ناموں پر لہور اور قصور شہر بنائے گئے
دیکھیئے ربط
link
 

زرقا مفتی

محفلین
لاہور کے علاقے دھرم پورہ کا نام بدل کر مصطفیٰ آباد رکھا گیا تھا
جس طرح کرشن نگر ، سنت نگر کے نام تبدیل کئے گئے
 

نایاب

لائبریرین
لاہور والوں سے ایک سوال۔۔۔ ۔بتائیے لاہور کا چیلسی کونسے علاقے کو کہتے ہیں؟
محترم بھائی ۔۔۔۔۔۔۔حکیم احمد شجاع مرحوم نے بھاٹی دروازے کے علاقے میں ہونے والی ادبی و ثقافتی سرگرمیوںکو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ٴلاہور کا چیلسیٴ قرار دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نایاب

لائبریرین
لاہور کے بارے میں سب سے پہلے چین کے باشندے سوزو زینگ نے 630عیسوی لکھا ۔
کہتے ہیں کہ رام چندر جی کے بیٹے "لوہو" نے یہ بستی آباد کی تھی۔
قدیم ہندو "پرانوں" میں لاہور کا نام "لوہ پور" یعنی لوہ کا شہر ملتا ہے۔
راجپوت دستاویزات میں اسے "لوہ کوٹ" یعنی لوہ کا قلعہ کے نام سے پکارا گیا ہے۔
نویں صدی عیسوی کے مشہور سیاح "الادریسی" نے اسے "لہاور" کے نام سے موسوم کیا ہے۔
یہ قدیم حوالہ جات اس بات کے غماز ہیں کہ اوا‏ئل تاریخ سے ہی یہ شہر اہمیت کا حامل تھا۔ درحقیقت اس کا دریا کے کنارے پر اور ایک ایسے راستے پر جو صدیوں سے بیرونی حملہ آوروں کی رہگزر رہا ہے، واقع ہونا اس کی اہمیت کا ضامن رہا ہے۔"فتح البلادن" میں درج سنہ 664 عیسوی کے واقعات میں لاہور کا ذکر ملتا ہے جس سے اس کا اہم ہونا ثابت ہوتا ہے۔
" لہور لہور اے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

زرقا مفتی

محفلین
لاہور کے کُتب خانے
کتابوں سے بچپن میں ہی دوستی ہو گئی تھی ۔ اس لئے مجھے انارکلی یا لبرٹی کی بجائے کُتب خانوں کے راستے معلوم تھے۔
گھر بیٹھے جس کُتب خانے سے مستفید ہوتے رہے وہ پنجاب پبلک لائبریری ہے۔میرے نانا ابو اس کے تاعمر رُکن تھے سو ہم بہنوں میں ادبی ذوق پیدا کرنے کے لئے کتابیں پڑھنے کو لا دیتے ۔ کتاب پڑھنے کے بعد ہماری رائے لی جاتی ۔ نانا ابو خاموشی سے رائے سُنتے پھر اپنے خیالات کا اظہار کرتے۔
بعد میں امریکن سنٹر، برٹش کونسل، اور پنجاب پبلک لائبریری کی رُکنیت لی۔
پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری میں بھی ایک بہت بڑا علمی خزانہ ہے
گورنمنٹ کالج لاہور کی لائبریری میں اتنی کتابیں نہیں ہیں۔
بھارت کی ڈیجیٹل لائبریری دیکھ کر بہت جی چاہتا ہے پنجاب پبلک لائبریری کی پُرانی کتابوں کو بھی ای بکس کی شکل میں محفوظ کر لیا جائے مگر حکمرانوں کو کتابوں سے زیادہ سڑکوں میں دلچسپی ہے
لاہور کے دیگر کتب خانے جن سے مستفید ہونے کا موقع نہیں ملا دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری ، قائد اعظم لائبریری
 
بہت خوشی ہوئی جان کر کہ آپ کا تعلق بھی لاہور سے ہے۔

اس دھاگے میں رونق دیکھ کر جی بہت خوش ہوتا ہے۔

میں نے کرائے پر بہت سی چھوٹی چھوٹی لائبریریوں کو شہر بھر میں ڈھونڈا ہے بچپن اور لڑکپن میں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
لاہور کے کُتب خانے
کتابوں سے بچپن میں ہی دوستی ہو گئی تھی ۔ اس لئے مجھے انارکلی یا لبرٹی کی بجائے کُتب خانوں کے راستے معلوم تھے۔
گھر بیٹھے جس کُتب خانے سے مستفید ہوتے رہے وہ پنجاب پبلک لائبریری ہے۔میرے نانا ابو اس کے تاعمر رُکن تھے سو ہم بہنوں میں ادبی ذوق پیدا کرنے کے لئے کتابیں پڑھنے کو لا دیتے ۔ کتاب پڑھنے کے بعد ہماری رائے لی جاتی ۔ نانا ابو خاموشی سے رائے سُنتے پھر اپنے خیالات کا اظہار کرتے۔
بعد میں امریکن سنٹر، برٹش کونسل، اور پنجاب پبلک لائبریری کی رُکنیت لی۔
پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری میں بھی ایک بہت بڑا علمی خزانہ ہے
گورنمنٹ کالج لاہور کی لائبریری میں اتنی کتابیں نہیں ہیں۔
بھارت کی ڈیجیٹل لائبریری دیکھ کر بہت جی چاہتا ہے پنجاب پبلک لائبریری کی پُرانی کتابوں کو بھی ای بکس کی شکل میں محفوظ کر لیا جائے مگر حکمرانوں کو کتابوں سے زیادہ سڑکوں میں دلچسپی ہے
لاہور کے دیگر کتب خانے جن سے مستفید ہونے کا موقع نہیں ملا دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری ، قائد اعظم لائبریری

پنجاب پبلک لائبریری کا میں بھی تا حیات رکن ہوں۔ سکول سے بھاگ کر پنجاب پبلک لائبریری کتابیں پڑھنے جایا کرتا تھا۔ :)
 

تلمیذ

لائبریرین
لاہور کے بارے میں سب سے پہلے چین کے باشندے سوزو زینگ نے 630عیسوی لکھا ۔
کہتے ہیں کہ رام چندر جی کے بیٹے "لوہو" نے یہ بستی آباد کی تھی۔
قدیم ہندو "پرانوں" میں لاہور کا نام "لوہ پور" یعنی لوہ کا شہر ملتا ہے۔
راجپوت دستاویزات میں اسے "لوہ کوٹ" یعنی لوہ کا قلعہ کے نام سے پکارا گیا ہے۔
نویں صدی عیسوی کے مشہور سیاح "الادریسی" نے اسے "لہاور" کے نام سے موسوم کیا ہے۔
یہ قدیم حوالہ جات اس بات کے غماز ہیں کہ اوا‏ئل تاریخ سے ہی یہ شہر اہمیت کا حامل تھا۔ درحقیقت اس کا دریا کے کنارے پر اور ایک ایسے راستے پر جو صدیوں سے بیرونی حملہ آوروں کی رہگزر رہا ہے، واقع ہونا اس کی اہمیت کا ضامن رہا ہے۔"فتح البلادن" میں درج سنہ 664 عیسوی کے واقعات میں لاہور کا ذکر ملتا ہے جس سے اس کا اہم ہونا ثابت ہوتا ہے۔
" لہور لہور اے "۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
آپ کی دی ہوئی معلومات زیادہ صائب معلوم ہوتی ہیں کیونکہ لاہور کی تاریخ کے بارے میں کئی جگہوں پرہم نے بھی کچھ ایساہی پڑھا تھا۔
 
Top