محمد یعقوب آسی
محفلین
وہ شاید لکھنے میں ہو گیا۔ الف اور واو کی جگہ بدل گئی۔لاہور میں لاہوری دروازہ کوئی نہیں ہے۔ یہ لوہاری دروازہ ہے اور میں اسی دروازے کا رہائشی رہ چکا ہوں۔
وہ شاید لکھنے میں ہو گیا۔ الف اور واو کی جگہ بدل گئی۔لاہور میں لاہوری دروازہ کوئی نہیں ہے۔ یہ لوہاری دروازہ ہے اور میں اسی دروازے کا رہائشی رہ چکا ہوں۔
بجا فرمایا آپ نےلاہور کے بارہ دروازے تھے اور تیرھواں موری دروازہ ہے۔ جو اصل میں دروازہ نہیں ہے بلکہ لاہور میں داخل ہونے کے لئے چھوٹا راستہ ہوا کرتا تھا۔
وہ ایک گیت ہوا کرتا تھا کبھی!
بھاٹی لوہاری بھئی ۔۔۔ کلی سواری بھئی ۔۔۔ میں ہوں البیلا ٹانگے والا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ یا کچھ اس سے ملتا جلتا؟
فرخ منظور صاحب کو یاد ہو گا۔
ڈاکٹر رشید انور صاحب مرحوم کا نام پڑھ کر یادوں کا ایک دریچہ کھل گیا ہے۔ وہ ینجابی زبان کا درد رکھنے والوں میں سے تھے۔ جس کا ایک مظہر پنجابی کا ایک معیاری ماہنامہ 'پنجابی زبان' بھی تھا جو انہوں نے ستر کی دہائی کے شروع میں جاری کیاتھا لیکن یہ تھوڑا عرصہ جاری رہ کر بند ہو گیا تھا۔ یہ ہمارا طالبعلمی کا دور تھا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ پیر فضل گجراتی مرحوم کے انتقال کے بعد ان کی یاد میں ہونے والے مشاعرے میں دیگر پنجابی شعرا و ادباٗمثلا راجہ رسالو مرحوم، عارف عبدالمتین مرحوم، انور مسعود، خاقان خاورمرحوم، ہاجرہ مشکور ناصری اور شفقت سلطانہ وغیرہ کے ساتھ گجرات آئے تھے جہاں پر میں نےپہلی مرتبہ ان کو دیکھا تھا۔جی جناب فرخ منظور صاحب۔ بر سبیلِ تذکرہ دو نام تو آ گئے: ڈاکٹر رشید انور مرحوم اور ڈاکٹر سید اختر حسین اختر مرحوم۔
!
اگر مرحومین سے شروع کریں گے تو لاتعداد نام سامنے آئیں گے۔ جیسے محسن وقار علی نے ایک کالم شئیر کیا ہے۔ رڈیارڈ کپلنگ کا والد لوک وڈ کپلنگ میو سکول آف آرٹ(اب نیشنل کالج آف آرٹس، لاہور) کا پہلا پرنسپل تھا۔ اسی طرح لاتعداد نام ہیں۔ جو انڈین اور پاکستانی فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے۔ اقبال سے شروع ہو جائیں تو لاتعداد نام بنتے ہیں۔ اس فہرست کو مرتب کرنے کے لیے تو کافی وقت چاہیے۔
میں نے بھی کسی سے سنا تھایہ کب رکھا گیا تھا
میرے پاس ایل ڈی اے کا شائع کردہ ایک کتابچہ ہےبہت اعلی فضائی تصویر ہے اور پہلی مرتبہ دیکھنے میں آئی ہے۔ کون سے سال کی ہے اور کس کے فن کا شاہکار ہے؟
ہم نے یہ سُن رکھا تھا کہ رام چندر گُپت کے بیٹے لہو اور قصویا کسو کے ناموں پر لہور اور قصور شہر بنائے گئےمیں نے بھی کسی سے سنا تھا
اور محب علوی بھائی نے بھی کہا تھا کہ لاہور کا پرانا نام یہ نہیں ہے
اب جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ پرانا نام نہیں ہے تو اب ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ پرانا نام بتائیں ورنہ یہ سوال کالعدم قرار دیا جائے
محترم بھائی ۔۔۔۔۔۔۔حکیم احمد شجاع مرحوم نے بھاٹی دروازے کے علاقے میں ہونے والی ادبی و ثقافتی سرگرمیوںکو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ٴلاہور کا چیلسیٴ قرار دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لاہور والوں سے ایک سوال۔۔۔ ۔بتائیے لاہور کا چیلسی کونسے علاقے کو کہتے ہیں؟
لاہور کے کُتب خانے
کتابوں سے بچپن میں ہی دوستی ہو گئی تھی ۔ اس لئے مجھے انارکلی یا لبرٹی کی بجائے کُتب خانوں کے راستے معلوم تھے۔
گھر بیٹھے جس کُتب خانے سے مستفید ہوتے رہے وہ پنجاب پبلک لائبریری ہے۔میرے نانا ابو اس کے تاعمر رُکن تھے سو ہم بہنوں میں ادبی ذوق پیدا کرنے کے لئے کتابیں پڑھنے کو لا دیتے ۔ کتاب پڑھنے کے بعد ہماری رائے لی جاتی ۔ نانا ابو خاموشی سے رائے سُنتے پھر اپنے خیالات کا اظہار کرتے۔
بعد میں امریکن سنٹر، برٹش کونسل، اور پنجاب پبلک لائبریری کی رُکنیت لی۔
پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری میں بھی ایک بہت بڑا علمی خزانہ ہے
گورنمنٹ کالج لاہور کی لائبریری میں اتنی کتابیں نہیں ہیں۔
بھارت کی ڈیجیٹل لائبریری دیکھ کر بہت جی چاہتا ہے پنجاب پبلک لائبریری کی پُرانی کتابوں کو بھی ای بکس کی شکل میں محفوظ کر لیا جائے مگر حکمرانوں کو کتابوں سے زیادہ سڑکوں میں دلچسپی ہے
لاہور کے دیگر کتب خانے جن سے مستفید ہونے کا موقع نہیں ملا دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری ، قائد اعظم لائبریری
آپ کی دی ہوئی معلومات زیادہ صائب معلوم ہوتی ہیں کیونکہ لاہور کی تاریخ کے بارے میں کئی جگہوں پرہم نے بھی کچھ ایساہی پڑھا تھا۔لاہور کے بارے میں سب سے پہلے چین کے باشندے سوزو زینگ نے 630عیسوی لکھا ۔
کہتے ہیں کہ رام چندر جی کے بیٹے "لوہو" نے یہ بستی آباد کی تھی۔
قدیم ہندو "پرانوں" میں لاہور کا نام "لوہ پور" یعنی لوہ کا شہر ملتا ہے۔
راجپوت دستاویزات میں اسے "لوہ کوٹ" یعنی لوہ کا قلعہ کے نام سے پکارا گیا ہے۔
نویں صدی عیسوی کے مشہور سیاح "الادریسی" نے اسے "لہاور" کے نام سے موسوم کیا ہے۔
یہ قدیم حوالہ جات اس بات کے غماز ہیں کہ اوائل تاریخ سے ہی یہ شہر اہمیت کا حامل تھا۔ درحقیقت اس کا دریا کے کنارے پر اور ایک ایسے راستے پر جو صدیوں سے بیرونی حملہ آوروں کی رہگزر رہا ہے، واقع ہونا اس کی اہمیت کا ضامن رہا ہے۔"فتح البلادن" میں درج سنہ 664 عیسوی کے واقعات میں لاہور کا ذکر ملتا ہے جس سے اس کا اہم ہونا ثابت ہوتا ہے۔
" لہور لہور اے "۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔