لاہور کے چرچ میں 'عید میلاد' کا جشن، نماز بھی ادا کی گئی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
وَ مَا لَہُمۡ اَلَّا یُعَذِّبَہُمُ اللّٰہُ وَ ہُمۡ یَصُدُّوۡنَ عَنِ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ وَ مَا کَانُوۡۤا اَوۡلِیَآءَہٗ ؕ اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۳۴﴾


اور آخر اُن میں کیا بات ہے جو اللہ انہیں عذاب نہ دے جبکہ وہ حرمت والی مسجد سے لوگوں کو روکتے ہیں حالانکہ وہ اس کے (حقیقی) والی نہیں۔ اس کے (حقیقی) والی تو متقیوں کے سوا اور کوئی نہیں لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔

جالندھری]‏ اور (اب) انکے لئے کونسی وجہ ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ دے جبکہ وہ مسجد محترم (میں نماز پڑھنے) سے روکتے ہیں؟ اور وہ اس مسجد کے متولی بھی نہیں۔ اس کے متولی صرف پرہیزگار ہیں۔ لیکن ان کے اکثر لوگ نہیں جانتے۔ ‏
[محمودالحسن‏] اور ان میں کیا بات ہے کہ عذاب نہ کرے ان پر اللہ اور وہ تو روکتے ہیں مسجد حرام سے اور وہ اس کے اختیار والے نہیں اس کے اختیار والے تو وہی ہیں جو پرہیزگار ہیں لیکن ان میں اکثروں کو اس کی خبر نہیں ف ٧‏
[جوناگڑھی]‏ اور ان میں کیا بات ہے کہ ان کو اللہ تعالٰی سزا نہ دے حالانکہ وہ لوگ مسجد حرام سے روکتے ہیں، جب کہ وہ لوگ اس مسجد کے متولی نہیں۔ اس کے متولی تو سوا متقیوں کے اور اشخاص نہیں، لیکن ان میں اکثر لوگ علم نہیں رکھتے۔‏
تفسیر ابن كثیر
ارشاد ہے کہ فی الواقع یہ کفار عذابوں کے لائق ہیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی سے عذاب رکے ہوئے ہیں چنانچہ آپ کی ہجرت کے بعد ان پر عذاب الٰہی آیا ۔ بدر کے دن ان کے تمام سردار مار ڈالے گئے یا قید کر دیئے گئے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ ٰ نے انہیں استغفار کی ہدایت کی کہ اپنے شرک و فساد سے ہٹ جائیں اور اللہ سے معاف طلب کریں ۔ کہتے ہیں کہ وہ لوگ معافی نہیں مانگتے تھے ورنہ عذاب نہ ہوتا ۔ ہاں ان میں جو کمزر مسلمان رہ گئے تھے اور ہجرت پر قادر نہ تھے وہ استغفار میں لگے رہتے تھے اور ان کی ان میں موجودگی اللہ کے عذابوں کے رکنے کا ذریعہ تھی چنانچہ حدیبیہ کے واقعہ کا ذکر کرت یہوئے ارشاد الٰہی ہے ھم الذین کفروا الخ، یعنی یہ مکے والے ہی تو وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تمہیں مسجد حرام سے روکا اور قربانی کے جانوروں کو بھی نہ آنے دیا کہ وہ جہاں تھے وہیں رکے کھڑے رہے اور اپنے حلالا ہونے کی جگہ نہ پہنچ سکے ۔ اگر شہر مکہ میں کچھ مسلمان مرد اور کچھ مسلمان عورتیں ایسی نہ ہوتیں کہ تم ان کے حال سے واقف نہیں تھے، اور عین ممکن تھا کہ لڑائی کی صورت میں تم انہیں بھی پامال کر ڈالتے اور نادانستہ ان کی طرف سے تمہیں نقصان پہنچ جاتا تو بیشک تمہیں اسی وقت لڑائی کی اجازت مل جاتی ۔ اس وقت کی صلح اس لئے ہے کہ اللہ جسے جاہے اپنی رحمت میں لے لے ۔ اگر مکے میں رکے ہوئے مسلمان وہاں سے کہیں تل جاتے تو یقینا ان کافروں کو درد ناک مار مری جاتی ۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی اہل مکہ کے لئے باعث امن رہی پھر حضور کی ہجرت کے بعد جو ضعیف مسلمان وہاں رہ گئے تھے اور استغفار کرتے رہے تھے ، ان کی موجودگی کی وجہ سے عذاب نہ آیا جب وہ بھی مکے سے نکل گئے تب یہ آیت اتری کہ اب کوئی مانع باقی نہ رہا پس مسلمانوں کو مکے پر چڑھائی کرنے کی اجازت مل گئی اور یہ مفتوح ہوئے ۔ ہاں ایک قول یہ بھی ہے کہ اگر مراد ان کا خود کا استغفار ہو تو اس آیت نے پہلی آیت کو منسوخ کر دیا ۔ چنانچہ حسن بصری وغیرہ کا یہ قول بھی ہے کہ اہل مکہ سے جنگ بھی ہوئی ، انہیں ضرور بھی پہنچے ، ان پر قحط سالیاں بھی آئیں پس ان مشرکوں کا اس آیت میں استثنا کر لیا گیا ہے ۔ انہیں اللہ کے عذاب کیوں نہ ہوں؟ یہ مومن لوگوں کو کعبتہ اللہ میں نماز پڑھنے سے روکتے ہیں جو مومن بوجہ اپنی کمزوری کے اب تک مکہ میں ہی ہیں اور ان کے سوار اور مومنوں کو بھی طواف و نماز سے روکتے ہیں حالانکہ اصل اہلیت ان ہی میں ہے ۔ ان مشرکوں میں اس کی اہلیت نہیں جیسے فرمان ہے ما کان للمشرکین ان یعمروا مسجد اللہ الخ، مشرکین اللہ کے گھروں کی آبادی کے اہل نہیں وہ تو کفر میں مبتلا ہیں ان کے اعمال اکارت ہیں اور وہ ہمیشہ کے جہنمی ہیں ۔ مسجدوں کی آبادی کے اہل اللہ پر ، قیامت پر ایمان رکھنے والے ، نمازی ، زکوۃ ادا کرنے والے ، صرف خوف الٰہی رکھنے والے ہی ہیں اور وہی راہ یافتہ لوگ ہیں اور آیت میں ہے کہ راہ رب سے روکنا ، اللہ کے ساتھ کفر کرنا، مسجد حرام کی بےحرمتی کرنا اور اس کے لائق لوگوں کو اس سے نکالنا اللہ تعالٰی کے نزدیک بہت بڑا جرم ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ آپ کے دوست کون ہیں؟ آپ نے فرمایا ہر ایک پرہیزگار اللہ سے ڈرنے والا پھر آپ نے پڑھا ان اولیاء الا المتقون مستدرک حاکم میں ہے کہ حضور نے قریشیوں کو جمع کیا پھر پوچھا کہ تم میں اس وقت کوئی اور تو نہیں؟ انہوں نے کہا بہنوں کی اولاد اور حلیف اور مولیٰ ہیں ۔ فرمایا یہ تینوں تو تم میں سے ہی ہیں ۔ سنو تم میں سے میرے دوست وہی ہیں جو تقوے اور پرہیز گاری والے ہوں پس اللہ کے اولیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم اور کل مجاہد خواہ وہ کوئی ہو اور کہیں کے ہوں ۔ پھر ان کی ایک اور شرارت اور بےڈھنگا پن بیان فرماتا ہے ۔ کعبے میں آ کر کیا کرتے ہیں؟ یا تو جانروں کی سی سیٹیاں بجاتے ہیں، منہ میں انگلیاں رکھین اور سیتیاں شروع کریں یا تالیاں پیٹنے لگے ۔ طواف کرتے ہیں تو ننے ہو کر ، رخسار جھکا کر ، سیٹی بجائی ، تالی بجائی، چلئے نماز ہو گئی ۔ کبھی رخسار زمین پر لٹکا لیا ۔ بائیں طرف سے طواف کیا ۔ یہ بھی مقصود تھا کہ حضور کی نماز بگاڑیں ، مومنوں کا مذاق اڑائیں ، لوگوں کو راہ رب سے روکیں ۔ اب اپنے کفر کا بھر پور پھل چکھو ، بدر کے دن قید ہو کے قتل ہوئے، تولار چلی ، چیخ اور زلزلے آئے ۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
اہل علم جانتے ہیں کہ دینی معاملات میں حکم دیکھا جاتا ہے اور دنیاوی معاملات میں منع کی دلیل پوچھی جاتی ہے۔
معذرت چاہوں گا بھائی آپکا اوپر بیان کردہ اصول مجھے تو خود ساختہ اور من گھڑت معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ دینی اور دنیاوی کی تقسیم تو خود کلیسا اور پاپائیت کی رہین منت ہے جبکہ دین اسلام میں " دین اور دنیا " کی کوئی الگ الگ تقسیم نہیں ہے اسلام ایک مکمل اور جامع ضابطہ حیات ہے اور ایک عالمگیر دین ہے کہ جس کے اصولوں میں ایسی وسعت اور جامعیت ہے کہ ہر دور کے لیے کافی و وافی و شافی ہے ۔ رہ گئی آپکی یہ بات کہ دینی معاملات کے لیے حکم دیکھا جاتا ہے جبکہ دنیاوی کے لیے منع کی دلیل تو اولا عرض ہے کہ فقہی اور اصول کی زبان میں خود " منع" یعنی نہی کو بھی حکم ہی کا درجہ حاصل ہے لہذا " منع " کے مقابلے میں لفظ "حکم " نہیں بلکہ لفظ " امر" بولا جاتا ہے اور یہ دونوں یعنی " امر و نہی " احکام ہی کی قسمیں ہیں اور دوسرے یہ کہ اسلام میں اصلا اصول یہ ہے کہ جس کام کا اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں وہ کرنا مختلف مدارج میں بجا لانا ضروری اور جس کام سے روکیں یعنی منع کریں اس سے باز رہنا بھی مختلف مدراج میں لازم ہوتا ہے اسی لیے قرآن پاک میں فرمایا کہ۔۔ (وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا) کہ جو تہمیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم دیں وہ لے لیں اور جس کام سے روکیں اس سے باز رہو۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ۔۔۔عن سلمان قال قيل له قد علمكم نبيكم صلى الله عليه وسلم كل شيء حتى الخراءة قال فقال أجل لقد ۔ ۔۔ صیح مسلم کتاب طہارۃ باب الاستطابة ۔۔
مفھوم:
۔ ۔۔ مشرکین نے ان سے کہا کہ تمہارے نبی تم کو ہرچیز کا بیان کرتے ہیں حتٰی کے قضائے حاجت کا طریقہ بھی بتلاتے ہیں ؟؟ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ نے فرمایا کہ ہاں ۔۔۔۔۔ خلاصہ کلام یہ کہ دین اسلام میں پاپائیت و دین کلیسا کی طرح دین و دنیا کی کوئی الگ الگ تقسیم ہرگز نہیں بلکہ یہ وہ دین ہے کے جس میں انسان کی پیدائش سے لیکر وفات تک کے ہر ہر لمحہ کے احکامات موجود ہیں لہذا ایک مسلمان کے لیے کسی کام کے کرنے کے لیے بھی اسی درجہ کی حلت کی دلیل درکار ہوگئی کہ جس درجے میں وہ کسی امر کو انجام دینا چاہتا ہے اور اسی طرح کسی کام سے روکنے کے لیے بھی اسی درجہ کی حرمت یعنی منع کی دلیل درکار ہوگی کہ جس درجہ میں اس کام کو روکنا مقصود ہو۔۔۔۔فقط والسلام
 

شاکرالقادری

لائبریرین
کیا گرجا یا کلیسا میں پہلی مرتبہ نماز پڑھی گئی ؟؟؟؟؟؟؟
ایک دو اقتباس پیش کرتا ہوں ۔۔ جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خلیفہ رسول حضرت عمر نے کلیسا میں نماز پڑھی ۔۔ اور اگر کہیں انہوں نے کلیسا کے متولی کی خواہش کے باوجو نماز نہ پڑھی تو صرف اس وجہ سے کہ ان کے اس عمل کو بنیاد بنا کر مسلمان آئندہ مستقلا کلیسا کو مسجد میں تبدیل نہ کردیں اور جب ۔۔ متولی کی شدت خواہش کو پایا تو پڑھ لی لیکن ۔۔ عہد لکھ کر دیا ۔۔ تاکہ مسلمان اس کے پابند رہیں
اس سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ خلیفہ رسول کلیسا میں نماز پڑھ لینے کو نا جائز نہ جانتے تھے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بیت المقدس کی فتح کے موقع پر جب سیدنا عمر وہاں تشریف لے گئے تو مسیحی بطریق صفرنیوس نے انھیں مقدس مذہبی مقامات کی زیارت کرائی۔ اس دوران میں جب وہ کلیساے قمامہ میں گئے تو نماز کا وقت آ گیا۔ بطریق نے سیدنا عمر سے گزارش کی کہ وہ وہیں نماز ادا کر لیں ، لیکن سیدنا عمر نے فرمایا کہ اگر آج انھوں نے یہاں نماز ادا کی تو بعد میں مسلمان بھی ان کے اس عمل کی پیروی میں یہاں نماز ادا کریں گے اور اس سے مسیحیوں کے لیے مشکلات پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔

اسی طرح جب کلیساے قسطنطین کے دروازے پر مسیحی میزبانوں نے سیدنا عمر کے نماز پڑھنے کے لیے بساط بچھائی تو آپ نے پھر معذرت فرما دی۔

بیت لحم میں کلیساے مہد (Church ofNativity)کی زیارت کے موقع پر نماز کا وقت آیا تو سیدنا عمر نے وہاں نماز ادا کر لی ، لیکن پھر اندیشہ ہوا کہ ان کا یہ عمل بعد میں مسیحیوں کے لیے دقت کا باعث نہ بن جائے ۔ چنانچہ ایک خاص عہد لکھ کر بطریق کو دے دیا جس کی رو سے یہ کلیسا مسیحیوں کے لیے مخصوص کر دیا گیا اور پابندی لگا دی گئی کہ ایک وقت میں صرف ایک مسلمان اس میں داخل ہو سکے گا، اس سے زیادہ نہیں۔(۵)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۵۔ محمد حسین ہیکل، الفاروق عمر ١/٢٣٩۔

منبع:۔ ملاحطہ ہو
 

عمار عامر

محفلین
معذرت چاہوں گا بھائی آپکا اوپر بیان کردہ اصول مجھے تو خود ساختہ اور من گھڑت معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ دینی اور دنیاوی کی تقسیم تو خود کلیسا اور پاپائیت کی رہین منت ہے جبکہ دین اسلام میں " دین اور دنیا " کی کوئی الگ الگ تقسیم نہیں ہے ا
پھر کبھی فرصت میں سہی میرے بھائی۔ :)
 
کیا گرجا یا کلیسا میں پہلی مرتبہ نماز پڑھی گئی ؟؟؟؟؟؟؟
ایک دو اقتباس پیش کرتا ہوں ۔۔ جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خلیفہ رسول حضرت عمر نے کلیسا میں نماز پڑھی ۔۔ اور اگر کہیں انہوں نے کلیسا کے متولی کی خواہش کے باوجو نماز نہ پڑھی تو صرف اس وجہ سے کہ ان کے اس عمل کو بنیاد بنا کر مسلمان آئندہ مستقلا کلیسا کو مسجد میں تبدیل نہ کردیں اور جب ۔۔ متولی کی شدت خواہش کو پایا تو پڑھ لی لیکن ۔۔ عہد لکھ کر دیا ۔۔ تاکہ مسلمان اس کے پابند رہیں
اس سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ خلیفہ رسول کلیسا میں نماز پڑھ لینے کو نا جائز نہ جانتے تھے ۔۔۔۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔


بیت المقدس کی فتح کے موقع پر جب سیدنا عمر وہاں تشریف لے گئے تو مسیحی بطریق صفرنیوس نے انھیں مقدس مذہبی مقامات کی زیارت کرائی۔ اس دوران میں جب وہ کلیساے قمامہ میں گئے تو نماز کا وقت آ گیا۔ بطریق نے سیدنا عمر سے گزارش کی کہ وہ وہیں نماز ادا کر لیں ، لیکن سیدنا عمر نے فرمایا کہ اگر آج انھوں نے یہاں نماز ادا کی تو بعد میں مسلمان بھی ان کے اس عمل کی پیروی میں یہاں نماز ادا کریں گے اور اس سے مسیحیوں کے لیے مشکلات پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔

اسی طرح جب کلیساے قسطنطین کے دروازے پر مسیحی میزبانوں نے سیدنا عمر کے نماز پڑھنے کے لیے بساط بچھائی تو آپ نے پھر معذرت فرما دی۔

بیت لحم میں کلیساے مہد (Church ofNativity)کی زیارت کے موقع پر نماز کا وقت آیا تو سیدنا عمر نے وہاں نماز ادا کر لی ، لیکن پھر اندیشہ ہوا کہ ان کا یہ عمل بعد میں مسیحیوں کے لیے دقت کا باعث نہ بن جائے ۔ چنانچہ ایک خاص عہد لکھ کر بطریق کو دے دیا جس کی رو سے یہ کلیسا مسیحیوں کے لیے مخصوص کر دیا گیا اور پابندی لگا دی گئی کہ ایک وقت میں صرف ایک مسلمان اس میں داخل ہو سکے گا، اس سے زیادہ نہیں۔(۵)
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
۵۔ محمد حسین ہیکل، الفاروق عمر ١/٢٣٩۔

منبع:۔ ملاحطہ ہو

آپکا بتایا ہوا مکمل صفحہ پیسٹ کررہا ہوں
واقعاتی تسلسل اور مذہبی اخلاقیات
واقعاتی تسلسل اور مذہبی اخلاقیات
سطور بالا میں ہم اس نکتے پر سیرحاصل گفتگو کر چکے ہیں کہ اسلامی شریعت میں نہ مسجد اقصیٰ پر یہود کے حق تولیت کو منسوخ کیا گیا ہے اور نہ اس کے کسی حکم کا یہ تقاضا ہے کہ مسلمان اس کی تولیت کی ذمہ داری لازماً اٹھائیں۔ اس حوالے سے جو استدلال پیش کیا گیا ہے، وہ علمی لحاظ سے بے حد کمزور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض جید اہل علم تولیت کے اس حق کو محض حالات و واقعات کا نتیجہ تسلیم کرتے اور واقعاتی حقائق ہی کو مسلمانوں کے حق تولیت کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں:
''ہیکل سلیمانی کے متعلق یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ اسے ٧٠ء میں بالکل مسمار کر دیا گیا تھا اور حضرت عمر کے زمانے میں جب بیت المقدس فتح ہوا، اس وقت یہاں یہودیوں کا کوئی معبد نہ تھا ، بلکہ کھنڈر پڑے ہوئے تھے ، اس لیے مسجد اقصیٰ اور قبہ صخرہ کی تعمیر کے بارے میں کوئی یہودی یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ ان کے کسی معبد کو توڑ کر مسلمانوں نے یہ مساجد بنائی تھیں۔ '' (سانحہ مسجد اقصیٰ ٧)
حکیم الامت علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں:
''صدیاں گزر گئیں کہ ایک معبد تعمیر ہوا تھا جسے ہیکل سلیمانی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ معبد مسلمانوں کے یروشلم فتح کرنے سے بہت پہلے برباد ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کا ذکر حضرت عمر فاروق سے فرمایا تو انھیں ہیکل یا مسجد اقصیٰ کے صحیح موقع ومحل سے بھی مطلع کر دیا۔ فتح یروشلم کے بعد حضرت عمر بہ نفس نفیس یروشلم تشریف لے گئے تو انھوں نے مسمار شدہ 'ہیکل سلیمانی' کا محل وقوع دریافت فرمایا اور وہ جگہ ڈھونڈ لی۔ اس وقت اس جگہ گھوڑوں کی لید جمع تھی جسے انھوں نے اپنے ہاتھ سے صاف کیا۔ مسلمانوں نے جب اپنے خلیفہ کو ایسا کرتے دیکھا تو انھوں نے بھی جگہ صاف کرنی شروع کر دی اور یہ میدان پاک ہو گیا۔ عین اسی جگہ مسلمانوں نے ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کی جس کا نام مسجد اقصیٰ ہے۔ یہود ونصاریٰ کی تاریخ میں تو یہ کہیں مذکور نہیں کہ موجودہ مسجد اقصیٰ اسی جگہ پر واقع ہے جہاں ہیکل سلیمانی واقع تھا۔ اس تشخیص کا سہرا مسلمانوں کے سر ہے۔ یہود ونصاریٰ نے اس کی زیارت کے لیے اس وقت آنا شروع کیا جب کہ یہ مشخص ہو چکی تھی۔ ..... شریعت اسلامیہ کی رو سے مسجد اقصیٰ کا سارا احاطہ وقف ہے۔ جس قبضے اور تصرف کا یہود اب دعویٰ کرتے ہیں، قانونی اور تاریخی اعتبار سے اس کا حق انھیں ہرگز نہیں پہنچتا، سواے اس کے کہ ترکوں نے انھیں گریہ کرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔'' (گفتار اقبال، مرتبہ محمد رفیق افضل، ٩٢، ٩٣)
اس استدلال کو مکمل انداز میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ مسلمانوں نے اس مقام کو یہودیوں سے چھین کر یا ہیکل کو گرا کر یہاں مسجد اقصیٰ کو تعمیر نہیں کیا ، بلکہ انھوں نے اس عبادت گاہ کو اس وقت تعمیر اور آباد کیا جب یہ بربادی، ویرانی اور خستہ حالی کا شکار تھی، نیز گزشتہ تیرہ صدیوں سے مسلمان اس کی تولیت کے امور کے ذمہ دار چلے آ رہے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر بھی اسی بنیاد پر ان کے اس حق کو قانونی اور جائز تسلیم کیا گیا ہے، اس لیے اب یہود کے اس پر کسی قسم کا حق جتانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
ہم اس بحث کے آغاز میں یہ عرض کر چکے ہیں کہ قانونی لحاظ سے اس استدلال کے درست ہونے میں کوئی شبہ نہیں، لیکن ہمیں اس بات کو ماننے میں شدید تردد ہے کہ یہ موقف اس اعلیٰ اخلاقی معیار کے ساتھ بھی مطابقت رکھتا ہے جس کی تعلیم اہل کتاب اور ان کی عبادت گاہوں کے متعلق اسلام نے دی ہے۔ قانون کے بارے میں ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ اس کی غرض اعلیٰ اخلاقیات کے فروغ سے نہیں، بلکہ نزاعات کے تصفیے سے ہوتی ہے۔ اس عملی زاویہ نگاہ کے باعث بعض دفعہ ایک قانونی فیصلے میں ان بلند تر اور آئیڈیل اخلاقی تصورات کو نظر انداز کرتے ہوئے، جن کی پاس داری ایک فریق کو محض یک طرفہ طور پر (Unilaterally)کرنی چاہیے، اخلاقیات کے اس کم سے کم درجے کو بنیاد بنا لیا جاتا ہے جس کی پابندی پر فریقین کو مجبور کیا جا سکے، اور یہ صورت محض اس لیے اختیار کی جاتی ہے تاکہ کم سے کم عملی الجھنوں کو سلجھانا پڑے۔
جہاں تک اخلاقی اصولوں کا تعلق ہے تو وہ درجے اور اہمیت کے لحاظ سے یکساں نہیں بلکہ متفاوت ہوتے ہیں۔ اخلاقیات کا ایک درجہ یہ ہے کہ انسان کسی معاملے میں صرف اس حق کو پیش نظر رکھے جو اسے بعض عملی پہلوؤں کی بنا پر حاصل ہے اور جس کے تحفظ کی ضمانت اسے 'قانون' دیتا ہے، لیکن اس سے بلند تر درجہ یہ ہے کہ وہ اپنے حق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ دوسرے فریق کے جذبات واحساسات کو بھی ہمدردی کی نگاہ سے دیکھے اور کوئی قانونی جبر نہ ہو تو بھی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے حق میں دوسرے فریق کو شریک کر لے۔
یہی صورت حال احاطہ ہیکل کی تولیت کے معاملے کی ہے۔ مسلمانوں کا یہ موقف کہ چونکہ انھوں نے یہ عبادت گاہ یہود سے چھینی نہیں تھی بلکہ ان کی غیر موجودگی میں اسے آباد کیا تھا اور کئی صدیوں سے وہی اس کی تولیت کے ذمہ دار چلے آ رہے ہیں، یقینا اخلاقیات کے ایک درجے کے لحاظ سے اس بات کا جواز فراہم کرتا ہے کہ وہ یہود کو اس کی تولیت کے حق میں اپنے ساتھ شریک نہ کریں، لیکن اخلاقیات کا اس سے ایک برتر درجہ بھی ہے جس کی تعلیم قرآن مجید نے خاص طور پر عبادت گاہوں کے حوالے سے دی ہے، اور وہ یہ کہ خدا کی عبادت چونکہ نیکی اور تقویٰ کا عمل ہے، اس لیے کسی گروہ کو اس کی عبادت گاہ میں جو اس کے روحانی وقلبی جذبات کا مرکز ہے، عبادت کرنے سے نہ روکا جائے ، بالخصوص، جبکہ وہاں سے اس کی بے دخلی ظلماً وقہراً اور مذہبی و اخلاقی اصولوں کی پامالی کے نتیجے میں عمل میں آئی ہو۔
آئیے، اس حوالے سے اسلامی تعلیمات کا ذرا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیتے ہیں:
قرآن مجید کے نزدیک دین کا اصل الاصول خدا کی یاد اور اس کی عبادت ہے ، اس لیے وہ اعتقادات کے باہمی امتیاز، طریقہ ہاے عبادت کے اختلاف اور احکام وشرائع کے فرق کے باوجود اہل کتاب کی عبادت گاہوں کو اللہ کی یاد کے مراکز تسلیم کرتا، انھیں مساجد کے ساتھ یکساں طور پر قابل احترام قرار دیتا اور ان کی حرمت وتقدس کی حفاظت کا حکم دیتا ہے:
وَلَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ يُذْکَرُ فِيْهَا اسْمُ اللّٰهِ کَثِيْرًا.(الحج٢٢: ٤٠)
''اور اگر اللہ نے (دنیا میں) ایک گروہ کے ظلم وعدوان کو دوسرے گروہ کے ذریعے سے دفع کرنے کا قانون نہ بنایا ہوتا تو راہب خانوں، کلیساؤں، گرجوں اور مسجدوں جیسے مقامات، جن میں اللہ کو کثرت سے یاد کیا جاتا ہے، گرا دیے جاتے۔''
خدا کی عبادت میں اشتراک کے اس تصور سے آسمانی مذاہب کے ماننے والوں کے مابین جو باہمی رویہ پیدا ہوتا ہے، وہ ظاہر ہے کہ رواداری، مسامحت اور احترام کا رویہ ہے۔ اسلامی تعلیمات میںاس کا ایک مظہر یہ ہے کہ بوقت ضرورت مسلمانوں کو اہل کتاب کی عبادت گاہوں میں اور اہل کتاب کو مسلمانوں کی مساجد میں عبادت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ چنانچہ صحابہ میں سے حضرت عمر، حضرت عبد اللہ ابن عباس، حضرت ابو موسیٰ اشعری اور تابعین میں سے ابراہیم نخعی، اوزاعی، سعید بن عبد العزیز، حسن بصری، عمر بن عبد العزیز، شعبی، عطا اور ابن سیرین رحمہم اللہ جیسے جلیل القدر اہل علم سے کلیساؤں میں نماز پڑھنے کی اجازت اور بوقت ضرورت اس پر عمل کرنا منقول ہے۔ ١ دوسری طرف ٩ ہجری میں جب نجران کے عیسائیوں کا وفد مدینہ منورہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے انھیں مسجد نبوی میں ٹھہرایا۔ جب عصر کی نماز کا وقت آیا اور انھوں نے نماز پڑھنی چاہی تو صحابہ نے ان کو روکنا چاہا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انھیں نماز پڑھنے دو ۔ چنانچہ انھوں نے مشرق کی سمت میں اپنے قبلے کی طرف رخ کر کے نماز ادا کی۔ ٢
عبادت گاہوں کے تقدس واحترام کے اسی تصور کے پیش نظر قرآن مجید نے مذہبی اختلافات کی بنیاد پر لوگوں کو اللہ کی عبادت سے روکنے یا اس کی عبادت کے لیے قائم کیے گئے مراکز پر تعدی کرنے کو ایک سنگین ترین اور ناقابل معافی جرم قرار دیا ہے۔ یہود ونصاریٰ کے مابین اعتقادات اور قبلے کی سمت میں اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے کو عبادت سے روکنے اور عبادت گاہوں پر تعدی کے واقعات ان کی پوری تاریخ میں رونما ہوتے رہے ہیں۔ قرآن مجید نے اس طرز عمل پر نہایت سخت الفاظ میں تنقید کرتے ہوئے فرمایا:
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ يُّذْکَرَ فِيْهَا اسْمُه، وَسَعٰی فِیْ خَرَابِهَا اُولٰۤئِكَ مَا کَانَ لَهُمْ اَنْ يَّدْخُلُوْهَآ اِلَّا خَآئِفِيْنَ لَهُمْ فِی الدُّنْيَا خِزْیٌ وَّلَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ وَلِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ. (البقره٢: ١١٤، ١١٥)
''اور اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کا ذکر کرنے میں رکاوٹ ڈالے اور مسجدوں کو ویران کرنے کی کوشش کرے؟ ان کا حق تو یہی تھا کہ وہ ان مسجدوں میں داخل ہوں تو اللہ کے خوف و خشیت ہی کی حالت میں داخل ہوں۔ ان کے لیے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی ان کے لیے عذاب عظیم ہے۔ مشرق اور مغرب اللہ ہی کے لیے ہیں۔ سو تم جس طرف بھی رخ کرو، اللہ کی ذات اسی طرف ہے۔ بے شک، اللہ بہت وسعت دینے والا علم رکھنے والا ہے۔''
عہد رسالت میں مشرکین مکہ نے متعدد مواقع پر مسلمانوں کو مسجد حرام میں جانے اور وہاں عبادت کرنے سے روک دیا تھا۔ اس کے جواب میں جب یہ خدشہ پیدا ہوا کہ مسلمان بھی موقع ملنے پر ان کے قافلوں اور عازمین حج کو روکنے لگیں گے تو قرآن مجید نے ان پر یہ پابندی عائد کر دی کہ وہ بیت اللہ کے طواف وزیارت کا قصد کرنے والوں اور ان کے قربانی کے جانوروں سے کسی قسم کا کوئی تعرض نہ کریں:
يٰۤاَ يُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآئِرَ اللّٰهِ وَلاَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْیَ وَلاَ الْقَلَآئِدَ وَلاَ اٰۤمِّيْنَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا وَاِذَا حَلَلْتُمْ فاَصْطَادُوْا وَلَا يَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ.(المائده ٥:٢)
''ایمان والو، اللہ کے شعائر اور حرام مہینوں اور قربانی کے جانوروں اور ان کے پٹوں اور بیت الحرام کا قصد کرنے والوں کی، جو اللہ کے فضل اور اس کی رضا کی تلاش میں نکلتے ہیں، بے حرمتی نہ کرو۔ اور جب تم احرام سے نکل آؤ تو شکار کر سکتے ہو۔ اور اگر کسی گروہ نے تمھیں مسجد حرام سے روکا ہے تو ان کے ساتھ دشمنی تمھیں اس پر آمادہ نہ کرے کہ تم بھی ان کے ساتھ زیادتی کرو۔ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تو ایک دوسرے کی مدد کرو ، لیکن گناہ اورزیادتی کے کاموں میں تعاون نہ کرو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ نہایت سخت سزا دینے والا ہے۔''
مولانا مودودیؒ اس حکم کی معنویت واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''یاد رکھنا چاہیے کہ شعائر اللہ کے احترام کا یہ حکم اس زمانہ میں دیا گیا تھا جبکہ مسلمانوں اور مشرکین عرب کے درمیان جنگ برپا تھی، مکہ پر مشرکین قابض تھے، عرب کے ہر حصے سے مشرک قبائل کے لوگ حج وزیارت کے لیے کعبہ کی طرف جاتے تھے اور بہت سے قبیلوں کے راستے مسلمانوں کی زد میں تھے۔ اس وقت یہ حکم دیا گیا کہ یہ لوگ مشرک ہی سہی، تمہارے اور ان کے درمیان جنگ ہی سہی، مگر جب یہ خدا کے گھر کی طرف جاتے ہیں تو انہیں نہ چھیڑو، حج کے مہینوں میں ان پر حملہ نہ کرو، خدا کے دربار میں نذر کرنے کے لیے جو جانور یہ لیے جا رہے ہوں، ان پر ہاتھ نہ ڈالو، کیونکہ ان کے بگڑے ہوئے مذہب میں خدا پرستی کا جتنا حصہ باقی ہے، وہ بجائے خود احترام کا مستحق ہے نہ کہ بے احترامی کا۔'' (تفہیم القرآن، ١/٤٣٩)
اسی ضمن میں یہ ضابطہ بھی اسلامی تعلیمات کا ایک ناقابل تبدیل حصہ ہے کہ کسی مخصوص عبادت گاہ کی تولیت اور اس کے امور میں تصرف اور فیصلے کا حق اسی مذہب کے متبعین کو حاصل ہے جنھوں نے اس کو قائم کیا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود مدینہ کے ساتھ میثاق میں 'لليهود دينهم وللمسلمين دينهم' کی شق شامل کر کے ان کے تمام مذہبی حقوق کے احترام وحفاظت کی پابندی قبول کی۔ ٣ اسی طرح نجران کے مسیحیوں کے ساتھ معاہدے میں یہ شق شامل تھی کہ:
ولنجران وحاشيتها ذمة اللّٰه وذمة رسوله اللّٰه علی دمائهم واموالهم وملتهم وبيعهم ورهبانيتهم واساقفتهم وشاهدهم وغائبهم وکل ما تحت ايديهم من قليل او کثير وعلی ان لا يغيروا اسقفا من سقيفاه ولا واقها من وقيهاه ولا راهبا من رهبانيته. (ابو عبيد، الاموال، ص ١١٨)
''بنو نجران اور ان کے تابعین کی جان و مال، دین اور عبادت گاہوں، راہبوں اور پادریوں کو، غائب اور موجود سب کو اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ حاصل ہے۔ ان کے پاس موجود ہر تھوڑی یا زیادہ چیز کی حفاظت کی بھی ضمانت دی جاتی ہے، اور اس بات کی بھی کہ ان کے کسی پادری یا گرجے کے منتظم یا راہب کو اس کے منصب سے ہٹایا نہیں جائے گا۔''
سیدنا ابوبکر نے جیش اسامہ کو روانگی کے وقت جو ہدایات دیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ:
ولا تهدموا بيعة. (ابن عساکر، تهذيب تاريخ دمشق ١/١٣٤)
''اور تم کسی گرجے کو نہ گرانا۔''
وسوف تمرون باقوام قد فرغوا انفسهم فی الصوامع فدعوهم وما فرغوا انفسهم له. (ايضاً ١/١١٨، ١١٩)
''اور تمھارا گزر کچھ ایسے لوگوں پر ہوگا جنھوں نے اپنے آپ کو خانقاہوں میں بند کر رکھا ہو۔ تم ان کو ان کے حال پر ہی چھوڑ دینا۔''
سیدنا عمر نے اہل بیت المقدس کو جو تحریری امان دی، اس کے الفاظ یہ ہیں:
هذا ما اعطی عبد اللّٰه عمر اميرالمومنين اهل ايلياء من الامان، اعطاهم امانا لانفسهم واموالهم ولکنائسهم وصلبانهم وسقيمها وبريئها وسائر ملتها، انه لا تسکن کنائسهم ولا تهدم ولا ينتقض منها ولا من حيزها ولا من صليبهم ..... ومن احب من اهل ايلياء ان يسير بنفسه وماله مع الروم ويخلی بيعهم وصلبهم فانهم آمنون علی انفسهم وعلی بيعهم وصلبهم حتی يبلغوا مامنهم. (تاريخ طبری ٣/٦٠٩)
''یہ وہ امان ہے جو اللہ کے بندے امیرالمومنین عمر نے اہل ایلیا کو دی۔ یہ امان ان کی جان، مال، گرجا، صلیب، تندرست، بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لیے ہے۔ نہ ان کے گرجاؤں میں سکونت کی جائے گی اور نہ وہ ڈھائے جائیں گے، نہ ان کو یا ان کے احاطے کو کوئی نقصان پہنچایا جائے گا۔ایلیا کے باسیوں میں سے جو یہ چاہیں کہ اپنی جان ومال لے کر رومیوں کے ساتھ چلے جائیں اور اپنے گرجے اور صلیبیں چھوڑ جائیں تو ان کی جانوں، گرجوں اور صلیبوں کو امان حاصل ہے یہاں تک کہ وہ کسی پرامن جگہ پر پہنچ جائیں۔''
عہد صحابہ کی فتوحات میں اہل کتاب کے ساتھ کیے جانے والے کم وبیش تمام معاہدوں میں ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی ضمانت کا ذکر ملتا ہے۔ ٤
چنانچہ اسلام کی انھی تعلیمات وہدایات کی روشنی میں اسلامی تاریخ کے صدر اول میں غیر مسلموں کے فتح ہونے والے علاقوں میں دیگر مذاہب کی پہلے سے موجود عبادت گاہوں کو علیٰ حالہا قائم رکھنے اور ان کے مذہبی معاملات سے تعرض نہ کرنے کی شان دار روایت قائم کی گئی۔ ابن قدامہ لکھتے ہیں:
''عبد اللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ: جس شہر کے بانی عجم ہوں اور اللہ تعالیٰ عربوں کو اس پر فتح عطا کر دے اور وہ اس میں داخل ہو جائیں تو اہل عجم کے معاملات حسب سابق برقرار رکھے جائیں گے۔ نیز صحابہ کرام نے بہت سے شہروں پر بزور قوت فتح حاصل کی ، لیکن انھوں نے اہل کتاب کی عبادت گاہوں میں سے کسی کو بھی منہدم نہیں کیا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ان علاقوں میں یہود اور نصاریٰ کی عبادت گاہیں موجود ہیں اور معلوم ہے کہ یہ اسلامی فتوحات کے بعد نہیں بنائی گئیں ۔ چنانچہ لازماً یہ پہلے سے موجود تھیں اور ان کو برقرار رکھا گیا۔ عمر بن عبدالعزیز نے اپنے عمال کو لکھا تھا کہ وہ یہود ونصاریٰ یا مجوس میں سے کسی کی عبادت گاہ کو منہدم نہ کریں۔ پھر یہ کہ اس بات پر مسلمانوں کا اجماع ہو چکا ہے ،کیونکہ یہ عبادت گاہیں مسلمانوں کے علاقوں میں موجود ہیں اور کسی کو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔'' (المغنی ٩/٢٨٤)
عہد صحابہ میں اس روایت کی پاس داری کا عالم یہ رہا کہ بیت المقدس کی فتح کے موقع پر جب سیدنا عمر وہاں تشریف لے گئے تو مسیحی بطریق صفرنیوس نے انھیں مقدس مذہبی مقامات کی زیارت کرائی۔ اس دوران میں جب وہ کلیساے قمامہ میں گئے تو نماز کا وقت آ گیا۔ بطریق نے سیدنا عمر سے گزارش کی کہ وہ وہیں نماز ادا کر لیں ، لیکن سیدنا عمر نے فرمایا کہ اگر آج انھوں نے یہاں نماز ادا کی تو بعد میں مسلمان بھی ان کے اس عمل کی پیروی میں یہاں نماز ادا کریں گے اور اس سے مسیحیوں کے لیے مشکلات پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔
اسی طرح جب کلیساے قسطنطین کے دروازے پر مسیحی میزبانوں نے سیدنا عمر کے نماز پڑھنے کے لیے بساط بچھائی تو آپ نے پھر معذرت فرما دی۔
بیت لحم میں کلیساے مہد (Church ofNativity)کی زیارت کے موقع پر نماز کا وقت آیا تو سیدنا عمر نے وہاں نماز ادا کر لی ، لیکن پھر اندیشہ ہوا کہ ان کا یہ عمل بعد میں مسیحیوں کے لیے دقت کا باعث نہ بن جائے ۔ چنانچہ ایک خاص عہد لکھ کر بطریق کو دے دیا جس کی رو سے یہ کلیسا مسیحیوں کے لیے مخصوص کر دیا گیا اور پابندی لگا دی گئی کہ ایک وقت میں صرف ایک مسلمان اس میں داخل ہو سکے گا، اس سے زیادہ نہیں۔ ٥
اسلامی سلطنت کے عین عروج کے زمانے میں امیر المومنین سیدنا معاویہ نے یہ چاہا کہ دمشق میں کنیسہ یوحنا کے نصف حصے کو، جو عیسائیوں کے زیر تصرف تھا، ان کی رضامندی سے مسجد میں شامل کر لیں ،لیکن عیسائیوں کے اس بات سے اتفاق نہ کرنے کی وجہ سے وہ اس خیال کو عملی جامہ نہ پہنا سکے اور انھیں یہ ارادہ ترک کر دینا پڑا۔ ٦
اس تفصیل سے اہل کتاب اور ان کی عبادت گاہوں کے بارے میں اسلامی تعلیمات کے رخ اور مزاج کا پوری طرح اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کو پیش نظر رکھیے تو ہر شخص یہ ماننے پر مجبور ہوگا کہ مسجد اقصیٰ کے معاملے میں کوئی فیصلہ کرنے کے لیے اصل معیار کی حیثیت محض قانونی اور واقعاتی استحقاق کو نہیں ،بلکہ ان اعلیٰ اخلاقی اصولوں کو حاصل ہونی چاہیے جن کی رعایت کی تلقین اسلام نے اہل کتاب کے حوالے سے کی ہے۔ عام مذہبی اخلاقیات کا بھی یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ عبادت گاہوں کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کے لیے جس چیز کو سب سے بڑھ کر ملحوظ رکھا جانا چاہیے، وہ خود اہل مذہب کے اعتقادات اور ان کا مذہبی قانون ہے۔ اس اصول کی روشنی میں زیر بحث معاملے کی نوعیت کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ حسب ذیل حقائق پیش نظر رہیں:
ایک یہ کہ مسجد اقصیٰ کی حیثیت یہود کے نزدیک کسی عام عبادت گاہ کی نہیں ، بلکہ وہی ہے جو مسلمانوں کے نزدیک مسجد حرام اور مسجد نبوی کی ہے۔ مسلمان، اپنی عام عبادت گاہوں کے برخلاف، ان دونوں مساجد کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اگر خدا نخواستہ کبھی وہ ان کے ہاتھ سے چھن جائیں اور کسی دوسرے مذہب کے پیروکار اسے اپنی مذہبی یا دنیاوی سرگرمیوں کا مرکز بنا لیں تو ان پر سے مسلمانوں کا حق ختم ہو جائے گا۔ اپنے قبلے کے بارے میں یہی احساسات و جذبات دنیا کے تمام مذاہب کے ماننے والوں میں پائے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے حوالے سے مانا جانے والا یہ اصول، عدل وانصاف کی رو سے، دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کے لیے بھی تسلیم کیا جانا چاہیے ۔
دوسرے یہ کہ ہیکل سلیمانی کو یہود نے اپنے اختیار اور ارادے سے ویران نہیں کیا ، بلکہ اس کی بربادی اور حرمت کی پامالی ایک حملہ آور بادشاہ کے ہاتھوں ہوئی جس نے جبراً یہود کو یہاں سے بے دخل کر کے اس عبادت گاہ کے ساتھ ان کے تعلق کو منقطع کر دیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ ان پر یہ ذلت ورسوائی اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا کے طور پرمسلط ہوئی، لیکن اہل علم جانتے ہیں کہ یہ چیز تکوینی امور میں سے ہے جو اپنی نوعیت اور حیثیت کے لحاظ سے ہمارے لیے قابل اتباع نہیں ہیں ، چنانچہ اس دائرے کے امور کو نہ کسی شرعی حکم کے استنباط کے لیے ماخذ بنایا جا سکتا ہے اور نہ کسی طرز عمل کے لیے دلیل۔
تیسرے یہ کہ اس عبادت گاہ کے ساتھ قوم یہود کی قلبی وابستگی اور اس کی بازیابی کے لیے ان کی تمناؤں اور امیدوں کی تصویر خود مولانا مودودی نے یوں پیش کی ہے :
''دو ہزار برس سے دنیا بھر کے یہودی ہفتے میں چار مرتبہ یہ دعائیں مانگتے رہے ہیں کہ بیت المقدس پھر ہمارے ہاتھ آئے اور ہم ہیکل سلیمانی کو پھر تعمیر کریں۔ ہر یہودی گھر میں مذہبی تقریبات کے موقع پر اس تاریخ کا پورا ڈراما کھیلا جاتا رہا ہے کہ ہم مصر سے کس طرح نکلے اور فلسطین میں کس طرح سے آباد ہوئے اور کیسے بابل والے ہم کو لے گئے اور ہم کس طرح سے فلسطین سے نکالے گئے اور تتر بتر ہوئے۔ اس طرح یہودیوں کے بچے بچے کے دماغ میں یہ بات ٢٠ صدیوں سے بٹھائی جا رہی ہے کہ فلسطین تمھارا ہے اور تمھیں واپس ملنا ہے اور تمھارا مقصد زندگی یہ ہے کہ تم بیت المقدس میں ہیکل سیلمانی کو پھر تعمیر کرو۔ بارہویں صدی عیسوی کے مشہور یہودی فلسفی موسیٰ بن میمون (Maimonides) نے اپنی کتاب شریعت یہود (The Code of Jewish Law) میں صاف صاف لکھا ہے کہ ہر یہودی نسل کا یہ فرض ہے کہ وہ بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی کو ازسرنو تعمیر کرے۔ مشہور فری میسن تحریک (Freemason Movement) بھی، جس کے متعلق ہمارے ملک کے اخبارات میں قریب قریب سارے ہی حقائق اب شائع ہو چکے ہیں، اصلاً ایک یہودی تحریک ہے اور اس میں بھی ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو کو مقصود قرار دیا گیا ہے ، بلکہ پوری فری میسن تحریک کا مرکزی تصور یہی ہے اور تمام فری میسن لاجوں میں اس کا باقاعدہ ڈراما ہوتا ہے کہ کس طرح سے ہیکل سلیمانی کو دوبارہ تعمیر کرنا ہے۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ میں آگ لگنا کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے۔ صدیوں سے یہودی قوم کی زندگی کا نصب العین یہی رہا ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کو تعمیر کرے اور اب بیت المقدس پر ان کا قبضہ ہو جانے کے بعد یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے اس نصب العین کو پورا کرنے سے باز رہ جائیں۔'' (سانحہ مسجد اقصیٰ ٥)
چوتھے یہ کہ یہودیوں کی بہت سی عباداتی رسوم، بالخصوص قربانیاں، ایسی ہیں جو ان کے مذہبی قانون کے مطابق ہیکل کے ساتھ مخصوص ہیں اور اس کے بغیر ان کی ادائیگی فقہی لحاظ سے درست نہیں ہے۔ گویا مسجد اقصیٰ سے ان کو روکنا محض ایک عبادت گاہ سے محروم رکھنے کا معاملہ نہیں ، بلکہ ان کے اپنی مذہبی رسوم کو بجا لانے کے حق کی نفی کو بھی مستلزم ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جس مرکز عبادت سے اہل مذہب کو اس کی شدید ترین بے حرمتی کرنے کے بعد بے دخل کر دیا گیا ہو، جن کے مذہبی قانون میں اس کی تولیت کی ذمہ داری کسی دوسرے گروہ کے سپرد کرنے کی ممانعت کی گئی ہو، اور اس کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے ان کے مذہبی جذبات کا عالم یہ ہو جو اوپر کے اقتباس میں بیان ہوا ہے، اس کے بارے میں اس استدلال کی عقل واخلاق اور دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں کیا حیثیت ہو گی کہ چونکہ ہم نے اہل مذہب کی غیر موجودگی میں اس مقام پر عمارت تعمیر کر لی ہے اور صدیوں سے اس میں عبادت کرتے چلے آ رہے ہیں، اس لیے اس کے حوالے سے ان کے تمام حقوق بیک قلم منسوخ ہو گئے ہیں؟ کیا ایک کھوئے ہوئے مرکز عبادت میں ازسرنو جمع ہونے اور اس میں سلسلہ عبادت کے احیا کا جذبہ، فی الواقع، ایسا ہی قابل نفرت ہے کہ اسے یوں بے وقعت کرنے کی کوشش کی جائے؟ کیا اگر، خاکم بدہن، یہود کے بجائے یہ صورت حال مسلمانوں کو درپیش ہوتی تو بھی وہ اس قسم کے استدلالات سے مطمئن ہو کراپنے قبلے سے دست بردار ہو جاتے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١ صحیح بخاری، باب الصلاۃ فی البیعہ۔ مصنف ابن ابی شیبہ ٢/٧٩۔ شوکانی، نیل الاوطار ٣٤٥۔ نووی، المجموع شرح المہذب ٣/١٦٤۔ السید سابق، فقہ السنہ ١/٢١٥۔
٢ ابن ہشام،السیرۃ النبویہ ١/٥٧٤۔
٣ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ ١/٥٠٣
٤ مثلاً دیکھیے: معاہدہ دمشق (ابن عساکر، تہذیب تاریخ دمشق الکبیر ١/ ١٤٩۔ ابو عبید، الاموال، ٢٠٧) معاہدہ طفلیس (الاموال ٢٠٨، ٢٠٩) معاہدہ حلب (تاریخ ابن خلدون اردو، ١/٣٣٤) معاہدہ لد و فلسطین (تاریخ طبری ٣/٦٠٩) ۔
٥ محمد حسین ہیکل، الفاروق عمر ١/٢٣٩۔
٦ بلاذری، فتوح البلدان ١٣١،١٣٢۔ ولید بن عبد الملک نے اپنے زمانے میں جبراً عیسائیوں کے حصے کو بھی مسجد میں شامل کر لیا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز کا دور آیا تو عیسائیوں کی شکایت پر انھوں نے حکم دیا کہ ''مسجد میں جو اضافہ کیا گیا ہے، وہ نصاریٰ کو واپس دے دیا جائے۔'' تاہم باہمی گفت وشنید سے یہ طے پایا کہ اس گرجے کے بدلے میں عیسائیوں کو الغوط کے علاقے میں ایک دوسرا گرجا دے دیا جائے۔ (فتوح البلدان ، حوالہ بالا)
عمار خان ناصر
:مصنف
عمار خان ناصر کے تحریر کردہ تمام مضامین ملاحظہ کریں
 
مجھے تو یہ خبر دینے والا انتہائی شیطان صفت قسم کا انسان نظر آتا ہے یا پھر انتہائی احمق ۔۔۔۔۔۔۔ہر فورم ،ہر شہر ،ہرگلی اور معاشرے میں آپ کو ایسے فسادی ،شرپسند یا پھر ان جیسے احمقین ملیں گے۔ اور لمبے درخت کو دیکھیں کیسے قمری کی طرح گھگیاں مارتا ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
مجھے تو یہ خبر دینے والا انتہائی شیطان صفت قسم کا انسان نظر آتا ہے یا پھر انتہائی احمق ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ہر فورم ،ہر شہر ،ہرگلی اور معاشرے میں آپ کو ایسے فسادی ،شرپسند یا پھر ان جیسے احمقین ملیں گے۔ اور لمبے درخت کو دیکھیں کیسے قمری کی طرح گھگیاں مارتا ہے
غور کیجئے کہ کاپی پیسٹ کرنے والے اراکین ادھر ایک نام سے ڈوبتے ہیں اور اُدھر دوسرے نام سے ابھرتے ہیں :)
 

قیصرانی

لائبریرین
قیصرانی بھائی "کس کو کہہ رہے ہیں"
کوئی ایک ہوں تو بندہ نام بھی لے۔ بس اتنا اشارہ سمجھ لیجئے کہ ایک کاپی پیسٹ سرکار تابڑ توڑ کاپی پیسٹ کے بعد اچانک گم ہو اور ان کی جگہ اچانک وہی سلسلہ دوسرے رکن شروع کر دیں تو سمجھ جائیے :)
 
کوئی ایک ہوں تو بندہ نام بھی لے۔ بس اتنا اشارہ سمجھ لیجئے کہ ایک کاپی پیسٹ سرکار تابڑ توڑ کاپی پیسٹ کے بعد اچانک گم ہو اور ان کی جگہ اچانک وہی سلسلہ دوسرے رکن شروع کر دیں تو سمجھ جائیے :)
میں سمجھا کہ مجھے کہہ رہے ہیں:)
 
غور کیجئے کہ کاپی پیسٹ کرنے والے اراکین ادھر ایک نام سے ڈوبتے ہیں اور اُدھر دوسرے نام سے ابھرتے ہیں :)
غور کرنے والی بہت ساری باتیں ہیں ۔ابن سعید اور نبیل آپ کی طرح نالائق نہیں ہیں آئی پی سے فور ا بندہ پکڑ لیتے ہیں میرا یا تو گھر ہے یا پھر دفتر ہے اور نہ ہی میری کوئی دوسری آئیڈی ہے۔اور میں شیر بندہ ہوں جیسا آپ کے سامنے ہوں ویسا ہی عام زندگی میں بھی ہوں ۔مجھ میں منافقت بالکل بھی نہیں ہے ۔ اور اللہ معاف کرے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کا مرتکب قرار پاؤں ۔۔۔۔ اللہ اس وقت سے پہلے موت دے دے۔۔۔۔قیصرانی آپ نے مجھے بہت زیادہ افسردہ کیا ہے اللہ تبارک تعالیٰ آپ سے سمجھے ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
غور کرنے والی بہت ساری باتیں ہیں ۔ابن سعید اور نبیل آپ کی طرح نالائق نہیں ہیں آئی پی سے فور ا بندہ پکڑ لیتے ہیں میرا یا تو گھر ہے یا پھر دفتر ہے اور نہ ہی میری کوئی دوسری آئیڈی ہے۔اور میں شیر بندہ ہوں جیسا آپ کے سامنے ہوں ویسا ہی عام زندگی میں بھی ہوں ۔مجھ میں منافقت بالکل بھی نہیں ہے ۔ اور اللہ معاف کرے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کا مرتکب قرار پاؤں ۔۔۔ ۔ اللہ اس وقت سے پہلے موت دے دے۔۔۔ ۔قیصرانی آپ نے مجھے بہت زیادہ افسردہ کیا ہے اللہ تبارک تعالیٰ آپ سے سمجھے ۔
میرا پیغام ذرا ایک بار پھر پڑھ لیجئے کہ میرا اشارہ کس جانب ہے۔ پھر اس کے بعد آپ کی "عقلمندی اور جذباتیت" پر بات کرتے ہیں :)
ایک ہلکا سا اشارہ بھی
کوئی ایک ہوں تو بندہ نام بھی لے۔ بس اتنا اشارہ سمجھ لیجئے کہ ایک کاپی پیسٹ سرکار تابڑ توڑ کاپی پیسٹ کے بعد اچانک گم ہو اور ان کی جگہ اچانک وہی سلسلہ دوسرے رکن شروع کر دیں تو سمجھ جائیے :)
 
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام بلا شک و شبہ مسلمانوں کے بھی ننی اور رسول ہیں لیکن ان کی شریعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت نافذ ہونے پر معطل ہو گئی۔

مجھے علم ہے کہ آپ اب الفاظ سے کھیلیں گے اور ظفری بھائی بھی بہت سی دلیلیں لائیں گے لیکن قرآن کی آیت بالکل صاف اور سیدھی ہے۔ اس کو گھمانے پھرانے کی ضرورت نہیں۔

برادر محترم میں آپ کی بات مانوں یا پھر اپنے رب کی ؟ اللہ تعالی نے صرف ایک مذہب اتارا ، وہی شریعت، وہی سنت سارے نبی لے کر آئے۔ ثبوت میں دیکھئے ۔ تو میں یا آپ کون ہوئے سابقہ نبیوں کی شریعت کو منسوخ فرمانے والے :)

اللہ کی سنت نا تبدیل ہوتی ہے نا اس کا دستور بدلتا ہے

17:77 سُنَّةَ مَن قَدْ أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِن رُّسُلِنَا وَلاَ تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِيلاً
ان سب رسولوں (کے لئے اﷲ) کا دستور (یہی رہا ہے) جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا اور آپ ہمارے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے

33:62 سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا
اللہ کی (یہی) سنّت اُن لوگوں میں (بھی جاری رہی) ہے جو پہلے گزر چکے ہیں، اور آپ اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پائیں گے

48:23 سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلُ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا
(یہ) اﷲ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے، اور آپ اﷲ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے

کم از کم قرآں حکیم میں بیان کردہ شریعت کو صرف اس وجہ سے منسوخ نا فرمائیے کہ وہ کسی سابقہ نبی کریم کے واقعے کے ساتھ بیان کی گئی ہے ۔۔۔ کیا ہم اللہ تعالی سے بڑھ کر حکمت رکھتے ہیں؟

والسلام
 

x boy

محفلین
کیا آپ کو امینہ ودود یاد نہیں جس نے امریکہ میں ایک گرجا گھر میں جمعہ کی نماز کی امامت کی تھی اور اس کے پیچھے مردوں اور عورتوں نے اکٹھے نماز ادا کی تھی۔
یہ الگ بات ہے کہ وہ نماز تھی یا نماز پڑھنے کی ایکٹنگ کی گئی تھی۔

IH-Iqb1.jpg
1111220731_1084.jpg
4283438992_061dc8b6f7.jpg
2005050100020401.jpg
wadud100_v-ARDFotogalerie.jpg

شمشاد بھائی جزاک اللہ
لیکن میں نے کہا اس لئے نہیں سمجھنے والوں کے لئے اشارہ کافی ہے
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top