تبھی تو مل بانٹ کر کام کرنا چاہئے۔ ایک دن بہو فرش صاف کرے دوسرے دن ساس۔ لیکن بچے نے اتنا دیر سے چلنا کیوں شروع کیاا۔ یہ تو دو سال سے زیادہ عمر کے بچے کا پیر لگ رہا ہے
تو اتنی صفائیاں کیوں دے رہے بھائی ۔۔۔ ہم نے کون سا عدالت لگا لی ہے۔لطیفہ ہے بھئی۔۔۔۔۔
یہ زیادہ اچھا تھا ۔۔۔لطیفہ ہے بھئی۔۔۔۔۔
وہ جو سامنے دیوار پر آئینہ لگا ہوا ہے۔ اس کے سامنے جاو تمہیں لطیفہ مل جائے گا۔تو اتنی صفائیاں کیوں دے رہے بھائی ۔۔۔ ہم نے کون سا عدالت لگا لی ہے۔
کوئی اچھا سا لطیفہ سنائیے پھر۔۔۔ ہمیں ہنسنا ہے۔
یاد ہے نا کہ بھابی کے سامنے جب " لطیفہ ہے بھئی" کہتے ہیں تو وہ کبھی یقین نہیں کرتیں۔ یہی کہتی ہیں کہ دال میں کچھ تو کالا ہے۔لطیفہ ہے بھئی۔۔۔۔۔
اکمل زیدی بھائی، یہ لیجیے، آج کا بہترین لطیفہ۔سیدھی سادی
وہ جو سامنے دیوار پر آئینہ لگا ہوا ہے۔ اس کے سامنے جاو تمہیں لطیفہ مل جائے گا۔
ہمارے جیسوں کے لیے واقعی پہلے سے لکھ دینا چاہئے ورنہ مشکل میں روفی بھیا ہی نے پڑنا ہوتا۔یہ زیادہ اچھا تھا ۔۔۔
ویسے کچھ لوگوں کے لیے لکھ دیا کریں۔۔۔ یہاں ہنسنا ہے ۔۔۔ورنہ اگر کبھی آپ نے لطیفے کی صورت میں لکھ دیا کہ کہ ایک دن چھوٹے بھائی نے اپنی بڑی بہن سے پوچھا ہے جو کسی بات پر بھری بیٹھی تھی پوچھا کہ باجی یہ بارش کا پانی کہاں جاتا ہے تو اس نے تنک کر جواب دیا میرے سر میں ۔۔تو چھوٹے بھائی نے سر ہلاتے ہوئے معصومیت سے کہا اچھا جب ہی تو کہوں آپ کو نزلہ کیوں رہتا ہے ۔۔۔۔ اب کچھ پڑھنے والے سوال کر سکتے ہیں کہ بھئی تو نزلے کی ویکسین کروانی تھی نہ ۔۔۔پھر آپ کو کہنا پڑے گا ۔۔۔۔۔۔لطیفہ ہے بھئی ۔ ۔۔
انعام بھی تو ملنا چاہئے نا اباکمل زیدی بھائی، یہ لیجیے، آج کا بہترین لطیفہ۔
اس میں لطیفہ نظر نہیں آرہا ؟؟
بجلی کی تاروں پہ کپڑے ڈالی رہی ہیں خاتون۔اس میں لطیفہ نظر نہیں آرہا ؟؟
کیا ہماری نظر کمزور تو نہیں ہوگئی۔
نہیں نہیں بجلی کے تا ر نہیں لگ رہے مجھے کیونکہ سب ہی گیلریوں میں کپڑے پھیلانے کے لیئے ڈنڈے نظر آرہے ہیں جن پر رسی باندھی جاتی ہے۔بجلی کی تاروں پہ کپڑے ڈالی رہی ہیں خاتون۔
آدمی بامذاق معلوم ہوتا ہے۔اس دور کے تعلیم یافتہ نوجوانوں سے بات کرتے جی ڈرتا ہے کہ خدا جانے یہ ہونہار کس بات کا کیا جواب دے کر کتنا صدمہ پہنچا دیں؟
آپ کو شاید یقین نہ آئے مگر یہ لطیفہ نہیں واقعہ ہے کہ ایک گریجویٹ قسم کے بحرالعلوم سے حال ہی میں ملنے کا اتفاق ہوا ادھر ادھر کی دو چار ادبی باتوں کے بعد ان محترم نے یہ سوال کر کے آئینۂ حیرت بنادیا کہ ’دیوان غالب میں کچھ غزلیں اسد کی بھی ہیں کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ ان کا دیوان الک چھاپ دیا جائے؟'۔ ظاہر ہے کہ اس سوال پر پہلا گمان خوش طبعی کا ہوسکتا ہے
مگر جب یہ معلوم ہوا کہ وہ حضرت مزاح نہیں فرما رہے بلکہ واقعی دیوان غالب میں کلام اسد دیکھنے کے روادار نہیں تو ان سے پوچھنا پڑا کہ جناب کس یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں تاکہ اپنے بچوں کو اس یونیورسٹی سے بچانے کی کوشش کی جائے۔😎😎😎😎😎😎