ابھی کچھ لوگ باقی ہیں
جو اچھا سوچ سکتے ہیں
ترنم گھول سکتے ہیں
محبت بول سکتے ہیں
تبسم اوڑھ سکتے ہیں
دلوں کو جوڑ سکتے ہیں
تمہارے ساتھ چلنے کو
زمانہ چھوڑ سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں
جو اچھا سوچ سکتے ہیں
تصنّع سے مبرا ہیں
متانت سے مرصّع ہیں
وضع داری کا پیکر ہیں
رواداری کا مظہر ہیں
نئے رستے بناتے ہیں
نئے رشتے سجاتے ہیں
شہر سے جب نکلتے ہیں
تو صحراؤں میں رکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں
جو اچھا سوچ سکتے ہیں
یہ علم و فن کے پروانے
کسی کو مان دیتے ہیں
کسی کی مان لیتے ہیں
کسی کو کم نہیں کہتے
سفر میں دم نہیں لیتے
زمیں آباد کرتے ہیں
فلک کو کھوج سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں
جو اچھا سوچ سکتے ہیں
کوئی جو ڈھونڈنا چاہے
انہیں گر کھوجنا چاہے
تو خود میں جھانک کر دیکھے
بڑی سچائی سے سوچے
بہت اچھائی سے سوچے
تو ان لوگوں میں آئے گا
جو طوفاں موڑ سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں
جو اچھا سوچ سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں
جو اپنے شیریں لہجے سے
خوشبو گھول سکتے ہیں
جو اردو بول سکتے ہیں
خالد میر