لفظ ڈھونڈیں ۔ دو

سیما علی

لائبریرین
ارے یہ تو آپ نے آسان دیا تھا۔تین حروف سرخ بھی تھے، اوپر سے اشارہ بھی۔کوئی بھی آرام سے بوجھ لیتا۔
ہم ہمیشہ سوال بنانے میں اپنے آپ کو رکھ کے سوچتے ہیں :):):):):)
Negative Markings ہم نے بڑی بھگتیں ہیں بینکنگ کے امتحانوں میں:p
 

سیما علی

لائبریرین
ارے یہ تو آپ نے آسان دیا تھا۔تین حروف سرخ بھی تھے، اوپر سے اشارہ بھی۔کوئی بھی آرام سے بوجھ لیتا۔
اور امتحان ہوتا ہے Presence of mind کا اور بینکرز کا ۔۔۔۔۔دماغ کسٹمر کھا چکے ہوتے ہیں پروفیشنل امتحان نوکری میں رہتے کلیر کرنا جہاد ہے ۔۔۔۔
 

یاسر شاہ

محفلین
جی آپی یہ افسانہ ہمیں تو اس لیے پڑھنا پڑا کہ گریجویشن کے اردو کے نصاب میں شامل تھا۔بہرحال اب دو ایک روز پہلے دوبارہ پڑھا ہنسنے کے لیے اور مکمل پڑھا کیونکہ نصاب میں سنسرڈ تھا ،سہیلی کا جواب خط نہ تھا۔مکمل پڑھ کے فورا بیگم سے پوچھا تم سہیلیاں کیا آپس میں بوس و کنار بھی کرتی ہو مسرت میں۔ اس نے کہا نہیں۔تب اس کو کچھ لائنز پڑھ کے سنائیں ۔بہت حیران ہوئی اور کہا یہ آدمی گڑبڑ لگتا ہے۔:D
اندازہ یہی ہوتا ہے کہ سجاد حیدر کوئی آزاد مصنف نہ تھے۔ بلکہ ایک مخصوص کلچر کا فروغ چاہ رہے تھے اور وہ بھی بیسویں صدی کی ابتدا میں۔ایسے افسانے ان لوگوں کے لیے سخت مضر ہیں جو تنقیدی نگاہ نہیں رکھتے، پھسلنے کا خطرہ ہے۔
جواب خط میں سہیلی کا یہ لکھنا کہ ( ) ان بریکٹس کے درمیان بوسہ دو کیونکہ میں نے بھی دیا ہے اور ہونٹوں کا لمس محسوس کرو۔بھلا یہ بھی کوئی بات ہے۔یہ تو وہی لکھ سکتا ہے جس کا قلم کسی ایجنڈا کے ہاتھ فروخت ہو چکا ہو۔ورنہ ان باتوں کی موضوع سے کیا مناسبت ۔

بہرحال کچھ مقامات پہ بہت ہنسی آئی خصوصا شوہر صاحب کی اوٹ پٹانگ فرمائشیں۔بیوی کو فرض کریں کہ اردو محفل ہے اور دیو نما شوہر کی جگہ تصور کریں کہ سب مدیر ہیں تو اور ہنسی آئے گی۔:ROFLMAO:
 

سیما علی

لائبریرین
جی آپی یہ افسانہ ہمیں تو اس لیے پڑھنا پڑا کہ گریجویشن کے اردو کے نصاب میں شامل تھا۔بہرحال اب دو ایک روز پہلے دوبارہ پڑھا ہنسنے کے لیے اور مکمل پڑھا کیونکہ نصاب میں سنسرڈ تھا ،سہیلی کا جواب خط نہ تھا۔مکمل پڑھ کے فورا بیگم سے پوچھا تم سہیلیاں کیا آپس میں بوس و کنار بھی کرتی ہو مسرت میں۔ اس نے کہا نہیں۔تب اس کو کچھ لائنز پڑھ کے سنائیں ۔بہت حیران ہوئی اور کہا یہ آدمی گڑبڑ لگتا ہے۔:D
اندازہ یہی ہوتا ہے کہ سجاد حیدر کوئی آزاد مصنف نہ تھے۔ بلکہ ایک مخصوص کلچر کا فروغ چاہ رہے تھے اور وہ بھی بیسویں صدی کی ابتدا میں۔ایسے افسانے ان لوگوں کے لیے سخت مضر ہیں جو تنقیدی نگاہ نہیں رکھتے، پھسلنے کا خطرہ ہے۔
جواب خط میں سہیلی کا یہ لکھنا کہ ( ) ان بریکٹس کے درمیان بوسہ دو کیونکہ میں نے بھی دیا ہے اور ہونٹوں کا لمس محسوس کرو۔بھلا یہ بھی کوئی بات ہے۔یہ تو وہی لکھ سکتا ہے جس کا قلم کسی ایجنڈا کے ہاتھ فروخت ہو چکا ہو۔ورنہ ان باتوں کی موضوع سے کیا مناسبت ۔

بہرحال کچھ مقامات پہ بہت ہنسی آئی خصوصا شوہر صاحب کی اوٹ پٹانگ فرمائشیں۔بیوی کو فرض کریں کہ اردو محفل ہے اور دیو نما شوہر کی جگہ تصور کریں کہ سب مدیر ہیں تو اور ہنسی آئے گی۔:ROFLMAO:
ہم نے بھی سنسرڈ پڑھا تھا۔۔۔۔۔
 
Top