لفظ!!!

ماشااللہ ۔ خوب کوشش ہے رضا بھائی۔
اور اس دھاگے سے خوب سیکھنے کا موقع بھی ملا۔
حالانکہ نثری نظم سے میں ابھی بھی دور بھاگتا ہوں۔
میرے پلے ہی نہیں پڑتی چھوٹے بڑے مصرعوں کی ترتیب!
عجیب گنجلک سے خیالات کا مجموعہ !:p
 

سید ذیشان

محفلین
عروض کے سلسلے میں آزاد نظموں کا تھوڑا بہت مطالعہ کیا تھا۔ خاص طور پر ن م راشد کی نظمیں۔ تو ان میں ایک رکن کی تکرار والی نظمیں بھی ہیں لیکن ایسی نظمیں بھی ہیں جن میں کئی ارکان ہیں۔ مثالیں درج ذیل ہیں:

1- حسن کوزہ گر نمبر 1 میں فعولن کی تکرار ہے۔
جہاں زاد، نیچے گلی میں ترے در کے آگے
فعولن فعولن فعولن فعولن فعولن
یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ہوں
فعولن فعولن فعولن فعولن

2- حسن کوزہ گر نمبر 2 میں فاعلاتن فَعِلاتن فعلن فَعِلن ان تمام ارکان کا استعمال ہے
اے جہاں زاد نشاط اس شبِ بے راہ روی کی
فعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلاتن
میں کہاں تک بھولوں
فاعلاتن فعلن
زورِ مے تھا
فاعلاتن
کہ مرے ہاتھ کی لرزش
فعلاتن فعلاتن
 

ابن رضا

لائبریرین
ماشااللہ ۔ خوب کوشش ہے رضا بھائی۔
اور اس دھاگے سے خوب سیکھنے کا موقع بھی ملا۔
حالانکہ نثری نظم سے میں ابھی بھی دور بھاگتا ہوں۔
میرے پلے ہی نہیں پڑتی چھوٹے بڑے مصرعوں کی ترتیب!
عجیب گنجلک سے خیالات کا مجموعہ !:p
بہت نوازش اس میں ہم نے صرف خیال اور اختصار کو ترجیح دی کبھی کبھی مادر پدر آزاد بحر میں بھی طبع آزمائی کرلینی چاہیے:):)
 
آخری تدوین:

آوازِ دوست

محفلین
آزاد نظم

لفظ!
حرفوں کا مجموعہ
تو ہیں ہی
یہ کسی بھی تعلق کے تسلسل کی
اساس بھی ہوتے ہیں،
ضمانت بھی!
انہیں ادا کرتے رہا کیجے
کیوں کہ خاموشی
رشتوں کی موت ہے


برائے توجہ اساتذہ
محمد یعقوب آسی صاحب و الف عین صاحب
فاعلاتن ، مفاعلن ، فع
جوابِ آں غزل
خاموشی
جب ا
حساس کھو جائے اے دوست
تو لفظ اکثر خود کُشی کر لیتے ہیں

خود کو بے توقیر مگر نہیں کرتے
بے نیاز سماعتوں کااحساں لے کر

بچھڑتے سمےمیری خامشی کا کیوں گِلہ
اتنی تاخیر سے کوئی بات یاد آئی

دِل سے جو نکلی تھی وہ پُکار بہت دیر تک
بند کِواڑوں پہ سر پٹختی رہی تھی

فضامیں چند لفظوں کا ارتعاش کُچھ نہیں کرتا
دِل کے ساغر میں جب قاتل سکوت ٹہر جائے

تمہاری بے نیاز چاہتوں کی انمول نشانی ہے
یہ خامشی ہماری اناؤں کی کہانی ہے

جب احساس کھو جائے اے دوست تو
لفظوں کی میت پر خاموشی بین کرتی ہے

زاہد

 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
جوابِ آں غزل
خاموشی
جب ا
حساس کھو جائے اے دوست
تو لفظ اکثر خود کُشی کر لیتے ہیں

خود کو بے توقیر مگر نہیں کرتے
بے نیاز سماعتوں کااحساں لے کر

بچھڑتے سمےمیری خامشی کا کیوں گِلہ
اتنی تاخیر سے کوئی بات یاد آئی

دِل سے جو نکلی تھی وہ پُکار بہت دیر تک
بند کِواڑوں پہ سر پٹختی رہی تھی

فضامیں چند لفظوں کا ارتعاش کُچھ نہیں کرتا
دِل کے ساغر میں جب قاتل سکوت ٹہر جائے

تمہاری بے نیاز چاہتوں کی انمول نشانی ہے
یہ خامشی ہماری اناؤں کی کہانی ہے

جب احساس کھو جائے اے دوست تو
لفظوں کی میت پر خاموشی روتی ہے

زاہد
جوابِ آں غزل " چہ معنی دارد"؟؟o_O
کونسی غزل بھیا؟ پہلے غزل تو بتایں پھر جواب بھی دیکھ لیتے ہیں:)
 
میرے پلے ہی نہیں پڑتی چھوٹے بڑے مصرعوں کی ترتیب!

آزاد نظم کی دو بہت عمدہ مثالیں اوپر آ چکیں (جواب نمبر 6 اور جواب نمبر 12)۔ اس میں ہم مصرعے نہیں کہتے؛ (مصرعوں کا باہم ہم وزن ہونا لازمی ہے، وزن ایک سا نہ رہا تو مصرع ہی نہ رہا) سطریں کہتے ہیں۔ ہر سطر کی انفرادی ضخامت کا انحصار آپ کے مضمون اور آپ کے پیرایہء اظہار پر ہے۔ آپ کہاں کس جزو کو کس جزو سے ملا کر دیکھتے ہیں، کس کو الگ رکھتے ہیں، کسے کتنی اہمیت اور قوت دیتے ہیں، کون سے اجزا الگ ہو نہیں سکتے یا آپ ان کو الگ کرنا نہیں چاہتے۔ وزن کا تصور مصرعے کے ساتھ ہے، جب مصرع نہ رہا اور سطر آ گئی تو بات وزن سے گھٹ کر رکن پر آ گئی۔

مقبول طریقہ یہ ٹھہرا کہ آپ سطریں اپنے مضمون اور موضوع اور اظہار اور انداز کے مطابق چھوٹی بڑی کر لیجئے، مگر نظم میں ایک عروضی رکن کی تکرار ہوتی رہے تا آنکہ آپ نظم پوری کر لیں۔ بہاؤ میں اگر آپ ایسی کیفیت لے آتے ہیں کہ معنوی سطح پر کہیں بھی رکنا خود آپ کو محال لگے تو یہ آپ کی کامیابی ہے۔ کیفیت کچھ ایسی بن جاتی ہے کہ "سانس ٹوٹتی ہے تو ٹوٹ جائے، رُکن نہ ٹوٹے تو سونے پر سہاگہ! رکن کو قائم رکھنے میں اخفاء اور اشباع کی ضرورت عین فطری بات ہے سو وہ بھی آزاد نظم میں ہوتی ہے۔ قافیہ اور ردیف کی پابند شاعری والی صورت یہاں نہیں ہوتی تاہم اگر آپ ہم قافیہ الفاظ سلیقے کے ساتھ لا سکیں تو نظم کا حسن نکھرتا ہے۔ املاء، روز مرہ اور محاورہ کی صحت تو خیر زبان و بیان کی کی بنیادی ضرورت ہے۔ ضرب المثل، تلمیح، استعارہ، اشارہ، کنایہ، علامت و رعایت اور دیگر جتنے شعری حربے ہیں وہ سب یہاں کارآمد ہوتے ہیں۔

مختصراً وہی بات، کہ آزاد نظم صرف ہیئت کی حد تک محدود آزادی رکھتی ہے اور اس سے باہر من حیث المجموع شعری نظام کی پابند ہوتی ہے۔ وہ پابندیاں بھی اٹھا لیں تو پھر نظم باقی نہیں رہتی، نثر کی کوئی صورت رہ جائے تو رہ جائے۔
 
آخری تدوین:
آزاد نظم کی دو بہت عمدہ مثالیں اوپر آ چکیں (جواب نمبر 6 اور جواب نمبر 12)۔ اس میں ہم مصرعے نہیں کہتے؛ (مصرعوں کا باہم ہم وزن ہونا لازمی ہے، وزن ایک سا نہ رہا تو مصرع ہی نہ رہا) سطریں کہتے ہیں۔ ہر سطر کی انفرادی ضخامت کا انحصار آپ کے مضمون اور آپ کے پیرایہء اظہار پر ہے۔ آپ کہاں کس جزو کو کس جزو سے ملا کر دیکھتے ہیں، کس کو الگ رکھتے ہیں، کسے کتنی اہمیت اور قوت دیتے ہیں، کون سے اجزا الگ ہو نہیں سکتے یا آپ ان کو الگ کرنا نہیں چاہتے۔ وزن کا تصور مصرعے کے ساتھ ہے، جب مصرع نہ رہا اور سطر آ گئی تو بات وزن سے گھٹ کر رکن پر آ گئی۔

مقبول طریقہ یہ ٹھہرا کہ آپ سطریں اپنے مضمون اور موضوع اور اظہار اور انداز کے مطابق چھوٹی بڑی کر لیجئے، مگر نظم میں ایک عروضی رکن کی تکرار ہوتی رہے تا آنکہ آپ نظم پوری کر لیں۔ بہاؤ میں اگر آپ ایسی کیفیت لے آتے ہیں کہ معنوی سطح پر کہیں بھی رکنا خود آپ کو محال لگے تو یہ آپ کی کامیابی ہے۔ کیفیت کچھ ایسی بن جاتی ہے کہ "سانس ٹوٹتی ہے تو ٹوٹ جائے، رُکن نہ ٹوٹے تو سونے پر سہاگہ! رکن کو قائم رکھنے میں اخفاء اور اشباع کی ضرورت عین فطری بات ہے سو وہ بھی آزاد نظم میں ہوتی ہے۔ قافیہ اور ردیف کی پابند شاعری والی صورت یہاں نہیں ہوتی تاہم اگر آپ ہم قافیہ الفاظ سلیقے کے ساتھ لا سکیں تو نظم کا حسن نکھرتا ہے۔ املاء، روز مرہ اور محاورہ کی صحت تو خیر زبان و بیان کی کی بنیادی ضرورت ہے۔ ضرب المثل، تلمیح، استعارہ، اشارہ، کنایہ، علامت و رعایت اور دیگر جتنے شعری حربے ہیں وہ سب یہاں کارآمد ہوتے ہیں۔

مختصراً وہی بات، کہ آزاد نظم صرف ہیئت کی حد تک محدود آزادی رکھتی ہے اور اس سے باہر من حیث المجموع شعری نظام کی پابند ہوتی ہے۔ وہ پابندیاں بھی اٹھا لیں تو پھر نظم باقی نہیں رہتی، نثر کی کوئی صورت رہ جائے تو رہ جائے۔
بہت خوب سر۔
ماشااللہ آپ جب بھی سمجھاتے ہیں تو نہایت عمدہ طریقے سے سمجھاتے ہیں۔
جزاک اللہ استاد محترم۔
 
جوابِ آں غزل
خاموشی
جب ا
حساس کھو جائے اے دوست
تو لفظ اکثر خود کُشی کر لیتے ہیں

خود کو بے توقیر مگر نہیں کرتے
بے نیاز سماعتوں کااحساں لے کر

بچھڑتے سمےمیری خامشی کا کیوں گِلہ
اتنی تاخیر سے کوئی بات یاد آئی

دِل سے جو نکلی تھی وہ پُکار بہت دیر تک
بند کِواڑوں پہ سر پٹختی رہی تھی

فضامیں چند لفظوں کا ارتعاش کُچھ نہیں کرتا
دِل کے ساغر میں جب قاتل سکوت ٹہر جائے

تمہاری بے نیاز چاہتوں کی انمول نشانی ہے
یہ خامشی ہماری اناؤں کی کہانی ہے

جب احساس کھو جائے اے دوست تو
لفظوں کی میت پر خاموشی روتی ہے

زاہد

زاہد آوازِ دوست بھائی! یہ کیا ہے؟o_O

ہم مبتدیوں کے لیے یہی بہتر ہے کہ ہم اس صنفِ سخن میں پنجہ آزمائی کریں جس کے قواعد و ضوابط ہمارے لیے زیادہ قابلِ فہم ہوں۔ ابھی وزن قافیہ اور ردیف ہی ہمارے لیے زیادہ بہتر ہوگا۔
 

آوازِ دوست

محفلین
JwaTE="آوازِ دوست, post: 1692011, member: 9336"]اگر اس کا نام نثر کر لیں تو چلے گا :)[/QUOTE]
جواب آں غزل کالفظ یہاں صرف لفظ ریسپانس کا مفہوم ادا کرنے کے لیے برتا گیا تھا چلیں بے عزتی خراب ہونا ہی تھی شاید :)
 
JwaTE="آوازِ دوست, post: 1692011, member: 9336"]اگر اس کا نام نثر کر لیں تو چلے گا :)
جواب آں غزل کالفظ یہاں صرف لفظ ریسپانس کا مفہوم ادا کرنے کے لیے برتا گیا تھا چلیں بے عزتی خراب ہونا ہی تھی شاید :)[/QUOTE]
دل چھوٹا نہ کیجیے۔ ہم مبتدی اپنی غلطیوں ہی سے سیکھتے ہیں۔ ہوجائے ایک غزل
 
مجھے نثر کا ایک بہت شاندار نمونہ (ایک کتاب کے دیباچے کی صورت میں) پڑھنے کا موقع ملا۔
وہ خاصے کی چیز ہے۔ جملوں کی ترتیبِ نحوی کے مطابق مکمل نثر اور پڑھنے میں نثر کی نثر نظم کی نظم (ایک رکن کی تکرار)۔ کہیں مل گیا تو پیش کر دوں گا۔
محمد خلیل الرحمٰن
سلیم کوثر کی : نثر کی نثر، نظم کی نظم (2)
سلیم کوثر کی کتاب "ذرا موسم بدلنے دو" کے دیباچے کا آخری پیرا گراف، ان کے اپنے قلم سے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
"فاعلن مفاعیلُن" کی تکرار
zara%2Bmausam%2Bbadalnay%2Bdo%2Bdibacha.jpg
 
مجھے نثر کا ایک بہت شاندار نمونہ (ایک کتاب کے دیباچے کی صورت میں) پڑھنے کا موقع ملا۔
وہ خاصے کی چیز ہے۔ جملوں کی ترتیبِ نحوی کے مطابق مکمل نثر اور پڑھنے میں نثر کی نثر نظم کی نظم (ایک رکن کی تکرار)۔ کہیں مل گیا تو پیش کر دوں گا۔
محمد خلیل الرحمٰن
نثر کی نثر نظم کی نظم (1)
سلیم کوثر کی کتاب "یہ چراغ ہے تو جلا رہے" کا دیباچہ، ان کے اپنے قلم سے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
مفاعیلُن کی دم شکن تکرار
YCHTJR-saleem%2Bkausar%2Bdibacha.jpg
 
مزہ آگیا استادِ محترم۔
دوسرا پیراگراف جس میں مفاعیلن کی تکرار ہے، کمال ہے۔ اس میں تو احساس ہی نہیں ہوا کہ ہم نظم نہیں نثر پڑھ رہے ہیں۔ جبکہ پہلے پیراگراف میں یہ احساس شدت سے ہوا کہ یہ نظم ہے جسے پیراگراف کی شکل میں لکھ دیا ہے۔یہ صرف ہمارا تاثر ہے۔
 
مجھے نثر کا ایک بہت شاندار نمونہ (ایک کتاب کے دیباچے کی صورت میں) پڑھنے کا موقع ملا۔
وہ خاصے کی چیز ہے۔ جملوں کی ترتیبِ نحوی کے مطابق مکمل نثر اور پڑھنے میں نثر کی نثر نظم کی نظم (ایک رکن کی تکرار)۔ کہیں مل گیا تو پیش کر دوں گا۔
محمد خلیل الرحمٰن
آپ کا خصوصی طور پر شکریہ کہ آپ نے اپنا وعدہ یاد رکھا اور اہتمام سے نبھایا۔ جزاک اللہ الخیر
 

ابن رضا

لائبریرین
Top