لونڈی اور بیوی میں فرق!

شاہد شاہ

محفلین
ایسا حکم اگر غلاموں اور لونڈیوں کے متعلق بھی آ جاتا تو کیا صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین فی الفور تمام غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد نہ کر دیتے؟
اگر ایسا واقعی ہو جاتا تو کم از کم آجکل کے مسلمانوں کو جدید دنیا کو دکھانے کیلئے کچھ تو ہوتا جو انہوں نے ان سے ۱۴۰۰ سال پہلے ہی کر لیا
 
آخری تدوین:

شاہد شاہ

محفلین
ہماری رائے میں ان حقائق کے پیش نظر اسلام نظریہ غلامی آج کے قید کے تصور سے بہرحال بہتر اور بہت بہتر ہے۔ چاہے الفاظ کو کتنا ہی بھیانک بنا کر پیش کیا جائے۔
گو کہ آپ سے مذہبی سوچ کی وجہ سے اختلاف رہتا ہے مگر یہاں آپکی بات بالکل درست ہے کہ جہاں مغرب میں غلامی کو بین کیا گیا وہیں جیل اور قید خانوں کی بھرتیوں میں واضح اضافہ نظر آیا۔ صرف امریکہ کی ہے جیل کی آبادی ایک المیہ ہے اور اسکی عالمی ساخت پر سیاہ دھبا ثابت ہو رہی ہے۔
350px-United_States_correctional_population.svg.png

تا حیات قید کیا کسی غلامی سے کم ہے؟ بہرحال مسلمانوں کی غلامی سے متعلق ایک واقعہ ڈنمارک آکر معلوم ہوا۔ ۱۶ ویں صدی میں شمالی افریقہ کے مسلمان قزاق خراب موسم کے باعث آئی ایس لینڈ کے راستے بھٹک گئے۔ وہاں حملہ کرکے بچوں کو غلام بنا کر ساتھ لے گئے۔ ڈنمارک جو اسوقت خود ان دھندوں میں ملوث تھا نے ان غلاموں کو بازیاب کروانے کی کافی کوشش مگر انکا کچھ پتا نہیں چلا کہ کہاں گئے۔
کئی سالوں بعد یہ بچے جوان ہو کر واپس لوٹے تو اکثر کے پاس وافر مقدار میں دولت موجود تھی۔ انکے گھر والے بھی حیران تھے کہ یہ تو غلام بن کر گئے تھے تو یہ خزانے لیکر کہاں سے آ رہے ہیں۔ بعد میں ان بچوں نے اپنی غلامی کی زندگی کو بقلم ریکارڈ کیا تو پتا چلا کہ غلامی کے اوائل کے دنوں میں ان سے بہت ظلم روا رکھا گیا۔ مگر آہستہ آہستہ وہ اس نئی زندگی سے مانوس ہو کر مسلمان ہو گئے۔ یوں اذیت کی زندگی تو ختم ہو گئی مگر غلامی کا اسٹیٹس کا ختم نہ ہوا۔
جب انکے مالک ادھیڑ عمری کو پہنچے تو ان بچوں کو ایک غار میں لے گئے جہاں قذاقوں کی عمر بھی کی دولت موجود تھی۔ انکے مالکان نے انکو فوری آزاد کرکے ساری دولت تقسیم کردی اور ساتھ حکم جاری کیا کہ یہ تمہاری عمر بھر کئ غلامی کا صلہ ہے۔ جاؤ اسے واپس وہیں لے جاؤ جہاں سے آئے تھے۔ یوں یہ بچے آزاد اور امرا بن کر واپس وطن کو لوٹے۔ یاد رہے کہ یہ صرف ایک اچھا واقعہ ہے۔ اسے غلامی کے حق میں ہرگز استعمال نہ کیا جائے۔
 

فرقان احمد

محفلین
اگر ایسا واقعی ہو جاتا تو کم از کم آجکل کے مسلمانوں کو جدید دنیا کو دکھانے کیلئے کچھ تو ہوتا جو انہوں نے ان سے ۱۴۰۰ سال پہلے ہی کر لیا
آپ کا یہ سرسری تبصرہ نہایت نامناسب ہے۔ جدید دنیا ارتقائی سفر طے کر کے یہاں تک پہنچی ہے اور مسلمانوں نے بھی علوم و فنون کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔اسلامی تعلیمات میں خامیاں ہیں تو ان کو ہائی لائیٹ کریں؛ اس طرح کی سویپنگ اسٹیٹمنٹ دینا ناانصافی ہے۔
اس موضوع سے کچھ ہٹ کر ۔۔۔!
دراصل ترقی پذیر ممالک میں بوجوہ اخلاقی تنزلی سرایت کر چکی ہے جس میں کمزور معیشت کا بڑا عمل دخل ہے۔ نوجوانوں کے پاس آگے بڑھنے کے مواقعوں کی کمی ہے جس میں بجا طور پر یہاں کے ماضی کے حکمرانوں کی کوتاہیاں شامل رہی ہوں گی۔ نوآبادیاتی دور میں گو کہ ان ملکوں کے باشندگان کا استحصال بھی ہوتا رہا۔ اور اب یہ عالم ہے کہ اس دنیا میں سولہ ملکوں کے پاس چھیاسی روپے اور چھیاسی ملکوں کے پاس سولہ روپے ہیں؛ اس سے فرق تو پڑتا ہے۔ مسلم دنیا کی کوتاہیاں اپنی جگہ، تاہم، گزشتہ سو ڈیڑھ سو برس میں مغرب کی ترقی دیکھ کر یک طرفہ فیصلہ صادر کرنا مناسب نہیں۔ کبھی یہ وقت مغرب پر بھی آیا تھا۔ یہاں پر بھی حالات بدلیں گے، جلدیا بدیر۔ یوں بھی دیکھ لیجیےکہ غیر مسلم ترقی پذیر ممالک کا بھی حال پتلا ہے، اس لیے معاملے کو صرف مذہب کے زاویے سے نہ دیکھیں تو مناسب رہے گا۔شاید یہ بات یہاں رہنے بسنے والوں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر معاملے میں مذہب کو لے کر آجانا غیرمناسب ہے۔ ہماری ترقی کی راہ میں یہ بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے تاہم ایسی بات کرنے والوں پر سیکولر یا لبرل ہونے کا ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے اس لیے چپ ہی بھلی ہے بس! ہم دو انتہاؤں کے درمیان زندہ ہیں؛ اگر زندہ ہیں بھی تو! :)
 

زیک

مسافر
آپ کا یہ سرسری تبصرہ نہایت نامناسب ہے۔ جدید دنیا ارتقائی سفر طے کر کے یہاں تک پہنچی ہے اور مسلمانوں نے بھی علوم و فنون کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔اسلامی تعلیمات میں خامیاں ہیں تو ان کو ہائی لائیٹ کریں؛ اس طرح کی سویپنگ اسٹیٹمنٹ دینا ناانصافی ہے۔
ساتویں صدی سے اب تک غلامی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کیا تھیں اور مسلمانوں نے کیا کیا یہ ماضی کا حصہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ تسلیم کیا جائے کہ یہ اس وقت کی بات تھی اور اب ہم غلامی کو بہت برا سمجھتے ہیں۔ اگر ماضی کی خامیوں کا دفاع ہی کرتے رہیں گے تو بات اٹکی رہے گی۔ ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ تاریخ صحیح طریقے سے پڑھائی جائے۔ پڑھے لکھے اچھے خاصے لوگوں سے بھی آجکل غلامی کی تاریخ پر بات ہو تو انہیں صرف امریکی چیٹل سلیوری ہی کا علم ہوتا ہے۔

اس سارے معاملے میں مذہبی حلقے (خاص طور پر سنی اور اہل حدیث وغیرہ) کی طرف سے ایک رکاوٹ یہ بھی ہے کہ وہ کسی بھی تبدیلی کو جائز نہیں سمجھتے حالانکہ تمام مسلمان اپنے عمل سے روز ثابت کر رہے ہیں کہ مذہب وقت و مکان کے ساتھ بدلتا رہا ہے اور بدلتا رہے گا۔
 

فرقان احمد

محفلین
ساتویں صدی سے اب تک غلامی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کیا تھیں اور مسلمانوں نے کیا کیا یہ ماضی کا حصہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ تسلیم کیا جائے کہ یہ اس وقت کی بات تھی اور اب ہم غلامی کو بہت برا سمجھتے ہیں۔ اگر ماضی کی خامیوں کا دفاع ہی کرتے رہیں گے تو بات اٹکی رہے گی۔ ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ تاریخ صحیح طریقے سے پڑھائی جائے۔ پڑھے لکھے اچھے خاصے لوگوں سے بھی آجکل غلامی کی تاریخ پر بات ہو تو انہیں صرف امریکی چیٹل سلیوری ہی کا علم ہوتا ہے۔

اس سارے معاملے میں مذہبی حلقے (خاص طور پر سنی اور اہل حدیث وغیرہ) کی طرف سے ایک رکاوٹ یہ بھی ہے کہ وہ کسی بھی تبدیلی کو جائز نہیں سمجھتے حالانکہ تمام مسلمان اپنے عمل سے روز ثابت کر رہے ہیں کہ مذہب وقت و مکان کے ساتھ بدلتا رہا ہے اور بدلتا رہے گا۔

اسلامی تعلیمات تو وہی تھیں جو کہ اب تک ہیں۔ اب اس کی تعبیرات و تشریحات جو کچھ بھی ہوتی رہیں، وہ ہمارے سامنے ہیں۔ مسلمانوں کی کوتاہیوں سے کسے مفر ہے؟ غلامی کے حوالے سے یہ بات ایک سے زائد بار ڈسکس ہو چکی ہے کہ اسلام نے اسے پروموٹ نہیں کیا۔ یہ بات آپ کی بالکل درست ہے کہ ہم زیادہ تر تبدیلیوں کو ناجائز تصور کرتے ہیں چاہے وہ اسلامی تعلیمات سے متصادم نہ بھی ہوں۔ اس رویے سے تو ہم خود عاجز ہیں۔
 

زیک

مسافر
اب یہ عالم ہے کہ اس دنیا میں سولہ ملکوں کے پاس چھیاسی روپے اور چھیاسی ملکوں کے پاس سولہ روپے ہیں؛

غیر مسلم ترقی پذیر ممالک کا بھی حال پتلا ہے،
حالات بدلیں گے نہیں بلکہ بدل رہے ہیں۔ موقع ملے تو Hans Rosling کی اس بارے میں کچھ ویڈیوز ضرور دیکھیں۔ اس کے گراف اور انداز بہت زبردست ہے اور وہ آپ کو قائل کر دے گا کہ دنیا کافی حد تک ترقی کر رہی ہے اور غربت میں کافی کمی ہوئی ہے
 

فہد اشرف

محفلین
اگرچہ یہاں علماء نے بھی اظہار خیال کیا مگر میرے سامنے تو ایک ہی بات نکھر کر آئی کہ اگر احسان اللہ صاحب ساری بھارتی فوج سے لڑ کر بھارت سے کوئی مدھو بالا لونڈی بنا کر لے بھی آئے تو انہیں یہاں کوئی سکون سے رہنے نہیں دے گا۔
اس سے ایک اور سوال اٹھتا ہے کہ کیا مسلمان لڑکی کو بھی لونڈی بنایا جا سکتا ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
میں اس کے مرنے کے دکھ میں مدھو بالا کا مذہب تو بھول ہی گیا۔
یعنی ایک پٹھان مسلمان عطاء اللہ خان دہلوی مرحوم اور عائشہ بیگم مرحومہ کی مرحومہ صاحبزادی ممتاز جہاں بیگم دہلوی کو لونڈی بنا کر رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔ کیا کہنے
 
اس سے ایک اور سوال اٹھتا ہے کہ کیا مسلمان لڑکی کو بھی لونڈی بنایا جا سکتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ نہیں بنایا جا سکتا، میں نے "کوئی مدھو بالا" کا لفط استعمال کیا تھا یعنی کوئی بظاہر حسینہ بھارتی اداکارہ ۔ مدھوبالا بطور علامت استعمال کیا تھا۔
 

سید ذیشان

محفلین
ساتویں صدی سے اب تک غلامی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کیا تھیں اور مسلمانوں نے کیا کیا یہ ماضی کا حصہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ تسلیم کیا جائے کہ یہ اس وقت کی بات تھی اور اب ہم غلامی کو بہت برا سمجھتے ہیں۔ اگر ماضی کی خامیوں کا دفاع ہی کرتے رہیں گے تو بات اٹکی رہے گی۔ ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ تاریخ صحیح طریقے سے پڑھائی جائے۔ پڑھے لکھے اچھے خاصے لوگوں سے بھی آجکل غلامی کی تاریخ پر بات ہو تو انہیں صرف امریکی چیٹل سلیوری ہی کا علم ہوتا ہے۔

اس سارے معاملے میں مذہبی حلقے (خاص طور پر سنی اور اہل حدیث وغیرہ) کی طرف سے ایک رکاوٹ یہ بھی ہے کہ وہ کسی بھی تبدیلی کو جائز نہیں سمجھتے حالانکہ تمام مسلمان اپنے عمل سے روز ثابت کر رہے ہیں کہ مذہب وقت و مکان کے ساتھ بدلتا رہا ہے اور بدلتا رہے گا۔

2014 میں اس سلسلے میں کچھ پیش رفت ہوئی تھی۔ لیکن اس بات کی پھر بھی ضرورت ہے کہ اس قسم کے ڈکلریشنز میں اور بھی مسلمان علماء کو شامل ہونا چاہیے۔
 

زیک

مسافر
حال ہی میں ایک حدیث نظر سے گزری جس میں کہا گیا ہے کہ جو غلام آزادی کو اتنا چاہے کہ بھاگ جائے اس کی نماز کسی صورت تسلیم نہ کی جائے گی۔ یعنی اسلام غلام کی آزادی کے اتنا خلاف ہے کہ اسے ایسی سخت وعید دے رہا ہے


اس سے پہلے کہ احباب ترمذی کی اس حدیث کو ضعیف قرار دیں ربط پر یہ حسن درج ہے۔
 
Top