ڈرتے ڈرتے کا لاحقہ اسلئے ساتھ لگاتے ہیں کہ سچ بولنے پر منفی ریٹنگ نہ مل جائے؟ڈرتے ڈرتے
ڈرتے ڈرتے کا لاحقہ اسلئے ساتھ لگاتے ہیں کہ سچ بولنے پر منفی ریٹنگ نہ مل جائے؟ڈرتے ڈرتے
اگر ایسا واقعی ہو جاتا تو کم از کم آجکل کے مسلمانوں کو جدید دنیا کو دکھانے کیلئے کچھ تو ہوتا جو انہوں نے ان سے ۱۴۰۰ سال پہلے ہی کر لیاایسا حکم اگر غلاموں اور لونڈیوں کے متعلق بھی آ جاتا تو کیا صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین فی الفور تمام غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد نہ کر دیتے؟
گو کہ آپ سے مذہبی سوچ کی وجہ سے اختلاف رہتا ہے مگر یہاں آپکی بات بالکل درست ہے کہ جہاں مغرب میں غلامی کو بین کیا گیا وہیں جیل اور قید خانوں کی بھرتیوں میں واضح اضافہ نظر آیا۔ صرف امریکہ کی ہے جیل کی آبادی ایک المیہ ہے اور اسکی عالمی ساخت پر سیاہ دھبا ثابت ہو رہی ہے۔ہماری رائے میں ان حقائق کے پیش نظر اسلام نظریہ غلامی آج کے قید کے تصور سے بہرحال بہتر اور بہت بہتر ہے۔ چاہے الفاظ کو کتنا ہی بھیانک بنا کر پیش کیا جائے۔
دل شکنی سے ڈرتے ہیں ہم۔ڈرتے ڈرتے کا لاحقہ اسلئے ساتھ لگاتے ہیں کہ سچ بولنے پر منفی ریٹنگ نہ مل جائے؟
آپ کا یہ سرسری تبصرہ نہایت نامناسب ہے۔ جدید دنیا ارتقائی سفر طے کر کے یہاں تک پہنچی ہے اور مسلمانوں نے بھی علوم و فنون کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔اسلامی تعلیمات میں خامیاں ہیں تو ان کو ہائی لائیٹ کریں؛ اس طرح کی سویپنگ اسٹیٹمنٹ دینا ناانصافی ہے۔اگر ایسا واقعی ہو جاتا تو کم از کم آجکل کے مسلمانوں کو جدید دنیا کو دکھانے کیلئے کچھ تو ہوتا جو انہوں نے ان سے ۱۴۰۰ سال پہلے ہی کر لیا
ساتویں صدی سے اب تک غلامی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کیا تھیں اور مسلمانوں نے کیا کیا یہ ماضی کا حصہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ تسلیم کیا جائے کہ یہ اس وقت کی بات تھی اور اب ہم غلامی کو بہت برا سمجھتے ہیں۔ اگر ماضی کی خامیوں کا دفاع ہی کرتے رہیں گے تو بات اٹکی رہے گی۔ ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ تاریخ صحیح طریقے سے پڑھائی جائے۔ پڑھے لکھے اچھے خاصے لوگوں سے بھی آجکل غلامی کی تاریخ پر بات ہو تو انہیں صرف امریکی چیٹل سلیوری ہی کا علم ہوتا ہے۔آپ کا یہ سرسری تبصرہ نہایت نامناسب ہے۔ جدید دنیا ارتقائی سفر طے کر کے یہاں تک پہنچی ہے اور مسلمانوں نے بھی علوم و فنون کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔اسلامی تعلیمات میں خامیاں ہیں تو ان کو ہائی لائیٹ کریں؛ اس طرح کی سویپنگ اسٹیٹمنٹ دینا ناانصافی ہے۔
ساتویں صدی سے اب تک غلامی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کیا تھیں اور مسلمانوں نے کیا کیا یہ ماضی کا حصہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ تسلیم کیا جائے کہ یہ اس وقت کی بات تھی اور اب ہم غلامی کو بہت برا سمجھتے ہیں۔ اگر ماضی کی خامیوں کا دفاع ہی کرتے رہیں گے تو بات اٹکی رہے گی۔ ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ تاریخ صحیح طریقے سے پڑھائی جائے۔ پڑھے لکھے اچھے خاصے لوگوں سے بھی آجکل غلامی کی تاریخ پر بات ہو تو انہیں صرف امریکی چیٹل سلیوری ہی کا علم ہوتا ہے۔
اس سارے معاملے میں مذہبی حلقے (خاص طور پر سنی اور اہل حدیث وغیرہ) کی طرف سے ایک رکاوٹ یہ بھی ہے کہ وہ کسی بھی تبدیلی کو جائز نہیں سمجھتے حالانکہ تمام مسلمان اپنے عمل سے روز ثابت کر رہے ہیں کہ مذہب وقت و مکان کے ساتھ بدلتا رہا ہے اور بدلتا رہے گا۔
اب یہ عالم ہے کہ اس دنیا میں سولہ ملکوں کے پاس چھیاسی روپے اور چھیاسی ملکوں کے پاس سولہ روپے ہیں؛
حالات بدلیں گے نہیں بلکہ بدل رہے ہیں۔ موقع ملے تو Hans Rosling کی اس بارے میں کچھ ویڈیوز ضرور دیکھیں۔ اس کے گراف اور انداز بہت زبردست ہے اور وہ آپ کو قائل کر دے گا کہ دنیا کافی حد تک ترقی کر رہی ہے اور غربت میں کافی کمی ہوئی ہےغیر مسلم ترقی پذیر ممالک کا بھی حال پتلا ہے،
اس سے ایک اور سوال اٹھتا ہے کہ کیا مسلمان لڑکی کو بھی لونڈی بنایا جا سکتا ہے۔اگرچہ یہاں علماء نے بھی اظہار خیال کیا مگر میرے سامنے تو ایک ہی بات نکھر کر آئی کہ اگر احسان اللہ صاحب ساری بھارتی فوج سے لڑ کر بھارت سے کوئی مدھو بالا لونڈی بنا کر لے بھی آئے تو انہیں یہاں کوئی سکون سے رہنے نہیں دے گا۔
یہ بھی اچھا سوال ہے۔ اس پہلو سے تو ابھی تک شاید بات ہی نہ ہوئی تھی۔اس سے ایک اور سوال اٹھتا ہے کہ کیا مسلمان لڑکی کو بھی لونڈی بنایا جا سکتا ہے۔
میں اس کے مرنے کے دکھ میں مدھو بالا کا مذہب تو بھول ہی گیا۔اس سے ایک اور سوال اٹھتا ہے کہ کیا مسلمان لڑکی کو بھی لونڈی بنایا جا سکتا ہے۔
یعنی ایک پٹھان مسلمان عطاء اللہ خان دہلوی مرحوم اور عائشہ بیگم مرحومہ کی مرحومہ صاحبزادی ممتاز جہاں بیگم دہلوی کو لونڈی بنا کر رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔ کیا کہنےمیں اس کے مرنے کے دکھ میں مدھو بالا کا مذہب تو بھول ہی گیا۔
میرا خیال ہے کہ نہیں بنایا جا سکتا، میں نے "کوئی مدھو بالا" کا لفط استعمال کیا تھا یعنی کوئی بظاہر حسینہ بھارتی اداکارہ ۔ مدھوبالا بطور علامت استعمال کیا تھا۔اس سے ایک اور سوال اٹھتا ہے کہ کیا مسلمان لڑکی کو بھی لونڈی بنایا جا سکتا ہے۔
ساتویں صدی سے اب تک غلامی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کیا تھیں اور مسلمانوں نے کیا کیا یہ ماضی کا حصہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ تسلیم کیا جائے کہ یہ اس وقت کی بات تھی اور اب ہم غلامی کو بہت برا سمجھتے ہیں۔ اگر ماضی کی خامیوں کا دفاع ہی کرتے رہیں گے تو بات اٹکی رہے گی۔ ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ تاریخ صحیح طریقے سے پڑھائی جائے۔ پڑھے لکھے اچھے خاصے لوگوں سے بھی آجکل غلامی کی تاریخ پر بات ہو تو انہیں صرف امریکی چیٹل سلیوری ہی کا علم ہوتا ہے۔
اس سارے معاملے میں مذہبی حلقے (خاص طور پر سنی اور اہل حدیث وغیرہ) کی طرف سے ایک رکاوٹ یہ بھی ہے کہ وہ کسی بھی تبدیلی کو جائز نہیں سمجھتے حالانکہ تمام مسلمان اپنے عمل سے روز ثابت کر رہے ہیں کہ مذہب وقت و مکان کے ساتھ بدلتا رہا ہے اور بدلتا رہے گا۔
کیوں؟میرا خیال ہے کہ نہیں بنایا جا سکتا