لیفٹننٹ کرنل ہارون اسلام شہید

محمد وارث

لائبریرین
دونوں طرف لڑنے والے اگر مسلمان ہوں تو طرفین کے مہلوکین کو شہید اس وقت کہا جائے گا یا یہ کہ بقول آپ کے خاموشی اس وقت اختیار کی جائیگی ، جب دونوں طرف واقعتا ”سچے مسلمان“ ہوں ، اور ان کی اس لڑائی سے نیت خالصتا رضائے الہی اور اعلائ کلمۃ‌اللہ ہو ، نہ یہ کہ حاکم وقت کی اطاعت، یا کوئی اور نیت ، اور یہ بات صحابہ اور تابعین کے اندر تو پائی جاسکتی ہے ، اس لئے کہ ان کے بارے میں یہ سوچنا محال ہے کہ وہ آپس میں کسی دنیوی غرض سے لڑرہے تھے

محترم جب "سوچیں" گے ہی نہیں‌ تو صحیح بات کیسے معلوم ہوگی؟ کیا لشکرِ شام میں صحابہ و تابعین نہیں تھے؟ کیا قرآن کو نیزوں پر اٹھانے والے، رضائے الٰہی پر عمل کر رہے تھے؟ کیا "خلافت" دنیوی غرض نہیں‌ تھی؟ تھوڑا سا تو سوچیے۔

امید ہے برا نہیں‌ مانیں گے۔
 

سید ابرار

محفلین
یہ سن کر مجھے حیرت ہوئی ہے۔ میری معلومات کے مطابق کچھ ہفتے قبل تک صرف تیرہ یورپی یونین کے ممالک کے باشندوں کو امریکہ جانے کے لئے صرف پاسپورٹ درکار ہوتا تھا ویزہ نہیں۔ ابھی نئی پالیسی کے مطابق ان تیرہ ممالک کے باشندوں کو بھی روانگی سے 48 گھنٹے پہلے ویب سائٹ کے ذریعے اجازت نامہ لینا ضروری ہو چکا ہے۔ اگر اجازت نامہ نہ ہو تو اس فرد کو واپس اس کے ملک ڈی پورٹ بھی کیا جا سکتا ہے
قیصرانی صاحب غلطی کی طرف توجہ دلانے کا شکریہ، میں ویزا ہی کہنے جارہا تھا ، غلطی سے لفظ پاسپورٹ آگیا ، اور جو تعداد آپ نے بتائی ہے ممکن ہے وہی صحیح ہو ،
 

سید ابرار

محفلین
محترم جب "سوچیں" گے ہی نہیں‌ تو صحیح بات کیسے معلوم ہوگی؟ کیا لشکرِ شام میں صحابہ و تابعین نہیں تھے؟ کیا قرآن کو نیزوں پر اٹھانے والے، رضائے الٰہی پر عمل کر رہے تھے؟ کیا "خلافت" دنیوی غرض نہیں‌ تھی؟ تھوڑا سا تو سوچیے۔
امید ہے برا نہیں‌ مانیں گے۔
بات تو آپ کی صحیح ہے کہ سوچنا چاہئے اور حکم لگانا چاہئے تاکہ آئندہ آنے والے مسلمان اس قسم کی غلطی سے محفوظ رہیں ، مگر مسئلہ چونکہ صحابہ کا ہے اور احادیث کی رو سے سب جنتی ہیں ، اس لئے جمھور امت کا کہنا ہے کہ اس سلسلہ میں خاموشی اختیار کی جائے ، اور اس کو اللہ پر چھوڑدیا جائے وہی بھتر فیصلہ کرے گا ، اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہم ”سوچ “ بھی لیں، اور کسی ایک فریق کے بارے میں فیصلہ کربھی لیں کہ یہ غلطی پر تھا لہذا یہ باغی ہے اور جھنم میں جائے گا تو ان آیات قرآنیہ اور احادیث کی مخالفت لازم آئے گی ، جن سے تمام صحابہ کا جنتی ہونا ، نیز ان سے محبت کاحکم اور نفرت سے منع کیا گیا ہے ، لھذا بھتر ہے ہم خاموش ہی رہیں اور دونوں کے بارے میں حسن ظن رکھیں، اور منافقین تو ہر دور میں رہے ہیں ، اس جنگ کے اصل ذمہ دار بھی منافقین ہی تھے ، جو دونوں فریقین مین موجود تھے ، جن کی وجہ سے صورتحال اس قدر شدید ہوگئی تھی ، بہر حال اس موضوع پر میرا مطالعہ کم ہے ،
 

سید ابرار

محفلین
محترم جب "سوچیں" گے ہی نہیں‌ تو صحیح بات کیسے معلوم ہوگی؟ کیا لشکرِ شام میں صحابہ و تابعین نہیں تھے؟ کیا قرآن کو نیزوں پر اٹھانے والے، رضائے الٰہی پر عمل کر رہے تھے؟ کیا "خلافت" دنیوی غرض نہیں‌ تھی؟
خلافت کا قیام ایک شرعی حکم ہے جس کی ذمہ داری دنیا میں بسنے والے ہر مسلمان پر ہے ، اور ہر زمانہ میں ہیں ، اور خلیفہ لئے اس کا اہل شخص کا ہونا ضروری ہے ، اسی سے اندازہ لگالیجیے کہ صحابہ کے دل میں اس حکم کو زندہ کرنے کی کس قدر تڑپ تھی ، وہ اس کے لئے اپنے برسوں کے ساتھیوں اور دوستوں سے اپنی جان کے خطرہ کے باوجود لڑنے کے لئے تیار ہوگئے ،
خلفاء راشدین :abt: کے بعد یہ حکمراں کے معنی میں استعمال ہونے لگا ، اور بعد میں چل کر ایک رسمی عہدہ بن گیا ، آپ کو یاد ہوگا کہ یزید کو بھی خلیفہ بنایا گیا تھا ،
 

شاکرالقادری

لائبریرین
خلافت کا قیام ایک شرعی حکم ہے جس کی ذمہ داری دنیا میں بسنے والے ہر مسلمان پر ہے ، اور ہر زمانہ میں ہیں ، اور خلیفہ لئے اس کا اہل شخص کا ہونا ضروری ہے ، اسی سے اندازہ لگالیجیے کہ صحابہ کے دل میں اس حکم کو زندہ کرنے کی کس قدر تڑپ تھی ، وہ اس کے لئے اپنے برسوں کے ساتھیوں اور دوستوں سے اپنی جان کے خطرہ کے باوجود لڑنے کے لئے تیار ہوگئے ،
خلفاء راشدین :abt: کے بعد یہ حکمراں کے معنی میں استعمال ہونے لگا ، اور بعد میں چل کر ایک رسمی عہدہ بن گیا ، آپ کو یاد ہوگا کہ یزید کو بھی خلیفہ بنایا گیا تھا ،
اور یہ کام یزید کے والد نے اپنی زندگی اور اپنے دور خلافت میں ہی یزید کو خلافت کے عہدے کے لیے نامزد کر کے کیا اور اس کے لیے بیعت بھی حاصل کی بلکہ بعض مقامات پر تو جبری بیعت بھی لی گئی یا لینے کی کوشش کی گئی
اور یہی تاریخی حقائق ہیں
 

سید ابرار

محفلین
اور یہ کام یزید کے والد نے اپنی زندگی اور اپنے دور خلافت میں ہی یزید کو خلافت کے عہدے کے لیے نامزد کر کے کیا اور اس کے لیے بیعت بھی حاصل کی بلکہ بعض مقامات پر تو جبری بیعت بھی لی گئی یا لینے کی کوشش کی گئی
اور یہی تاریخی حقائق ہیں
تاریخی حقائق تو یہی ہیں ، جس کی طرف میں نے اشارہ بھی کیا ہے ، مگر آپ اس ”طنزیہ انداز“ سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ، یہ واضح نہیں ہیے ، امید کہ وضاحت فرمائیں گے ،
 
مفتی رفیع عثمانی اور امت اخبار دونوں پر اعتبار نہیں۔
اج قاضی حسین کا بیان سنا کہ وہ مسجد پر حملہ کرنے والوں‌کو شھید نہیں‌ مانتے۔ یہ رائے زیادہ قریب حقیقت لگتی ہے۔
 

باسم

محفلین
col3.gif

بحوالہ بالا
 

شاکرالقادری

لائبریرین
تاریخی حقائق تو یہی ہیں ، جس کی طرف میں نے اشارہ بھی کیا ہے ، مگر آپ اس ”طنزیہ انداز“ سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ، یہ واضح نہیں ہیے ، امید کہ وضاحت فرمائیں گے ،
کوئی طنزیہ انداز نہیں
صرف ان باتوں کی وضاحت کر رہا ہوں جو یہاں پر اشارتا کی جارہی ہیں کھل کر نہیں کی جا رہیں
اور اس طرز عمل کی بات کر رہا ہوں جس کے تحت لوگ ایک بات کو غلط سمجھتے ہوئے اور جانتے بوجھتے ہوئے بھی درست کہنے کے لیے مصلحتوں کا شکار ہو جاتے ہیں
یہاں پر اس بات کی بھی نشاندھی ہوئی کہ شامی فوج میں صحابہ موجود تھے یزید کے دربار میں بھی صحابہ موجود تھے لیکن ان کے اس طرز عمل سے چشم پوشی کی جاتی ہے اور خاموش رہنے کا کہا جاتا ہے
حالانکہ
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے لوگوں سے جنگ کا اعلان فرمایا ہے چاہے وہ کسی منصب پر بھی فائز ہوں
یہی حال موجودہ علما کا ہے وہ غازی عبدالرشید کے طرز عمل کو برا بھی کہتے ہیں اس پر تنقید بھی کرتے ہیں اور پھر اس سےے چشم پوشی بھی کرتے ہیں اور اس کی حمایت بھی کرتے ہیں
یہ دھرا معیار ہے
اگر اسے شہید قرار دینا ہے تو اس کے طرز عمل کو غلط نہ کہیں
اور اگر اس کے طرز عمل کو غلط قرار دینا ہے تو اس کی مرتبہ شہادت پر فائز ہونے پر زور نہ دیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں تو ایک ہی سوال رکھتا ہوں اور وہ یہ کہ
اگر غازی رشید کو شوق شہادت تھا اور وہ اپنے کاز میں مخلص تھے تو پھر ان کے پاس اس بات کے جواز کے لیے کونسی منطق بنتی ہے جس کے تحت اونہوں نے
1۔۔۔۔ اپنی عمر رسیدہ بیمار والدہ کو باہر جانے نہیں دیا
2۔۔۔ وہ معصوم نا بالغ بچے اور بچیاں جن کا کوئی والی وارث نہ تھا ان کو باہر کیوں نہیں آنے دیا
کل یہی معصوم بچیاں غازی رشید کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر سوال کرین گی

"بای ذنب قت۔۔۔۔۔۔لت" ﴿القرآن﴾

روزی کہ اذاالسماء النش۔۔۔۔۔۔۔۔قت
واں دمم کہ بود اذا النجوم انکدرت
من دامن تو بگیرم اندر عرص۔۔۔۔ات
گویم صنما بای ذن۔۔۔۔ب قتل۔۔۔۔۔۔۔ت
﴿حکیم عمر خیام﴾
ترجمہ
جان جاں جس روز ہوگا انشقاق آس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماں
آئے گی جس دم ستاروں کے گلستاں پر خزاں
عرصہ محشر میں دامن تھام کر تیرا ص۔۔۔۔۔۔۔۔نم
پوچھونگی کس جرم کے بدلے میں لی تھی میری جاں
 

ظفری

لائبریرین
میں تو ایک ہی سوال رکھتا ہوں اور وہ یہ کہ
اگر غازی رشید کو شوق شہادت تھا اور وہ اپنے کاز میں مخلص تھے تو پھر ان کے پاس اس بات کے جواز کے لیے کونسی منطق بنتی ہے جس کے تحت اونہوں نے
1۔۔۔۔ اپنی عمر رسیدہ بیمار والدہ کو باہر جانے نہیں دیا
2۔۔۔ وہ معصوم نا بالغ بچے اور بچیاں جن کا کوئی والی وارث نہ تھا ان کو باہر کیوں نہیں آنے دیا
کل یہی معصوم بچیاں غازی رشید کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر سوال کرین گی

"بای ذنب قت۔۔۔۔۔۔لت" ﴿القرآن﴾

روزی کہ اذاالسماء النش۔۔۔۔۔۔۔۔قت
واں دمم کہ بود اذا النجوم انکدرت
من دامن تو بگیرم اندر عرص۔۔۔۔ات
گویم صنما بای ذن۔۔۔۔ب قتل۔۔۔۔۔۔۔ت
﴿حکیم عمر خیام﴾
ترجمہ
جان جاں جس روز ہوگا انشقاق آس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماں
آئے گی جس دم ستاروں کے گلستاں پر خزاں
عرصہ محشر میں دامن تھام کر تیرا ص۔۔۔۔۔۔۔۔نم
پوچھونگی کس جرم کے بدلے میں لی تھی میری جاں

اُستادِ محترم گستاخی معاف ۔۔ آپ نے جو دو سوال اٹھائے ہیں ۔ اس کے بارے میں ایسی کوئی شواہد سامنے نہیں آئے ہیں کہ واقعی ایسا ہوا تھا ۔ جو کچھ سامنے آ رہا ہے ۔ وہ سب حکومت کے توسط سے ہی موصول ہو رہا ہے ۔ آج صدر صاحب کی تقریر کے بعد وہ علماء جو اس مذاکرات میں شامل تھے ۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ صدر صاحب نے غلط بیانی سے کام لیا ہے ۔ مذاکرات جو علماء کے ذریعے طے کیئے جا رہے تھے ۔ ان میں مسلسل ردوبدل کیا گیا ۔ اور جو حکومتی مشینری سے تعلق رکھنے والے حضرات تھے ۔ ان کی مذاکرات کی نوعیت کچھ اور تھی ۔

اگر سطحی طور سے بھی دیکھا جائے تو کوئی بھی شخص یہ نہیں چاہے گا کہ وہ اپنی بیمار ماں کو اس صورتحال میں اپنے پاس روکنے پر ضد کرے یا ان معصوم بچوں‌کو روکنے کے لیئے کسی طاقت اور دھمکی کا استعمال کرے ۔ اور وہ شخص جس کو معلوم تھا کہ اس کا انجام اب قریب ہے ۔ وہ کم از کم ایسا قدم ہر گز نہیں اٹھا سکتا تھا ۔ہم مان لیتے ہیں کہ چلو اگر اس کا جو بھی مقصد تھا وہ کم از کم اس طرح کا اقدام اٹھا کر نہیں پورا کیا جاسکتا تھا ۔ چنانچہ میں نے سمجھتا تھا کہ اس نے ایسا نہیں کیا ہوگا ۔ کیونکہ اس طرح اس کی پچھلے چھ سات ماہ سے جاری جنگ اور کاز کا مقصد ہی فوت ہوجانا تھا ۔ اور اسے یہ بھی علم تھا کہ اگر اس نے ایسا کیا تو وہ جو کچھ کر رہا ہے ۔ وہ سب رائیگاں جائے گا ۔ کوئی بھی اس کی موت یا قربانی پر افسوس نہیں کرے گا ۔
ہو سکتا ہے ماں نے اپنے بیٹے کے ساتھ رہنے میں ترجیح دی ہو ، کوئی قسم کوئی ،شرط وغیرہ ۔۔ جس کی تکمیل کے لیئے غازی بے بس ہوں ۔ اور بچے بھی اس وقت تک باہر جانے کے لیے تیار نہ تھے جب تک انہیں یہ یقین تھا باہر ان کی رہائی کے لیئے فورسز نہیں جمع ہے بلکہ وہ ان کو ختم کرنے کے لیئے ان کا محاصرہ کیئے بیٹھے ہیں ۔ سو جب حملہ شروع ہوا تو ان بچوں کو احساس ہوا کہ باہر نکل جانے میں ہی عافیت ہے نہ کہ اندر ٹہر جانے میں ۔ لہذا شروع کے دو دن میں کافی لوگ باہر آئے ۔

اب حکومت جو کہہ رہی ہے اس میں واقعی بہت تضاد ہے ۔ بس افسوس اس بات کا ہے کہ جب غازی صاحب کو ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک یا ایک سے زیادہ بات کرنے کا موقع ملا تو انہوں نے چوہدری شجاعت کا مذاکرات میں منفی رویے کا سرسری تذکر ہ کیا اور اعجاز الحق کے بارے میں تو ان کے الفاظ یہ تھے کہ " اب میں کیا کہوں اعجاز الحق کے بارے میں کہ انہوں نے تو حد کر دی ۔۔۔۔ اللہ ان سب سے قیامت کے دن پوچھے گا " ۔۔۔۔ پھر اس کے کچھ گھنٹوں بعد وہ اس دنیا میں نہیں رہے ۔ کاش وہ بندہ کچھ کھل کر کہہ سکتا مگر وہ سب پس ِ تاریخ چلا گیا ۔
 

سید ابرار

محفلین
کوئی طنزیہ انداز نہیں
صرف ان باتوں کی وضاحت کر رہا ہوں جو یہاں پر اشارتا کی جارہی ہیں کھل کر نہیں کی جا رہیں
اور اس طرز عمل کی بات کر رہا ہوں جس کے تحت لوگ ایک بات کو غلط سمجھتے ہوئے اور جانتے بوجھتے ہوئے بھی درست کہنے کے لیے مصلحتوں کا شکار ہو جاتے ہیں
یہاں پر اس بات کی بھی نشاندھی ہوئی کہ شامی فوج میں صحابہ موجود تھے یزید کے دربار میں بھی صحابہ موجود تھے لیکن ان کے اس طرز عمل سے چشم پوشی کی جاتی ہے اور خاموش رہنے کا کہا جاتا ہے
حالانکہ
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے لوگوں سے جنگ کا اعلان فرمایا ہے چاہے وہ کسی منصب پر بھی فائز ہوں
جہاں تک صحابہ کی بات ہے تو میرے اندر کم از کم اتنی ”ہمت “ نہیں ہے کہ بزعم خویش ان کے کسی مفروضہ ”غلط طرز عمل“ کی تعیین کرکے ان پر تنقید کرکے اپنی عاقبت خراب کرلوں ، جس حدیث کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے وہ واضح نہیں ہے براہ کرم اس کا حوالہ مع الفاظ درج فرمائیں ،
آج 04:46 AM
 

سید ابرار

محفلین
یہی حال موجودہ علما کا ہے وہ غازی عبدالرشید کے طرز عمل کو برا بھی کہتے ہیں اس پر تنقید بھی کرتے ہیں اور پھر اس سےے چشم پوشی بھی کرتے ہیں اور اس کی حمایت بھی کرتے ہیں
یہ دھرا معیار ہے
اگر اسے شہید قرار دینا ہے تو اس کے طرز عمل کو غلط نہ کہیں
اور اگر اس کے طرز عمل کو غلط قرار دینا ہے تو اس کی مرتبہ شہادت پر فائز ہونے پر زور نہ دیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھئے ”لفظ شہید “ سے ہماری کیا مراد ہے ؟ پہلے یہ واضح ہونا چاہئے ، شہید ایک شرعی اصطلاح ہے اور ایک اخروی اعزاز ، اور کسی بھی شرعی اصطلاح کو سمجھنے کے لئے ہمیں علماء سے رجوع کرنا چاہئے جس طرح ہم کسی قانونی اصطلاح کو سمجھنے کے لئے وکلاء سے اور طبی اصطلاح سمجھنے کے لئے ڈاکٹروں سے رجوع کرتے ہیں ، لہذا اس کے بارے میں صحیح فیصلہ تو علماء ہی کرسکتے ہیں ،نہ یہ کہ پرویز مشرف یا جارج بش ، اگر موجودہ دور کے علماء پر اعتماد نہ ہوتو ہمارے اسلاف میں سے جس پر جمھور امت کا اعتماد ہے ، ان کی کتابوں سے سمجھنا چاہئے کہ شہید کسے کہتے ہیں ، میں وقت ملنے پر انشاءاللہ شہید کی شرعی تعریف کسی مستند تفسیر کی کتاب سے نقل کرونگا ، تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ مولانا پر وہ تعریف صادق آتی ہے یا نہیں ،
البتہ اگر شہید سے مراد یہ لیا جائے کو جو اپنے وطن کی حفاظت یا دفاع میں مارا جائے ، جیسا کہ ہمارے انڈیا میں مراد لیا جاتا ہے کہ ہر اس فوجی کو جو ہلاک ہوجائے ، شہید کہا جاتا ہے ، تو یہ ایک دنیوی ”اعزاز ” ہے جس کا فیصلہ ”حاکم وقت “ اپنے ”اختیار اور طاقت “ کی بنیاد پر کرتا ہے ، تو ظاہر ہے ہمیں مولانا عبد الرشید غآزی کو اس قسم کی ”شہادت “ کا ایوارڈ ”حاکم وقت “ بلکہ ”یزید وقت “ پرویز مشرف سے دلوانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ،
 

سید ابرار

محفلین
یہی حال موجودہ علما کا ہے وہ غازی عبدالرشید کے طرز عمل کو برا بھی کہتے ہیں اس پر تنقید بھی کرتے ہیں اور پھر اس سےے چشم پوشی بھی کرتے ہیں اور اس کی حمایت بھی کرتے ہیں
یہ دھرا معیار ہے
اگر اسے شہید قرار دینا ہے تو اس کے طرز عمل کو غلط نہ کہیں
اور اگر اس کے طرز عمل کو غلط قرار دینا ہے تو اس کی مرتبہ شہادت پر فائز ہونے پر زور نہ دیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
البتہ جو آپ نے لکھا ہے کہ یہ دھرا معیار ہے کہ ایک طرف ”طرز عمل “ کو غلط بھی قرار دیا جارہا ہے ، دوسری طرف ”شہید “ بھی کہا جارہا ہے تو میرے دوست پہلی بات تو آپ کی خدمت میں یہ عرض ہے کہ کسی کو شہید اس وقت کہا جائے گا جب کہ اس نے اعلاء کلمۃ اللہ یا کسی اور اعلی مقصد کے لئے حسن نیت کے ساتھ اپنی جان دی ہو ، چاہے اس کا طرز عمل دوسروں کے نزدیک” اس وقت کے اعتبار سے “غلط ہی کیوں نہ ہو ،
دوسری بات یہ ہے کہ غازی برادران کے طرز عمل کو اگر کسی نے غلط قرار دیا بھی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک اسلامی ملک میں 100 فیصد شریعت کے نفاذ کے مطالبہ کے ساتھ ”حاکم وقت “ کے خلاف مسلح جدوجہد کرنا ناجائز ہے یا یہ کہ بغاوت ہے ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس ”کام “ کے لئے پاکستان کے اندر سن 2007 مناسب نہیں ہے ، یا یہ کہ اس کا وقت ابھی آیا نہیں ہے ، جب بھی یہ وقت آئے گا تو ہمارے مذہبی رہنما اپنے حکمران کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا اسی طرح متحدہ فیصلہ کریں گے جس طرح متحدہ ہندوستان پر انگریزوں کے غلبہ کے وقت نہ صرف یہ کہ کیا تھا ، بلکہ اس کے لئے ہر قسم کی قربانیاں بھی دی تھیں‌، اور بھر حال یہ ایک اجتھادی چیز ہے ، جس میں علماء کے درمیان اختلاف ہوسکتا ہے ،چلتے چلتے برسبیل تذکرہ ایک بات کہ دوں ، جہاں تک مجھے یاد ہے ، جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کے خلاف اپنے اجتھاد کے مطابق مسلح جدوجہد کرنے کے ارادہ کیا تھا ، تو اس وقت ہمارے دوسرے بزرگوں نے ان کو اس ”طرز عمل“ سے روکا تھا اور ان کے روکنے کی بنیاد یہ نہیں تھی کہ وہ یزید کو حق پر سمجھتے تھے ، بلکہ یہی تھی کہ ان کے خیال کے مطابق ابھی اس ”طرز عمل “کا وقت نہیں آیا تھا ، لیکن سب یہ جانتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے جان دینے کے بعد تمام امت کا نہ صرف اس پر اتفاق ہے کہ آپ شہید ہیں بلکہ 10 محرم کی تاریخ آج بھی تمام امت کے لئے ایک یادگار کی حیثیت رکھتی ہے ، اور آپ کایہ عمل امت کے لئے اسوہ اور نمونہ بن چکا ہے ،
:pak1::pak1:
 

سید ابرار

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں تو ایک ہی سوال رکھتا ہوں اور وہ یہ کہ
اگر غازی رشید کو شوق شہادت تھا اور وہ اپنے کاز میں مخلص تھے تو پھر ان کے پاس اس بات کے جواز کے لیے کونسی منطق بنتی ہے جس کے تحت اونہوں نے
1۔۔۔۔ اپنی عمر رسیدہ بیمار والدہ کو باہر جانے نہیں دیا
2۔۔۔ وہ معصوم نا بالغ بچے اور بچیاں جن کا کوئی والی وارث نہ تھا ان کو باہر کیوں نہیں آنے دیا
کل یہی معصوم بچیاں غازی رشید کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر سوال کرین گی
"بای ذنب قت۔۔۔۔۔۔لت" ﴿القرآن﴾
جان جاں جس روز ہوگا انشقاق آس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماں
آئے گی جس دم ستاروں کے گلستاں پر خزاں
عرصہ محشر میں دامن تھام کر تیرا ص۔۔۔۔۔۔۔۔نم
پوچھونگی کس جرم کے بدلے میں لی تھی میری جاں

رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی پر معاف
میرے عزیز ،آپ در اصل یہ بات” ثابت“ کرنا چاہ رہے ہیں‌، کہ مولانا عبدالرشید غازی شہید علیہ الرحمۃ در اصل ایک ”سنگ دل “ شخص تھے ، اس ”دعوی“ کو ثابت کرنے کے لئے آپ نے دو” دلیلیں“ پیش کی ہیں ،مگر یہ دو دلیلیں بھی دراصل” دعوی “ہی ہیں اور اپنے اثبات کے لئے دلیل کی محتاج ، لہذا پہلے آپ اس پر مستند دلیل پیش فرمائیں ،
جہاں تک دوسری بات ہے کہ بقول آپ کے جن نابالغ معصوم بچے یا بجیوں کو قتل کیا گیا ہے وہ قیامت کے دن مولانا عبد الرشید علیہ الرحمۃ کا” گریبان “تھام لیں گے ، تو جہان تک مجھے یاد ہے وہ یا تو پاکستان کی بہادر فوج کے سپاہیوں کے ہاتھوں میں موجود مشین گنوں سے چلائے جانے والی گولیوں کا” نشانہ “بنی ہونگی یا پھر پھینکے گئے بموں کے نتیجہ میں پھیلنے والے دھویں سے دم گھٹنے کے نتیجہ میں اپنی جان ، جان آفریں کے سپرد کی ہوگی ،مولانا نے تو کسی کو ہلاک نہیں کیا تھا ، اب پتہ نہیں کیوں قیامت کے دن اپنے قاتلوں کا گریبان تھامنے کی بجائے مولانا کا گریبان پکڑ لیں گی ،
ذرا کہنے سے پہلے سوچ بھی لیا کریں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ کل کے دن آپ قرآن و حدیث کا سہارا لے کر کشمیر میں‌اب تک جتنے معصوم لوگ شہید ہوئے ہیں ، سب کی موت کا ”ذمہ دار “مجاہدین کو قرار دے دیں ، اور انڈین آرمی کو اس سے بری الذمہ” ثابت“ فرمادیں ،
بقول جارج بش ، عراق میں جتنے عام لوگ امریکن فوجیوں کے ہاتھوں ہلاک ہورہے ہیں ، سب کے” ذمہ دار“ مجاہدین ہی ہیں ،
بلکہ میرے ”خیال“ سے فلسطین کے مہلوکین بھی کل روز محشر بجائے اسرائیلیوں کا گریبان پکڑنے کے ، حماس کے قائدین ہی کا گریبان پکڑیں گے ،
:( خرد کا نام جنوں رکھ دیا ، جنوں کا خرد :(
:(جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے :(
 

شاکرالقادری

لائبریرین
اُستادِ محترم گستاخی معاف ۔۔ آپ نے جو دو سوال اٹھائے ہیں ۔ اس کے بارے میں ایسی کوئی شواہد سامنے نہیں آئے ہیں کہ واقعی ایسا ہوا تھا ۔ جو کچھ سامنے آ رہا ہے ۔ وہ سب حکومت کے توسط سے ہی موصول ہو رہا ہے ۔ آج صدر صاحب کی تقریر کے بعد وہ علماء جو اس مذاکرات میں شامل تھے ۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ صدر صاحب نے غلط بیانی سے کام لیا ہے ۔ مذاکرات جو علماء کے ذریعے طے کیئے جا رہے تھے ۔ ان میں مسلسل ردوبدل کیا گیا ۔ اور جو حکومتی مشینری سے تعلق رکھنے والے حضرات تھے ۔ ان کی مذاکرات کی نوعیت کچھ اور تھی ۔

اگر سطحی طور سے بھی دیکھا جائے تو کوئی بھی شخص یہ نہیں چاہے گا کہ وہ اپنی بیمار ماں کو اس صورتحال میں اپنے پاس روکنے پر ضد کرے یا ان معصوم بچوں‌کو روکنے کے لیئے کسی طاقت اور دھمکی کا استعمال کرے ۔ اور وہ شخص جس کو معلوم تھا کہ اس کا انجام اب قریب ہے ۔ وہ کم از کم ایسا قدم ہر گز نہیں اٹھا سکتا تھا ۔ہم مان لیتے ہیں کہ چلو اگر اس کا جو بھی مقصد تھا وہ کم از کم اس طرح کا اقدام اٹھا کر نہیں پورا کیا جاسکتا تھا ۔ چنانچہ میں نے سمجھتا تھا کہ اس نے ایسا نہیں کیا ہوگا ۔ کیونکہ اس طرح اس کی پچھلے چھ سات ماہ سے جاری جنگ اور کاز کا مقصد ہی فوت ہوجانا تھا ۔ اور اسے یہ بھی علم تھا کہ اگر اس نے ایسا کیا تو وہ جو کچھ کر رہا ہے ۔ وہ سب رائیگاں جائے گا ۔ کوئی بھی اس کی موت یا قربانی پر افسوس نہیں کرے گا ۔
ہو سکتا ہے ماں نے اپنے بیٹے کے ساتھ رہنے میں ترجیح دی ہو ، کوئی قسم کوئی ،شرط وغیرہ ۔۔ جس کی تکمیل کے لیئے غازی بے بس ہوں ۔ اور بچے بھی اس وقت تک باہر جانے کے لیے تیار نہ تھے جب تک انہیں یہ یقین تھا باہر ان کی رہائی کے لیئے فورسز نہیں جمع ہے بلکہ وہ ان کو ختم کرنے کے لیئے ان کا محاصرہ کیئے بیٹھے ہیں ۔ سو جب حملہ شروع ہوا تو ان بچوں کو احساس ہوا کہ باہر نکل جانے میں ہی عافیت ہے نہ کہ اندر ٹہر جانے میں ۔ لہذا شروع کے دو دن میں کافی لوگ باہر آئے ۔

اب حکومت جو کہہ رہی ہے اس میں واقعی بہت تضاد ہے ۔ بس افسوس اس بات کا ہے کہ جب غازی صاحب کو ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک یا ایک سے زیادہ بات کرنے کا موقع ملا تو انہوں نے چوہدری شجاعت کا مذاکرات میں منفی رویے کا سرسری تذکر ہ کیا اور اعجاز الحق کے بارے میں تو ان کے الفاظ یہ تھے کہ " اب میں کیا کہوں اعجاز الحق کے بارے میں کہ انہوں نے تو حد کر دی ۔۔۔۔ اللہ ان سب سے قیامت کے دن پوچھے گا " ۔۔۔۔ پھر اس کے کچھ گھنٹوں بعد وہ اس دنیا میں نہیں رہے ۔ کاش وہ بندہ کچھ کھل کر کہہ سکتا مگر وہ سب پس ِ تاریخ چلا گیا ۔
عزیز محترم
مندرجہ بالا اقتباس میں سرخ الفاظ کے بارے میں بس اتنا عرض ہے کہ:
میں نے یہ چھ سات دن ٹیلی ویزن کے سامنے بیٹھ کر گزارے راتیں آنکھوں میں گزر گئیں نہ تو مجھے نقص سماعت ہے اور نہ ہی میری بصارت ابھی کمزور ہوئی ہے میں نے میڈیا کے ساتھ رشید غازی کی ٹیلی فونک گفتگو کو کئی مرتبہ براہ راست سنا ہے میں نے میڈیا کے افراد کو بار بار غازی رشید کی منتیں کرتے ہوئے دیکھا ہہے کہ خدارا والدہ کو باہر بھیج دیں پچوں اور بچیوں کو باہر بھیج دیں بلکہ ایک مرتبہ تو جیو نیوز کے کامران خان نے میڈیا کی طرف سے یہ ضمانت بھی فراہم کر دی تھی کہ پورے کا پورا میڈیا آپ کے معاملہ کو واچ کرے گا اور آپ کے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں ہونے دی جائے گی
میں نے بلقیس ایدھی اور عبدالستار ایدھی کی اپیلیں بھی سنیں جو انہوں نے غازی رشید سے کیں کہ
خدا کا واسطہ
رسول کا واسطہ
اسلام کا واسطہ بچوں اور عورتوں کو باہر بھیج دو
میں نے علمائے کرام کے اس وفد کو بھی مسجد میں جاتے اور باہر آتے دیکھا جو مذاکرات کے لیے نہیں بلکہ صرف یتیم اور نا بالغ بچوں کو بڑے دعوی کے ساتھ لینے کے لیے گیا تھا کہ ضرور غازی رشید ان بچوں کو ہمارے حوالے کر دے گا لیکن وہ نہ مانے
کیا اس کے بعد بھی ہم کہیں گے کہ جو مواد پیش کیا جا رہا ہے وہ حکومت کی جانب سے یک طرفہ ہے
کم از کم میں تو اندھا بہرا نہیں
میرے کانوں میں غازی عبدالشید کی آوازیں اب تک گونج رہی ہیں جہاں وہ بچوں کو باہر بھیجنے سے انکاری ہیں
 

سید ابرار

محفلین
بس اتنا عرض ہے کہ:
میں نے میڈیا کے ساتھ رشید غازی کی ٹیلی فونک گفتگو کو کئی مرتبہ براہ راست سنا ہے میں نے میڈیا کے افراد کو بار بار غازی رشید کی منتیں کرتے ہوئے دیکھا ہہے کہ خدارا والدہ کو باہر بھیج دیں پچوں اور بچیوں کو باہر بھیج دیں
میں نے بلقیس ایدھی اور عبدالستار ایدھی کی اپیلیں بھی سنیں کہ
خدا کا واسطہ
رسول کا واسطہ
اسلام کا واسطہ بچوں اور عورتوں کو باہر بھیج دو
کیا اس کے بعد بھی ہم کہیں گے کہ جو مواد پیش کیا جا رہا ہے وہ حکومت کی جانب سے یک طرفہ ہے
میرے کانوں میں غازی عبدالشید کی آوازیں اب تک گونج رہی ہیں جہاں وہ بچوں کو باہر بھیجنے سے انکاری ہیں

میرے ناقص خیال کے مطابق جن” یرغمالیوں“ کے متعلق نہ صرف آپ کو بلکہ سارے ”پاکستان “ کو فکر تھی، جس میں ”میڈیا“ سے لیکر ”علماء“ تک داخل ہیں، یہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو ”تشویش “تھی، بھتر یھی ہے بلکہ غیر جانبداری کا تقاضہ یھی ہے کہ خود ان ”یر غمالیوں “ سے ہی ان کی ”داستان الم“ سن لی جائے ، کہ آخر وہ کس کو” مورد الزام “قرار دیتی ہیں ،
’مسجد میں پتے کھا کھا کر گزارا کیا‘

رفیعہ ریاض
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

’ہم نے فورسز کو اللہ کا واسطہ دیا کہ ہمیں بے پردہ نہیں کریں‘
لال مسجد کے خلاف فوجی آپریشن کے دوران منگل کو باہر آنے والی طالبات کا کہنا ہے کہ آٹھ روزہ آپریشن کے دوران انہوں نے ہر لمحہ موت کا ذائقہ چکھا ہے اور انہیں درختوں کے پتے کھاکر گزارا کرنا پڑا۔

گزشتہ ایک سال سے اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ جامعہ حفصہ میں زیر تعلیم نزہت جمیل نے بتایا کہ مدرسوں میں تو وہ پہلے بھی پڑھتی رہی ہیں مگر اس طرح کی صورتحال کا سامنا انہیں پہلی مرتبہ ہوا۔
ہمارے کھانے کے سٹور پر انہوں نے گولہ باری کی تو ہمارے پاس پتے کھانے کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔ بعد میں مجاہد بھائی کہیں سے اسی من شہد لے آئے۔ہم اس کا شربت بنا کر درختوں کے پتوں کے ساتھ پیتے رہے۔سات دن اسی طرح گزرے۔
آپریشن کے دوران یہ طالبات کیسے اور مدرسے کے کس حصے میں قیام کئے ہوئے تھیں اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہم کمروں کی بجائے چھوٹے چھوٹے سٹورز میں چلے گئے تھے۔ ہر سٹور میں تقریبا پندرہ پندرہ لڑکیاں تھیں ۔لیٹنے کی جگہ نہیں تھی ہم بس سیدھی بیٹھی رہتی تھیں۔باہر دھماکوں کی آوازیں سن کر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ہم فلسطین میں ہوں۔ تیسرے دن پانی بجلی اور گیس سب کچھ بند ہوگیا تھا لہذا مشکل اور بڑھ گئی تھی۔‘

جامعہ حفصہ میں موجود یتیم بچیوں کے بارے میں نزہت جمیل کا کہنا تھا ’ہمیں اس حوالے سے کچھ معلوم نہیں۔ البتہ باقی جو چھوٹی بچیاں ہمارے ساتھ تھیں وہ کچھ بھی نہیں بولتی تھیں۔ نہ کھانے کو کچھ مانگتی تھیں اور نہ ہی پینے کو۔ان کا بڑا حوصلہ تھا۔ پولیس والوں کو جب بھی کہیں برقعہ نظرآتا تھا تو وہ بہت بمباری شروع کر دیتے تھے۔‘
غسل خانوں کی سہولت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پانی نہیں آرہا تھا اور صفائی نہ ہونے کی بناء پر بہت بدبو پھیلی ہوئی ہوتی تھی لیکن کوئی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔
یہ پوچھنے پر کہ کیا آپریشن کے دوران طالبات جاں بحق ہوئیں اور کیا انہیں مدرسے کے احاطے میں دفن کیا گیا، کشمیر کے علاقے باغ سے تعلق رکھنے والی نزہت نے کہا کہ ’تیس شہید طالبات کو بڑا سا گڑھا کھود کر اس میں ڈال دیا گیا تھا۔ بالکل ویسے ہی جیسے کشمیر میں زلزلہ آنے کے بعد کیا گیا تھا۔‘ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی قبر نہیں ملی۔
’ہمیں ان کے جنازے کے حوالے سے کچھ پتہ نہیں ۔ہمیں تو مجاہد بھائیوں کا بھی کچھ پتہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ کہاں کہاں ہیں ۔کبھی کبھی ایک دو نظر آجاتے اور پھر غائب ہو جاتے تھے۔‘

عائشہ لیاقت جامعہ حفصہ کی معلمہ ہیں اور ان کا تعلق ملتان سے ہے۔ آٹھ روز مسلسل محاصرے میں رہنے کے بعد اب وہ اپنے گاؤں روانہ ہو چکی ہیں۔رابطہ کرنے پر ان کی آواز سے ان کے رتجگوں کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہ تھا۔
جامعہ حفصہ کے اندر گزری آخری رات کا حال بتا تے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’یہ بڑی خاموش رات تھی۔کوئی گولہ باری نہیں ہوئی۔جب یہ سلسلہ طویل ہوا تو میں نے اپنی ساتھی طالبات کو یہ مصرع سنایا
جو آج کی شب سکوں سے گزری تو کل کا موسم خراب ہوگا۔

اور پھر میں نے کہا ’مجھے اس خاموشی کے بعد کے کل سے ڈر لگ رہا ہے۔اور پھر اگلی صبح ٹھیک پونے چار بجے ہماری آنکھ سیکیورٹی فورسز کے حملے سے کھلی۔گولوں کی آوازیں بہت قریب سے آرہی تھیں۔‘
’میں تو بس دروازے کے سے لگ کر بیٹھ گئی۔چھ بجے مجھے لگا کہ فوجی اندر آگئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مجاہد بھائیوں کی آوازیں بھی آئیں کہ اندر مت آؤ ورنہ گولی مار دیں گے۔ آخر کار ہمیں باہرآنے کو کہا گیا اور فورسز نے ہمیں کہا کہ اب نقاب الٹ دیں۔ ہم نے ان کو اللہ کا واسطہ دیا کہ ہمیں بے پردہ مت کریں ۔شکر ہے انہوں نے پھر زیادہ زور نہیں دیا۔‘

مصباح طارق کی عمر اٹھارہ سال ہے وہ پچھلے پانچ سال سے جامعہ حفصہ میں زیرتعلیم تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ شہادت کے جذبے سے سرشار آخری وقت تک جامعہ حفصہ کے اندر رہنا چاہتی تھیں لیکن اندر رہنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔انہوں نے بتایا ’ہمارے کھانے کے سٹور پر انہوں نے گولہ باری کی تو ہمارے پاس پتے کھانے کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔ بعد میں مجاہد بھائی کہیں سے اسی من شہد لے آئے۔ہم اس کا شربت بنا کر درختوں کے پتوں کے ساتھ پیتے رہے۔سات دن اسی طرح گزرے۔‘

’آخری دن ہمارا کمرہ دھوئیں سے بھر چکا تھا ۔ہمارا دم گھٹ رہا تھا۔ ہم نے سوچا کہ گھٹ کر مرنے سے بہتر ہے کہ ہم سینے پر گولی کھا کر مر جائیں۔مگر مجاہد بھائیوں نے ہمیں باہر نکلنے سے منع کر دیا۔ بعد میں پولیس والوں نے کہا کہ باہر آجاؤ ورنہ دب کر مر جاؤگے تو تب ہم باہر نکل آئے۔میں تو اب بھی یہ کہتی ہوں کہ یہ دن مجھے کبھی نہیں بھولیں گے۔‘
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?p=161734#post161734
 

باسم

محفلین
کامران خان نے کسی حکومتی اہلکار کو نہ کہا کہ آپ فورسز کو پیچھے ہٹادیں عورتیں اور بچے باہر آنا ہے
اور اب وہ عورتیں اور بچے کہاں ہیں جنہیں یرغمال بنایا گیا تھا
اور جو باہر آئی تھیں وہ واپس جانے پر کیوں مصر تھیں
میڈیا نے آپریشن کو 100 سے 500 میٹر دور بیٹھ کر کیسا واچ کیا ہے پوری قوم نے دیکھا ہے کون کس کی گولی کا نشانہ بنا میڈیا کو اسکی کیا خبر ہوئی
ایوان صدر میں وہ معاہدہ کا مسودہ کس نے تبدیل کیا جس پر غازی رضامند ہوگیا تھا
 

شاکرالقادری

لائبریرین
میرے ناقص خیال کے مطابق جن” یرغمالیوں“ کے متعلق نہ صرف آپ کو بلکہ سارے ”پاکستان “ کو فکر تھی، جس میں ”میڈیا“ سے لیکر ”علماء“ تک داخل ہیں، یہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو ”تشویش “تھی، بھتر یھی ہے بلکہ غیر جانبداری کا تقاضہ یھی ہے کہ خود ان ”یر غمالیوں “ سے ہی ان کی ”داستان الم“ سن لی جائے ، کہ آخر وہ کس کو” مورد الزام “قرار دیتی ہیں ،
’مسجد میں پتے کھا کھا کر گزارا کیا‘
میں نے اپنی پوسٹ میں غازی صاحب کی ضعیف والدہ اور معصوم نا بالغ بچوں کا ذکر کیا تھا جن کو غازی صاحب نے باہر جانے کی اجازت نہ دی میں نے ان لوگوں کا ذکر نہیں کیا جو خود اپنی مرضی سے مبینہ شوق شہادت سے سرشار جامعہ کے اندر رہ رہے تھے انہوں نے اپنے لیے خود یہ راستہ اختیار کیا تھا
جب کہ ضعیف والدہ اور معصوم نابالغ بچوں کو شیلٹر اور خود غرضی کے لیے استعمال کیا گیا اور کل قیامت کو یہی بچے پوچھیں گے کہ تمہیں تو شوق شہادت تھا ہمیں کس لیے شیلٹر بنایا کیا نابالغوں پر بھی شریعت لاگو ہوتی ہے کیا ہم پر بھی جہاد کا فریضہ عائد ہوتا تھا
 

شاکرالقادری

لائبریرین
جہاں تک صحابہ کی بات ہے تو میرے اندر کم از کم اتنی ”ہمت “ نہیں ہے کہ بزعم خویش ان کے کسی مفروضہ ”غلط طرز عمل“ کی تعیین کرکے ان پر تنقید کرکے اپنی عاقبت خراب کرلوں ، جس حدیث کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے وہ واضح نہیں ہے براہ کرم اس کا حوالہ مع الفاظ درج فرمائیں ،
آج 04:46 AM
عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم: من ابغضہما فقد ابغضنی۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سیی روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے حسن اور حسین سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔
(ابن ماجہ، السنن، فی باب فضائل اصحاب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،۱:۵۱، رقم:۱۴۳)
(نسائی، السنن الکبریٰ،۵:۴۹، رقم۸۱۶۸)

عن سلمان قال: سمعت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم من ابغضہما، أبغضنی، ومن ابغضنی أبغضہ اﷲ ومن ابغضہ اﷲ أدخلہ النار۔

سلمان فارسی سے روایت ہے،میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے حسن و حسین علیہما السلام سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا وہ اللہ کے ہاں مبغوض ہو گیا اور جو اللہ کے ہاں مبغوض ہوا، اسے اﷲ نے آگ میں داخل کر دیا۔
(حاکم، المستدرک،۳:۱۸۱، رقم۴۷۷۶)

عن زید بن ارقم، ان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم قال لعلیّ و فاطمۃ والحسن والحسین رضی اللہ عنہم انا حرب لمن حاربتم و سلم لمن سالمتم۔

حضرت زید بن ارقم رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین سلام اللہ علیہم سے فرمایا:جس سے تم لڑوگے میری بھی اس سے لڑائی ہوگی، اور جس سے تم ضلح کروگے میری بھی اس سے صلح ہوگی۔
(ترمذی، الجامع الصحیح،۵:۶۹۹، ابواب المناقب، رقم:۳۸۷۰)

عن ابی ہریرۃ قال: نظرالنبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم الی علی وفاطمۃ والحسن والحسین فقال:انا حرب لمن حاربکم و سلم لمن سالمکم۔

حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین علیہما السلام کی جانب دیکھ کر فرمایا: جو تم سے لڑے گا میں اس سے لڑوں گا اور جو تم سے صلح کرے گا میں اس سے صلح کرونگا(یعنی جو تمہارا دشمن ہے وہ میرا دشمن ہے اور جو تمہارا دوست ہے وہ میرا بھی دوست ہے)
(احمد بن حنبل، المسند،۲:۴۴۲)
 
Top