2۔ فضائل اعمال نامی اس کتاب میں بہت سی ”غلط بیانیاں“ موجود ہیں جیسے امام شافعی کا نماز میں ساٹھ قرآن پاک کا پڑھنا ، ایک سید صاحب کا بارہ دن تک ایک ہی وضوع سے نماز پڑھنا ، زین العابدین کا دن میں ہزار رکعات نماز پڈھنا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں شراب پینے کا حکم اور غیر محرم کے پیٹ پر ہاتھ پھیرنے جیسے الزامات شامل ہیں۔
5۔ امام شافعی کا معمول تھا کی رمضان میں ساٹھ قرآن شریف نماز میں پڑھا کرتے تھے ، نماز واحد صیغہ ہے معلوم ہوا کہ ایک نمازمیں ساٹھ قرآن پڑھا تو امام صاحب نہ ہوا کوئی کمپیوٹر ہوا ۔
9۔ شیخ علی متقی نقل کرتے تھے کہ ایک فقیر نے فقراء مغرب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ اس کو شراب پینے کے لئے فرماتے ہیں ۔
10۔ حافظ ابو نعیم سفیان ثوری نے ایک شخص سے پوچھا اس نے کہا ایک آدمی نے ہاتھ میری ماں کے منھ پر پھیرا جس سے وہ بالکل روشن ہوگئی اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا تو ورم بالکل جاتا رہا ۔ مین نے اس عرض کیا کہ آپ کون ہیں کی میری اور میری ماں کی مصیبت کو آپ نے دور کیا انہونے فرمایا کہ میں تیرا نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہوں ۔ جبکہ عائشہؓ فرماتی ہے کہ اللہ کی قسم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے کسی غیرمحرم عورت کا ہاتھ سے نہیں چھوا بلکہ اس کو صرف بات چیت سے بیعت فرمایا ( مسلم ج ۲ صفحہ ۱۳۱ )
11۔ پس نوشت: فضائل اعمال کا نسخہ اس وقت میرے سامنے موجود ہے۔ اور اسے میں بارہا پڑھ چکا ہوں
آپ کی غلط بیانیوں والی بات کا تو جواب میں دے ہی چکا ہوں۔ اب آپ آگے فرماتے ہیں کہ:
امام شافعی کا نماز میں ساٹھ قرآن پاک کا پڑھنا
5۔ امام شافعی کا معمول تھا کی رمضان میں ساٹھ قرآن شریف نماز میں پڑھا کرتے تھے ، نماز واحد صیغہ ہے معلوم ہوا کہ ایک نمازمیں ساٹھ قرآن پڑھا تو امام صاحب نہ ہوا کوئی کمپیوٹر ہوا ۔
پہلی تو بات مجھے یہ سمجھا دیں کہ آپ کو اعتراض فضائل اعمال پر ہے، یا امام شافعی پر ہے یا ان کے ساٹھ قران پڑھنے پر ہے یا خاص نماز میں ساٹھ قران پڑھنے پر؟
اگر آپ کو اعتراض فضائل اعمال پر ہے تو بے جا۔ کیونکہ فضائل اعمال پر اعتراض تب جائز تھا جب شیخ زکریا یہ واقعہ اپنی طرف سے گھڑتے، اور جھوٹ بولتے۔ لیکن ایسا نہیں۔
اگر آپ کو امام شافعی کی ذات پر اعتراض ہے تو یہ مسئلہ آپ امام شافعی سے خود گفتگو فرما لیں تاکہ وہ آپ کے سوال کا جواب دے دیں۔
اگر آپ کو اعتراض امام صاحب کے رمضان میں ساٹھ قران ختم کرنے پر ہے تو اس کے خلاف کوئی آیت یا صریح حدیث لے آئیں تاکہ آپ کا یہ اعترض درست مانا جائے۔ (برائے مہربانی تین دن سے کم میں قران ختم والی حدیث نہ لائیں)۔
اگر آپ کو اعتراض خاص نماز کے اندر ساٹھ قران ختم کرنے پر ہے تو یہ بھی ایک بے کار و بے مقصد اعتراض ہے۔ کیونکہ پورے مہینے میں ساٹھ سے زیادہ قران کریم صرف نماز کے اندر ختم کئے جاسکتے ہیں۔
آپ کو اعتراض ہے کہ نماز واحد کا صیغہ ہے اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ امام شافعی "صرف اور صرف ایک" ہی نماز میں ساٹھ قران ختم کرتے تھے تو یہ آپ کی کم فہمی اور لاعلمی کی دلیل ہے۔ اس سے یہ واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ آپ بلاغت کے اصولوں سے بھی بے بہرہ ہیں۔ اگر آپ سے کوئی پوچھے کہ کیا آپ نماز پڑھتے ہیں؟ تو کیا آپ اسے کیا کہیں کہ ”نہیں میں نماز نہیں پڑھتا بلکہ پانچ
نمازیں پڑھتا ہوں“ تو یہ آپ کی عقلمندی نہیں بلکہ کم عقلی اور تنگ ذہنیت کہلائے گی۔ آپ ہی بتائیں: ”الصلوۃ مفتاح الجنۃ“ سے مراد ایک ہی نماز ہے؟
الصلوۃ معراج المؤمن سے مراد ایک ہی نماز ہے؟ اگر ہاں تو اس ”ایک“ نماز کا نام کیا ہے؟
اگر کوئی کہے کہ میں نے اس آدمی کو اپنی آنکھ سے دیکھا۔۔۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دیکھتے وقت اس آدمی کی دوسری آنکھ بند تھی؟ یا اگر کوئی آپ سے کہے میں فلاں بات اپنے کان سے سنی، تو کیا آپ اس سے مراد یہ لیں گے کہ اس آدمی نے سنتے وقت اپنا دوسرا کان بند کر لیا تھا؟ یا پھر اگر انسان غصے میں کہے کہ تمھارے گھر میں آج کے بعد اپنے قدم، یا اپنا پاؤں نہیں رکھوں گا تو آپ یہ سمجھیں گے کہ وہ لنگڑا ہے اس کا دوسرا پاؤں موجود ہی نہیں؟
اللہ پاک قران میں فرماتے ہیں ولا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک کیا یہاں بھی ایک ہی ہاتھ مراد لیا جائے گا؟
اللہ کے رسول فرماتے ہیں المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده تو کیا یہاں دوسرے ہاتھ سے ایذا پہنچانا سنت ہوگا؟
معلوم ہوا کہ نماز سے مراد رمضان کی مختلف نمازوں میں ساٹھ قران پڑھنا مراد ہے۔ مجھے تعجب تو یہ ہے کہ آپ ماشا اللہ ذی شعور اور اسلام کو سمجھنے والے ہیں آپ سے اس قسم کے بھونڈے اعتراض کی امید نہیں تھی کہ نماز واحد کا صیغہ ہے اس لئے امام شافعی صرف اور صرف ایک ہی نماز میں ساٹھ قران ختم کر لیتے تھے۔ اللہ کے بندے آپ ان پر، یا کسی پر بھی طعن کرنے سے پہلے اپنے اعتراض کا منطقی جائزہ لیں تو آپ کا اعتراض ہی غیر منطقی ٹھہرے گا۔
جہاں تک بات فضائل اعمال کی ہے تو شیخ ذکریا صاحب نے یہ بات اپنی طرف سے نہیں لکھی بلکہ ان سے بہت پہلے فن جرح و تعدیل کے امام، امام ذہبی نے اپنی کتاب تذکرۃ الحفاظ میں، اور سیر اعلام انبلاء میں بھی امام صاحب کے مناقب میں نقل فرمایا ہے۔
اس کے علاوہ علامہ نووی نے المجموع شرح المھذب اور خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں بھی امام شافعی سے ساٹھ قران نماز میں پڑھنا نقل فرمایا ہے۔ تو میرے خیال میں آپ کو ان غلط بیانیوں کا ذمہ دار امام ذہبی، خطیب بغدادی، علامہ نووی اور دیگر محدثین کو بنا کر ان کی تصانیف کو چھوڑدینا چاہئے۔ فضائل اعمال پر اعتراض بے مطلب ہے۔
اس کے بعد آپ نے سید صاحب کا واقعہ بیان کیا، اور زین العابدین والی بات کی، تو بھائی میں یہ کہوں گا کہ آپ پہلے یہی ثابت فرمادیں کہ کسی کا بارہ دن بھوکا رہنا یا ایک وضو سے نماز پڑھنا خلاف شریعت ہے؟ یا خلاف عقل؟ اگر آپ خلاف شرع کہیں تو دلیل دینی پڑے گی۔ اور اگر خلاف عقل کہیں تو اس کے لئے آپ کو بہت چیزوں کا انکار کرنا پڑے گا۔ مثال کے طور پر حضرت ابو ذر روایت کرتے ہیں میں مکہ میں تیس دن اور تیس رات اس حالت میں رہا کہ پانی کے علاوہ میری اور کوئی غذا نہیں تھی۔ اور اس میں بہت صحت مند اور فربہ ہوگیا۔ (صحیح مسلم- فضائل الصحابہ) اب آپ سے سوال ہے کیا آپ اس واقعہ کو خلاف عقل ہونے کی وجہ سے مسلم شریف کا انکار کرنے کی ہمت رکھتے ہیں؟ معلوم ہوا کہ تعصب شیخ زکریا سے ہے اس لئے اعتراض ہوا، ورنہ یہ سب چیزیں کوئی انوکھی نہیں۔
اسی طرح امام ابو حنیفہ یا زین العابدین کا ہزار رکعت نماز پڑھنا بھی خلاف عادت ہوسکتا ہے، خلاف شرع نہیں۔ اور اگر آپ کیلکولیٹر لیکر حساب لگائیں گے تو آپ نہ تو دن میں ہزار رکعت ثابت کرسکتے ہیں، نہ حضرت ابو بکرؓ کا وہ والا واقعہ جس میں کھانا دعوت سے پہلے اتنا کم تھا کہ آدھے لوگ بھی بمشکل کھاتے، اور جب لوگ کھانا کھا کر فارغ ہوگئے تو ہانڈی میں کھانا اب بھی دوگنا تھا۔ اس طرح تو آپ کو نجانے کتنی چیزوں کا انکار کرنا پڑ جائے گا۔ لیکن ہم اختصار کو اختیار کرتے ہوئے اتنی بات کافی جانتے ہیں۔
آگے آپ نے کہا کہ:
غیر محرم کے پیٹ پر ہاتھ پھیرنے جیسے الزامات شامل ہیں۔
10۔ حافظ ابو نعیم سفیان ثوری نے ایک شخص سے پوچھا اس نے کہا ایک آدمی نے ہاتھ میری ماں کے منھ پر پھیرا جس سے وہ بالکل روشن ہوگئی اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا تو ورم بالکل جاتا رہا ۔ مین نے اس عرض کیا کہ آپ کون ہیں کی میری اور میری ماں کی مصیبت کو آپ نے دور کیا انہونے فرمایا کہ میں تیرا نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہوں ۔ جبکہ آئشہؓ فرماتی ہے کہ اللہ کی قسم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے کسی غیرمحرم عورت کا ہاتھ سے نہیں چھوا بلکہ اس کو صرف بات چیت سے بیعت فرمایا ( مسلم ج ۲ صفحہ ۱۳۱ )
یہ اعتراض بھی بھونڈا اور بے معانی ہے۔ اور اہل علم کے نزدیک تار عنکبوت سے زیادہ نازک اور کمزور ہے۔ آپ کو اعتراض ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اپنی پوری زندگی میں کسی غیر محرم عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا، اس کے لئے آپ نے دلیل میں حدیثِ عائشہ ؓ بھی پیش فرمائی۔ حالانکہ اس حدیث سے یہ ثابت ہی نہیں ہوتا کہ حضورﷺ نے اپنی زندگی میں کبھی ایسا نہیں کیا۔ یہ غلط فہمی کا آپ پہلے ازالہ فرمالیں کہ آپ شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب پر اعتراض کرنے سے اپنے علم حدیث کا اندازہ از خود کرسکتے ہیں۔
اب دیکھیں:
عن عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قالت من حدثکم أن ألنبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یبول قائماً فلا تصدقوہ ما کان یبول الا قاعداً
[مشکواۃ : ص 43]
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ اگر تمہیں یہ خبر پہنچے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پیشاب کیا تو ہر گز اس کی تصدیق نہ کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر پیشاب کیا کرتے تھے۔
عن عائشہ قالت من حدثک ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بال قائمًا فلا تصدقہ انا رایئتہ یبول قاعدًا
ابوبکر بن بن ابی شیبہ و سویدن بن سعید و اسماعیل بن موسٰی سدی ، شریک،مقدام بن شریح بن ہانی ، ہانی ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں "جو تمہیں یہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ھوکر پیشاب کیا، تو تم اس کی تصدیق نہ کرنا ، میں نے یہی دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر پیشاب کرتے تھے" ۔
سنن ابن ماجہ،ج١،صفحہ ٢٦٣
حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ تم تصدیق ہی مت کرنا، یعنی یقین ہی مت کرنا کہ حضور ﷺ نے کھڑے ہو کر پیشاب فرمایا۔ اس کے برعکس آپ پوری بخاری شریف میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنا تو ثابت کرسکتے ہیں، لیکن بیٹھ کر پیشاب کرنا نہیں ثابت کرسکتے۔
اب یا تو امام بخاری جھوٹے ہوئے، یا حضرت عائشہ (العیاذ باللہ) آپ فیصلہ کریں کہ کس پر یقین کرنے کو تیار ہیں اور کس پر نہیں؟ اب جب یہ ثابت ہوا کہ امام بخاری کی حدیث بھی صحیح ہے، اور حضرت عائشہ بھی درست کہہ رہی ہیں تو معلوم ہوا حضرت عائشہ کے علم میں جو تھا وہ انہوں نے بیان کردیا، ان کے علم میں صرف گھر کی کیفیت تھی، جب کہ حضرت حذیفہ کی کھڑے ہوکر پیشاب والی حدیث گھر سے باہر کا واقعہ ہے جو حضرت عائشہ کے علم میں ہی نہیں تھا۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا غیر محرم عورت کا ہاتھ پکڑ کر بیعت کرنا اور مصافحہ کرنا بھی احادیث اور روایات سے ثابت ہے۔ ایک روایت خادمہ رسول حضرت ماریہ سے استیعاب میں موجود ہے کہ انہوں نے حضور سے مصافحہ کیا تو جانا کہ ان کے ہاتھ سے نرم دنیا میں کسی اور کا ہاتھ ہی نہیں۔
اسی طرح تفسیر ابن کثیر چوتھی جلد میں حافظ ابن کثیر ھندہ کے بیعت ہونے کا واقعہ بھی ہے۔
تو کیا آپ یہ دلیل بنائیں گے کہ نہیں ہم صرف حدیث عائشہ کو مانیں گے، اور کسی دوسری چیز کو نہیں مانیں گے؟ تو خود سوچئے کہ آپ کو یہ تعصب کہاں کہاں کی سیر کرا کر آخر میں قران سے بھی آزاد کر دے گا۔
یہ تو ہوئی حدیث کی بات۔ اب واقعے کی طرف آئیں تو دو باتیں واضح ہوتی ہیں۔
پہلی تو یہ کہ واقعہ میں واضح لکھا ہے کہ یہ واقعہ سفیان ثوری کے وقت کا ہے (جو دوسری صدی ہجری یعنی حضور ﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے تقریباً ڈیڑھ دو سو سال بعد کا) اور جو شخصیت ظاہر ہوئی وہ بادل سے ظاہر ہوئی، یعنی وہ کوئی نور تھا، جسدِ مثالی تھا، جسد خاکی نہیں تھا۔ اب آپ یہ بتائیں کیا آپ جسد مثالی برزخی پر بھی وہی احکام نافذ کرتے ہیں جو جسد خاکی زندہ پر کرتے ہیں؟ کیا جسد خاکی، یا اہل قبر پر بھی نماز، روزہ، ذکوۃ اور حج کو فرض سمجھتے ہیں؟ اسی طرح پردہ، اور دوسرے احکام؟ پھر جسد مثالی کے وجود کے تو آپ بھی قائل ہیں، کیا ایک جسد مثالی کا ایک جسد خاکی کو چھونا حقیقی معنی میں وہی چھونا ہوتا ہے جیسا کہ دو جسد خاکی ایک دوسرے کو چھوتے ہیں؟
دوسری بات یہ کہ حضرت زکریا نے اس واقعے کا حدیث میں ہونے کا دعوی نہیں کیا کہ وہ جھوٹے ہو جاتے۔ بلکہ وہاں تو صراحت موجود ہے کہ ”
ان واقعات کی حدیث کے آگے کوئی حیثیت نہیں، محض لوگوں کی عادت ہے کہ بزرگان کے قصوں سے جلد نصیحت پکڑ لیتے ہیں“ ::::
اگر کسی کو اب بھی تعصب اور حسد کی وجہ سے حقیقت نہ دکھے تو اس کا علاج تو نبی ﷺ کے پاس بھی نہیں تھا۔ ہمارے پاس کیا ہوگا؟
اس کے بعد آپ نے فرمایا:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں شراب پینے کا حکم
9۔ شیخ علی متقی نقل کرتے تھے کہ ایک فقیر نے فقراء مغرب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ اس کو شراب پینے کے لئے فرماتے ہیں ۔
اب مجھے مجبوراً عرض کرنا پڑے گا کہ آپ کو تعصب میں جھوٹ بولتے ہوئے بھی حیا نہیں آئی۔ یوسف بھائی یہ بات درست ہے کہ ہم تقلید کرتے ہیں، لیکن ہم ایک بصیرت والے امام کی متقی اور پرہیزگار اور پہلی صدی ہجری کے امام (جس کے امام ہونے پر بھی جمہور آئمہ نے اجماع کیا ہے) کی تقلید کرتے ہیں۔ لیکن آپ نے تو یہ اعتراض کرکے یہ ثابت کردیا کہ آپ اپنے نفس اور چودھوی صدی کے کسی جاہل امام کی تقلید میں جھوٹ بولنے پر بھی برانگیختہ ہو گئے۔ اب آپ خود ہی بتائیں کہ ہم درست ہیں یا آپ؟ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہمارے اکابر اغلاط سے پاک ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر آپ اخلاص کے ساتھ ان کی کوئی غلطی بتائیں، اور وہ بات حقیقت میں غلطی ثابت ہو جائے تو ہم اسے تسلیم کریں گے۔ لیکن بات یہ ہے کہ کوئی بھی اخلاص والا موجود نہیں۔ میں فضائل اعمال کے اس صفحے کا اسکین لگا رہا ہوں آپ، اور باقی حضرات خود ہی فیصلہ کریں کہ کیا حضرت ذکریا صاحب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر شراب کا حکم دینے کا الزام لگایا ہے یا جناب یوسف صاحب نے قران و حدیث کی دعوت دیتے ہوئے قران و حدیث کو بالائے طاق رکھ کر ایک جھوٹا الزام ایک بزرگ عالم پر محض تعصب کی بنیاد پر جڑ کر اللہ کی لعنت کو اپنے لئے پسند فرمایا ہے؟
11۔ پس نوشت: فضائل اعمال کا نسخہ اس وقت میرے سامنے موجود ہے۔ اور اسے میں بارہا پڑھ چکا ہوں
کتنی حیرت کی بات ہے کہ بارہا ایک چیز کو پڑھ کر بھی اس سے کچھ حاصل کرنے کی بجائے آپ نے اس پر صرف جھوٹ ہی بولا۔ کوئی اصلاحی کارنامہ انجام نہ دے سکے۔
آخر میں یوسف صاحب کو میں یہ مشورہ دونگا کہ جھوٹ اور اندھی تقلید سے پرہیز فرمائیں۔ شکریہ۔