لیکن ہم کرامت کو نہیں مانتے۔۔۔ ۔!!! مزمل شیخ بسملؔ

شاہد شاہنواز

لائبریرین
آپ کا موضوع ۔۔۔ لیکن ہم کرامت کو نہیں مانتے ۔۔۔ بنیادی طور پر ایک رویے کے خلاف ہے اور رویہ یہ ہے کہ کرامت کو ماننا علم غیب کو ماننا ہے جس سے شرک لازم آتا ہے۔۔۔ ۔ہم اس قسم کے مباحث میں بہت پڑے اور دلائل و براہین میں بھی بہت الجھے ، تاہم ایک ہی بات سمجھ میں آئی کہ خدا جسے ہدایت دینا چاہے اسے آپ گمراہ نہیں کرسکتے اور جسے وہ ہدایت نہ دینا چاہے آپ اسے راہ راست پر بھی نہیں لاسکتے۔۔۔ کسی کو راہ راست پر لانا ہے تو اپنے کردار کا نمونہ پیش کیجئے۔۔۔ بحث سے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بعض اوقات ایسا مقام بھی آجاتا ہے کہ سب کیے کرائے پر پانی پھر جاتا ہے۔۔۔ علم ، عقل اور زہد و تقویٰ زائل ہوجاتے ہیں۔۔۔ یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں اچانک آپ کا علم جواب دے جائے، کچھ نہ سوجھے ، لیکن آپ کو محض اندھا یقین ہو کہ آپ حق پر ہیں۔۔۔ تو دلیل کے لیے حق پر ہونے کا محض یقین ہی کافی نہیں ہے، اس کے لیے علم بھی ضروری ہے۔۔۔ اب علم اس مسئلے کا نہیں ہے جس کی بابت آپ سے سوال پوچھ لیا گیا ہو اور آپ اس کا جواب دیں ، پھر اس کا الزام حضور پر یا اللہ پر عائد کریں کہ ایسا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یا پھر اللہ عزوجل نے فرمایا ہے، تو سوچئے آپ کیا کرنا چاہتے تھے اور آپ کیا کر بیٹھے۔۔۔ لہٰذا بحث ، خصوصا دینی موضوعات کی بحث سے پرہیز لازمی ہے۔۔۔ یہی نجات کا راستہ ہے۔۔۔ دوسرے مسلک کے لوگوں کو قائل مت کیجئے جب تک آپ کا اپنا دین مکمل نہ ہوجائے اور دین مکمل ہونے کی شرط پہلے علم اور پھر عمل ہے۔۔۔ رہی بات ان لوگوں کی جو خواہ مخواہ الٹے سیدھے سوالات پوچھ کر آپ کو اپنے تئیں راہ راست پر لانے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کا ایک ہی جواب ہےجو قرآن ہمیں سمجھاتا ہے:
اور جب جاہل ان سے کلام کرتے ہیں تو ان کا کلام سلام ہوتا ہے۔۔
 

یوسف-2

محفلین
”فضائل اعمال“ (سابقہ نام ”تبلیغی نصاب“ جو بوجوہ تبدیل کردیا گیا) ہو، ”بہشتی زیور“ہو، کشف المہجوب ہو یا اسی جیسی کوئی اور تصنیف، یہ اغلاط سے پاک ہرگز نہیں ہیں۔ ان میں قرآن اور صحیح احادیث سے موافق مواد بھی ہیں اور متصادم بھی۔ اور کسی انسانی تصنیف میں اغلاط کا نہ ہونا، یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان خطا کا پتلاہے۔ اصل اور دین ان کتب میں نہیں بلکہ جیسا کہ برادرم محمد یعقوب آسی نے فرمایا، اصل دین قرآن اور صحیح احادیث میں موجود ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب دین اسلام کا مستند اور مکمل منبع قرآن و حدیث موجود ہے تو ہم پھر ہم اس قسم کی ناقص تصانیف کو سینے سے لگانے پر ہی کیوں مصر ہیں۔ پہلے قرآن پڑھئے۔ عربی سیکھ کر پڑھئے۔ اگر ایسا نہیں کرسکتے تو تراجم سے ہی قرآن کا دوچار مرتبہ مکمل مطالعہ کیجئے تاکہ آپ قرآن اور اسلام کی روح کو سمجھ سکیں۔ ساتھ ساتھ صحیح احادیث (جیسے بخاری و مسلم وغیرہ) کا مطالعہ کجیئے۔ جب ایک مسلمان کا قلب اور دماغ قرآن اور احادیث کی روح سے آشنا ہوجائے تو پھر دیگر اسلامی اسکالرز کی کتب ضرور پڑھئے آپ کو خود معلوم ہوتا جائے گا کہ ان کتب میں کیا کچھ قرآن و احادیث کی تشریحات پر مبنی ہیں اور کیا کچھ اس کے برخلاف۔ عموماً لوگ اپنے ”ممدوح دینی اسکالرز“ کی تحریر کو ”حرف ِ آخر“ سمجھ کر ایک طرف تو قرآن و حدیث سے ”بے نیاز“ ہوجاتے ہیں، دوسری طرف اگر کوئی ان کتب کی خامیوں کی طرف توجہ دلائے تو سیخ پا ہوجاتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں۔
  1. تبلیغی نصاب میں بیشتر مقامات پر قرآن اور احادیث کے کوٹیشنز سمیت دیگر ”واقعات“ بلا حوالہ بیان کئے گئے ہیں۔ کسی بھی دینی تصنیف کے ”مستند ہونے“ کی سب سے بڑی ”پہچان“ یہ ہوا کرتی ہے کہ اس میں پیش کردہ کوٹیشنز کا حوالہ بھی موجود ہو۔ متعدد مقامات پرقرآنی آیات کا حوالہ ”پارہ نمبر فلاں، رکوع نمبر فلاں“ دیا گیا ہے۔ جبکہ قرآنی آیات کا حوالہ ہمیشہ سورت نمبر اور آیت نمبر کے طور پر دیا جاتا ہے۔
  2. فضائل اعمال نامی اس کتاب میں بہت سی ”غلط بیانیاں“ موجود ہیں جیسے امام شافعی کا نماز میں ساٹھ قرآن پاک کا پڑھنا ، ایک سید صاحب کا بارہ دن تک ایک ہی وضوع سے نماز پڑھنا ، زین العابدین کا دن میں ہزار رکعات نماز پڈھنا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں شراب پینے کا حکم اور غیر محرم کے پیٹ پر ہاتھ پھیرنے جیسے الزامات شامل ہیں۔
  3. صاحب کتاب کارکنانِ تبلیغی جماعت کے متعلق فرماتے ہیں: اگر چہ تم کتنے ہی ضعیف ہو ممکن ہے کہ حق تعالیٰ تم سے وہ کام لیں جو بڑے بڑوں سے نہ ہوسکے اور اگر حق تعالیٰ کسی کام کو لینا نہیں چاہتے تو انبیاء بھی کتنی کوشش کریں تب بھی وہ ذرہ نہیں ہل سکتا اور اگر کرنا چاہے تو تم جیسے ضعیف سے بھی وہ کام لے لیں جو انبیاء سے بھی نہ ہوسکے غرض جب کہ ہمارے پاس تمہارے جیسے ضعیف ہیں تو حق تعالیٰ تم سے سب کام لے لیں گے ( مکاتیب الیاس ص ۲۱)
  4. نظام الٰہی میں بھول (نعوذباللہ) ۔۔۔ ام کلثوم کے خاوند عبدالرحمٰن تھے اور ایک دفعہ ایسی سکتہ کی حالت ہوگئی کہ سب نے انتقال ہونا تجویز کرلیا ام کلثوم اٹھیں اور نماز کی نیت باندھ لی ۔ نماز سے فارغ ہوئیں تو عبدالرحمٰن کو بھی افاقہ ہوا ۔ لوگوں سے پوچھا کہ کیا میری حالت موت کی سی ہوگئی تھی ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ جی ہاں ، فرمایا کہ،، دو فرشتے میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا چلو احکم الحاکمین کی بارگاہ میں تمہارا فیصلہ ہونا ہے ۔ وہ مجھے لے جانے لگے کہ ایک تیسرے فرشتہ آیا اور ان دونوں سے کہا کہ تم چلے جاؤ یہ ان لوگوں میں سے ہے جن کی قسمت میں سعادت( نیکی ) اس وقت لکھ دی گئی تھی جب یہ ماں کے پیٹ میں تھے اور ابھی انکی اولاد کوان سے فوائد حاصل کرنے ہیں ۔ اس کے بعد ایک مہینے تک عبدالرحمٰن زندہ رہے پھر انتقال ہوا ( فضائل اعمال باب فضائل نماز صفحہ ۱۰ ) ۔۔۔ جبکہ قرآن میں فرشتوں کے بارے میں ہے (و یفعلون ما یو مرون، سورہ تحریم ۶ ) ترجمہ: وہ تو وہی کرتے ہے جن کا انہیں حکم دیا گیا ہوتا ہے ۔
  5. امام شافعی کا معمول تھا کی رمضان میں ساٹھ قرآن شریف نماز میں پڑھا کرتے تھے ، نماز واحد صیغہ ہے معلوم ہوا کہ ایک نمازمیں ساٹھ قرآن پڑھا تو امام صاحب نہ ہوا کوئی کمپیوٹر ہوا ۔
  6. ایک سید صاحب کا قصہ لکھا ہے بارہ دن تک ایک ہی وضوع سے ساری نماز یں پڑھیں اور پندرہ برس مسلسل لیٹنے کی نوبت نہ آئی کئی دن ایسے گزر جاتے کہ کوئی چیز چکھنے کی نوبت نہ آتی تھی ( فضائل نماز صفحہ ۶۵) عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ان آبد و زاہد صحابہ میں سے تھے کی روزانہ ایک قرآن مجید ختم کرتے اور رات بھر عبادت میں مشغول رہتے تھے اور دن کو ہمیشہ روزہ دار رہتے ( حکایت صحابہ صفحہ ۱۶۰ ) ۔۔۔ جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ پوری پوری رات عبادت کرنے اور ہمیشہ روزہ رکھنے کو منع فرمایا دیکھئے (بخاری شریف کتاب رمضان )
  7. (۱) شیخ ابو ایوب سنوسی۔ (۲) ابوالحسین مالکی ،(۳) ابو اعلی کے متعلق زکریا صاحب نے لکھا ہے کہ ان تینوں بزرگوں نے مرنے سے پہلے ہی مرنے کا وقت بتایا چناچہ ایسا ہی ہوا ۔
  8. حسن بن حی کہتے ہے کہ میرے بھائی علی کا جس رات انتقال ہوا ، کہنے لگے جبرائیل ابھی پانی لائے تھے وہ مجھے پلا گئے اور فرما گئے کہ توں اور تیرا بھائی ان لوگوں میں سے ہے جن پر حق تعالیٰ شانہ نے انعام فرما رکھا ہے ( باب فضائل صدقات صفحہ ۴۷۸ تا ۴۸۱ ) مذکورہ واقعہ کے برعکس پڑھے ۔ حدیث::: قد کان فیما قبلکم من المم محدثون و ان کان فی امتی ھذہ فانه عمر بن الخطاب ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گزرے ہوئے زمانے کی تم سے پہلی امتوں میں محدث، کشف الہام والے ہوا کرتے تھے میری امت میں اگر کوئی ہوتا تو وہ عمر بن الخطاب ہوتے ( بخاری شریف کتاب مناقب عمر )
  9. شیخ علی متقی نقل کرتے تھے کہ ایک فقیر نے فقراء مغرب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ اس کو شراب پینے کے لئے فرماتے ہیں ۔
  10. حافظ ابو نعیم سفیان ثوری نے ایک شخص سے پوچھا اس نے کہا ایک آدمی نے ہاتھ میری ماں کے منھ پر پھیرا جس سے وہ بالکل روشن ہوگئی اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا تو ورم بالکل جاتا رہا ۔ مین نے اس عرض کیا کہ آپ کون ہیں کی میری اور میری ماں کی مصیبت کو آپ نے دور کیا انہونے فرمایا کہ میں تیرا نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہوں ۔ جبکہ عائشہؓ فرماتی ہے کہ اللہ کی قسم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے کسی غیرمحرم عورت کا ہاتھ سے نہیں چھوا بلکہ اس کو صرف بات چیت سے بیعت فرمایا ( مسلم ج ۲ صفحہ ۱۳۱ )

  11. پس نوشت: فضائل اعمال کا نسخہ اس وقت میرے سامنے موجود ہے۔ اور اسے میں بارہا پڑھ چکا ہوں
 
مدیر کی آخری تدوین:
”فضائل اعمال“ (سابقہ نام ”تبلیغی نصاب“ جو بوجوہ تبدیل کردیا گیا) ہو، ”بہشتی زیور“ہو، کشف المجوب ہو یا اسی جیسی کوئی اور تصنیف، یہ اغلاط سے پاک ہرگز نہیں ہیں۔ ان میں قرآن اور صحیح احادیث سے موافق مواد بھی ہیں اور متصادم بھی۔ اور کسی انسانی تصنیف میں اغلاط کا نہ ہونا، یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان خطا کا پتلاہے۔ اصل اور دین ان کتب میں نہیں بلکہ جیسا کہ برادرم محمد یعقوب آسی نے فرمایا، اصل دین قرآن اور صحیح احادیث میں موجود ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب دین اسلام کا مستند اور مکمل منبع قرآن و حدیث موجود ہے تو ہم پھر ہم اس قسم کی ناقص تصانیف کو سینے سے لگانے پر ہی کیوں مصر ہیں
۔ پہلے قرآن پڑھئے۔ عربی سیکھ کر پڑھئے۔ اگر ایسا نہیں کرسکتے تو تراجم سے ہی قرآن کا دوچار مرتبہ مکمل مطالعہ کیجئے تاکہ آپ قرآن اور اسلام کی روح کو سمجھ سکیں۔ ساتھ ساتھ صحیح احادیث (جیسے بخاری و مسلم وغیرہ) کا مطالعہ کجیئے۔ جب ایک مسلمان کا قلب اور دماغ قرآن اور احادیث کی روح سے آشنا ہوجائے تو پھر دیگر اسلامی اسکالرز کی کتب ضرور پڑھئے آپ کو خود معلوم ہوتا جائے گا کہ ان کتب میں کیا کچھ قرآن و احادیث کی تشریحات پر مبنی ہیں اور کیا کچھ اس کے برخلاف۔ عموماً لوگ اپنے ”ممدوح دینی اسکالرز“ کی تحریر کو ”حرف ِ آخر“ سمجھ کر ایک طرف تو قرآن و حدیث سے ”بے نیاز“ ہوجاتے ہیں، دوسری طرف اگر کوئی ان کتب کی خامیوں کی طرف توجہ دلائے تو سیخ پا ہوجاتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں۔


پہلی بات تو میں یہ عرض کردوں کہ کوئی صحیح و سالم العقیدہ و عقل انسان فضائل اعمال، کشف المحجوب یا بہشتی زیور کو عقائد کی کتاب سمجھتا ہی نہیں ہے۔ اس لئے یہیں سے اس بات کی وضاحت ہوگئی کہ ہم ان کتابوں کو انکی اپنی حیثیت میں رکھتے ہیں۔ مثلاً یہ بات کوئی نہیں کہتا کہ فضائل اعمال میں نماز و روزہ اور حج کرنے کا طریقہ اور مسائل موجود ہیں۔ بلکہ ہر ایک یہی کہتا ہے کہ فضائل اعمال میں صرف اعمال کے فضائل موجود ہیں۔
اسی طرح یہ بھی کوئی نہیں کہتا کہ کشف المحجوب عقائد کی کتاب ہے۔ اور اس میں مسلمانوں کے مستند عقائد لکھے ہیں کہ جن پر مسلمان ایمان رکھے گا تو مسلمان رہے گا بصورتِ دیگر کافر ہوجائے گا۔
بہشتی زیور فقہی کتاب ہے جو فقہ حنفی کی جدید کتابوں میں ایک معتبر اور جامع کتاب ہے۔ عام طور پر پیش آنے والے فقہی مسائل اس میں جامع طریقے سے لکھے ہیں۔ لیکن عقائد کی کتاب یہ بھی نہیں۔ اگر کوئی امام احمد بن حنبل کا ماننے والا ہے، تو ہم اسے یہ نہیں کہتے کہ وہ حنبلی فقہ کو چھوڑ کر حنفی فقہ پر ہی عمل کرے۔
اب ایک بات تو یہ سامنے آئی کہ عقیدہ صرف قران کی آیت اور حدیثِ متواترہ، غیر متعارضہ ہی سے ثابت ہوگا کسی فضائل، یا فقہ کی کتاب سے نہیں۔ اگر عقیدہ میں کوئی کسی فقیہ یا محدث یا امام کے قول یا فعل کی تقلید کرے تو اسے ہم جاہل کہتے ہیں۔ اور یہی بات ہم کہتے ہیں کہ اگر کسی کے عقیدے کو سمجھنا ہے تو اس کے عقائد کی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے۔ یہاں یہ بات ایک دم واضح ہو جاتی ہے کہ تبلیغی جماعت نہ تو فضائل اعمال کو قران پر برتری دیتی ہے نہ حدیث پر۔ اور فضائل سنانے کا مقصد صرف اعمال کی رغبت دلانا ہے۔ کیونکہ علم کے فروغ کے لئے ہزاروں مدارس مسلسل محنت میں لگے ہوئے ہیں، لیکن دنیا اعمال سے خالی ہوتی جارہی ہے، اگر کوئی تعصب کی نگاہ سے ہٹ کر غیر متعصب ہو کر فیصلہ کرے تو یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ گاؤں گاؤں، بنجر بیابان اور بلوچستان کے جنگلات جہاں دودھ نہیں صرف کالی چائے میسر ہوتی ہے، مسجد اتنی کھنڈر کے دو دو فٹ لمبے سانپ وہاں موجود ہوتے ہیں، وہاں جا کر تبلیغی لوگ مسلمانوں کو دین کی رغبت دلاتے ہیں، فضائل سنا کر ان لوگوں کو نماز اور روزے کی دعوت دیتے ہیں جنہوں نے کبھی کلمہ بھی نہیں سیکھا ہوتا۔ اور صرف ایک ہی قول دہراتے ہیں کہ ”سب کچھ اللہ سے ہونے کا یقین، اور اللہ کے غیر سے کچھ نہ ہونے کا یقین ہمارے دلوں میں آجائے“ کاش ایسے ویرانوں میں آپ خود اپنے آپ جاکر لوگوں کو کلمہ پڑھانے اور اعمال کی رغبت کی بجائے پہلے عربی سکھائیں، پھر حدیثیں پڑھائیں اور پھر تخصص فی الحدیث کروا کر ایک ایک آدمی کو محدث بنائیں تو بہت ثواب ہو آپ کو۔ :) ویسے میں نے تو آج تک کسی تبلیغی کو کبھی شرک و بدعات میں ملوث نہیں پایا۔ :)


فی الوقت اتنا ہی۔ باقی اعتراضات کا جواب بعد میں لکھتا ہوں۔
 
میرا خیال ہے کہ موضوع تبلیغی جماعت نہیں ہے بلکہ "کرامت" کو ماننا یا نہ ماننا ہے۔۔۔۔جو لوگ کرامت کو مانتے ہیں ضروری نہیں کہ وہ تبلیغی جماعت کے ممبر ہوں۔۔:)
 
آخری تدوین:
میرا خیال ہے کہ موضوع تبلیغی جماعت نہیں ہے بلکہ "کرامت" کو ماننا یا نہ ماننا ہے۔۔۔ ۔جو لوگ کرامت کو مانتے ہیں ضروقری نہیں کہ وہ تبلیغی جماعت کے ممبر ہون۔۔:)

بالکل۔ یہاں تبلیغی نصاب کی بات صرف مباحث میں ذکر کی حد تک تھی۔ اصل موضوع کرامت کا جواز اور عدم جواز ہے۔
 
  1. تبلیغی نصاب میں بیشتر مقامات پر قرآن اور احادیث کے کوٹیشنز سمیت دیگر ”واقعات“ بلا حوالہ بیان کئے گئے ہیں۔ کسی بھی دینی تصنیف کے ”مستند ہونے“ کی سب سے بڑی ”پہچان“ یہ ہوا کرتی ہے کہ اس میں پیش کردہ کوٹیشنز کا حوالہ بھی موجود ہو۔ متعدد مقامات پرقرآنی آیات کا حوالہ ”پارہ نمبر فلاں، رکوع نمبر فلاں“ دیا گیا ہے۔ جبکہ قرآنی آیات کا حوالہ ہمیشہ سورت نمبر اور آیت نمبر کے طور پر دیا جاتا ہے۔
یہ محض آپ کی اپنی اختراع ہے کہ اگر حوالہ لکھا ہوا نہ ہو تو وہ دینی تصنیف نہیں یا اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر ایک معتبر عالم نے عام لوگوں کے لئے کوئی کتاب لکھی ہے تو عالم کو ضرور ہے کہ وہ ساری باتیں درست لکھے۔ ان کا حوالہ لکھنا نہ سنت ہے، نہ واجب نہ فرض۔ پھر حوالہ یا دلیل نہ لکھنے کا کیا آپ یہ مطلب لیتے کہ حوالہ اور دلیل سرے سے موجود ہی نہیں؟ تب بھی آپ غلطی پر ہیں۔ یعنی آپ دونوں طریقوں سے غلطی کر رہے ہیں۔ ایک تو یہ کہہ کر کہ کسی تصنیف کے مستند ہونے کے ہر بات کا حوالہ نقل کرنا ضروری ہیں۔ دوسرا یہ سمجھ کر کہ جس تصنیف میں حوالے نہیں نقل کئے وہ غیر معتبر یا غیر اسلامی تصنیف ہے۔بے شک فضائل اعمال میں حدیثوں کے صفحے وغیرہ کے حوالے نہیں دئے، مگر بعد میں علماء نے مصنف کی بتائی ہوئی ماخذ کتابوں سے ان کو تلاش کرکے کافی حد تک ان احادیث کی تخریج بھی کردی ہے۔ اور جہاں صرف کوئی واقعہ حدیث کے علاوہ ہے وہاں حکایت کے ذیل میں اس واقعے کو نقل کیا ہے۔ اب اگر آپ اسے غلط کہیں اور اگر آپ اس اصول پر قائم ہیں تو آپ کو ہر وہ کتاب رد کرنی پڑے گی جو اس اصول سے ٹکرائے اور ہر چیز کا حوالہ پیش نہ کرے۔ میں صرف دو مثالیں آپ کو دیتا ہوں:

1۔ بخاری شریف اس وقت حدیث کی صحیح ترین کتاب ہے (آپ کے مطابق بھی)۔ جس کی تمام احادیث کو سو فی صد درست مانا جاتا ہے ، امام بخاری کی جو تعلیقات بخاری میں احادیث ہیں کیا حافظ ابن حجر شافعی نے فتح الباری اور تعلیق التعلیق میں وہ تمام تعلیقات تلاش کرلی ہیں؟ کیا وہ ساری تعلیقات اسی طرح ہیں جس طرح بخاری شریف میں ہیں؟ یا ان پر ابھی کام باقی ہے؟ یا ابن حجر کے علاوہ اور کسی محدث نے یہ کام مکمل طور پر انجام دے دیا ہے؟ کیا آپ اس اصول کی وجہ سے امام بخاری کو ”غلط بیانی“ کا ملزم اور بخاری شریف کو غیر مستند اور غیر معتبر کتاب ٹھہرا دیں گے؟

2۔ امام ترمذی نے ترمذی کے فی الباب کے تحت جن احادیث و آثار یا فقہی اقوال کا ذکر کیا ہے کیا ان تمام کی تخریج ہو چکی ہے؟ اس موضوع پر حافظ ابن حجر کی کتاب تو نا مکمل ہے، کیا مولانا عبد الرحمن مبارک پوری نے تحفۃ الاحوذی میں مکمل تخریج کی ہے؟ یا کسی اور کا نام جس نے یہ کام مکمل کردیا اور ہر ایک چیز پر حوالہ نقل کردیا ہو؟ کیا اس وجہ سے ترمذی کو غیر مستند اور غیر اسلامی تصنیف قرار دیا جاسکتا ہے؟

آپ نے کہا کہ فضائل اعمال میں بیشتر قران و حدیث کے کوٹیشنز بلا حوالہ نقل کیے ہیں تو محترم آپ فضائل اعمال ہی کے مقدمہ میں ملاحظہ فرمائیں جہاں فضائل اعمال کی ایک سو کے قریب ماخذ کتابوں کے نام لکھے ہیں، اب چونکہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو ہر خاص و عام کے ہاتھ میں جاتی ہے اس لئے با قاعدہ ہر حدیث وغیرہ پر صفحہ اور حدیث نمبر لکھنا غیر ضروری سمجھا گیا ہے۔ کیونکہ عوام (چاہے جس مسلک سے بھی تعلق رکھتے ہوں) سب کے سب مقلد ہوتے ہیں، جن حضرات نے فضائل اعمال کے مقابلے میں ”صحیح فضائل اعمال“ نکالی ہے ان کے ہم مسلک لوگ بھی محض حدیث دیکھتے ہیں، اور یہ دیکھتے ہیں کہ حوالہ نیچے لکھا ہے یا نہیں۔ حوالے کو جا کر کتب احادیث میں تلاش نہیں کرتے۔ :) اور نہ وہ اپنے ہر ایک عمل کی قران و سنت سے دلیل جانتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ وہ حدیث پر نہیں بلکہ اپنے علماء پر محض اس حسن ظن سے اعتماد کرتے ہیں کہ اس نے حوالہ لکھا ہے تو درست ہی ہوگا۔ اسی کو تقلید کہا جاتا ہے دوست۔ :)
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
  1. حافظ ابو نعیم سفیان ثوری نے ایک شخص سے پوچھا اس نے کہا ایک آدمی نے ہاتھ میری ماں کے منھ پر پھیرا جس سے وہ بالکل روشن ہوگئی اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا تو ورم بالکل جاتا رہا ۔ مین نے اس عرض کیا کہ آپ کون ہیں کی میری اور میری ماں کی مصیبت کو آپ نے دور کیا انہونے فرمایا کہ میں تیرا نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہوں ۔ جبکہ ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہے کہ اللہ کی قسم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے کسی غیرمحرم عورت کا ہاتھ سے نہیں چھوا بلکہ اس کو صرف بات چیت سے بیعت فرمایا ( مسلم ج ۲ صفحہ ۱۳۱ )

  2. پس نوشت: فضائل اعمال کا نسخہ اس وقت میرے سامنے موجود ہے۔ اور اسے میں بارہا پڑھ چکا ہوں
براہ کرم اپنا مراسلے میں نیلے رنگ میں موجود الفاظ دیکھ لیجیے.
 
2۔ فضائل اعمال نامی اس کتاب میں بہت سی ”غلط بیانیاں“ موجود ہیں جیسے امام شافعی کا نماز میں ساٹھ قرآن پاک کا پڑھنا ، ایک سید صاحب کا بارہ دن تک ایک ہی وضوع سے نماز پڑھنا ، زین العابدین کا دن میں ہزار رکعات نماز پڈھنا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں شراب پینے کا حکم اور غیر محرم کے پیٹ پر ہاتھ پھیرنے جیسے الزامات شامل ہیں۔

5۔ امام شافعی کا معمول تھا کی رمضان میں ساٹھ قرآن شریف نماز میں پڑھا کرتے تھے ، نماز واحد صیغہ ہے معلوم ہوا کہ ایک نمازمیں ساٹھ قرآن پڑھا تو امام صاحب نہ ہوا کوئی کمپیوٹر ہوا ۔

9۔ شیخ علی متقی نقل کرتے تھے کہ ایک فقیر نے فقراء مغرب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ اس کو شراب پینے کے لئے فرماتے ہیں ۔

10۔ حافظ ابو نعیم سفیان ثوری نے ایک شخص سے پوچھا اس نے کہا ایک آدمی نے ہاتھ میری ماں کے منھ پر پھیرا جس سے وہ بالکل روشن ہوگئی اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا تو ورم بالکل جاتا رہا ۔ مین نے اس عرض کیا کہ آپ کون ہیں کی میری اور میری ماں کی مصیبت کو آپ نے دور کیا انہونے فرمایا کہ میں تیرا نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہوں ۔ جبکہ عائشہؓ فرماتی ہے کہ اللہ کی قسم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے کسی غیرمحرم عورت کا ہاتھ سے نہیں چھوا بلکہ اس کو صرف بات چیت سے بیعت فرمایا ( مسلم ج ۲ صفحہ ۱۳۱ )

11۔ پس نوشت: فضائل اعمال کا نسخہ اس وقت میرے سامنے موجود ہے۔ اور اسے میں بارہا پڑھ چکا ہوں

آپ کی غلط بیانیوں والی بات کا تو جواب میں دے ہی چکا ہوں۔ اب آپ آگے فرماتے ہیں کہ:

امام شافعی کا نماز میں ساٹھ قرآن پاک کا پڑھنا
5۔ امام شافعی کا معمول تھا کی رمضان میں ساٹھ قرآن شریف نماز میں پڑھا کرتے تھے ، نماز واحد صیغہ ہے معلوم ہوا کہ ایک نمازمیں ساٹھ قرآن پڑھا تو امام صاحب نہ ہوا کوئی کمپیوٹر ہوا ۔

پہلی تو بات مجھے یہ سمجھا دیں کہ آپ کو اعتراض فضائل اعمال پر ہے، یا امام شافعی پر ہے یا ان کے ساٹھ قران پڑھنے پر ہے یا خاص نماز میں ساٹھ قران پڑھنے پر؟
اگر آپ کو اعتراض فضائل اعمال پر ہے تو بے جا۔ کیونکہ فضائل اعمال پر اعتراض تب جائز تھا جب شیخ زکریا یہ واقعہ اپنی طرف سے گھڑتے، اور جھوٹ بولتے۔ لیکن ایسا نہیں۔
اگر آپ کو امام شافعی کی ذات پر اعتراض ہے تو یہ مسئلہ آپ امام شافعی سے خود گفتگو فرما لیں تاکہ وہ آپ کے سوال کا جواب دے دیں۔
اگر آپ کو اعتراض امام صاحب کے رمضان میں ساٹھ قران ختم کرنے پر ہے تو اس کے خلاف کوئی آیت یا صریح حدیث لے آئیں تاکہ آپ کا یہ اعترض درست مانا جائے۔ (برائے مہربانی تین دن سے کم میں قران ختم والی حدیث نہ لائیں)۔
اگر آپ کو اعتراض خاص نماز کے اندر ساٹھ قران ختم کرنے پر ہے تو یہ بھی ایک بے کار و بے مقصد اعتراض ہے۔ کیونکہ پورے مہینے میں ساٹھ سے زیادہ قران کریم صرف نماز کے اندر ختم کئے جاسکتے ہیں۔
آپ کو اعتراض ہے کہ نماز واحد کا صیغہ ہے اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ امام شافعی "صرف اور صرف ایک" ہی نماز میں ساٹھ قران ختم کرتے تھے تو یہ آپ کی کم فہمی اور لاعلمی کی دلیل ہے۔ اس سے یہ واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ آپ بلاغت کے اصولوں سے بھی بے بہرہ ہیں۔ اگر آپ سے کوئی پوچھے کہ کیا آپ نماز پڑھتے ہیں؟ تو کیا آپ اسے کیا کہیں کہ ”نہیں میں نماز نہیں پڑھتا بلکہ پانچ نمازیں پڑھتا ہوں“ تو یہ آپ کی عقلمندی نہیں بلکہ کم عقلی اور تنگ ذہنیت کہلائے گی۔ آپ ہی بتائیں: ”الصلوۃ مفتاح الجنۃ“ سے مراد ایک ہی نماز ہے؟
الصلوۃ معراج المؤمن سے مراد ایک ہی نماز ہے؟ اگر ہاں تو اس ”ایک“ نماز کا نام کیا ہے؟
اگر کوئی کہے کہ میں نے اس آدمی کو اپنی آنکھ سے دیکھا۔۔۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دیکھتے وقت اس آدمی کی دوسری آنکھ بند تھی؟ یا اگر کوئی آپ سے کہے میں فلاں بات اپنے کان سے سنی، تو کیا آپ اس سے مراد یہ لیں گے کہ اس آدمی نے سنتے وقت اپنا دوسرا کان بند کر لیا تھا؟ یا پھر اگر انسان غصے میں کہے کہ تمھارے گھر میں آج کے بعد اپنے قدم، یا اپنا پاؤں نہیں رکھوں گا تو آپ یہ سمجھیں گے کہ وہ لنگڑا ہے اس کا دوسرا پاؤں موجود ہی نہیں؟
اللہ پاک قران میں فرماتے ہیں ولا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک کیا یہاں بھی ایک ہی ہاتھ مراد لیا جائے گا؟
اللہ کے رسول فرماتے ہیں المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده تو کیا یہاں دوسرے ہاتھ سے ایذا پہنچانا سنت ہوگا؟
معلوم ہوا کہ نماز سے مراد رمضان کی مختلف نمازوں میں ساٹھ قران پڑھنا مراد ہے۔ مجھے تعجب تو یہ ہے کہ آپ ماشا اللہ ذی شعور اور اسلام کو سمجھنے والے ہیں آپ سے اس قسم کے بھونڈے اعتراض کی امید نہیں تھی کہ نماز واحد کا صیغہ ہے اس لئے امام شافعی صرف اور صرف ایک ہی نماز میں ساٹھ قران ختم کر لیتے تھے۔ اللہ کے بندے آپ ان پر، یا کسی پر بھی طعن کرنے سے پہلے اپنے اعتراض کا منطقی جائزہ لیں تو آپ کا اعتراض ہی غیر منطقی ٹھہرے گا۔
جہاں تک بات فضائل اعمال کی ہے تو شیخ ذکریا صاحب نے یہ بات اپنی طرف سے نہیں لکھی بلکہ ان سے بہت پہلے فن جرح و تعدیل کے امام، امام ذہبی نے اپنی کتاب تذکرۃ الحفاظ میں، اور سیر اعلام انبلاء میں بھی امام صاحب کے مناقب میں نقل فرمایا ہے۔
993661_548102238588761_1004738623_n.jpg



526393_548102335255418_1347867665_n.jpg


اس کے علاوہ علامہ نووی نے المجموع شرح المھذب اور خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں بھی امام شافعی سے ساٹھ قران نماز میں پڑھنا نقل فرمایا ہے۔ تو میرے خیال میں آپ کو ان غلط بیانیوں کا ذمہ دار امام ذہبی، خطیب بغدادی، علامہ نووی اور دیگر محدثین کو بنا کر ان کی تصانیف کو چھوڑدینا چاہئے۔ فضائل اعمال پر اعتراض بے مطلب ہے۔

اس کے بعد آپ نے سید صاحب کا واقعہ بیان کیا، اور زین العابدین والی بات کی، تو بھائی میں یہ کہوں گا کہ آپ پہلے یہی ثابت فرمادیں کہ کسی کا بارہ دن بھوکا رہنا یا ایک وضو سے نماز پڑھنا خلاف شریعت ہے؟ یا خلاف عقل؟ اگر آپ خلاف شرع کہیں تو دلیل دینی پڑے گی۔ اور اگر خلاف عقل کہیں تو اس کے لئے آپ کو بہت چیزوں کا انکار کرنا پڑے گا۔ مثال کے طور پر حضرت ابو ذر روایت کرتے ہیں میں مکہ میں تیس دن اور تیس رات اس حالت میں رہا کہ پانی کے علاوہ میری اور کوئی غذا نہیں تھی۔ اور اس میں بہت صحت مند اور فربہ ہوگیا۔ (صحیح مسلم- فضائل الصحابہ) اب آپ سے سوال ہے کیا آپ اس واقعہ کو خلاف عقل ہونے کی وجہ سے مسلم شریف کا انکار کرنے کی ہمت رکھتے ہیں؟ معلوم ہوا کہ تعصب شیخ زکریا سے ہے اس لئے اعتراض ہوا، ورنہ یہ سب چیزیں کوئی انوکھی نہیں۔
اسی طرح امام ابو حنیفہ یا زین العابدین کا ہزار رکعت نماز پڑھنا بھی خلاف عادت ہوسکتا ہے، خلاف شرع نہیں۔ اور اگر آپ کیلکولیٹر لیکر حساب لگائیں گے تو آپ نہ تو دن میں ہزار رکعت ثابت کرسکتے ہیں، نہ حضرت ابو بکرؓ کا وہ والا واقعہ جس میں کھانا دعوت سے پہلے اتنا کم تھا کہ آدھے لوگ بھی بمشکل کھاتے، اور جب لوگ کھانا کھا کر فارغ ہوگئے تو ہانڈی میں کھانا اب بھی دوگنا تھا۔ اس طرح تو آپ کو نجانے کتنی چیزوں کا انکار کرنا پڑ جائے گا۔ لیکن ہم اختصار کو اختیار کرتے ہوئے اتنی بات کافی جانتے ہیں۔

آگے آپ نے کہا کہ:
غیر محرم کے پیٹ پر ہاتھ پھیرنے جیسے الزامات شامل ہیں۔
10۔ حافظ ابو نعیم سفیان ثوری نے ایک شخص سے پوچھا اس نے کہا ایک آدمی نے ہاتھ میری ماں کے منھ پر پھیرا جس سے وہ بالکل روشن ہوگئی اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا تو ورم بالکل جاتا رہا ۔ مین نے اس عرض کیا کہ آپ کون ہیں کی میری اور میری ماں کی مصیبت کو آپ نے دور کیا انہونے فرمایا کہ میں تیرا نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہوں ۔ جبکہ آئشہؓ فرماتی ہے کہ اللہ کی قسم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے کسی غیرمحرم عورت کا ہاتھ سے نہیں چھوا بلکہ اس کو صرف بات چیت سے بیعت فرمایا ( مسلم ج ۲ صفحہ ۱۳۱ )

یہ اعتراض بھی بھونڈا اور بے معانی ہے۔ اور اہل علم کے نزدیک تار عنکبوت سے زیادہ نازک اور کمزور ہے۔ آپ کو اعتراض ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اپنی پوری زندگی میں کسی غیر محرم عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا، اس کے لئے آپ نے دلیل میں حدیثِ عائشہ ؓ بھی پیش فرمائی۔ حالانکہ اس حدیث سے یہ ثابت ہی نہیں ہوتا کہ حضورﷺ نے اپنی زندگی میں کبھی ایسا نہیں کیا۔ یہ غلط فہمی کا آپ پہلے ازالہ فرمالیں کہ آپ شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب پر اعتراض کرنے سے اپنے علم حدیث کا اندازہ از خود کرسکتے ہیں۔
اب دیکھیں:

عن عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قالت من حدثکم أن ألنبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یبول قائماً فلا تصدقوہ ما کان یبول الا قاعداً
[مشکواۃ : ص 43]
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ اگر تمہیں یہ خبر پہنچے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پیشاب کیا تو ہر گز اس کی تصدیق نہ کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر پیشاب کیا کرتے تھے۔

عن عائشہ قالت من حدثک ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بال قائمًا فلا تصدقہ انا رایئتہ یبول قاعدًا

ابوبکر بن بن ابی شیبہ و سویدن بن سعید و اسماعیل بن موسٰی سدی ، شریک،مقدام بن شریح بن ہانی ، ہانی ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں "جو تمہیں یہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ھوکر پیشاب کیا، تو تم اس کی تصدیق نہ کرنا ، میں نے یہی دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر پیشاب کرتے تھے" ۔
سنن ابن ماجہ،ج١،صفحہ ٢٦٣

حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ تم تصدیق ہی مت کرنا، یعنی یقین ہی مت کرنا کہ حضور ﷺ نے کھڑے ہو کر پیشاب فرمایا۔ اس کے برعکس آپ پوری بخاری شریف میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنا تو ثابت کرسکتے ہیں، لیکن بیٹھ کر پیشاب کرنا نہیں ثابت کرسکتے۔
اب یا تو امام بخاری جھوٹے ہوئے، یا حضرت عائشہ (العیاذ باللہ) آپ فیصلہ کریں کہ کس پر یقین کرنے کو تیار ہیں اور کس پر نہیں؟ اب جب یہ ثابت ہوا کہ امام بخاری کی حدیث بھی صحیح ہے، اور حضرت عائشہ بھی درست کہہ رہی ہیں تو معلوم ہوا حضرت عائشہ کے علم میں جو تھا وہ انہوں نے بیان کردیا، ان کے علم میں صرف گھر کی کیفیت تھی، جب کہ حضرت حذیفہ کی کھڑے ہوکر پیشاب والی حدیث گھر سے باہر کا واقعہ ہے جو حضرت عائشہ کے علم میں ہی نہیں تھا۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا غیر محرم عورت کا ہاتھ پکڑ کر بیعت کرنا اور مصافحہ کرنا بھی احادیث اور روایات سے ثابت ہے۔ ایک روایت خادمہ رسول حضرت ماریہ سے استیعاب میں موجود ہے کہ انہوں نے حضور سے مصافحہ کیا تو جانا کہ ان کے ہاتھ سے نرم دنیا میں کسی اور کا ہاتھ ہی نہیں۔

988273_548102661922052_1530564117_n.jpg


اسی طرح تفسیر ابن کثیر چوتھی جلد میں حافظ ابن کثیر ھندہ کے بیعت ہونے کا واقعہ بھی ہے۔
تو کیا آپ یہ دلیل بنائیں گے کہ نہیں ہم صرف حدیث عائشہ کو مانیں گے، اور کسی دوسری چیز کو نہیں مانیں گے؟ تو خود سوچئے کہ آپ کو یہ تعصب کہاں کہاں کی سیر کرا کر آخر میں قران سے بھی آزاد کر دے گا۔
یہ تو ہوئی حدیث کی بات۔ اب واقعے کی طرف آئیں تو دو باتیں واضح ہوتی ہیں۔
پہلی تو یہ کہ واقعہ میں واضح لکھا ہے کہ یہ واقعہ سفیان ثوری کے وقت کا ہے (جو دوسری صدی ہجری یعنی حضور ﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے تقریباً ڈیڑھ دو سو سال بعد کا) اور جو شخصیت ظاہر ہوئی وہ بادل سے ظاہر ہوئی، یعنی وہ کوئی نور تھا، جسدِ مثالی تھا، جسد خاکی نہیں تھا۔ اب آپ یہ بتائیں کیا آپ جسد مثالی برزخی پر بھی وہی احکام نافذ کرتے ہیں جو جسد خاکی زندہ پر کرتے ہیں؟ کیا جسد خاکی، یا اہل قبر پر بھی نماز، روزہ، ذکوۃ اور حج کو فرض سمجھتے ہیں؟ اسی طرح پردہ، اور دوسرے احکام؟ پھر جسد مثالی کے وجود کے تو آپ بھی قائل ہیں، کیا ایک جسد مثالی کا ایک جسد خاکی کو چھونا حقیقی معنی میں وہی چھونا ہوتا ہے جیسا کہ دو جسد خاکی ایک دوسرے کو چھوتے ہیں؟
دوسری بات یہ کہ حضرت زکریا نے اس واقعے کا حدیث میں ہونے کا دعوی نہیں کیا کہ وہ جھوٹے ہو جاتے۔ بلکہ وہاں تو صراحت موجود ہے کہ ”ان واقعات کی حدیث کے آگے کوئی حیثیت نہیں، محض لوگوں کی عادت ہے کہ بزرگان کے قصوں سے جلد نصیحت پکڑ لیتے ہیں“ ::::
548276_548125918586393_193631786_n.jpg


اگر کسی کو اب بھی تعصب اور حسد کی وجہ سے حقیقت نہ دکھے تو اس کا علاج تو نبی ﷺ کے پاس بھی نہیں تھا۔ ہمارے پاس کیا ہوگا؟

اس کے بعد آپ نے فرمایا:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں شراب پینے کا حکم
9۔ شیخ علی متقی نقل کرتے تھے کہ ایک فقیر نے فقراء مغرب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ اس کو شراب پینے کے لئے فرماتے ہیں ۔

اب مجھے مجبوراً عرض کرنا پڑے گا کہ آپ کو تعصب میں جھوٹ بولتے ہوئے بھی حیا نہیں آئی۔ یوسف بھائی یہ بات درست ہے کہ ہم تقلید کرتے ہیں، لیکن ہم ایک بصیرت والے امام کی متقی اور پرہیزگار اور پہلی صدی ہجری کے امام (جس کے امام ہونے پر بھی جمہور آئمہ نے اجماع کیا ہے) کی تقلید کرتے ہیں۔ لیکن آپ نے تو یہ اعتراض کرکے یہ ثابت کردیا کہ آپ اپنے نفس اور چودھوی صدی کے کسی جاہل امام کی تقلید میں جھوٹ بولنے پر بھی برانگیختہ ہو گئے۔ اب آپ خود ہی بتائیں کہ ہم درست ہیں یا آپ؟ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہمارے اکابر اغلاط سے پاک ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر آپ اخلاص کے ساتھ ان کی کوئی غلطی بتائیں، اور وہ بات حقیقت میں غلطی ثابت ہو جائے تو ہم اسے تسلیم کریں گے۔ لیکن بات یہ ہے کہ کوئی بھی اخلاص والا موجود نہیں۔ میں فضائل اعمال کے اس صفحے کا اسکین لگا رہا ہوں آپ، اور باقی حضرات خود ہی فیصلہ کریں کہ کیا حضرت ذکریا صاحب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر شراب کا حکم دینے کا الزام لگایا ہے یا جناب یوسف صاحب نے قران و حدیث کی دعوت دیتے ہوئے قران و حدیث کو بالائے طاق رکھ کر ایک جھوٹا الزام ایک بزرگ عالم پر محض تعصب کی بنیاد پر جڑ کر اللہ کی لعنت کو اپنے لئے پسند فرمایا ہے؟

970022_548132885252363_949909743_n.jpg



11۔ پس نوشت: فضائل اعمال کا نسخہ اس وقت میرے سامنے موجود ہے۔ اور اسے میں بارہا پڑھ چکا ہوں
کتنی حیرت کی بات ہے کہ بارہا ایک چیز کو پڑھ کر بھی اس سے کچھ حاصل کرنے کی بجائے آپ نے اس پر صرف جھوٹ ہی بولا۔ کوئی اصلاحی کارنامہ انجام نہ دے سکے۔
آخر میں یوسف صاحب کو میں یہ مشورہ دونگا کہ جھوٹ اور اندھی تقلید سے پرہیز فرمائیں۔ شکریہ۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
تبلیغی جماعت کی دینی خدمات اپنی جگہ مسلم ہے اور قابل ستائش ہے ، میرے قریبی جاننے والے بھی تبلیغی جماعت میں ہیں اور میں انکو اچھی طرح جانتا ہوں ، اچھے اور نیک لوگوں کی جماعت ہے (بالعموم)۔۔
تاہم فضائل اعمال نامی کتاب البتہ کافی متنازعہ ہے ، عام عوام کو اسکا مطالعہ نہیں کرنا چاہیئے ، دیو مالائی قصے کی بھرمار ہے
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ مقبول کتاب ہے تو بالکل صحیح کہتے ہیں کیونکہ عوام کی اکثریت فینٹسی میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے ، اس لیے فرضی قصے کہانیوں کے لیے یہ کتاب بہت اچھی ہے ، لیکن تبلیغ کے لیے بہت نقصان دہ
لوگ بجانے اس کے اس متنازعہ کتاب کا بھونڈا دفاع کرے ، چاہیے یہ کہ علماء کی مشوارت سے اس کے قابل اعتراض قصے کہانی اور ضعیف روایت کو حذف کرکے ،مستند اور صحیح احادیث کو جگہ دے ۔۔
ایسی کتاب ہی کیوں لکھے جس میں بعد میں لوگوں کو وضاحتیں دیتے دیتے تھک جائے
۔۔"نہیں یہ ایسا نہیں ویسا ہے ، یہ یوں نہیں ، یوں ہے ،، آپ اسکا صحیح مطلب نہیں سمجھے ، اصل میں اسکا مطلب یہ ہے ، فلانا ڈھماکہ "
خدرار ! سیدھی سادھی عام فہم کی کتاب لکھے ۔۔
اور یہ اعتراضات مخالفین مسلک کا نہیں عام پڑھے لکھے کتاب پڑھنے والی عوام کو بھی ہے
"فضائل اعمال" بیان کے لیے صحیح روایت ہی ان شاء اللہ کافی ہے،
 
آخری تدوین:
تبلیغی جماعت کی دینی خدمات اپنی جگہ مسلم ہے اور قابل ستائش ہے ، میرے قریبی جاننے والے بھی تبلیغی جماعت میں ہیں اور میں انکو اچھی طرح جانتا ہوں ، اچھے اور نیک لوگوں کی جماعت ہے (بالعموم)۔۔
تاہم فضائل اعمال نامی کتاب البتہ کافی متنازعہ ہے ، عام عوام کو اسکا مطالعہ نہیں کرنا چاہیئے ، دیو مالائی قصے کی بھرمار ہے
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ مقبول کتاب ہے تو بالکل صحیح کہتے ہیں کیونکہ عوام کی اکثریت فینٹسی میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے ، اس لیے فرضی قصے کہانیوں کے لیے یہ کتاب بہت اچھی ہے ، لیکن تبلیغ کے لیے بہت نقصان دہ
لوگ بجانے اس کے اس متنازعہ کتاب کا بھونڈا دفاع کرے ، چاہیے یہ کہ علماء کی مشوارت سے اس کے قابل اعتراض قصے کہانی اور ضعیف روایت کو حذف کرکے ،مستند اور صحیح احادیث کو جگہ دے ۔۔
ایسی کتاب ہی کیوں لکھے جس میں بعد میں لوگوں کو وضاحتیں دیتے دیتے تھک جائے
۔۔"نہیں یہ ایسا نہیں ویسا ہے ، یہ یوں نہیں ، یوں ہے ،، آپ اسکا صحیح مطلب نہیں سمجھے ، اصل میں اسکا مطلب یہ ہے ، فلانا ڈھماکہ "
خدرار ! سیدھی سادھی عام فہم کی کتاب لکھے ۔۔
اور یہ اعتراضات مخالفین مسلک کا نہیں عام پڑھے لکھے کتاب پڑھنے والی عوام کو بھی ہے
"فضائل اعمال" بیان کے لیے صحیح روایت ہی ان شاء اللہ کافی ہے،

محترم صحیح اور غلط حدیث کیا ہوتی ہے؟
ضعیف حدیث کیا ہے اور اس کا کیا مقام ہے؟
کیا آپ علم حدیث کی مبادیات سے بھی واقف ہیں؟ یہ علم حدیث، اصول حدیث اور فن اسمائے رجال کس کا تخلیق کیا ہوا علم ہے؟
جہاں تک اعتراض کی بات ہے تو کچھ لوگ صحابہ، اور خلفائے راشدین تک کے اجتھاد کو حجت نہیں مانتے، حضرت عمر اور عثمانؓ کی سنتوں پر ہی اعتراضات کر دیتے ہیں تو فضائل اعمال کی تو حیثیت پھر کچھ بھی نہیں۔ قابل غور بات صرف یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے کی علمی حیثیت کیا ہے، اس کا مقام اور اس کی دینی خدمات کیا ہیں۔؟ کیا اس کا کوئی ایسا قابل ذکر کام یا ایسی تصنیف موجود ہے جس پر کسی کی طرف سے کوئی اعتراضات نہ ہوئے ہوں؟ اور اس سے کتنے لوگ راہ راست پر آئے؟ کتنے لوگوں نے اسلام قبول کیا؟ علماء میں کتنے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اس تصنیف کو مستند اور معتبر قبول کیا؟ اگر ایسی کوئی تصنیف ہے تو پیش کی جائے تاکہ ہم اس کی علمی حیثیت کا اندازہ لگا سکیں۔
آخر میں ایک مزے کی بات آپ کو بتاتا چلوں۔۔۔ اعتراضات کرنے والوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو اپنے علاوہ کسی کو مکمل متبع سنت مانتا ہو۔ امام بخاری سے لیکر امام شافعی، اور محدثین سے فقہاء اور تابعین یہاں تک کہ صحابہ کو بھی متبع سنت نہیں مانتا تو زکریا صاحب کس کھیت کی مولی ہیں جی؟ اور اگر اعتراض ہونا ہی باطل ہونے کی دلیل ہے تو اس سے تو اللہ کی ذات بھی نہیں بچی ہوئی، قران میں بھی صرف و نحو کی غلطیاں نکالی جاچکی ہیں کسی اور کی کیا بات کرتے ہیں آپ؟ پہلے تو ایسا قران ہی لکھ لائیں کہ اعتراض کرنے والے اعتراض نہ کریں۔۔
اوپر جو جوابات دئے گئے یا مزید دئے جائیں گے وہ محض تشفی کے لئے ہیں، کسی کو یہ قبول کروانے کے لئے نہیں کہ یہ کتاب درست ہے۔ اس کے باوجود میں پوری ذمہ داری کے ساتھ کہتا ہوں کہ فضائل اعمال نامی اس کتاب میں قران و سنت سے ٹکرانے والی کوئی ”ایک“ محض ایک عبارت بھی نہیں ہے۔
بہت شکریہ آپ کی رائے کا۔
 
شیخ صاحب ، اس کتاب کے لیے ہر بات کا موازنہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے کرنا درست نہیں ۔۔۔
ہر کتاب اسلام قبول کرنے کے لیے نہیں پڑھی جاتی ، اور ہر کتاب غیر معبتر بھی نہیں ۔۔۔
اعتراضات کرنے والوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو اپنے علاوہ کسی کو مکمل متبع سنت مانتا ہو۔ امام بخاری سے لیکر امام شافعی، اور محدثین سے فقہاء اور تابعین یہاں تک کہ صحابہ کو بھی متبع سنت نہیں مانتا تو زکریا صاحب کس کھیت کی مولی ہیں جی؟
یہ بات کس طرح پتا چلی کہ "کوئی ایک بھی ایسا نہیں" جو اپنے علاوہ کسی کو مکمل متبع سنت مانتا ہو۔۔۔۔ یہ بے بنیاد بات کتاب کے دیو مالائی قصے سے متاثر ہوکر لکھی گئی جبکہ ایسا ہونا ضروری نہیں ۔۔۔۔
میں پوری ذمہ داری کے ساتھ کہتا ہوں کہ فضائل اعمال نامی اس کتاب میں قران و سنت سے ٹکرانے والی کوئی ”ایک“ محض ایک عبارت بھی نہیں ہے۔
ٹھیک ہے آپ مانے اس بات کو کوئی زور زبردستی تھوڑا ہی ہے ، اور ضروری نہیں کہ آدمی جمہوریت کے فیصلے کو مانے
 
آخری تدوین:
میرامقصد فضائل اعمال نامی کتاب کو بھرا بھلا کہنے کا نہیں ہے، بلکہ صرف یہ گزارش ہے کہ ایسے قصے کہانیاں جس کی کوئی وقعت نہ ہو کتاب میں بیان نہ لکھی جائے یہ بچوں کی عمران سیریز یا عینک ولا جن نہیں ہے قرآن و حدیث کا بھی ذکر ہے ، اس سے پرہیز کیا جائے
مثال کے طور پہ ایک سید صاحب کے بارہ دن کے بھوکا رہنے کے دفاع میں آپ نے حضرت ابوزر رضی اللہ عنہہ کے تیس دن بھوکے رہنے کا زکر کیا
تو بھئی حضرت ابوذر والی بات کا ذکر کتاب میں ہونا چاہیئے نہ کے غیر مستند بات کے فلانے سید صاحب نے بارہ دن بھوکا رہے ۔
ایسا نہیں کی معاذاللہ صرف صحابہ کی عزت کرتے ہیں اور باقی بزرگان دین اور اولیاء اللہ کا احترام نہیں ۔۔۔
صحابہ کا درجہ بڑا ہے اور انکا عمل حجت ہے اور باسند ہے ۔۔۔
باقی بزرگان دین کے قصے (خصوصا برصغیر میں) ففٹی ففٹی والے ہیں ، یعنی کچھ کا اعتبار ہے کچھ کا نہیں۔۔۔جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا ؟؟

ایسا کوئی بھی کسی کے بارے میں لکھ سکتا ہے اور لکھ دے کہ یہ مستند ہے ، کل کلاں کو کوئی آپ کے بارے میں لکھ دے کہ "روایت ہے کہ " شیخ صاحب مسلسل چالیس دن تک بغیر کھائے پیئے بغیر سوئے ،ایک ایک لمحہ ضائع کئے بغیر موت کے کونویں میں بائک چلاتے رہے ۔۔۔
خدارا بس کیجیئے ۔۔جانے بھی دے
ایسے "اعمال" میں کونسی "فضیلت" ثابت ہورہی ہے ؟

۔یہ سب باتیں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے لیے اچھی لگے گی ۔ اسلامی واقعات کے ساتھ کھلواڑ نہ کرے
 
آخری تدوین:
آپ غور کریں تو آپ کی ساری باتوں کے جواب پہلے ہو چکے ہیں۔
میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ فضائل اعمال کے کسی قصے سے نہ تو کسی کے ایمان کو نقصان پہنچتا ہے نہ عقیدے کو نہ کسی کی ذات کو۔ البتہ کتاب کی مقبولیت سے حاسدین کو ضرور نقصان پہنچا ہے تو فضول اعتراضات سامنے آنے لگے ہیں۔
اگر فضائل اعمال میں اولیاء کی حکایات ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ حکایات ہی کی کتاب ہے۔
میں نے سید صاحب کی بات پر حضرت ابو ذر کا واقعہ لکھا اس کا مقصد کیا تھا؟ اس کا مقصد یہ سمجھانا تھا کہ یہ کوئی خلاف شرع واقعہ نہیں۔ اگر خلاف شرع نہیں تو اعتراض کیسا؟
اگر کل کوئی میرے بارے میں کنوئیں میں بائک کا قصہ لکھ دے تو اس سے نہ تو مجھ پر کوئی اثر ہوتا ہے، نہ اسلام پر، نہ کسی کے عقیدے پر۔ تو اس سے آپ کو کیا پریشانی لاحق ہے؟
تو جناب اگر آپ کو کوئی اعتراض ہے تو دلیل کے ساتھ واقعہ نقل کرکے، اس کے رد میں کوئی قران کی آیت، یا کوئی حدیث پیش کردیں کہ یہ واقعہ خلاف شریعت ہے۔ فضول گوئی کا نہ آپ کو کوئی فائدہ نہ میرے پاس اتنا وقت کہ فضولیات کے جواب دوں۔

یوسف صاحب کے اعتراضات کی آدھی قلعی کھل چکی ہے۔ بقیہ بھی انشا اللہ فرصت میں کھول دی جائے گی۔
امید ہے آپ ایسے بھونڈے اعتراضات، اور بلادلیل رد سے پرھیز کریں گے۔ شکریہ
والسلام۔
 
باپ رے ۔۔۔اتنا غصہ ۔۔۔ تحریر سے ایسا لگتا ہے کہ آںجناب کو شائد یہ وہم ہوگیا ہے کہ وہ اپنے آپ کوئی بہت بڑا محدث سمجھ بیٹھے ہیں، تبھی بات بات حدیث پیش کرنے کو کہا جارہا ہے،کبھی کسی کی قلعی کھولنے کا دعویٰ ہورہا ہے ، جبکہ آپ کے علاوہ کوئی دوسرا بول بھی نہیں رہا یا کم ازکم تائد ہی کردیتا ۔۔۔اپنے تئیں ہی نتیجہ اخذ کرلیا ، ایسی بھی کیا گھبراہٹ کہ ابھی بحث ختم نہیں ہوئی اور اپنے آپ کو فاتح قرار دے دیا
میں ہی بالر ، میں ہی بیٹسمین ، تو مین آف دی میچ کون ہؤا ؟؟؟
کبھی یہ کہا جارہا ہے کہ
"اعتراضات کرنے والوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو اپنے علاوہ کسی کو مکمل متبع سنت مانتا ہو"
اور کبھی ذمہ دازی اٹھارہے ہیں
کیا ہوگیا ہے ؟؟


خیر اپنے آپ کو پایہ کا محدث سمجھنے کی حماقت کی توقع تو خیر آپ سے نہیں ہے ،
کیونکہ بظاہر ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی گرچہ انداز ایسا ضرور ہے

جناب والا !
بار بار یہ بات دہرانا کہ فلانے بزرگ کا فلانا عمل فلانے صحابی نے بھی تو کیا تھا ، تو یہ کام خلاف شرع کب ہؤا ؟؟
اف خدایا ۔۔۔ موازنے کا کیا پیمانہ کہ واہ واہ ۔۔۔
چلے ان سید صاحب کے ہی واقعے کی مثال کو دیکھ لیجیئے ۔۔۔حضرت ابوذر رضی اللہ عنہہ صحابی رسول اور صحابی رضوان اللہ اجمعین ، راہب نہ تھے متبع سنت تھے
اور انکے بھوکے رہنے کی وجہ مجبوری یا تنگ دستی تھی ، نہ کے راہبوں کی طرح جان بوجھ کر تیس تیس دن بھوکا رہنے کی مشق تھی
روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہہ کا واقعہ بھی ملتا ہے وہ بھی کئی دن فاقہ سے رہے ، کجھور اور زم زم پر گزارا کیا

جبکہ کتابوں ان بزرگان دین سے منسوب واقعات سے ایسا ہی تاثر ملتا ہے کہ وہ اپنے تئیں ایسی مشق کیا کرتے تھے مجبوری کوئی نہیں ، بس راہبوں کی طرح مشق کرنی ہے اور دلیل صحاباؤں کی دیتے ہیں
کچھ تو انصاف کیا ہوتا پورے پس منظر کو بیان کیا ہوتا ۔۔۔کہاں صحابہ کا عمل اور کہاں ان بزرگان دین سے منسوب من گھڑت قصے ۔۔۔

آپ کے کنویں میں بائیک چلانے پر مجھے کیا پریشانی لاحق ہوسکتی ہے بھلا ؟
آپ چلائے شوق سے کون منع کررہا ہے ، اس میں برا ماننے والی کیا بات ہے ؟
اچھا ہے جہاں اتنے بے بنیاد واقعات کو "کرامت" کا میڈل مل گیا ، وہاں آپ کے اس عمل کو بھی "کرامت" کا میڈل مل جائے گا

الیکٹرانک میڈیا سے قبل پرنٹ میڈیا نے ایسی کرامتوں کا اپنی کتابوں پر ذکر کرکے خوب مالی فائدہ اٹھایا ۔۔۔لوگوں میں اس وقت یہی سب سے بڑی انٹرٹینمنٹ تھی ۔۔۔
سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ اب "ایسی کرامات" کیوں ریپورٹ نہیں ہوتے جبکہ الیکٹرانک میڈیا گلی گلی محلہ کی معمولی ریپورٹ کی بھی کوریج کرتے ہیں ۔۔۔۔یہ ساری کرامات کی بھرمار
الیکٹرانک میڈیا کے یلغار سے قبل ہی کیوں نظر آتی ۔۔حالانکہ اولیاء اللہ تو اب بھی ہیں اور حقیقی کرامت تو اب بھی ہوتا ہے
اب کیا ہؤا ۔۔۔اچانک کہاں غائب ہوگئے ایسی کرامات ، کیا اب بزرگا دین نہیں ہوتے ؟
(اصلی و حقیقی کرامت سے انکار نہیں جو اب بھی ہوتے ہیں )
طرہ یہ کہ جو کرامت غلطی سے ریپورٹ بھی ہوجاتی ہے وہ بھی اتنی بھونڈی اور مضحیکہ خیزکہ افسوس ہوتا ہے لوگوں کی عقل پر ۔۔۔۔
مثال کے طور پہ چکوال میں نقش پا کا ظہور ہونا ، قرآن پاک سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک کا برآمد ہونا وغیرہ

----------------------------------
اپنی بات کرے تو دلیل اور دوسرا کچھ بولے تو فضول گوئی ۔۔۔؟؟ کیا بات ہے
"ہم بولے گا تو بولوگے کہ بولتا ہے "
 
آخری تدوین:

نیا آدمی

محفلین
آپ واقعی سرپھرے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ خوب جواب دیا ہے آپ نے ۔ ۔ ۔
کرامات تو ہمارے دین میں بنیادی مقام رکھتی ہیں ان کے بغیر ہم نہ تو متاثر ہوتے ہیں اور نہ مرعوب۔ ۔۔ ارے سیدھے سادے طریقے سے عبادت کرنا، انسانی حدود میں رہتے ہوئے احکامات الہی پر عمل کرنا، اللہ کی مخلوق سے محبت کرنا، ان کے کام آنا، ان کے دکھ سکھ میں شامل ہونا ۔ ۔ ۔ واہ یہ کیا اسلام ہوا ۔ ۔ ۔ ۔

کرامات ہی تو انسان کو بتاتی ہیں کہ اسلام کیا ہے، صاحب کرامت کا کیا مقام ہے اور اس کی تقلید میں کتنا اجر ہے ۔ ۔ ۔ اگر آپ کرامت ہی کو مشکوک بناتے ہیں تو صاحب کرامت کا مقام کیسے ابھرے گا ۔ ۔ ۔ اسے کیسے اعلی ترین درجے پر فائز کیا جا سکے گا ۔ ۔ ۔

حضور آپ کرامات کا انکار کیسے کر سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ تمام کے تمام ملفوظات ان ہی کرامات سے تو بھرے پڑے ہیں ۔ ۔ ۔ بر صغیر میں جن اولیاء کرام نے جو اسلام پھیلا دیا ہے وہ ان ہی کرامات کی بنیاد پر تو استوار ہے ۔ ۔ ۔ ان کا انکار کیسے کیا جا سکتا ہے۔

اگر ان کرامات سے کسی صحابی حتی کہ کسی نبی ہی کی بے توقیری کیوں نہ ہوتی ہو ۔ ۔ ۔ وہ اپنی جگہ مستند ہیں اور ان کے بغیر یہاں کچھ نہیں ۔ ۔ ۔ یقین نہ آئے تو ایک پیارا پیارا چینل دیکھ لیں آپ کو سوائے کرامات کے کچھ سنائی ہی نہ دے گا۔
 
باپ رے ۔۔۔ اتنا غصہ ۔۔۔ تحریر سے ایسا لگتا ہے کہ آںجناب کو شائد یہ وہم ہوگیا ہے کہ وہ اپنے آپ کوئی بہت بڑا محدث سمجھ بیٹھے ہیں، تبھی بات بات حدیث پیش کرنے کو کہا جارہا ہے،کبھی کسی کی قلعی کھولنے کا دعویٰ ہورہا ہے ، جبکہ آپ کے علاوہ کوئی دوسرا بول بھی نہیں رہا یا کم ازکم تائد ہی کردیتا ۔۔۔ اپنے تئیں ہی نتیجہ اخذ کرلیا ، ایسی بھی کیا گھبراہٹ کہ ابھی بحث ختم نہیں ہوئی اور اپنے آپ کو فاتح قرار دے دیا
میں ہی بالر ، میں ہی بیٹسمین ، تو مین آف دی میچ کون ہؤا ؟؟؟
کبھی یہ کہا جارہا ہے کہ
"اعتراضات کرنے والوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو اپنے علاوہ کسی کو مکمل متبع سنت مانتا ہو"
اور کبھی ذمہ دازی اٹھارہے ہیں
کیا ہوگیا ہے ؟؟


خیر اپنے آپ کو پایہ کا محدث سمجھنے کی حماقت کی توقع تو خیر آپ سے نہیں ہے ،
کیونکہ بظاہر ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی گرچہ انداز ایسا ضرور ہے

جناب والا !
بار بار یہ بات دہرانا کہ فلانے بزرگ کا فلانا عمل فلانے صحابی نے بھی تو کیا تھا ، تو یہ کام خلاف شرع کب ہؤا ؟؟
اف خدایا ۔۔۔ موازنے کا کیا پیمانہ کہ واہ واہ ۔۔۔
چلے ان سید صاحب کے ہی واقعے کی مثال کو دیکھ لیجیئے ۔۔۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہہ صحابی رسول اور صحابی رضوان اللہ اجمعین ، راہب نہ تھے متبع سنت تھے
اور انکے بھوکے رہنے کی وجہ مجبوری یا تنگ دستی تھی ، نہ کے راہبوں کی طرح جان بوجھ کر تیس تیس دن بھوکا رہنے کی مشق تھی
روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہہ کا واقعہ بھی ملتا ہے وہ بھی کئی دن فاقہ سے رہے ، کجھور اور زم زم پر گزارا کیا

جبکہ کتابوں ان بزرگان دین سے منسوب واقعات سے ایسا ہی تاثر ملتا ہے کہ وہ اپنے تئیں ایسی مشق کیا کرتے تھے مجبوری کوئی نہیں ، بس راہبوں کی طرح مشق کرنی ہے اور دلیل صحاباؤں کی دیتے ہیں
کچھ تو انصاف کیا ہوتا پورے پس منظر کو بیان کیا ہوتا ۔۔۔ کہاں صحابہ کا عمل اور کہاں ان بزرگان دین سے منسوب من گھڑت قصے ۔۔۔

آپ کے کنویں میں بائیک چلانے پر مجھے کیا پریشانی لاحق ہوسکتی ہے بھلا ؟
آپ چلائے شوق سے کون منع کررہا ہے ، اس میں برا ماننے والی کیا بات ہے ؟
اچھا ہے جہاں اتنے بے بنیاد واقعات کو "کرامت" کا میڈل مل گیا ، وہاں آپ کے اس عمل کو بھی "کرامت" کا میڈل مل جائے گا

الیکٹرانک میڈیا سے قبل پرنٹ میڈیا نے ایسی کرامتوں کا اپنی کتابوں پر ذکر کرکے خوب مالی فائدہ اٹھایا ۔۔۔ لوگوں میں اس وقت یہی سب سے بڑی انٹرٹینمنٹ تھی ۔۔۔
سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ اب "ایسی کرامات" کیوں ریپورٹ نہیں ہوتے جبکہ الیکٹرانک میڈیا گلی گلی محلہ کی معمولی ریپورٹ کی بھی کوریج کرتے ہیں ۔۔۔ ۔یہ ساری کرامات کی بھرمار
الیکٹرانک میڈیا کے یلغار سے قبل ہی کیوں نظر آتی ۔۔حالانکہ اولیاء اللہ تو اب بھی ہیں اور حقیقی کرامت تو اب بھی ہوتا ہے
اب کیا ہؤا ۔۔۔ اچانک کہاں غائب ہوگئے ایسی کرامات ، کیا اب بزرگا دین نہیں ہوتے ؟
(اصلی و حقیقی کرامت سے انکار نہیں جو اب بھی ہوتے ہیں )
طرہ یہ کہ جو کرامت غلطی سے ریپورٹ بھی ہوجاتی ہے وہ بھی اتنی بھونڈی اور مضحیکہ خیزکہ افسوس ہوتا ہے لوگوں کی عقل پر ۔۔۔ ۔
مثال کے طور پہ چکوال میں نقش پا کا ظہور ہونا ، قرآن پاک سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک کا برآمد ہونا وغیرہ

----------------------------------
اپنی بات کرے تو دلیل اور دوسرا کچھ بولے تو فضول گوئی ۔۔۔ ؟؟ کیا بات ہے
"ہم بولے گا تو بولوگے کہ بولتا ہے "

دیکھو میاں میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ اگر کوئی ڈھنگ کا اعتراض ہو اور با دلیل ہو تو پیش کرو۔ ورنہ میرے پاس فضول بحث کا وقت ہے ہی نہیں۔ فضائل اعمال کا تعلق اسلام اور دین سے ہے۔ اگر اس میں کوئی واقعہ اسلام، قران و حدیث اور شریعت سے نہیں ٹکراتا تو اس پر اعتراض فضول ہے۔ اور اگر ٹکراتا ہے تو قران و حدیث اس کے خلاف پیش کرو۔
اس کے علاوہ میں کچھ نہیں کہونگا۔
آپ نے ابھی تک کوئی بات بھی بادلیل نہیں کی کہ جس کا علمی جواب دیا جاسکے۔ صرف حیلے اور پیش کر رہے ہیں۔
تو مہربانی کریں، میرے پاس اتنا فضول ٹائم نہیں کہ آپ کے بے تکے اور فضول اعتراضات کا جواب دوں۔ اگر آپ کو کوئی علمی اعتراض ہے تو علمی پیرائے میں با حوالہ -پیش کریں ورنہ مزید تبصرہ کرنے سے پرہیز کریں۔ بہت نوازش۔
والسلام
 
آپ واقعی سرپھرے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ خوب جواب دیا ہے آپ نے ۔ ۔ ۔
کرامات تو ہمارے دین میں بنیادی مقام رکھتی ہیں ان کے بغیر ہم نہ تو متاثر ہوتے ہیں اور نہ مرعوب۔ ۔۔
لو کرلو بات ۔۔۔ایک بھائی کو سمجھایا تو خوب غصہ کرنے لگے ، اور ایک یہ نئے آدمی پرانا ذہن ۔۔۔۔۔
کتنے ہی لوگ کرامت کے بغیر ہی متاثر و مرعوب ہوتے ہیں،اسلام کرامت کا ہی مرہون منت نہیں


ارے سیدھے سادے طریقے سے عبادت کرنا، انسانی حدود میں رہتے ہوئے احکامات الہی پر عمل کرنا، اللہ کی مخلوق سے محبت کرنا، ان کے کام آنا، ان کے دکھ سکھ میں شامل ہونا ۔ ۔ ۔ واہ یہ کیا اسلام ہوا ۔ ۔ ۔ ۔
اسے پیرے کی سمجھ نہ آئی کہ اعتراض کررہے ہیں یا تائد۔۔۔

کرامات ہی تو انسان کو بتاتی ہیں کہ اسلام کیا ہے،
یعنی جب تک لوگ اپنی آنکھوں سے کسی کو (بغیر کسی ظاہری اسباب کے) ہوا میں اڑتا نہ دیکھ لے ، پانی کی سطح پر چہل قدمی کرتے نہ دیکھ لے
یا لوگوں کو غیب کی باتیں نہ بتادے لوگ کو اسلام کی پہچان نہیں ہوگی (لوگ تو ایسی ہی چیزوں کو کرامت سمجھتے ہیں)
تو اس لحاظ سے جادوگروں کے ہاتھوں لوگ بہت اسلام قبول کرتے ہونگے ؟؟

صاحب کرامت کا کیا مقام ہے اور اس کی تقلید میں کتنا اجر ہے
رہی سہی کسر اس جملے نے پوری کردی ۔۔۔یعنی جب تک کسی بزرگ سے کرامت ثابت نہیں ہوگی اس کی تقلید میں بھی اجر نہیں ہوگا ۔۔۔
اس لحاظ سے آئمہ میں سے جو زیادہ صاحب کرامت ہوگا اسی کی تقلید میں اجر و ثواب بھی زیادہ ہوگا ۔۔۔۔
واہ واہ ----کون کہتا ہے ہم میں اب سائسدان نہیں، بتائیے کیسے کیسے فارمولے سامنے آرہے ہیں

حضور آپ کرامات کا انکار کیسے کر سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
ان کا انکار کیسے کیا جا سکتا ہے۔
اوپر میں نے خانے میں جملہ لکھا جیسے انگریزی میں بریکٹ کہتے ہیں۔۔۔۔ یہ کچھ اس طرح کا ہوتا ( )
اس میں ، میں واضح لکھ دیا کہ
(اصلی و حقیقی کرامت سے انکار نہیں جو اب بھی ہوتے ہیں )
تو شائددو باتیں ہوسکتی ہے آپ کے ساتھ
پہلی یا تو اس جملہ کی سمجھ نہیں آئی ، آپ کو ، کوئی بات نہیں اسکا حل یہ ہے کہ جس کو تھوڑی بہت سمجھ بوجھ ہے اس سے پڑھوالیتے
دوسری ممکنہ صورت یہ ہے ، پوسٹ کرنے کی عجلت میں آپ کی نظر سے یہ جملہ گزرا ہی نہیں ، تو بھئی جلد بازی نہ کرے نا ۔۔۔
جلدی کا کام ۔۔۔۔کس کا ہوتا ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں

تمام کے تمام ملفوظات ان ہی کرامات سے تو بھرے پڑے ہیں ۔ ۔ ۔ بر صغیر میں جن اولیاء کرام نے جو اسلام پھیلا دیا ہے وہ ان ہی کرامات کی بنیاد پر تو استوار ہے ۔ ۔ ۔
او اچھا کیا علم میں اضافہ ہؤا ۔۔۔اب تاریخ میں تھوڑی ترمیم کرنی پڑے گی ۔۔۔۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اسلام تبلیغ و حسن سلوک سے پھیلا (برصغیر میں بھی) اور کچھ کہتے ہیں اسلام تلوار کی زور سے پھیلا ۔۔۔
یہاں تو جھگڑا ہی ختم ۔۔۔۔نہ تبلیغ سے پھیلا نہ تلوار سے بلکہ اسلام تو کرامت سے پھیلا ۔۔۔۔
یعنی اب جو اسلام پھیل رہا ہے اس میں کہیں نہ کہیں کرامت کا رول ہے یہ الگ بات ہے کہ اسلام قبول کرنے والوں نے اسکا ذکر نہیں کیا

اگر ان کرامات سے کسی صحابی حتی کہ کسی نبی ہی کی بے توقیری کیوں نہ ہوتی ہو ۔ ۔ ۔ وہ اپنی جگہ مستند ہیں اور ان کے بغیر یہاں کچھ نہیں ۔ ۔ ۔ یقین نہ آئے تو ایک پیارا پیارا چینل دیکھ لیں آپ کو سوائے کرامات کے کچھ سنائی ہی نہ دے گا
اللہ نے اپنی نبی صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ، اور نبی کے امتی اولیاء اللہ کو کوئی ایسا معجزہ یا کرامت عطا نہیں کی جس سے اسکی بے توقیری ہو ۔
جس سے بے توقیری ہو ۔۔۔وہ کرامت نہیں "اہانت" و جادو ہے ۔۔۔خوب سمجھ لے ۔۔۔
اپنے جملے پر غور کرے ، درست نہیں
 
دیکھو میاں میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ اگر کوئی ڈھنگ کا اعتراض ہو اور با دلیل ہو تو پیش کرو۔ ورنہ میرے پاس فضول بحث کا وقت ہے ہی نہیں۔ فضائل اعمال کا تعلق اسلام اور دین سے ہے۔ اگر اس میں کوئی واقعہ اسلام، قران و حدیث اور شریعت سے نہیں ٹکراتا تو اس پر اعتراض فضول ہے۔ اور اگر ٹکراتا ہے تو قران و حدیث اس کے خلاف پیش کرو۔
اس کے علاوہ میں کچھ نہیں کہونگا۔
آپ نے ابھی تک کوئی بات بھی بادلیل نہیں کی کہ جس کا علمی جواب دیا جاسکے۔ صرف حیلے اور پیش کر رہے ہیں۔
تو مہربانی کریں، میرے پاس اتنا فضول ٹائم نہیں کہ آپ کے بے تکے اور فضول اعتراضات کا جواب دوں۔ اگر آپ کو کوئی علمی اعتراض ہے تو علمی پیرائے میں با حوالہ -پیش کریں ورنہ مزید تبصرہ کرنے سے پرہیز کریں۔ بہت نوازش۔
والسلام
اعلیٰ حضرت !
آپ کے پاس فضول بحث کا جب وقت نہیں تو بار بار پوسٹ کیوں کررہے ہیں؟؟ یہ پوسٹ کیا قیمتی وقت میں کرتے ہیں ؟؟
میں نے آپ سے کوئی سوال تو کیا نہیں ، جس پر آپ لکھے کہ
میرے پاس اتنا فضول ٹائم نہیں کہ آپ کے بے تکے اور فضول اعتراضات کا جواب دوں
نہ ہی میں نے قرآن و حدیث کی بات پر آپ کو چیلنچ کیا ، سوال کرنا ہوتا تو آپ سےکب کا کرتا لیکن دلائل دیکھ کر علمی سطح کا اندازہ ہوگیا کہ آپ بھی ہماری ہی طرح ہے ۔۔۔

میں نے صرف "فضائل اعمال" نامی کتاب میں ، من گھڑت قصوں کو نکالنے کی بات کی ہے ۔۔۔بس ۔۔۔

مزید تبصرہ کرنے سے پرہیز کریں
چلے اس مقام پر آپ کی بات رکھ لیتے ہیں
 
سوال کشف و کرامات کا نہیں، سوال ہے کہ یہ درج ذیل "دعویٰ کی کیا دلیل ہے:
جو شخص ستر ہزار مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ لے اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جاتی ہے
آپ ستر ہزار بار کلمہ طیبہ پڑھنے والے کے جہنم سے آزادی کے لئے دلیل مانگ رہیں ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو ایک بار کلمہ طیبہ خلوص دل سے پڑھ لے اس کو جنت کی بشارت ہے یعنی جب جنت کی بشارت ہے تو یقینی طور سے جہنم سے کی آزادی ۔حوالہ صحیح مسلم
 
Top