باسم، بہت شکریہ، ان آیات کو شئیر کرنے کا۔ میرا اپنا خیال ہے کہ آپ اس سلسلے میں متفق ہیں کہ 33:57 کے مطابق اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دینے کی سزا، اللہ تعالی نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے ، وہ یہ کہ اللہ تعالی ان لوگوںپر اس دنیا میں اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے۔
سورۃ 33 کی آیات 58 سے جو کہانی شروع ہوئی ہے وہ ام المومنین پر الزام و بہتان لگا کر، نعوذ باللہ ، اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دینے کے ضمن میں ہے۔ 'ملعونین' کے اس گروہ (دیکھئے جمع کاصیغہ) کا جو کہ ( 'ام المومنین' کے بارے) میں افواہیں پھیلا نے کا جرم کررہے تھے ، ان کے خلاف رسول اکرم کو بتایا جارہا ہے کے اس کے مواخذہ میں میں اللہ تعالی نے ایک دن ان (ملعونین) کے خلاف اٹھا کھڑا کرنا ہے، جنگ (یعنی قتال قتیلا ) کے لئے۔
عام مسلمانوں کو کسی بھی طور وہیں پر فیصلہ کرکے وہیں پر قتل کردینے کا حق نہیں دیا جارہا ہے جیسا کہ اس ہندو لڑکے کی موت کی صورت میں ہوا ہے۔
ایک دوسرا موضوع:
بقول سیفی" یہ تو انہی کتابوں کی روایات ہیں جن کو آپ بڑے دھڑلے سے من گھڑت باتیں قرار دیتے ہیں۔
برادرم سیفی، آپ کا شکریہ، آپ نے اس سلسلے میںدو باتیں کیں، ایک تو اس موضوع کے بارے میں ہے اور دوسری میرے بارے میں۔ آُ نے مجھے موقع دیا کہ آپ کو اور دوسرے بھائیوں کو اپنے خیالات سے آگاہ کرسکوں۔ اس سظر کے بعد مَیں آُ سے یا کسی بھی ایک شخص سے مخاطب نہیں ہوں۔
اجازت چاہوں گا کہ ذاتی خیالات کی مد میں اس پر تھوڑی سی روشنی ڈال سکوں۔ اس چھوٹے سے مضمون کو پورا پڑھئے۔ جملوںکو الگ الگ نا دیکھئے۔ آئیے ہم ان کتب روایات کو ذاتی، فرقہ واری اور قومی نکتہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
کیا میں بڑے دھڑلے سے ان کتب کو من گھڑت قرار دیتا ہوں؟
جی نہیں، میںان غیر قرآنی کتب کا دوسرے فرقوں اور مذاہب کی کتب سمجھ کر احترام کرتا ہوں لیکن اجتماعی قوانین کے لئے ان کتب کو قرآن کے خلاف پاتا ہوں اس لئے غیر موزوں سمجھتا ہوں۔
آپ نے وضاحت نہیںفرمائی کے آپ کن کتب کی بات کررہے ہیں۔ لیکن ہم سمجھ لیتے ہیں کہ آپ انہی کتب روایات کی بات کررہے ہیں جن کو میں کتب روایات قرار دیتا ہوں، جن کو درست ثابت کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے، یہ ہیں شیعہ حضرات کی کتب روایات، سنی حضرات کی کتب روایات، یہودیوں ، نصرانیوں اور کالدانیوں کی کتب روایات، ہندوؤں ، پارسیوں اور بدھ مت و سکھوں کی کتب روایات۔
میرا خیال ہے کہ آپ بحیثیت مسلمان قرآن کو اللہ تعالی کا کلام قرار دیتے ہیں۔ میںبھی دیتا ہوں۔ قرآن کے علاوہ ہر کتاب کو انسانوں کی لکھی ہوئی کتب روایات قرار دیتا ہوں اور ان کو ایک ہی درجے میں رکھتا ہوں۔ ان کتب میں تمام کے تمام فرقوں اور مذاہب کی کتب روایات شامل ہیں۔ جن کے اصلی ہونے کا اور قانون سازی کے لئے استعمال کرنے کا، ایک گروہ اصرار کرتا ہے اور دوسرا گروہ انکار کرتا ہے۔
بات یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ اگر آپ سنی ہیں تو آپ کا اصرار صحاح ستہ پر ہے جن میںسے بیشتر روایات کا شیعہ حضرات انکار کرتے ہیں اور اگر آپ شیعہ ہیں تو جن کتب روایات کو آپ درست قرار دیتے ہیں ان میںسے بیشتر روایات کو سنی قبول نہیں کرتے۔ یہ کوئی چھپا ہوا راز نہیںہے کہ آپ یہ نا جانتے ہوں۔ جب ہم من حیث القوم مزید آگے بڑھتے ہیں تو انہی کتب کے نت نئے ورژن سامنے آتے ہیں ، جو ضخامت ، تعداد اور ترتیب کے لحاظ سے مختلف ہیں اور مختلف گروہ اس کے بارے میں آپس میں جھگڑوں میں مصروف ہیں۔ یہ بات بھی کوئی خفیہ راز نہیں ہے کہ یہ جھگڑرے موجود ہیں۔
ذاتی طور پر:
ذاتی طور پر میں ان کتب کو ان کے اپنے فرقے کی کتب قرار دیتا ہوں۔ کہ یہ ان فرقوں کے اپنے مذاہب ہیں جن پر یہ عمل کرتے ہیں ۔ چونکہ دوسروںکے مذاہب کا احترام ہم پر فرضہے۔ چاہے وہ کسی بھی کتاب کو 'اپنے لئے قرآن' کا درجہ دیتے ہوں لہذا کسی بے ادبی اور بد احترامی کا میں قائل نہیں۔ اس لئے میں ان غیر قرانی کتب پر انحصار کرنے والے مذاہب کا احترام کرتا ہوں، اور ان غیر قرآنی مذاہب کے علماء کا بھی احترام کرتا ہوں۔ ان میں قرآن پر مبنی مذہب 'اسلام' سے ملتے جلتے مذاہب، جیسے سنی ازم، شیعہ ازم، جو کہ بڑے فرقے (تفرقے یا جھگڑے) ہیں یا قران پر مبنی مذہب یعنی اسلام سے باہر --- لیکن اللہ تعالی کے لئے قابل قبول -- یہودی، نصرانی اور ستارہ پرست جیسے الہامی فرقے (جھگڑے) ہوں۔ ---- یا قران سے دور اور قطعاً مختلف اورمبینہ طور پر اللہ تعالی کے لئے ناقابل قبول مذاہب --- جیسے ہندو مت، بدھ مت یا پارسی و آتش پرست، مَیں ان سب کی کتب و علماء کا یکساں احترام کرتا ہوں ، کیونکہ دوسروں کے مذاہب ، ان کی کتب اور ان کے علماء کا احترام کرنے اور ان کی ہنسی نا اڑانے کا حکم اللہ تعالی دیتے ہیں،
اسلامی فرقہ واری طور پر:
اسلام میں فرقہ ہونا انتہائی بری بات ہے کہ یہ آپسی تفریق کرنے والے ، جدا کرنے والے ، جھگڑا کرنے والے، آپس میں تفرقہ ڈالنے والے لوگوں کو کہتے ہیں، جس کی ممانعت قرآن نے فرمائی ہے، ان فرقوں کو 'فرقہ' ، عزت سے نہیں بلکہ اہانت سے کہا جاتا ہے کہ یہ اللہ کے حکم کے مطابق نہیں۔ اسلام کے دائرے میں فرقہ بندی کا عمل اللہ کے حکم سے مطابقت نہیں رکھتا اور ایک کریہہ عمل ہے ۔ بنیادی طور پر یہ سوال کہ آپ کا تعلق کس فرقہ سے ہے، اصل میں یہ سوال ہے کے آپ کا تعلق کس جھگڑالو گروپ یا کس فتنہ سے ہے؟ لہذا اس بات پر اترانا کہ ہم کسی جھگڑالو گروپ یا فتنہ سے تعلق رکھتے ہیں- یقیناً ایک نا مناسب وجہء فخر ہے۔
کیوں؟؟؟؟
اس لئے کہ قران کے احکام سے باہر فرقہ واریت، آپ کے اپنے لئے، ممکن ہے درست ہو ، کہ آپ کا یقین ہے کہ اگر آپ کی عبادات کسی خاص طریقہ سے ہی قبول ہونگی تو بہت خوب! آپ اس پر عمل کرتے رہئیے لیکن مسئلہ جب شروع ہوتا ہے جب آپ اور ہم دوسروں پر اپنا یہی طریقہ ٹھونسنا شروع کردیتے ہیں اورصرف اپنے عبادات کے طریقے کو درست جانتے ہیں ۔ اور پھر اس کا اگلا قدم یعنی اجتماعی قانون سازی کے سلسلے میں صرف اپنے علماء اور اپنی کتب کو کو درست قرار دیتے ہیں اور دوسروں کو اس بات کی سزا دیتے ہیں کہ وہ آپکے طریقے سے کیوں نہیں رہتے؟ ہم، آپ اس وقت انتہا پسندی اور دہشت گردی کے دائرے میں قدم رکھنے لگتے ہیں جب کسی بھی نظریاتی فرق کی سزا موت تجویز کرتے ہیں ۔ جیسا کہ اس 22 سالہ لڑکے کے سلسلے میں کیاگیا۔ کہ نظریاتی فرق کو توہین رسالت کا نام دے کر اس کی سزا موت تجویز کردی گئی اور اس پر فوری عمل کردیا گیا۔
قومی اور اجتماعی قانون سازی کے نکتہ نظر سے:
قرآن مسلمانوںکو من حیث القوم مخاطب کرتا ہے ، انفرادی طور پر عموماً مخاطب نہیں کرتا ، ۔ قرآن مسلمانوں کے یقین (ایمان) کے مطابق ایک الہامی کتاب ہے اور بہت ہی شاندار اصولوں اور قوانین سے بھرپور ہے۔ اس کا اعتراف مسلم (قرآن کو اللہ کا کلام اور محمد صلعم کو اللہ کا رسول ماننے والے) اور بہت سے غیر مسلم (قرآن کو الہامی نہ ماننے والے) کرتے ہیں ۔ جب مسلمان اجتماعی قانون سازی کرتے ہیں تو صرف قران اور سنت کو استعمال کرتے ہیں اور بقیہ کتب روایات کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ میری ذاتی اور کمزور معلومات کے مطابق، آج کوئی بھی اسلامی ملک قرآن و سنت کے علاوہ کسی بھی کتب روایات کو قانون سازی کے لئے استعمال نہیں کرتا۔ اس امر کی بہت واضحوجوہات موجود ہیں ۔ جبکہ قرآن کے اصول دنیا کے بیشتر ممالک کے قوانین میں استعمال کئے گئے ہیں ، ایسا ہونا اتفاقاً نہیںہے۔ بلکہ بیشتر ممالک کی صورت میں اعترافاً ہے۔ مثال کے طور پر ریاستہائے متحدہ امریکہ کی وفاقی عدالت، اپنے اعترافی ڈاکومینٹس میںیہ تسلیم کرتی ہے کہ محمد (صلعم) ایک بڑے قانون بخشنے والے قانون دان تھے اور امریکی قوانین میں ان کی تجویز کئے ہوئے اصولوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔ دیکھئے
Frieze showing Muhammad on the US supreme court’s North Wall Frieze:
http://www.supremecourtus.gov/about/north&southwalls.pdf
اور قرآن رکھنے اور پڑھنے والے امریکی صدر (صدور) اور آئین لکھنے والوں کے لئے یہ لنک دیکھئے۔
Thomas Jefferson’s Quran:
http://www.breitbart.com/news/2007/01/04/D8MEPKIG0.html
John Adam’s had the Holy Quran:
http://www.johnadamslibrary.org/search/books/?category=Religion or
http://www.johnadamslibrary.org/book/?book=ocm03548445Adams 281.1
یہ ذہن میں رکھئے کہ فرقوںکے آپسی فرق کی وجہ سے یہ ممکن نہیںہے کہ قومی قوانین صرف اور صرف کسی ایک فرقہ یا مذہب کی خواہشات جت مطابق بنائے جائیں اور باقی فرقوںاور مذاہب کو جسمانی طور پر یا اطلاقی طور پر قتل کردیا جائے۔ ایسا کرنا امن و آشتی (Peace and harmony ) کے خلاف ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کو اپنے سوال کا جواب مل گیا ہوگا کہ اجتماعی قانون بنانے کے لئے ضرور ی ہے کہ قرآن کے مسلمہ اصولوں کی مدد سے اجتماعی قانون سازی کی جائے۔ کیوںکہ قرآن کسی طور پر دوسرے مذاہب کے نام لیوا لوگوں کی حق تللفی نہیںکرتا۔ یہ کتاب، اللہ کا کلام ہے اور اللہ تعالی کسی بھی انسان سے نفرت نہیں کرتا۔ اس دنیا کے قوانین بنانے کے لئے قرآن ایک بہترین اصول ساز کتاب ہے، جبکہ دوسری کتب روایات، انفرادی عبادات کے لئے تو موزوں ہیں لیکن ان کتب کا اثر عموماَ اجتماعی معاملات پر مناسب نہیں پڑتا، لہذا یہ کتب عموماً اجتماعی قانون سازی کے لئے اچھی ثابت نہیں ہوئی ہیں۔ یہ بہت واضح اور ثابت شدہ امر ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بیشترکتب روایات دوسرے فرقوں اور مذاہب کو نظریاتی فرق کی سزا موت تجویز کرتی ہیں۔
دہشت گردوں کا یہ بنیادی نعرہ کہ نظریات کے فرق کی سزا موت، یقیناًَ ، ایک غیر قرآنی اصول ہے۔
یہ موضوع:
اس موضوع پر کہ ایک 22 سالہ ہندو لڑکے کو لوگوں نے نظریاتی اختلاف کی وجہ سے جرم ثاب کئے بغیر قتل کردیا اور اس کام کو جائز سمجھا، کچھ اصحاب و احباب نے روایتی کتب کو ذریعہ بنایا اور یہ موقف اختیار کیا کہ یہ ایک درست عمل ہے کہ ایک مجمع ایک شخص کو فوری طور پر توہین رسالت کا الزام عائد کرکے، فوری طور پر لاتوںاور مکوں سے تواضع کرکے فوری طور پر اس کو وہیں قتل کردے۔ بناءکسی مقدمے یا شنوائی کے ۔ یعنی نظریاتی فرق کی سزا موت۔
جب کہ باقی لوگوں کا موقف یہ ہے کہ اگر ایسا ہو تو اس جرم کو ثابت کرنے کے لیے قانون کے سامنے پیش کیا جائے کہ عام افراد کو کسی شخص پر مقدمہ چلانے، سزا دینے اور قتل کردینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ ایسا حق صرف اور صرف عوام کے منتخب کئے ہوئے نمائندوںکی طرف سے بٹھائے ہوئے ججوں ، عدالتوں اور اس کام کے لئے مختصکئے ہوئے اداروں کو ہے کہ وہ اس جرم کی کیا سزا تجویز کرتے ہیں۔
جن لوگوں کا موقف یہ ہے کہ مجمع کے لئے یا افراد کے لئے توہین رسالت کے جرم میں فوری سزا ، اور قتل جائز ہے، کسی سنت رسول اور قرآن کی آیت کی غیر موجودگی میں کسی بھی فرد کو یہ حق دے رہے ہیں کہ ہم میں سے کوئی بھی ان کو مجمع میں توہین رسالت کا مجرم قرار دے دے۔ ایسے تمام افراد جو اس پر یقین رکھتے ہیں ، کیا وہ ذاتی طور پر تیار ہیں کہ مسجد میں ان پر کوئی توہین رسالت کا الزام عائد کرے اور وہ جذباتی طور پر ہیجان خیز مجمع کی لاتوں گھونسوں اور مکوں کے سامنے اپنے موقف کا دفاع کریں؟ اور بنا کسی مقدمے کے ان کے بیان کا حساب مجمع کو کرنے دیا جائے۔ آپ اتفاق کریں گے کہ ایک اسلامی ملک میں کسی شخص کو بناءمقدمہ کے سزا دینا ایک قابل تقصیر جرم ہے۔ کیا آپ پسند کریں گے کہ آپ کو یہ خوف ہو کہ جونہی آپ باہر نکلیں، لوگ آپ پر اس لیے پل پڑیں کہ آپ کے نظریات دوسروں کے نظریات سے مختلف ہیں اور آپ کو کسی بھی جگہ یہ موقع نہ دیا جائے کہ آپ وضاحت کرسکیں کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔ بلکہ لاتوں گھونسوں اور مکوں ، گالیوں اور گولیوںسے آپ کی بات کا جواب دیا جائے؟ میرا خیال ہے آپ میں سے کوئی بھی اس اصول سے قطعا متفق نہیں ہوگا، میں بھی متفق نہیں۔
آج جب دنیا ایک دوسرے پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے، دوسروںکو اس خوف میںمبتلا کرنا کہ ان کے اپنے نظریات ، مذہب یا فرقہ پر عمل کرنے اور انکی اپنی عبادات ، طور طریقہ، روایات و اقدار پر عمل کرنے کی سزا موت ہے، ایک انتہائی قدم ہے ، اس طرز عمل کا واضح نام ٹیررازم یا دہشت گردی ہے۔ جو لوگ دوسروں کو ان کے طور طریقوں پر جینے کا موقع نہیں دیتے یعنی دہشت گرد ہیں ان کی سزا آج کی دنیا میں یقیناً تکلیف دہ ہے، چاہے وہ ایک فرد ہوں یا ایک قوم۔ اس سزا کے دینے میں مسلم اور غیر مسلم دونوں یکساں طور پر ایک ساتھ ہیں۔ اگر ایسے لوگ جو دہشت گردی (یعنی نظریاتی اختلاف کی سزا موت) دینے کے کریہہ جرم میں مبتلا ہیں اور اس کے لئے اسلام سے وجوہات پیش کرتے ہیں تو وہ دہشت گردی سے بڑھ کر مزید کریہہ جرم یعنی دہشت گردی کی مدد سے اسلام کی، اللہ کی اور اس کے رسول کی اور اس مذہب کے ماننے والوں کی توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ نظریاتی اختلاف کی سزا موت کو جہاد قرار دینا، مزید ایک کریہہ جرم ہے۔
قرآن گواہ ہے کہ اللہ تعالی نظریاتی اختلاف کی سزا موت، جنگ یا قتل تجویز نہیں کرتا۔ بلکہ اسلامی فلاحی ریاست کے دفاع کو جہاد کا نام دیتا ہے۔
اختتام :
اسلام کو دہشت گردی کے لئے استعمال کرنا کہ اسلام یہ کہتا ہے ، یا قرآن یہ کہتا ہے کہ نظریاتی اختلاف کی سزا موت ہے مسلمانوں کے ساتھ کیا جانے والا ایک کریہہ جرم ہے۔
اس 22 سالہ ہندو لڑکے کو اہانت رسول کے غیر ثابت شدہ جرم کے پردے میں قتل کردینا اور اس جرم کا دفاع کرنا یقیناً دہشت گردی کے غیر اسلامی نظریہ یعنی " نظریاتی اختلاف کی سزا موت " کے فلسفے کے دفاع کرنے کے مترادف ہے ۔ میں اس فلسفے کی جس کا نام دہشت گردی ہے، سخت مذمت کرتا ہوں۔
والسلام۔