باسم، بہت شکریہ، ان آیات کو شئیر کرنے کا۔ میرا اپنا خیال ہے کہ آپ اس سلسلے میں متفق ہیں کہ 33:57 کے مطابق اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دینے کی سزا، اللہ تعالی نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے ، وہ یہ کہ اللہ تعالی ان لوگوںپر اس دنیا میں اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے۔
سورۃ 33 کی آیات 58 سے جو کہانی شروع ہوئی ہے وہ ام المومنین پر الزام و بہتان لگا کر، نعوذ باللہ ، اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دینے کے ضمن میں ہے۔ 'ملعونین' کے اس گروہ (دیکھئے جمع کاصیغہ) کا جو کہ ( 'ام المومنین' کے بارے) میں افواہیں پھیلا نے کا جرم کررہے تھے ، ان کے خلاف رسول اکرم کو بتایا جارہا ہے کے اس کے مواخذہ میں میں اللہ تعالی نے ایک دن ان (ملعونین) کے خلاف اٹھا کھڑا کرنا ہے، جنگ (یعنی قتال قتیلا ) کے لئے۔ عام مسلمانوں کو کسی بھی طور وہیں پر فیصلہ کرکے وہیں پر قتل کردینے کا حق نہیں دیا جارہا ہے جیسا کہ اس ہندو لڑکے کی موت کی صورت میں ہوا ہے۔
والسلام۔
فاروق سرور خان صاحب
جواب کا شکریہ
مگر آپ کے اس جواب میں ایک بات میرے لیے دلی اذیت کا باعث بنی ہے کہ آپ نے باری تعالٰی کے فرمان کو "کہانی" لکھا ہے۔
سورۃ 33 کی آیات 58 سے جو کہانی شروع ہوئی ہے وہ ام المومنین پر الزام و بہتان لگا کر، نعوذ باللہ ، اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دینے کے ضمن میں ہے۔
میں گمان کرلیتا ہوں کہ یہ آپ نے بے دھیانی میں لکھ دیا ہوگا قصدا آپ ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ہونگے اور یہ جملہ منتظمین کی نگاہ میں آنے سے رہ گیا ہوگا ۔
اس لیے آپ کو اس پر وضاحت پیش کرنے کا موقع دیتا ہوں اور اس کے بعد اس پر کچھ کہنے یا نہ کہنے کا فیصلہ کروں گا۔
جہاں تک آیات کی بات ہے تو
میں اس بات میں آپ سے متفق ہوں کہ آیت
[ARABIC]إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا ﴿٥٧﴾ [/ARABIC]
[AYAH]33:57[/AYAH] بلاشبہ جو لوگ اذیت دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو، لعنت بھیجی ہے ان پر اللہ نے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور تیار کررکھا ہے ان کے لیے رسوا کن عذاب۔
کی رو سے اللہ تعالٰی اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دینے والے پر اللہ تعالٰی دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتے ہیں
مگر آیت یہاں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ پہلے حصہ میں پیدا ہونے والوں دو سوالوں
ان ملعونین پر دنیا میں لعنت کس طرح ہے؟
اور ان پر آخرت لعنت کس طرح ہے؟
میں سے دوسرے ایک کا جواب دیتی ہے کہ
ان کیلیے آخرت میں لعنت، رسوا کن عذاب کی صورت میں ہے۔
پہلے سوال کا جواب آیت
[ARABIC]لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا ﴿٦٠﴾
[/ARABIC][AYAH]33:60[/AYAH] اگر نہ باز آئے منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ ہے اور وہ لوگ جو ہیجان انگیز افواہیں پھیلاتے ہیں مدینہ میں تو ضرور اٹھاکھڑا کریں گے ہم تمہیں ان کے خلاف (کاروائی کے لیے) پھر نہ رہیں گے وہ تمہارے ساتھ مدینہ میں مگر تھوڑے دن۔
[ARABIC]مَلْعُونِينَ ۖ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا ﴿٦١﴾ [/ARABIC]
[AYAH]33:61[/AYAH] لعنت بھیجی جائے گی ان پر (ہرطرف سے)، جہاں کہیں پائے جائیں گے، پکڑے جائیں گے اور قتل کیے جائیں گے بری طرح۔
میں دیا گیا۔
آپ نے کہا آیت
[ARABIC]وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا ﴿٥٨﴾[/ARABIC]
[AYAH]33:58[/AYAH] اور جو لوگ اذیت دیتے ہیں مومن مردوں اور مومن عورتوں کو (الزام لگاکر) ایسے (کاموں) کا جو نہیں کیے انہوں نے تو بے شک انہوں نے اٹھایا اپنے اوپر بوجھ بڑے بہتان کا اور کھلے گناہ کا۔
ام المومنین پر الزام و بہتان لگا کر، نعوذ باللہ ، اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دینے کے ضمن میں ہے۔
حالانکہ آیت مبارکہ میں ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو ان کے کسی قصور کے بغیر اذیت پہنچانے کا ذکر ہے!
جو یقینا اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچانے کی کوشش سے ہوتی ہے
اور اس کی ایک صورت آپ نے بیان کی
مگر خود اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم شان میں گستاخی کرکے اذیت پہنچانا پہلی صورت سے زیادہ قبیح اور برا ہے۔
اور یہ ایمان والے مردوں اور عورتوں کو زیادہ اذیت پہنچانے والا ہے تو اس کی سزا میں یہ بھی شامل ہونگے۔
پھر اس آیت میں بھی دو بوجھوں کا ذکر ہے
ایک بہتان کا اور دوسرا گناہ کا
پہلے کا تعلق دنیا سے ہے اور دوسرے کا آخرت سے معلوم ہوا اس کی سزا دنیا اور آخرت میں ہوگی۔
اگلی آیت
[ARABIC]يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا ﴿٥٩﴾[/ARABIC]
[AYAH]33:59[/AYAH] اے نبی کہو! اپنی بیویوں سے اور اپنی بیٹیوں سے اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہ وہ لٹکالیا کریں اپنے اوپر اپنی چادر کے پَلّو۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اور ہے اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا۔
میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کو حکم ہے کہ وہ اپنی ازواج اور بنات مطہرات رضی اللہ تعالٰی عنھن اور سب ایمان والوں کی عورتوں سے کہہ دیں کہ ان ملعونین کے ایذاء سے بچاؤ کی تدبیر کرلیں
آیت میں ایک اصول سمجھایا کہ ایمان والے ایسے انتظامات کرلیں کہ ان ملعونین کو ایذاء کا موقع ہی نہ ملے
اور اس سے پہلے جو ان انتظامات میں کوتاہی ہوئی اسے اللہ معاف فرمادیں گے۔
ایمان والوں کے بعد آیت
[ARABIC]لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا ﴿٦٠﴾
[/ARABIC][AYAH]33:60[/AYAH] اگر نہ باز آئے منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ ہے اور وہ لوگ جو ہیجان انگیز افواہیں پھیلاتے ہیں مدینہ میں تو ضرور اٹھاکھڑا کریں گے ہم تمہیں ان کے خلاف (کاروائی کے لیے) پھر نہ رہیں گے وہ تمہارے ساتھ مدینہ میں مگر تھوڑے دن۔
میں ان ملعون منافقین اور جن کے دلوں میں اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ایمان والے مردوں اور عورتوں کو اذیت دینے کا مرض ہے اور جو ہیجان انگیز جھوٹی افواہیں پھیلاتے ہیں تنبیہ کی جارہی ہے اور ان کی دنیا میں سزا بیان کی جارہی ہے کہ وہ اب ان حرکات سے باز آجائیں اگر وہ اب بھی باز نہ آئے تو ہم آپ کو غلبہ دے کر انہیں مسلمانوں کے شہر مدینہ سے ذلیل کرکے ہابر نکال دیں گے اور یہ شہر میں بہت تھوڑا عرصہ ہی آپ کے ساتھ رہیں گے
اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلیے تسلی بھی ہے کہ آپ نے ان کی اذیتوں پر صبر کا حق ادا کردیا اب یہ مزید آپ کے ساتھ نہیں رہیں گے اور ہم انہیں دنیا میں سزا دیں گے۔
اگلی آیت
[ARABIC]مَلْعُونِينَ ۖ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا ﴿٦١﴾ [/ARABIC]
[AYAH]33:61[/AYAH] لعنت بھیجی جائے گی ان پر (ہرطرف سے)، جہاں کہیں پائے جائیں گے، پکڑے جائیں گے اور قتل کیے جائیں گے بری طرح۔
میں ان کیلیے عام دنیاوی سزا کا بیان ہے کہ یہ ملعون جو اللہ کی رحمت سے بہت دور ہیں جہاں کہیں بھی پائے گئے، پکڑے جائیں گے اور بری طرح قتل کیے جائیں گے۔
اس اذیت کی دنیا میں سزا آپ نے خود تسلیم کی ہے اور اسے جنگ و قتال کے ساتھ بیان کیا ہے
آخری آیت میں صاف ذکر ہے کہ انہیں قتل کیا جائے گا جہاں کہیں پائے جائیں۔
اوپن برہان کے تقریبا سبھی اردو اور انگریزی مترجمین نے ترجمہ میں قتل اور اس کے ہم معنٰی الفاظ
killed killingly، slain، slaughter، murdered، put to death، done away with for good استعمال کیے ہیں۔
اور ساتھ ہی یہ بات بھی غور طلب ہے کہ [AYAH]33:57[/AYAH] میں اللہ تعالٰی نے لعنت اور سزا کی نسبت اپنا نام لیکر اپنی طرف اور [AYAH]33:60[/AYAH] میں جمع متکلم کا صیغہ لاکر اپنی طرف جبکہ [AYAH]33:61[/AYAH] میں مجہول کا صیغہ لاکر غائب کی طرف نسبت کی ہے۔
لہذا قران کی واضح آیات سے ثابت ہے کہ ایسے ملزم کو اسلامی قانون کے مطابق قتل کی سزا ہوگی۔
اب یہ سزا اسلامی عدالت دے گی اسے ثابت کرنے کی ضرورت ہے
آیات مبارکہ کو ایک ساتھ ایک بار پھر دیکھیے:
[ARABIC]إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا ﴿٥٧﴾ [/ARABIC]
[AYAH]33:57[/AYAH] بلاشبہ جو لوگ اذیت دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو، لعنت بھیجی ہے ان پر اللہ نے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور تیار کررکھا ہے ان کے لیے رسوا کن عذاب۔
[ARABIC]وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا ﴿٥٨﴾[/ARABIC]
[AYAH]33:58[/AYAH] اور جو لوگ اذیت دیتے ہیں مومن مردوں اور مومن عورتوں کو (الزام لگاکر) ایسے (کاموں) کا جو نہیں کیے انہوں نے تو بے شک انہوں نے اٹھایا اپنے اوپر بوجھ بڑے بہتان کا اور کھلے گناہ کا۔
[ARABIC]يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا ﴿٥٩﴾[/ARABIC]
[AYAH]33:59[/AYAH] اے نبی کہو! اپنی بیویوں سے اور اپنی بیٹیوں سے اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہ وہ لٹکالیا کریں اپنے اوپر اپنی چادر کے پَلّو۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اور ہے اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا۔
[ARABIC]لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا ﴿٦٠﴾
[/ARABIC][AYAH]33:60[/AYAH] اگر نہ باز آئے منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ ہے اور وہ لوگ جو ہیجان انگیز افواہیں پھیلاتے ہیں مدینہ میں تو ضرور اٹھاکھڑا کریں گے ہم تمہیں ان کے خلاف (کاروائی کے لیے) پھر نہ رہیں گے وہ تمہارے ساتھ مدینہ میں مگر تھوڑے دن۔
[ARABIC]مَلْعُونِينَ ۖ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا ﴿٦١﴾ [/ARABIC]
[AYAH]33:61[/AYAH] لعنت بھیجی جائے گی ان پر (ہرطرف سے)، جہاں کہیں پائے جائیں گے، پکڑے جائیں گے اور قتل کیے جائیں گے بری طرح۔
یہ پوسٹ قران میں توہین رسالت پر قتل کی سزا کے متعلق ہے کیونکہ آپ نے اس کیلیے آیت مانگی تھی
نہ کہ ہندو لڑکے کے محض اس الزام کی بناء پر قتل کے متعلق